ہفتہ، 27 دسمبر، 2014

خواہش

مسافر ہوں، سفر ہے خواب میرا!
سفر ہی زندگی کی آرزو ہے!

مگر یہ تو پرانی گفتگو ہے ...

اور اب کچھ بات یوں ہے اے عزیزم!

سفر ہے دائروں کا مدتوں سے
میں گرتا، پڑتا، چلتا جا رہا ہوں

اذیت کے سفر میں اے عزیزم ...
میرا احوال یہ ہے اے عزیزم ....

کئی مدت سے گر کر تهک چکا ہوں!
روایت اب بدلنا چاہتا ہوں ...
میں بس اب تهک کے گرنا چاہتا ہوں ...

سنو! میں تم سے کہنا چاہتا ہوں
میں اب کچھ دیر سونا چاہتا ہوں

سید عاطف علی

بدھ، 17 دسمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - سانحۃ پشاور

پیاری ڈائریً!


تم شاید سمجھ رہی ہوگی کہ میں خود کو بڑا ادیب سمجھنے لگا ہوں اس لیئے لکھنا کم کردیا ہے۔ یا شاید تم نے سوچا ہوگا کہ چونکہ مجھے اس ڈائری کو لکھنے کے کوئی پیسے نہیں ملتے اس وجہ سے میں نے تم سے باتیں کرنا چھوڑ دی ہیں۔ مگر یقین جانو یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ تم شاید بھول بیٹھی ہو کہ میں قومیت کے اعتبار سے پاکستانی ہوں اور محض واقعات و سانحات پر چند لمحات کیلئے زندہ ہوتا ہوں ورنہ ہماری نیم مردہ زندگی تو اصحابِ کہف کی نیند کو پہنچنے لگی ہے۔ تو لکھنے کیلئے زندہ ہونا اور زندہ ہونے کیلئے کوئی سانحہ ضروری ہوتا ہے۔ سو آج ایک سانحہ سا ہوگیا ہے جس نے تمہارے زبان دراز کے مردہ جسم میں کچھ دیر کو روح پھونک دی ہے اور اس کچھ دیر کی مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے قلم اٹھایا اور تمہارے پاس آگیا۔


اب تم سوچ رہی ہوگی کہ اتنی لمبی تمہید کیوں؟ اور مجھے یقین ہے کہ تم یہ بھی جاننا چاہتی ہو کہ آج ایسا کیا ہوگیا ہے کہ میاں زبان دراز پھر ڈائری کھول کر بیٹھ گئےہیں؟ تو سنو! تم تو جانتی ہو کہ میں اب ایک مشہور آدمی ہوں اور مجھے دن رات لفافے موصول ہوتے رہتے ہیں۔ جی نہیں! میری مراد وہ مروجہ محاورے والے لفافے نہیں بلکہ خطوط کے لفافے ہیں۔ کبھی کوئی اپنی ناکام محبت کی داستان لکھوانا چاہ رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی کو اپنی ڈرامائی زندگی پر ٹیلیویژن کا ڈرامہ لکھوانا ہوتا ہے۔ اب تو میں نے ایک مستقل مسودہ تیار کر لیا ہے اور جوابی خط کے طور پر وہی مسودہ نقل کرکے بھیج دیتا ہوں۔ آج مگر مجھے ایک بہت عجیب سا خط ملا ہے۔ یہ نہ تو ناکام محبت کی داستان ہے نہ تباہ حال جوانی کا احوال۔ یہ خط کسی بچے نے لکھ بھیجا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ عالمِ بالا میں موجود ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہا کہ اس خط کا کیا جواب دوں۔ پھر سوچا کہ تمہیں بھی یہ خط سنائوں، ہو سکتا ہے تم کوئی جواب تجویز کردو۔ سو یہ خط ملاحظہ کرو اور میری مدد کرو۔


پیارے انکل


السلام علیکم! مجھے پتہ ہے کہ آپ اچھے حال میں ہیں اور میں اللہ میاں سے دعا کرتا ہوں کہ آپ سدا اچھے حال میں ہی رہیں۔ میرا نام ۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔ مگر مجھے یہ یاد ہے کہ آج صبح تک میرا بہت اچھا سا نام ہوا کرتا تھا۔ وہ اچھا سا نام کیا تھا مجھے یاد نہیں، ہاں کل کے اخبار میں جب فہرست چھپے گی تو میں اس میں سے دیکھ کر آپ کو ضرور بتائوں گا۔ اللہ کا پکا والا وعدہ!


آپ پریشان ہو رہے ہونگے کہ میں نے آپ کو خط کیوں لکھا ہے؟ جب آپ مجھے جانتے تک نہیں ہیں اور آپ کو کیا، خود مجھے بھی اپنا نام تک یاد نہیں، تو میں آپ سے کیوں مخاطب ہوں؟ تو انکل بات یہ ہے کہ مجھے ابھی قائد اعظم انکل ملے تھے ۔ وہ ہم سب بچوں کو یہاں لینے کیلئے آئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اپنے امی ابو تک کچھ باتیں پہنچانا چاہتا ہوں تو انہوں نے مجھے آپ کا پتہ بتا دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بھی پہلے آپ کو خطوط لکھتے رہے ہیں۔ اور آپ کی تحاریر تو اخبار میں بھی چھپتی ہیں، تو میں نے سوچا کہ میں آپ کو خط لکھوں تو شاید آپ میرا پیغام اخبار میں چھاپ دیں اور میرے امی ابو تک میرا پیغام پہنچ جائے۔ مجھے امید ہے آپ میرے لیئے یہ کام کر دیں گے۔ کرٰیں گے نا؟


افوہ! میں بھی کن باتوں میں لگ گیا۔ آپ کے سوالات ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں اور میں اپنی فرمائشیں لیکر بیٹھ گیا ہوں۔ مگر میں نے آج تک کسی کو خط نہیں لکھا نا ۔۔۔ شاید اس لیئے مجھے صحیح سے خط لکھنا بھی نہیں آتا۔ اردو کے ٹیچر نے اگر یہ خط دیکھ لیا تو بہت غصہ ہوں گے۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ انسان اپنی تحریر اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ اور میں آپ کو ایک مزے کی بات بتائوں؟ مجھے گفتار کا مطلب ہی نہیں پتہ ۔۔۔۔ مگر آپ یہ بات اردو کے ٹیچر کو نہیں بتائیے گا۔ میں ہمیشہ ان کی بات سن کر ایسے سر ہلاتا تھا جیسے ساری بات سمجھ میں آگئی ہو۔ انہیں پتہ چلے گا کہ اتنے عرصے سے میں انہیں الو بنا رہا تھا تو وہ بہت خفا ہوں گے۔


تو انکل میں آپ کو بتارہا تھا کہ میرا نام ۔۔۔۔ مگر مجھے تو اپنا نام یاد ہی نہیں ہے؟ مجھے تو بس یہ یاد ہے کہ میں آج اپنے اسکول میں تھا اور کلاس میں دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر لات پڑی اور دو انکل کلاس میں گھس آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ پھر انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس کے فوراُ بعد مجھے ایسا لگا کہ کوئی کھولتی ہوئی چیز میرے پیٹ کو پھاڑتی ہوئی میرے جسم میں گھس گئی۔ مجھے لگا کہ جیسے میرے پورے جسم میں آگ لگ گئی ہو۔ مگر میں رویا نہیں۔ اگر آپ میرا خط اخبار میں چھاپیں تو امی کو بتا دیجئے گا کہ میں ان کا بہادر بیٹا تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ بہادر بچے چوٹ لگنے پر روتے نہیں ہیں۔ تو میں کیسے رو سکتا تھا؟ میں تو امی کا بہادر بیٹا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں بہت زور سے روئوں مگر میں چپ رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے جسم سے بہت سارا خون بہہ رہا تھا۔ میرا سارا یونیفارم بھی سرخ ہوگیا تھا۔ میں نے ہاتھ سے یونیفارم صاف کرنے کی کوشش کی مگر وہ صاف ہی نہیں ہوا۔ امی کو بولیئے گا کہ وہ غصہ نہ ہوں۔ میں اللہ میاں سے کہوں گا کہ وہ ہمارے گھر کے حالات بہتر کردیں اور امی گھر میں کام کرنے والی کوئی مددگار رکھ لیں۔ پھر امی کو میرا یونیفارم دھونے کیلئے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ نیلے نہیں کرنے پڑیں گے۔ تو انکل پھر آپ کو پتہ ہے کیا ہوا؟ مگر یہ تو مجھے بھی نہیں یاد کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اس شدید ترین اذیت کے بعد میں بہت تھک گیا تھا اس لیئے میں وہیں سو گیا۔ آنکھ کھلی تو ہم سب کلاس کے بچے نئے کپڑے پہن کر یہاں موجود تھے۔ بہت سارے پیارے پیارے لوگ ہم سے ملنے کیلئے بھی آرہے تھے۔ میں نے یہیں قائد اعظم کو بھی دیکھا۔ تصویر میں تو وہ اتنے دبلے پتلے دکھتے ہیں مگر یہاں تو وہ اتنے صحت مند ہیں۔ پہلے تو میں انہیں پہچانا ہی نہیں۔ پھر مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ یہ قائد اعظم محمد علی جناح ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہے انکل؟ ہم اسکول میں سنتے تھے قائداعظم بہت بہادر انسان تھے مگر یہاں آکر میں نے خود دیکھا، قائد اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ شیم شیم!!


ابو کہتے تھے کہ بڑوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے اس لیئے میں نے ان کے سامنے کچھ نہیں کہا۔ بعد میں ہم سارے دوست مل کر اتنا ہنسے ان پر۔ بیچارے قائد اعظم۔ ارے ابو سے یاد آیا مجھے ابو کو بھی سلام بولنا تھا۔ آپ میرے ابو کو جانتے ہیں؟ مگر آپ میرے ابو کو کیسے جان سکتے ہیں؟ میرے ابو کو تو صرف وہی جان سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو مٹی کے نیچے دفن ہوتے دیکھا ہو۔ مگر یہ تو بڑوں والی بات ہوگئی۔ ابو کہتے تھے بچوں کو اپنی عمر کے حساب سے باتیں کرنی چاہیئیں۔ سوری ابو! آپ کی اگر میرے ابو سے بات ہو تو انہیں یہ مت بتائیے گا کہ میرے پیٹ میں گولی لگی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ایک دفعہ میں سیڑھیوں سے گر کر اپنا سر پھاڑ بیٹھا تھا۔ اس وقت گھر میں گاڑی نہیں تھی تو ابو مجھے پیدل ہی اٹھا کر چار کلومیٹر دور ہسپتال بھاگے تھے۔ بغیر رکے۔ میرے ابو بہت اچھے ایتھلیٹ ہیں۔ وہ روزانہ صبح دوڑنے باغ میں جاتے ہیں اور بغیر ہانپے میدان کے کئی چکر لگا لیتے ہیں۔ مجھے اتنی ہنسی آتی تھی جب وہ کہتے تھے کہ میں ان کا سہارا ہوں۔ بھلا بتائیں، ابو کو سہارے کی کیا ضرورت؟ وہ تو خود اتنے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اس دن جب میرا سر پھٹا تھا تو ابو نے دفتر سے چھٹی لے لی تھی۔ جب تک میں بستر پر رہا، ابو میری چارپائی کے سرہانے لگے بیٹھے رہے۔ انہیں میری تکلیف کا پتہ چلے گا تو وہ بہت اداس ہوں گے۔ میں ابو سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ میری وجہ سے اداس ہوں۔ آپ نہیں بتائیں گے نا؟؟


اور آخری بات مجھے آپ سے کرنی ہے۔ نجانے کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ جب میرے جانے کی خبر ٹیلیویژن پر آئے گی تو ملک بھر میں کہرام مچ جائے گا۔ سب لوگ مجھے مارنے والوں کو گالیاں دیں گے۔ احتجاج کیا جائے گا۔ میری یاد میں شمعیں روشن ہوں گی۔ آپ بھی ایسے ہی کسی پروگرام میں شریک ہوکر اپنا فرض ادا کریں گے اور اس کے بعد اگلے بچے کے مرنے تک مکمل خاموشی پھیل جائے گی۔ پیارے انکل! میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے نہیں جانتے! مگر نجانے کیوں میرا دل کر رہا ہے کہ میں آپ سے ایک ننھی سی فرمائش کردوں۔ کیا آپ میرے لیئے اتنا کر سکتے ہیں کہ کل خواہ کسی احتجاجی جلوس میں جائیں یا نہ جائیں، مگر مجھ اور میرے جیسے ایک سو تیس بچوں کیلئے ایک کام کردیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا دشمن اپنے ارادے میں کامیاب ہو! اس نے صرف میری جان نہیں لی، اس نے میرے پیارے پاکستان کو ایک سو تیس ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدانوں، فنکاروں، کھلاڑیوں سے محروم کردیا ہے جنہوں نے آگے چل کر پاکستان کا نام روشن کرنا تھا۔ کیا آپ کل کے احتجاج کیلئے استعمال ہونے والا پیٹرول، پلے کارڈ، موم بتی، وغیرہ کے پیسے بچا کر، پورے پاکستان میں کہیں بھی، کسی بھی ایک، صرف ایک بچے کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ اٹھا سکتے ہیں؟ پلیز؟ پلیز؟ پلیز؟


والسلام


پیاری ڈائری! اب تم ہی بتائو کہ میں کیا جواب دوں؟




[caption id="attachment_622" align="aligncenter" width="492"]They went to school and never came back They went to school and never came back[/caption]

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

کراچی نامہ

پیارے بچوں! تفریق کے جس سفر پر ہم لوگ مسلسل گامزن ہیں اس کے لازمی نتیجے میں ایک دن مطالعہ پاکستان ایک اختیاری مضمون ہوجائے گا جبکہ مطالعۃِ صوبہ اور پھر مطالعہ شہر لازمی قرار دیئے جائیں گے۔ مستقبل کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے ابھی سے مطالعہ کراچی پر یہ مضمون لکھ مارا ہے۔ اگر حالات اس ہی نہج پر چلتے رہے تو بہت جلد ہم مطالعہ کلفٹن، مطالعہ ناظم آباد اور مطالعہ گلشن و جوہر بھی آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے۔ فی الحال مطالعہ کراچی پڑھیئے اور پڑھنے کے بعد جو ملے اس کا سر دھنیئے۔


 تاریخ:


ویسے تو کراچی ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو ایک دن صرف تاریخ ہی کا حصہ رہ جائے گا مگر مطبوعہ تاریخ میں کراچی کا سب سے پہلے بیان سکندر اعظم کے حوالے سے آتا ہے جو ایک عظیم یونانی بادشاہ تھے اور کسی بھی عظیم بادشاہ کی طرح بلا کے لڑاکے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ آپ احباب کی سہولت کیلئے ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ یہ بیان ان ہی سکندرِ اعظم کا ہے جنہیں اردو میں الیگزینڈر دا گریٹ کہتے ہیں۔ نیز آپ لوگوں کی سہولت کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے آئندہ اگر کوئی آپ سے نئی نسل کے تشدد پسند ہونے کا شکوہ کرے تو انہیں یاد دلادیجئے گا کہ تاریخ انسانی کے کم و بیش تمام بڑے انسان وہی تھے جو نہایت غصیلے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ سو اگر نئی نسل بھی اجداد کے نقشِ قدم پر چل کر پچیس تیس ہزار انسانی جانیں لیکر تاریخ کے صفحات میں امر ہونا چاہتی ہے تو اس میں قصور ان بیچاروں کا نہیں بلکہ تاریخ دانوں کا ہے۔ مگر خیر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور فلسفے کی گفتگو محض چائے کے ہوٹل یا محلے کے چوباروں پر اچھی لگتی ہے۔ مصنفین کو فلسفے جیسی مکروہات، کتب میں نقل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سکندر اعظم کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ہم نہایت خوشی سے یہ بیان کرنا چاہیں گے کہ کراچی میں موجود منوڑہ کا جزیرہ ہزاروں سال پہلے سکندر اعظم کی میزبانی کا شرف بھی اٹھا چکا ہے۔ مگر اس زمانے میں چونکہ یہ شہر بلوچ آبادی کی اکثریت رکھتا تھا لہٰذا سکندر اعظم نے یہاں زیادہ عرصہ قیام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر کو اس وقت بھی یہاں سندھی آبادی ہوتی تو بیچارہ گھوڑوں اور خچروں کا سواری کے علاوہ بھی ایک اور استعمال سیکھ جاتا جس سے اس کے لشکر میں پھوٹ نہ پڑتی کہ سپاہیوں کو گھر کی اس حد تک یاد نہ ستاتی۔ مگر خیر، ہونی شدنی! سکندر اعظم نے منوڑہ سے کوچ کیا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے اور کھیوڑہ میں نمک کی کان دریافت کرنے کے بعد بابل چلے گئے اور مرکھپ گئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سکندر نے صرف نمک دریافت کیا تھا، اس نمک میں آئیوڈین ہم نے خود دریافت کیا ہے لہٰذا کھیوڑہ کی آئیوڈین ملے نمک کی کانیں اب پاکستانی قوم کی دریافت کہلانی چاہیئیں۔


بعض مورخین جو کراچی کے بچپن سے ہی ملٹی نیشنل ہونے سے جلتے آئے ہیں اور اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، نے یہ بھی لکھا ہے یہ شہر مائی کولاچی نے آباد کیا تھا جن کا تعلق پڑوسی ملک، معذرت، صوبے بلوچستان کے شہر مکران سے تھا۔ یہ بات مگر بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کراچی جیسے اردو دان شہر میں بھی کبھی چی ڑے کی صدائیں بلند ہوا کرتی ہوں گی۔ مگر بعض مورخین مائی کولاچی والے واقعے کی توجیح اس بات سے بھی پیش کرتے ہیں کہ اردو زبان میں پکوڑے کا لفظ بھی ان ہی بلوچوں سے مستعار لیا گیا تھا جو بیسن کو تل کر کھاتے تھے اور جب اسے تلنے میں دیر لگتی تو پکو ڑے پکو ڑے کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے اطمینان کیلئے یہ بات بہت ہے کہ مکران سے ہی سہی، مگر مائی کولاچی ہجرت کرکے اس شہر میں آئی تھیں اور اس حساب سے اس شہر کی بنیاد ایک مہاجر نے ہی رکھی تھی۔


تاریخ میں کراچی مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے جن میں سب سے مشہور، مغل راج، برٹش راج، پاکستانی حکومت اور پھر اس کے بعد باپ کا راج اور چوپٹ راج وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل کراچی باقی پاکستان کی طرح چوپٹ راج اور باپ کے راج والے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر یہ مضمون آپ اردو رسم الخط میں بذات خود پڑھ رہے ہیں تو اس بارے میں مزید بیان کرنا صرف آپ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا جبکہ اگر یہ مضمون آپ اپنے کسی بوڑھے ملازم سے پڑھوا کر سن رہے ہیں تو تسلی رکھیئے اور باپ کے راج اور چوپٹ راج کے فیوض و برکات دونو ہاتھوں سے سمیٹتے رہیئے۔


جغرافیہ:


کراچی کے مغرب میں سمندر، شمال میں پہاڑیاں (کٹی اور ثابت دونوں)، جنوب میں بے تحاشہ آبادی، اور مشرق میں بحریہ ٹائون واقع ہے۔ کراچی بنیادی طور پر ایک میدانی علاقہ ہے اور اس شہر کی زمین اور خواتین دونوں ساخت کے حساب سے ہموار واقع ہوئی ہیں۔ کراچی کے ساتھ بحیرہ عرب کا ایک وسیع ساحل موجود ہے جو شادی زدہ جوڑوں کی سہولت کیلئے رکھا گیا ہے۔ کراچی کی نوے فیصد آبادی شادی کے فوراٗ بعد رومان کو بڑھانے، جبکہ شادی کے دوسرے سال کے بعد ہر سال شریک حیات کو ڈبونے کی کوشش کرنے کیلئے ان ہی ساحلوں کا رخ کرتی ہے۔


موسم:


کراچی ایک کاسموپولیٹن اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہاں کی عوام کسی بھی قسم کی لوکل چیز پسند نہیں کرتی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بائیس ملین کی آبادی کے اس شہر پر حکومت کرنے کیلئے وہ شخص امپورٹ کیا جاتا ہے جسے کراچی کے باہر کے بیس ملین رائے دہندگان نے چنا ہوتا ہے۔ امپورٹد چیزوں سے یہ محبت صرف کارِ سرکار تک محدود نہیں اور ہر ضرورتِ زندگی کی طرح کراچی میں موسم بھی دوسرے شہروں سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ کراچی کے موسم کے بارے میں مزید معلومات کیلئے وکی پیڈیا پر جاکر کوئٹہ کے موسم کے بارے میں پڑھ لیجئے۔


معیشت:


کراچی خطے کا سب سے بڑا معاشی حب ہے۔ مملکتِ پاکستان کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ستر وہ محاورے والا مبالغہ آمیز ستر نہیں ہے بلکہ قرار واقعی ملک کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ستر فی صد کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر چوہدری اینڈ سنز جن کے کھیت کھلیان سے لیکر گھربار تک ملک کے دوسرے حصوں میں واقع ہیں وہ بھی اپنا سیلز آفس کراچی میں ہی کھولتے اور اہلیانِ کراچی کے خبط عظمت میں اضافہ کرتے ہیں کہ ملک کا ستر فی صد ریونیو وہ پیدا کرتے ہیں۔


ایسا نہیں کہ کراچی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی۔ کراچی میں تیار ہونے والی اشیاء میں سب سے مشہور چیز سلیم کا گٹکا ہے جو اگر برآمدگی کی اجازت پا جائے تو اکیلا ہی اربوں ڈالرز زرِمبادلہ کا باعث بنے۔ معیشت کے باب میں آخری بیان یہ کہ کراچی میں ہر دوسرا شخص پان بناتا ہے۔ اس پان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کیلئے دکان کا ہونا ضروری نہیں، اکثر پان فروش بغیر دکان اور بغیر پان کے بھی آپ کو چونا لگا جائیں گے۔


زبان/اقوام:


کراچی ایک کثیر قومی شہر ہے جس میں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی، ہزارہ، دہلوی، بہاری، لکھنوی، امروہوی، حیدرآبادی، ملیح آبادی، بدایونی، میرٹھی اور چند دیگر اقوام آباد ہیں۔ رابطے کی سب سے بڑی زبان اردو سے ملتی جلتی ہے جو پورے شہر (علاوہ افغان بستی جہاں صرف عربی اور پشتو بولی جاتی ہے) میں سمجھی جاتی ہے۔


مشہور مقامات:


کراچی شہر کے سب سے مشہور مقامات میں، پرفیوم چوک، جناح گرائونڈ، نشتر پارک اور باغِ جناح واقع ہیں۔ کسی زمانے میں قائد اعظم کا مزار اور پاکستان میوزیم بھی مشہور مقامات ہوا کرتے تھے مگر حالیہ برسوں میں یہ صرف غیر شادی شدہ جوڑوں اور حسرت کے مارے بوڑھوں میں ہی مشہور رہ گئے ہیں۔


تفریحی مقامات:


کراچی میں ہر مقام تفریحی مقام سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں اور کسی انسان کو لٹتے ہوئے دیکھ کر جی بھر کر محظوظ ہوں، کوئی برا نہیں مانے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس دن آپ کی لٹنے کی باری ہو اس دن باقی اہلیانِ شہر بھی آپ سے اس ہی وسعتِ قلبی کی امید رکھیں گے۔


شہرِ قائد:


عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، سٹی بائے دا سی، یہ سارے وہ القابات ہیں جو اس عظیم شہر کو حاصل ہیں۔ مگر ایک خطاب ایسا بھی ہے جو ان تمام خطابات پر بھاری ہے، شہرِ قائد۔ گو اب یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس شہرِ قائد میں قائد سے مراد کون ہے۔ جی ہاں! اصل قائد وہی ہیں، باقی باتیں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مشہور کی گئی ہیں۔


پیارے بچوں! مجھے یقین ہے کہ اس مختصر کلام سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی ہوگی مگر یاد رکھیئے کہ اس مضمون کو لکھنے کے مجھے کوئی پیسے نہیں ملتے لہٰذا تھوڑے کو غنیمت جانیں بلکہ احسان مانیں! فرصت کے ساتھ اس مضمون کا اگلا حصہ پھر کبھی لکھا جائے گا جس میں کراچی کے دیگر پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ تب تک کیلئے اجازت۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت