جمعرات، 22 جنوری، 2015

فرار

چار فروری 2010:
آج میری کوٹھڑی کی ساتھی زہرا باجی کی رہائی ہوگئی۔ کوٹھڑی میں اب صرف میں اور شگفتہ باجی رہ گئے ہیں۔ زہرا باجی آج بے تحاشہ خوش تھیں۔ رہائی کا نشہ کیا ہوتا ہے یہ ان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا۔ خدا انہیں ایسے ہی ہنستا بستا رکھے۔ کچھ ہی دنوں کی بات ہے، انشاءاللہ ایک دن مٰیں بھی یہاں سے رہا ہوجائوں گی۔

اٹھارہ مئی 2011:
زہرا باجی کو یہاں سے گئے ہوئے سال سے اوپر ہوگیا ہے مگر انہوں نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں جھانکا۔ پیغام مل جاتے ہیں اور ملاقات کے گھنٹے میں کبھی کوئی ٹیلیفون پر ان کی آواز بھی سنا دیتا ہے مگر دل کو سیری نہیں ہوتی۔ میں اور شگفتہ باجی اکثر بیٹھ کر ان کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر شاید ان کو کبھی ہماری اس طرح یاد نہیں آتی۔ یاد آتی تو ایک دفعہ تو ملنے آجاتیں؟ شاید وہ اپنے ماضی کے اس تاریک پہلو کو بھلا دینا چاہتی ہیں۔ خدا انہیں خوش رکھے۔

سات مارچ 2013:
کل شگفتہ باجی بھی یہاں سے رہا ہوجائیں گی اور میں اس کوٹھڑی میں اکیلی رہ جائوں گی۔ شگفتہ باجی اکثر مجھے سمجھاتی ہیں کہ باہر کی زندگی اس جیل کی زندگی سے کہیں زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہے مگر میں جانتی ہوں کہ وہ یہ سب صرف میرا دل رکھنے کیلئے کہتی ہیں۔ اگر باہر کی دنیا واقعی اتنی ہی بری ہوتی تو اس جیل میں موجود ہر شخص اس تکلیف کیلئے اس طرح مشتاق نہیں ہوتا۔ خیر، خدا ان کے نصیب اچھے رکھے، کبھی میرا بھی دن آئے گا۔ انشاءاللہ۔

پانچ دسمبر 2013:
مجھے اس قید خانے میں کتنا وقت ہوچکا ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید صدیاں بیت چکی ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے زندگی میں کب آزاد فضاء میں سانس لیا تھا۔ میں اب اس قید کی زندگی سے تنگ آچکی ہوں۔ رہائی شاید میرے لیئے اتنی آسانی سے نہیں آئے گی۔ مجھے خود ہی کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔

اکتیس دسمبر 2013:
باہر سے آنے والی پٹاخوں اور فائرنگ کی آواز سے لگتا ہے کہ نیا سال شروع ہوگیا ہے۔ جب تک شگفتہ اور زہرا باجی تھیں تو ہم تینوں ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دے کر دل بہلا لیا کرتی تھیں۔ اس مرتبہ مگر میرے پاس کوئی نہیں ہے کہ میں جس کے گلے لگ کر اپنے اندر اٹھنے والے حسرتوں اور آنسوئوں کے اس سیلاب کو نکال سکوں۔ اے خدا مجھے ہمت دے! مجھ پر وہ بوجھ مت ڈال جسے اٹھانے کی مجھ میں تاب نہیں ہے۔ ہر نئے سال کی طرح میرے نئے سال کے ارادوں اور خوابوں میں صرف ایک  ہی چیز ہے، رہائی۔

نو جنوری 2014:
مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ میرے گھر والے اب میری جلد از جلد رہائی کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ جیلر کا رویہ اب میرے ساتھ حیران کن طور پر بہت میٹھا ہوگیا ہے۔ جیل کی وہ تمام سہولیات جن کے پہلے میں صرف خواب دیکھا کرتی تھی اب میرے لیئے مہیا کردی گئی ہیں۔ مگر ان ساری سہولیات نے آنے میں شاید بہت دیر کر دی ہے۔ میں چاہ کر  بھی ان چیزوں سے وہ لطف نہیں کشید کرپارہی ہوں جو مجھے  کرنا چاہیئے تھا۔ مجھے یہ سب اب محض دل بہلانے کے نسخے لگتے ہیں اور میں اس مرتبہ رہائی سے کم کسی چیز سے کم پر ٹلنے والی نہیں ہوں۔

ستائیس جنوری 2014:
پچھلے ایک ماہ کے مسلسل غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ گھر والوں کی کوششوں کے انتظار میں رہی تو بہت دیر ہوجائے گی۔ میں نے فرار کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔ جیل کے کھانے کا انتظام میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر کہیں سے بےہوش کرنے والی دوائی مل جائے تو میرا کام بہت آسان ہوجائے گا۔ مگر اس منصوبے میں سب سے بڑا سقم بےہوش کرنے والی دوائی کی فراہمی ہے۔ جیل سے باہر میں کسی کو جانتی نہیں ہوں جو میرے لیئے یہ کام کرے اور جیل سے باہر خود نکلنا ناممکن ہے۔ اے اللہ! مجھے کوئی بہتر راستہ دکھا۔

دس فروری 2014:
اللہ پاک کی مہربانی سے ایک راستہ دکھا ہے۔ کل زہرا باجی اپنے گھر میں کھانا بناتے ہوئے چولہا پھٹنے سے جل کر ہلاک ہوگئیں تھیں اور ان کی موت کے صدقے مجھے بھی ایک دن کیلئے پیرول پر رہائی مل گئی کے ان کے جنازے میں شریک ہوسکوں۔ جیل کی زندگی میں رہ کر جذبات عرصہ پہلے ہی اپنے عروج پر پہنچ کر دم  توڑ چکے تھے سو مجھے زہرا باجی کے مرنے کا کوئی خاص غم نہیں ہوا۔ وہ خود ہی تو سمجھایا کرتی تھیں کہ جو ہوتا ہے بہتری کیلئے ہی ہوتا ہے۔

زہرا باجی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ شاید وہ پیدائشی بانجھ تھیں یا پھر شاید جیل کی زندگی نے ان کے اندر موجود تمام تخلیقی صلاحیتیں ختم کردی تھیں۔ ان کے محلے کی خواتین دبے لفظوں میں کہہ رہی تھیں کہ چولہا خود نہیں پھٹا تھا بلکہ زہرا باجی کے شوہر اور ان کی ساسنے پھاڑا تھا۔ مگر جب زہرا باجی کے گھر والوں کو اس بات کی فکر نہیں تھی تو میں کون ہوتی ہوں اس بات کا غم کرنے والی؟ میں بھی وہاں چپ چاپ خواتین کے ہجوم میں بیٹھی رہی۔ تدفین کے بعد پولیس والے مجھے واپس اپنے ساتھ لینے آگئے۔ زہرا باجی کے گھر سے نکلی تو میری نظر ان کے شوہر پر پڑی جو بہت عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان نظروں میں کیا تھا مگر غیر اضطراری طور پر میرا ہاتھ اپنے دوپٹے پر چلا گیا اور میں نے اپنے حت الامکان اپنے جسم کو اور زیادہ ڈھکنے کی کوشش کی۔ زہرا باجی کا شوہر میری یہ حرکت دیکھ کر مسکرا اٹھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ عجیب انسان ہے! ابھی بیوی کو دفنا کر آرہا ہے اور ابھی لڑکیوں کو مسکرا کر دیکھ رہا ہے؟ پھر مگر دماغ میں ایک خیال آیا اور میں ایک جوابی مسکراہٹ اس کی سمت اچھال کر پولیس والوں کے ساتھ واپس جیل آگئی۔ مجھے یقین ہے کہ زہرا باجی کا شوہر مجھ سے ملنے جیل ضرور آئے گا۔ ایک دفعہ مجھے جیل سے باہر کوئی ساتھی مل گیا تو مجھے یقین ہے کہ میں رہائی کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ڈھونڈھ نکالوں گی۔

پانچ مئی 2014:
کل میں انشاء اللہ اس جیل سے رہا ہوجائوں گی۔

گیارہ اگست 2014:
شگفتہ باجی واقعی ٹھیک کہتی تھیں۔ جیل میں لاکھ پابندیاں صحیح مگر باہر کی دنیا واقعی بےحد تکلیف دہ ہے۔ جیل میں میں نہ اپنی مرضی سے کھا سکتی تھی اور نہ اپنی مرضی سے پہن سکتی تھی۔ نہ کہیں جا سکتی تھی اور نہ کسی کو مجھ سے ملنے آنے کی اجازت تھی۔ جیل میں سب کچھ جیلر کی مرضی سے ہوتا تھا اور میں عورت ہونے کے جرم میں کسی بات پر آواز تک نہیں اٹھا سکتی تھی۔ بہت پرانی بات ہے مگر مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب شگفتہ باجی نے جیلر کے سامنے آواز اٹھانے کی گستاخی کی تھی۔ اگلے تین دن تک میں اور زہرا باجی ان کے چہرے پر پڑنے والے نیل، برف سے سینکتے رہے تھے۔ لیکن ان سب مصائب کے باجود وہ جیل اپنی تھی۔ اپنی کوٹھڑی کی حد تک ہی سہی، مگر  ہم وہاں بادشاہ تھے۔ جیل سے باہر آکر پتہ چلا کہ اس جیل سے بڑی اور بھیانک ایک اور جیل سسرال کی شکل میں بھی موجود ہوتی ہے۔ جہاں جہیز کم لانے اور گھر والوں سے پیسے نہ لاکر دینے کے جرم میں روزانہ لائن حاظر اور پھر جسمانی اذیت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ دن بھر کی تھکن کے باجود، مذہب کی تاویلات کے طفیل، شوہر کو راضی نہ رکھو تو رات بھر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ اور ان سب چیزوں پر شکایت کرو تو جسم پر ایک اور نیل کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

جیل واپس جاکر جیلر سے کس منہ سے شکایت کرتی کہ جب زہرا باجی کے شوہر نے میرے لیئے رشتہ بھجوایا تو میں نے خود زبردستی سب سے کہہ کر ہاں کہلوائی تھی۔ جیلر کتنا بھی سفاک سہی، مگر میرا باپ تھا۔ ایک بیٹی کو کھونے کے بعد وہ اس ہی گڑھے میں دوسری بیٹی کو دھکیلنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر میرے مسلسل اصرار اور زہرا باجی کے شوہر کی جہیز نہ لینے کی پرکشش پیشکش پر وہ بھی انکار نہیں کرسکا۔ بیٹیاں ویسے بھی باپ کے سینے کا بوجھ ہوتی ہیں اور جیب جتنی ہلکی ہو یہ بوجھ اتنا ہی بھاری ہوتا ہے۔ میرا باپ جانتا تھا کہ اگر اس رشتے کو منع کردیا تو اگلا رشتہ جو خدا جانے کب آتا، اپنے ساتھ جہیز کی ایک نئی فہرست لاتا۔ سو مجھ پر احسان جتاتے ہوئے اس رشتے کو قبول کرلیا گیا اور ساتھ میں مجھے یہ بھی جتا دیا گیا کہ چونکہ یہ رشتہ میری مرضی سے ہورہا ہے لہٰذا اس رشتے کو سنبھالنا بھی اب میرا ہی فرض ہے۔ اس شادی کا جو بھی نتیجہ نکلے میں ان کے پاس شکایت لیکر نہیں جاسکتی تھی۔

میں اس قید خانے سے رہائی کے نشے میں اتنی دھت تھی کہ مجھے اس وقت ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میں تو یہ سب آج بھی نہ کہتی مگر سونے سے پہلے انہوں نے میرے انکار پر اپنی سگریٹ میرے بازو پر بجھادی ہے۔ جلن کی وجہ سے سویا نہیں جارہا تھا سو یہ ڈائری لکھنے بیٹھ گئی۔

پندرہ ستمبر 2014:
آج زندگی کا بہت ہی عجیب دن ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہنسوں یا روئوں؟ خوشی اور دکھ دونوں کی انتہائیں ایک ساتھ جمع ہوگئی ہیں اور سمجھ سے باہر ہے کے دونوں میں سے کس چیز کی شدت کی وجہ سے آج آنکھوں کے کنارے بھیگ رہے ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ خدا نے مجھے آج مکمل کردیا ہے۔ ڈاکٹرنی بتا رہی تھی کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ اور دکھ اس بات کا ہے کہ اس نئے آنے والے بیچارے کا کیا قصور کے یہ میرے گھر پیدا ہورہا ہے؟

ساس نے آج صبح ہی فیصلہ سنا دیا ہے کہ چونکہ میں خالی ہاتھ آئی ہوں اور چونکہ میرے گھر والے نہایت کمینے اور کنجوس ہیں اور داماد کو خرچے کے پیسے نہیں دیتے لہٰذا وہ بیٹے کی تیسری شادی کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں تمام معاملات طے ہوچکے ہیں۔ میں نے اپنے شوہر کو اس بچے اور ساس کے بیان دونوں کے بارے میں بتایا تو وہ صبح بات کرنے کا کہہ کر منہ پھیر کر سو گئے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ گھر واپس جانہیں سکتی! اس بچے کو اس دنیا میں لانا نہیں چاہتی! ساس مجھے اس گھر میں رکھے گی نہیں ۔۔۔ جائوں تو کہاں جائوں؟ فرار  میری زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ اب مگر اس خواب کو حقیقت بنانا ہی ہوگا۔ مجھے اس بچے کیلئے جینا ہوگا۔ اے خدا مجھے ہمت دے! میری مشکلوں کو آسان فرما۔ میں نے اپنی حصے کی صعوبتیں جھیل لیں، اے میرے مالک مگر میری اس کوکھ کے معصوم کو اس عذاب سے بچا لے۔ اے اللہ ۔۔۔۔

میں نے اس خستہ حال کاپی کو ایک طرف اٹھا کر رکھ دیا جو تفتیشی ٹیم اس لڑکی کے کمرے سے برآمد کر کے لائی تھی۔ کمبخت کی تحریر میں بلا کی کاٹ تھی۔ مجھ جیسے سفاک پولیس آفیسر کو بھی اس کرم جلی نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میں نے اپنے ماتحت کو بلایا اور رپورٹ لکھنے کو کہا۔ ماتحت میرے سامنے آکر کرسی پر بیٹھ گیا اور نوٹوں کی ایک گڈی خاموشی سے میرے آگے رکھتے ہوئے بولا، صاحب! یہ لڑکے کی ماں نے دی ہے۔ وہ چاہتی ہے رپورٹ میں یہی آئے کہ چولہا حادثاتی طور پر پھٹا تھا اور وہ جو کوئی کاپی وغیرہ ہمیں ملی ہے جس میں ثبوت وغیرہ ہوسکتا ہے وہ انہیں واپس کردی جائے۔


میں نے ایک نظر ان نوٹوں کو دیکھا اور محرر پر چنگھاڑ پڑا، الو کے پٹھے! جب پیسے لے ہی لیئے ہیں تو انتظار کس بات کا کر رہا ہے؟ رپورٹ لکھ کہ چولہا حادثاتی طور پر پھٹا تھا۔ محرر میری آواز سن کر کانپ گیا تھا مگر میری بات سن کر مسکرا اٹھا۔ اس نے جلدی جلدی کاغذ پر رپورٹ لکھی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا گویا ہوا کہ، سر! وہ ڈائری؟ میں نے اس ہی کے انداز میں مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا، کونسی ڈائری؟ ابے احمق! کمال کی جذباتی تحریر ہے وہ! ادرد و گداز سے بھرپور یہ کہانی کردار اور مقام بدل کر اگلے مہینے کسی بڑے ماہنامے میں چھپوائوں گا تاکہ پولیس ڈپارٹمنٹ کا نام روشن ہو۔ بلاوجہ سب نے مشہور کررکھا ہے کہ کہ ہم بڑے سفاک ہوتے ہیں اور ہمارے اندر جذبات نہیں ہوتے!!! خود بتائو؟

ملنگ

نوٹ: اس کہانی کے تمام نام، مقام اور کردار فرضی ہے۔ کسی بھی اتفاقی مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔

اس مزار پر آتے ہوئے مجھے یہ تیسرا دن تھا۔ نجانے کیوں مجھے یہاں آ کر بےحد سکون ملتا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں نہ لوگوں کی کوئی بھیڑ ہوتی تھی اور نہ گدی نشینوں کے چونچلے۔

یہ مزار کالی مائی کے نام سے مشہور کسی طوائف کا تھا جس  کا اصل نام تو خدا جانے کیا تھا مگر اپنی کالی کمائی کی وجہ سے وہ کالی مائی کہلاتی تھی۔ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور طوائف کی موت آتی ہے تو وہ محبت کربیٹھتی ہے۔ کالی مائی کو بھی ایک امیرزادے سے محبت ہوگئی مگر وہ محبوب زمانے کے ڈر سے اسے اپنا نہیں سکتا تھا۔ فراق کے طویل ایام، محبوب کی بزدلی اور معاشرے کی سفاکی کے ہاتھوں کالی مائی نے گھٹ گھٹ کر جوانی میں ہی اپنی جان دے دی۔

روایات کے مطابق کالی مائی کے گزر جانے کے بعد اس عاشق  کو اس کے جذبات کی صحیح قدر ہوئی اور اس نے  غیرتِ عشق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کوٹھے کو ہی خرید لیا جس کے آنگن میں کالی مائی دفن تھی کہ مسلمانوں کے قبرستان میں ایک طوائف کا ٹھکانہ ناممکن تھا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ مکان خریدنے کے کچھ عرصے بعد جب اس عاشق کے حواس بحال ہوئے تو اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا اور اس نے اِس مکان سے اپنی جان چھڑانی چاہی مگر کوئی بھی شخص ایک ایسے مکان کو خریدنے کیلئے تیار نہ تھا کہ جس کے آنگن میں ایک انسان کی قبر موجود ہو۔

وہ عاشق پہلے تو بہت پچھتایا مگر چونکہ کاروباری ذہن کا مالک تھا لہٰذا اس نے اِس گھر کو باقاعدہ ایک مزار میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مکان گرا دیا گیا اور مزار کی تعمیر شروع کردی گئی۔ مزار کی تعمیر پورے زور و شور سے جاری ہی تھی کہ اس عاشق نامراد کی طبیعت بگڑ گئی۔ ادھر مزار کی تعمیر مکمل ہوئی اور ادھر اس غریب کا بھی  بلاوہ آگیا۔  اس کے گھر والوں، جن میں اس کے سات بچے اور دو بیویاں شامل تھیں، نے اسے اس ہی مزار میں دفنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا کہ مزار تو پہلے سے موجود ہی تھا، لگے ہاتھوں خواتین مریدین کو بھی سہولت مل جائے۔ خواتین اس زمانے میں بھی کسی عورت کو باکمال ماننے کی عادی نہیں تھیں کہ انکے نزدیک اگر عورت ولی اللہ ہوسکتی تو سب سے پہلے وہ خود ہوتیں! خیر یہ پیشہ ورانہ رقابت تو ہمیشہ سے انسانی فطرت کا حصہ رہی ہے سو اب اس فطری چیز پر کیا رونا؟
 مزار کے افتتاح کیلئے ابھی کسی جلیل القدر ہستی کی تلاش جاری ہی تھی کہ بٹوارہ ہوگیا اور وہ خاندان یہ سوچ کر ہندوستان منتقل ہوگیا کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آنے والے مسلمانوں کی متروکہ جائداد کو سنبھالنے کا پہلا حق بھی مسلمانوں کا ہی تھا۔ خدا جانے انہیں وہاں یہ مبارک کام کرنے کی سعادت میسر آئی یا نہیں، مگر یہاں یہ مزار اب ان کی ملکیت سے نکل کر عوامی ملکیت میں آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد علاقے والوں نے مل کر اس مزار کا بیڑہ سنبھالا اور آس پاس کے علاقوں میں یہ خبر مشہور کردی گئی کہ اس مزار پر آکر فاتحہ پڑھنے اور نذرانہ چڑھانے سے انسان مشکل سے مشکل حالات میں بھی  اپنے محبوب کو پالیتا ہے۔ شہر کے تمام عشاق اب باقاعدگی سے اس مزار پر آنے لگے اور مزار چل نکلا۔

 وقت کے ساتھ ساتھ عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزار اقدس سے اولاد کی فراہمی، رزق میں برکت، گھریلو سکون جیسی چیزوں کی فراہمی بھی شروع ہوگئی۔ مزار اچھا خاصا آباد ہوگیا تھا مگر سن اسی کے اوائل میں علاقے میں ایک زندہ پیر آگئے اور اس مزار کی رونق معدوم ہوگئی۔ یہ زندہ پیر انسانوں کو ایک برادر پڑوسی و اسلامی ملک بھجوانے کا کام کرتے تھے جس کے بدلے میں نہ صرف جانے والے کو جنت ملتی تھی بلکہ وہ اپنے ساتھ اپنے خاندان کے ستر افراد کو بھی جنت میں پہنچانے کا مکلف ہو جاتا تھا۔ جہاں تک محبت کے حصول اور رزق میں برکت جیسی دنیاوی لعنتوں کا تعلق تھا تو اس کے لیئے یہ زندہ پیر اتنے پیسے جانے والے کے ہاتھ پر رکھ دیتے تھے کہ رزق میں اگلے بیس سال تک بےتحاشہ برکت کے اسباب مہیا ہوجاتے اور محبوب بھی جھک مار کر قدموں میں آبیٹھتا تھا۔ وہ زندہ پیر اس علاقے میں کوئی چھ یا سات سال رہے اورجانے سے پہلے ہی اس مزار کو مکمل ویران کرگئے۔ اس زمانے کا ویران یہ مزار آج تک ویران تھا اور اب میرا جیسا اکا دکا کوئی محبت کا مارا اس مزار پر آجاتا تو خیر، ورنہ پورا دن یہاں سناٹا باتیں کرتا تھا۔ جب مجھے محبت نامی یہ روگ نہیں لگا تھا تب میں بھی دوسروں کی طرح اس مزار کو چائنا کا تاج محل کہا کرتا تھا اور آنے والے اکا دکا عشاق کا تمسخر اڑایا کرتا تھا۔ میں نے کب سوچا تھا کہ ایک دن مٰیں خود بھی اس مزار کے دہلیز اس طرح پار کروں گا کہ پھر روزانہ ہی دن کا بیشتر حصہ اس مزار پر کٹنے لگے گا۔
رضیہ کو میں نے دل و جان سے چاہا تھا۔ وہ تھی ہی اتنی معصوم اور دلکش کے میں پہلی نظر میں ہی اس پر دل ہار بیٹھا تھا۔ ادھر رضیہ کا بھی یہ حال تھا کہ میرے بغیر اس کو کسی پل چین نہیں ملتا تھا۔ ٹیلی کام کمپنیز کے طفیل ہم پوری رات لمبی بات کیا کرتے تھے۔ میں اس کو وصی شاہ کی شاعری سناتا اور وہ مجھے جواب میں نوشی گیلانی کی نظمیں سناتی۔ پوری رات ان ہی نظموں اور پیار کی مدھر باتوں میں گزر جاتی۔ میں اس کے پیار میں بری طرح گرفتار ہوچکا تھا مگر ایک دن پتہ چلا کہ رضیہ کے گھر والے اس کی شادی اس کے ماموں زاد بھائی سے کر رہے ہیں۔ اس رات میں اور رضیہ دونوں ہی دل کھول کر روئے۔ میں نے انٹرنیٹ سے دیکھ کر اسے فیض احمد فیض کی ایک ہجر زدہ غزل بھی سنائی مگر وہ غزل ہم دونوں ہی کے سر سے گزر گئی۔ ہم دونوں صرف یہ تاثر دینے کیلئے کہ یہ ٖغزل نہ صرف سمجھ آگئی ہے بلکہ دل میں بھی اتر گئی ہے، گھنٹوں سسکیاں لیکر روتے رہے۔

اب ہماری راتیں الو کی طرح جاگتے اور بلیوں کی طرح روتے گزرنے لگیں۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ رضیہ کی منگنی ہورہی ہے۔ مجھ سے یہ سن کر رہا نہ گیا اور میں نے رضیہ سے ایک آخری ملاقات کی درخواست کردی۔ پہلے تو اس نے انکار کردیا مگر پھر بہت تردد کے بعد بالآخر وہ ملنے کیلئے راضی ہوگئی۔

ہم دونوں ایک انٹر نیٹ کیفے میں ملے۔ رضیہ نے محبت سے زیادہ اپنے دفاع کیلئے میرے ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام رکھے تھے۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں اس سے التجا کی کہ میں اس کے بغیر مر جائوں گا اور اسے کسی بھی طرح اس منگنی کو روکنا ہوگا۔ رضیہ نے اپنی نظریں نیچی کرلیں اور رونا شروع ہوگئی۔ ان ہی آنسوئوں اور سسکیوں کے درمیان اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے لالچی گھر والوں کے ہاتھوں مجبور ہے جو محض پانچ لاکھ روپیوں کیلئے اس کی شادی اس کے ماموں زاد سے کر رہے ہیں کہ اس شادی کے بعد اس کے ماموں کا دیا ہوا وہ پانچ لاکھ کا قرض معاف ہوجائے گا جو اس کے گھر والوں نے کسی مشکل وقت میں ان سے لیا تھا اور اب لوٹانے سے قاصر تھے۔
میں اس کی بات سن کر تڑپ اٹھا اور اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اسے محض پانچ  لاکھ روپیئوں کی وجہ سے اپنی زندگی برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ان پانچ لاکھ روپئوں سے وہ میری زندگی میں آ سکتی ہے تو میں اس کے گھر والوں کا یہ قرض اتارنے کیلئے تیار ہوں۔ رضیہ کی آنکھوں میں آنے والے آنسو اس بات کی دلیل تھے کہ اسے میری محبت پر یقین آگیا ہے۔ میرے لیئے اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ میں عملی طور پر رضیہ کو اپنی محبت کا یقین دلاتا، ہمارے کیبن کا دروازہ پیٹ کر اعلان کیا گیا کہ پولیس کا چھاپا پڑنے والا ہے لہٰذا ہم لوگ حلیئے درست کرکے باہر آجائیں۔ حلیہ تو خیر کیا خاک درست کرنا تھا، جان بچا کر وہاں سے بھاگ آئے۔

اگلے تین دن کے اندر میں نے اسٹاک ایکسچینج میں سے اپنا سارا پیسہ نکالا اور باقی پیسے دوستوں سے ادھار لیکر پانچ لاکھ کی رقم پوری کی اور  رضیہ کے ہاتھ پر لے جا کر رکھ دی۔ وہ بےساختہ میرے گلے لگ گئی اور اس دن مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ پرفیوم نہیں لگاتی تھی۔ 
رضیہ وہ پیسے لیکر اگلے ہفتے ملنے کا کہہ کر چلی گئی۔ آج اس ہفتے کو گزرے ہوئے پانچ ہفتے گزر گئے ہیں مگر رضیہ نے پلٹ کر مجھ سے بات تک نہیں کی۔ اس دن کے بعد سے اس نے میرا فون اٹھانا اور میسج کا جواب دینا تک بند کردیا۔ میں نے آزمانے کیلئے اسے ایک دوسرے نمبر سے فون کیا تو اس نے دوسری گھنٹی پر ہی اٹھا لیا۔ میں نے دل کا تمام درد اپنی آواز میں جمع کرکے اسے پکارا، رضیہ! مگر میری آواز سنتے ہی اس نے  یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ، بھائی جان! گھر میں ابھی مہمان آئے ہوئے ہیں۔ بعد میں بات کرتے ہیں؟ جان سے بھائی جان تک کا یہ سفر مجھے پانچ لاکھ کا پڑا تھا۔

مجھے اس کے جانے کا اتنا غم نہیں تھا جتنا اس مالی نقصان کا تھا کہ جیب میں پانچ لاکھ روپے ہوں تو رضیہ کوئی اور بھی مل ہی جاتی۔ دوسرا غم مجھے یہ بھی تھا کہ میں چاہ کر بھی کسی کو اپنے ساتھ ہونے والے اس ہاتھ کے بارے میں نہیں بتا سکتا تھا کہ ایک کل کی لڑکی کے چکر میں اس طرح پیسے لٹانے کی داستان میں میری ہی بدنامی تھی۔

مسلسل سوچوں سے جب دماغ پھٹنے لگا تو میں دل بہلانے کیلئے گھر سے نکلا اور بے خیالی میں چلتا ہوا اس چائنا کے تاج محل پر پہنچ گیا۔ مزار پر کالی مائی کے عاشق نامراد کی قبر کو دیکھ کر تسلی ہویئ کہ دنیا میں صرف میں ہی احمق نہیں ہوں اور اس سوراخ سے مجھ سے پہلے بھی لوگ ڈسے جاچکے ہیں۔ اس کے بعد میں دل ہلکا کرنے کیلئے روز اس مزار پر  آنے لگا۔

 پچھلے تین دن سے میں روز اس مزار پر آرہا اور یہاں موجود اس ملنگ کو دیکھ رہا تھا جو برگد کے اس بوڑھے پیڑ کے نیچے گود بنا کر بیٹھا اپنی جھولی کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ اس کی اصل عمر کا تو معلوم نہیں مگر بےتحاشہ بڑھی ہوئی داڑھی اور بگڑے ہوئے حلیے کی وجہ سے وہ پینتیس چالیس سال کا لگتا تھا۔

آج مزار پر ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ میں کافی دیر تک تو یونہی بیٹھا رہا پھر مجھے اکتاہٹ سی ہونے لگی۔ میں نے اکتاہٹ مٹانے کیلئے اس ملنگ سے بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اٹھ کر اس کے  قریب گیا اور کھنکار کر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ اس نے ںظر اٹھا کر میری طرف سوالیہ انداز سے دیکھا اور واپس اپنی جھولی کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے ہمت جمع کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور اسے تھوڑی دیر بات کرنے کیلئے درخواست کردی۔ جتنی دیر میں بولتا رہا، اس کی توجہ اپنی جھولی کی طرف ہی رہی جس میں خدا جانے ایسا کون سا خزانہ چھپا تھا جسے وہ اتنے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ میری بات ختم ہونے پر اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور بولا، اس ہی علاقے میں رہتے ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پوچھا، محبت میں دھوکا ہوا ہے؟ میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور دل میں سوچا کہ دنیا اب بھی صاحب کشف لوگوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔ میں نے ایک بار پھر خاموشی سے سر ہلاہا۔ ملنگ نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور مجھے تسلی دیتا ہوا بولا، کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان اپنے مخلص ترین دوستوں سے بھی چھپاتا ہے۔ مگر یاد رکھنا کہ یہی دکھ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا زہر بھی ہوتے ہیں۔ جتنی مدت انہیں اندر سینت کر رکھوگے، اتنا ہی عرصہ یہ تمہیں اندر ہی اندر کھاتے جائیں گے۔ اگر کسی سے نہیں کہہ سکتے تو ایک کاغذ لیکر اس پر اپنی کتھا لکھو اور اگر بدنامی کا ڈر ہو تو بےشک اس کاغذ کو اپنے ہاتھ سے جلا دو۔ مگر اس طرح اپنے اندر اس زہر کو پال کر تم صرف اپنا ہی نقصان کر رہے ہو۔ وہ ملنگ بول رہا تھا اور مجھ پر ادراک کی کھڑکیاں کھل رہی تھیں کہ اس ملنگ کے ایک ایک حرف میں خلوص اور سچائی تھی۔ میں اس ملنگ کے قدموں پر گر گیا اور اپنی رام کتھا اسے سنانی شروع کردی۔ کہانی ابھی رضیہ کی منگنی کی اطلاع تک ہی پہنچی تھی کہ اس باکمال ملنگ نے مجھے اٹھایا اور میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر گویا ہوا، ہم سب جانتے ہیں! کس طرح اس عورت نے تمہیں اپنی مالی مجبوریوں کا احوال سنایا اور کس طرح تم سے مال اینٹھ کر اب وہ کسی اور مرغے کی تلاش میں نکل گئی ہے۔

میں حیران و ششدر اس ملنگ کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں نے بےساختہ اس کے ہاتھ تھام لیئے اور بول اٹھا کہ، اے مرشدِ باکمال! جب آپ اتنا کچھ جانتے ہیں تو میرے ان دو سوالات کے جواب بھی جانتے ہوں گے جو مجھے اب چین سے نہیں رہنے دیتے۔ مرشد پاک! مجھے بتائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ آپ مجھے یہ بھی بتائیں کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے؟ ملنگ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا، انسان جب دنیا میں آیا تو اس کی خوراک کا واحد ذریعہ یا تو پھل تھے یا پھر شکار۔ ہمارے آباء و اجداد اپنے وقت کے بہترین شکاری ہوا کرتے تھے۔ آج تک ہم سب کی رگوں میں ان شکاریوں کا ہی خون اور ہماری جینز میں ان ہی کی فطرت کے آثار موجود ہیں۔ شکاری کی فطرت ہوتی ہے کہ جب تک وہ شکار کو حاصل نہ کرلے وہ اس کے پیچھے بھاگتا ہے، گھات لگا کر بیٹھتا ہے، صبح شام کی پرواہ نہیں کرتا، بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے، شکار بڑا ہو تو اس کیلئے چارے کے طور پر اپنے چھوٹے شکار کو قربان کر دیتا ہے۔ مگر یہ سب کام وہ شکار سے پہلے کرتا ہے۔ جب وہ اپنے شکار کو زیر کرلیتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ اس پر پائوں رکھ کر تصویر کھنچواتا ہے ورنہ عام طور پر اسے کھا پی کربرابر کردیتا ہے۔ کبھی تم نے یہ سنا کہ انسان نے بہت محنت سے اور سختیاں برداشت کرکے، مسلسل تعاقب کے بعد کسی ہرن کو زیر کیا ہو اور محض ان ساری سختیوں کی وجہ سے وہ اس ہرن کو کھانے کے بعد دوسرے ہرن کی تلاش میں نہ نکلا ہو؟

محبت کا معاملہ بھی بالکل شکار جیسا ہی ہے۔ محبت صرف تب تک مزہ دیتی ہے جب تک تسخیر نہ ہوجائے۔ جس دن شکاری کو یہ احساس ہوگیا کہ اب شکار میں مسخر کرنے کیلئے کچھ نیا نہیں بچا ہے، اس دن وہ اس شکار کو چھوڑ کر کسی ایسے نئے شکار کی تلاش میں نکل جائے گا جو اسے بھگائے، اسے تھکائے، اس کیلئے ایک چیلنچ بن جائے۔ تم نے اس عورت کے سامنے تسخیر ہونے سے انکار کردیا ہوتا تو آج بھی تم اس کے ساتھ ہوتے۔ خواہ وہ کتنی ہی مکار اور لالچی کیوں نہ ہو، زندگی میں اس لڑکی کو بھی اپنے سے بڑا شکاری ضرور مل جائے گا جو اس سے مسخر ہونے کے بجائے خود اسے تسخیر کرلے گا۔ اس دن وہ لڑکی بالکل تمہاری طرح، اپنا سب مال اسباب لٹا کر اس کے لیئے وہ سب بھی کرنے کو تیار ہوجائے گی جو تم نے اس کیلئے کیا۔ دنیا صرف ہیئت کے حساب سے گول یا بیضوی نہیں ہے! یہاں ہر چیز واقعتاّ دائرہ وار ہے۔ ہر عمل کسی چیز کا ردعمل ہے اور ہر ردعمل کا بھی ایک ردعمل ہونا مکتوب ہے۔ اس ہی کا نام دنیا ہے۔

میں آنکھیں اور منہ پھاڑے اس ملنگ کی بات سن رہا تھا۔ گزشتہ دس منٹ کے اندر اس نے میری دنیا تبدیل کردی تھی۔ محبت اور مکافات عمل کے پیچیدہ ضابطوں کو جس آسانی سے اس نے میرے لیئے بیان کردیا تھا وہ اپنی ذات میں مجھے اس ملنگ کا مرید بنا دینے کیلئے کافی تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ چومے اور وہاں سے اٹھ آیا کہ مجھے باہر جاکر دوبارہ عملی ذندگی میں قدم رکھنا تھا۔ مگر اس بار میں شکار بننے کیلئے نہیں شکار کرنے کی نیت سے میدان میں اتر رہا تھا۔ جاتے جاتے میرے دماغ میں دو اور سوال ابھرے اور میں الٹے قدموں دوبارہ ملنگ کے پاس واپس آگیا۔ ملنگ کے سامنے جھک کر میں نے بڑی عقیدت مندی سے پوچھا کہ اگر مرشد کی اجازت ہو تو میں کچھ اور سوالات کرسکتا ہوں؟ مرشد نے کمال مہربانی سے مجھے سوالات کی اجازت دے دی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، مرشد! آپ محبت اور میری محبت کے انجام کے بارے میں پہلے سے کیسے جانتے تھے؟ کیا واقعی کشف نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے؟ اور دوسرا سوال ذرا ذاتی نوعیت کا ہے کہ جب آپ شکار اور شکاری کے کھیل کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں تو اس چائنا کے تاج محل پر کیوں وقت برباد کر رہے ہیں جبکہ آپ اس علم سے ایک دنیا مسخر کرسکتے ہیں؟ ملنگ نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولا، بالک! کشف وشف کیا ہوتا ہے یہ تو میرے کو نہیں پتہ! میرے کو تو صرف یہ پتہ ہے عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔ تیری کہانی کا انجام مجھے اس لیئے بھی پتہ تھا کہ میری دفعہ میں رضیہ مجھ سے دو لاکھ اینٹھ کر لے گئی تھی اور اس ہی کے غم میں پہلی بار میں اس مزار تک پہنچا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ جو محبت کے بارے میں میری نالج ہے نا وہ پوری کہانی میں نے فیس بک سے سیکھی ہے۔ بروکن ہارٹڈ دیسی بوائز اینڈ گرلز کے نام سے ایک پیج ہے۔ تو بھی لائک کر لیو۔ ایمان سے بہت ٹائٹ چیزیں آتی ہیں اس پر۔ شکار والی کہانی کی لفاظی چیک کی تھی تو نے؟ بھائی نے ورڈ ٹو ورڈ یاد کی ہوئی ہے!!!


جہاں تک شکار اور شکاری کا تعلق ہے تو تجھے کیا لگتا ہے کہ میں مزار پر چنے بیج رہا ہوں؟ ابے صرف تیری طرح کے روتیلے مرد نہین آتے ادھر۔ حسین اور غمگین دوشیزائیں بھی محبت میں دھوکے کے بعد ادھر ہی آتی ہیں! سمجھا؟ چل اب مجھے کینڈی کرش کھیلنے دے اور نکل۔ مرشد پاک تو یہ کہہ کر اپنی جھولی میں پڑے موبائل پر کینڈی کرش کھیلنے میں لگ گئے اور میں تیز قدموں سے چلتا ہوا مزار سے باہر آگیا۔ کل سے دوسرے والے برگد کے نیچے ایک اور ملنگ کا اضافہ ہونے والا تھا۔ 

منگل، 13 جنوری، 2015

ترانۃ ٹوئیٹر ۔۔۔

میں روز سویرے اٹھتا ہو
اور اپنے بدن کا کوڑھ لیئے
دنیا میں تعفن پھیلانے
لفظوں کے نشتر ساتھ لیئے
سوشل میڈیا آجاتا ہوں ۔۔

پھر ٹوئیٹر پر
میں کپڑے پھاڑ کے ناچتا ہوں
اور ناچتے ناچتے گاتا ہوں

لا  لا لا  لا
لا لا لل لل لا ۔۔۔۔

لا لا لا لا
لا لا لل لل لا ۔۔۔

دنیا میں نہیں کچھ غم کے سوا
نفرت کے سوا
حسرت کے سوا
دھوکے کے سوا
سازش کے سوا

لا لا لا لا
لا لا لل لل لا ۔۔۔

مجھے دیکھو
میری قدر کرو ۔۔۔

الفاظ کہ میری باندی ہیں
انداز میں انشاء میں ہی ہوں
افکار میں ابنِ رُشد ہوں میں
تہذیب مجھی سے زندہ ہے
تمکین مجھی سے قائم ہے
میں عالم ہوں
میں فاضل ہوں
میں دانا ہوں
میں یکتا ہوں
میری قدر کرو

لا لا لا لا
لا لا لل لل لا ۔۔۔

فیورٹ کیا ہے؟ آر ٹی کیوں نہیں؟
فالو کر ابھی!
سن بے سالے!
پٹھے، الو ۔۔۔ کتے، سالے ۔۔ فالو کر ابھی ۔۔۔ میں شاعر ہوں ۔۔۔ فالو کر ابھی ۔۔۔ فالو کر ابھی ۔۔۔ میں دانشور۔۔۔ فالو کر ابھی ۔۔۔

اور جب تم سب یہ سن کربھی
بہرے بنے بیٹھے رہتے ہو ۔۔۔
میں پھر سے کھڑا ہوجاتا ہوں
اور زور سے یہ چلاتا ہوں ۔۔۔
دنیا میں نہیں کچھ غم کے سوا
نفرت کے سوا
حسرت کے سوا
دھوکے کے سوا
سازش کے سوا
اور دیکھو ۔۔۔۔  میری قدر کرو ۔۔۔
سن بے سالے!
میری قدر کرو ۔۔۔
میری قدر کرو ۔۔۔۔

میں چیختا ہوں، چلاتا ہوں
اور پھر تھک کر گر جاتا ہوں
اور خواب میں کہتا جاتا ہوں ۔۔۔
سن بے سالے ۔۔۔
فالو کر ابھی ۔۔۔۔
پٹھے، الو ۔۔۔
فالو کر ابھی ۔۔۔
فالو ۔۔۔
خخخخ ۔۔۔ فاخخخ ۔۔۔ فخخخ 

جمعہ، 9 جنوری، 2015

زبان دراز کی ڈائری - کپتان کی شادی

پیاری ڈائری،

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

 مصروفیت کچھ زیادہ ہی ہوگئی تھی سو تم سے بات کرنے کا وقت ہی نہیں مل پایا۔ روز سوچتا تھا کہ آج بالضرور ڈائری لکھوں گا اور پھر روز یہ بات بھول جاتا تھا۔

تم تو جانتی ہی ہو کہ میں نے ادبی عیاشی ترک کردی ہے اور اب خیر سے نوکر ہوگیا ہوں، سو اب نوکری کا غم پالوں یا دنیا کا؟ چونکہ غمِ دنیا پالنے سے محض ڈیڑھ منٹ کی داد ملتی ہے اور غمِ روزگار پالنے سے نہ صرف پیسہ ملتا ہے بلکہ اس پیسے کے طفیل پورے مہینے اپنے سے کمتر مالی حیثیت رکھنے والوں کی بے وجہ داد بھی حصے میں آتی ہے لہٰذا تمام عقلمند انسانوں کی طرح میں نے بھی فی الحال غمِ دنیا پر لعنت بھیجی ہوئی ہے اور غمِ روزگار کے بکھیڑے نمٹا رہا ہوں۔

تمہیں یاد ہے پچھلےماہ مجھے ایک بچے نے جنت سے خط بھیجا تھا؟ میں نے وہ خط اپنے بلاگ پر کیا چھاپا یہ بچہ تو پھیل ہی گیا۔ صحیح کہتے ہیں کہ نیکی کا زمانہ نہیں ہے اور اگر کسی کو انگلی پکڑائو تو وہ بلاوجہ ہاتھ پکڑنے لگتا ہے۔ میں دفتر سے تھکا ہارا گھر آیا تو آج کی ڈاک میں جنت سے آیا ہوا ایک اور خط میرا منہ چڑا رہا تھا۔ کھول کر پڑھا تو وہی ننھے میاں ایک بار پھر مخاطب تھے اور یہ خوش فہمی پالے بیٹھے تھے کہ میں ایک بار پھر ان کا خط من و عن چھاپ دوں گا۔ بھلا بتائو، میرے پاس اپنا مواد کم ہے چھاپنے کو جو میں ایک کل کے بچے کا خط چھاپتا پھروں؟ حد ہے خوشفہمی کی بھی! اور خط بھی کیا؟ خود دیکھو اور بتائو کہ کیا یہ خط کسی بلاگ میں چھپنے لائق ہے؟

پیارے انکل،

السلام علیکم! آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میرا پچھلا خط اپنے بلاگ میں چھاپا اور میری آواز لوگوں تک پہنچائی۔ میں نے وہ بلاگ اپنے دوستوں کو بھی پڑھ کر سنایا۔ قائد اعظم البتہ اپنے رونے والی بات کا سن کر تھوڑے کھسیانے ہوگئے اور جب بلاگ ختم ہوا تو شرم کے مارے ایک بار پھر منہ چھپا کر رونے لگ گئے۔ عجیب ہیں نا قائد بھی؟

مگر یہ تو ضمنی بات تھی، میں نے تو آپ سے ایک اور بات کرنی تھی جس کیلئے میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ سنا ہے کل پاکستان میں میرے پسندیدہ ہیرو کی شادی تھی؟ خوب جشن رہا۔ میں نے دو جنتیوں کو کہتے سنا کہ سوشل میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا اور چوک چوبارے سے لیکر ٹیلیویژن تک ہر جگہ موضوع گفتگو کپتان کی شادی ہی تھی۔ مختلف چینلز کے درمیان مقابلہ ہورہا تھا کہ کون سب سے اچھے گانے چلاتا ہے۔ کہیں اس بات پر بحث تھی کہ دلہن نے جو کنگھا استعمال کیا ہے وہ کس کمپنی کا تھا، اور کہیں اس بات پر شور تھا کہ سب سے پہلے ہمارے چینل نے بتایا کہ دولہا کی جوتیوں میں استعمال ہونے والا چمڑا کس گائے کی کھال کا تھا اور اس گائے کو کس نے پالا اور پھر کس خوش نصیب قصاب کے ہاتھوں وہ کھال اتر کر چمڑا بننے کی فیکٹری تک پہنچی جہاں سے وہ چمڑا اس پاپوشِ مبارک کے کاریگر تک پہنچا۔

ہم بچوں کو ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہمیں تو خوشی تھی کہ وطنِ عزیز میں اچھی خبروں کو ترسے ہوئے لوگوں کو جشن منانے کا ایک موقع مل گیا ہے۔ خوشی کا خیال آتے ہی مجھے امی یاد آگئیں۔ میرا دل کیا کہ میں امی کو بھی مسکراتا ہوا دیکھوں سو میں نے نیچے جھانک لیا۔ پیارے انکل، میں چاہتا ہوں کہ آپ امی کو بتائیں کہ میں نے انہیں کل پھر ٹیلیویژن دیکھ کر عمران خان کے بچوں کو ذکر سنتے ہوئے روتے دیکھ لیا ہے۔ آپ امی کو سمجھائیں کہ خوشیوں کے موقع پر رونا اچھی بات نہیں ہوتی۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ صرف وقتی ابال تھا اور قوم کی اصل توجہ اب بھی ہمارے ناحق بہنے والے خون کا انصاف دلانے پر ہی ہے۔ امی سے کہیئے گا کہ وہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کو اتنا بےحس نہ سمجھیں، یہ لوگ ہمیں بھولے نہیں ہیں۔ امی سے کہہ دیں کہ پلیز نہ روئیں، اب تو میں وہاں ہوں نہیں ورنہ میں اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھ دیتا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کیلئے نئی ماں لانے والے ہمارے کپتان،قوم کے لیڈر اور ہمارے صوبے کے حکمران ہونے کے ناطے، ہم گزر جانے والے بچوں کو بھی اپنی خوشیوں میں ضرور یاد رکھیں گے۔

امی سے کہیں کہ حوصلہ رکھیں، کپتان ہمارے گھر ان سے ملنے اور ان کے آنسو پونچھنے ضرور آئیں گے۔ آپ کہہ دیں گے نا؟

والسلام،
ایک سو بتیس میں سے ایک

پیاری ڈائری! اب تم خود بتائو کہ اس خط میں چھاپنے جیسا کیا ہے؟ کیا اگر چند بچے شہید کردیئے گئے تو ہم زندگی جینا بند کردیں؟  مسکرانا بند کردیں؟ سانس لینا چھوڑ دیں؟ عجیب منطق ہے کہ خوشیاں منانا نہ چھوڑیں مگر ان بچوں کو بھی ضرور یاد رکھیں۔

اللہ اللہ کرکے پاکستان کی موجودہ صورت حال میں سب سے اہم، سنجیدہ،اور  فوری توجہ کا متقاضی مسئلہ اپنے مثبت، منطقی، اور قرار واقعی مناسب و مطلوب انجام کو بخیر و خوبی پہنچ گیا ہے۔ میں تو یہ سوچتا ہوں کہ کس منہ سے باری تعالٰی کا شکر بجا لائوں اور یہ کہتا ہے کہ خوشی کے موقع پر خون اور اذیت میں لتھڑے اس حادثے کو یاد رکھو، عجیب احمق بچے ہیں۔ خود بتائو؟

والسلام

زبان دراز 

پیر، 5 جنوری، 2015

مکالمہ (مکمل)


تم پر میرے علاوہ کسی کا حق نہیں۔ تم سن رہے ہو نا؟ میں یہ نہیں کہتی کہ تم لوگوں سے بات چیت بند کر دو۔ مگر مجھے یہ بھی برداشت نہیں کہ تم سرِ عام کسی سے اپنائیت و خلوص کا اظہار کرو۔ پہروں کسی سے باتیں کرو۔ تم تک رسائی اتنی آسان ہو کہ جس کا جب دل کرے فون اٹھا کر تم سے بات کرنا شروع کردے۔ تم اتنے عام نہیں ہو۔ تم سن رہے ہو نا؟

دیکھو! میں جانتی ہوں کہ انسان فطرتاٗ آزاد ہے۔ اسے پابندی بالکل پسند نہیں ۔ وہ ہر اس چیز کے پیچھے بھاگتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ بلکہ شاید وہ اس چیز کے پیچھے زیادہ بھاگتا ہےجس چیز سے اسے روک دیا جائے۔ شاید اس ہی ڈر سے میں آج تک یہ بات تم سے کہہ نہیں پائی۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے تمہیں روکا تو تم محض فطرت سے مجبور ہو کر مزید پختہ ہوجائو گے اور میں یہ برداشت نہیں کرپائوں گی۔
تمہیں پتہ ہے نہ کہ میں اب بہت تھک چکی ہوں؟ اس مختصر عمر میں بہت بڑے بڑے نقصانات اٹھا چکی ہوں۔ اتنا کچھ کھو چکی ہوں کہ اب مزید کھونے کی تاب نہیں رکھتی۔ تم جانتے ہو نا کہ مجھ سے ساجھے داری نہیں ہوتی۔ جب بھی مجھے کسی رشتے  یا چیز کو کسی سے  بانٹنا پڑجائے تو میں وہ چیز ہو یا رشتہ، مکمل ہی چھوڑ دیتی ہوں!تم یہ بات جانتے ہو نا؟

اور تم یہ بھی  جانتے ہو کہ تم میرے لیئے کتنے قیمتی ہو! دیکھو میں تمہیں سمجھانا چاہ رہی ہوں کہ اس بار  کسی اور کیلئے اپنے کسی تعلق کو چھوڑنا بہت مشکل ہوگا۔ میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس بار یہ قربانی میں نہیں دوں گی۔

سنو! میرا حق بنتا ہے کہ میں تمہیں کسی بھی ایسے کام سے روک سکوں جو ہم دونوں کے بیچ میں ایک خلیج قائم کردے۔ اس تعلق کو کمزور کردے۔  میں کہہ رہی ہوں کہ اس بار قربانی میں نہیں دوں گی۔  تم نے سنا ؟ تم آج کے بعد کسی عورت سے نہ بےوجہ بات کرو گے نہ ہی ملوگے!! سنا تم نے؟؟

ہیلو؟ تم چپ کیوں ہو؟ ہیلو؟ ہیلو؟ میں کب سے بولے جارہا ہوں اور تم ہو کہ جواب ہی نہیں دے رہیں۔

ہاں ۔۔۔ کچھ نہیں! تم بتائو؟

کیا بتائوں؟

کچھ بھی؟

ہیلو؟ ہیلو؟ مجھے کہہ رہے تھے اب خود کہاں کھو گئے؟

ہاں ہیلو؟   ۔۔۔ اچھا سنو! میں دفتر کی کچھ ساتھیوں کو لیکر کھانے پر جا رہا ہوں۔ پروموشن کے بعد سے انہوں نے دعوت کا شور مچایا ہوا ہے۔  آکر فون کرتا ہوں۔

اچھا ٹھیک ہے۔(پلیز کہہ دو کہ تم کہیں نہیں جا رہے)

اچھا  ۔۔۔ سنو، شاید رات دیر ہوجائے۔ کل بات کرتے ہیں۔ اوکے!

چلو ٹھیک ہے! خدا حافظ (جہنم میں جائو)

خدا حافظ


کیا بتائوں؟ کیوں بتائوں؟ تمہیں خود معلوم ہونا چاہیئے۔ میں کیوں تمہیں بتائوں کہ مجھے کتنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ پر اپنا حق جتائو۔ اور ایک تم ہو کہ سپردگی کا پھسپھسا ڈھیر بن کر بیٹھی رہتی ہو۔ گویا میرے کچھ بھی کرنے سے تمہارے اوپر کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ میں محبت کے بارے میں  زیادہ تو نہیں جانتا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ محبت اپنی ذات میں بلا کی خودغرض ہوتی ہے۔ یہ کبھی بھی ساجھے داری برداشت نہیں کرتی۔ خدا بھی مخلوق سے محبت کرتا ہے لہٰذا سب گناہ معاف کربھی دے تو بھی شرک کو معاف نہیں کرتا۔ محبت کی سرشت میں برداشت کرنا ہے ہی نہیں۔ جہاں سمجھوتہ ہو وہاں کچھ بھی اور ممکن ہے مگر محبت نہیں ہوسکتی۔  کاش کہ تم کبھی یہ بات جان سکتیں۔

ہیلو؟ ہیلو؟ مجھے کہہ رہے تھے اب خود کہاں کھو گئے؟

ہاں ہیلو! ۔۔۔ ( آج پھر رات کڑھتے اور سڑتے گزرنی ہے۔ مگر تمہاری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تمہیں تو بہت اچھا لگتا ہے نا جب میں لڑکیوں سے بات کرتا ہوں۔ فخر سے دوستوں کو بھی بتاتی ہوگی کہ میں کتنا ہنس مکھ اور  روشن خیال ہوں۔ کاش کہ کبھی تم میں یہ احساس پیدا ہوسکے کہ یہ سب میں تمہارے اندر کی عورت کو بیدار کرنے کیلئے کرتا ہوں۔ تاکہ تم اس بات کا کبھی تو برا مانو۔  کبھی تو مجھے یہ احساس دلائو کہ تم بھی مجھ سے خدائوں کی طرح محبت کرتی ہو اور اپنے ساتھ کسی بھی نوعیت کا شرک تمہیں بھی برا لگتا ہے۔ مگر شاید کچھ خواب صرف خواب ہی رہنے کیلئے ہوتے ہیں)۔ ۔۔۔ اچھا سنو! میں دفتر کی کچھ ساتھیوں کو لیکر کھانے پر جا رہا ہوں۔ پروموشن کے بعد سے انہوں نے دعوت کا شور مچایا ہوا ہے۔  آکر فون کرتا ہوں۔ ۔۔(  پلیز کہہ دو کہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے)

اچھا ٹھیک ہے۔

اچھا ۔۔۔ (کیا تھا اگر تم بول دیتیں؟) سنو، شاید رات دیر ہوجائے۔ کل بات کرتے ہیں۔ اوکے!

چلو ٹھیک ہے! خدا حافظ


خدا حافظ (جہنم میں جائو) 

بلاگ فالوورز

آمدورفت