اتوار، 27 نومبر، 2016

زبان دراز کی ڈائری - میرے رشکِ قمر


پیاری ڈائری،
لوگوں کو بھی کسی حال میں چین نہیں ہے۔ جہاں مشہور آدمی دکھا نہیں اور ان کے نفسیاتی عوارض ویسے ہی  امڈ آتے ہیں جیسے کسی بھی زندہ مادہ کو دیکھ کر برصغیر کے مردوں کے جذبات۔  زندگی میں پہلی مرتبہ جب ٹیلیویژن پر آئے تھے تو ہم نے کب سوچا تھا کہ ٹاک شو کی میزبانی،  ایک دن ایسی بلائے جان بن جائے گی کہ وہ ہمارے ابلے ہوئے انڈے کے منہ والے ایک سینئر کے بقول، الحذر الحذر!
بھئی قصہ کچھ یوں ہے کہ جب سے لوگوں کو پتہ چلا  تھا  کہ محلے کا چوکیدار تبدیل ہونے والا ہے تب سے سب ہمارے پیچھے پڑ گئے  تھے۔  اب انہیں کون سمجھائے کہ چوکیدار ایک نہایت متقی اور قناعت پسند آدمی ہوتا ہے ۔  اس کی ان ہی صفات کی بنا پر اور "محض انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت" ہم سب بہن بھائیوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ ہم لوگ حسب استطاعت اور حسب موقع اس کے جوتے چمکا دیا کریں گے۔ اور مرد تو وہی ہوتا ہے جو اپنی زبان کا پکا ہو۔  عورت پتہ نہیں کیا ہوتی ہے۔ شاید خود عورت کو بھی نہ پتہ  ہے اور نہ اسے فکر ہے سو اس غیر ضروری بات کو چھوڑکر واپس مدعے پر آتا ہوں کہ ایک بار تہیہ کرنے کے بعد ہم کبھی اپنی زبان سے نہیں پھرے۔ جب اور جہاں جتنا موقع ملا ہم نے ان جوتوں کو چمکایا۔ برش نہ ملا تو ہاتھ سے اور پالش میسر نہ ہوئی تو زبان سے ۔چوکیدار بدلتے گئے مگر ہم اپنی زبان سے نہ پھرے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ ہم نے چوکیدار کے حلیے میں پھرنے والے کسی عام آدمی کے جوتے بھی چمکا دیئے کہ کہیں آگے چل کر یہ چوکیدار نہ بن جائے اور تب ہماری عدم توجہی اور وعدہ ایفا نہ کرنے کا رنج رکھے۔ غرضیکہ ہم یہاں مومن کی ایک زبان والے قول کے پیچھے چلتے  رہے اور یہ مردود محلے دار ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ کمینگی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے!
پیاری ڈائری! یہ بات تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ چونکہ چوکیدارعمر میں ہم سے بڑے ہوتے ہیں اور تہذیب دار گھرانوں میں بڑے باپ سمان ہوتے ہیں سو ہم بھی چوکیدار کو ابو مانتے آئے ہیں۔ بھلا بتاؤ کہ محلے کے خصیص لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے؟ وہی ابلے ہوئے انڈے کے منہ والے سینئر ایک بار پھر یاد آگئے کہ یا للعجب! یہ بات تو ساری دنیا مانتی ہے کہ چیزوں میں جدت تراشنا ہمارا خاصہ ہے ۔  جہاں پوری دنیا منہ بولے بچے رکھتی ہے اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا وہاں ہم نے منہ بولے ابو رکھ لئے تو سب کو مرگی کے دورے پڑنے لگے؟ ایسے مواقع کے لئے ہی تو شاعر نے کہا تھا کہ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ تو خیر، اب یہ سارے محلے دار ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ چونکہ  آپ لوگ ٹیلیویژن پر آتے ہیں اور ساری دنیا کی خبریں رکھتے ہیں سو اب اپنے نئے آنے والے ابو کا نام بھی پیشگی بتائیں۔
اب اس سادے سے دکھنے والے معاملے میں  سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ اگر غلطی سے غلط نام بتا دیا تو نئے آنے والے چوکیدار نے پیشگی مخاصمت پال لینی تھی اور چوکیدار (جو کہ جیسا میں نے بارہا بیان کیا ہم بہن بھائیوں کے لئے باپ سمّان ہوتا ہے ) کی ناراضگی کا مطلب بتاتے ہوئے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔  اور صحیح نام پتہ ہوتا تو ہم ان احمق محلے داروں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اس سے سلام علیک نہ بڑھا لیتے؟ اب یہ بات ان چھوٹے لوگوں کو کون سمجھائے؟ بہتر یہی تھا کہ جب کوئی اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا تو میں بات کو گھما کر کہیں اور لے جاتا کہ باخبر ہونے کا بھرم بھی رہے اور خدانخواستہ انجانے میں کسی گستاخی سے بھی بچا جا سکے۔
اللہ اللہ کرکےیہ مشکل وقت کاٹا اور آج جب نئے چوکیدار کے نام کا اعلان ہونے والا تھا تب ہی محلے میں رہنے والا ایک منحوس شاعر آن ٹپکا کہ بھائی چوکیدار تو آنی جانی شے ہیں۔ آپ آج کے پروگرام میں اس مملکت اللہ داد کے گھٹن اور ہوس زدہ  معاشرے کے بارے میں بات کریں کہ جہاں اسلام کے نام پر آباد ایک شہر میں ایک باپ اپنی ہی سگی بیٹی کے ساتھ چار سال تک مسلسل زیادتی کرنے کا جرم ثابت ہونے پر کل عمر قید کا   سزاوار ٹھہرایا گیا ہے۔ جہاں کل ایک آٹھ سالہ معصوم کلی کو محض اس جرم میں مسل دیا  گیا کہ وہ اس دکان پر اکیلی سودا لینے پہنچ گئی جہاں ایک ہوس کار درندہ بھوکا بیٹھا تھا۔ چوکیدار کے موضوع پر آپ کے پروگرام کرنے سے پڑوسی کے چوکیدار سے ہمارے محلے کے چوکیدار کی لڑائی ختم نہیں ہوگی کہ اس لڑائی پر ٹیلیویژن دیکھنے والوں کا کوئی اختیار نہیں ہے مگر اس گھٹن اور ہوس زدہ معاشرے پر سوال اٹھانے سے شاید معاشرے میں ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوں جو اس گھٹن کے خاتمے کے بارے میں کچھ کر سکیں۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم اپنے گھروں میں بہتری لا سکیں!
پیاری ڈائری! لوگوں کو بھی کسی حال میں چین نہیں ہے۔ جہاں مشہور آدمی دکھا نہیں اور ان کے نفسیاتی عوارض ویسے ہی  امڈ آتے ہیں جیسے کسی بھی زندہ مادہ کو دیکھ کر برصغیر کے مردوں کے جذبات۔  زندگی میں پہلی مرتبہ جب ٹیلیویژن پر آئے تھے تو ہم نے کب سوچا تھا کہ ٹاک شو کی میزبانی،  ایک دن ایسی بلائے جان بن جائے گی کہ وہ ہمارے ابلے ہوئے انڈے کے منہ والے ایک سینئر کے بقول، الحذر الحذر!
