بدھ، 29 جنوری، 2014

تعاقب

ہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی، وہ کانپتی ہوئی اٹھ بیٹھی؛ شکر ہے یہ سب صرف ایک بھیانک خواب تھا

اس کا نام قانتہ تھا۔ وہ چوبیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی جو کراچی کے ایک پوش علاقے میں تنہا رہتی تھی۔ گذشتہ تین سال سے وہ ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی میں بطور "پریزنٹیشن اسپیشلسٹ" اور "میٹنگ فیسیلٹیٹر" کام کر رہی تھی۔ ویسے تو اس کا تعلق اسلام آباد سے تھا مگر کمپنی کا دفتر اور پھر کلائنٹس کی اکثریت کے کراچی میں ہونے کی وجہ سے اسے کراچی میں رہنا پڑ رہا تھا۔  اسلام آباد کے سکون سے کراچی کے شور تک کا سفر اس کیلئے آسان نہ تھا۔ بھیانک خوابوں کا یہ سلسلہ بھی شائد اس کے دماغ ہی کی کوئی سازش تھی تاکہ وہ ڈر کر ہی سہی مگر اپنے شہر کو واپس لوٹ جائے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اس شہر کی پرہنگام زندگی کو اپنا لیا تھا اور اب اسے اسلام آباد کا سکون سناٹے جیسا لگنے لگا تھا۔

زندگی اپنی تمام تر رنگینیوں اور بھرپور رفتار سے رواں دواں تھی جب وہ دن آیا۔ وہ ملک کے ایک بہت بڑے اور معروف ادارے کی سیلز کانفرنس کی میزبانی کر رہی تھی۔ سیلز کانفرنس کی میزبانی ہمیشہ سے اس کیلئے بڑا چیلنج رہا تھا۔ مرد اور ان کی ہوس بھری نگاہوں کی اب تک اسے عادت ہو چکی تھی مگر یہ سیلز والے ہمیشہ اسے اس کی برداشت سے باہر ہو جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ سیلز کے لوگوں کو صرف نمبرز اور کمیشن ہی کی ہوس نہیں ہوتی، ان کی ہوس ایک درجہ اوپر ہوتی ہے اور یہ ہوس صرف ایک چیز کی ہوتی ہے؛ ہر چیز۔ وہ اپنے غصے کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے تھی جب ہال میں وہ نوجوان داخل ہوا۔ وہ ایک تیس یا بتیس سال کا خیرہ کن حسن کا مالک نوجوان تھا۔ لمبا قد، یونانی نقوش، کسرتی جسم اور اس پر سرمئی رنگ کا ارمانی کا سوٹ پہنے ہوئے وہ نوجوان کسی یونانی دیوتا ہی کی طرح پر وقار طریقے سے اس کے سامنے سے ہوتا ہوا آکر سٹیج پر بیٹھ گیا۔

وہ چاہ کر بھی اس کی چہرے سے نظر نہیں ہٹا پا ئی تھی اور شاید نو وارد نے بھی اس کی غیر معمولی توجہ کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا تو وہ ایک لحظہ کیلئے جھینپ سی گئی۔ آنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ اس سیلز کانفرنس کروانے والے ادارے کا مالک اسد نامی جوان تھا۔ پروگرام کے دوران، وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس پر سے توجہ ہٹا نہیں پائی تھی۔ کچھ عجیب سا سحر تھا اس شخص میں، یا پھر وہ آنکھیں، اس نے اس سے پہلے ایسی آنکھیں کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔ اتنے خوبصورت نقوش کے ساتھ ایسی خالی آنکھیں اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔ ان آنکھوں میں زندگی اور جذبات نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔  یوں لگتا تھا جیسے وہ آنکھیں کھول کر سو رہا ہو۔ اس کی آنکھوں کی پہیلی حل کرتے ہوئے اسے انداذہ نہیں ہوا کہ وہ بار بار اس کی آنکھوں میں جھانک رہی ہے اور اسد یہ بات محسوس کر چکا تھا۔

سیلز کانفرنس ختم ہوئی اور وہ اپنی زندگی کی مصروفیات میں دوبارہ مگن ہو گئی تھی جب اچانک وہ ہولناک حادثہ ہوا۔ اس کا منگیتر ایک کار حادثے میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ وہ بہت شدت سے ٹوٹ گئی تھی۔  پہلے پہل تو اس نے خود کو دنیا سے الگ کر دیا تھا۔ سگریٹ کے دھویں میں وہ اپنے غموں کو اڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ جنید جو پچھلے تین سال سے اس کے ساتھ کام کر رہا تھا اس صورتحال سے بہت پریشان تھا۔ وہ قانتہ سے دل و جان سے محبت کرتا تھا مگر اس کے منگنی شدہ ہونے کی وجہ سے اس نے کبھی اس محبت کا اقرار قانتہ سے نہیں کیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ قانتہ زندگی کی طرف واپس آئے اور اس ہی لیئے وہ اب روزانہ اس سے ملنے اور اس کا حوصلہ بندھانے وہ اس سے ملنے آنے لگا۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ اب قانتہ کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ جانے والوں کے پیچھے زندگی ترک نہیں کی جاتی۔ وہ زندگی کی طرف پلٹنا شروع ہو گئی۔ اس نے آفس بھی دوبارہ جوائن کر لیا تھا اور اکثر اس کی شامیں جنید کے ساتھ ساحل پر گذرنے لگیں تھیں۔ وہ دونوں بہت تیزی سے قریب آرہے تھے۔ جنید تو پہلے ہی اس سے محبت کرتا تھا مگر قانتہ کو بھی اب اس کے جذبات کی قدر اور احساس ہو رہا تھا۔ وہ اس دوسری زندگی کے لئے جنید کی مشکور تھی۔

پچھلے کچھ دنوں سے قانتہ کو محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی شخص اس کا مسلسل تعقب کر رہا ہو۔ شروع میں تو اس نے اس کو اپنا وہم سمجھا مگر اس دن جب وہ دفتر سے گھر پہنچی تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر کے دروازے پر ایک لفافہ اس کا منتظر تھا جس میں  درج تحریر نے اس کے اوسان خطا کر دئے۔ یہ کوئی معمولی خط نہیں تھا۔ بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا مگر یہ خط اس نے خون سے تحریر کیا تھا۔ اس نامعلوم شخص نے اسے خبردار کیا تھا کہ احمر بھی محض اس سے تعلق کی بنیاد پر اپنی جان سے گیا تھا اور اگر اس نے جنید سے فاصلہ اختیار نہ کیا یا اس خط کے بارے میں کسی کو بھی اطلاع کی تو جنید اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ قانتہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کتابوں اور افسانوں میں پڑھے ہوئے اس قسم کے نفسیاتی کردار اصل زندگی میں بھی وجود رکھتے ہوں گے۔ اب اس کے سامنے صرف دو راستے تھے۔ یا تو وہ پولیس کو مطلع کرکے جنید کی جان خطرے میں ڈال دے جبکہ محض ایک خط کی بنیاد پر پولیس بھی کوئی کاروائی نہیں کر پاتی کیونکہ احمر کی موت کے تمام چشم دید گواہ پہلے ہی اسے محض ایک حادثہ قرار دے چکے تھے اور یہ خط پولیس کے پاس لے جانے سے بھی نہ احمر کو انصاف مل پاتا نہ جنید کی حفاظت کی کوئی زمہ داری۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اس خط کو محض ایک بھونڈہ مذاق سمجھ کر بھول جائے۔ زندگی بھر فلسفے اور منطق کے درس دینے والے اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں خود ان لیکچرز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے اس خط کو اگنور کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اگلے کچھ دن وہ جان بوجھ کر آفس کے باہر جنید سے ملنے سے کتراتی رہی۔ جنید نے اس تبدیلی کو محسوس کر لیا مگر اس کے بار بار پوچھنے پر قانتہ نے اس سے مصروفیت کا بہانہ کر لیا۔  پہلے اور دوسرے خط کے درمیان چار دن کا وقفہ تھا۔ وہ آفس سے گھر پہنچی تو دروازے پر لفافہ دیکھ کر اس کے جسم سے جان نکل گئی۔ وہ جانتی تھی اس سرخ لفافے میں پھر کوئی طوفان چھپا ہوگا۔ اس نامعلوم شخص نے اس بار پھر سیاہی کو زحمت نہیں دی تھی۔ اس سے بےپناہ محبت کے اظہار کے بعد اس شخص نے قانتہ کا شکریہ ادا کیا تھا کہ وہ جنید سے دور ہوگئی تھی اور اس کو ایک اور قتل کی مشقت سے بچا لیا تھا۔ قانتہ کا اس وقت یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے جنید کا نمبر ملایا اور ایک ہی سانس میں اسے پوری کہانی بیان کردی۔ جنید نے اس کو حوصلہ رکھنے کی تلقین کی اور سیدھا اس سے ملنے گھر پہنچ گیا۔ وہ دونوں کافی دیر تک اس صورتحال اور اس سے نکلنے کے منصوبے سوچتے رہے مگر کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ جنید دوبارہ آنے کا وعدہ اور احتیاط رکھنے کی تاکید کی اور گھر کے لئے نکل گیا۔ اسے کیا خبر تھی کہ یہ اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہو گا۔ گھر کے قریب ایک تیز رفتار گاڑی کی ٹکر نے اس کی موٹر سائکل اور خود اس کے وجود، دونوں کے چیتھڑے اڑا دئے تھے۔

یہ خبر جب قانتہ تک پہنچی تو وہ سکتے میں آگئی۔ اسے معلوم تھا کہ کہیں نہ کہیں احمر اور جنید دونو کی موت کی زمہ دار وہ خود تھی اور یہ سلسلہ ہر اس شخص تک دراز ہو جانا تھا جو اس کی زندگی میں آنے کی کوشش کرتا۔ اس نے ہار ماننے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اب مزید نقصانات اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ہر حرکت پر اس شخص کی نظر تھی سو اس بار اس نے خود اس شخص سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آفس کے لیے نکلتے وقت وہ دروازے پر چٹ لگانا نہیں بھولی تھی کے وہ اس نامعلوم شخص سے ملنا چاہتی تھی اور اگر وہ ملنے کے لئے تیار ہے تو اگلے خط میں اپنی مرضی کی جگہ اور مقام لکھ بھیجے جہاں وہ پہنچ سکے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ شخص اس سے ملنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا اور حسب توقع واپسی پر ایک جوابی لفافہ اس کا منتظر تھا۔ وہ انجان شخص اس سے ملنے کیلئے تیار تھا اور اس نے اسے رات 7 بجے ایک مشہور شاپنگ سینٹر پہنچنے کا کہا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ باقی تفصیلات وہ اسے وہاں پہنچنے پر بتا دےگا۔

 قانتہ نے گھڑی پر نظر ڈالی، اس کے پاس وہاں پہنچنے کیلئے اب صرف آدھا گھنٹہ بچا تھا۔ اس نے وہ تمام خطوط ایک جگہ جمع کیے اور ایک نوٹ لکھ کر گھر سے روانہ ہوگئی۔ اس نے نوٹ میں تمام خطوط کا حوالہ دے کر مینشن کر دیا تھا کے اگر وہ گھر نہ پہنچے تو اس شاپنگ مال کے سی سی ٹی وی کیمراز کی مدد لی جائے تاکہ احمر اور جنید کو انصاف مل سکے۔ گھر سے نکلتے وقت وہ اپنے بیگ میں اس تیز دھار خنجر کو رکھنا نہیں بھولی تھی جو کراچی آتے وقت وہ حالات کی وجہ سے اپنے ساتھ لائی تھی۔ آج شاید پہلی مرتبہ سہی معنوں میں اسے اس خنجر کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ مال میں پہنچ کر وہ حسب ہدایت ایک مشہور فوڈ چین کے باہر جا کھڑی ہوئی۔ اسے وہاں کھڑے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کا موبائل بجا۔ ایک نامعلوم نمبر کو دیکھ کر وہ ٹھٹکی مگر پھر اس نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے ایک بھرائی ہوئی آواز میں ایک شخص نے اس کا مال تک آنے کا شکریہ ادا کیا اور اس کو فون منقطع کیے بغیر دوسرے فلور پر موجود ایک موبائل کمپنی کے دفتر پہنچنے کا کہا ۔ وہ خاموشی سے ایلیویٹر کے زریعے دوسرے فلور پر پہنچ گئی مگر اس سے پہلے کے وہ موبائل کمپنی کے دفتر تک پہنچتی اسے پارکنگ لاٹ میں جانے کا کہہ دیا گیا۔ اس نامعلوم کالر نے اس سے زحمت کیلئے معذرت کی مگر پولیس یا کسی دھوکے سے بچنے کیلئے اس کا یہ کرنا ضروری تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی تمام ہدایات پر عمل کر رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک بار اس شخص سے مل لے اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی اجاڑنے والے سے انتقام لے سکے۔ انتقام ایک ایسی چیز جو شاید ہم میں سے ہر ایک سے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کروا سکتی ہے۔ اس کے پارکنگ لاٹ میں پہنچنے تک اس کالر کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی چال نہیں چل رہی اور یہاں اکیلی آئی ہے۔ پارکنگ لاٹ میں وہ بے مقصد چل رہی تھی جب کالر نے اسے دائیں ہاتھ پر موجود ایک سیاہ گاڑی میں جا کر بیٹھ جانے کو کہا۔ وہ خاموشی سے جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی جہاں اسد اس کا منتظر تھا۔

اس دن سیلز کانفرنس میں اس لڑکی کو دیکھتے ہی اسد اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ اسد ایک کامیاب کاروباری شخصیت کا بیٹا تھا جن اسد کے بچپن میں ہی طلاق ہو گئی تھی۔ ماں اور باپ کی باہمی نفرت کی چکی میں پستے ہوئے نجانے کتنے نفسیاتی عوارض بچپن سے ہی اس کی زات سے جڑ گئے تھے۔ بچپن کی اِن حرکات کو ضد اور اکھڑ پن کا پردہ ڈال کر ماں اور باپ دونو اپنی زمہ داریوں سے دامن چراتے رہے اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ مسائل بھی بڑے ہوتے چلے گئے۔ اسد دماغی اعتبار سے بہت ذہین مگر بلا کا ضدی اور خودسر واقع ہوا تھا۔ بچپن سے ہی اپنی پسندیدہ چیز کا حصول اس کی فطرت بن چکا تھا، چاہے حاصل کرنے کا طریقہ جائز ہو یا ناجائز۔ جو چیز اسے ایک دفعہ پسند آجاتی وہ اسے حاصل کر کے چھوڑتا تھا۔ اور اگر یہ حصول ناممکن ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ چیز کسی اور کو بھی نہ مل پائے۔ اس کی زندگی کی پہلی تین محبتیں جنہوں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا، پر اسرار طریقے سے ہلاک ہو چکی تھیں مگر اس کے شاندار منصوبہ کار دماغ کی وجہ سے پولیس زیادہ سے زیادہ اس پر شک ہی کر پائی تھی۔ چوری اگر پکڑی نہ جائے تو یہ بھی ایک فن ہے۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا تھا۔ قانتہ اس کی چوتھی محبت تھی اور وہ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک بار اس سے مل کر اس کو سمجھائے کہ وہ کن چھوٹے اور عام لوگو میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے جبکہ وہ اس جیسے زہین، خوبصورت، دولتمند اور کامیاب نوجوان کی ساتھی بن سکتی تھی۔ اس کام کیلئے راستے سے اس کے منگیتر کا ہٹنا سب سے زیادہ ضروری تھا کیونکہ اسد جانتا تھا کہ عورت کتنا بھی پڑھ لکھ جائے عورت ہی ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ دماغ جیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر دل جیسی بیکار چیز کو اہمیت دیتی ہے اور اگر ایک بار کسی سے منسوب ہو جائے تو اپنے تمام تر جذبات اس ہی سے منسوب کر دیتی ہے۔ آج اس کی راہ کے تمام کانٹے ہٹ چکے تھے اور آخر کار وہ دن آ گیا تھا جب قانتہ اس سے ملنے آگئی تھی۔

گاڑی میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ قانتہ جلدبازی میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی اور اسد فی الوقت اپنی کامیابی کے نشے میں چور تھا۔ گا ڑی اب شہر کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی اور تیزی سے اسد کے پینٹ ہائوس کی طرف رواں تھی جو اس نے آج کے دن کے حساب سے خصوصی طور پر مزین کروایا تھا۔ گا ڑی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی پینٹ ہائوس پر جا کر رک گئی۔ اسد نے خود اتر کر قانتہ کیلئے دروازہ کھولا اور اسے اندر لے آیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی جو منظر قانتہ کے سامنے آیا وہ اس کے وہم و گمان سے ماورا تھا۔ اس گھر کی ہر دیوار اور ہر کونا اس کی تصاویر سے مزین تھا۔ اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے، ہنستے، بولتے، کھاتے، پیتے، غرض اس کی ہر انداز اور ہر ادا کو کیمرے کی آنکھ سے لے کر اس گھر کی دیواروں پر منتقل کر دیا تھا۔ قانتہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی چاہی اور سراہی گئی تھی مگر اس شدت اور اس جنون کی چاہت کا تو خود اس نے بھی تصور تک نہیں کیا تھا۔ میں آپ کی خاطر کسی کی جان لے سکتا ہوں تو اپنی جان دے بھی سکتا ہوں، اسد کی آواز اسے کانوں سے زیادہ دل سے سنائی دے رہی تھی۔ "تم یہاں شکار ہونے نہیں بلکہ شکار کرنے آئی ہو" اس سے پہلے کہ وہ مکمل طور پر کمزور پڑ جاتی  اس نے خود کو سمجھایا مگر اب دل اور دماغ میں ایک عجیب کشمکش شروع ہو گئی تھی۔

اسد نے اسے ہال میں بٹھایا اور خود کچن کی جانب بڑھ گیا۔ قانتہ نے بیگ سے چاقو نکالا اور دبے قدمو اس کے پیچھے کچن میں جا پہنچی۔ اسد کھڑا سنک پر چائے کیلئے برتن کھنگال رہا تھا۔ قانتہ کے دل و دماغ کی جنگ شدت پکڑ چکی تھی۔ دماغ نے یاد دلایا کہ اس ہی شخص کی وجہ سے تم اپنی زندگی کے قیمتی ترین لوگو کو کھو بیٹھی ہو، اسے مار ڈالو، تو دل نے بے اختیار صدا دی کہ چاہا جانا اور اس شدت سے چاہا جانا تمہارا ہمیشہ سے خواب رہا ہے، ایسے عاشق نصیب والو کو ہی ملتے ہیں اس کو اپنے گذرے ہوئے کل کی وجہ سے جانے نہ دو ۔ قانتہ خنجر ہاتھ میں لئے اس ہی کشمکش میں الجھ رہی تھی کہ اسے احساس ہوا کہ سردی بہت شدید ہو رہی ہے۔ وہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی، وہ کانپتی ہوئی اٹھ بیٹھی؛ شکر ہے یہ سب صرف ایک بھیانک خواب تھا

سید عاطف علی
20- جنوری-2014

بدھ، 15 جنوری، 2014

افسانہ


مختصر سی یہ اک کہانی ہے
اپنی محرومیوں کا قصہ ہے

اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہمدم
سب ۔۔ پرانے، سنے سے قصے ہیں
جاودانی تھا عشق، خستہ دل۔۔
خیر کہنے سے اب ہے کیا حاصل؟

مختصر سی یہ اک کہانی ہے
اپنی محرومیوں کا قصہ ہے

ضربت عشق سہہ نہیں پایا
دل تھا کمزور، ضبط کھو بیٹھا
جاودانی تھا عشق، زندہ ہے
اور شاعر نے خودکشی کرلی۔

سید عاطف علی
14-جنوری-2014

جمعرات، 2 جنوری، 2014

The Divine Peace

Note 1: I swear upon Lord Devil that despite having references from Qur’an this is not about how to be a good or practicing Muslim. Nor this would ask you to offer Prayers or Pay your charity. Relax and Enjoy

Note 2: I intended to write a blog but on the course of writing I realized that it would be an injustice to the topic if I summarize this just for the sake of summarizing. The topic demanded more than just a blog and hence I have opted to write a book on this. Enjoy this prologue.

 

Image

The Divine Peace

It was not until last night that this verse of Quran revealed its brightest of aspect to me. Like any other Muslim I had heard this famous verse in the Muslim weddings, `؛ وخلقناکم ازواجاAnd We have created everything in pairs’ but it was never to be considered of importance. They said, “If you want to completely ignore something, put it in the syllabus”, well said.

It was just another restless night and the virtual world that I had created as rendezvous for likeminded crazy souls, was as deserted as the soul I bear within. Being bored of being bored is the most boring thing for me. And it was one of those nights when you are actually bored of being bored. Surfing through internet I came across a meme which read, ‘Google is the biggest search engine and it knows the whereabouts of almost everything’. So I searched for Peace as this was the most desirable and dearest thing that was missing in life. Google had so many answers for this single word query. I have always had these two confusions spoiling my life. Either, when I don’t get an answer or when I have more than two answers to choose from.

As I have always been doing in life, I made a random click out of the options displayed on my computer screen and it took me to a discussion forum. It had a question posted by a user which truly represented my situation. The questioner had sought help in acquiring the peace that was missing in his life and the panel experts had responded to him with a detailed answered starting with the Famous Quran verse of “Truly, it is by the Remembrance of Allah that hearts find rest." [Qur'an, 13.28]”. Unfortunately this only increased my misery as I had been offering my prayers, had not been rigid with his creations, had always tried to be thankful, had been to his house in Mecca and yet I was stranded in search of peace. Something was terribly mistaken about the translation of this verse. It couldn’t be just calling his name that would bring me to peace; it has to be something more than that. Peace for me is like paradise; (or maybe it would only be a paradise because it would give you a divine peace). And things of that caliber don’t come so cheap. It can’t be earned through chanting some holy names (irrespective if it is Om or Allah Ho).

The next weeks to come were very disturbing. I have this annoying habit of keeping my mind focused on something until I get a satisfactory answer for it. At times it is good but at the others it gets terrible. I was in a continuous cycle of thinking, evaluating, discarding and rethinking the probable meaning of that key to divine peace and then it came to me that it might mean that somewhere in the words of God lays the key to divine peace and I have to look beyond this verse and into the complete book.

What happened in this journey, what was the key to divine peace, did I manage to get that? Stay tuned for the book :)

بلاگ فالوورز

آمدورفت