اتوار، 21 اکتوبر، 2018

پینسل

لدھڑ  کپتان کا جگری دوست تھا۔ وہ کپتان سے چودہ سال کی عمر میں ملا تھا۔ یہ دونوں  اس وقت اسکول میں پڑھتے تھے۔لدھڑ بنیادی طور پر سادہ طبیعت کا حامل تھا اور ایک ایسے دور میں کہ جب اس کی عمر کے لوگ کرکٹ، ہاکی، پڑھائی  وغیرہ کے نشئی تھے، لدھڑ سیدھا سادہ نشئی تھا۔  اس کی یہی سادگی اسے کپتان کے نزدیک لے آئی تھی۔ ان دونوں کا دن ایک دوسرے سے ملاقات کے بغیر ادھورا رہتا تھا۔  یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ دونوں بڑے ہوکر پائلٹ بننا چاہتے تھے۔ یہ دونوں گھنٹوں ساتھ بیٹھ کر اس ہی تصور میں خود جہاز بنے رہتے تھے۔
ان دونوں کی یہ دوستی قریب تین سال اس ہی طرح جاری رہی مگر چونکہ کپتان اپنے والدین کی محنت کی بدولت  ایچ ای سِن میں تھا  اور ایچ ای سِن کے لڑکوں کو لدھڑ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا کیونکہ وہ دوستی میں کاروبار کا قائل نہیں تھا اور تین سو روپے گرام  کی چیز پانچ سو روپے میں بیچنے کا سخت مخالف تھا۔  کہتے ہیں کہ بڑا کپتان  وہ ہوتا ہے جو کان اور ازار کا کچا ہو۔ ان لوگوں نے اٹھتے بیٹھتے کپتان کے معصوم ذہن میں لدھڑ کے خلاف زہر بھرنا شروع کردیا اور ایک وقت آیا کہ دونوں دوستوں نے اپنے اپنے جہاز الگ کر لئے۔
لدھڑ اس دوستی کے یوں ختم ہوجانے پر شدید آزردہ ہوگیا۔  مایوسی نے اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ایسے میں اس کے پاس صرف دو راستے بچتے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ ہمت ہار جائے اور ساری عمر کے لئے روگ لے کر تقدیر کو گالیاں دیا کرے۔ دوسرا راستہ یہ کہ وہ اس زخم کو اپنی طاقت بنا لے اور اس سے ہمت کشید کرتے ہوئے زندگی میں کچھ ایسا مقام حاصل کرلے  کہ دنیا کو اس کی اہمیت تسلیم کرنی پڑے۔  لدھڑ نے دوسرا راستہ چننے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے قسم کھائی کہ وہ کپتان سے انتقام لے گا اور اسے اس کی غلطی کا احساس دلائے گا۔ 
 کپتان زندگی کے سفر میں آگے بڑھ چکا تھا اور لدھڑ کو قریب قریب بھول چکا تھا۔  اس نے کرکٹ کے نشے کو  بھی جاری رکھا ہوا تھا اور اللہ اور ماموں کی مہربانی سے اب قومی ٹیم کے لئے کھیلا کرتا تھا۔ وہ ایک مکمل آل راؤنڈر تھا۔ وہ بیٹنگ میں بھی چمپیئن تھا اور باؤلنگ میں بھی ۔ اس زمانے میں کہ جب قومی ٹیم کی فیلڈنگ نہایت زبوں حالی کا شکار تھی، کپتان اگر فائن لیگ پر کھڑا ہوجاتا تو بیٹسمین نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے سلپ میں کیچ دے کر آؤٹ ہوجانے میں عافیت محسوس کرتا تھا۔ کپتان ایک مکمل پیکج تھا۔ صرف اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کو سراہا جاتا تھا۔ دنیا بھر کی خواتین کرکٹ ٹیم اس حسرت میں مری جاتی تھیں کہ کاش ان کے ملک میں بھی کوئی کپتان جیسا پلیئر ہوتا۔  مگر یہ مراتب ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتے ہیں؟ 
کرکٹ ٹیم سے سیاست کا کورس کرنے کے بعد کپتان نے قومی سیاست کا رخ کیا مگر  کپتان کا وژن بہت آگے کا تھا اور قوم ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہوئی تھی کہ اس کی بات کو سمجھ سکے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب کوپن ہیگن میں  ایک شام میں بیٹھا ہوا ڈنمارک اور پاکستان کا تقابل کرتا ہوا اداس ہورہا تھا  اورتب  ایک نوجوان  خاتون نے مجھ سے آکر پوچھا تھا کہ آیا میرا تعلق پاکستان سے ہے؟  میرے لئے یہ بات شدید حیران کن تھی۔ ڈینمارک سکینڈے نیویا کے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کی سب سے پرمسرت قوم ہیں۔ اس قوم کی خوشحالی کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ پاکستانیوں کی طرح دوسرے اینکرز کی کرسیوں پر نظریں لگا کر نہیں بیٹھتے۔ یہ قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔  یہ اپنی افواج کی عزت کرتے ہیں۔ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔   اپنے علاوہ کسی اور قوم کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اس لئے اس خاتون کے منہ سے پاکستان کا نام سننا میرے لئے حیران کن تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے ہوں؟  اس نے کہا جس طرح آپ مجھے دیکھ رہے تھے میں سمجھ گئی تھی کہ آپ پاکستان سے ہوں گے۔ میرا دل خوشی سے لبریز ہوگیا تھا۔ یہ احساس کہ میں پردیس میں پاکستان کی شناخت کا باعث بن رہا ہوں میرے لئے از حد قابلِ فخر تھا۔ مگر میں جاننا چاہتا تھاکہ اسے پاکستان کا نام کیسے معلوم ہوا؟  تب اس نے مجھے بتایا کہ وہ کپتان کی فین ہے اور میری آنکھیں یہ سوچ کر بھر آئیں  کہ کیسے ہمارے معاشرے میں ہیروں کو روندا جاتا ہے۔  مگر اندھیرے کبھی بھی دائمی نہیں ہوتے۔ جہالت کی تاریکیوں کے بعد بہرحال علم کی روشنی ضرور آتی ہے اور ان تاریکیوں کا سینہ و دیگر اعضا چیر کر اپنے وجود کو ثابت کردیتی ہے۔  تبدیلی کا علم اٹھائے کپتان نے جو سفر شروع کیا تھا اس میں کامیابی نے اس کے قدم چومے اور کپتان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا۔
دوسری طرف لدھڑ بھی زندگی میں پیچھے نہیں رہا تھا۔ ڈنکی کے ذریعے یونان پہنچ کر اس نے پہلے تو  سرمایہ جمع کیا اور پھر خدا کا نام لے کر اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ مسلسل محنت اور لگن کے ساتھ کام میں دن دوگنی اور رات سو گنی ترقی کرتا ہوا وہ اپنے کاروبار کو پھیلاتا چلا گیا اور اب اس کا کاروبار کولمبیا سے لے کر افغانستان تک پھیل چکا تھا۔
ملک کی ترقی کے لئے کپتان نے سمندر پار پاکستانیوں سے امداد کی اپیل کی اور اس ہی سلسلے میں لدھڑ کو بھی وزیرِ اعظم ہاؤس مدعو کیا گیا۔ کپتان معصوم نہیں جانتا تھا کہ لدھڑ آج بھی اس کے خلاف کس حد تک کینہ پال رہا تھا۔  یہ دونوں جب وزیرِ اعظم ہاؤس میں ملے تو کپتان کو قطعاٗ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ملاقات پاکستان کے مستقبل کا رخ بدل دے گی۔ لدھڑ کو دیکھ کر جب کپتان نے بازو پھیلائے اور اسے سینے سے لگایا تو لدھڑ نے کپتان کے کان میں سرگوشی کی، بولو پینسل! کپتان اپنی سادگی میں کہہ اٹھا ، پینسل! لدھڑ نے کپتان کی آنکھوں میں جھانک کر سفاکی سے بولا، تبدیلی کینسل!
اب آپ کپتان پر لاکھ یو ٹرن کے الزام لگاتے رہیں۔ ہر غلطی کے لئے اسے خطاوار سمجھتےرہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا الزام بھی اس پر دھر دیں مگر تاریخ کبھی نہ کبھی انصاف ضرور کرے گی۔ مورخ لکھے گا کہ  فساد کی جڑ یہ پینسل تھی اور اس ہی لئے ملک سے مخلص تمام ادارے قلم پر پابندی لگادینا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ پینسل پاکستان کے لئے کس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتی تھی۔ اگر مورخ کو قلم میسر ہوا تو مورخ ضرور لکھے گا۔

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2018

تھپڑ

منی بس میں حسب معمول شدید رش تھا اور میں نشست یا شاید زیادہ اپنی منزل کے انتظار میں کھڑا ٹریفک کی بے ہنگم صورتحال اور اس بظاہر نہ ختم ہونے والے سفر کو کوس رہا تھا۔ ان منی بسوں، سست ٹریفک اور نشست کے انتظار سے یوں تو پرانی آشنائی ہے مگر مصیبت کتنی ہی مسلسل کیوں نہ ہو اس کی عادت نہیں پڑتی جبکہ آسائش کتنی ہی مختصر وقفے کی ہو ساری عمر کے لیئے اپنی لت لگا جاتی ہے-
انتظار سے تنگ آکر میں نے ارد گرد نظر ڈالی تو بس کو ہر طرح کے لوگوں سے بھرا پایا۔ کراچی میں ساحل کے بعد میری سب سے پسندیدہ چیز اس شہر کی یہی وسعت قلبی تھی۔ دلی سے آنے والا مہاجر ہو یا سیالکوٹ سے آنے والا پنجابی، پشاور کا پٹھان ہو یا سکھر کا سندھی، اس شہر نے کبھی کسی آنے والے سے اس کا نام، مسلک یا ذات نہیں پوچھی۔ غریب کی ماں کا خطاب اس کو واقعی جچتا تھا۔ لیکن شاید خطاب دینے والے کے گمان میں بھی یہ نہیں آیا ہو گا کے غریب کی ماں کا پیٹ اکثر خالی اور آنکھ اکثر بھری رہتی ہے۔
دو بزرگ اپنے اپنے پیروں کی کرامات پر بحث میں اس طرح مصروف تھے کہ اگر ایک بزرگ کی منزل نہ آجاتی تو دوسرے والے ان سے اعتراف کروا چھوڑتے کے اسلام میں اللہ رسول اور اصحاب کے بعد سب سے برگزیدہ ہستی ان کے حضرت والا ہی ہیں۔ مجھے بچپن کی وہ بات یاد آگئی کے "پیر خود نہیں اٰڑتے، ان کے مرید اڑاتے ہیں"۔ ایک پٹھان بھائی ڈرون طیاروں اور ان کے شجرہ نسب پر روشنی ڈالنے میں مصروف تھے اور ڈرون کی والدہ سے متعلق ان کے بیان کردہ ارادوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انسان اور مشین کے تعلقات بہیت جلد ایک نیا اور تاریخی موڑ لینے والے ہیں۔ ایک حضرت پاک-ایران گیس پائپ لائن کے فوائد اور خطے میں ایران اور سعودیہ کی جنگ پر اپنے زریں خیالات سے نواز رہے تھے اور ہر دلیل کے ساتھ اونچی ہوتی ان کی آواز مجھے یاد دلا رہی تھی کے جب دلیل کمزور ہو جائے تو آواز خودبخود اونچی ہو جاتی ہے۔
اگلے اسٹاپ پر ایک نشست خالی ہوئی تو میں تیزی سے اس کی طرف لپکا، جو صاحب اس نشست کے انتظار میں پہلے سے کھڑے تھے وہ پہلے تو تھوڑے ہچکچائے مگر پھر کمال مہربانی سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے "آپ مجھ سے زیادہ تھکے ہوئے ہیں، پہلا حق آپ کا ہے"۔ نشست کیا آئی، گویا جان میں جان آگئی۔ نشستوں پر بیٹھے تمام مسافر جو اس سے پہلے نہایت مطلبی، خودغرض اور بناوٹی لگ رہے تھے یکایک کھڑے ہوئے مسافروں سے بہتر لگنے لگے۔ اور کیوں نہ لگتے؟ جو مسافر اب تک کھڑے ہوئے تھے وہ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے گویا میں کوئی نہایت مطلبی، خودغرض اور بناوٹی انسان ہوں؟ اچھا ہوتا ہے جو ان کو نشست نہیں ملتی، ہیں ہی اس ہی قابل1 دل میں یہ سوچ کر میں اب ان صاحب کی طرف متوجہ ہوا اور رسما پوچھ لیا کہ انہوں نے یہ زحمت کیوں کی میرے لیئے؟ اس سے پہلے کے وہ کوئی کوڑھ مغز قسم کا جواب دیتے میں بات کا پہلو بدل کر امت مسلمہ کے موجودہ مسائل اور ان کے حل پر آگیا کہ یہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ اگلے بیس منٹ تک ہماری [زیادہ تر میری] گفتگو اسلام کی نشاط اول کے راست باز، قانون اور اصول پسند مسلمانوں پر رہی۔ ہم دونوں کا اتفاق تھا کہ مسلمان اگر صرف قانون پسندی ہی کر لے تو بھی ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہو سکتا ہے۔ گفتگو کچھ اور آگے چلتی تو میں ان صاحب کو مزید سکھاتا کے میری برسوں کی تحقیق کس طرح مسلمانوں کے کام آ سکتی ہے، مگر ان کی منزل آگئی تھی سو انہوں نے رخصت چاہی۔
اترنے سے پہلے کنڈکٹر کو روک کر کچھ پیسے دیے اور اسے یاد دلایا کے وہ ٹکٹ لینا بھول گیا تھا۔ میں نے کہا کہ بھول چوک اسلام میں معاف ہے، اگر وہ کرایہ لینا بھول گیا تھا تو آپ بھی بھول جاتے؟ وہ بس سے اترتے ہوئے آہستہ سے گویا ہوا "جی، میں مسلمان نہیں ہوں۔"
اس سرگوشی میں چھپے تھپڑ کی آواز آج تک مجھ میں گونجتی ہے۔

سید عاطف علی
11-12-2013

بلاگ فالوورز

آمدورفت