اس مردود شاعر کو لاتیں مار کر گھر سے نکالا اور پچھلے چار گھنٹے سے لاؤڈ سپیکر پر استاد نصرت فتح علی خان کی مشہور زمانہ قوالی، میرے رشکِ قمر لگا کر بیٹھا ہوا تھا تو اب جا کر مزاج بحال ہوا اور یہ ڈائری لکھنے بیٹھا۔ آج مجھے کامل یقین ہوگیا ہے کہ نصرت فتح علی خان ایک دو ر رس انسان تھے اور ان کا کل کلام ایک طرف مگر ان کی بخشش اس ہی میرے رشکِ قمر کی ادائیگی کے صدقے میں ہونی ہے۔ یاد رکھنا یہ بات سب سے پہلے میں نے تمہیں بتائی ہے۔
زبان دراز بوٹ چاٹوی

بدھ، 2 نومبر، 2016

23 اکتوبر

سر مجھے لگ رہا ہے کہ یہ جو بھی کچھ ہورہا ہے وہ محض اتفاقی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی منصوبہ ساز زہن موجود ہے جو انتہائی صفائی اور مہارت سے یہ کام کر رہا ہے۔ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ وہ کیوں یہ کام کر رہا ہے مگر یہ جو ایک دو واقعات میں نے آپ کو بیان کیے ہیں تو سر  ان کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ ۔۔۔۔ سر آپ میری بات مانیں نہ مانیں یہ یقینا کوئی سیریل کلر ہے جو اتنا شاطر ہے کہ پولیس کی نظروں میں آئے بغیر گزشتہ پانچ سالوں سے یہ کام کر رہا ہے! سر آپ بس مجھے اجازت دیں تو میں باقاعدہ کیس فائل کرکے تحقیقات شروع کردوں؟ میرا ماتحت آفیسر اس وقت میرے سامنے بیٹھا نہایت جذباتی انداز میں تیز تیز اور مسلسل بول رہا تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کرایا اور پانی پینے کو کہا۔ وہ پانی پی کر فارغ ہوا تو میں نے اسے سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کی وجہ سے جذباتی ہورہا ہے اور  معاملہ ایک بڑے ہسپتال اور اس کی ساکھ کا ہے۔ غلط کیس فائل ہوا اور میڈیا کو کیس فائل ہونے کی خبر مل گئی تو ہسپتال والے اتنے طاقتور ہیں کہ ہم دونوں کو اٹھوا کر گھر بھجوا دیں گے اور شہرت خراب کرنے پر ہتک عزت کا دعویٰ الگ ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ وہ  چند دن  دفتر نہ آئے اور باہر سے ہی اپنے طور پر یہ تحقیقات خفیہ طریقے سے جاری رکھے اور مجھے مطلع  کرے۔ مناسب ثبوت بہم ہوجانے پر ہم کیس فائل کرکے معاملے کو دیکھ لیں گے۔
اس کو وہاں سے رخصت کرنے کے بعد میں نے فون اٹھایا اور اس ہی ہسپتال میں کام کرنے والی اپنی چھوٹی بہن کو بھی خبردار کردیا کہ وہ  رازاداری کے ساتھ اردگرد نظر رکھے اور کسی بھی گڑبڑ کے نتیجے میں مجھے فوری طور پر مطلع کرے۔ فون کال نمٹا کر میں نے سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی اور تھانے کے احاطے میں کھڑا ہوکر سگریٹ پیتے ہوئے معاملے کے ممکنہ پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔
میرے ماتحت آفیسر کے بیان کے مطابق یہ معاملہ ابھی پولیس کی نظروں میں آیا ہی نہیں تھا جبکہ قتل کی یہ وارداتیں پچھلے پانچ سال سے جاری تھیں۔  اس کو بھی اس معاملے کی بھنک ایسے پڑی تھی کہ اس کی بیوی اس ہسپتال میں زچگی کے سلسلے میں گئی تھی اور جان کی بازی ہار گئی تھی۔ بیوی کی موت کے فورا بعد یعنی دو گھنٹوں میں ہی  ہسپتال والوں نے بچے کو بھی مردہ قرار دے دیا تھا۔ شاید کوئی اور ہوتا تو اس معاملے کو خدا کی مرضی قرار دے کر رو پیٹ لیتا مگر پولیس والوں اور بالخصوص تفتیشی افسران کا مزاج عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ میرے ماتحت کو یہ شک گزرا کہ یہ اموات جتنے عجیب انداز میں ہوئیں وہ طبعی موت نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کا معاملہ تھا۔ ہسپتال کا نام بہت بڑا تھا اس لئے  مجرمانہ غفلت کا براہ راست الزام لگانے کے مضمرات سے وہ آگاہ تھا۔ کیس کو مضبوط کرنے کے لئے اس نے اپنے ذرائع سے تحقیقات کیں تو ایک عجیب سی خبر اس کے سامنے آئی کہ  زچہ و بچہ کی موت کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ پچھلے پانچ سال سے ہر سال اکتوبر کے مہینے میں اس قسم کے واقعات اس ہسپتال میں ہوتے آئے تھے ۔  یہ معلومات ملتے ہی وہ جذبات میں دوڑتا ہوا میرے کمرے میں گھس آیا تھا اور مجھ سے کیس درج کرنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ سگریٹ  ختم کرکے میں نے اس کیس کے سلسلے میں دماغ میں آنے والے تمام فالتو خیالات کو جھٹکا اور واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ میں نے طے کرلیا تھا کہ اب اس معاملے پر تب ہی سوچوں گا جب کچھ مزید اطلاعات میرے سامنے آئیں گی۔


اس بات کو گزرے چار دن  ہوگئے تھے اور میرا ایک بار بھی اس سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔ میں اپنی بہن سے بھی معاملے کی مسلسل سن گن لے رہا تھا مگر اس  نے بھی اردگرد کوئی غیرمعمولی چیز محسوس نہیں کی تھی۔ میں پچھلے دو دن سے مسلسل دفتر سے واپسی میں اس کے گھر جارہا تھا مگر ہر مرتبہ یہی معلوم ہوتا کہ وہ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے گھر سے نکلا ہے اور جب میں اس کے موبائل پر فون کرتا تو گھنٹی بجتی مگر کوئی جواب نہ آتا۔ میں نے اس کے گھر والوں کو بھی بول رکھا تھا کہ وہ جب بھی گھر آئے تو اسے مجھ سے رابطہ کرنے کو کہیں مگر یا تو گھر والے اسے میرا پیغام نہیں پہنچا رہے تھے یا وہ خود مجھ سے کترا رہا تھا۔ آج میں نے سوچ لیا تھا کہ دفتر سے واپسی میں میں اس کے گھر جاؤں گا اور وہیں بیٹھ کر اس وقت تک اس کا انتظار کروں گا جب تک وہ واپس نہیں آجاتا۔
دفتر میں بہت سے توجہ طلب امور تھے مگر میرا دھیان اس ہی میں اٹکا ہوا تھا۔ کافی دیر تک بھی جب میں کسی اور چیز پر توجہ مرکوز نہ کرسکا تو میں نے جھلا کر اسے کال کرنے کے لئے موبائل نکالا تو اس ہی وقت سکرین پر اس کا نام جگمگانے لگا۔ میں نے فورا کال اٹھائی اور اس سے پہلے کہ میں اسے پچھلے چار دن پر مغلظات سناتا اس کی نہایت پرجوش آواز ابھری، سر! میرا شک صحیح نکلا۔ آپ بس جلدی سے ہسپتال پہنچ جائیں میں ہسپتال کے  سامنے والے ہوٹل میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ باقی تفصیلات میں مل کر بتاتا ہوں۔
میں گاڑی اڑاتا ہوا سیدھا ہسپتال کے سامنے واقع ہوٹل پر پہنچ گیا۔ وہ ہوٹل کے باہر پڑی کرسی پر بیٹھا ہسپتال کے دروازے پر نگاہیں جمائے بیٹھا تھا۔ میں اتر کر اس کے پاس گیا تو اس نے عادتا مجھے سلوٹ کردیا۔ وہ اس وقت سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا اور مجھے لگا کہ لوگ اس کے اس طرح مجھے سلوٹ کرنے پر چونکے ہیں مگر پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو وردی میں موجود تھا اور یہ سراسیمگی میرے آنے کی وجہ سے پھیلی تھی۔ میں نے لوگوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے برابر میں موجود کرسی سنبھال لی اور اردگرد  کی کرسیوں پر موجود لوگوں کو اٹھنے کا اشارہ کردیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے گفتگو کوئی اور سنے اور لوگ تو ویسے ہی ہم سے دور بھاگنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں سو چند ہی لمحوں میں ہم دونوں اکیلے رہ گئے تھے۔
پہلے پانچ منٹ تو میرے اسے اس طرح غائب ہونے پر مغلظات سنانے میں لگ گئے مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ بغیر کسی ٹھوس چیز کے میرا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے فون پر بات کرنے میں متامل تھا۔  چار گالیاں اس احمقانہ سوچ پر مزید کھانے کے بعد وہ معاملے کی تفصیلات پر آگیا۔
میرے ماتحت کے مطابق اس نے اکتوبر کے مہینے سے جڑے ان حادثات کو کھوجنے کے لئے ہسپتال کے سٹاف کو کھنگالنے کی کوشش کی  کہ ان میں سے کس کس کا اس مہینے سے کوئی خاص تعلق ہوسکتا ہے۔  پہلے مرحلے میں اس نے ہسپتال کے ہیومن ریسورس مینجر کو اپنی نوکری کی دھونس جمائے بغیر محض بندوق دکھا کر تمام سٹاف کا ڈیٹا حاصل کیا اور اس میں سے اکتوبر کی تاریخ پیدائش والے تمام  افراد کی نشاندہی کر لی۔ اس کے شک کا دائرہ اب ہسپتال کے چار سو سٹاف سے سمٹ کر محض سینتیس لوگوں پر رہ گیا تھا  امگر ایک دو کی بات ہوتی تو ٹھیک تھا ، وہ ذاتی حیثیت میں سینتیس لوگوں کو شامل تفتیش نہیں کرسکتا تھا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ اب معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا مگر قدرت اس پر مہربان ہوگئی جب اس نے کل رات سوچوں کے درمیان  بے دھیانی میں ہسپتال سے ملنے والی اپنی بیوی کی کیس فائل کھولی اور اسے ڈاکٹر کے خانے میں جو نام دکھا وہ اکتوبر میں پیدا ہونے والے ان افراد کی فہرست میں موجود تھا۔ اس کے بقول وہ رات بھر سو نہیں سکا اور صبح ہی ہسپتال پہنچ کر اس ہی ہیومن ریسورس مینجر کے ساتھ موجود تھا جس نے اسے پہلے بھی ڈیٹا فراہم کیا تھا۔ قسمت اس پر مسلسل مہربان تھی کہ وہ شخص ہیومن ریسورس مینجر  اور ایک توپ افسر ہونے کے ناطے ہسپتال کے تمام ستاف کی حاضری اور ہسپتال کے میڈیکل ریکارڈ دونوں تک رسائی رکھتا تھا۔ میرے ماتحت کے مطابق جیسے ہی اسے پتہ چلا  کہ پچھلے پانچ سال میں ہونے والی تمام زچہ و بچہ کی اموات کے وقت محض ایک شخص تھا جو ڈیوٹی پر موجود تھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس شخص کا نام وہ اپنی بیوی کے میڈیکل ریکارڈ میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔  وہ ڈاکٹر اس وقت بھی ہسپتال میں موجود تھی اور اب ہم دونوں ہسپتال میں تماشہ نہ بنانے کے لئے ہسپتال کے باہر اس کے منتظر تھے کہ وہ کب ڈیوٹی ختم کرکے نکلے اور ہم اسے اس کے گھر جا کر دھر لیں۔ میرا ماتحت ہسپتال کے ریکارڈ سے اس کا پتہ نکال لایا تھا مگر میں اپنی بہن کے حوالے سے میں اسے جانتا تھا  اور میں جانتا تھا کہ یہ ایک فرضی پتہ ہے۔ میں اس سفاک قاتل کا پتہ جانتا تھا جو ہسپتال سے پانچ منٹ کے فاصلے پر ہی واقع ایک پوش علاقے میں مکین تھی لہٰذا میں نے اپنے ماتحت کو ساتھ لیا اور اس کے گھر کے سامنے والے پارک میں جا کر انتظار کرنے لگا ۔
شام پانچ بجے اس کی ڈیوٹی ختم ہوئی تھی اور ٹھیک پانچ بج کر سولہ منٹ پر وہ اپنے گھر کا دروازہ کھول رہی تھی کہ میں نے اپنے ماتحت کے ساتھ اسے جالیا۔ وہ مجھے میرے ماتحت کے ساتھ اور اس طرح وردی میں دیکھ کر بری طرح گھبرا گئی تھی۔ میں نے اسے دروازہ کھول کر اندر چلنے کا اشارہ کیا۔
گھر میں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ ہم اسے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئے۔ میں نے اپنے ماتحت کو اشارہ کیا اور اس نے پورا معاملہ اس لڑکی کے سامنے رکھ دیا کہ کس طرح پولیس کو اب اس کی سفاک حرکات کا پتہ چل گیا ہے ۔ میرے ماتحت کی بات سن کر وہ بری طرح سے پھوٹ بہی مگر ہم دونوں وقت کے ساتھ اتنے پکے ہوچکے تھے کہ اب کسی  کے آنسو ہم پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے۔ اس نے جرم سے انکار نہیں کیا اور دھیمے لہجے میں بولی کہ اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟  مجھے لگا کہ میرا ماتحت بھی اس کے اتنی جلدی اقبال جرم کی امید نہیں کر رہا تھا۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اس کا ہر قتل کے وقت ہسپتال میں موجود ہونا اسے کسی بھی عدالت میں قاتل نہیں ثابت کرسکتا تھااور ایک معمولی وکیل بھی ہمارے مقدمے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا۔ اور جب یہ بات ہم دونوں جانتے تھے تو اتنی مہارت سے قتل کرنے والی وہ بظاہر معمصوم دکھنے والی شاطر لڑکی کیوں واقف نہیں ہوگی؟ وہ لڑکی مگر شاید اس وقت کسی شدید جذباتی کیفیت  کا شکار تھی اور اقبال جرم کربیٹھی تھی۔ میں نے کہا کہ ابھی لیڈی پولیس بلوا کر ہم آپ کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ میں آپ کو ذاتی حیثیت میں جانتا ہوں مگر مجھے آپ سے اس بات کی امید نہیں تھی۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ مسیحائی جیسے مقدس پیشے سے منسلک ہوکر بھی قاتل بن گئیں؟  میرا سوال سن کر اس نے رونا بند کر دیا اور نظریں میری نظروں میں گاڑ کر بولی، میں نے اپنے مقدس پیشے سے کبھی بے وفائی نہیں کی ہے! میرا کام انسانوں کو درد سے نجات دلانا ہے انسپکٹر صاحب! اس کی آنکھوں میں موجود آنسوؤں کی لالی اس وقت خون کی لالی لگ رہی تھی اور کے لہجے میں جو وحشت تھی میں نے محسوس کیا کہ اس سے میرا ماتحت کانپ اٹھا ہے۔  اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے اپنا بیان دوبارہ جاری کردیا۔  ایک پولیس والا کیسے محسوس کرسکتا ہے کہ درد کیا ہوتا ہے جبکہ اس کی ساری زندگی تفتیش کے نام پر دوسروں پر تشدد میں گزر جاتی ہے۔ میں ڈاکٹر ہیں۔ میں جانتی ہوں درد کیا ہوتا ہے۔ میں انسان ہوں ۔ مجھے پتہ ہے کہ اس دنیا میں بن ماں کے بچوں کا کیا حال ہوتا ہے! میں ہی ہوں جو ان کا درد محسوس کرسکتی ہوں۔ میں ہی ہوں جس کی ماں اس ہی اکتوبر کے مہینے میں اسے پیدا کرتے ہوئے چل بسی تھی۔ خاندان بھر کے گھروں میں باری باری پلتے اور چاچا ماماؤں کے بچوں کی نوکری کرتے ہوئے جب میں ڈاکٹر اور پھر گائنی کی ماہر بنی تو اس کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ میں  کسی ماں کو مرنے نہیں دوں گی۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ میں گائنی کی ماہر تو بن سکتی ہوں مگر خدا نہیں بن سکتی۔ میں انہیں مرنے سے نہیں بچا سکتی۔ مگر جو پیچھے بچ جائیں انہیں ضرور ان کی ماؤں تک پہنچا سکتی ہوں۔ آپ اسے سفاکی کہتے ہیں؟ میں تو احساس کی اس منزل پر ہوں جہاں آپ کبھی نہیں پہنچ سکتے! آپ کی ماں شاید ابھی زندہ ہے!-

اس کی باتیں سنتے سنتے میری بس ہوچکی تھی۔ میں نے کھڑے ہوکر اپنا سائلینسر لگا ذاتی ریوالور نکال لیا۔ وہ ڈاکٹرنی  مجھے کھڑا ہوتا دیکھ کر خود بھی کھڑی ہوگئی تھی اور اب بھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑٰی تھی گویا اسے کسی بات کا ڈر نہ ہو۔ میرا ماتحت البتہ بری طرح گھبرا گیا تھا۔ اسے نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکنے کی کوشش کی کہ سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں مگر اس کا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی میں نے اپنا ہاتھ چھڑا کر گولی چلا دی۔ وہ ڈاکٹرنی دوڑتی ہوئی آئی اور مجھ سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ہمارے قدموں میں میرے ماتحت کی لاش پڑی تھی۔ آج ہماری ماں کی برسی تھی۔ میرا ماتحت بیچارہ ناتجربہ کار تھا جو دروازے پر لگی تختی نہ پڑھ سکا جس پر بڑا بڑا انسپکٹر عاطف علی تحریر تھا!

بلاگ فالوورز

آمدورفت