ہفتہ، 27 دسمبر، 2014

خواہش

مسافر ہوں، سفر ہے خواب میرا!
سفر ہی زندگی کی آرزو ہے!

مگر یہ تو پرانی گفتگو ہے ...

اور اب کچھ بات یوں ہے اے عزیزم!

سفر ہے دائروں کا مدتوں سے
میں گرتا، پڑتا، چلتا جا رہا ہوں

اذیت کے سفر میں اے عزیزم ...
میرا احوال یہ ہے اے عزیزم ....

کئی مدت سے گر کر تهک چکا ہوں!
روایت اب بدلنا چاہتا ہوں ...
میں بس اب تهک کے گرنا چاہتا ہوں ...

سنو! میں تم سے کہنا چاہتا ہوں
میں اب کچھ دیر سونا چاہتا ہوں

سید عاطف علی

بدھ، 17 دسمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - سانحۃ پشاور

پیاری ڈائریً!


تم شاید سمجھ رہی ہوگی کہ میں خود کو بڑا ادیب سمجھنے لگا ہوں اس لیئے لکھنا کم کردیا ہے۔ یا شاید تم نے سوچا ہوگا کہ چونکہ مجھے اس ڈائری کو لکھنے کے کوئی پیسے نہیں ملتے اس وجہ سے میں نے تم سے باتیں کرنا چھوڑ دی ہیں۔ مگر یقین جانو یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ تم شاید بھول بیٹھی ہو کہ میں قومیت کے اعتبار سے پاکستانی ہوں اور محض واقعات و سانحات پر چند لمحات کیلئے زندہ ہوتا ہوں ورنہ ہماری نیم مردہ زندگی تو اصحابِ کہف کی نیند کو پہنچنے لگی ہے۔ تو لکھنے کیلئے زندہ ہونا اور زندہ ہونے کیلئے کوئی سانحہ ضروری ہوتا ہے۔ سو آج ایک سانحہ سا ہوگیا ہے جس نے تمہارے زبان دراز کے مردہ جسم میں کچھ دیر کو روح پھونک دی ہے اور اس کچھ دیر کی مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے قلم اٹھایا اور تمہارے پاس آگیا۔


اب تم سوچ رہی ہوگی کہ اتنی لمبی تمہید کیوں؟ اور مجھے یقین ہے کہ تم یہ بھی جاننا چاہتی ہو کہ آج ایسا کیا ہوگیا ہے کہ میاں زبان دراز پھر ڈائری کھول کر بیٹھ گئےہیں؟ تو سنو! تم تو جانتی ہو کہ میں اب ایک مشہور آدمی ہوں اور مجھے دن رات لفافے موصول ہوتے رہتے ہیں۔ جی نہیں! میری مراد وہ مروجہ محاورے والے لفافے نہیں بلکہ خطوط کے لفافے ہیں۔ کبھی کوئی اپنی ناکام محبت کی داستان لکھوانا چاہ رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی کو اپنی ڈرامائی زندگی پر ٹیلیویژن کا ڈرامہ لکھوانا ہوتا ہے۔ اب تو میں نے ایک مستقل مسودہ تیار کر لیا ہے اور جوابی خط کے طور پر وہی مسودہ نقل کرکے بھیج دیتا ہوں۔ آج مگر مجھے ایک بہت عجیب سا خط ملا ہے۔ یہ نہ تو ناکام محبت کی داستان ہے نہ تباہ حال جوانی کا احوال۔ یہ خط کسی بچے نے لکھ بھیجا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ عالمِ بالا میں موجود ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہا کہ اس خط کا کیا جواب دوں۔ پھر سوچا کہ تمہیں بھی یہ خط سنائوں، ہو سکتا ہے تم کوئی جواب تجویز کردو۔ سو یہ خط ملاحظہ کرو اور میری مدد کرو۔


پیارے انکل


السلام علیکم! مجھے پتہ ہے کہ آپ اچھے حال میں ہیں اور میں اللہ میاں سے دعا کرتا ہوں کہ آپ سدا اچھے حال میں ہی رہیں۔ میرا نام ۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔ مگر مجھے یہ یاد ہے کہ آج صبح تک میرا بہت اچھا سا نام ہوا کرتا تھا۔ وہ اچھا سا نام کیا تھا مجھے یاد نہیں، ہاں کل کے اخبار میں جب فہرست چھپے گی تو میں اس میں سے دیکھ کر آپ کو ضرور بتائوں گا۔ اللہ کا پکا والا وعدہ!


آپ پریشان ہو رہے ہونگے کہ میں نے آپ کو خط کیوں لکھا ہے؟ جب آپ مجھے جانتے تک نہیں ہیں اور آپ کو کیا، خود مجھے بھی اپنا نام تک یاد نہیں، تو میں آپ سے کیوں مخاطب ہوں؟ تو انکل بات یہ ہے کہ مجھے ابھی قائد اعظم انکل ملے تھے ۔ وہ ہم سب بچوں کو یہاں لینے کیلئے آئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اپنے امی ابو تک کچھ باتیں پہنچانا چاہتا ہوں تو انہوں نے مجھے آپ کا پتہ بتا دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بھی پہلے آپ کو خطوط لکھتے رہے ہیں۔ اور آپ کی تحاریر تو اخبار میں بھی چھپتی ہیں، تو میں نے سوچا کہ میں آپ کو خط لکھوں تو شاید آپ میرا پیغام اخبار میں چھاپ دیں اور میرے امی ابو تک میرا پیغام پہنچ جائے۔ مجھے امید ہے آپ میرے لیئے یہ کام کر دیں گے۔ کرٰیں گے نا؟


افوہ! میں بھی کن باتوں میں لگ گیا۔ آپ کے سوالات ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں اور میں اپنی فرمائشیں لیکر بیٹھ گیا ہوں۔ مگر میں نے آج تک کسی کو خط نہیں لکھا نا ۔۔۔ شاید اس لیئے مجھے صحیح سے خط لکھنا بھی نہیں آتا۔ اردو کے ٹیچر نے اگر یہ خط دیکھ لیا تو بہت غصہ ہوں گے۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ انسان اپنی تحریر اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ اور میں آپ کو ایک مزے کی بات بتائوں؟ مجھے گفتار کا مطلب ہی نہیں پتہ ۔۔۔۔ مگر آپ یہ بات اردو کے ٹیچر کو نہیں بتائیے گا۔ میں ہمیشہ ان کی بات سن کر ایسے سر ہلاتا تھا جیسے ساری بات سمجھ میں آگئی ہو۔ انہیں پتہ چلے گا کہ اتنے عرصے سے میں انہیں الو بنا رہا تھا تو وہ بہت خفا ہوں گے۔


تو انکل میں آپ کو بتارہا تھا کہ میرا نام ۔۔۔۔ مگر مجھے تو اپنا نام یاد ہی نہیں ہے؟ مجھے تو بس یہ یاد ہے کہ میں آج اپنے اسکول میں تھا اور کلاس میں دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر لات پڑی اور دو انکل کلاس میں گھس آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ پھر انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس کے فوراُ بعد مجھے ایسا لگا کہ کوئی کھولتی ہوئی چیز میرے پیٹ کو پھاڑتی ہوئی میرے جسم میں گھس گئی۔ مجھے لگا کہ جیسے میرے پورے جسم میں آگ لگ گئی ہو۔ مگر میں رویا نہیں۔ اگر آپ میرا خط اخبار میں چھاپیں تو امی کو بتا دیجئے گا کہ میں ان کا بہادر بیٹا تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ بہادر بچے چوٹ لگنے پر روتے نہیں ہیں۔ تو میں کیسے رو سکتا تھا؟ میں تو امی کا بہادر بیٹا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں بہت زور سے روئوں مگر میں چپ رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے جسم سے بہت سارا خون بہہ رہا تھا۔ میرا سارا یونیفارم بھی سرخ ہوگیا تھا۔ میں نے ہاتھ سے یونیفارم صاف کرنے کی کوشش کی مگر وہ صاف ہی نہیں ہوا۔ امی کو بولیئے گا کہ وہ غصہ نہ ہوں۔ میں اللہ میاں سے کہوں گا کہ وہ ہمارے گھر کے حالات بہتر کردیں اور امی گھر میں کام کرنے والی کوئی مددگار رکھ لیں۔ پھر امی کو میرا یونیفارم دھونے کیلئے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ نیلے نہیں کرنے پڑیں گے۔ تو انکل پھر آپ کو پتہ ہے کیا ہوا؟ مگر یہ تو مجھے بھی نہیں یاد کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اس شدید ترین اذیت کے بعد میں بہت تھک گیا تھا اس لیئے میں وہیں سو گیا۔ آنکھ کھلی تو ہم سب کلاس کے بچے نئے کپڑے پہن کر یہاں موجود تھے۔ بہت سارے پیارے پیارے لوگ ہم سے ملنے کیلئے بھی آرہے تھے۔ میں نے یہیں قائد اعظم کو بھی دیکھا۔ تصویر میں تو وہ اتنے دبلے پتلے دکھتے ہیں مگر یہاں تو وہ اتنے صحت مند ہیں۔ پہلے تو میں انہیں پہچانا ہی نہیں۔ پھر مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ یہ قائد اعظم محمد علی جناح ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہے انکل؟ ہم اسکول میں سنتے تھے قائداعظم بہت بہادر انسان تھے مگر یہاں آکر میں نے خود دیکھا، قائد اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ شیم شیم!!


ابو کہتے تھے کہ بڑوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے اس لیئے میں نے ان کے سامنے کچھ نہیں کہا۔ بعد میں ہم سارے دوست مل کر اتنا ہنسے ان پر۔ بیچارے قائد اعظم۔ ارے ابو سے یاد آیا مجھے ابو کو بھی سلام بولنا تھا۔ آپ میرے ابو کو جانتے ہیں؟ مگر آپ میرے ابو کو کیسے جان سکتے ہیں؟ میرے ابو کو تو صرف وہی جان سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو مٹی کے نیچے دفن ہوتے دیکھا ہو۔ مگر یہ تو بڑوں والی بات ہوگئی۔ ابو کہتے تھے بچوں کو اپنی عمر کے حساب سے باتیں کرنی چاہیئیں۔ سوری ابو! آپ کی اگر میرے ابو سے بات ہو تو انہیں یہ مت بتائیے گا کہ میرے پیٹ میں گولی لگی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ایک دفعہ میں سیڑھیوں سے گر کر اپنا سر پھاڑ بیٹھا تھا۔ اس وقت گھر میں گاڑی نہیں تھی تو ابو مجھے پیدل ہی اٹھا کر چار کلومیٹر دور ہسپتال بھاگے تھے۔ بغیر رکے۔ میرے ابو بہت اچھے ایتھلیٹ ہیں۔ وہ روزانہ صبح دوڑنے باغ میں جاتے ہیں اور بغیر ہانپے میدان کے کئی چکر لگا لیتے ہیں۔ مجھے اتنی ہنسی آتی تھی جب وہ کہتے تھے کہ میں ان کا سہارا ہوں۔ بھلا بتائیں، ابو کو سہارے کی کیا ضرورت؟ وہ تو خود اتنے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اس دن جب میرا سر پھٹا تھا تو ابو نے دفتر سے چھٹی لے لی تھی۔ جب تک میں بستر پر رہا، ابو میری چارپائی کے سرہانے لگے بیٹھے رہے۔ انہیں میری تکلیف کا پتہ چلے گا تو وہ بہت اداس ہوں گے۔ میں ابو سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ میری وجہ سے اداس ہوں۔ آپ نہیں بتائیں گے نا؟؟


اور آخری بات مجھے آپ سے کرنی ہے۔ نجانے کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ جب میرے جانے کی خبر ٹیلیویژن پر آئے گی تو ملک بھر میں کہرام مچ جائے گا۔ سب لوگ مجھے مارنے والوں کو گالیاں دیں گے۔ احتجاج کیا جائے گا۔ میری یاد میں شمعیں روشن ہوں گی۔ آپ بھی ایسے ہی کسی پروگرام میں شریک ہوکر اپنا فرض ادا کریں گے اور اس کے بعد اگلے بچے کے مرنے تک مکمل خاموشی پھیل جائے گی۔ پیارے انکل! میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے نہیں جانتے! مگر نجانے کیوں میرا دل کر رہا ہے کہ میں آپ سے ایک ننھی سی فرمائش کردوں۔ کیا آپ میرے لیئے اتنا کر سکتے ہیں کہ کل خواہ کسی احتجاجی جلوس میں جائیں یا نہ جائیں، مگر مجھ اور میرے جیسے ایک سو تیس بچوں کیلئے ایک کام کردیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا دشمن اپنے ارادے میں کامیاب ہو! اس نے صرف میری جان نہیں لی، اس نے میرے پیارے پاکستان کو ایک سو تیس ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدانوں، فنکاروں، کھلاڑیوں سے محروم کردیا ہے جنہوں نے آگے چل کر پاکستان کا نام روشن کرنا تھا۔ کیا آپ کل کے احتجاج کیلئے استعمال ہونے والا پیٹرول، پلے کارڈ، موم بتی، وغیرہ کے پیسے بچا کر، پورے پاکستان میں کہیں بھی، کسی بھی ایک، صرف ایک بچے کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ اٹھا سکتے ہیں؟ پلیز؟ پلیز؟ پلیز؟


والسلام


پیاری ڈائری! اب تم ہی بتائو کہ میں کیا جواب دوں؟




[caption id="attachment_622" align="aligncenter" width="492"]They went to school and never came back They went to school and never came back[/caption]

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

کراچی نامہ

پیارے بچوں! تفریق کے جس سفر پر ہم لوگ مسلسل گامزن ہیں اس کے لازمی نتیجے میں ایک دن مطالعہ پاکستان ایک اختیاری مضمون ہوجائے گا جبکہ مطالعۃِ صوبہ اور پھر مطالعہ شہر لازمی قرار دیئے جائیں گے۔ مستقبل کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے ابھی سے مطالعہ کراچی پر یہ مضمون لکھ مارا ہے۔ اگر حالات اس ہی نہج پر چلتے رہے تو بہت جلد ہم مطالعہ کلفٹن، مطالعہ ناظم آباد اور مطالعہ گلشن و جوہر بھی آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے۔ فی الحال مطالعہ کراچی پڑھیئے اور پڑھنے کے بعد جو ملے اس کا سر دھنیئے۔


 تاریخ:


ویسے تو کراچی ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو ایک دن صرف تاریخ ہی کا حصہ رہ جائے گا مگر مطبوعہ تاریخ میں کراچی کا سب سے پہلے بیان سکندر اعظم کے حوالے سے آتا ہے جو ایک عظیم یونانی بادشاہ تھے اور کسی بھی عظیم بادشاہ کی طرح بلا کے لڑاکے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ آپ احباب کی سہولت کیلئے ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ یہ بیان ان ہی سکندرِ اعظم کا ہے جنہیں اردو میں الیگزینڈر دا گریٹ کہتے ہیں۔ نیز آپ لوگوں کی سہولت کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے آئندہ اگر کوئی آپ سے نئی نسل کے تشدد پسند ہونے کا شکوہ کرے تو انہیں یاد دلادیجئے گا کہ تاریخ انسانی کے کم و بیش تمام بڑے انسان وہی تھے جو نہایت غصیلے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ سو اگر نئی نسل بھی اجداد کے نقشِ قدم پر چل کر پچیس تیس ہزار انسانی جانیں لیکر تاریخ کے صفحات میں امر ہونا چاہتی ہے تو اس میں قصور ان بیچاروں کا نہیں بلکہ تاریخ دانوں کا ہے۔ مگر خیر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور فلسفے کی گفتگو محض چائے کے ہوٹل یا محلے کے چوباروں پر اچھی لگتی ہے۔ مصنفین کو فلسفے جیسی مکروہات، کتب میں نقل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سکندر اعظم کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ہم نہایت خوشی سے یہ بیان کرنا چاہیں گے کہ کراچی میں موجود منوڑہ کا جزیرہ ہزاروں سال پہلے سکندر اعظم کی میزبانی کا شرف بھی اٹھا چکا ہے۔ مگر اس زمانے میں چونکہ یہ شہر بلوچ آبادی کی اکثریت رکھتا تھا لہٰذا سکندر اعظم نے یہاں زیادہ عرصہ قیام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر کو اس وقت بھی یہاں سندھی آبادی ہوتی تو بیچارہ گھوڑوں اور خچروں کا سواری کے علاوہ بھی ایک اور استعمال سیکھ جاتا جس سے اس کے لشکر میں پھوٹ نہ پڑتی کہ سپاہیوں کو گھر کی اس حد تک یاد نہ ستاتی۔ مگر خیر، ہونی شدنی! سکندر اعظم نے منوڑہ سے کوچ کیا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے اور کھیوڑہ میں نمک کی کان دریافت کرنے کے بعد بابل چلے گئے اور مرکھپ گئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سکندر نے صرف نمک دریافت کیا تھا، اس نمک میں آئیوڈین ہم نے خود دریافت کیا ہے لہٰذا کھیوڑہ کی آئیوڈین ملے نمک کی کانیں اب پاکستانی قوم کی دریافت کہلانی چاہیئیں۔


بعض مورخین جو کراچی کے بچپن سے ہی ملٹی نیشنل ہونے سے جلتے آئے ہیں اور اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، نے یہ بھی لکھا ہے یہ شہر مائی کولاچی نے آباد کیا تھا جن کا تعلق پڑوسی ملک، معذرت، صوبے بلوچستان کے شہر مکران سے تھا۔ یہ بات مگر بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کراچی جیسے اردو دان شہر میں بھی کبھی چی ڑے کی صدائیں بلند ہوا کرتی ہوں گی۔ مگر بعض مورخین مائی کولاچی والے واقعے کی توجیح اس بات سے بھی پیش کرتے ہیں کہ اردو زبان میں پکوڑے کا لفظ بھی ان ہی بلوچوں سے مستعار لیا گیا تھا جو بیسن کو تل کر کھاتے تھے اور جب اسے تلنے میں دیر لگتی تو پکو ڑے پکو ڑے کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے اطمینان کیلئے یہ بات بہت ہے کہ مکران سے ہی سہی، مگر مائی کولاچی ہجرت کرکے اس شہر میں آئی تھیں اور اس حساب سے اس شہر کی بنیاد ایک مہاجر نے ہی رکھی تھی۔


تاریخ میں کراچی مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے جن میں سب سے مشہور، مغل راج، برٹش راج، پاکستانی حکومت اور پھر اس کے بعد باپ کا راج اور چوپٹ راج وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل کراچی باقی پاکستان کی طرح چوپٹ راج اور باپ کے راج والے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر یہ مضمون آپ اردو رسم الخط میں بذات خود پڑھ رہے ہیں تو اس بارے میں مزید بیان کرنا صرف آپ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا جبکہ اگر یہ مضمون آپ اپنے کسی بوڑھے ملازم سے پڑھوا کر سن رہے ہیں تو تسلی رکھیئے اور باپ کے راج اور چوپٹ راج کے فیوض و برکات دونو ہاتھوں سے سمیٹتے رہیئے۔


جغرافیہ:


کراچی کے مغرب میں سمندر، شمال میں پہاڑیاں (کٹی اور ثابت دونوں)، جنوب میں بے تحاشہ آبادی، اور مشرق میں بحریہ ٹائون واقع ہے۔ کراچی بنیادی طور پر ایک میدانی علاقہ ہے اور اس شہر کی زمین اور خواتین دونوں ساخت کے حساب سے ہموار واقع ہوئی ہیں۔ کراچی کے ساتھ بحیرہ عرب کا ایک وسیع ساحل موجود ہے جو شادی زدہ جوڑوں کی سہولت کیلئے رکھا گیا ہے۔ کراچی کی نوے فیصد آبادی شادی کے فوراٗ بعد رومان کو بڑھانے، جبکہ شادی کے دوسرے سال کے بعد ہر سال شریک حیات کو ڈبونے کی کوشش کرنے کیلئے ان ہی ساحلوں کا رخ کرتی ہے۔


موسم:


کراچی ایک کاسموپولیٹن اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہاں کی عوام کسی بھی قسم کی لوکل چیز پسند نہیں کرتی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بائیس ملین کی آبادی کے اس شہر پر حکومت کرنے کیلئے وہ شخص امپورٹ کیا جاتا ہے جسے کراچی کے باہر کے بیس ملین رائے دہندگان نے چنا ہوتا ہے۔ امپورٹد چیزوں سے یہ محبت صرف کارِ سرکار تک محدود نہیں اور ہر ضرورتِ زندگی کی طرح کراچی میں موسم بھی دوسرے شہروں سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ کراچی کے موسم کے بارے میں مزید معلومات کیلئے وکی پیڈیا پر جاکر کوئٹہ کے موسم کے بارے میں پڑھ لیجئے۔


معیشت:


کراچی خطے کا سب سے بڑا معاشی حب ہے۔ مملکتِ پاکستان کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ستر وہ محاورے والا مبالغہ آمیز ستر نہیں ہے بلکہ قرار واقعی ملک کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ستر فی صد کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر چوہدری اینڈ سنز جن کے کھیت کھلیان سے لیکر گھربار تک ملک کے دوسرے حصوں میں واقع ہیں وہ بھی اپنا سیلز آفس کراچی میں ہی کھولتے اور اہلیانِ کراچی کے خبط عظمت میں اضافہ کرتے ہیں کہ ملک کا ستر فی صد ریونیو وہ پیدا کرتے ہیں۔


ایسا نہیں کہ کراچی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی۔ کراچی میں تیار ہونے والی اشیاء میں سب سے مشہور چیز سلیم کا گٹکا ہے جو اگر برآمدگی کی اجازت پا جائے تو اکیلا ہی اربوں ڈالرز زرِمبادلہ کا باعث بنے۔ معیشت کے باب میں آخری بیان یہ کہ کراچی میں ہر دوسرا شخص پان بناتا ہے۔ اس پان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کیلئے دکان کا ہونا ضروری نہیں، اکثر پان فروش بغیر دکان اور بغیر پان کے بھی آپ کو چونا لگا جائیں گے۔


زبان/اقوام:


کراچی ایک کثیر قومی شہر ہے جس میں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی، ہزارہ، دہلوی، بہاری، لکھنوی، امروہوی، حیدرآبادی، ملیح آبادی، بدایونی، میرٹھی اور چند دیگر اقوام آباد ہیں۔ رابطے کی سب سے بڑی زبان اردو سے ملتی جلتی ہے جو پورے شہر (علاوہ افغان بستی جہاں صرف عربی اور پشتو بولی جاتی ہے) میں سمجھی جاتی ہے۔


مشہور مقامات:


کراچی شہر کے سب سے مشہور مقامات میں، پرفیوم چوک، جناح گرائونڈ، نشتر پارک اور باغِ جناح واقع ہیں۔ کسی زمانے میں قائد اعظم کا مزار اور پاکستان میوزیم بھی مشہور مقامات ہوا کرتے تھے مگر حالیہ برسوں میں یہ صرف غیر شادی شدہ جوڑوں اور حسرت کے مارے بوڑھوں میں ہی مشہور رہ گئے ہیں۔


تفریحی مقامات:


کراچی میں ہر مقام تفریحی مقام سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں اور کسی انسان کو لٹتے ہوئے دیکھ کر جی بھر کر محظوظ ہوں، کوئی برا نہیں مانے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس دن آپ کی لٹنے کی باری ہو اس دن باقی اہلیانِ شہر بھی آپ سے اس ہی وسعتِ قلبی کی امید رکھیں گے۔


شہرِ قائد:


عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، سٹی بائے دا سی، یہ سارے وہ القابات ہیں جو اس عظیم شہر کو حاصل ہیں۔ مگر ایک خطاب ایسا بھی ہے جو ان تمام خطابات پر بھاری ہے، شہرِ قائد۔ گو اب یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس شہرِ قائد میں قائد سے مراد کون ہے۔ جی ہاں! اصل قائد وہی ہیں، باقی باتیں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مشہور کی گئی ہیں۔


پیارے بچوں! مجھے یقین ہے کہ اس مختصر کلام سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی ہوگی مگر یاد رکھیئے کہ اس مضمون کو لکھنے کے مجھے کوئی پیسے نہیں ملتے لہٰذا تھوڑے کو غنیمت جانیں بلکہ احسان مانیں! فرصت کے ساتھ اس مضمون کا اگلا حصہ پھر کبھی لکھا جائے گا جس میں کراچی کے دیگر پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ تب تک کیلئے اجازت۔

جمعرات، 20 نومبر، 2014

مہاجر

بہت سال پرانی  گفتگو آج پھر میرے دماغ میں گونج رہی ہے۔ سامنے ٹیلیویژن پر ایم کیو ایم کے لیڈران خورشید شاہ پر غصہ ہورہے ہیں  اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ خورشید شاہ نے کون سی غلط بات کردی ہے؟ اس ملک میں مہاجر ہونا کیا واقعی گالی نہیں ہے؟


"اوئے گندے مہاجر!" زندگی میں پہلی مرتبہ جب یہ جملہ سنا تو اس وقت میری عمر کوئی سات یا آٹھ سال رہی ہوگی۔  میں اس وقت گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول میں درجہ سوئم   کا ایک طالب علم تھا اور یہ جملہ سنانے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے سندھی کے نئے استاد تھے۔  کلاس میں ان کا پہلا دن تھا اور پہلے ہی دن انہوں نے ہمیں ایک نئی اور ایسی شناخت عطا کردی تھی جس نے ساری عمر ہمارا پیچھا کرنا تھا۔ خیال رہے کہ یہ اسکول لاڑکانہ یا دادو کا نہیں بلکہ عروس البلاد کراچی میں واقع تھا جہاں میرے جیسے "گندے مہاجروں" کی اکثریت آج بھی مقیم ہے۔


اس وقت تو ہمیں نہیں پتہ تھا کہ مہاجر اور فرزندِ زمین کون ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہوگیا تھا کہ  یہ مہاجر اسکول کے باہر دیوار پر جئے مہاجر اور اسکول کے اندر سندھی کی کلاس میں گندے مہاجر ہوتا ہے۔ لاعلمی واقعی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ جب تک ہمیں مہاجر کا مطلب نہیں پتہ تھا ہم اس بات کا برا بھی نہیں مناتے تھے۔ پھر ایک دن خدا جانے کس دھن میں ہم اپنے دوست وقاص بھائی سے پوچھ بیٹھے کہ یہ مہاجر کیا  ہوتاہے؟ اور اس کے معنی میں ایسا کون سا لطیفہ چھپا ہے جسے سن کر پوری کلاس اس وقت ہنس پڑتی ہے جب ہمیں گندے مہاجر کہا جا رہا ہوتا ہے؟ وقاص بھائی عمر میں ہم سے محض ایک سال بڑے تھے  مگر یو پی کی تہذیب میں ایک سال بڑا بھی بڑا ہی مانا جاتا ہے۔ سو  وقاص بھائی کو بڑا مان کر ہم نے مدعا ان کے سامنے رکھ دیا کہ ہمیں لفظ مہاجر کی معنیٰ بتائے جائیں۔ وقاص بھائی نے  "چوکو فور " کا ریپر پھاڑتے ہوئے کمال شفقت سے ہماری جانب دیکھا اور بزرگانہ انداز میں گویا ہوئے کہ " ایم کیو ایم " کا کارکن مہاجر کہلاتا ہے۔ ہم نے وقاص بھائی  کی بات سن کر سکون کا سانس لیا اور ہنسی خوشی گھر لوٹ آئے کہ ہمارے والد تو جماعت اسلامی کے کارکن تھے، ہم کیسے مہاجر ہو سکتے ہیں؟


اگلے دن سندھی کی کلاس میں ہم مسلسل خوشی سے پھدک رہے تھے۔ سندھی کے استاد نے اس تبدیلی کو محسوس کرلیا اور ہمیں اپنے پاس بلا کر محبت سے ہمارا کان تھاما اور پوری طاقت سے مروڑتے ہوئے گویا ہوئے،  چھا گالھ آں؟  کیوں پھدک رہا ہے؟ ہم نے تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹیچر کو بتایا کہ انہیں غلظ فہمی ہوئی تھی کہ ہم مہاجر ہیں۔ دراصل ہمارے والد تو جماعت اسلامی کے ایک سرگرم کارکن ہیں اور ہمارا ایم کیو ایم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ٹیچر نے ہمیں اوپر سے نیچے تک گھور کر دیکھا اور کان کے نیچے ایک جھانپڑ رسید کرتے ہوئے بولے، جماعتی ہو یا  کوئی اور ، ہے تو گندا مہاجر ہی نا؟  چل سیٹ پر بیٹھ! ہم کان اور گدی  سہلاتے ہوئے واپس  سیٹ پر آگئے اوردل ہی دل میں وقاص بھائی کو جتنی بھی گالیاں یاد تھیں سنا ڈالیں۔


 گھر آنے کے بعد بھی میں اداس رہا اور کافی دیر بھٹکی ہوئی آتما کی طرح گھر کے اندر ہی گھومتا رہا۔ نانا ابا  گھر آئے ہوئے تھے اور میری اس بےچینی کو دیکھ رہے تھے۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے اپنے پاس بلالیا اور اس بے چینی کی وجہ پوچھی۔ پہلے تو میں ہچکچایا مگر پھر پورا ماجرا ان کے سامنے رکھ دیا۔ نانا ابا نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولے، تو عاطف میاں! آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مہاجر کون ہوتا ہے؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ نانا ابا نے بتایا کہ کسی بھی مقصد سے اپنا وطن چھوڑ کر کسی اورجگہ منتقل ہونے والے کو مہاجر کہتے ہیں۔ میں ہونقوں کی طرح نانا ابا کی شکل دیکھنے لگا۔ نانا ابا کی بتائی ہوئی تعریف کی رو سے مہاجر ہونے میں کوئی قابلِ تضحیک پہلو نہیں تھا جبکہ ہماری کلاس میں ہر بار اس لفظ کی پکار پر کلاس کے اکثریت میں موجود بچے ایک بلند قہقہہ لگاتے تھے۔  پھر میں نے سوچا کہ شاید لطیفہ اس اچھے اور گندے مہاجر میں چھپا ہو، لہٰذا میں نے نانا ابا سے اچھے مہاجر اور گندے مہاجر کا فرق پوچھ لیا۔نانا ابا میرے اس سوال پر کچھ کھسیانے سے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ اس سوال کا جواب تو میرے پاس نہیں مگر تم کہو تو ایک کہانی تمہیں ضرور سنا سکتا ہوں۔


میرا اس وقت کہانی سننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر نانا ابا بڑے تھے اور آپا کہتی تھیں کہ بڑوں کی ہر بات ماننی چاہیئے سو میں نانا ابا کو انکار نہیں کرسکا۔ نانا ابا نے بتایا کہ بیٹا کچھ لوگ تھے جو ہندوستان نامی ایک ملک میں رہا کرتے تھے۔ ہندوستان پر اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی مگر  ہندوستانی یہ چاہتے تھے کہ انگریز ان کا ملک چھوڑ کر واپس انگلستان چلے جائیں۔ ہندوستان کے مسلمان بھی اس جدوجہد میں شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ اگر انگریز چلے گئے اور اکثریتی آبادی کی بنیاد پر اقتدار ہنود کے ہاتھ آگیا تو وہ مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیں گے۔  اس ہی خیال سے ہندوستان کے مسلمانوں نے "تقسیم کرو اور چھوڑو" کا نعرہ اپنایا اور ایک علیحدہ مسلم مملکت کی مانگ کردی۔


مسلمانوں کا خلوص رنگ لایا اور سن سینتالیس میں پاکستان وجود میں آگیا۔ بہت سارے مسلمان جو ہندوستان کے ان علاقوں میں مقیم تھے جو پاکستان کا حصہ نہیں بننا تھے، وہ بھی اس جدوجہد میں شامل تھے۔ کوئی ان مسلمانوں سے جب پوچھتا کہ پاکستان بن بھی جائے تو تمہارا کیا مفاد؟ تم نے تو ہندوستان میں ہی رہنا ہے! تو وہ جوابا صرف یہی کہتے کہ کم از کم ان مسلمانوں کو تو عزت سے جینے کی آزادی مل جائے جو مجوزہ پاکستان میں مقیم ہیں۔


ان دیوانوں کی بےلوث محنت اور قائد اعظمؒ کی شاندار قیادت سے ہم نے یہ آزاد وطن حاصل کرلیا۔  الگ وطن حاصل کرنے کے بعد بھی اس ملک میں بےشمار مسائل تھے۔ حکومت کہنے کو قائم ہوگئی تھی مگر اس حکومت کو چلانے کیلئے تجربہ کار لوگوں کا فقدان تھا۔ قائد اعظم ؒ نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں سے اپیل کی کہ آئیں اور نئے ملک کا انتظام چلانے میں مددگار بنیں۔ قائد کی اس پکار پر ہندوستان کے طول و عرض میں موجود مسلمانوں نے لبیک کہا اور اپنے مکان و کاروبار چھوڑ کر اس نئے ملک کے دست و بازو بننے پاکستان آگئے۔ ہجرت کے اس سفر میں کتنوں کے گلے کٹے، کتنوں کی عصمتیں پامال ہوئیں، کتنے اپنے پیاروں سے بچھڑے۔ آج تک اس کے درست اعداد وشمار سامنے نہیں آسکے۔ مگر یہ تعداد بلا مبالغہ بھی لاکھوں میں تھی۔


میں علیگڑھ یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا۔  علیگڑھ میں ہی ایک چھوٹی سی زمین تھی ہماری اور اس کے علاوہ دلی میں ایک گھر تھا۔ میں دلی میں ہی نوکری کرتا تھا جب بٹوارے کا اعلان ہوا۔ میں نے ضروری سامان ساتھ لیا اور تمہاری نانی، ماں، اور بڑی خالہ کے ساتھ پاکستان کیلئے نکل پڑا۔ زمین اور گھر میں نے اللہ کے حوالے کردیئے تھے کہ ان  چیزوں کو بیچنے کیلئے رکنا پڑتا اور میں پہلی فرصت میں پاکستان پہنچنا چاہتا تھا۔ لٹتے ، مرتے، کٹتے جب ہم لاہور پہنچے تو مکان ، زمین، نقدی کے ساتھ ساتھ ہم تمہاری بڑی خالہ عصمت کو بھی کھو چکے تھے۔ ٹرین پر بلوائیوں نے حملہ کیا تھا اور اس بھگدڑ میں خداجانے عصمت کا ہاتھ کب تمہاری نانی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔  نانا ابا کی آنکھوں سے آنسو مسلسل رواں تھے اور وہ  کہانی سناتے سناتے خود ماضی میں پہنچ گئے تھے۔ میں نانا ابا کی کہانی سن رہا تھا اور چشم تصور سے ایک پانچ سال کی بچی کو لاشوں کے ڈھیر میں اپنے ماں باپ کو ڈھونڈتے دیکھ رہا تھا۔ پتہ نہیں کب اور کیسے میری بھی آنکھ سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔


نانا ابا نے میرے آنسو پونچھے اور بولے، جب لاہور پہنچے تو پتہ چلا کہ دارالخلافہ کراچی ہے اور پڑھی لکھی افرادی قوت کی سب سے زیادہ ضرورت وہیں ہے۔ ہم نے بچپن سے لاہور کے قصے سن رکھے تھے اور ہمارے لیئے لاہور ہی بڑا شہر تھا مگر یہاں آکر پتہ چلا کہ ہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ابھی ہمیں کراچی پہنچنا ہے۔ کراچی کیلئے نکلنے سے پہلے کچھ دن والٹن کیمپ میں رک کر عصمت کا انتظار کیا مگر جب کافی دن تک کوئی خبر نہین آئی تو ہم نے خود کو سمجھانے کیلئے اس کو مردہ تصور کر لیا۔ آزاد وطن اتنے آرام سے تو نہیں ملتےنا  بیٹا؟ وہ اور ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جو صبح سو کر اٹھیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک آزاد وطن کا حصہ ہیں۔ ان کے گھروں کو آگ نہیں لگائی جاتی۔ ان کی بہن بیٹیوں کی ان کے سامنے عزتیں نہیں لوٹی جاتیں۔ ہم ایسے خوش نصیب نہیں تھے بیٹا، ہمیں آزاد وطن کی قیمت چکانی تھی سو ہم نے عصمت کو اس آزاد وطن کی قیمت سمجھ کر صبر کرلیا۔


عصمت پر فاتحہ پڑھنے کے بعد لاہور میں رکنے کا جواز نہیں بنتا تھا سو ہم وہاں سے کراچی کیلئے چل پڑے۔ راستے میں بہت سے لوگوں  سے ملاقات ہوئی اور ہر کسی نے یہی مشورہ دیا کہ کراچی پہنچ جائو۔ کراچی پہنچ کر پتہ چلا کہ کراچی اس لیئے بھیجا جا رہا تھا کہ اس کے آگے سمندر تھا۔ اگر اس سے آگے بھی کوئی شہر ہوتا تو یہ لوگ ہمیں وہاں تک پہنچا دیتے۔ کراچی جو تم آج دیکھتے ہو اس وقت ایسا نہیں تھا۔  اس وقت یہ جنگل ہوا کرتا تھا۔ پھر ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں نے اس شہر کو بسانا شروع کردیا۔  اس شہر کو وہ شہر بنایا جسے تم آج دیکھتے ہو۔  جو غریب کی ماں کہلاتا ہے۔ جس کے دروازے ہر نئے آنے والے کیلئے کھلے ہیں۔ وقت گزرتا گیا اور یہ ملک اور یہ شہر ترقی کرتا گیا۔ اس شہر کے ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی ترقی کرتے گئے۔ مگر  پھر اس ترقی کے سفر کو کسی کی نظر لگ گئی۔ سب کچھ چھوڑ کر اس ملک میں آنے اور اس ملک کو اپنانے کے برسوسوں بعد ایک دن ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ ایک بہت بڑا ہاتھ ہوگیا ہے۔ ہم سے ہمارا شہر  چھین لیا گیا۔ ہمیں یہ کہا گیا کہ چونکہ سندھ کے باقی شہروں میں رہنے والے نہیں چاہتے کہ کراچی میں  اقتدار نچلی سطح پر تقسیم ہو اس لیئے ہم کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروا سکتے۔ چونکہ باقی شہر ترقی کے معاملے میں پیچھے رہ گئے ہیں لہٰذا کراچی کو بھی ترقی کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ چونکہ کراچی کی بدقسمتی ہے کہ وہ صوبہ سندھ کا حصہ ہے لہٰذا ہم عددی اکثریت کی بنا پر کراچی کے باگ ڈور ایسے افراد کے حوالے کرتے رہیں گے جو کراچی صرف گھومنے کیلئے آتے ہیں۔


بات صرف وسائل و ترقی کی ہوتی تو خیر تھی،مگر ہمارے ساتھ جو دوسرا ہاتھ ہوا وہ بہت شدید تھا۔ میرے بچے! ہم سے ہماری شناخت چھین لی گئی۔ ہندوستان سے آنے والے وہ لوگ جو لاہور رک گئے تھے عقلمند نکلے۔ پنجاب کے بھائیوں نے انہیں اپنایا اور اپنی شناخت میں حصے دار بنا لیا۔ جب کہ وہ بدقسمت جو کراچی آگئے تھے اب اپنی شناخت کیلئے پریشان تھے۔ اگر ہم اندرون سندھ جاکر اپنے آپ کو سندھی کہتے تو سندھی ہم پر ہنستے تھے۔ اگر ہم کسی اور شہر جاکر اپنے آپ کو مہاجر کہتے تھے تو لوگ ہم پر تھو تھو کرتے تھے۔ ہم پاکستانی کی شناخت پر مطمئن ہونا چاہتے تھے تو ہمیں یاد دلایا جاتا تھا کہ دراصل ہماری جڑیں ہندوستان میں ہیں ۔ ہم سندھ میں رہتے تھے مگر سندھی نہیں تھے۔ پاکستان کے شہری تھے مگر غدار کہلاتے تھے۔ لے دے کر ہمارے پاس ایک مہاجر کی شناخت بچی تھی کہ یہ ہمارا فخر تھا۔ مہاجر کا مطلب تھا وہ انسان جس نے اس ملک کیلئے  اپنا سب کچھ چھوڑ دیا ہو اور صعوبتیں برداشت کرکے اس ملک کا حصہ بنا ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شناخت بھی ہم سے اب چھین لی جائے گی۔میرے بیٹے! تم نے پوچھا تھا نا کہ گندے مہاجر کون ہوتے ہیں؟ میرے بچے! ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان میں کراچی آکر اپنا  گھربار، عزت و ناموس، جائیداد، جان و مال، اور آخر میں اپنی شناخت تک گنوا دینے والے مہاجرین کو گندے مہاجر کہتے ہیں۔


بہت سال پرانی یہ گفتگو آج پھر میرے دماغ میں گونج رہی ہے۔ سامنے ٹیلیویژن پر ایم کیو ایم کے لیڈران خورشید شاہ پر غصہ ہورہے ہیں  اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ خورشید شاہ نے کون سی غلط بات کردی ہے؟ اس ملک میں مہاجر ہونا کیا واقعی گالی نہیں ہے؟


کافی دیر تک یونہی بیٹھا سوچتا اور اداس ہوتا رہا اور پھر تنگ آکر نانا ابا کی ڈائری اٹھا لی۔ میں جب بھی بہت زیادہ اداس ہوتا ہوں تو نانا ابا کی ڈئری اٹھا لیتا ہوں۔غمزدہ ماحول میں عمدہ شاعری ایک بہترین سہارا ہوتی ہے اور  اشعار کے انتخاب میں میں نے نانا ابا سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔  ڈائری کھولتے ہی جس صفحے پر نظر پڑی اس پر منور رانا صاحب کے یہ اشعار درج تھے۔۔۔


مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے، ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں


کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر ، اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں


نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سونا چھوڑ آئے ہیں


عقیدت سے کلائی پر جو اک بچے نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں، وہ رشتہ توڑ آئے ہیں


جو اک پتلی سڑک  یاں سے گھر کی اور جاتی تھی
وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں


یقیں آتا نہیں ، لگتا ہے  کچی نیند میں شاید
ہم اپنے گھر، گلی، اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں


میں نے ڈائری بند کی اور کرسی کی پشت پر آنکھیں موند کر ٹیک لگا لی۔ کان میں سندھی کے اس استاد کا جملہ مسلسل گونج رہا تھا ۔۔۔ گندے مہاجر ۔۔۔ گندے مہاجر ۔۔۔۔ گندے مہاجر!!!!

منگل، 21 اکتوبر، 2014

بےربط نظم

میں وہ شاعر تها کہ الفاظ میری باندی تهے

میرے مضمون بیاں کرتے تهے سربستہ راز
ان پہاڑوں کے، نظاروں کے، کہن سالہ راز
زیست کے، موت کے، افلاک کے، پیچیدہ راز
صبح کے، شام کے، ہر رات کے، خوابیدہ راز

میں وہ شاعر تها کہ الفاظ میری باندی تهے

میں نے چاہا جو لکها، لکهتا گیا، لکهتا گیا
ہاں مگر ایک خلش، ایک خلش، ایک خلش

وہ جو اک بات کبهی تم سے بیاں کرنی تهی...

- عاطف علی

ہفتہ، 11 اکتوبر، 2014

نفسیاتی

"عجیب نفسیاتی عورت ہیں آپ۔ نجانے کون لوگ ہیں جو ممتا کے قصیدے اور مائوں کی بےپناہ محبت کے فسانے ہر وقت الاپتے رہتے ہیں۔ مجھے تو آپ سے کبھی بھی سوائے سرد مہری کے کچھ نہیں ملا۔ یا تو وہ تمام لوگ جھوٹے ہیں یا آپ میں ہی کچھ کھوٹ ہے۔ یا پھر میں آپ کا خون نہیں بلکہ لےپالک بیٹا ہوں جو کبھی بھی آپ کی الفت کا حق دار نہیں بن سکتا۔" میں آج پھر دن بھر کا غصہ امی پر چنگھاڑ کر نکال رہا تھا اور وہ روز ہی کی طرح خاموش لیٹی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔


لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ سن اور بول نہیں سکتی تھیں؛ مگر مجھے یہ بات کسی بھی طرح ہضم نہیں ہوتی تھی۔ جس سفاکی کے ساتھ وہ میری باتوں پر مسکراتی تھیں، مجھے لگتا تھا کہ وہ سن  اور بول دونوں سکتی ہیں مگر صرف مجھے زچ کرنے کیلئے اس طرح خاموشی سے لیٹی رہتی ہیں۔


کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ وہ یہ سب کچھ ایک کھیل سمجھ کرکرتی ہیں۔  وہ چاہتی ہیں کہ میں غصہ کروں، چلائوں، اور آخر میں زچ ہوکر روپڑوں اور اس طرح وہ مجھے احساس دلائیں کہ میں اب بھی وہی چھوٹا سا بچہ ہوں جو بات بات پر ضبط کھو بیٹھتا تھا۔ جو ان کی زرا سی ناراضگی پر اس وقت تک رویا کرتا تھا جب تک وہ خود اسے اپنی ممتا کی آغوش میں نہ چھپا لیتیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں اتنا بڑا ہونے کے بعد بھی ان کے ساتھ  بچوں ہی کی طرح برتائو کروں۔ ان کے آگے پیچھے گھوموں۔ اپنی ہر ضرورت کو ان سے جوڑ کر رکھوں۔ ان کے گلے میں جھولتا رہوں۔ ان سے فرمائشیں کروں۔ ناز دکھائوں اور لاڈ اٹھوائوں۔ ان کو دیکھتے ہی پہلے جیسا بچہ بن جائوں۔ مگر امی کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے۔ اب میں بچہ نہیں رہا ہوں! اب میں انتیس سال کا جوان ہوں۔


اور یہ چیزیں تو میں نے اس وقت بھی نہیں کی تھیں جب میں واقعتاّ بچہ تھا۔ یہ نہیں کہ مجھے ان سب چیزوں کا شوق نہیں تھا، بات صرف اتنی  تھی کہ امی بہت  سفاک عورت تھیں۔ ایک تو میرے بچپن میں ہی مرگئیں اور  دوسرا جاتے ہوئے میرا بچپن بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔ اوراب،  پچھلے چھبیس سال کی طرح آج بھی میں ان کی قبر پر بیٹھا انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ ان کی یہ خواہشات فضول ہیں اور چونکہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے چلی گئی تھیں لہٰذا میں چاہ کر بھی ایسے انسان سے محبت نہیں کرسکتا جس کو میں نے اپنے مکمل عقل و ہوش کی حالت میں نہ دیکھا ہو یا جس کے ساتھ میں نے وقت نہ گزارا ہو۔ اور پچھلے چھبیس سال کی طرح آج بھی امی قبر میں لیٹی میری باتیں سن کر ایسے مسکرا رہی ہیں جیسے انہیں میری باتوں کا یقین ہی نہ ہو۔ عجیب نفسیاتی عورت ہیں۔

جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 20

نوٹ: اس کہانی کے تمام کردار  و واقعات فرضی ہیں۔ کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔

پیاری ڈائری!

کیا لکھوں اور کس طرح لکھوں؟ لکھنے بیٹھتا ہوں تو یادوں کے بےشمار جھروکے ایک ساتھ کھل جاتے ہیں اور پھر میں چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ پاتا۔ بیٹے کی تدفین کو بھی آج تین دن ہونے کو آرہے ہیں اور اتنے ہی دن مجھے جاگتے ہوئے بھی گزر چکے ہیں۔ جوان بیٹے کی لاش اٹھانا کوئی معمولی بات ہے؟  میں نے کب سوچا تھا کہ جس بیٹے کو میں بڑھاپے کا سہارا سمجھتا رہا ہوں ایک دن خود مجھے ہی اس کو سہارا دیکر آخری آرام گاہ تک لے جانا پڑے گا؟ گزشتہ تین دن میں مجھ پر تین صدیاں گزر گئی ہیں۔ درد، دکھ اور آنسوئوں سے بھری تین صدیاں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے بیٹے کا غم کھائے جارہا ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے میری بے بسی نے بوڑھا کردیا ہے۔

آج سے تین دن پہلے سب کچھ کتنا پرسکون تھا! عید الاضحیٰ تھی اور ہم دونوں باپ بیٹے نے مل کر سنتِ ابراہیمی ادا کی تھا۔ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد میری تھکن کا خیال کرتے ہوئے میرے بیٹے نے گوشت بانٹنے کیلئے خود جانے کا اعلان کردیا۔ کچھ ہی دن پہلے میں نے اسے نئی موٹر سائیکل دلائی تھی اور آج کل وہ اسے چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ گوشت لیکر گھر سے نکلا اور پھر ایک گھنٹے بعد بیٹے کے موبائل سے فون آگیا جس پر کوئی انجان شخص ہوم کے نام سے محفوظ اس نمبر پر کال کرکے گھر کے کسی بڑے فرد کو شہر کے ایک مشہور ہسپتال بلوا رہا تھا۔

پہلے تو میں اسے ایک بھونڈا مذاق سمجھا مگر پھر یاد آیا کہ آج یکم اپریل نہیں ہے اور بیٹے کے تمام دوست یہ بات جانتے ہیں کہ میں ایک سابقہ وزیر اعظم کے پروٹوکول پر متعین پولیس والا ہوں اور اس قسم کے  مذاق کے نتائج بہت سنگین بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا اس بھونڈے مذاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ میں نے گاڑی نکالی اور اڑاتا ہوا ہسپتال پہنچ گیا جہاں گوشت بانٹنے کے لیئے نکلنے والے میرے معصوم بیٹے کی لاش میری منتظر تھی۔

لوگوں نے بتایا کہ راستے میں اس کی مڈ بھیڑ کسی پولیس والے سے  ہوگئی تھی جہاں معمولی سی تلخ کلامی کے بعد اس پولیس والے نے میرے بیٹے پر فائر کھول دیا تھا اور اس کے نتیجے میں میرا جوان بیٹا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس وقت تو سب سے اہم چیز بیٹے کی تجہیز و تکفین تھی سو میں نے اس پولیس والے کا معاملہ ایک دو دن کیلئے موخر کر دیا اور بیٹے کا جسدِ خاکی لیکر گھر آگیا۔ ویسے بھی میں فوری طور پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا کیونکہ اس پولیس والے کو  ڈپارٹمنٹ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور میں حوالات کے اندر اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔

تجہیز و تکفین اور پھر سوئم سے فارغ ہوکر میں متعلقہ تھانے پہنچ گیا اور انسپکٹر کے کمرے میں جاکر بیٹھ گیا۔ تھانے کا انسپکٹر میرا پرانا اور جگری دوست تھا لہٰذا مجھے امید تھی کہ مجھے کام کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ ہم دونوں نے اس سے پہلے بھی افسرانِ بالا کے کہنے پر کئی جعلی پولیس مقابلے بھگتائے تھے، پھر یہ تو میرے اپنے بچے کے خون کا معاملہ تھا۔ قاتل ہمارا پیٹی بھائی سہی مگر تھا تو بہرحال میرے بیٹے کا قاتل؟ وہ کسی قسم کی رعائت کا مستحق نہیں تھا۔

انسپکٹر کہیں رائونڈ پر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر مجھے اپنے کمرے میں دیکھ کر پہلے تو وہ ایک لحظے کیلئے ٹھٹکا مگر پھر زبردستی مسکراتے ہوئے میرے گلے لگ گیا۔ میں اس کی گھبراہٹ نما سردمہری کو نظر انداز کرتے ہوئے ابھی تمہید باندھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے دبی ہوئی آواز میں مجھے بتادیا کہ میرا مطلوبہ آدمی اس وقت تھانے میں موجود نہیں ہے۔ میں نے بےساختہ مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ تالی مارنے کیلئے آگے کردیا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کا شکریہ ادا کروں کے اس نے میری راہ ہموار کردی تھی مگر اس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اپنی جانب گھسیٹا اور اس ہی دبی ہوئی آواز میں بولا کہ جو ہوا سو ہوا، اب مجھے اس معاملے کو بھول جانا چاہیئے۔

میں حیران ہوکر اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں ایک سابقہ وزیرِ اعظم کی پروٹوکول ٹیم کا حصہ ہوں اور اگر چاہوں تو صاحب سے کہہ کر آج ہی اس کی وردی بھی اتروا سکتا ہوں۔ میرے بیٹے کا خون اتنا سستا نہیں تھا کہ اتنے آرام سے معاف کردیا جاتا۔ میں، جو اپنے صاحب کے قریب سے گزرنے والے کسی بھی شخص تک کی جان لینے کیلئے مشہور تھا، خود اپنے بیٹے کے قاتل کو زندہ گھومنے دوں؟ یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ انسپکٹر نے رحم آمیر نظروں سے میری طرف دیکھا اور کرسی کی پشت پر ٹیک لگاتے ہوئے بولا، دوست! تم کسی سابقہ وزیرِ اعظم کے پروٹوکول پر ہو یا سابقہ صدرِ مملکت کے؛ جس بندے پر تم ہاتھ ڈالنا چاہ رہے ہو وہ ایک موجودہ وزیر اعظم کے پروٹوکول اسٹاف کا حصہ ہے! کر لو جو کرسکتے ہو!!!

پیاری ڈائری! تم خود ہی بتائو کہ میں کیا کرتا اور کیسے کرتا؟ کل سے اب تک ماضی کے تمام کارنامے آنکھوں کے آگے گھوم رہے ہیں اور میں چاہ کر بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا پارہا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے بیٹے کا غم کھائے جارہا ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے میری بے بسی نے بوڑھا کردیا ہے۔

تمہارا

زبان دراز

مریض - 2

نوٹ: یہ مصنف کی ذاتی زندگی پر مبنی کہانی ہے۔ کسی بھی فرد سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی اور مصنف اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہوگا۔

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔


میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ جیسا ہی ایک عام سا انسان تھا۔ عام سی زندگی بسر کرتا تھا اور عام آدمیوں ہی کی طرح گمنام تھا۔ پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ اتنی بڑی اس دنیا میں میری اپنی کوئی شناخت نہیں تھی! میری زندگی میں کوئی قابل ستائش یا قابلِ ذکر چیز موجود نہیں تھی۔ لوگ اگر میرے بارے میں بات کرتے بھی تو کیوں؟ اور بات کرتے بھی تو کیا؟


ذات کے اس ادراک کے بعد میری زندگی اجیرن ہوگئی۔ اب اٹھتے بیٹھتے مجھے یہی غم کھاتا رہتا تھا کہ میرے ہونے نہ ہونے سے دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر میں آج ہی مر گیا تو کتنے لوگوں کو پتہ ہوگا کہ عاطف علی نام کا کوئی شخص بھی تھا؟ جس کی واحد خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ یہ سوچیں بہت تیزی سے مجھے قنوطیت کی طرف لے جا رہی تھیں۔ میرے گنے چنے دوست بھی اب مجھ سے کترانے لگے تھے۔ میں اگر کسی محفل میں جا نکلتا تو مجھے دیکھتے ہی لوگ سراسیمہ ہوجاتے۔ گفتگو ختم ہوجاتی۔ سب لوگ میری طرف دیکھنے لگتے کہ کب میں جائوں اور وہ دوبارہ اپنی گفتگو شروع کرسکیں۔ میں پاگلوں کی طرح ان کی شکلیں دیکھتا اور انتظار کرتا کہ وہ کوئی بات کریں مگر میرا انتظار ہمیشہ ہی بےکار جاتا۔ ہوتے ہوتے میں نے احباب کی محافل میں جانا بھی چھوڑ دیا۔


دوستوں سے مایوس ہوکر میں نے عشق کے کارزار میں اترنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک خیالی محبوبہ چنی اور اپنے خیالات میں ہی اسے شادی کا پیغام بھی بھیج دیا۔ اس نے بھی میرے خیالات میں ہی چپل اتاری اور میرے سر پر برسانا شروع کردی۔ میں گھنٹوں اس سے پٹتا رہا اور اس دن کے بعد سے اس تصوراتی عشق کی یاد میں پچھاڑیں کھانا شروع کردیں۔ اٹھتے بیٹھتے، صبح شام اب میں اس تصوراتی حسینہ کے فراق میں ٹھنڈی آہیں بھرتا اور پنکج اداس کے گانے سنا کرتا تھا۔ زندگی اب میرے لیئے ایک بوجھ بن چکی تھی اور اب میں موت کو اس زندگی سے بہتر سمجھتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔


میں گھر سے زہر خریدنے کیلئے نکلا تو راستے میں چند دوست دکھ گئے۔ خلاف معمول جب میں بغیر کچھ کہے سنے ان کے برابر سے گزرا تو انہیں بھی تشویش ہوئی اور انہوں نے مجھے روک کر خیریت دریافت کرلی۔ آنسوئوں کے بیچ میں میں نے انہیں اپنی زندگی کے آلام و مصائب اور تازہ ترین محبت میں ناکامی اور اس کے لازمی نتیجے میں خودکشی کا قصہ سنا ڈالا۔ پہلے تو وہ سب خاموشی سے میری بات سنتے رہے مگر جیسے ہی میں خاموش ہوا انہوں نے ہنسی کے فوارے اڑا دیئے۔ ہنس ہنس کر ان کمینوں کا برا حال ہوگیا تھا۔ کوئی کہیں لوٹ رہا تھا اور کوئی اپنا پیٹ پکڑ کر دوہرا ہو رہا تھا۔ میں نے ان سب کمینوں پر لعنت بھیجی اور زہر لینے کیلئے بازار آگیا۔


میں دکھے دل کے ساتھ مارکیٹ سے کتا مار دوائی خرید کر گھر کی طرف جا ہی رہا تھا کہ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔  میرے کمینے دوستوں نے میری داستان بازار میں سب کو سنادی تھی اور اب بازار کے تمام دکان دار اپنا کام کاج چھوڑ کر میرے اوپر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان سب کی نظروں میں میرے لیئے حقارت تھی۔ وہ میری زندگی اور میرے ہر وقت کے  رونے پر ہنس رہے تھے۔


 دل تو کیا کہ آگے بڑھ کر ان کا منہ نوچ لوں مگر پھر دماغ میں ایک اور خیال آیا اور میں من اندر ہی ان تمام لوگوں پر ہنسنا شروع ہوگیا۔ ان بیچاروں کو احساس نہیں تھا کہ مجھ پر ہنس کر وہ میری اس ناکام جوانی کا مذاق نہیں اڑا رہے بلکہ مجھے ایک خاص آدمی بنا رہے ہیں۔ وہ خاص آدمی، جو ان جیسا ہی عام تھا مگر اب اتنا عام نہیں رہا تھا کہ اس کے بارے میں بات نہ کی جائے!! میں دل ہی دل میں ان احمقوں پر ہنستا ہوا گھر آگیا۔ اب مجھے خود کشی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔


میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں سوشل میڈیا پر دن رات روتا پیٹتا رہتا ہوں، اپنے خود ساختہ مصائب پر گریہ کرتا ہوں، لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں، پھر ہنستے ہنستے زچ ہوجاتے ہیں اور گالیوں پر اتر آتے ہیں، مگر میں ان کی باتوں کا برا نہیں مانتا۔ برا کیوں مانوں؟ کسی بھی بہانے سے سہی، اب جو بھی بات ہوتی ہے، ہوتی تو میرے متعلق ہی ہے نا؟

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

19 - زبان دراز کی ڈائری

پیاری ڈائری!


زندگی عجیب مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔ میرے دفتر کے احباب صحیح کہتے تھے کہ یہ مطالعے کی عادت ہی مجھے مروائے گی۔ پچھلے چار دن سے چھپتا پھر رہا ہوں کہ اگر کسی کو میرے محل وقوع کا پتہ چل گیا تو بڑی عید سے پہلے ہی میری بوٹیاں کردی جائیں گی۔


معاملہ بظاہر اتنا بڑا تھا نہیں جتنا اب بن چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم نے بدقسمتی سے کہیں حضرت عبداللہ بن مبارک کے حج کی داستان پڑھ لی تھی جس کے مطابق حضرت عبداللہ ابن مبارک ایک دن حرم کعبہ میں سو رہے تھے کہ خواب میں دو فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا۔ حرم میں پہنچ کر وہ دونوں فرشتے آپس میں بات چیت کرنے لگے۔ پہلے فرشتے نے دوسرے سے پوچھا کہ اس سال کتنے لوگ حج کرنے آئے تھے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ کم و بیش چھ لاکھ ۔ پہلے نے پھر پوچھا، ان میں سے کتنے افراد کا حج مقبول ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا، مجھے نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حج قبول ہونے والا تھا۔


فرشوں کی یہ گفتگو سن کر عبداللہ ابن مبارک سوچ میں پڑگئے کہ اے اللہ! حج تو اس سال میں نے بھی کیا تھا۔ میرے علاوہ اور بھی نجانے کتنے لوگ تھے جو کتنے پہاڑ اور سمندر اور موسم کی سختیاں و دیگر مصائب عبور کرکے  تیری رضا اور تیرے گھر کی زیارت کیلئے حج کرنے آئے تھے۔ مالک! تو کبھی کسی کی محنت کو اس طرح رائگاں نہیں کرتا۔ کیا واقعی ہم تمام لوگ نامراد ٹھہرائے جائیں گے؟


عبداللہ ابن مبارک ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ پہلے فرشتے کی آواز دوبارہ ابھری جو دوسرے فرشتے سے کہہ رہا تھا کہ دمشق شہر میں علی بن المَفِق نامی ایک موچی رہتا ہے۔ وہ اس سال حج پر تو نہیں آسکا مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کی حج کی نیت قبول کرلی ہے بلکہ اس کی نیت کے صدقے ان تمام چھ لاکھ حجاج کی عبادت کو بھی منظور کرلیا ہے۔ عبداللہ ابن مبارک کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے صبح ہوتے ہی دمشق کا قصد کیا کہ جاکر خدا کی اس برگزیدہ ہستی سے ملیں جس کی صرف نیت میں اتنا خلوص تھا کہ وہ چھ لاکھ افراد کے عمل کو مقبول کرواگئی۔


عبداللہ ابن مبارک دمشق پہنچے اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے علی بن المفِق کے گھر پہنچ گئے۔ عبداللہ ابن مبارک اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالم اور مشہور فقیہہ تھے۔ علی بن مفق آپ کا نام سنتے ہی حیران ہوگیا کہ وقت کا اتنا بڑا فقیہہ میرے دروازے پر کیا کررہا ہے؟ آپ نے اسے تسلی دی اور اس سے پوچھا کہ کیا آپ حج پر جانے کی نیت رکھتے تھے؟ علی بن مفِق نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ وہ پچھلے تیس سال سے اپنی محنت کی حلال کمائی سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر حج پر جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس سال اس کے پاس اتنا اسباب جمع ہوگیا تھا کہ وہ حج پر جاسکے مگر چونکہ خدا کو منظور نہیں تھا سو میں چاہ کر بھی اپنی نیت کو عملی جامہ نہیں پہنا پایا۔


عبداللہ ابن مبارک نے اس کی باتوں سے اس کی دل کی سچائی بھانپ لی تھی مگر اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس موچی میں ایسی کیا بات تھی جس کی بنیاد پر اس سال کے تمام حجاج کا حج محض اس کی وجہ سے قبول ہوا؟
عبداللہ ابن مبارک نے علی بن مفق سے سوال کیا کہ وہ حج پر کیوں نہ جا سکا؟ علی بن مفق اپنے جانے کی وجہ نہیں بیان کرنا چاہتا تھا۔ اس نے عبداللہ ابن مبارک کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی اور کہا، چونکہ مرضی خدا نہیں تھی۔ عبداللہ ابن مبارک اس کا جواب سن کر مسکرائے اور اپنا سوال پھر دہرا دیا۔ عبداللہ ابن مبارک کے  پیہم اصرار پر علی بن مفق نے بتایا کہ حج پر جانے سے پہلے وہ اپنے ایک پڑوسی سے ملنے اس کے گھر گیا تو اس کے گھر دسترخوان بچھا ہوا تھا اور تمام گھر والے کھانے کیلئے بیٹھے تھے۔ علی بن مفق نے سوچا کہ آدابِ میزبانی کے تحت وہ پڑوسی انہیں کھانے کی دعوت دے گا مگر اس شخص نے علی بن مفق کو دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعدوہ گویا ہوا کہ اے علی میں آپ کو کھانے پر ضرور دعوت دیتا مگر میں مجبور ہوں۔ پچھلے تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے اور آج جب مجھ سے بچوں کی بھوک دیکھی نہ گئی تو میں کچرے کے ڈھیر میں پڑی ایک گدھے کی لاش سے گوشت لیکر آگیا کہ اپنے بچوں کی بھوک مٹائوں۔ میں تو انتہائی بھوک سے مجبور ہوں لہٰذا یہ مردار گوشت مجھ پر حلال ہے مگر یہ گوشت اور یہ کھانا چونکہ آپ کیلئے حرام ہے لہٰذا میں آپ کو اسے کھانے کی دعوت نہیں دے سکتا۔


علی بن مفق نے کہا کہ یہ سن کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں گھر گیا اور جمع پونجی کے تمام تین ہزار درہم لاکر اس پڑوسی کے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ وہ اس سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرلے۔ میں نے وہ تین ہزار درہم بھوک برداشت کرکے حج کیلئے جمع کیئے تھے مگر مجھے لگا کہ اس بندہ خدا کو اس وقت ان پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ حج کرنے کی میری بےپناہ خواہش آج بھی زندہ اور اگر اللہ کریم نے چاہا تو وہ مجھے ضرور حج پر بلالے گا۔ یہ سن کر عبداللہ ابن مبارک کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے علی بن مفق کو اپنے خواب کا مکمل احوال سنا دیا۔


کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم نے یہ داستان پڑھی تو سوشل میڈیا پر یہ مہم شروع کردی کہ قربانی بالکل ایک فریضہ ہے مگر اسراف فرض نہیں بلکہ حرام ہے۔ خدا نے اگر استطاعت دی ہے تو ضرور قربانی کریں، مگر پچاس بیل اور دو سو بکرے خریدنے کے بجائے اگر ایک بیل یا ایک بکرا اللہ کے راستے میں قربان کرکے فریضہ ادا ہوسکتا ہے تو باقی پیسے ان محتاجوں پر خرچ کردیں جو سفید پوش ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے؟


ہماری یہ مہم ملک بھر میں ہر سطح پر بےحد مقبول ہوئی۔ عوام کی سطح پر اسے بطور اسلامی عبادات پر تنقید کے پذیرائی ملی۔ کاروباری طبقے کی سطح پر اسے بطور پیٹ پر لات اور چمڑے کی صنعت سے دشمنی کے پذیرائی ملی۔ سیاست دانوں کی سطح پر اسے کھال کا مال چھیننے کی ترکیب کے طور پر سراہا گیا۔ اور آخر میں پولیس کی سطح پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور دفعہ 295 اور اس کی چند ذیلی دفعات کی خلاف ورزی کے طور پر پہچانا گیا۔  اور ان سب پذیرائیوں کا حاصل حصول یہ نکلا کہ ہم پچھلے چار دن سے چھپتے اور احباب کے ذریعے معافی نامے جمع کراتے پھر رہے ہیں۔


 آج صبح کاشف بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا ان کی نصیحت سن رہا تھا کہ مجھے یہ کام سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ میں نے کاشف بھائی کو سمجھایا کہ میں نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ صرف اسلامی تاریخ کے مشہور فقیہہ کی حکایت بیان کی ہے۔ کاشف بھائی نے رحم آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ، اے احمق انسان! عبداللہ ابن مبارک کے نام میں اصل گن چھپا ہے۔ اگر تیرا نام بھی زبان دراز بن منہ پھٹ قسم کا ہوتا تو آج تیری بیان کردہ حکایت پر تجھے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔


کاشف بھائی کی اس نصیحت کو میں نے گرہ سے باندھ لیا ہے اور کل سے ٹوئیٹر پر "ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کے فضائل" پر درس دے رہا ہوں۔ امید ہے کچھ بہتری کی صورتحال نکل آئے گی۔ تب تک کیلئے اجازت دو۔


والسلام


زبان دراز ابن منہ پھٹ

بدھ، 1 اکتوبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 18

نوٹ: ذیل کی تحریر بچوں کی ایک مشہور لوک کہانی سے ماخوذ ہے اور کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔


!پیاری ڈائری


تمہیں پچھلی بار ہی بتادیا تھا کہ دادی گھر آئی ہوئی ہیں اور مصروفیات بے تحاشہ ہیں لہٰذا اس بار غیر حاضری کی معافی نہیں مانگوں گا۔ دادی پندرہ دن رہ کر گئیں اور یہ پندرہ دن کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اچھے وقت کی سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ یا شاید وقت کی رفتار  ہمیشہ یکساں رہتی ہے مگر حالات کے اعتبار سے ہمارے لیئے کبھی لمحے بھی صدیاں بن جاتے ہیں اور کبھی صدیاں بھی لمحوں کی طرح گزر جاتی ہیں۔ خیر یہ تو ایک فلسفیانہ گفتگو ہے اور تم جانتی ہو کہ اس ملک میں ہم فلسفیوں کو پاگلوں کی ہی ایک قسم  گردانتے ہیں لہٰذا مزید فلسفے سے گریز کرتا ہوا میں دن بھر کی روداد پر آجاتا ہوں۔


دادی نے آج صبح جانا تھا مگر ہم سب کل سے ہی اداس ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ دادی کی محبت بھری جھڑکیاں، ہمارا بےتحاشہ خیال رکھنا، اور سب سے بڑھ کر روزانہ ایک نئی کہانی سنانا، یہ سب چیزیں دادی کے اگلی مرتبہ گھر آنے تک ہم سے چھن جانی ہیں اور یہ خیال ہم سب بہن بھائیوں کو بری طرح بےچین کر رہا تھا۔ کافی دیر ضبط کرنے کی کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں نے دادی کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ بہا۔ دادی نے مسکراتے ہوئے میرے آنسو پونچھے اور یاد دلایا کہ خاندان کے باقی بچوں کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا، لہٰذا ہمیں اپنے حصے کو غنیمت جانتے ہوئے ایثار سے کام لینا چاہیئے ورنہ ہمارا حال بھی ان بندروں جیسا ہی ہونا ہے جنہوں نے شدید بھوک کے عالم میں بھی زیادہ کے لالچ میں چنے ٹھکرا دیئے تھے۔ میں نے بندروں کی یہ کہانی پہلے نہیں سنی تھی تو دادی نے مجھے سمجھانے اور خوش کرنے کیلئے بندروں کی وہ کہانی سنا دی۔


دادی کا کہنا تھا کہ کسی جنگل میں دو بندر بھوکے گھوم رہے تھے۔ بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ جنگل میں موجود تیسرے بندر نے جب ان بندروں اور ان کی مجبوری کو دیکھا تو اسے بڑا ترس آیا۔ ترس سے زیادہ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر یہ بندر یہاں رزق کی تلاش میں روز آنے لگے تو جنگل میں اس کی یکطرفہ حکومت ختم ہوجائے گی اور اسے ان بندروں کو بھی اپنے کھانے میں سے حصہ دینا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے گھر میں موجود بھنے ہوئے چنے اٹھائے اور ان بندروں کے پاس جاپہنچا۔ اس نے اپنے پاس موجود چنوں کی چھ میں سے پانچ  ڈھیریاں ان دونوں بندروں کو پیش کردیں کہ وہ چاہیں تو ان سے اپنی بھوک مٹا لیں۔ بندر بھوکے تو بہت تھے مگر دونوں ہی بلا کے خوش فہم اور بےوقوف بھی تھے۔ ان دونوں نے سوچا کہ جب یہ پانچ ڈھیریاں دینے پر تیار ہوگیا ہے تو ذرا سا رعب اور جذبانی دبائو ڈال کر چھٹی ڈھیری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔


ان دونوں نے اس تیسرے بندر کو غصے دیکھا اور چنے اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے بولے، ہم بھوکے ہیں مگر ہماری رگوں میں بادشاہ بندر کا خون دوڑ رہا ہے۔ ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم تمہارا احسان لیں اور یہ بھنے ہوئے چنے کھائیں! بادشاہ زادے اب یہ چنے کھائیں گے؟ ویسے بھی اگر دینے ہی ہیں تو ہمیں چنے کی تمام چھ ڈھیریاں دو تاکہ ہم برابری کی بنیاد پر آپس میں بانٹ سکیں! ورنہ ہم تھوکتے ہیں ان چنوں پر۔


بندر نے حیرت سے ان کی شکل دیکھی اور انہیں سمجھایا کہ اس وقت چنوں کی ضرورت اس سے زیادہ ان دونوں کو ہے۔ اور اگر اس نے چھٹی ڈھیری بھی ان کو دے دی تو وہ خود کیا کھائے گا؟ اب اس بات پر بندروں کی بحث شروع ہوگئی۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے اصولی موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ جنگل کے دوسرے جانوروں نے بیچ بچائو کرانے کی کوشش بھی کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بندروں کے مابین یہ بحث پچاس منٹ تک جاری رہی اور آخر میں وہ دونوں  بندر ان چنوں پر تھوک کر، کچھ اور کھانے کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔


خدا تعالٰی کو ضد اور ہٹ دھرمی کبھی بھی پسند نہیں رہی، چاہے وہ کوئی بھی مخلوق کرے۔ ان ضدی بندروں کو ان کے کیئے کی سزا یہ ملی کہ پورا دن کھانے کی تلاش میں گھومنے کے باوجود انہیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا۔ جنگل کے جس درخت پر پھل دکھتا اس پر پہلے سے کوئی اور جانور قبضہ کرکے بیٹھا ہوتا اور اگر اتفاق سے کوئی درخت خالی مل بھی جاتا تو اس کا پھل اتنا کسیلا اور زہریلا ہوتا کے وہ ایک لقمہ بھی نہیں لے پاتے۔ پورا دن جنگل میں گھومنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال یہ دونوں بندر بالآخر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ روتے روتے ان کی نظر کچھ ہی فاصلے پر پڑے ان چنوں پر گئی جنہیں ٹھکرا کر وہ صبح یہاں سے آگے چلے گئے تھے۔ بھوک کے عالم میں یہ چنے جنت کے کسی میوے سے کم نہیں تھے۔ بندروں نے چاہا کہ بڑھ کر ان چنوں کو اٹھا لیں مگر پھر یاد آگیا کہ صبح وہ ان ہی چنوں پر تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ اب اگر کوئی ان دونوں کو یہ چنے کھاتا دیکھ لیتا تو وہ دونوں شرم کے مارے دوبارہ اس جنگل میں قدم رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔


دونوں بندر حسرت سے ان چنوں کو دیکھنے اور اس وقت کو کوسنے لگے جب جذبات اور مزید پانے کے لالچ میں انہوں نے ان چنوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ شدید بھوک کے عالم میں کھانا سامنے دیکھ کر ان بندروں کی وہی حالت تھی جو کسی ترقی پذیر ملک میں کئی سال اپوزیشن کرنے کے بعد حکومت میں آنے والی جماعت کی ملکی خزانے کو دیکھ کر ہوتی ہے۔


جب برداشت بالکل جواب دے گئی تو ان میں سے ایک بندر اٹھا اور ان چنوں کے پاس پہنچ گیا جو زمین پر اب تک بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا دیکھا دیکھی دوسرا بندر بھی خاموشی سے اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بندر بھوکے تھے اور چنے سامنے موجود تھے، مگر دونوں میں سے کوئی ایک بندر بھی پہلا چنا کھانے کی خفت اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ کافی دیر اس ہی طرح گزر گئی تو بڑا بندر چنے کی ایک ڈھیری اٹھاتے ہوئے بولا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس والی ڈھیری پر نہیں تھوکا تھا۔ دوسرے بندر نے بھی فورا ایک ڈھیری اٹھائی اور بولا، یہ والی تو ویسے بھی دور جاکر گری تھی سو اس پر تو تھوکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے بندر نے اب کی بار ایک ساتھ دو ڈھیریاں اٹھائیں اور انہیں منہ میں رکھتے ہوئے بولا، اور یہ تو بالکل خشک ہیں جیسے ان پر کبھی کوئی گیلی چیز پڑی ہی نہ ہو۔


ایک ایک کرکے تاویلات آتی گئیں اور ڈھیریاں کم ہوتی چلی گئیں۔ چند ہی لمحوں میں بندروں نے وہ پانچوں ڈھیریاں چٹ کرڈالیں جن پر کچھ وقت پہلے وہ خود تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ بھوک تو مٹ گئی مگر بندروں نے اس دن یہ سبق سیکھ لیا کہ عزت اس ہی بات میں ہے کہ اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ اگر  چھ میں سے پانچ ڈھیریاں اپنی مرضی کی مل رہی ہوں اور پھر بھی بندر ضد پر اڑے رہیں تو چھٹی ڈھیری کے چکر میں یا تو بندر پہلی پانچ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا بالآخر اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دادی نے یہ کہہ کر کہانی ختم کی اور میرا ماتھا چوم کر سونے چلی گئیں۔


 صبح سو کر اٹھا تو پتہ چلا کہ دادی تایا ابو کے گھر کیلئے نکل گئی ہیں۔ دادی کے جانے کے بعد گھر میں اب کرنے کو کچھ ہے نہیں سو صبح سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ بندر والی کہانی میں نے چند ہی دن پہلے ٹیلیویژن کے کسی ڈرامے میں بھی دیکھی ہوئی ہے۔ ڈرامے کا نام یاد نہیں آرہا مگر جیسے ہی یاد آیا تو ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔


،تمہارا


زبان دراز

اتوار، 21 ستمبر، 2014

بنیادی سائنس - جدید

نوٹ: اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ میں پیدا ہونے والی کسی تبدیلی کا ادارہ زمہ دار نہیں ہوگا۔


پیارے بچوں! آرٹس کی چھوٹی بہن کو سائنس کہتے ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ ترتیب الٹی ہے اور دنیا بھر میں سائنس کو بڑی بہن مانا جاتا ہے مگر چونکہ آرٹ میں ایک آرٹسٹک رومان جھلکتا ہے اور یہ کام اکثر گھر بیٹھے بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں آرٹ کو ہمیشہ زیادہ عزت دی جاتی ہے اور بڑی بہن سمجھا جاتا ہے۔ الحمدللہ اس ہی لیئے ہمارے معاشرے میں فنکار ایک تعریف جبکہ سائنس دان ایک قسم کا طنزیہ لفظ سمجھا جاتا ہے۔


جہاں تک سائنس کی تعریف کا تعلق ہے تو اول تو سائنس کی تعریف ہم صرف وہاں تک کرسکتے ہیں جہاں تک مسلم سائنسدانوں کے نام آتے ہیں۔ اور ماضی قریب و بعید میں چونکہ ایسا کوئی سانحہ ہوا نہیں ہے جس میں مسلمانوں نے کوئی قابل ذکر سائنسی کارنامہ سر انجام دیا ہولہٰذا ہم اس مضمون میں سائنس کی تعریف سے اجتناب ہی کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے پہلے مسلمان سائنسدان کے مرنے کے کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام مسلمان نہیں بلکہ قادیانی تھے، لہٰذا مسلمانانِ پاکستان نے دینی غیرت کے تحت ان کی قبر کے کتبے سے لفظ مسلمان حذف کردیا ہے اور اب ان کا ذکر کرنا حرام اور کرنے والا ــــــــــــــــــــــــــ ہے٭۔  ایک اور اہم وضاحت اس باب میں یہ بھی ضروری ہے کہ حالیہ تاریخ میں ولید بن یوسف نامی عظیم مسلمان سائنس دان نے ستمبر گیارہ کو امریکہ کے مقام پر ایک ایسے کیمیکل کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا تھا جس سے کنکریٹ کے پہاڑ اور فولاد کے ڈھیر سے بنی عمارت تو پگھل گئی مگر اس کیمیکل کے زیرِ اثر معمولی پلاسٹک سے بنے ان کے چاروں کریڈٹ کارڈ نہیں جلے اور دنیا کو پتہ چل سکا کہ ستمبر گیارہ کے حملے کس نے کروائے۔ چونکہ ابھی تک دنیا محوِ حیرت ہے کہ یہ سائنس تھی یا آرٹ سو فی الحال ہم ولید بن یوسف کو یہیں چھوڑ کرآگے بڑھتے ہیں۔
٭ خالی جگہ پر کریں۔


سائنس کے بارے میں آپ کے سمجھنے کیلئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہزار کوشش کے باوجود کسی بھی طرح  آرٹ نہ بن سکے، ہم اسے سائنس کا نام دے دیتے ہیں۔ نیز ہر وہ چیز جس کو آپ سمجھ نہ پائیں آپ اسے بھی سائنس قرار دیکر شرمندگی سے بچ سکتے ہیں کہ جیسے ہی آپ کسی چیز کو سائنس قرار دے دیتے ہیں، مخاطب کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر آپ اس بات کو سمجھ نہیں پائے ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں کہ یہ بات، محض ایک بات نہیں بلکہ سائنس ہے۔ ایسے مواقع پر آپ "بڑی سائنس ہے بھائی" قسم کے کلمات کہہ کر نہ صرف صاف بچ سکتے ہیں بلکہ سامنے والے شخص کے انا کے غبارے میں بھی مناسب مقدار میں ہوا بھر سکتے ہیں جو آگے چل کر آپ کے ہی کام آئے گی۔


پیارے بچوں! سائنس ہماری زندگی کا ایک بہت اہم جزو اور سیکھنے کیلئے بہت اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر تمام اہم موضوعات کی طرح ہم نے اس پر کبھی کام نہیں کیا اور یہی بات سائنس کی اہمیت کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے نے آرٹ کو تو فن اور کلا اور خدا جانے کیا کیا نام دے دیئے مگر سائنس کی اہمیت اور حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ہمیشہ صرف سائنس ہی کہا، سنا، اور لکھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے سائنس کو کوئی اردوانہ نام دے دیا تو یہ سائنس کا استحصال اور انگریزوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ جس طرح امریکہ و برطانیہ میں ٹیکسی چلانا صرف پاکستانی و ہندوستانی ڈاکٹروں اور انجینیئرز کا کام ہے اور کوئی فرنگی ہمارے اس کام میں مداخلت نہیں کرتا تو اس ہی طرح انسانیت اور احسان مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم بھی سائنس والے ان کے کاموں میں دخل نہ دیں۔ یہ بات مگر اپنی جگہ ہے کہ کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات ہر انسان کا حق ہے اور کہنے کو ہی سہی مگر چونکہ سائنس آپ کے نصاب کا حصہ ہے لہٰذا ہم آج آپ کو چند بینادی سائنسی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جو زندگی میں آپ کے کام آسکیں۔


سائنس کا اصل مقصد مادہ اور اس کے خواص پر ہونے والی تحقیق ہے۔ مادے کی دو بڑی اقسام ہیں جن کی اپنی مزید شاخیں ہیں۔ مادے کی یہ دو بڑی اقسام سادہ مادہ اور نر مادہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سادے مادے پر انسان بہت کچھ دریافت کر چکہ ہے مگر نر کی مادہ ہنوز تحقیق طلب ہے۔ ان دونوں مادوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سادہ مادہ اپنا مخصوص رویہ رکھتا ہے اور کسی مخصوص حالت میں اس کا ردعمل پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ نر کی مادہ البتہ اپنی فطرت اور رویوں دونوں میں آزاد ہے اور ایک جیسی صورتحال میں ہر بار الگ طریقے سے پیش آنے کے فن میں ماہر ہے۔ دونوں مادوں میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ پہلے مادے سے مل کر تصویر کائنات بنی ہے جبکہ نر کی مادہ اس تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنے کے کام آتی ہے۔ محاورے کی زبان میں جب کسی کو مادہ پرست انسان کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی دوسری والی مادہ ہوتی ہے۔ نر کی مادہ کی سمجھ چونکہ آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی تو آپ کے بھی سمجھنے کے آثار کچھ ایسے روشن نہیں ہیں، لہٰذا آج ہم صرف کائنات کے مادے کے بارے میں بات کریں گے۔


جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ یہ کائنات مادے سے مل کر بنی ہے۔ جبکہ یہ مادہ خود لاکھوں کڑوڑوں ایٹم سے مل کر بنتا اور محض ایک ایٹم بم سے تباہ ہوجاتا ہے۔ ایٹم کے اپنے بھی چار جزو ہوتے ہیں جنہیں الیکٹرون، پروٹون، نیوٹرون اور مورونز کہا جاتا ہے۔ مورونز نامی حصہ سب سے طاقت ور ہوتا ہے اور طاقت کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی بھی چیز میں طاقتور کا نام لینا فعل قبیح اور ناقابلِ معافی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس ہی اصول کے تحت حکومت گرنے کی ذمہ داری ہمیشہ فوج کے بجائے سیاستدانوں پر آتی ہے۔ اگر آپ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہوں تو مطالعہ پاکستان کی کتاب یا آج کا اخبار ملاحظہ کرلیں۔


مغربی ممالک میں سائنس کا دوسرا نام تحقیق بھی ہے۔ پیارے بچوں! تحقیق اپنے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اور چیزوں کی اصل سمجھنے کی ایک جان لیوا بیماری ساتھ لاتی ہے لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم  اس تحقیق نامی بلا سے دور رہیں۔ ایڈز اور دوسری بیماریاں بلاوجہ بدنام ہیں ورنہ امت مسلمہ کو جتنا نقصان اس تحقیق نے پہنچایا ہے وہ آج تک تمام بیماریاں مل کر بھی نہیں پہنچا سکیں۔ نہ یہ مردود کفار تحقیق کی بیماری کا شکار ہوتے نہ یہ سائنسی ایجادات ہوتیں اور نہ ہم مسلمان آج دنیا بھر میں محکوم ہوتے۔ امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کفار سے لڑنے کیلئے بھی ہم ان ہی کفار کی دریافت کردہ ٹیکنالوجی اور ان ہی کے بنائے ہوئے اسلحے کے محتاج ہیں۔ تصور تو کیجیئے، آپ کے محلے کے مشہور مولوی اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں اس طرح جارہے ہوں کہ پیچھے بیٹھے تمام مریدوں کے ہاتھ میں میخائل کلاشنکوف کی بندوق کے بجائے ہاتھ میں غلیل ہو اور اس غلیل کا ربڑ کھنچائو دیکھ کر مسلمان متعین کریں کہ حالات خراب ہیں یا صحیح؟ اور اگر تصور مزید اجازت دے تو ڈبل کیبن ہٹا کر وہاں ایک گھوڑا کھڑا کردیجئے اور محظوظ ہوئیے۔ یہ تو خیر مذاق کی بات تھی ورنہ مجھے زندگی سے بہت پیار ہے اور میں کسی بھی مسلک کے مولوی سے اس کا ڈبل کیبن گاڑی رکھنے کا حق چھیننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ آپ سے ایسے احمقانہ خیالات کی امید کرتا ہوں۔ اس بارے میں کبھی سوچ آ بھی جائے تو لعنت ان کفار پر ہی بھیجیئے گا جنہوں نے اسلحہ سازی پر اتنی تحقیق کی اور آج ان ہی کی وجہ سے مسلمان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں ورنہ چاقو خنجر کے زمانے کے بارہ سو سال میں حرام ہے کہ کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کا خون بہایا ہو۔


پیارے بچوں!  شاید اللہ تعالٰی کو خود بھی منظور نہیں کہ ہم فتنے میں گرفتار ہوں اس لیئے کفار کی حرکات سے تنگ آکر اگر کبھی ہم مسلمانوں نے اس تحقیق کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا بھی تو ہمیں عبرت دلانے کیلئے ایسی عجیب خرافات کا شکار کردیا گیا جن کا علاج رہتی دنیا تک ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست جناب عاطف علی المعروف زبان دراز کو بھی پچھلے سال یہ تحقیق نامی بیماری ہوئی تھی اور تب سے وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ہندو، عیسائی، سکھ، شیعہ، سنی اور احمدی سب کے خون کا رنگ ایک ہی جیسا ہوتا ہے اور اس خون کے بہنے پر سب کے گھر والوں کو ایک ہی جتنی تکلیف ہوتی ہے۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی اور مہاجر خون بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور محض علاقائیت و لسانیت کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ لاحول ولا قوۃ!!!
تحقیق کے بارے میں یہ بیان بھی ضروری ہے کہ اس تحقیق کی وجہ سے ہی زیادہ تر مشہور مسلمان اپنے وقتوں میں دہریے کہلائے اور زیادہ تر غیر مسلم سائنس دان اس ہی تحقیق کے ذریعے خدا سے قریب ہوگئے۔ مسلمان سائنس دانوں کے مذہب سے لاتعلق رہنے کا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں کے مسالک نے ان کو کبھی اپنایا نہیں اور آج ہمارے پاس شیعہ سائنسدان اور سنی سائنس دان کی تفریق نہیں ہے اور وہ بیچارے آج بھی معاشرے کے اس محروم طبقے میں موجود ہیں جومحض مسلمان ہی کہلاتے ہیں اور شیعہ، سنی جیسے قابل فخر اور باعثِ نجات القابات سے محروم ہیں۔ خدا ان بیچاروں کے حال پر رحم کرے۔


پیارے بچوں!  بنیادی سائنس کے سلسلے میں ہم نے تمام ضروری گزارشات عرض کردیں ہیں۔ اگر آپ اب بھی مزید تشنگی محسوس کریں تو ابنِ انشاء صاحب کی اردو کی آخری کتاب سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اور اگر اس کتاب کے بارے میں نہیں جانتے تو مزید معلومات کیلئے اپنے والدین سے رجوع کریں۔ اگر شومئی قسمت انہوں نے بھی اس کتاب کے بارے میں نہیں سنا تو سب کام چھوڑ کر پہلے ان کے علاج کیلئے کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ہمیں اجازت دیں کہ اب آپ کیلئے بیسک اردو کی کتاب بھی لکھنی ہے۔


ہفتہ، 20 ستمبر، 2014

تاریخِ پاکستان - جدید

پیارے بچوں!  پاکستان کی بنیاد تو اس ہی دن پڑ گئی تھی جس دن برصغیر میں کسی مسلمان نے پہلا قدم رکھا تھا۔ یہ بات محض افواہ ہے کہ وہ پہلے مسلمان جو اس زمین پر پہنچے وہ اموی سلطنت کے مظالم سے تنگ آکر یہاں پناہ لینے پہنچے تھے۔ یہ سب پڑوسی ملک کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں اور چونکہ مورخین بھی ذیادہ تر ہندو رہے ہیں اس لیئے وہ باآسانی ان افواہوں کا شکار ہوگئے اور یہ سب افواہیں حقیقت سمجھ کر تاریخ کی کتب میں رقم کردیں۔ خدا ان کے حال پر رحم کرے۔


آپ ان افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے سرکاری نصاب میں لکھی ہوئی بات پر یقین رکھیئے جس کے مطابق سندھ کے راجہ داہر نے چند مسلمانوں کو پکڑ کر قید کر لیا تھا جس پر امت مسلمہ کی غیرت جاگ اٹھی اور حضرت حجاج بن یوسف جو اپنی رحم دلی اور امت مسلمہ کے ساتھ نرم سلوک کیلئے مشہور تھے انہوں نے حضرت محمد بن قاسم کی سربراہی میں ایک لشکر بھیجا جس نے سندھ کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اسلام کا بول بالا کردیا۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اس زمانے کے تمام مورخ کینہ پرور ہندو تھے لہٰذا انہوں نے راجہ داہر کی بیٹیوں کو خلیفہ کی خدمت میں بطور تحفہ بھجوانے کا ذکر تو کردیا مگر کہیں ان مسلمان قیدیوں کا ذکر نہیں کیا جن کو چھڑانے حضرت محمد بن قاسم یہاں آائے تھے۔ وہ بیچارے زندہ بچے یا مارے گئے؟ اس بارے میں چونکہ تاریخ خاموش ہے لہٰذا آپ بھی خاموش رہیں۔ نیز وہ خزانہ لٹنے اور ہزارہا عورتوں کی عزتیں پامال ہونے والی بات بھی سراسر بہتان ہے۔ اگر آپ کو اس بات پر یقین نہیں ہے تو پاکستان ٹیلیویژن کا شہرہ آفاق ڈرامہ "لبیک" دیکھ لیں جس میں ایسا کچھ نہیں دکھایا گیا ہے۔ اور اگر اکا دکا واقعات ہوبھی گئے ہوں تو جنگ میں اتنا کچھ تو ہو ہی جاتا ہے۔ امریکی افواج نے عراق اور افغانستان میں جو کچھ کیا اس پر تو کبھی شور نہیں اٹھا؟ مسلمانوں کی دفعہ میں ہی سب کو اخلاقیات کا بھوت کیوں سوار ہوجاتا ہے؟


حضرت محمد بن قاسم کی سندھ میں شاندار کامیابیوں اور اسلام پھیلانے جیسی گرانقدر خدمات کے باوجود ان ہندو خواتین کی شکایت پر خلیفۃالمسلمین حضرت سلیمان بن عبدلملک نے انہیں ایک جانور کی کھال میں سلوا کر واپس دمشق بلوالیا۔ وہ کھال اپنی فطرت سے مجبور ہوکر گرمی پاکر سکڑتی رہی اور دمشق پہنچنے تک محمد بن قاسم جس پنچرے میں ڈال کر سندھ سے لےجائے گئے تھے، اس میں سے صرف زنجیریں اور بھوسے کا ڈھیر نکلا۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ خود سمجھ جائیں کہ زندگی کے کسی موڑ پر اگر تاریخ کی کسی کتاب میں یہ واقعہ پڑھنے کو ملے تو آپ گھبرائیں نہیں اور آپ کو یاد رہے کہ یہ افواہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں۔ دوسری اور اہم نصیحت یہ ہے کہ اس واقعے سے ہندوئوں کا ہمارے ہیروز کےخلاف بغض سمجھیں اور حسب توفیق چچ نامہ لکھنے والے قاضی اسماعیل پر چار حروف بھیج کر آگے بڑھ جائیں کہ اگر یہ بات سچ بھی تھی تو مسلمان تو مسلمان کا پردہ رکھتا ہے؟ یہ کون سے مسلمان تھے جنہوں نے اتنے عظیم جھوٹ کو اتنے دھڑلے کے ساتھ چچ نامہ میں جگہ دے کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مکروہ سازش کی؟


پیارے بچوں! ہمیشہ یاد رکھیئے گا کہ آپ کا یہ ملک اور آپ کا یہ دین، ہمیشہ سے ہی کفار کی سازشوں کے نشانے پر رہا ہے۔ جب روائتی طریقوں سے کام نہ چل سکا اور مسلمانوں کا جذبہ ایمانی اس ہی طرح قائم رہا تو کفار نے ایک سازش کے طور پر ہمارے پاک وطن اور پڑوسی ناپاک وطن جو کبھی ہمارے اجداد کی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا، میں مزارات کا ایک جال بچھا دیا اور اپنے کارندوں اور کمزور عقیدہ لوگوں کا ایک ہجوم ان مزارات پر جمع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ برصغیر میں اسلام دراصل ان مزرات میں مدفون بزرگانِ دین کی وجہ سے پھیلا ہے جنہوں نے اپنے کردار سے دنیا کو دکھایا کہ اسلام انسانیت کی بقاء کا ضامن اور سلامتی کا دین ہے۔ اس مذہب میں خلیفہ وقت اور ایک عام آدمی برابر ہوتے ہیں اور ذات، پات، رنگ، نسل کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ اور ان ہی افراد کے کردار سے متاثر ہوکر لوگ جوق در جوق مسلمان ہوتے چلے گئے تھے۔


پیارے بچوں! یہ بات آپ کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ یہ سب محض مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنے کی سازش ہے ورنہ دنیا میں کون سا ایسا کام ہے جو طاقت کے زور پر نہ ہوسکتا ہو اور محبت سے ہوجائے؟ یہ سازش دراصل موہن داس کرم چند گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کو پھیلانے کیلئے ان بزرگوں سے منسوب کی گئی ہیں ورنہ حضرت نظام الدین اپنے وقت کے بہترین تیر انداز اور محمد علی ہجویری ایک ماہر تلوار باز تھے۔ لعل شہباز کے نام سے مشہور جناب عثمان صاحب نے تو کئی جنگیں جیتی تھیں اور عبداللہ شاہ غازی نے تو ویسے ہی اپنے نیزے سے کراچی کے مقام پر سمندر کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔


تاریخِ پاکستان کے موضوع پر واپس آتے ہوئے اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ برصغیر کے مسلمان وقت کے ساتھ جہاد جیسی عظیم چیز کو بھلا بیٹھے تھے اور اس ہی لیئے ہندو ایک بار پھر ان پر مسلط ہوگئے۔ مسلمان محکومی کی اس زندگی سے تنگ تھے مگر اں کی دن رات کی عبادت مقبول ہوئی اور خدا نے اس زمین پر حضرت محمود غزنوی جیسا فرشتہ بھیج دیا۔ محمود غزنوی کو اسلام پھیلانے کا بہت شوق تھا۔ آپ کو جب کبھی اس بات کا علم ہوتا کہ کسی علاقے میں ہندوئوں نے مال جمع کرلیا ہے اور اسے ملت اسلامیہ کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو آپ فورا غزنی سے آکر اس مال اسباب کو اپنے ساتھ لےجاتے تاکہ یہ مال مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کیلئے استعمال ہو۔ آپ نے ہندوستان میں سترہ مرتبہ اسلام پھیلایا۔ اگر کوئی ملک دشمن آپ سے یہ سوال کربیٹھے کہ اگر اسلام ہی پھیلانا تھا تو ایک دفعہ میں ہی رک کر اسلام پھیلاتے یا یہاں اپنا گورنر لگا جاتے جو آپ کی غیر موجودگی میں اسلام کی ترویج پر عمل کرتا؟ تو اس کی باتوں پر چنداں کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا یہ سوال ہی اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ وہ کس حد تک ہندوئوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہے۔ ایسے بندے سے بحث کرنا فضول ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کی شناخت سوشل میڈیا پر ڈال دی جائے تاکہ وقت کے محمود غزنوی اس کے گھر جاکر اسلام پھیلا سکیں۔


محمود غزنوی صاحب کے بعد بھی اللہ تعالٰی نے اس سر زمین پر اپنا خاص کرم رکھا اور ایک کے بعد ایک مسلم خاندان یہاں حکمرانی کرتا رہا۔ ہندو اس زمانے میں بھی حکومت چلانے سے زیادہ حکومت کو کھانے میں راحت محسوس کرتے تھے اور اس ہی لیئے حکومت کو زیادہ تر اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا جو ان کی جگہ خود کفار پر حکومت کرنے کا ثواب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پڑوسی ملک کی فلموں سے متاثرہ لوگ  اسے اکثر محض حکومت کی ہوس، اور مسلمانوں کی باہمی چپقلش سے تعبیر  کرتے ہیں مگر انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ دونوں طرف مسلمانوں کے شیر بچے تھے۔ اب شیر کے بچے آپس میں پنچے نہ چلائیں تو کیا کتے بلیوں کی طرح ایک دوسرے کے منہ چاٹیں؟ اور ویسے بھی حکیم امت کے بقول یہ جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا محض خون گرم رکھنے کا بہانہ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ کل کے لونڈے علامہ اقبال سے تو زیادہ نہیں جانتے ہوں گے نا؟


اس باہمی چپقلش کا اختتام بالآخر خاندانی حکمرانی کے سلسلے پر ہوا۔ برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلم خاندانوں میں سب سے مشہور مغل خاندان تھا۔ آج بھی بہت سارے وہ لوگ جو خود مچھر تک نہیں مار سکتے، مغلوں کی بہادری اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے اپنے نام کے ساتھ مرزا اور بیگ وغیرہ لگا لیتے ہیں کہ عزت کا بھرم رہ جائے اور شہزادے سمجھے جائیں۔


مغل شہنشاہوں میں سب سے مشہور اکبر تھا۔ اکبر کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ پہلے خان آصف کی فلم "مغل اعظم" اور انارکلی تھی مگر حالیہ کچھ عرصے میں اکبر اعظم کہلانے والا یہ عظیم فرمانروا اب جودھا اکبر کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اکبر نے ایک شاندار تخلیقی ذہن پایا تھا اور جدت کو پسند کرتا تھا۔ اس کی اس کمزوری کو بیربل نامی ذات کے تیلی اور مذہب کے ہندو نے بھانپ لیا اور اسے غلط راستوں پر لگا لیا۔ بیربل کی ان حرکتوں کا جواب اللہ محشر میں اس سے لیں گے مگر  دنیا مین انتقام لینے کیلئے ہم نے مملکت اسلامی میں بیربل اور ملا دوپیازہ کی کہانیاں مشہور کرادی ہیں جن میں سے ہر ایک کے اختتام پر بیربل ہی ذلیل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے دشمن اس ہی انجام کے لائق ہیں۔


اکبر اعظم کے بعد جہانگیر عرف شیخو المعروف انار کلی والی سرکار نے مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ ویسے تو آپ بچپن سے ہی ولی عہد تھے اور اکبر کے انتقال پرملال کے بعد آپ نے ہی حکومت کرنی تھی مگر جب جہانگیر کو یہ پتہ چلا کہ اکبر اعظم نے اسے دھوکہ دیکر انارکلی کو دیوار میں چننے کے بجائے اس سے شادی کرلی ہے اور اسے لاہور میں مال روڈ کے قریب ایک گھر لیکر دے دیا ہے تو جہانگیر کو فطری طور پر غصہ آگیا۔ اس غصے اور انارکلی کی بےوفائی پر اٹھنے والے جذبات کو بعض حاسدین نے بغاوت کا بھی نام دیا مگر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی محبت کی ہی نہ ہو۔ اپنی ہی محبوبہ کو والدہ کے روپ میں دیکھنے کا کرب کوئی حضرت جہانگیر سے پوچھے جنہوں نے آگے چل کر تزک جہانگیری لکھنی اور مورخ کو کوڑے مار مار کر عدلِ جہانگیری مشہور کروانا تھا۔


جہانگیر کے مرنے کے بعد شاہجہاں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ شاہ جہاں پیشے کے حساب سے سول انجینئر تھا اور اسے عمارات بنانے کا بہت شوق تھا۔ شاہجہاں ایک اچھا معمار ہونے کے علاوہ مستقبل پر گہری نظر رکھنے والا انسان تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک زمانے میں سیاحت عروج پکڑے گی اور اگر اس نے بھی عمارات تعمیر نہیں کیں تو آنے والے وقتوں میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جس پر ٹکٹ لگا کر پیسے کمائے جاسکیں۔ اس خیال کے آتے ہی شاہجہاں نے ملک بھر میں عمارات کا ایک جال بچھا دیا۔ مغلیہ سلطنت میں ہندوئوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اس نے کئی مندر تعمیر کروائے جو بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے برباد کردیئے تاکہ شاہجہاں پر  رعایا کا خیال رکھنے والے حکمران کے بجائے صرف مسلمانوں کا خیال رکھنے والا حکمران کا الزام لگایا جاسکے۔ پیارے بچوں! زرا خود سوچو کہ جس رحم دل حکمران نے اپنے ہرن کے مرنے پر شیخوپورہ میں ہرن مینار کھڑا کردیا ہو اس نے اپنی اکثریت میں موجود رعایا کیلئے کوئی ایک مندر نہیں بنوایا ہوگا؟ اور اگر نہ بھی بنوایا ہو تو اس میں کوئی ایسا عیب نہیں۔ ہر حکمران اپنے ہی دین کو اپنی حکومت میں پروان چڑھاتا ہے ناکہ مخالف کے دین کو۔ اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ پھر ہمیں چین میں روزہ رکھنے پر پابندی پر بھی نہیں کڑھنا چاہیئے تو یہ جان رکھیئے گا کہ وہ طاغوت کا ایجنٹ اور ہمالہ سے اونچی اور بحر ہند سے گہری پاک چین دوستی خراب کرنا چاہتا ہے۔ ایسے انسان سے بحث تو کیا، سلام دعا بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ شاہجہاں کے بارے میں اگر لکھا جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر آپ تھوڑے کو غنیمت جانیں۔ شاہجہاں کے بارے میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ وہ ایک نہایت رحم دل، محبت کرنے والا انسان اور ایک سچا مسلمان تھا۔ اس کے دل میں رعایا کا بےحد درد تھا۔ بعض روایات میں تو یہ بھی آتا ہے کہ اس کی موت بھی ہارٹ اٹیک سے ہی ہوئی تھی۔ رعایا کیلئے اس کے درد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک مرتبہ اس کی نظر ممتاز محل نامی ایک عورت پر پڑی جس کا شوہر اس کے ساتھ ناروا سلوک رکھتا تھا۔ رعایا کی محبت میں شاہجہاں نے اس عورت کے خاوند کی گردن اڑوادی۔ وہ بیچاری عورت اب آٹھ بچوں کے ساتھ بیوگی کا پہاڑ کیسے کاٹتی؟ شاہجہاں سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں گئی لہٰذا صرف انسانی ہمدردی کے تحت اس نے ممتاز محل سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد شاہجہاں نے اس عورت کو دنیا کی ہر خوشی دی اور اسے کبھی خالی پیٹ نہیں رکھا۔ مورخین کے مطابق شادی کے نو سال میں ان دونوں کے دس مزید بچے پیدا ہوچکے تھے۔ مذکورہ بالا جملے کے بعد شاہجہاں کا ممتاز محل کیلئے بےتحاشہ پیار کسی اور وضاحت کا محتاج نہیں۔ اٹھارہ بچوں کی فوج کھڑی کرنے کے بعد بھی شاہجہاں نے اپنے بیوی کو خالی پیٹ نہ رکھنے کے وعدے کی لاج رکھی جس سے اس کے راسخ العقیدہ مسلمان اور زبان کا پکا انسان ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ممتاز محل مگر اس مرتبہ پیٹ کی کچی نکلیں اور انیسویں بچے کی دفعہ میں مرگئیں۔ شاہجہاں نے ان کے مرنے کے بعد تاج محل بنوایا جو بٹوارے کے وقت جلدی جلدی سامان سمیٹنے کے چکر میں ہندوستان میں ہی رہ گیا۔ اللہ زید حامد کو زندگی دے، کل پرسوں تک انشاءاللہ ہم تاج محل واپس پاکستان لے آئیں گے۔ تاج محل بنانے کے بعد بھی ممتاز  کیلئیے شاہجہاں کی محبت کم نہیں ہوئی تھی لہٰذا صرف اس بیوی کی یاد میں انہوں نے ممتاز کی چھوٹی بہن سے شادی کرلی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس مرتبہ شادی کرنے کیلئے شاہجہاں کو اس کے میاں کو کسی دور کے محاذ جنگ پر نہیں بھیجنا پڑا ہوگا۔


شاہجہاں کے بعد عنان اقتدار حضرت اورنگزیب کے پاس آگئی۔ اورنگزیب عالمگیر اپنے وقت میں ریڈ بل کے برانڈ ایمبیسیڈر تھے اور کسی نیک کام میں تاخیر کے قائل نہیں تھے۔ جب تیس سال گزرنے کے بعد بھی شاہجہاں کی حکومت ختم نہیں ہوئی تو آپ نے بوریت سے تنگ آکر اپنے والد ماجد کو ایک کوٹھڑی میں اللہ اللہ کرنے کیلئے بھیج دیا اور ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں خود اقتدار سنبھال لیا۔ آپ نہایت متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ آپ نے زندگی میں نہ کبھی کوئی نماز چھوڑی نہ اپنے کسی بھائی کو زندہ چھوڑا۔ نمازیں پھر بھی پانچ تھیں جبکہ بھائی سترہ تھے۔ مگر جیسے ہم نے پہلے عرض کیا کہ شیر کے بچے اگر پنچے نہیں ماریں گے تو ۔۔۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اورنگزیب ایک نہایت متقی انسان تھے۔ سلطنت سے ہونے والی تمام آمدنی آپ "مغل ویلفیئر ٹرسٹ" میں جمع کرادیتے تھے اور خود ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتے تھے۔ بعض بد بختوں نے اس تاریخی جملے میں سے لفظ "سی" کو" دے" سے تبدیل کرکے، ٹوپیاں دے کر گزارہ کرتے تھے، کردیا ہے مگر ہم کتنی دفعہ عرض کریں کہ یہ سب محض ایک پروپیگنڈہ اور سوچی سمجھی سازش ہے؟ اورنگزیب جیسا فرشتہ صفت بادشاہ برصغیر میں نہ آیا نہ کبھی آئے گا۔ آپ کے طرزِ حکومت کے قریب اگر کوئی کبھی پہنچ سکا تو وہ صرف جنت مکانی ضیاء الحق صاحب تھے جن کا بیان آپ مطالعہ پاکستان کی کتاب میں ملاحظہ کریں گے۔ امت مسلمہ پر آپ کے احسانات کو یاد کرکے، اور آپکے دور میں شروع ہونے والی نیکیوں کی برکت سے آج بھی روزانہ کسی نہ کسی ماں کی آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ہیں کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان ہر سال ماہِ محرم میں اٹھنے والے فساد کی ابتداء آپ ہی کے مبارک دور میں ہوئی تھی۔


پچاس سال حکومت کرنے کے بعد جب اورنگزیب عالمگیر دنیا سے رخصت ہوئے تو اتحاد بین المسلمین عروج پر تھا۔ شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی سب مل جل کر رہتے تھے۔ مورخین البتہ اس زمانے میں بھنگ کے عادی ہوگئی تھے اور نشے میں الٹی سیدھی باتیں لکھ جایا کرتے تھے۔ اس بھنگ کے نشے ہی کی وجہ سے آپ دربار میں مسلکی بنیادوں پر چپقلش، کاروبارِ ریاست سے بے تعلقی، راگ رنگ کی محافل جیسی چیزوں کے بارے میں سنتے ہیں۔ نیز محمد علی شاہ رنگیلا نامی کردار بھی اس ہی بھنگ کے نشے کی پیداوار ہے ورنہ مسلمان ہمیشہ سے ہی راگ رنگ اور خواتین کے چکروں سے دور رہے ہیں۔ اور یہ تو پھر مغل بچے تھے، جو پیدا ہی تلواروں کے سائے میں ہوتے تھے۔ ان سے اس قسم کی لغو باتیں منسوب کرنا محض کمینگی اور مسلمانوں سے بغض ہے۔ آئندہ آپ سے کوئی پوچھے کہ پھر انگریزوں کی حکومت کیونکر آئی تو انہیں بتا دیجیئے گا کہ مسلمان کی پہچان اس کی سخاوت سے ہے۔ ویسے بھی مغل اب اتنے عرصے حکومت کرکے تھک چکے تھے اور اب گوشہ نشینی کی زندگی چاہتے تھے لہٰذا جیسے ہی انہیں کوئی حکومت کرنے کا اہل طبقہ دکھا، انہوں نے تخت و تاج ترک کے ویرانوں کی راہ لی اور باقی عمر اللہ اللہ کرتے گزار دی۔


مغلوں کے جانے اور انگریز کے آنے کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ جدید مطالعہ پاکستان میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

منگل، 16 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 17

پیاری ڈائری!


طویل غیر حاضری کیلئے معذرت! جی تو بہت کرتا تھا کہ لکھنے بیٹھوں اور تمہیں اپنی روداد سنائوں مگر کیا کرتا کہ مصروفیات نے ایسا گھیرا رکھا تھا کہ بلا مبالغہ سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ یہ مصروفیت بھی کوئی معمولی مصروفیت نہیں تھی۔ دراصل ہوا یہ کہ میں طویل بیروزگاری سے تنگ آچکا تھا اور لکھنے کی عیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا ساری توجہ کام کی تلاش پر مبذول کرکے قلم طاق پر رکھ دیا تھا اور نوکری کی تلاش میں مصروف تھا۔


عرصے کے بعد نوکری ڈھونڈنے نکلا تو احساس ہوا کہ نوکری ڈھونڈنا، آج کل کے معاشرے میں شریف انسان ڈھونڈنے کے بعد سب سے مشکل کام ہے۔ جہاں کہیں بھی گیا، سب لوگوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کسی ایسے انسان کو وہ اپنے ادارے میں جگہ نہیں دے سکتے جس کا دماغ اور زبان ایک ساتھ چلتی ہو۔ خود سوچو، زبان دراز اگر زبان بند رکھنا سیکھ جائے تو زبان دراز کس بات کا؟ اور جہاں تک دماغ نہ چلانے کا تعلق ہے تو مطالعہ نامی بیماری کے بعد سے یہ مردود دماغ ہر چیز میں خودبخود چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بیچارہ زبان دراز جاتا تو کہاں جاتا؟


دوست احباب کو جب پریشانی کا علم ہوا تو اسد بھائی نے مشورہ دیا کہ مرغی کے کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ آنکھیں بند کرکے یہ کام شروع کردو کہ سرمایہ بھی کم ہے اور مرغی کے گوشت کا تو ناغہ بھی نہیں ہوتا۔ دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ انہوں نے کسی جاوید چوہدری صاحب کے کالم میں کہیں پڑھ رکھا ہے کہ مرغی سب سے بے ضرر مخلوق ہے۔ دڑبے میں ہاتھ ڈال کر مرغی کو ذبح کرنے کیلئے نکالو بھی تو باقی مرغیاں، توتے کی طرح کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا شروع ہوجاتی ہیں کہ کسی طرح دوسرے کی باری آجائے اور ہم بچ جائیں۔ دن میں جتنی مرتبہ ضرورت پڑے، پنجرے میں ہاتھ ڈالو اور ایک مرغی کو دبوچ لو۔ یہ ایک ایک کرکے ساری ذبح ہوجائیں گی مگر پلٹ کر کچھ نہیں کہیں گی۔


میں نے بھی دل میں علامہ اقبال سے معذرت کرتے ہوئے سوچا کہ "یوں تو چھوٹی ہے ذات مرغی کی، دل کو لگتی ہے بات مرغی کی"۔ اور دوستوں سے سرمایہ لگا کر ایک مرغی کے گوشت کی دکان کھول لی۔ پچھلے تین دن اس ہی حوالے سے مصروفیت رہی۔ علی بھائی اور جاوید چوہدری صاحب دونوں صحیح کہتے تھے۔ کام کا بھی بےتحاشہ رش تھا اور منافع بھی چوکھا۔


دکان پر اکثر مجھے خیال آتا کہ ٹیلیویژن پر دن رات غربت کے رونے رونے والوں کو میں لاکر کھڑا کروں اور پوچھوں کے غربت کہاں ہے؟ جس ملک کی غربت کا رونا روتے ان کی زبان نہیں تھکتی وہاں لوگ اب بھی 100 فی صد منافع پر بکنے والی چیز تو خرید سکتے ہیں مگر اپنے نفس پر قابو کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ کیا اس ہی کا نام غربت ہے؟۔ میں کس منہ سے انہیں غریب کہوں جب ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے لینے والے ریستوران کا مالک مجھ سے روزانہ سینکڑوں مرغیاں خریدتا ہو؟ طلب اور رسد کا بنیادی قانون یہی بتاتا تھا کہ ہزاروں روپے ایک وقت کے کھانے پر خرچ کرنے والے بے تحاشہ لوگ موجود ہیں تبھی وہ مجھ سے اتنی مرغیاں خریدتا ہے۔ مگر خیر، جانتا ہوں کہ ڈائری اور مرغیاں غیر سیاسی ہوتی ہیں سو اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ بلاوجہ کی نصیحت بھی ایک طرح کی زحمت ہی ہوتی ہے۔


یہ تو ہوا گزشتہ تین دن کا احوال۔ آج مگر ایک عجیب سا سانحہ ہوگیا جس کی وجہ سے مجھے دکان جلدی بند کرکے آنا پڑا۔ جلدی گھر آیا اور وقت بھی میسر ہوگیا تو یہ ڈائری لکھنے بیٹھا ہوا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ آج بھی روز کی طرح گاہک آرہے تھے، مرغیاں کٹ رہی تھیں، گوشت بک رہا تھااور ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔  جب جمال بھائی نے مجھے تین کلو مرغی تولنے کا کہا تو میں نے خوشی خوشی پنجرے میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کے بالکل برخلاف تھا۔ چونکہ ان مرغیوں نے کبھی کسی اخبار کا کالم نہیں پڑھا تھا اور نہ یہ اسد بھائی کو جانتی تھیں لہٰذا انہوں نے روز کے ضابطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میرے اوپر حملہ کردیا۔ ہاں پیاری ڈائری میں جھوٹ نہیں کہتا۔ ان ساری مرغیوں نے ایک بار اکٹھے ہوکر میرے ہتھ پر چونچوں کی بارش کردی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیا۔


پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ پھر میں نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے دوبارہ پنجرے کا دروازہ کھولا اور اپنے کاریگر کو مرغی پکڑنے کا کہا۔ مرغیوں نے نیا ہاتھ دیکھا تو پہلے تو کچھ نہ بولیں۔ مگر جیسے ہی اس غریب نے ایک مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی، تمام مرغیاں کڑکڑاتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ اس پر بھی حملہ آور ہوگئیں۔ میری دفعہ تو پھر بھی خیر رہی تھی، اس غریب کا تو انہوں نے ہاتھ ہی نوچ ڈالا۔


پیاری ڈائری! بھلا خود سوچو! ان مرغیوں کو دانہ دینے والا، میں! انہیں رہنے کیلئے جگہ دینے والا، میں! ان کا خیال رکھنے والا، میں! اور یہ میرے اوپر ہی پنجے جھاڑ کر پل پڑیں؟؟؟ کہاں کا انصاف اور کیسا قانون ہے یہ؟ صدیوں سے مروجہ قانون کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ چپ کر کے ذبح ہوتی رہتیں! اور اگر اتنا ہی مسئلہ تھا تو اپنا ایک وفد اقوام متحدہ میں بھجوا کر قانون میں تبدیلی کرواتیں؟ مگر خدا سمجھے ان قانون شکن مرغیوں کو!


حد تو تب ہوئی جب وہاں کھڑے ہوئے جمال بھائی نے اس سارے منظر کی ویڈیو بنائی اور مرغیوں کے ہاتھوں میری اس شامت پر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں نے جب مرغیوں پر اپنے احسانات اور ان کی احسان فراموشی کا ذکر کیا تو کہنے لگے، میاں! ان مرغیوں کو ذبح کرکے جو پیسے کماتے ہو، اس میں سے چار پیسے اگر واپس ان مرغیوں پر خرچ کردیتے ہو تو کوئی احسان نہیں کردیتے۔ میں آج ہی جاکر اس ویڈیو کو یوٹیوب پر ڈالوں گا کہ سب کو پتہ چل جائے اب اس ملک کی مرغیاں بیدار ہوگئی ہیں۔ بھلا بتائو، یہ بھی کوئی کرنے کی بات تھی؟ عجیب جانور نما انسان ہیں جمال بھائی!!!


وہ تو شکر ہے کہ شہرکو انٹرنیٹ مہیا کرنے والا میرا دوست ہے سو میں نے اس سے کہہ کر ایک کام اچھے وقتوں میں کروالیا تھا۔ اس وقت تو وہ بہت چیخا کہ بھائی یہ تو بے ضرر سی چیز ہے! اسے بند کرنے سے کیا فائدہ ہوجائے گا؟؟مگر آج اس عاقبت نا اندیش دوست کو بھی احساس ہورہا ہوگا کہ میں نے اچھے وقتوں میں ہی کتنا دوراندیش کام کیا تھا۔


پیاری ڈائری! خود سوچو، اگر ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوجاتی تو ہم انسانوں کی ان مرغیوں کے آگے کیا عزت رہ جاتی؟؟؟


والسلام


زبان دراز مرغی فروش

بدھ، 10 ستمبر، 2014

ہیجڑا

اس ہجوم میں پھنسے ہوئے مجھے اب بیس منٹ ہونے کو آرہے تھے مگرٹریفک تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آج دن ہی خراب تھا۔ میرے دفتر کے ساتھی عاطف صاحب جو خیر سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں کے گھپلوں میں ملوث ہیں آج ترقی پاکر مجھ سے اوپر آگئے ہیں۔ ہم دونوں  ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں اور جب ان کی ترقی ہورہی تھی تو ادارے کے ڈائریکٹر نے مجھ سے بھی ان کے بارے میں رائے مانگی تھی کہ گھپلوں کی کچھ اڑتی اڑتی شکایات اس تک بھی پہنچی تھیں۔ میرا دل تو کیا کہ میں سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اگر بات باہر نکلی تو بلاوجہ کی دشمنی ہوجائے گی اور کراچی جیسے شہر میں کسی کا کیا بھروسہ؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی شخص کو معمولی سمجھتے ہوں اور اس کے تعلقات کسی برائے نام کالعدم تنظیم سے ہوں؟ یا پھر وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو جو کل کو آپ سے مخاصمت پال لے؟ میں نے ڈائریکٹر صاحب کو کہہ دیا کہ میں نے عاطف صاحب میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عاطف صاحب نہ صرف اس انکوائری سے باعزت باہر آگئے بلکہ کمپنی نے مزید بزمدگی سے بچنے کیلئے زر تلافی کے طور پر ان کی ترقی وقت سے پہلے ہی کردی۔ آج ہی پتہ چلا ہے کہ اگلے مہینے کی یکم تاریخ سے اب وہ میرے بوس ہونگے۔
صبح صبح یہ خبر سن کر ویسے ہی دماغ کی بتی بجھ گئی تھی اوپر سے جھوٹے منہ عاطف صاحب کو مبارک باد اور ان کے ناکردہ کارناموں کی تعریف بھی کرنی پڑ گئی۔ جب تک لنچ کا ٹائم آتا تب تک میرا موڈ مکمل طور پر خراب ہوچکا تھا۔ لنچ کے دوران سلمان صاحب اور احمد بھائی کے درمیان کی وہی فرقہ وارانہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی کہ دونوں میں سے کس کا مسلک زیادہ مظلوم ہے اور کس نے اب تک زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایک شام میں ہونے والے مظالم پر گریہ کناں تھا تو دوسرے کو بحرین کے مسلمانوں کا غم کھائے جارہا تھا۔ دل تو کیا کہ پوچھ لوں کہ آیا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے آج فجر کی نماز پڑھی ہے؟ پھر مگر خیال آیا کہ یہ ان دونوں کی ذاتی بحث ہے اور ایسے مباحثوں میں پڑ کر سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملنا۔ اگر غلطی سے بھی سلمان صاحب کے حق میں بول دیا تو احمد صاحب ناراض ہوجاتے اور اگر احمد صاحب کی کسی بات کی تائید کردیتا تو سلمان صاحب سے تعلقات منقطع کرنے پڑجاتے۔ بہتری جان کر میں خاموش ہورہا ورنہ دل تو یہ بھی کر رہا تھا ان دونوں کو قرآن کی وہ آیت یاد دلائوں جس میں مالکِ کائنات تمام غیر مسلموں کو یہ پیشکش کررہا ہے کہ آئو ہم تم (کم سے کم) ان باتوں پر متفق ہوجائیں جو ہم میں تم میں یکساں ہیں۔ ایک طرف دین غیر مسلموں سے مشترک چیزیں ڈھونڈ کر ایک جگہ اکٹھا ہونے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف دیندار ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ چیزیں جمع کرتے پھرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ ایک ہی مذہب کے دو مختلف مسالک نہیں بلکہ سراسر دو الگ ادیان ہیں۔ جتنی محنت ہم ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے میں کرتے ہیں اس کی آدھی محنت سے پوری دنیا مسلمان ہوسکتی تھی۔
بحث کے کثیف ماحول میں کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا گیا۔ واپس اپنی میز آگیا اور اس پریزنٹیشن پر کام کرنے لگا جو عاطف صاحب نے باس بننے کی پیشگی قسط کے طور پر میرے متھے مار دی تھی۔ تین گھنٹے کی عرق ریزی کے بعد جاکر وہ پریزنٹیشن تیار ہوہی گئی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ پاورجنریٹر کے زریعے بجلی بحال ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں فائل کو محفوظ کرنا بھول چکا ہوں اور کمپیوٹر مٰیں اب اس فائل کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جس کے پیچھے میں نے اپنی پوری دوپہر کالی کی تھی۔ بال نوچتے ہوئے نئے سرے سے کام کرنا شروع کردیا اور پھر کام ختم کرنے کیلئے دفتر میں بھی دیر تک رکنا پڑا۔
دفتر سے گھر پہنچا تو شدید بھوک لگی تھی۔ کافی عرصے سے گھر والوں کو بھی کھانے پر کہیں باہر نہیں لیکر گیا تھا اور یہ خیال بھی تھا کہ شاید باہر جاکر سب کے ساتھ اس طرح بیٹھ کر کھانے سے پورے دن کی کلفت دور ہوجائے گی۔ میں بیوی بچوں کو لیکر کھانا کھانے آگیا۔ کھانا بہت شاندار تھا اور واقعی سارے دن کی کلفتیں مٹاگیا۔ واپسی میں البتہ یہ ٹریفک ایک مرتبہ پھر میرا منہ چڑا رہا تھا جس میں میں اب گزشتہ بیس منٹ سے پھنسا ہوا تھا اور اگلے بیس منٹ تک بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
جب گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تنگ آگیا تو میں نے اتر کر صورتحال خود دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔  گاڑیوں کی طویل قطار کو عبور کرتا ہوا میں لوگوں کے اس ہجوم میں پہنچ گیا جو گھیرا بنا کر  کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ہجوم کے گھیرے میں ایک وڈیرہ نما انسان شراب کے نشے میں مخمور ایک زنخے کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے اپنی بیش قیمت پجارو میں بٹھانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ اس مریل سے زنخے نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اسے کوسنے دے رہا تھا اور اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا تھا مگر اس وڈیرے پر اس کی چیخ و پکار کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اسے بالوں سے پکڑ کر گاڑی کی جانب گھسیٹتا اور جواب میں وہ زنخا اپنی پوری جان لگا کر زمین سے چمٹنے کی کوشش کرتا اور بالوں کی تکلیف سے بےنیاز گاڑی سے دور جانے کیلئے اپنا پور زور لگا دیتا۔
معاملہ ویسے تو بالکل واضح تھا مگر میں نے ہجوم میں شامل ہونے کی روایت نبھاتے ہوئے برابر میں کھڑے شخص سے معاملہ پوچھا تھا تو اس نے بتایا کہ یہ ملک کے ایک نامور جاگیردار  ہیں جو اس وقت رنگین پانی کے خمار میں رنگین ہوگئے ہین۔   اشارے پر اس زنخے نے ان کے آگے دست سوال دراز کیا تھا اور اس دست سوال کے جواب میں جاگیردار صاحب دست درازی پر اتر آئے ہیں۔ میں  نے معصوم بنتے ہوئے پوچھا کہ کوئی ان صاحب کو روکتا کیوں نہیں؟ کچھ بولتا کیوں نہیں؟ اس شخص نے غصے سے مجھے دیکھا اور بولا کہ اتنی محبت جاگ رہی ہے تو تم روک لو؟ تم بول دو؟ ہم کم سے کم دل سے تو برا جان رہے ہیں اس برائی کو، اور بھلے کمتر سہی مگر یہ بھی ایمان کا ایک درجہ ہے۔ مزید کچھ کہہ کر میں مزید بے عزت نہیں ہونا چاہتا تھا سو میں بھی خاموشی سے ہجوم کے بیچ کھڑا تماشہ دیکھنے لگا۔
جاگیردار اور زنخا دونوں ہی تھک چکے تھے مگر دونوں ہی ہار ماننے کو تیار نہیں تھے، زاویہ الگ تھا مگر بات اب دونوں کی عزت کی تھی سو کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ان دونوں کی زور آزمائی جاری ہی تھی اچانک ہجوم میں ہلچل ہوئی اور ہجوم کو چیرتے ہوئے ایک اور زنخا اپنے ساتھی کی مدد کیلئے میدان میں کود پڑا۔ دو اور ایک کی لڑائی میں فتح دو کی ہی ہوئی اور نئے آنے والے زنخے نے نہ صرف اپنے ساتھی کو چھڑایا بلکہ اس جاگیردار کی بھی طبیعت صاف کردی۔ وہ جاگیردار اچھی خاصی مرمت کروانے کے بعد برے انجام کی دھمکی دیتا ہوا گاڑی میں سوار ہوکر بھاگ گیا۔
ہجوم چھٹنا شروع ہوا تو میں بھی بھاگ کر گاؑڑی میں سوار ہوگیا اور ہجوم کے مکمل چھٹنے کے بعد آہستہ آہستہ ٹریفک کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا۔  جب گاڑی اس اشارے  پر پہنچی جہاں یہ سب فساد ہورہا تھا تو اشارہ ایک بار پھر سرخ ہوگیا۔ میں اشارہ کھلنے کا انتطار کر ہی رہا تھا کہ شیشے پر دستک ہوئی۔ میں نے نظر پھیر کر دیکھا تو باہر سے آنے والا دوسرا زنخا بھیک کا طلب گار تھا۔ میں نے خاموشی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس کا ایک نوٹ اسے نکال کر دے دیا۔ جب وہ جانے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا؟ کل کو وہ جاگیردار اپنے گرگے لیکر آگیا تو؟ تمہارا تو یہ روز کا ٹھکانہ ہے، وہ کسی بھی دن موقع دیکھ کر بدلہ لے لے گا! اس زنخے نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا، صاحب! ڈرنے کیلئے ایک اللہ کی ذات کافی ہے! ان جیسے کتوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر ڈرو گے تو اور بھونکے گا اور اگر پلٹ کر پتھر مارو گے تو دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ روز ہی کسی جاگیردار اور غنڈے سے نمٹتے ہیں، اب کیا ان سے ڈر کر روز مرتے رہیں؟ ایک دفعہ کی تکلیف روز روز کے عذاب سے بہتر ہوتی ہے۔
اشارہ کھل گیا اور وہ زنخا بھی واپس فٹ پاتھ پر جاکر دوبارہ اشارہ بند ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ میں شاید ساری عمر ہی وہاں دم بخود کھڑا رہ جاتا مگر پیچھے سے آنے والے ہارن کے مسلسل شور سے میں چونک گیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گاڑی آگے بڑھی تو پیچھے والی سیٹ سے میرا نو سال کا بیٹا اپنی معلومات کا رعب جھاڑنے کیلئے سوالیہ انداز میں بولا، بابا یہ ہیجڑا تھا نا؟ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سچ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے جواب دیا، بیٹا یہ ہیجڑا نہیں تھا، یہی تو واحد مرد تھا!! ہیجڑے تو ہم ہیں!!!

پیر، 8 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 16

پیاری ڈائری!

انسان فطرتا ناشکرا اور احسان فراموش ہے. ہمیں کسی بهی نعمت اور آسائش کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ چهن نہ جائے.

مجهے تو خیر اس بات کا احساس کل ہی ہوا مگر خیر سے بیگم صاحبہ اول روز سے یہ بات جانتی ہیں اور اس ہی لیئے صبح شام اپنی قربانیوں اور احسانات کو گنواتی رہتی ہیں کہ کہیں غلطی سے بهی میں ان احسانات کو بهول نہ جائوں. خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا کہ بیوی خواہ کتنی ہی فرشتہ صفت مل جائے، اس کی برائی کرنا مرد کا پیدائشی اور بنیادی حق ہوتا ہے. ایسا نہیں کہ مردوں کو برائیاں کرنے کا شوق ہے، بات بس یہ ہے کہ ہم اپنی بیوی کی تعریف کرکے دوسرے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے اور اپنے لیئے زن مرید کا خطاب پانے سے ڈرتے ہیں.

نعمتوں کی یہ قدر ہمیں کل بهی نہ ہوتی اگر کل اخبار کے دفتر سے تهک کر آنے کے بعد ہم وہ بهیانک خواب نہ دیکهتے جس میں ہم نے دنیا کا ایک عجیب ہی نقشہ دیکها. ہم نے دیکها کہ ملک سے اسمبلی، سیاست، آمریت نامی ساری چیزیں ختم ہوگئی ہیں.

ہوا کچه یوں کہ ملک میں انتخابات ہوئے اور بیلٹ پیپر پر غلطی سے "ان میں سے کوئی نہیں" منتخب کرنے کی سہولت دے دی گئی. ساته میں یہ شرط بهی رکه دی گئی کہ اگر کسی حلقے کے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹر اس "ان میں سے کوئی نہیں" پر مہر لگاتے ہیں تو اس حلقے کے تمام امیدوار اس حلقے سے انتخاب لڑنے کیلئے تاحیات نااہل قرار دیئے جائیں گے. انتخابات ہوئے اور ایک ریکارڈ ٹرن آئوٹ کے ساته عوام نے تمام سیاستدانوں کو مسترد کردیا. سیاستدان اس پر تلملائے تو بہت مگر چہرے بدل کر نئے امیدوار کهڑے کر دیئے گئے. نتیجہ اس بار بهی وہی نکلا. اور پهر تیسرے انتخابات تک عوام بیزار ہوچکے تهے سو ایک ریفرنڈم کے زریعے حکومت ٹیکنوکریٹس کے حوالے کردی گئی.

سیاسی جماعتوں کی اب ضرورت نہیں رہی تهی سو ان پر مکمل پابندی لگادی گئی. سیاسی تنظیمیں نہیں رہیں تو سیاسی مباحثے نہیں رہے. وہ تمام دوست احباب جو اپنے سیاسی قائدین کے نام پر اپنی بچپن کی دوستیاں بهلا کر دشمن ہوچکے تهے، اب سیاسی اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ ایک ہوگئے. شیر اور کتا تو سیاسی دور میں ہی ایک ہوچکے تهے، اب شیر اور بکری بهی ایک ہی گهاٹ پر پانی پینے لگے.

دوسری طرف کسی نے پڑوسی دشمن ملک کے بارے میں افواہ اڑا دی کہ اس سے زیادہ خطرہ خود ہمارے ملک کے اندر موجود عناصر سے ہے سو فوج سے دست بستہ گزارش کی گئی اور فوج نے بهی سیاست چهوڑ کر وطن کے دفاع، سیلاب سے نمٹنا، سڑکیں بنانا، ہائوسنگ اتهارٹی اور کهاد کی فیکٹریاں چلانے سمیت اپنے وہ تمام فرائض انجام دینا شروع کردیئے جن کیلئے انہیں رکها گیا تها.

ملک میں یہ سب تبدیلیاں آچکی تهیں اور ان تمام تبدیلیوں کے ساته ساته اخبارات کی دنیا بهی یکسر تبدیل ہوگئی تهی. تمام اخباری تنظیمیں دن رات اب مظاہرے کر رہی تهیں کہ موجودہ سیٹ اپ ان اخبارات کیلئے زہر قاتل اور ان کے خلاف ایک سوچی سمجهی منظم سازش تها. جب سیاسی مباحثے نہ ہوں، فوج کے کردار پر بحث کرنے کو نہ ملے، ملک کی عوام مذہبی منافرت چهوڑ کر یہ سمجه لیں کہ محشر میں یہ نہیں پوچها جائے گا کہ کتنے کافروں کو شہید کیا، تو اخبارات میں چهاپنے کو بچے گا کیا؟ اور جو چهپے گا اسے پڑهے گا کون؟ غضب خدا کا، تصور تو کرو، ہمارے روزنامے کی شہہ سرخی جب یہ ہو کہ "گجرانوالہ میں ایک بهینس زچگی کے دوران ہلاک!" تو اخبار اور میرے مستقبل کا تو اللہ ہی حافظ!

اخبار کی شہ سرخی دیکه کر میرے سینے میں شدید درد اٹها اور درد کی شدت سے میں گهبرا کر اٹه بیٹها. آنکه کهلی تو دیکها کہ صاحبزادی سینے پر چڑه کر چهلانگیں مار رہی ہیں اور درد کی اصل وجہ یہ ہے. میں نے درد کی تکلیف بهلا کر اسے چوم لیا. تکلیف برطرف، میرے لیئے یہی خوشی بہت تهی کہ یہ سب محض ایک خواب تها اور کل پهر میں "اوئے میں تجهے چهوڑوں گا نہیں -فلاں سیاستدان" قسم کی شہ سرخی لگا سکوں گا.

بےشک انسان کو کسی نعمت کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ نعمت اس سے چهن نہ جائے. صبح سے یہی بات دہرا کر میں شکرانے کے نفل پڑه رہا ہوں.

اب اجازت دو کہ میں نے ٹیلیویژن دیکه کر کل کے اخبار کیلئے کوئی چٹپٹی سی شہ سرخی نکالنی ہے.

والسلام

زبان دراز اخبار نویس

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

جهولا

میں تیز قدموں سے اس سرکاری زچہ خانے سے باہر نکل کر آگیا۔ خیر سے تولید کا مرحلہ تو طے ہوگیا تھا مگر اب اصل مرحلہ درپیش تھا۔ مجھے جلد از جلد اس معصوم کو ٹھکانے لگانا تھا جو انجانے میں ایک غلط وقت پر غلط شخص کے گھر پیدا ہوگئی تھی۔

شام کا وقت تھا اور ابھی روشنی تھی سو میں اسے ایدھی یا چھیپا کے جھولے میں نہیں ڈال سکتا تھا کہ کوئی مسلمان اگر مجھے یہ حرکت کرتا دیکھ لیتا تو وہیں مجھے سنگسار کردیا جاتا۔

جهولے کا خیال ترک کر کے میں اسے کچرا کنڈی میں ڈالنے کا سوچنے لگا، مگر کچرا کنڈی میں بچوں کو ڈالنے کیلئے ایک جگر چاہیئے تھا اور اگر میرے اندر اتنا جگر ہوتا تو میں اس معصوم کو پال نہیں لیتا جس کی رگوں میں میرا اپنا خون تھا؟ ویسے بھی میں سن چکا تھا کہ کچرا کنڈی میں ڈالے جانے والے بچے اکثر انسانوں کے ہاتھ لگنے سے پہلے کسی بھوکے جانور کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کا تصور بھی میرے لیئے ہولناک تھا. ویسے بهی مقصد صرف جان چهڑانا نہیں بلکہ اس ننهی کلی کی محفوظ اور بہتر زندگی کی ضمانت تها سو میں نے کچرا کنڈی جانے کے خیال پر لعنت بھیج دی۔ کچھ دیر یونہی کهڑا سوچتا رہا کہ کیا کیا جائےاور پهر میں نے شہر کے ایک مشہور یتیم خانے جانے کا فیصلہ کرلیا۔

میں جب یتیم خانے پہنچا تو وہاں ایک زندگی سے بیزار کرخت صورت عورت نے میرا استقبال کیا۔ میرے ہاتھ میں موجود بچے کو دیکھ کر وہ میرے آنے کی غایت سمجھ گئی اور میرا حلیہ دیکھ کر اسے یہ بهی یقین ہوگیا کہ میں اس یتیم خانے کو اپنا بچہ تو دے سکتا ہوں مگر امداد کے نام پر ایک روپیے کی امید بھی فضول ہوگی۔ کسی قسم کی مہمان نوازی یا گرم جوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لہٰذا میرے بات شروع کرنے سے پہلے ہی اس نے مجھے سنانے کیلئے بڑبڑانا شروع کردیا کہ کس طرح ادارے پر پہلے ہی ہزاروں یتامٰی کا بوجھ پڑا ہوا ہے جبکہ مدد کرنے کیلئے کوئی شخص آگے آنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر ماہ سینکڑوں بچے جمع کروائے جاتے ہیں جبکہ ان بچوں کو گود لینے یا ان کا خرچہ اٹھانے کیلئے کوئی ایک بهی تیار نہیں ہے۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنی میز کی دراز میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی جبکہ میں خاموشی سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے جب یقین ہوگیا کہ اس کی ان باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا اور میں بچے کو یہیں چھوڑ کرجانے کا مصمم ارادہ کرکے بیٹھا ہوا ہوں تو مجبورا وہ میری طرف متوجہ ہوہی گئی۔

آپ نے بچے کو جمع کرانا ہے؟ اس نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے ماں باپ کو کیا ہوا؟ اس نے گھورتے ہوئے دوسرا سوال داغا۔ جی وہ ایک حادثے میں مارے گئے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ اس نے پہلے میری طرف دیکھا اور پھر بچے کی طرف دیکھ کر بولی، تو اس کی ماں مرتے مرتے سڑک پر بچے کو جنم دے گئی؟؟ دیکهو میاں! یہ یتیم خانہ ہے پاگل خانہ نہیں. ہم یہاں لوگوں کے پاپ دھونے نہیں بیٹھے ہیں! جب غلطی کی ہے تو پالو بھی! اور جب پال نہیں سکتے اورسماج سے اتنا ہی ڈر لگتا ہے تو غلطی کرتے ہی کیوں ہو؟ یہ چونچلے پیٹ بھروں پر اچھے لگتے ہیں کہ اگر بچے کو یتیم خانے بھیجنا بھی پڑے تو اس کا خرچ خود اٹھا سکیں۔ انسان کو گناہ بھی اپنی اوقات کے حساب سے کرنا چاہیئے۔ میں اس بچے کو یہاں نہیں لے سکتی مجھے ماں باپ کا موت کا سرٹیفیکیٹ یا پھر چار معززین کی گواہی چاہیئے ہوتی ہے کہ بچہ واقعی یتیم ہے! اگر اتنی ہی گھن آرہی ہے تو جاکر کسی جھولے میں ڈال آئو۔ آگے وہ خود سنبھال لیں گے۔

یتیم خانے سے نکل کر میں سڑکوں پر کچھ دیر یونہی گھومتا رہا اور پھر تھک کر ایک پارک میں جاکر بیٹھ گیا۔ میں نے کپڑا ہٹا کر اسے دیکھا تو وہ معصوم ابھی تک نیند میں ہی تھی۔ اس کی شکل ابھی سے مجھ پر تھی۔ وہی بڑی آنکھیں اور ننھی سی مگر کھڑی ناک۔ زندگی کے زہر کے علاوہ میرے چہرے کی ہر چیز کا عکس اس معصوم پیکر میں موجود تھا۔ بچے تو ہوتے ہی خوبصورت ہیں اور پھر یہ تو میرا اپنا خون تھی، پیار کیسے نہ آتا؟ میں نے بے اختیار اس کے ماتھے کو چوم لیا۔

بیٹیاں شاید پیدائش کے فورا بعد سے ہی باپ سے محبت لینے کا ہنر سیکھ کر آتی ہیں۔ میرے اندر اب ایک شدید احساس گناہ پیدا ہورہا تھا۔ میں نے اس کو سنانے کے بہانے خود کو تسلی دینا شروع کردی کہ، میری بیٹی میں تجھے پالتا ضرور! مگر میں کیا کروں کہ تو جن حالات میں پیدا ہوئی ہے اس میں میرے لیئے تجھے اپنا نام دینا خود تیرے لیئے ساری عمر کا آزار ہوجائے گا۔ تو زندگی میں کچھ بھی بننا چاہے گی تو تیرے باپ کی کمزوریاں تیرے ہی آگے آئیں گی۔ تیرے پیروں کی زنجیر خود تیرے ماں باپ ہوں گے۔ تو ابھی صرف ایک دن کی ہے مگر میں ابھی سے تجھ سے عشق کرتا ہوں۔ گو ہمارا یہ ساتھ صرف ایک دن کا ہی ہے مگر میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ تجھے تیری ساری عمر میں کوئی اتنی محبت نہیں کرے گا جتنی اس ایک دن میں میں نے تجھ سے کی ہے۔ بخدا اگر مجھے ذرا سی بھی امید ہوتی اور کوئی راستہ نکل سکتا تو میں تجھے اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتا۔ تجھے اپناتا، اپنا نام دیتا، تجھے پڑھاتا، لکھاتا، تیری خوشیوں میں شریک ہوتا، تیرے غم کا ساتھی اور سہارا بنتا۔ تجھے جدا کرنا میرے لیئے دنیا کا سب سے مشکل کام ہے مگر بخدا یہ کارِ محال میں صرف تیری بہتری کیلئے کر رہا ہوں۔

میں گھنٹوں اس سے بات کرتا رہا اور اس تولیئے کو بھگوتا رہا جس میں ملفوف وہ ننھی سی جان دنیا اور دنیا کی تمام غلاظتوں اور مصائب سے بےنیاز سونے میں مصروف تھی۔
اندھیرا بڑھ گیا تو میں پارک سے اٹھ کر واپس سڑک پر آگیا۔ پیدل چلتا ہوا چھیپا کے ایک دفتر کے پاس پہنچا جہاں اس وقت نسبتا سناٹا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اس معصوم کو جھولے میں ڈالا اور سرپٹ دور پڑا۔ مجھے ڈر تھا کہ کوئی پیچھے سے آکر مجھے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ یہ جھولا ناجائز بچوں کیلئے ہے۔ شادی شدہ افراد جو اپنے بچوں کو پالنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے ان کا اس جھولے پر کوئی حق نہیں ہے۔ اٹھائو اور لیکر جائو اسے!! پالو اور بھوکا مارو اسے اپنے ساتھ. اسے رکهو اپنے ساته اس دن تک کہ جب تک یا تو یہ مرنہیں جاتی یا اس ملک میں ایسا کوئی جھولا نہیں آجاتا جس میں ان غریب بچوں کو بھی ڈالا جاسکے جن کے ماں باپ کی غلطی سے وہ پیدا تو ہوجاتے ہیں مگر اپنے حصے میں صرف اتنا سا ہی رزق لاتے ہیں جس سے ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہو۔

جب تک پھیپھڑوں نے ساتھ دیا میں دوڑتا گیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب مجھے یقین آگیا کہ اب میرے پیچھے کوئی نہیں آرہا تو میں نے رک کر سانس درست کی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کم سے کم ایک جان کو تو میں نے بهوک اور ذلت کے اس دلدل سے بچا لیا جس میں میں خود برسوں یا شاید صدیوں سے دهنسا ہوا تها. مجهے یقین تها کہ اب اسے پیٹ بهر کهانا بهی ملے گا اور مناسب تعلیم بهی. اسے بڑے ہوکر کسی امیر آدمی کے گهر جهاڑو پونچها کرتے ہوئے غلیظ نظروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا. کیا ہوا جو اس کے پاس باپ کا نام نہیں ہوگا؟ اس کی دوسری چار بہنوں نے باپ کا نام اپنے ساته لگا کر زندگی کا کون سا سکه پا لیا؟

باقی چار بیٹیوں کا خیال آتے ہی میں نے جیب ٹٹول کر یقین کرلیا کہ میری جیب میں ابھی بھی وہ ادھار کے چار سو روپے موجود ہیں جن سے مجھے کھانا اور اپنے اور بیوی بچوں کیلئے نیلا تھوتھا لیکر جانا ہے۔  مجھے پتہ تھا کہ کل ہماری بھی خبر چھپے گی کہ کس طرح ایک سنگدل باپ نے اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کیساتھ زہر کھا کر خودکشی کرلی مگر اس میں میرا کیا قصور کہ روزگار ملتا نہیں ہے اور ہم اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ اب ناجائز کہلا کرکسی جھولے میں بھی نہیں ڈالے جاسکتے؟؟؟

بلاگ فالوورز

آمدورفت