جمعرات، 25 اگست، 2016

جنت مکانی اقبال جانی کی ڈائری - سوشل میڈیا

پیاری ڈائری،

پیکاچو کی تلاش کا احوال تو تم پچھلے ہفتے سن ہی چکی ہو تو آج جب تھوڑی فرصت میسر ہوئی تو سوچا باقی کی کہانی بھی مکتوب کر ہی دوں۔

بھئی ماجرہ کچھ یوں ہے کہ جب سے یہ انٹرنیٹ آٰیا ہے یہاں کا ماحول بھی عجیب ہوگیا ہے۔ پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایلیا بھائی کے محل سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کی بہتّر میں سے ایک نے غلطی سے فیس بک پرکسی  فراق کی کوئی غزل شیئر کر دی تھی۔ یہ خبر جب ایلیا کی نیوز فیڈ میں آئی تو یہ لگے اس حور کو لتاڑنے۔ اب وہ غریب لاکھ یقین دلائے کہ معاملہ یوں نہیں اور یوں ہے اور وہ فراق کو دو کوڑی کا شاعر نہیں مانتی مگر ایلیا بھائی کا اصرار تھا کہ اگر تو واقعی اپنے دعوے اور میری محبت میں سچی ہے تو ابھی اپنی رگ کاٹ کر دکھا تو میں مانوں! اُدھر وہ بھی تیش کھا کر چلارہی تھی کہ اول تو رگوں کا تصور نہیں اور جو ہوتی بھی تو کیا سچ میں کاٹ لیتی؟ آپ نے خود فرمائش کرکے فارحہ مانگی تھی۔ اب بھگتیں! بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ ہوا مگر شام گئے تک ایلیا نے اس پر بھی ایک بے وزنی غزل کہہ ڈالی اور گلی گلی دروازے بجا کر لوگوں کو سناتے پھرے۔ خیر یہ بھی خوب تماشہ رہا!

یہ تو ہوا فیس بک کا احوال، دوسری طرف کوئی موا انسٹا گرام کرکے بھی آگیا ہے۔  اپنی بیگم تو خیر ملکہ حسن بھی ہو تو بھی خوش شکل  نہیں لگ سکتی بلکہ جنوب کے ایک شاعر کے بقول، عورت کے خوبصورت ہونے کے لئے اس کا پرایا ہونا ضروری ہے تو ان کا کیا رونا مگر اچھی خاصی حورین اس انسٹا گرام کے چکر میں عجیب ہوگئی ہیں۔ کل پائیں باغ میں داخل ہوا تو ایک ٹیڑھے منہ والی عورت کو دیکھ کر ڈر ہی تو گیا۔چہرے کے بگڑے ہوئے نقوش دیکھ کر لگا کہ شاید بیگم صاحب ہیں مگر جب ان خاتون نے منہ سیدھا کیا تو پہچانا کہ یہ تو چونسٹھویں ہیں۔ پوچھا کہ خدا نخواستہ یہاں بھی مرگی کا مرض موجود ہے تو شرم سے دوہری ہوتے ہوئے گویا ہوئیں کہ انسٹا پر سیلفی ڈالنی تھی۔ یا للعجب!

خیر یہ سب گفتگو تو برسبیل تذکرہ تھی۔ اصل ماجرہ تو اس ٹوئیٹر کا تھا۔ بھئی یہ ٹوئیٹر بھی کوئی کمال کی چیز ہے۔ گھنٹوں مجمعے کو مسحور کرکے تقاریر کرنے والے اب بیٹھ کر شکل دیکھتے ہیں اور گھرمیں اپنے کمرے سے باہر بھی پہچانے نہ جانے والے احباب اب سلیبرٹی کہلاتے ہیں۔ ابھی کل  ہی کی بات ہے کہ مغرب کے بعد مغربی محلے میں وہ تیسری والی مشہور مغربی چیز کی محفل جمی  ہوئی تھی کہ محمد علی صاحب بیٹھے بیٹھے آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے اداسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ کل میں نے چودہ نکات ٹوئیٹ کئے تھے۔ چودہ ریٹوئیٹ بھی نہیں ملیں۔ بعد میں وہی ٹوئیٹ فاطمہ نے اپنے اکاؤنٹ سے کریں تو تین گھنٹے میں تین سو ریٹوئیٹ اور چار سو فیورٹ مل گئے۔ بات واقعی افسوس کی تھی سو سب نے مل کر تسلی دینے کی کوشش کی۔ رحمت علی البتہ بیٹھے ہوئے منہ دبا کر ہنستے رہے۔ محمد علی کی نظر پڑی تو چڑ کر اس ہنسی کی پوچھ بیٹھے۔ رحمت علی پہلے تو پہلو دیتے رہے مگر بالآخر بول پڑے کہ دوسروں کا کیا شکوہ؟ خود آپ نے جس بڑے گلے والی رتی کی آئی ڈی پرسوں فالو کی تھی اور اس کے بعد سے ہی مسلسل ڈائریکٹ میسج کی ریکویسٹ بھیج رہے ہیں وہ خاکسار کی ہی ہے! اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سمجھ داروں کے لئے نشانِ عبرت ہے۔

بس اس واقعے کے بعد سے سمجھوسوشل میڈیا سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔ سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں کہ جن حوروں کو ہم غزلیں سناتے رہے اگر کبھی وہ بھی غلماں نکلے تو  ۔۔۔  رہے نام اللہ کا!


محمد اقبال 

پیر، 22 اگست، 2016

ورثہ

کتنی بار سمجھایا ہے تم لوگوں کو کہ یہ کھیلنے کی چیزیں نہیں ہیں! ابا کی دھاڑ صحن میں گونجی اور ہم سب بچے سراسیمہ ہوکر اماں کے کمرے کی طرف دوڑ گئے۔ ابا ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہی تھے اور باقیوں کے ابو کے مقابلے میں کم ہی ٖغصہ کرتے تھے مگر اپنی اماں کے جہیز کے ان پیتل کے برتنوں میں تو مانو ان کی جان چھپی ہوئی تھی۔  یہ برتنوں کا پورا سیٹ  ہماری دادی کے خاندان میں خدا جانے کب سے چلا آرہا تھا اور ان کو ان کی اماں نے رخصتی پر دیا تھا ۔ پہلے دادی نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اور اب ان کے گزرنے کے بعد سے ابا نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لی تھی۔ 

نئے زمانے تھے اور پیتل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں سو پیتل کے برتن مکمل متروک ہوچکے تھے۔ ان برتنوں کے متروک ہونے کی وجہ سے ان کے قلعی کرنے والے بھی ناپید ہوچکے تھے اور ہمارے اسٹور روم میں سجے ہوئے وہ ظروف بھی سال خوردگی کے کارن نوادرات لگتے  تھے۔ فطر ی طور پر ہر وہ چیز جس سے روکا جائے وہ بچوں کی محبوب ہوتی ہے سو یہی معاملہ ان برتنوں کا بھی تھا۔  ہمیں جب کبھی موقع ملتا ہم ان برتنوں کو سٹور سے نکال لاتے اور صحن میں سجا کر میوزیم میوزیم کھیلا کرتے تھے۔ عام طور پر یہ وقت دوپہر کا ہی ہوتا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد اماں اپنی کمر سیدھی کر رہی ہوتی تھیں اور ہم بچوں کی عیاشی ہوجاتی تھی۔ البتہ کسی دن  قسمت خراب  بھی ہوتی اور ابا جلدی گھر آجاتے  اور پھر ایک آدھ گھنٹے تک وہ بڑبڑاتے اور اماں کو صلواتیں سناتے رہتے تھے کہ جن سے تین بچے نہیں سنبھلتے تھے۔
آج برسوں بعد وہ مناظر پھر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے کیونکہ آج برسوں بعد وہی ظروف ایک بار پھر ہمارے دالان میں سجے ہوئے تھے اور اس بار انہیں سٹور سے نکالنے کی گستاخی کرنے والا کوئی اور نہیں خود ابا تھے۔

معاملہ کچھ یوں تھا  کہ میں یونیورسٹی سے فارغ ہوچکی تھی اور آنے والے رشتوں میں سے ایک امی ابو کو پسند
 بھی آگیا تھا اور وہاں میری بات پکی کر دی گئی تھی۔ لڑکا پڑھا لکھا تھا۔ اچھی نوکری تھی اور خاندانی لوگ تھے۔ بقول ابا کے، میرے لئے اس سے بہتر کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔  خیر اس جملے کا کیا کہ یہ جملہ تو میرے ملک کی تقریبا ہر مطلقہ نے بھی اپنی شادی کے وقت ضرور سن رکھا ہوتا ہے کیونکہ یہ جملہ والدین اولاد سے زیادہ خود کو تسلی دینے کے لئے  کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اس تسلی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ بچپن سے جب لڑکی کو محض لڑکی بنا کر پالا جائے تو بڑے ہوکر اسے یہ یقین دلانا کہ وہ محض لڑکی نہیں بلکہ انسان بھی ہے بہت دشوار ہوتا ہے۔پھر وہ ساری عمر کے لئے محض ایک لڑکی ہی ہوتی ہے۔ اور پھر  جس معاشرے میں لڑکی کو سراہنے کا مطلب اسے "بلاوجہ سر چڑاھنا " قرار دے دیا جائے تو پھر اس غریب کی زندگی میں آنے والا ارذل ترین مرد بھی جب اسے مصنوعی ہی سہی، اگر عزت دیتا ہے، اسے سراہتا ہے ، تو وہ غریب اسے دنیا کا سب سے مخلص انسان سمجھ بیٹھتی ہے۔ سب کچھ اسے سونپنے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گویا کہ وہ دکاندار جو اپنے مال سے اس قدر مایوس ہوچکا ہو کہ جب رات گئے کوئی بھولا بھٹکا نشئی بھی بھٹکتا ہوا اس کی دکان پر آ نکلے تو وہ دکاندار محض اپنا نقصان کم کرنے کے لئے اپنا قیمتی ترین سامان، قیمت خرید سے بھی کم داموں میں بیچ دینے کو تیار ہوجائے۔اور لاکھ تعلیم یافتہ سہی مگر بہرحال  میں بھی اس ہی معاشرے میں رہنے والی  ایک لڑکی تھی سو اگر ایک لڑکا عمر بھر کے لئے  میری ذمہ داری اٹھانے پر راضی تھا تو اس اسے بہتر کوئی انسان میرے لئے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

 میں دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی مگر دونوں بھائی ابھی چھوٹے تھے اور کما نہیں رہے تھے۔ شادی کے تمام اخراجات کا بار ابا کے کاندھوں پر تھا  اور وہ اپنے حساب سے جس حد تک ہوسکتا تھا تیاریوں میں مصروف تھے۔ اکلوتی لڑکی ہونے کی وجہ سے انہیں معلوم تھا کہ یہ خرچہ دوبارہ پلٹ کر نہیں آنا سو انہوں نے ماتھے پر بل ڈالے بغیر ساری جمع پونجی میری شادی کی تیاریوں پر لگا دی تھی۔ متوسط طبقے کا گھرانہ تھا سو اماں کا زیور بکنے کے بعد اور دیگر جمع پونجی ملا کر بھی ناکافی ثابت ہوئی تھی اور ابا کو چند دوستوں سے ادھاربھی  لینا پڑ گیا تھا مگر وہ پھر بھی مطمئن تھے کہ میں رخصت ہوکر اچھے گھر میں جارہی ہوں۔

ان کا یہ اطمینان مگر عارضی ثابت ہوا تھا کیونکہ جس دن جہیز کا سامان پہنچا کر وہ وواپس آئے تو ان کا منہ تفکرات کی دکان بنا ہوا تھا۔ میرے ہونے والے سسر نے انہیں بہت رسان سے سمجھادیا تھا کہ ان کا زمانہ اور تھا مگر اب نئے زمانے کے نئے تقاضے ہیں۔ وہ مانگ تو نہیں رہے مگر آنے والی بہو رکشہ ٹیکسیوں میں گھومتی اچھی نہیں لگے گی اور ویسے بھی لڑکا انجینئر ہے سو بعد میں تو اپنی گاڑی خرید ہی لے گا مگر تب تک بیچاری بہو کہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتی پھرے گی؟ آپ نے اتنا تام جھام بلا وجہ کرلیا حالانکہ ہم لوگ تو جہیز کو لعنت سمجھتے ہیں اس لئے ہم نے آپ سے کوئی مانگ بھی نہیں کی تھی۔ گاڑی کا معاملہ بھی اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ یہ آپ کی اپنی بیٹی کی خوشی اور آرام کا معاملہ ہے۔ بھئی ہم نے تو پورے خاندان کو بتا دیا ہے کہ خیر سے بہو اونچے گھرانے سے ہے اور اس نے نہایت محبت کرنے والے والدین پائے ہیں سو اب تو یہ عزت کا معاملہ ہوگیا ہے۔ تین دن بعد نکاح ہے۔ کوئی اچھی سی گاڑی دیکھ لیں۔ اور آپ کو تو ہماری فطرت کا پتہ ہے۔ کم پہ راضی ہوجانے والے لوگ ہیں۔ چھوٹی گاڑی بھی چلے گی! وہ تو یہ کہہ کر ابا سے ہاتھ ملا اور گھر کے اندر چلے گئے مگر ابا پر پریشانیوں کے پہاڑ توڑ گئے۔

جمع پونجی پہلے ہی لگ چکی تھی۔ اماں کا زیور بک چکا تھا۔  ادھار دینے والوں کی بھی ایک سکت ہوتی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی  گاڑی بھی کم از کم چھ لاکھ روپے کی آتی۔ اتنے پیسے مزید ادھار کس سے لیتے؟ ابا پہلے تو گھر آکر کمرا بند کرکے بیٹھ رہے پھر ان کے دماغ میں ان برتنوں کا خیال آگیا۔ ابا کے ایک خالہ زاد بھائی نوادرات کا کام کرتے تھے اور مدت سے ابا کے پیچھے پڑے تھے کہ وہ ظروف انہیں بیچ دیئے جائیں مگر ابا اس بارے میں ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہیں تھے۔ مجبوری کا نام شکریہ سو آج ابا نے انہیں فون کرکے گھر بلا لیا تھا۔ تین لاکھ روپے نقد بطور ان برتنوں کی قیمت اور گاڑی کے لئے درکار باقی تین لاکھ روپے بطور ادھار دینے کے عوض ان برتنوں کا سودا ہوگیا تھا۔

میں صحن سے گزری تو دیکھا ابا اپنے رومال سے رگڑ کر ایک ایک برتن کو صاف کر رہے تھے۔ خدا جانے کب
 سے ضبط کئے بیٹھے تھے مگر مجھے دیکھ کر ان کا ضبط ٹوٹ گیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ انہوں نے فورا منہ پھیر لیا۔ وہ میرے سامنے کمزور نہیں دکھنا چاہتے تھے۔ خود میں بھی وہاں انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی تھی لہذا دوڑتی ہوئی کمرے میں گھس کر اماں کی گود میں منہ دے دیا اور پھوٹ بہی۔ اماں سب ماجرا جانتی تھیں سو انہوں نے خاموشی سے میرے بالوں کو سہلانا شروع کردیا۔

جب تھوڑی دیر رو چکنے کے بعد میرا دل ہلکا ہوگیا تو میں نے گود سے سر اٹھا کر اماں سے پوچھا کہ وہ ابا کو روکتی کیوں نہیں ہیں؟ وہ تو جانتی ہیں کہ ان برتنوں میں ابا کی جان چھپی ہے! ان کے بغیر وہ آدھے ہوجائیں گے! یہ ان کی ماں کی نشانی ہیں! میرے جہیز میں اتنا کچھ تو جا ہی چکا ہے سو اب مزید دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ابا کو سمجھاتی کیوں نہیں ہیں کہ وہ لڑکے والوں سے بات کریں؟ ہم بیٹی دے رہے ہیں یا بیٹا خرید رہے ہیں؟ اور اگر آج ہم یہ سب کچھ دے کر ان کا بیٹا خرید بھی رہے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں مزید قیمت نہیں چکانی پڑے گی؟ آج تو یہ برتن بک رہے ہیں کل تو بیچنے کو بھی کچھ نہیں بچے گا ماں! آپ ابا کو کچھ سمجھاتی کیوں نہیں ہیں آخر؟ آپ تو خود ایک عورت ہیں؟ آپ جہیز جیسی اس لعنت پر خاموش کیسے ہیں؟ بولیں امی؟

اماں نے اپنی آنکھ میں آنے والے آنسو کو انگلی سے جھٹکا اور سفاکی سے گویا ہوئیں، بیٹا! میں آج تک اپنی شادی پر ہونے والی اپنے باپ کی حالت نہیں بھولی! تمہارے باپ کو  کیسے سمجھاؤں؟ کیا سمجھاؤں؟ خود بتاؤ!


جمعرات، 11 اگست، 2016

جنت مکانی؛ اقبال جانی کی ڈائری سے اقتباسات

ارے میاں ڈائری! تم بھی کیا سوچتی ہوگی کہ آج میں خود قلم اٹھا کر کیسے آگیا تو بھائی بات دراصل  یہ ہے کہ مجھے خود لکھنے کی عادت نہیں ہے۔ ہمیشہ کوئی خدمت گزار موجود ہوتا تھا کہ ہم کہتے جاتے تھے اور وہ لکھتے جاتے تھے۔ اب یہاں کے خدمت گار یا تو عربی بولتے   ہیں یا فارسی! ہم نے  ایک بار سمجھانے کی کوشش کی کہ میاں اردو بولا کرو کہ تمہاری اپنی زبان ہے تو عربی والوں نے فارسی والوں کے ساتھ مل کر ہمیں پاگل خانے بھجوانے کا منصوبہ بنا لیا کہ اپنی زبان کا استعمال نہ کرنا وہ واحد چیز ہے جس پر دونوں ازل سے متحد ہیں۔

