جمعہ، 17 جولائی، 2015

عید کے رنگ

پہلا رنگ:
امی یہ عید کیا ہوتی ہے؟
 بیٹا یہ خوشیوں کا تہوار ہوتا ہے۔
امی ہم اس تہوار پر خوش کیوں نہیں ہوتے؟
بیٹا تہوار پیٹ بھروں کیلئے ہوتے ہیں۔

دوسرا رنگ:
عید مبارک امی!یہ جملہ سننے میں کتنا بھلا لگتا ہے ناں؟ کاش کبھی بولنے کا موقع بھی ملا ہوتا۔

تیسرا رنگ:
یار ایک تو عیدگاہ میں سب سے عید مل کر جو خوشی ہوتی ہے اس کا بھی جواب نہیں۔ ہمارے تہوار، ہمارے تہوار ہیں!
 نہ کر! تو سب سے گلے ملتا ہے؟
تو اور؟ رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔
چل اب نماز کھڑی ہورہی ہے۔ خطبے کے بعد آج میں بھی سب سے گلے ملوں گا۔
ہاں چل! اور دیکھ عید کے بعد گیٹ پر نہ رکیو ورنہ وہ پولیس والا بھی گلے لگ جاتا ہے۔ صبح کی ہلکی سی دھوپ میں بھی پسینے کی دکان بنا کھڑا ہوتا ہے۔ ڈسگسٹنگ!
آخ  ۔۔۔۔چل نماز پڑھیں۔

چوتھا رنگ:
چل  لگا شرط آج بھی کوئی حرامزادہ عید ملنے کیلئے نہیں رکے گا۔
یار ایسے کیسے نہیں رکے گا۔ ہم ان کی حفاظت کی خاطر اپنی عید کی نماز تک چھوڑ دیتے ہیں۔ گھر بار بیوی بچوں کو چھوڑ کر یہاں ذلیل ہوتے ہیں۔ کوئی کیوں نہیں رکے گا۔
لگی پچاس کی؟
چل لگی!
نکال پچاس روپے!

پانچواں رنگ:
امی میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ عید پر آجاؤں۔ دیکھیں آپ روئیں نہیں۔
روؤں نہ تو اور کیا کروں؟ ایک تو مہنگائی نے موئی کمر توڑ رکھی ہے۔ تیرا آنا کون سا آسان ہے؟ پچاس ہزار کا تو ٹکٹ لگ جائے گا۔ پھر  بہنوں کے سسرال والوں کے اتنے بڑے کھلے ہوئے منہ کہ لڑکا دبئی سے آیا اور بہن بہنوئی بھانجے بھانجیوں کیلئے کچھ نہ لایا؟  تو میرے آنسوؤں کا خیال مت کر مجھے خدا نے بڑی ہمت دی ہے میں جیسے تیسے سنبھال ہی رہی ہوں اپنے کو، آگے بھی چلا ہی لوں گی۔
مگر امی ۔۔۔
اے جانتی ہوں تو میری محبت میں یہ سب کر رہا ہے مگر میں کوئی روایتی ماں تھوڑی ہوں کہ تیری کمر توڑ دوں۔ برداشت کرلوں گی۔ ایک عید ہی کی تو بات ہے۔
اچھا امی ۔۔۔
ہاں سن! ٹکٹ کیلئے جو پیسے جوڑے تھے اس کا سونا بھجوا دے۔ ایک تو یہ نحشی لڑکیاں بھی بانس کی طرح بڑھتی ہیں۔  ابھی میں بندے بنوا لوں گی بعد میں چھوٹی کی شادی پر کام آجائیں گے۔ چل اب فون رکھ ورنہ تیرا بل بنے گا۔

چھٹا رنگ:
شکر ہے عید کا چاند نظر آگیا۔
ہئے رمضان چلے گئے اور آپ کو خوشیاں سوجھ رہی ہیں؟
بیگم شکر اس بات کا ہے کہ کل سے شیطان آزاد ہوجائے گا اور انسانوں سے جان چھوٹے گی۔

ساتواں رنگ:
ابو یہ صدقہ فطر کیا ہوتا ہے؟
بیٹا روزوں میں جو کمی کوتاہی رہ گئی ہوتی ہے اس کی تلافی کیلئے عید کی نماز سے پہلے پہلے یہ صدقہ نکالا جاتا ہے۔
ابو ہم کب دیں گے یہ؟
ابھی تو پانچواں روزہ ہے۔ عید پڑھنے جب جائیں گے تو باہر کسیٖ غریب  کو دے دیں گے۔
تو ابھی کیوں نہیں؟
ابھی سے دے دیئے تو تو وہ خرچ کردے گا  نا!

آٹھواں رنگ:
امی ! ابو ہمارے ساتھ عید پر کیوں نہیں ہوتے؟
کیونکہ وہ ایک فوجی جوان ہیں اور سرحد کی حفاظت پر معمور ہیں۔
ابو سرحد کی حفاظت کیوں کر رہے ہیں امی؟
کیونکہ سرحد کے دونوں طرف، جرنیلوں  کی شروع کردہ جنگ میں جرنیل گولیاں نہیں کھا سکتے۔

نواں رنگ:
محترمی وزیر اعظم و وزیر اعلٰی صاحبان! جانتی ہوں کہ آپ کے آنے سے میرا بیٹا واپس نہیں آجائے گا مگر پھر بھی اگر آپ اس عید پر اپنے بیٹوں کو لیکر گھر آئیں تو مانو ڈھارس سی بندھ جائے گی۔
والسلام
145 میں سے ایک کی ماں

دسواں رنگ:
عید مبارک!
عید مبارک میرے دوست!
روزے کیسے گئے؟
بہترین! تیرے؟
میں نے بھی پورے رکھے!
ابھی کہاں جا رہا ہے؟
عید منانے!
چل عیش کر! پر بشیر کی دکان سے نہ لیجیو کچی بیچتا ہے سالا۔ پار سال بھی اس کے تین گاہک عید والے دن ہی نکل لیئے تھے۔

گیارہواں رنگ:
سنیں! شبر بھائی کے حالات برسوں سے اچھے نہیں چل رہے۔ بچوں کو بیس روپے سے زیادہ عیدی دیکر ان کی عادتیں خراب مت کیجئے گا۔
تو پھر یہ پانچ سو کے نوٹ کس لیئے رکھے ہیں؟
وہ واپسی میں شبیر بھائی کے پاس ڈیفینس بھی تو جانا ہے۔

بارہواں رنگ:
امی سارے بچے اپنے دادا دادی کے پاس عید منانے جاتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں جاتے؟
بیٹا انہیں کبھی اولاد کی قدر ہی نہیں ہوئی۔ خیر! زیادہ دل کر رہا ہے تو  انٹرنیٹ ہے نا؟
پر امی ! انٹرنیٹ سے دادو ڈائون لوڈ تو نہیں ہوسکتیں؟

تیرہواں رنگ:
یار یہ مارک زکر برگ بھی انتہائی فضول آدمی ہے۔ فیس بک پر پوک کی جگہ ہگ کا بٹن بنا دیتا تو فالتو رشتے داروں سے عید ملنے نہیں جانا پڑتا۔
چودہواں رنگ:
یار یہ خشک میوہ اٹھائیں۔
واہ! کیا عمدہ کاجو ہیں۔ مدت بعد ایسے کاجو چکھے ہیں۔
ہاں  بھئی عمدہ کیوں نہ ہوں؟ سری لنکا سے منگوائے ہیں۔
اور سنائیں؟ فطرے کی پرچیوں پر بھی اس مرتبہ بھی سہی وبال رہا۔
ہاں یار۔ فطرے کے پیچھے ایسے بھوکوں کی طرح مرتے ہیں یہ لوگ،  اور پھر خدا جانے کن کاموں میں استعمال لاتے ہوں۔ بھئی میں نے تو پانچوں کے گن کر سو روپے کے حساب سے پورے پیسےمسجد میں جمع کرادیئے۔ بس اللہ عبادت قبول کرلے۔

پندرہواں رنگ:
مولوی صاحب عید کا وعظ سناتے ہوئے گویا ہوئے، آج خوشی کا دن ہے لہذا آج کے دن کے روزے کو خدا نے حرام قرار دیا ہے۔ آج کھانے اور کھلانے کا دن ہے۔
مولوی صاحب اگر کسی شخص کے پاس نہ کھانے کیلئے کچھ ہو اور نہ سوال کرنے کیلئے ہمت، تو کیا آج کے دن بھی بھوکا رہنے پر کوئی گناہ ہوگا؟ اور اگر ہاں تو وہ گناہ فاقہ کش کے سر ہوگا یا اہل علاقہ کے؟  میں نے سوال کرنا چاہا مگر خشک گلے سے الفاظ برآمد نہ ہوسکے۔

سولہواں رنگ:
ہائے وقت بھی کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ عید کارڈ کے بغیر بھی کوئی عید ہوتی تھی؟
موم! یہ عید کارڈ کیا ہوتا ہے؟

سترہواں رنگ:
ماشاءاللہ کتنی حسین لگ رہی ہیں آپ! ایسا لگتا ہے گویا چاند دن میں ہی ہمارے گھر اتر آیا ہو۔ یقین مانیں آپ کا یہ ساتھ  ہی میری اصل عید ہے۔
باجی ۔۔۔
ہاں؟
بھائی جان کے گزرنے کے بعد گھر میں کوئی مہمان آکر جھانکتا نہیں ہے اور آپ بلاوجہ مجھے عید والے دن بھی روک کر رکھتی ہیں۔ کوئی کام نہیں ہے تو میں گھر جاؤں؟

اٹھارہواں رنگ:
امی میری عیدی؟
یہ لیجئے آپ کی عیدی! آداب کیجئے؟
آداب!
اب ان پیسوں کا آپ کیا کریں گے ؟
باہر اونٹ والا آیا ہوا ہے۔ میں ان پیسوں سے اونٹ کی سواری کروں گا۔
بری بات! سارے پیسے اس طرح خرچ نہیں کرتے۔
پر امی اگر میں نے پیسے خرچ نہیں کیئے تو اونٹ والے کی عید کیسے ہوگی؟

انیسواں رنگ:
خدا غارت کرے ان بجلی والوں کو۔ ایک عید کا دن ہوتا ہے جب انسان سکون سے گھر میں بیٹھ کر ٹیلیویژن دیکھتا ہے اور آج بھی بجلی چلی گئی۔

بیسواں رنگ:
بھیا !  میں نہ کہتی تھی کہ قوم کو آپ کی قربانیوں کا احساس ہے۔  دیکھیں فیس بک پر پوسٹ لگی ہوئی ہے کہ "سلام ہے قوم کے ان بچوں پر جو عید کے دن بھی نئے کپڑوں کی جگہ پرانی وردی پہن کر قوم کے دفاع میں مصروف ہیں"۔
غور سے دیکھو پگلی، اس پوسٹ میں وردی کا رنگ سیاہ نہیں خاکی ہوگا۔

اکیسواں رنگ:
عید مبارک غفران بھائی!
خیر مبارک جبران بھائی!
کیا پلان ہے پھر آج کا؟
پلان کیا ہونا ہے؟ ابھی گھر پر چاند رات چل رہی ہوگی سو رات میں سکائپ پر کال کرلوں گا  بس۔   اچھا اب اجازت دیں جاکر ٹیکسی نکالنی ہے۔ دعا کریں کوئی اچھی سواری مل جائے۔ چار پیسے جمع ہوجائیں تو انشاءاللہ بڑی عید پر میں بھی پاکستان ہو آؤں گا۔

بائیسواں رنگ:
عید مبارک بھائی!
خیر مبارک!
کیا حال چال ہیں؟
دادا پوچھو مت! اس دفعہ تو لاٹری نکل آئی ہے۔ عامر بھائی کے پروگرام سے تیرا بھائی گاڑی، فرج، اے سی، اور کیو موبائل سب جیت کے لایا ہے۔ فردوس کے دو لان اس کے علاہ ہیں۔
دادا تیری تو عید سے پہلے ہی عید ہوگئی۔
بس یار اللہ کا کرم ہے۔ دو سال سے لگا ہوا تھا۔ اب جا کر کہیں پاس ملا  تھا۔
اللہ کے نام پر دیتا جا صاحب ۔۔۔ صاحب عید کا دن ہے صاحب!
بھاگو یہاں سے ۔۔۔ پتہ نہیں کہاں سے آجاتے ہیں منہ اٹھا کر۔۔۔ سالا یہ قوم ہی بھوکی ننگی ہے۔

تئیسواں رنگ:
بیگم میرے کپڑے؟
استری کرکے الماری میں ٹانگ دیئے ہیں۔
شلوار میں ازار ڈال دیا تھا؟
جی ڈال دیا تھا۔
اچھا میں نہا کر آتا ہوں۔ یہ گھر کی صفائی بعد میں کرتی رہنا پہلے شیر خرمہ تیار  کردو۔ گھنٹوں پکاتی رہتی ہواور اس چکر میں  کبھی نماز سے پہلے تیار نہیں ہوپاتا۔
جی وہ فجر میں اٹھی تھی تب ہی بنا دیا تھا۔ آپ جاکر نہالیں۔
بیگم میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ واپسی میں قبرستان اوراس کے بعد  تایا ابا کے گھر سلام کرتا ہوا آئوں گا۔ سو نہیں جانا! ایک تو تم عورتوں کو عید والے دن بھی سونے سے فرصت نہیں ملتی۔

چوبیسواں رنگ:
رہ گیا اپنے گلے میں ڈال کر بانہیں غریب
عید کے دن جس کو غربت میں وطن یاد آگیا
- نامعلوم

پچیسواں رنگ:

امی یہ عید کیا ہوتی ہے؟
بیٹا عید خوشی کا دن ہوتا ہے۔ اس دن خوشیاں بانٹی جاتی ہیں۔
امی ہمارے گھر کوئی خوشی بانٹنے کیوں نہیں آتا؟
بیٹا ہمارا گھر شہر کے مضافات میں ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے خوشیوں کا تھیلا خالی ہوجاتا ہے۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت