پیر، 27 اپریل، 2015

گوشت بازار

میں سگریٹ لیکر واپس گاڑی میں بیٹھا تو طلب شدید تر ہوچکی تھی۔  ہوا کچھ یوں کہ صبح ایک ضروری کام سے حیدرآباد جانا پڑگیا اور شام تک میرے پاس سگریٹ ختم ہوگئی۔ بعد از تلاش بسیار بھی جب میرا سگریٹ کا برانڈ نہیں ملا تو مجبورا صبر کرکے بیٹھ گیا اور کراچی واپس پہنچتے ہی گاڑی اپنے سگریٹ فروش کی دکان پر لے جاکر کھڑی کردی اور سگریٹ کے دو پیکٹ خرید کر واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔ طلب شدید تھی اور میں اس  چار گھنٹے بعد ملنے والی سگریٹ کا لطف ٹریفک میں برباد نہیں کرنا چاہتا تھا سو میں نے  آگے بڑھنے سے پہلے سگریٹ سے محظوظ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

ابھی میں نے سگریٹ سلگائی ہی تھی کہ کھڑکی پر ایک زور کی دستک ہوئی۔ میں نے جھنجھلا کر دیکھا تو ایک پچیس تیس سالہ خانہ بدوش عورت ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔ ویسے تو میں گداگری کو ایک شدید لعنت سمجھتا ہوں اور پیشہ ور گداگروں کی مدد کرنے کا قائل نہیں ہوں مگر اس وقت میں اپنی سگریٹ کا لطف برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نےاسے پیسے پکڑانے کیلئے  گاڑی کے سائیڈ پاکٹ سے بٹوا اٹھایا  تو  خیال آیا کہ سارے کھلے پیسے میں ابھی دکاندار کو دے آیا ہوں اور اب بٹوے میں سب سے چھوٹا نوٹ بھی پانچ سو روپے مالیت کا ہے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا جائے کہ اس  عورت نے دوبارہ کھڑکی بجانا شروع کردی ۔ میں نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا تو اس نے میری طرف ایک مسکراہٹ اچھالتے ہوئے دوبارہ شیشہ بجا دیا۔   پہلے تو میں نے سوچا کہ شیشہ نیچے کر کے اسے باتیں سناؤں مگر پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ ایک بھکارن کے منہ کیا لگنا۔  میں نے اسے نظر انداز کردیا اور نشست کو پیچھے کرکے نیم دراز ہوگیا۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور سگریٹ کے دھویں کو اندر اتارنے لگا۔  ابھی میں نے ایک ہی کش لیا ہوگا کہ منحوس شیشہ دوبارہ بج اٹھا۔ اس بار میں نے کچھ سوچے بغیر بٹوا اٹھا یا  اور اس میں سے پانچ سو کا ایک نوٹ نکال لیا۔ شیشہ نیچے کرکے اس بھکارن کو پیسے دیتے وقت میں نے اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کیلئے چہرے پر ایک مسکراہٹ سجائی اور پانچ سو کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ پانچ سو کا نوٹ دیکھ کر بھکارن  کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی۔  اس نے ایک جوابی مسکراہٹ میری سمت اچھالی اور ایک ادا سے لچک کر بول اٹھی، صاحب! پہلے بول دیتی ہے۔ میں منہ میں نہیں لے گی۔
. 
(اس ملک میں خدا جانے کتنی ایسی چلتی پھرتی دکانیں موجود ہیں جہاں گوشت بکتانہیں بلکہ کرائےپر ملتاہے. گاہک کو گوشت کهانے کی تو نہیں، البتہ بهنبهوڑنے کی پوری اجازت ہے)


اتوار، 19 اپریل، 2015

سنہ 1915 کی اک بات

یہ 1915 کی بات ہے بھائی جان،  جب  جاتی بہار کی ایک شام ایک انگریز آفیسر نے شام سے پہلے ہی چڑھا لی اور نشے کی حالت میں اپنی موٹر پر سوار راولپنڈی شہر کی  سیر کو روانہ ہوگیا۔  دو ٹوڈی بہن بھائی بدقسمتی سے اس ہی راستے پر اپنی سائکل پر جا رہے تھے جس پر وہ انگریز افسر اپنی موٹر لیئے خراماں خراماں رواں دواں تھے۔ کہتے ہیں کہ ان ہی دنوں ٹوڈی بچوں میں یہ افواہ مشہور تھی کہ ملکہ نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے کہ اب سے ہندوستانی اور انگریز آفیسر ایک جیسی حیثیت کے مالک ہوں گے اور ریاست کی نظرمیں دونوں کے حقوق یکساں ہوں گے۔  ٹوڈی لڑکا بھی شاید اس افواہ سے متاثر تھا  اور شاید کچھ جلدی میں بھی تھا۔انگریز کی گاڑی سے بچ کر آگے نکلنا چاہتا تھا کہ سائیکل قابو میں نہ رکھ سکا اور گاڑی میں جا گھسا۔ انگریزافسر نے گاڑی سے اتر کر دیکھا تو چمچماتی گاڑی پر ٹوڈی سایئکل اپنے بوسے کا نشان چھوڑ گئی تھی۔ کچھ شراب اور زیادہ طاقت کے نشے میں چور اس افسر نے ٹوڈی بچے کو اپنی لاتوں اور گھونسوں پر رکھ لیا ۔ ادھر وہ ٹوڈی بھی اس زعم میں تھا کہ اب سب شہری برابر ہیں سو اس نے بھی برابر سے جواب دینے کی کوشش کی مگر انگریز طاقت میں بھی اس سے زیادہ تھا۔ اس نے نہ صرف اس ٹوڈی بچے کو رگیدا بلکہ اس کے ساتھ موجود اس کی بہن کو بھی مارنا شروع کردیا۔

بھائی جان آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو جب تک مجبور کرکے کوٹھے پر نہ بٹھا دیا جائے تب تک وہ عزت دار ہی کہلاتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ جب تک ہم اپنی ماں بہنوں کو چھوڑ کر دنیا کی تمام خواتین کو کوٹھے پر نہ بٹھا دیں ہمیں تشفی نہیں ہوتی مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھر کے باہر عزت دار عورت  پر ہاتھ اٹھانے کا حق صرف اس کے شوہر کو ہے۔ اگر کوئی اور یہ حق استعمال کرنے کی کوشش کرے تو ہماری قوم اس عورت کی پشت پر کھڑی ہوجائے گی اور یہ کوشش کرنے والے کی  تکہ بوٹی بنا دی جائے گی۔اس انگریز نے بھی جب ٹوڈی لڑکی کو مارنا شروع کیا تو لوگ جو اتنی دیر سے لاتعلق تھے ، جمع ہونا شروع ہوگئے۔ انگریز جب مار مار کر تھک گیا اور پھر بھی تسلی نہیں ہوئی تو اس نے اپنی پتلون کی بیلٹ اتاری اور اس بیلٹ کو اس ٹوڈی لڑکی کے گلے میں ڈال کر اسے گھسیٹنا شروع ہوگیا۔  مجمع یہ حرکت دیکھ کر بپھر گیا۔ اگر تو وہ انگریز نہ ہوتا اور انگریز ہونے کے ساتھ ساتھ افسر نہ ہوتا (جو اس نے خود وہاں فخر سے لوگوں کو بتایا تھا)  تو اب تک اس کی بوٹی بن چکی تھی۔ مجمع جذباتی ضرور تھا مگر احمق نہیں ۔ انہوں نے افسر پر ہاتھ اٹھانے کے بجائے پولیس کی مدد لینے کا فیصلہ کرلیا۔ جس وقت پولیس وہاں پہنچی تو انگریز افسر مجمع میں گھرا ہوا تھا اور دونوں ٹوڈی زخمی حالت میں سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ پولیس آفیسر سمجھدار تھا لہٰذا اس نے انگریز افسر کو ساتھ لیا اور لوگوں کو قانون کے مطابق کاروائی کا یقین دلا کر اس افسر کو اپنے ساتھ لے گیا اور ساتھ خیریت کے واپس چھائونی میں چھوڑ آیا۔

چھاؤنی میں موجود بڑے افسران کو جب اس پورے واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو اس افسر کو ایک شو کاز لیٹر پکڑا دیا۔ اس کے بعد چھاؤنی کے تمام بڑے سر جوڑ کے بیٹھے کہ اس واقعے کی تشہیر کس طرح روکی جائے۔ اگر یہ خبر عام ہوجاتی تو عوام میں منفی جذبات پھیلنے کا اندیشہ تھا جو انگریز سرکار کیلئے کسی بھی طرح سودمند نہیں تھا۔ سب سے پہلے تمام اخبارات کے مالکان کو  ہرکارے دوڑائے گئے کہ اس خبر کو شائع ہونے سے روکا جائے ورنہ اس خبر کی تشہیر ملکہ سے غداری تصور کی جائے گی جس کی کم از کم  سزا اخبار کی بندش تھی۔  اخبارات کی طرف سے سکون ہوگیا تو افسران نے سکون کی سانس لی اور اپنے معمول پر لوٹ گئے۔

رات کو البتہ جب تمام افسران کلب میں اکٹھے ہوئے تو پتہ چلا کہ اخبارات کو اس خبر کا ضمیمہ نکالنے سے روکنے کے باجود، خبر شہر بھر میں پھیل رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو تین دن میں ملک بھر میں یہ خبر عام ہوجائے گی کہ انگریز سرکار کی نظر میں ٹوڈی بچوں  کی اصل اوقات کیا ہے اور پوجے جانے کی حد تک جو عزت انہیں حاصل ہے وہ چھن جائے گی۔اس ہی رات ایک گول میز کانفرنس بلائی گئی جس میں شہر کے  کمشنر اور  مجسٹریٹ دونوں کو بلوایا گیا اور حکم دیا گیا کہ کل صبح یہ خبر اڑا دی جائے کہ ایک نئے قانون کے تحت اب سے حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کے گھر میں گھس  کر بھی ان کی گفتگو سن سکتی ہے اور تخلیئے کی اس گفتگو میں بھی اگر کوئی بھی چیز حکومت کے اور بالخصوص انگریز افسران کے خلاف ہوئی تو حکومت کسی بھی قسم کی سزا دینے میں آزاد ہوگی۔ مجسٹریٹ صاحبہ اور کمشنر صاحب تھے تو ٹوڈی ہی مگر اپنے تئیں وہ ان ٹوڈی بچوں سے بہت بلند تھے اور اس نئی خدمت کے بعد انہیں یہ امید تھی کہ وہ انگریز سرکار کی نظروں میں معتبر قرار پاسکتے تھے۔  اگلے دن صبح شہر بھر کے اخبارات چنگھاڑتے ہوئے اس نئے قانون کے مسودے اور بہت جلد نافذالعمل ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

بہت سے سیانوں نے اس خبر کو پڑھ کر بظاہر ہنسی میں اڑا دیا مگر اندر ہی اندر وہ سب لرزاں تھے کہ انگریز سرکار کی حماقتوں سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ کسی بھی قسم کا کالا  اور احمقانہ قانون نافذ کرسکتی تھی۔ لوگ اب بظاہر اس قانون کا مذاق اڑانے لگے مگر بھائی جان،  ان مذاقیہ جملوں میں بھی یہ احتیاط برتی جانے لگی کہ کل کو اگر یہ قانون واقعی نافذ ہوگیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ  وہ اپنے سابقہ بیانات کی بنیاد پر دھر لیئے جائیں۔ انگریز آفیسر اور ان دو ٹوڈی بچوں کا نام اب کسی کو یاد نہیں تھا جنہوں نے اپنی معمولی غلطی کی ، گناہ سے کہیں بڑھ کر سزا پائی تھی۔

دو چار دن تک یہی صورتحال رہی پھر ایک دن چوک پر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے کہ جا کر  ان کالے انگریزوں کو سمجھائیں جو انگریز افسران کے کہنے پر یہ احمقانہ قانون نافذ کرنے کی بات کررہے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ایک لڑکا کہہ رہا تھا ، آزادی اظہار کے حق پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
دوسرے نے کہا، کیا یہ ہمیں دوسروں کے کہے گئے الفاظ دہرانے پر بھی سزا دیں گے؟ تیسرے نے کہا، ان کالے انگریزوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ ہم میں سے ہی ایک ہیں۔ کیا  انہیں اس ہی دن کیلئے اس جگہ بٹھایا  گیا تھا کہ یہ ہمارے حلق سے آواز تک چھین لیں؟ چوتھے نے ان کو روکا، تم سب لوگ غلط جگہ محنت کر رہے ہو! یقین مانو میں ان انگریزوں کو جانتا ہوں! ایسا کوئی قانون نہیں آنے والا۔ احتجاج کرنا ہی ہے تو ان دو غریبوں کیلئے کرو جن کا جرم یہ تھا کہ وہ انگریز نہیں تھے اس لیئے حقیر سمجھ کر مسل دئے گئے

میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ طیفا مراثی تھا۔ نام عاطف تھا مگر طیفا مراثی کے نام سے مشہور تھا۔  اس لیئے کیونکہ ہر بات کو مذاق میں بدل دیتا تھا۔ بچپن سے ہی محلے میں بدنام تھا۔ ہمارے بڑے ہمیں اس کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتے تھے کیونکہ اسے سوچنے کی بیماری تھی۔ وہ ہر بات کو سوچتا رہتا تھا کہ جو جیسا ہے وہ ویسا کیوں ہے؟  محلے کے بزرگ بھی اس سے دور ہی رہتے تھے کیونکہ اسے سوچنے کے ساتھ ساتھ سوال کرنے کی بھی بیماری تھی۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر ایسے سوالات لے کر آتا تھا جن کے جوابات کسی کے پاس نہیں ہوتے تھے۔  وقت کے ساتھ اس نے سیکھ لیا تھا کہ اس بستی میں اسے سمجھنے والا کوئی نہیں ہے سو اس نے اب لوگوں کے ساتھ اپنا برتاؤ تبدیل کرلیا تھا۔ اب اس کا کام صرف  محلے کے بزرگوں پر جگتیں مارنا تھا۔ دفتر سے آکر وہ محلے کے تھڑے پر بیٹھ جاتا اور ہر آنے جانے والے عزت دار پر جملے کستا تھا۔ وہ بھی اسے خاموشی سے برداشت کرجاتے تھے کہ جانتے تھے کہ عزت تب تک ہے جب تک بات مذاق میں ہورہی ہے۔ کسی دن اس نے سنجیدگی کے ساتھ یہی باتیں کرنا شروع کردیں تو جتنا کچھ وہ ان کے بارے میں جانتا تھا، خود انکی زندگی دشوار ہوجانی تھی۔

بھائی جان! کہانی کے اصول کے مطابق یہاں طیفے کو اپنے ساتھ تین چار لڑکے لے جاکر اکیلے گولی کھا لینی چاہیئے اور پھر اس کے گھر والوں کو بھی اس کے نتیجے میں اپنی عزتیں انگریز افسران کے حوالے کردینی چاہئیں مگر چونکہ نہ میں منٹو ہوں اور نہ میرے دماغ پر عورت سوار ہے  جس کا ہر کہانی میں ازار کھولنا منٹو کا فرضِ عین تھا، لہٰذا کہانی میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ بھائی جان! طیفے نے  بہت سمجھایا مگر اس وقت فرطِ جذبات میں کوئی بھی طیفے کی بات سننے کو تیار نہیں ہوا۔ طیفا شاید یہ نتیجہ پہلے سے جانتا تھا لہٰذا اس نے ایک حقارت بھری نظر اس مجمع پر ڈالی اور وہاں سے واپس آگیا۔

واپس آنے کے بعد طیفا تین دن گھر میں بند رہا اور خدا جانے کیا کرتا رہا۔ تین دن کے بعد البتہ جب وہ باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک مضمون تھا جو وہ سب کو روک روک کر پڑھا رہا تھا۔طیفے   نے اپنے فن اورسوچ  کا نچوڑ اس ایک تحریر میں جمع کر دیا تھا۔ وہ سب کو روک روک کر سناتا تھا کہ کس طرح یہ نیا قانون ایک ہفتے کے اندر اندر غائب ہوجائے گا اور جاتے جاتے اس افسر اور ٹوڈی بچوں کی داستان بھی اپنے ساتھ لے جائے گا۔ پھر کسی کو یاد نہیں رہے گا کہ راولپنڈی میں اس شام کیا ہوا تھا ۔ اور اگر کسی کو یاد آیا بھی تو وہ یہ سوچ کر چپ ہوجائے گا کہ اگر اس بارے میں چرچا کی تو وہ کالا قانون سچ مچ ناٖفذ نہ ہو جائے۔ طیفاصبح سے لیکر شام تک یہ مضمون لوگوں کو بانٹتا اور سناتا رہا۔ پھر شام گئے طیفا غائب ہوگیا۔

کیا مطلب غائب ہوگیا؟  میں نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا۔
اس نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ میری طرف اچھالی اور بولا، جیسے سب غائب ہونے والے ہوتے ہیں۔ سنا ہے کوئی گاڑی آئی تھی اور اس میں طیفے کو ڈال کر لے جایا گیا تھا۔ اس دن کے بعد سے آج تک طیفے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ کہہ کر وہ اس طرح خاموش ہوگیا جیسے آئندہ کبھی بولے گا ہی نہیں۔
میں نے فورا پوچھا، پھر کیا ہوا؟
 ،  طیفے کی محنت رنگ لے آئی۔ لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ سرکار ان کی توجہ ہٹانے کیلئے کیا ڈرامہ کر رہی تھی۔ وہ سب یک آواز ہوکر کھڑے ہوگئے اور اس انگریز افسر کو اس کی حرکت کی سزا دلوا کر ہی دم لیا۔
میں نے کچھ نہ کہا۔ گاڑی آہستہ ہوکر اسٹیشن پر رکی تو اس نے اپنا سامان سمیٹا اور اٹھ گیا۔ 
الوداعی مصافحہ کرتے وقت میں نے اس سے کہا، آپ نے جو داستان مجھے سنائی ہے مجھے اس کا انجام آپ کا خودساختہ معلوم ہوتا ہے
اس نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا ، آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
آپ کے لہجے میں ایک ناقابل بیان درد تھا۔ میں نے کہا۔

میرے ہم سفر نے اپنے حلق کی تلخی تھوک کے ساتھ نگلتے ہوئے کہا، جی ہاں! کالا قانون تو کبھی نہیں آیا مگر وہ مادر ۔۔۔ وہ گالی دیتے دیتے رک گیا اور پھر بولا، انگریز افسر آج بھی سروس پر موجود ہے اور عوام جو کالے قانون کے غم میں پاگل ہوچکی تھی، اس  کا، ٹوڈی بچوں کا اور طیفے کا نام تک بھول چکی ہے۔ یہ کہہ کر وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔

جمعہ، 10 اپریل، 2015

وغیرہ وغیرہ

آتے رہے شب بھر جو خیالات وغیرہ
جاگا کیئے، رویا کیئے، کل رات وغیرہ

عاشق پہ تو ہر رات قیامت ہے، بلا ہے
بیکار میں بدنام ہے برسات وغیرہ

بس چند ہی راتیں میرے جیون کی کٹھن ہیں
یہ رات ہے، وہ رات ہے، ہر رات وغیرہ

بے وجہ اداسی کا سبب کوئی جو پوچھے
کہہ دینا، یونہی! بس زرا حالات وغیرہ

ہر بار صدا لوٹ کے خالی چلی آئی
اب ہم سے نہ ہوگی یہ مناجات وغیرہ

یہ شعر و سخن، درد و الم تم کو مبارک
عاطف سے نہ سنبھلیں یہ خرابات وغیرہ

بلاگ فالوورز

آمدورفت