کل  بہرحال ایک مجبوری آن پڑی تھی سو دل کڑا کر کے ایک بھائی صاحب سے درخواست کردی کہ ہمارے ایک عزیز کے نام مبارک بادی رقعہ لکھ دیں کہ جن کے ہاں ایک سگڑ پوتا پیدا ہوا تھا۔  الفاظ ہمارے تھے مگر تحریر ان کی۔ جن صاحب کے نام یہ رقعہ تھا وہ زرا جنگ و ہتھیار وغیرہم کے شوقین تھے  اور ہم علامہ بلاوجہ تو مشہور نہیں سو ہم نے بھی شاعرانہ تشبیہ استعمال کی اور لکھوا بھیجا کہ خدا کرے آپ کے ہاں آنے والا یہ نیا آبدار خنجر آپ کے دشمنوں کے سینوں میں ہمیشہ پیوست رہے۔ ملاحظہ تو کیجئے کہ کیا شاندار جملہ تراشا تھا۔ بنا پیئے محض اس جملے کے نشے میں گھنٹوں جھومتے رہے۔  اتفاق سے بیگم بھی خلد مکانی ہیں سو ان کے سیر سے واپس آنے کا وقت ہوا تو حواس بحال ہوئے اور فورا ہوش میں آگئے کہ اتفاق سے ایک حور بھی کہیں سے دو جرے پی کر آگئی تھی اور ہم دونوں کا بیگم صاحب کی غیر موجودگی  میں بیک وقت مدہوش ہونا ، رہے نام اللہ کا! سوچ کر روح کانپ جاتی ہے! خیرخدا  خدا کر کے دوپہر کو وہ رقعہ ان صاحب کو پہنچایا اور اس خط کے پڑھتے ہی وہ  الٹا برس پڑے اور لگے کوسنے دینے کہ میرے سگڑ پوتے نے آپ کا کیا بگاڑا ہے جو آپ نے اسے یوں گالی دی؟َ تحقیق پر معلوم ہوا کہ کاتب صاحب چونکہ پاکستان سے تھے اور نووارد تھے سو اردو لکھنا تو جانتے تھے مگر انگریزی میں! خنجر لکھتے ہوئے ایک ایچ لگانا بھول گئے اور ہمارا گریبان پکڑا گیا۔ پکڑے جاتے ہیں گدھوں کے لکھے پر ناحق!
خیر یہ تو غیر ضروری تفصیلات تھیں مگر لکھنے بیٹھا تو بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ میرے ساتھ اکثر یہی ہوتا ہے۔ کل محمد علی بھی اسی  بات پر 
جھنجھلا کر بولے کہ علامہ صاحب آپ واپس فیس بک پر کیوں نہیں چلے جاتے؟  یہ ٹوئیٹر آپ کے بس کا روگ نہیں ہے! افوہ! میں تو بتانا ہی بھول گیا کہ ایدھی صاحب کے آنے پر یہاں ایک ہیش ٹیگ آئی ایم ایدھی کا بڑا چرچا رہا تھا اور تین چار احباب کی فرمائش پر دنیاوی سوشل میڈیا  اور موبائل فون وغیرہ یہاں بھی فراہم کردیئے گئے ہیں۔ یقین جانو ان چیزوں کے آنے کے بعد سے یہاں کا نقشہ ہی بدل گیا۔ کل پاکستان کے حالات کے اوپر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا  جس میں صرف چند خاص احباب  مدعو تھے۔ ابھی میٹنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ کمرے میں ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ کالے گورے بھورے ہر طرح کے لوگ۔ امریکی،  چینی، سعودی اور ایرانیوں کی تو خیر تھی مگر  ماتھا اس وقت ٹھنکا جب مشہور ہندوستانی بھی کمرے میں داخل ہوئے ۔ لیاقت علی نے مکے لہرا لہرا کر سب کو یاد دلایا کہ یہاں پاکستان کے حوالے سے اجلاس جاری ہے اور تمام غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ عبدالرب نے اپنے اوپر اوندھے ہوتے ہندوستانی کو سیدھا کیا اور اس سے پوچھ بیٹھے کہ یہاں کیا کر رہا ہے تو اس نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا پیکاچو ڈھونڈ رہا ہوں۔ خود بتاؤ؟

کہنے کو بہت سی باتیں موجود ہیں مگر فی الوقت زرا جلدی میں ہوں۔ زیادہ دیر کمرے کا دروازہ بند رہے تو بیگم صاحب کو شک ہونے لگتا ہے۔ کل اس ٹوئیٹر کی کہانی بھی بیان کروں گا۔ تب تک کے لئے اجازت!

والسلام


محمد اقبال

جمعہ، 5 اگست، 2016

ڈیڑھ عشقیہ

شیشے کے سامنے کھڑی وہ اپنی خوبصورت اور دراز زلفوں کو سنوارتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اپنے سراپے کا جائزہ بھی لے رہی تھی۔ خود کو اوپر سے نیچے تک دیکھ کر ایک  عجیب سی مسکان اس کے ہونٹوں پر دوڑ گئی۔ فخریہ مسکان، مگر وہ فخر جو بے پناہ تھکن کے بعد آیا ہو۔
کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو آج سے تین سال پہلے تک اپنے شدید موٹاپے کی وجہ سے محض بطورِ لطیفہ یاد کی جاتی تھی۔ مگر پھر ایک دن وہ بیمار پڑی اور ایسی پڑی کہ پھر اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ بیماری کہنے کو جان لیوا تھی مگر اسے ایک نئی زندگی عطا کرگئی تھی۔ علاج کے دوران وہ مانو گھلنا شروع ہوگئی اور جب دو سال کے تھکا دینے والے علاج کے بعد بیماری رخصت ہوئی تو جاتے ہوئے اس کے جسم پر موجود فاضل گوشت اور چکنائی سب ساتھ لے گئی۔ گئے زمانے میں اس حالت کو کو ہڈیوں کا ڈھانچہ  ہونا کہا جاتا تھا  مگر  اب سائز زیرو کی اصطلاح آنے کے بعد وہ اب جہاں بھی جاتی مرکز نگاہ بن جاتی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ خدا نے اسے شاندار نین نقش سے بھی نواز رکھا تھا اور اس توجہی کی وجہ محض اس کی نزاکت  نہیں تھی مگر یہی نین نقش جب موٹاپے کی چربی کے پیچھے موجود تھے تو کوئی انہیں سراہنا تو درکنار دیکھنے تک کا روادار نہیں تھا۔
بیماری سے فراغت کے بعد کچھ ماہ تو وہ گھر پر ہی آرام کرتی رہی مگر وہ سالوں سے  گھر پر بیٹھے بیٹھے زچ ہوچکی تھی۔ وہ ابھی جوان تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کر رہی ہے۔ اب جب ڈاکٹر نے بھی اسے کام کرنے کی اجازت دے دی تھی تو وہ مزید گھر میں رہ کر بستر توڑ نا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے گھر والوں کو قائل کرکے ایک دفتر جوائن کرلیا تھا۔ باپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ابھی اسے مزید آرام کرنا چاہئے تو اس نے انہیں یہ کہہ کر قائل کرلیا تھا کہ وہ کون سا پتھر توڑنے کی نوکری کرنے جارہی ہے؟ دن بھر دفتر میں ایئر کنڈیشنر میں بیٹھ کر ہی تو کام کرنا ہے! باپ اس کے کام کرنے پر خورسند تو نہیں تھا مگر اس کی خوشی کے لئے مجبورا راضی ہوگیا اور اللہ کے حکم سے جلد ہی اسے نوکری بھی مل گئی سو اس نے دفتر جانا شروع کردیا۔
اس کے دفتر کے کنوارے ساتھیوں کے نزدیک وہ کمپنی کے قیام کے بعد سے اب تک کمپنی کی جانب سے کیا گیا سب سے اچھا فیصلہ تھی۔  اس کے آنے کے بعد سے دفتر کے مردوں کو اچانک سے خیال آگیا تھا کہ ان کے دفتری ملبوسات کتنے پرانے فیشن کے ہیں۔ پرفیوم کا کون سا برانڈ سب سے بہتر ہے اس کے اوپر باقاعدہ بحث ہونے لگی۔ کھانے کے وقفے میں شاید سب ہی گھر کے لائے ٹفن کو لعنت بھیج کر باہر کھانا شروع کردیتے مگر غنیمت تھا کہ بیماری نے  اس کی بھوک اڑا دی تھی سو وہ لنچ بریک میں اپنی نشست پر ہی رہتی یا خواتین کے لئے مخصوص کمرے میں جاکر دو کرسیاں جوڑتی اور دراز ہوجاتی۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ دفتر کے مردوں کی ان سب حرکات سے ناواقف تھی۔ چوبیس سال بھگتنے والی بے اعتنائی نے اسے التفات کا مطلب بہت اچھی طرح سکھا دیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ لوگ یہ سب اس کی توجہ پانے کے لئے کر رہے ہیں مگر وہ کسی بھی پیش قدمی سے ڈرتی تھی۔  اسے لگتا تھا کہ جس دن وہ لوگ اس کی اصلیت اور اس کی بیماری کے بارے میں جانیں گے تو یہ سب پیچھے ہٹ جائیں گے۔ وہ اس ٹھکرائے جانے کی تکلیف سے بچنا چاہتی تھی۔  وہ سب سے مسکرا کر بات کرتی مگر کسی کو اپنی مسکراہٹ سے رضامندی کا مطلب نکالنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
کہتے ہیں کہ ایک ہی چوکھٹ پر مسلسل سجدہ کرنے سے پتھر ٹوٹے نہ ٹوٹے، سر میں درد ضرور ہوجاتا ہے۔ اس کے دفتر کے ساتھیوں نے جب اس دردِ سر کو محسوس کیا تو وہ ایک ایک کرکے پیچھے ہونا شروع ہوگئے۔ اور ان کے اس طرح پیچھے ہٹنے پر اسے نہ کوئی شکایت تھی نہ گلہ۔ وہ مطمئن تھی کہ اس نے کسی کو کوئی امید نہیں دلائی تھی اورنہ  خود کسی کے دیے گئے محبت کے فریب میں گرفتار ہوئی تھی۔ ایک بات اسے البتہ اب بھی پریشان کرتی تھی کہ سب کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد بھی ان میں سے ایک ابھی تک اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا تھا۔  اور وہ اپنے ارادے میں اتنا اٹل تھا کہ باقیوں کے برعکس ، نتائج سے بے پرواہ ہو کر باقاعدہ محبت کا اظہار بھی کر چکا تھا۔  اس کے اس اظہار پر اس نے اسے نرمی سے ٹال دیا تھا مگر وہ باز نہیں آیا تھا۔
جب مہینے گزرنے کے بعد بھی اس کی روش میں تبدیلی نہیں آئی تو آج اس نے اسے بٹھا کر سمجھانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ مدت سے مصر تھا کہ یہ اس کے ساتھ کھانے پر باہر چلے تو اس نے آج رات کھانے پر ملنے کی حامی بھر لی۔ اس وقت وہ اس سے ملاقات کے لئے ہی تیار ہونے شیشے کے سامنے کھڑی تھی۔ لباس پر ایک ناقدانہ نظر ڈالنے کے بعد اس نے جلدی جلدی کاجل سے بھنووں کو ایک فائنل ٹچ دیا اور پرس اٹھا کر باہر نکل گئی۔ جہاں وہ اپنی گاڑی میں اس کا منتظر تھا۔
شہر کے مشہور ریستوران میں اس نے ان دونوں کے لئے ایک کونا مخصوص کروا لیا تھا تاکہ وہ اس حسینہ کے ساتھ سکون اور تنہائی میں وقت گزار سکے۔ راستے بھر اور پھر کھانا کھانے تک وہ دونوں ادھر ادھر کی خوش گپیاں کرتے رہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد جب اس نے دوبارہ ان دونوں کی شادی کا موضوع چھیڑا تو اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر اسے اپنی بیماری اور اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ اس کی بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں رہا مگر پھر گویا ہوا کہ وہ جانتا ہے کہ اس نے یہ بھنویں کاجل سے بنا رکھی ہیں اور اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  اس کا موٹاپا، دنیا کا اس کو ٹھکرانا وغیرہ سب ماضی کی باتیں ہیں اور اس ماضی کی وجہ سے وہ حال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔  اس نے ایک ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی زلفوں کو سہلاتے ہوئے گویا ہوا، جسم ویسے بھی عمر کے ساتھ ڈھل جاتا ہے۔ سچ کہوں تو میں تمہاری زلفوں کی وجہ سے ہی تمہارا دیوانہ ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ جب یہ بال اپنی چمک کھو دیں گے اور سفید ہوجائیں گے تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ خود تمہاری زلفوں  ہی کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس کی یہ بات سن کر اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ جذبات کی شدت میں اس نے اپنے بالوں کے سہلاتے اس ہاتھ کو چوم لیا اور اپنے سر پر سے وہ شاندار وگ اتار کر برابر میں موجود خالی کرسی پر رکھی اور آنکھیں بند کر کے کر کرسی  کی پشت پر گردن ٹکا دی۔ اس کا بدترین خوف غلط ثابت ہوگیا تھا۔

یہاں تک پہنچ کر میں نے بہت کوشش کی مگر ابلنے والے قہقہوں کا طوفان روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن تھا۔ میں نے قلم اٹھا کر دیوار پر مارا اور ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ گیا۔دنیا سچ کہتی تھی، میں واقعی محبت کے موضوع پر نہیں لکھ سکتا۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت