اتوار، 29 دسمبر، 2019

بینظیر


سینتالیس کے بٹوارے میں اتر پردیش سے آنے والے مہاجرین بالعموم دو معاشی انتہاؤں  کے مکین  تھے۔ ان میں سے ایک تو وہ  پڑھا لکھا اور آسودہ حال طبقہ تھا جو باقی ہندوستانیوں کو خود سے کمتر گردانتے     ہوئے  ان کے ساتھ رہنے کو توہین سمجھتا تھا اور پاکستان کو اشرافیہ کے لئے چنیدہ جگہ سمجھ کر ہجرت کر آیا تھا جبکہ دوسرا اور زیادہ بڑا طبقہ وہ تھا جو سابقہ ہندوستان میں کسمپرسی کی زندگی جی رہا تھا اور پاکستان کی صورت میں انہیں ایک نئی شروعات کی امید نظر آرہی تھی۔ بینظیر کا دادا بھی ایسی ہی اکثریت سے تعلق رکھتا تھا اورکانپور سے اٹھ کر ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے باپ کے ساتھ کراچی پہنچا تھا۔ لٹتے لٹاتے پہنچنے کا  محاورہ یہاں خلافِ واقعہ ہے کہ غریب کے پاس تھا ہی کیا کہ لٹاتا؟ اور خاندان کے چند افراد کے جانے کو  لٹنا اس لئے نہیں تسلیم کیا جا سکتا کہ اگر کانپور میں رکے رہتے تو شاید فاقوں سے مر جاتے۔ اب کم از کم یہ تاج تو  سر پر سج گیا تھا کہ وطن کی بنیادوں میں ہمارے بھی گھر والوں کا خون شامل ہے۔
غریب کی زندگی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں انہونیاں نہیں ہوتیں۔ ہر چیز مقررہ وقت پر حسب معمول  ہوا کرتی ہے۔ کبھی اچانک سے دن نہیں بدلتے۔ بلکہ اکثر تو ساری عمر کی محنت کے بعد بھی  نہیں بدلتے۔ مستقل غربت کے دنوں میں ہر چند ماہ بعد موت، بیماری، تہوار یا رسومات وغیرہ کی شکل میں تقدیر یہ یقینی بناتی ہے کہ بھولا بھٹکا کوئی روپیہ جمع نہ ہو جائے۔ اور جب تک نسلوں میں کوئی ایک باغی پیدا نہ ہو، غربت کے تسلسل کا یہ سفر نسل در نسل جاری رہے   ۔ بغاوت کیسے غریبی کی زنجیروں کو توڑتی ہے یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ ہمارا موضوع تو بینظیر ہے ۔ جس نے آپ کی طرح یہ کہانی فقط پچھلی سطر تک پڑھی تھی اور اپنی ننھی سی سمجھ کے اعتبار سے جو بغاوت کرسکتی تھی کرنے نکل پڑی تھی۔  ویسے بھی بغاوت کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ بچا ہی کب تھا؟ 
وہ سات بہن بھائیوں کی سب سے بڑی بہن تھی جس کا نام اپنے وقت کی وزیراعظم کے نام پر بینظیر رکھا گیا تھا۔ سن اٹھاسی میں جب وہ پیدا ہوئی تھی تو بینظیر بھٹو اپنے عہدے کا حلف لے چکی تھیں اور بھٹو کی بیٹی سے متاثر اس  کے  باپ نے اس کا نام بھی بینظیر رکھ دیا تھا کہ ہر بے انتہا غریب کی زندگی کے ہیرو ہمیشہ بے انتہا طاقتور اور امیر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔   اس غریب کو کیا معلوم تھا کہ نام کا اثر اس طرح آنا تھا کہ محض اٹھارہ برس کی عمر میں  باپ کے گزر جانے کے بعد اس بینظیر کو بھی گھر سے باہر قدم رکھنا پڑے گا۔ یہ فرق بہرحال اپنی جگہ تھا کہ بھٹو کی بیٹی اپنا حق حکمرانی حاصل کرنے نکلی تھی جبکہ اس بینظیر کو اپنے چھ دیگر بہن بھائیوں اور بیوہ ماں کا زندہ رہنے اور پیٹ بھر کھانے کا حق حاصل کرنے کے لئے نکلنا پڑ گیا تھا۔  باپ اپنی زندگی میں میٹرک تک پڑھا گیا تھا تو لکھت پڑھت اور بنیادی انگریزی جانتی تھی۔ ان دونوں چیزوں کے ساتھ ساتھ خاندان کی سب سے پڑھی لکھی لڑکی ہونے کا زعم  بھی اس سے  دفاتر میں جوتیاں چٹخاتا رہا مگر جلد ہی سمجھ آگئی کہ کراچی نامی انسانوں کے سمندر میں  ہر میٹرک پاس کے اوپر تین انٹر پاس اس ہی آسامی پر کم تنخواہ میں کام کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جہاں دفتر کے اندر کی نوکری کے لئے اس سے  زیادہ قابل لوگ موجود تھے وہیں دفتر کے باہر ریسپشن پر بیٹھنے کے لئے اس سے زیادہ خوش شکل خواتین کا ہجوم تھا  جو ہر طرح کے حالات میں ڈھل جانے کا اضافی ہنر بھی رکھتی تھیں۔  دو ہفتوں میں ہی اسے سمجھ آگئی تھی کہ دفاتر میں نوکری پانے کے لئے اگر ڈگری نہ ہو تو اور دیگر صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہےجن میں وہ مکمل کوری تھی۔  خود کو تو حالات کے حساب سے ڈھالنا مشکل تھا سو اس نے اپنی توقعات کو حالات کے حساب سے ڈھال لیا اور خاموشی سے اپنی محلے کی دو لڑکیوں کے ساتھ ہی ایک کارخانے میں نوکری کر لی کہ جس کا مالک ایک شریف آدمی تھا اور کارخانے میں کام کرنے کے لئے ڈگری کے بجائے محنت اور لگن کی ضرورت تھی  جس میں وہ غریب گھرانے کی اکثر لڑکیوں  کی طرح خودکفیل تھی۔
وقت اپنی رفتار کے ساتھ گزرتا گیا اور سال بھر کے اندر ہی اس نے کارخانے میں اپنی جگہ مستحکم کر لی ۔ کارخانے کے ذمہ داران اس کی محنت اور قابلیت دونوں سے خوش تھے اور نئے سال کے آغاز میں تنخواہ کے اضافے کے ساتھ اسے سپروائزر کی جگہ بھی دینے والے تھے۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ تنخواہ بڑھنے کے بعد وہ اپنے سے چھوٹے بھائی کی نوکری چھڑوا کر تعلیم دوبارہ شروع کرا سکے گی تاکہ وہ پڑھ لکھ کر ان سب بہن بھائیوں کے دن پھیر سکے۔ وہ تھا بھی بہت قابل۔ پڑھ لکھ جاتا تو کوئی اچھا عہدہ حاصل کرنے کے تمام گن بھی رکھتا تھا مگر حالات کی ٹھوکروں نے اسے مکتب سے اٹھا کر ورکشاپ پر لا بٹھایا تھا ۔
وہ روزانہ کی بنیاد پر دن گن رہی تھی کہ کب پہلی تاریخ آتی ہے  اور وہ باقاعدہ نئے عہدے اور نئی تنخواہ کی خوشخبری گھر والوں کو سنا سکے۔ ابھی پہلی تاریخ میں چار دن باقی  ہی تھے کہ وہ منحوس   جمعرات درمیان میں آگئی۔
کہنے کو وہ اک نہایت معمول کا دن تھا مگر دن بھر کی مشقت کے بعد جب چار بجے چھٹی ہوئی تو   بھی اس کی مشین پر کام موجود تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ باقی کا کام اگلے  دن پر چھوڑ دے مگر پھر یاد آیا کہ چھوٹی کی دوائی کے لئے ابھی  کچھ اضافی نقدی بھی درکار ہوگی۔ چھوٹی کی بیماری یاد کر کے اس نے سہیلیوں کو روانہ کردیا اور خود ایک گھنٹہ مزید رک کر اوورٹائم لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں تک تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر جب کام سمیٹ کر ساڑھے پانچ بجے وہ کارخانے سے نکلی تو باہر ایک افراتفری کا عالم تھا۔جس طبقے سے وہ تعلق رکھتی تھی وہاں  موبائل فون تب بھی اتنے عام نہیں تھے کہ اسے خبر ہوتی  باہر کیا قیامت بیت چکی ہے۔  کسی نے بتایا کہ بینظیر بھٹو کو گولی لگ گئی ہے۔  کراچی شہر میں رہتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ ایسے حالات میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہے اور پھر رکشہ یا ٹیکسی والے بھی اپنی من مانی  کے پیسے مانگتے ہیں ہیں  لہٰذا دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتی ہوئی وہ تیز قدموں کے ساتھ سڑک کی طرف چلنا شروع ہوگئی کہ ٹرانسپورٹ غائب ہونے سے پہلے  بس پکڑ سکے۔
سڑک پر پہنچنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ سڑک سے پبلک اور پرائیوٹ دونوں اقسام کی ٹرانسپورٹ غائب ہوچکی ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ واپس کارخانے چلی جائے مگر پھر خیال آیا کہ  شاید اگلے سٹاپ سے کوئی سواری مل جائے؟ ویسے بھی سڑک پر وہ اکیلی نہیں تھی۔ اس جیسی سینکڑوں دیگر لڑکیاں بھی تیز قدموں کے ساتھ اس ہی امید میں اگلے سٹاپ کی جانب گامزن تھیں۔  اس نے آیت الکرسی کا ورد جاری رکھا اور دیگر لوگوں کے ساتھ خود بھی اگلے سٹاپ کی سمت چلنا شروع ہوگئی۔ تھوڑا ہی آگے  گئی ہوگی کہ اس نے دور چند گاڑیوں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ وہ گاڑیاں بیچ سڑک  پر جلائی جا رہی تھیں۔ وہ چند لمحوں کے لئے ٹھٹکی مگر پھر اپنے ساتھ چلتے باقی لوگوں کو بھی ڈرتے ڈرتے ہی سہی مگر سفر جاری رکھتا دیکھ کر اس نے بھی ہمت پکڑی اور قدم بڑھاتی رہی ۔  دس بیس قدم چلنے کے  بعد منظر جب اور واضح ہوا تو وہ اپنی جگہ پر سن ہو کر کھڑی رہ گئی۔ آگے نا صرف گاڑیاں جلائی جا رہی تھیں بلکہ ان گاڑیوں کے سواروں کو باقاعدہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔  اس نے  بے بسی کے عالم میں وہیں سڑک پر کھڑی دیگر لڑکیوں سے دریافت کیا کہ آیا ان میں سے کسی کے پاس موبائل فون موجود ہے  کہ وہ پڑوس میں کسی کے گھر فون کر کے ماں کو خیریت بتا سکے تو جواب ملا کہ فی الوقت کوئی بھی نیٹ ورک کام نہیں کر رہا۔
اس کے بعد کیا ہوا، کسی کو معلوم نہیں ہے۔ کیوں کہ آگےکی کہانی سنانے   بینظیر نہ کبھی گھر پہنچی نہ واپس کارخانے۔ 
(کوئی کہتا ہے کہ سڑک پر موجود دہشت گردوں نے اسے بھی گولی مار دی تھی۔ مگر اس صورت میں اس کی لاش ہی بازیاب ہوجاتی؟ محلے کے وہ بزرگ جو جوان لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے کے عذابوں سے ڈرایا کرتے تھے، ان کے مطابق کوئی اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا اور اب وہ ان ہی لوگوں کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر بینظیر جیسی بھی فاحشہ ہو، اپنے گھر والوں سے کبھی اتنی بے نیاز تو نہیں تھی کہ بارہ سال میں ایک بار بھی پلٹ کر نہ آئے نہ فون کرے؟  بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بینظیر کو جو کوئی اٹھا کر لے گیا تھا اس ہی نے مار کر اس کی لاش بھی ٹھکانے لگا دی تھی۔ بینظیر کی بیوہ ماں اور چھ بہن بھائی البتہ ان میں سے کسی بھی بات کو ماننے سے انکاری ہیں۔ وہ آج بھی اس بات پر مصر ہیں کہ حکومت انہیں کوئی مصدقہ اطلاع دے۔ خواہ وہ اطلاع اس کی موت ہی کی کیوں نہ ہو۔ انصاف کی عیاشی صرف طاقتوروں کو میسر سہی مگر کم از کم انہیں اس کی باقیات دکھائی جائیں ۔  کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر یہ بینظیر بھی بھٹو ہوتی یا  ماڈل ٹاؤن میں ہوتی تو یہ ممکن ہوجاتا مگر کراچی میں ایسی سہولیات دستیاب نہیں۔  مگر میں جانتا ہوں کہ اس طرح کی باتیں محض لسانیت اور تعصب پھیلانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ میں اس لئے ان میں سے کسی بات کا یقین نہیں کرتا۔ چاہتا تو میں یہ بھی لکھ سکتا تھا کہ بلاول خوش قسمت ہے کہ جو کم از کم  یہ تو جانتا ہے کہ ماں کی برسی کس دن ہے۔ مرے ہوئے کا ایک وقت کو صبر بھی آجاتا ہے مگر جیتے جی کا صبر کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ مگر میں ایسی باتیں نہیں لکھوں گا۔ میں کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ میں سے کوئی یہ کہانی پڑھے اور بینظیر کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا، اس بارے میں کچھ جانتا ہے تو بینظیر کے گھر والوں کو اس کے بارے میں مطلع کردے۔ کیا ہے کہ وہ بھی ستائیس دسمبر کو بینظیر کی برسی منانا چاہتے ہیں مگر تصدیق کے انتظار میں روز مر رہے ہیں۔)

جمعرات، 26 دسمبر، 2019

پھانس


چھوٹی کہلائی جانے والی باتیں انسان کو جتنا گہرا دکھ دیتی ہیں ، بڑی باتیں اس کا عشرِ عشیر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یقین نہ آئے تو زندگی کی رفتار سے ایک موٹا سریا اپنے پیر پر مار کر دیکھ لیں اور اس کی آدھی رفتار سے ایک باریک پھانس اس ہی جگہ پر چبھا  لیں۔ فرق خود سمجھ آجائے گا۔
ایسی واہیات و بے سروپا باتیں میں نہیں کرتا ۔ میں تو صرف غریب کہانی کار ہوں اور اس کی یہ بھونڈی دلیل آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ کیوں پہنچا رہا ہوں؟ میں نہیں جانتا۔ شاید تمہید باندھنے کے لئے ؟ یا شاید اس لئے کہ آج  جسم  میں پھانس چبھو بیٹھا ہوں اور اس سستے فلسفے سے جڑے کہیں زیادہ قیمتی اور عملی  فلسفے کا ادراک کر رہا ہوں؟ یا شاید اس لئے کیونکہ  میں تخلیق پر قدرت رکھتا ہوں اور ہر خالق  ہی کی طرح میں بھی اپنے اس اختیار کو بے جا استعمال کرنے کی عادت رکھتا ہوں؟  یا شاید اس لئے کیونکہ میں بھی بالآخر ایک انسان  ہوں اور  ہم انسان جس چیز کو بھولنا چاہیں اسے یاد کرنے کے بہانے غیر متعلق چیزوں میں سے بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں؟  یا شاید یہ تمام وجوہات بیک وقت اس تحریر کا موجب بن رہی ہوں؟  اصل وجہ کیا ہے، میں نہیں جانتا!  میں بس یہ جانتا ہوں کہ میری اس کی یہ گفتگو جامعہ کے باغ  میں ہوئی تھی جہاں چلتے چلتے اس نے پیروں سے گرگابی اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی اور چار قدم چلنے کے بعد ہی کراہتی ہوئی نیچے بیٹھ کر پیر میں چبھنے والی پھانس نکالنے کے دوران اس نے مجھے یہ سستا فلسفہ سنایا تھا۔
انسانوں کے المیے کے لئے خود ان کا انسان ہونا ہی کافی تھا مگر ستم بالائے ستم یہ  کہ ہم اپنی انسانیت کی سمجھ دوسرے انسانوں پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں سے کیا شکوہ کہ میں خود بھی ایک عمر تک اس ہی ذلیل حرکت کا مرتکب ہوتا رہا ہوں۔  سچ تو یہ ہے کہ یہ گفتگو بھی ایک ایسے ہی انسانی المیے کے نتیجے میں ہی وقوع پذیر ہوئی ۔
کہانی بہت معمولی ہے۔ ایک غریب سے ایک امیر زادی کا عشق اور اس کے لازمی نتیجے میں امیر زادی کے گھر والوں کا غریب کو یاد دلانا کہ ایسی شادیاں تو اب ہندوستانی سینما میں بھی نہیں دکھائی جاتیں  اور جتنی تمہاری آمدنی ہے اتنے تو ہمارے کتوں پر خرچ ہوجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔  معمول کی کہانیوں کے اعتبار سے لڑکے کو اس سب کے بعد لڑکی کو بھگا کر لے جانا چاہئے جبکہ حقیقت پسند لکھاری شاید یہاں لڑکے کو قارئین کی سہولت کے اعتبار سے چند لاکھ یا ایک آدھا کروڑ دلوا کر چپ کروا دیں۔ مگر چونکہ فی زمانہ اینٹی کلائمیکس لکھنے کا رواج ہے اور یہ کہانی بھی نئے زمانے کی ہے سو یہاں  غریب زادہ بغیر پیسے لئے ہی اپنی اوقات پہچان لیتا ہے اور امیر زادی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ 
امیر زادی  نے چونکہ زندگی میں کبھی نہ نہیں سنا اس لئے وہ غریب زادے کے سادے سے انکار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتی ہے۔ تِس پہ یہ نوجوان اپنا دیوتا ؤں والا چوغہ نکالتا ہے اور امیر زادی کے سامنے ایک ایسے بھیانک انسان کے روپ میں آجاتا ہے کہ جس سے خدا کی ہر مخلوق گھن کھاجائے۔ امیر زادی عشق میں مبتلا ضرور تھی مگر ایک نفیس طبیعت کی مالک تھی۔ اول تو اس نے سب کو اپنا وہم یا سمجھ کی غلطی سمجھ کر ٹال دیا مگر جب غریب  نے مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ چوغہ اوڑھے رکھا تو ناچار امیر زادی بھی گھن کھا کر خود ہی پسپا ہوگئی ۔ رخصت کی یہ آخری ملاقات جامعہ میں ہی ہوئی تھی کہ جہاں دونوں پڑھتے تھے۔ یہ آخری ملاقات ہر لحاظ سے آخری ملاقات تھی۔ اور جاتے سمے جامعہ کے باغ کی گھاس پر ہونے والی یہ گفتگو  ہم دونوں کے درمیان کی آخری گفتگو تھی۔  میں نے آخری ملاقات کی جگہ آخری گفتگو کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ اس دن کے بعد ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہو۔
اس ایک ملاقات کے قریب گیارہ برس  بعد کل ہم دونوں دوبارہ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے۔ اب میں بھی اتنا غریب نہیں رہا ہوں ۔ غربت کی وجہ سے عشق لٹانے والے اکثر مرد بعد میں کبھی غریب نہیں رہتے۔ ایک عام انسان کے مقابلے میں ایسے انسانوں کی ترقی کی بھوک سات گنا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کھو دینے کا کرب جان جاتے ہیں۔شہر کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے شاپنگ مال میں گھومتے ہوئے کل وہ ایک بار پھر میرے سامنے آئی تھی ۔ اس بار وہ اکیلی نہیں تھی۔ ایک آٹھ سالہ حسینہ نے اس کی انگلی تھام رکھی تھی جبکہ ملازمہ سٹرالر میں ایک دو سالہ بچے کو لئے اس کے آگے چل رہی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک لحظہ کے لئے ٹھٹھکے  ضرور مگر پھر وہ خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
اس ایک لمحے میں اس کی نگاہیں کئی ہزار لاکھ پھانسیں میرے پورے جسم میں پیوست کر گئی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے جو نفرت اور حقارت تھی اس نے میرے دیوتائی چوغے کے تارو پود بکھیر دیے ہیں۔ میرا دل کیا تھا کہ میں دوڑ کر اس کو روک لوں اور اسے بتاؤں کہ میں اتنا مہان انسان ہوں جو تمہاری بہتر زندگی کے لئے اور تمہیں غربت سے جڑے آلام سے محفوظ رکھنے کے لئے خود تمہاری نظروں میں گرنے تک کے لئے تیار ہوگیا۔ جس نے تمہیں کبھی بھاپ تک نہ لگنے دی کہ وہ غلاظت کی دلدل میں محض اس لئے کود رہا ہے تاکہ تمہارے دامن پر کوئی چھینٹ نہ آئے۔ ایسے دیوتا تو پوجے جانے کے لائق ہوتے ہیں! کوئی ان سے نفرت کیسے کر سکتا ہے؟  مگر پھر یاد آیا کہ اس ہی لئے دیوتا ؤں کی جگہ آسمانوں میں ہوتی ہے۔ کسی وجہ سے ہی وہ انسانوں سے براہِ راست مخاطب نہیں ہوتے۔ انسانوں کے درمیان تعلق  بھی انسانوں والے ہی جچتے ہیں۔
کل سے اب تک چن چن کر جسم سے پھانس نکال رہا ہوں اور فلسفے کے نئے سبق سیکھ رہا ہوں۔ میں سیکھ رہا ہوں کہ پھانس بھی رشتوں کی طرح ہوتی ہے کہ اگر ڈھنگ سے کلوژر نہ کیا جائے تو چبھن مستقل ہوجاتی ہے۔ خواہ وہ رشتہ انسانوں سے ہو یا شہر سے یا کسی بھی دوسری مادی شے سے ۔ میں سیکھ رہا ہوں کہ پھانس کے چبھنے کا کرب اپنی جگہ مسلم صحیح مگر پھانس کے نکالنے کے اپنا ایک کرب ہے جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔  میں سیکھ رہا ہوں کہ کچھ کہانیاں پھانس ہی کی طرح ہوتی ہیں کہ جن کا آغاز بھی تکلیف دہ ہوتا  ہے اور جب تک وہ جاری رہتی ہیں تکلیف پہنچاتی رہتی ہیں۔ اور پھر ایسی کہانیوں کا انجام بھی صرف ایک ہوتا ہے۔ اذیت!
میں ایک غریب کہانی کار ہوں اور میں سیکھ چکا ہوں کہ فلسفہ سستا صحیح مگر یہی حقیقت ہے کہ چھوٹی کہلائی جانے والی باتیں انسان کو جتنا گہرا دکھ دیتی ہیں ، بڑی باتیں اس کا عشرِ عشیر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یقین نہ آئے تو زندگی کی رفتار سے ایک موٹا سریا اپنے پیر پر مار کر دیکھ لیں اور اس کی آدھی رفتار سے ایک باریک پھانس اس ہی جگہ پر چبھا  لیں۔ فرق خود سمجھ آجائے گا۔

جمعرات، 12 ستمبر، 2019

زبان دراز کی ڈائری - بدعتی


پیاری ڈائری
یوں تو فاؤنٹین ہیڈ لکھنے والی خالہ این رینڈ کہہ گئی ہیں کہ جس کام میں آپ مہارت رکھتے ہوں اسے کبھی مفت میں نہیں کرنا چاہئے مگر خالہ کا گزر کبھی برصغیر میں نہیں ہوا تھا ورنہ ہم بھی دیکھتے کہ وہ اس قسم کا جملہ کیوں کر کہتیں اور اگر کہہ دیتیں تو اس کے بعد ان کے محلے  اور خاندان کے بزرگ ان کا کیا حال کرتے ۔اور    چونکہ ہمارے محلے میں یہ بات مشہور ہے کہ ہماری دو کتابیں دکانوں پر پڑی گرد کھا رہی ہیں لہذا محلے داروں کو ہمارے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اچھا لکھنا جانتے ہیں۔  اس بات کی دلیل وہ ہماری کتب کی فروخت یا عدم فروخت سے دیتے ہیں کہ اگر ہم اچھا نہ لکھتے تو ہماری کتابیں یوں گرد نہ کھا رہی ہوتیں اور ہم بھی دیگر شاہوں کی طرح کتب کے تیسویں ایڈیشن چھاپ رہے ہوتے۔ خدا ہماری کتب اور محلے داران دونوں پر رحم کرے۔ خیر! اتنی لمبی چوڑی تمہید اس لئے کہ آج پھر ہم ایک خط لکھوانے کے لئے دھر لئے گئے اور اس کے بعد سے پریشان گھوم رہے ہیں کہ کس دیوار سے جا کر اپنا سر ماریں تو سکون پائیں۔
تو ہوا کچھ یوں کہ  رات شامِ غریباں کی مجلس کے بعد ہم اپنے ہی جسم کے مزار پر اگربتی جلا رہے تھے (جسے بعض کم عقل لوگ سگریٹ نوشی سے تعبیر کرتے ہیں) کہ محلے کے ایک مشہور بزرگ نے ہمیں آلیا۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ جانتے ہو سگریٹ پینے سے کیا ہوتا ہے؟ ہم نے جوابا صدیوں پرانا لطیفہ انہیں بصد احترام سنا دیا کہ "اور کچھ ہو نہ ہو، محلے کے بزرگوں کو کیڑا ضرور کاٹ جاتا ہے اور وہ نصیحتیں شروع کر دیتے ہیں" ۔ بزرگوار اس وقت بزرگ سے زیادہ ضرورت مند تھے لہٰذا ہمارے اس براہ راست حملے کو نظرانداز کرتے ہوئے مدعے پر آگئے کہ وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا چاہ رہے ہیں اور خان صاحب کی سیاست سے متاثر ہوکر جوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ بزرگو! حکومت بنانے کے لئے جوانوں سے زیادہ ان کے بڑوں کی ہمدردیاں درکار ہوتی ہیں مگر وہ اپنی بات پر مصر تھے کہ وہ جوانوں کے مسائل حل کر کے  ہی آنے والے انتخابات کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ہم نے دریافت کیا کے ان کے نزدیک جوانان کے مسائل کیا ہیں اور اس سلسلے میں ہم ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ تس پر انہوں نے ایک کاغذ کا پھرا نکالا اور سنجیدگی سے بولے کہ دنیا میں  دو  ہی چیزیں بکتی ہیں، ایک تبدیلی اور دوسرا مذہب۔ تبدیلی کے ٹریڈ مارک چونکہ پہلے ہی کسی اور کے پاس ہیں لہٰذا میں نے جوانان کے مذہبی مسائل کی ایک فہرست مرتب کی ہے ۔ اسی سلسلے میں ایک مشہور و معروف جریدے کو تاریخی کھلا خط وغیرہ لکھنا  چاہتا ہوں تاکہ پرسوں کے اخبار میں میرا بھی نام چھپ سکے اور شہر کے جوانوں کو خبر ہو کہ ان کے حقیقی مسائل پہچاننے والا ان کا لیڈر میدان میں آچکا ہے۔
خدا لگتی کہوں تو اب ہمیں بھی اشتیاق ہونے لگا تھا  سو  ہم نے فہرستِ مسائل کا وہ پھرّا ان کے ہاتھ سے اچک لیا جس میں سب سے اوپر درج تھا کہ شیعہ حضرات اکیلے اکیلے شامِ غریباں مناتے ہیں ۔ اہل سنت  بھی جذبات رکھتے ہیں  ان کا بھی خیال کیا جانا چاہئے۔ ہم نے لاحول پڑھ کر بزرگوار کی طرف دیکھا جو کمال معصومیت سے ہماری ہی سمت دیکھ رہے تھے۔  ہم نے اس مسئلے کی وضاحت طلب کی تو کہنے لگے کہ بھئی ہم نے تو یہ تک سنا ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے بڑے ہوکر شیعہ ذاکر بنائے جاتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر انہوں نے ہمیں نیپال اور چین وغیرہ کی کچھ مثالیں بھی گنوائیں۔   ہم نے بزرگوار کو یاد دلایا کہ پل کے دوسری طرف  بھی آم کھلانے والے سے لیکر حورین کی پنڈلیوں تک ہر قسم کی تفریح موجود ہے لہٰذا تفریح کو تفریح کی حد تک رکھنا چاہئے ۔ اس کی بنیاد پر ایک مکمل گروہ کو مطعون کرنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ ویسے بھی بقول شاعرِ جنوب، چغد پالنے کا حق سب کو برابر کا ملنا چاہئے۔
بزرگوار ہماری بات سے بہت زیادہ مطمئن تو نہیں تھے مگر چونکہ ابھی تک ہم نے خط کا مضمون  لکھنا شروع نہیں کیا تھا لہٰذا وہ ہماری ناراضگی  کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ بولے آپ ایک نکتے کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ آگے پڑھئے۔ ترتیب کے اعتبار سے دوسرا نکتہ یہ تھا  عاشور و چہلم وغیرہ پر تمام سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ بازار وغیرہ جبراً بند کروائے جاتے ہیں جس سے کاروبارِ زندگی کا حرج ہوتا ہے۔ یوں تو اس نکتے سے ہم بھی متفق تھے مگر نفسِ مضمون کے لئے ہم نے ان سے تفصیلات طلب کیں تو بزرگوار نے فرمایا کہ کراچی شہر کی معاشی شہ رگ ایم اے جناح روڈ ہے۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے  کہ جلوس کے اوقات میں یہ دکانیں بند رکھی جاتی ہیں ورنہ خدانخواستہ یہ دکاندار شیعہ حضرات کو اہلِ بیت کا نوحہ اور یزیدیت کے خلاف احتجاج کرتا دیکھتے تو عقائد میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا ،مگر آپ یہ سوچیں کہ جب   محرم الحرام کے پہلے سات دن میں تبرکات و نذر و نیاز وغیرہ کے سلسلے میں بلا مبالغہ اربوں  روپے کی خریداری ہو سکتی ہے تو آخر کے تین دنوں میں دکانیں کھول کر مزید کتنا کاروبار کیا جا سکتا ہے۔  ہم نے انہیں یاد دلایا کہ تبرکات و نذر و نیاز کی خریداری کرنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو جلوس میں آرہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ جلوس بند کروا دئے جائیں گےتو تبرک و نیاز بٹے گی کہاں اور خریدے گا کون؟ بزرگوار جھلا کر بولے، آپ چونکہ جلوس کے راستے میں نہیں رہتے اور آپ کی کوئی دکان جلوس کی گزرگاہ میں نہیں ہے اس لئے آپ کٹ حجتی کر رہے ہیں۔ سوچیں اتنی بڑی ایم اے جناح روڈ ہے۔ چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اگر جلوس نہ نکلے تو نوجوان وہاں اطمینان سے کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ جلوس کا کیا ہے؟ احتجاج ہی کرنا ہے تو وہ تو سپر ہائی وے پر بھی کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے شہر کی تجارتی شاہراہ بند  کرنے کا کیا جواز؟ ویسے بھی شہر کے اندر احتجاج کرنے کا حق صرف صحیح العقیدہ سیاسی جماعتوں کو ہوتا ہے جو اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ ان کے احتجاج سے یزیدِ وقت کے جذبات مجروح نہ ہوں۔  ہم نے کہا، بجا! آپ درست کہہ رہے ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے کبھی چیزوں کو اس زاویے سے نہیں پرکھا تھا۔ ہماری شرمندگی دیکھ کر بزرگوار کچھ ٹھنڈے ہوئے اور اپنا منہ ہمارے کان کے قریب لا کر بولے، بیٹا! ان زیادتیوں کے خلاف کوئی بولتا نہیں ہے اس ہی لئے ہم سب یہ کچھ بھگت رہے ہیں۔ سال میں پانچ دن کی بات ہے  کہہ کر یہ لوگ ہمارا حق غصب کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ اب شاہرات سے نکل کر گلی محلے تک آچکا ہے۔ آج میں نے پوتی کی سالگرہ کرنے کے لئے گلی میں ٹینٹ لگانا تھا مگر مجلس کے نام پر مجھ سے پہلے یہ صاحب ٹینٹ لگا کر بیٹھ گئے۔ اب تمہارے سامنے ہی ساری گلی بند پڑی ہے۔ یہ کون سی انسانیت ہے؟ لوگوں کا آنا جانا دوبھر ہواگیا ہے!   انکار ممکن نہیں تھا لہٰذا ہم نے بزرگوار کی یہ بات بھی من و عن تسلیم کر لی۔
فہرست کے اعتبار سے تیسرا اور آخری مسئلہ یہ تھا کہ پرانے زمانے میں یہ لوگ پانی میں تھوک ملا کر دیا کرتے تھے جس سے بچاؤ کے لئے سبیل سے پانی و شربت نہیں پیا جاتا تھا۔ اب ان لوگوں نے اپنے کارندے حب ڈیم پر بٹھا دئے ہیں جہاں سے کراچی کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ کارندے آٹھ گھنٹے کی شفٹ کے حساب سے  چوبیس گھنٹے حب ڈیم کے کنارے بیٹھے ڈیم میں تھوکتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انجانے میں تمام قوم ان کا جھوٹا پانی پینے پر مجبور ہے اور بچاؤ کا کوئی طریقہ ممکن نہیں ۔ یہ ایک نہایت مکروہ سازش ہے جس کی وجہ سے قوم کے نوجوان جھوٹا پانی پی کر اذلی دشمنی بھلا بیٹھے ہیں۔ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بہت جلد ملک میں سوشی بچوں کی اکثریت ہوگی اور کوئی صحیح العقیدہ نہیں بچے گا۔
ہم نے بزرگوار کو تسلی دی کے ہم نے ان کے تمام مسائل تفصیل سے سن اور سمجھ لئے ہیں اور رات تک ایک اچھا سا خط لکھ کر ان کے نام سے جریدے کو ارسال کر دیں گے۔ ان کو روانہ کرکے جب لکھنے بیٹھا تو نجانے کیوں یہ خیال آگیا کہ میں  تو وہ ہوں جس کے بارے میں دنیا کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ان اہلِ کوفہ میں سے تھا جنہوں نے پہلے حسین ابن علی کو خط لکھ کر بلوایا اور جب ابنِ زیاد نے شہر میں کرفیو لگایا تو حسین کی نصرت کو نکلنے کے بجائے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ پھر جب حسین شہید ہوگئے تو اپنی غلطی پر نادم ہوا  اور آج تک گریہ کرتا ہوں۔ بلاشبہ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ لوگوں کی یہ تہمت اگر درست بھی ہے تو بھی غلطی کا احساس ہوکر اس پر نادم ہوجانا خدا کا فضل ہے۔ اگر اس کی بجائے میں ان کوفیوں میں سے ہوجاتا جو یہ سوچتے تھے کہ حسین خوامخواہ اٹھ کر آگئے اور ان کی وجہ سے ہمارے شہر میں کرفیو نافذ ہوگیا ہے۔ نہ کہیں آسکتے ہیں نہ جا۔ سارے معمولاتِ زندگی برباد ہوکر رہ گئے  ہیں!
جب سے یہ آخری خیال آیا ہے سکون غارت ہوگیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ کون سی دیوار سے جا کر سر ماروں تو سکون پاؤں۔    مگر پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ پریشانی و غم کی حالت میں سر پیٹنا بھی تو بدعت ہے۔جائیں تو کہاں جائیں؟
زبان دراز بدعتی

اتوار، 18 اگست، 2019

بلا عنوان


جانتی ہوں کہ ایک جملہ کہنے کے لئے پوری کہانی سنانا وقت کا زیاں ہے اور مانتی ہوں کہ کچھ جملے اپنے آپ میں مکمل داستان ہوتے ہیں مگر کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ  جنہیں  بیان کرنے کے لئے محض ایک جملے سے تشفی نہیں ہوتی۔ کہیں نہ کہیں ایک خوفناک احساس رہ جاتا ہے۔ بات نہ پہنچا پانے کا احساس۔ میں اس احساس سے ڈرتی ہوں۔ اور شاید اس ہی لئے کہانی کو ایک جملے تک محدود نہیں رکھ پا رہی۔  حالانکہ کہانی بہت مختصر سی ہے۔ میں کسی کے نکاح میں نہیں ہوں۔  اصولی طور پر کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہئے اور قارئین کو قیاس کے گھوڑے دوڑانا شروع کر دینا چاہئیں کہ مجھے بن  بیاہی، بیوہ یا مطلقہ کے خانے میں رکھ کر میری کردارسازی  کرسکیں اور اس خانے میں میرے ہونے کی وجوہات اپنی ذہنی استعداد کے مطابق طے کر کے کہانی کو اپنی مرضی کا انجام دے کر آگے بڑھ سکیں۔ جیسے کہ ہندی آرٹ پکچرز اور پاکستانی حقیقی زندگی میں ہوتا ہے۔ مگر میں اصولوں کی اتنی ہی پاسدار ہوتی تو اس معاشرے میں اب تک اکیلی کاہے کو ہوتی؟  سو اصولی طور پر یہ کہانی بے شک ختم ہوگئی ہو مگر میری کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ رواداری کے نام پر البتہ اتنا ضرور کر دیتی ہوں کہ کہانی کو آگے اس اسلوب میں بیان کر دوں گی کہ جس کو سننے اور پڑھنے کے آپ سب عادی رہے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جگہ پر ایک لڑکی رہتی  تھی۔ اس کی عمر کیا تھی؟ اس  کی صورت کیسی تھی؟ گوری تھی کہ کالی؟ بال لانبے تھے کہ چھوٹے؟  یہ سب غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ سمجھ لیجئے کہ وہ بس آپ کی جیسی لڑکی تھی۔ یا آپ کے اندر موجود لڑکی جیسی لڑکی تھی۔ اب اگر یہ جملہ آپ کی سمجھ آگیا تو آگے کی کہانی بھی سمجھ آجائے گی۔ اگر نہیں آیا تو میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ تو جو کسی جگہ پر جو لڑکی رہتی تھی وہ کسی کو دل دے بیٹھی۔ اب یہ دل دینے کی واردات کی تفصیلات کیا ہیں؟ آیا یہ دل حلال طریقے سے دیا گیا یا دل کی یہ ترسیل کسی ہنڈی حوالے قسم کی کسی غیر اخلاقی و غیر قانونی  طریقے پر ہوئی؟ یہ سوالات اضافی ہیں کہ زمانے کا نیب پہلے ہی اس لڑکی سے ان سوالات پر ان گنت پیشیوں میں تفتیش کر چکا ہے۔ اگر آپ مُصِر ہیں اور  تفصیلات کے متقاضی ہیں تو زمانے سے رابطہ کیجئے کہ جو لڑکیوں کے بارے میں وہ کچھ بھی جانتا ہے جو بیچاریاں اپنے ہی بارے میں خود تک نہیں جانتیں۔
تو کرنا خدا کا کیا ہوا کہ جس انسان کو اس لڑکی نے دل دیا تھا وہ غریب نہ رہا۔ وہ اس کے قریب نہ رہا یا اس دنیا میں نہ رہا ، یہ آپ اپنے اندر کی لڑکی سے خود پوچھ لیجئے۔ تو جانے والا تو گیا مگر جاتے جاتے ساتھ اس بیچاری کا دل بھی لے گیا۔ تصور تو کیجئے، بغیر دل کی لڑکی؟ تقابل اور سمجھانے کے لئے اگر کہوں تو مرد کے جسم میں ایک دل ہوتا ہے جبکہ لڑکی کے دل میں ایک جسم۔  اب جب دل ہی نہ رہ گیا تو اس غریب کے پاس بچا کیا؟ لے دے کر ایک جسم؟ اس لئے میں نے اسے بیچاری کہا۔ تو اب وہ بیچاری لڑکی بغیر دل کے ایک جسم بن کر رہنے لگی۔ اور کرتی بھی کیا؟ تقدیر کے علاوہ لڑکیوں کی زندگی اور موت  بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تو اب وہ بیچاری بغیر دل کے جسم لئے زندگی گزارنے کی کوشش کرنے لگی۔
کچھ دنوں بعد وہاں سے ایک ہمدرد مسافر کا گزر ہوا ۔ اس نے جب اس لڑکی کو اکیلا دیکھا تو اسے بہت ترس آیا۔  اس نے چاہا کہ وہ اس کا جوڑ کسی بھلے مانس سے کرا دے۔ مگر دنیا کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے کہ یہاں ہر چیز کی ایک قیمت رہا کرتی ہے اور ساتھ کی قیمت ہوا کرتی ہے دل! جو اس غریب کے پاس رہا نہیں تھا۔ مگر اڑچن یہ تھی کہ لڑکی بہرحال انسان تھی اور انسان اپنی کم مائیگی کا احساس خود خدا کے سامنے بھی شدید مشکل میں ہی بمشکل کر پاتا ہے سو کسی دوسرے انسان کے سامنے کیسے کرے؟  کس منہ سے اسے بتاتی کہ بھائی صاحب! میں اب اس رشتے کی قیمت چکانے کے لئے کنگال ہوں کہ کل کمائی جانے والا ساتھ لے جا چکا ہے اور دل بازار سے ملتا نہیں کہ ایک بار چلا گیا تو دوسرا بازار سے لے کر استعمال میں لے آئے۔ بیچاری بس اتنا ہی کہہ پائی کہ" بھائی صاحب! کوئی مناسب جوڑ اگر ملا تو سوچوں گی۔ مگر  رشتے کی قیمت چکانے کی اب نہ حیثیت ہے نہ تاب" مسافر چونکہ مرد تھا اس لئے یہ جواب سن کر حیران رہ گیا۔ بولا ماشاءاللہ بھری پری ہو۔ قیمت کیونکر نہ چکا پاؤ گی؟ جی تو اس لڑکی کا بھی چاہا کہ فلسفے کا  دفتر کھول کر اس ہمدرد کو سمجھائے کہ لڑکی کے پاس مرد کو دینے کے لئے سب سے چھوٹی چیز اس کا جسم ہوتا ہے۔ مگر وہ ذہین تھی اور جان گئی تھی کہ مرد ہونے کے ناطے وہ ہمدرد اس بات کو کبھی سمجھ ہی نہ پائے گا اور یوں متفق ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سو وہ بیچاری مسکرا کر بس اتنا کہہ پائی کہ "انشاءاللہ، اللہ آسانیاں فراہم کرے گا"
وہ ہمدرد تو مدت ہوئی گزر گیا مگر کہانی اور کہانی کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی اب بھی وہیں ہے اور ہمدرد قطار اندر قطار آئے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو وہاں جا کر یہ بورڈ لگا دے کہ "لڑکی جسم سے بڑھ کر بھی کچھ ہوتی ہے اور اس کے پاس مرد کو دینے کے لئے سب سے کم مایہ چیز اس کا جسم ہوتا ہے۔ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں! "

ہفتہ، 3 اگست، 2019

کنگال


عورت اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی جاتی ہے جبکہ مرد اولاد کے جوان ہونے پر  بوڑھا     ہو جاتا ہے۔ اور شاید کنگال بھی۔  
خیر یہ کنگال والی بات تو اضافی ہے جو میں اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ بینک کے کاؤنٹر پر بیٹھا وہ نوجوان جس رحم آمیز نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا ہے، میں سمجھ چکا ہوں کہ کھاتے میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ کھسیاہٹ کا احساس کم کرنے کے لئے میں نے اپنے اندر موجود بچا کھچا تمام اعتماد مجتمع کر کے اس سے پوچھا کہ آیا سسٹم میں کوئی خرابی ہے؟  جس پر اس نے اپنی نگاہوں کا تمام ترحم اپنے لہجے میں انڈیلتے ہوئے مجھے یاد دلایا کہ میں کھاتے میں جمع شدہ تمام رقم بہت پہلے اپنی رعایا کے نام منتقل کر چکا ہوں۔ اب اس کھاتے میں سے نکالنے لائق کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ محاورے کی زبان میں ،پھوٹی کوڑی  بھی نہیں!
آپ شاید اب تک اس کہانی کا سرا پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں  اور چاہتے ہیں کہ مصنف یہاں رک کر آپ کو کرداروں سے متعارف کروائے ۔ یہ نہیں تو کم از کم منظر کا پس منظر آپ پر واضح کرے۔  مگر کہانی کار ان تمام چیزوں سے قاصر ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک بینک میں موجود ہے، یعنی اسے سرمائے کی ضرورت ہے۔ اور آپ یہ بھی جان گئے ہیں کہ وہ اپنا تمام سرمایہ صرف کرچکا ہے۔  تو اب ایک ایسے انسان سے کہ جو سرمائے کی ضرورت میں ہو اور اس کا کھاتہ ویران پڑا ہو، آپ کیسے ہوشمندی اور سلیقے کی امید کرسکتے ہیں؟ تفصیلات کہ یہ بینک سرکاری تھا یا نجی؟ سرمایہ لکھوکھا تھا کہ ہزارہا؟ یہ سب باتیں مصنف آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ سمجھا بھی سکتا ہو تو اس وقت نہیں سمجھا سکتا۔ سو آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے سمجھئے۔ بینک کو سرکاری سمجھیں کہ نجی آپ کی مرضی! آپ چاہیں تو اسے زندگی کا ایک استعارہ سمجھ لیں۔ مصنف ان تمام باتوں سے بے پرواہ ہے۔  مصنف کو پرواہ ہے تو بس اس بات کی کہ وہ ایک مرد ہے اور اپنا کل سرمایہ لٹا چکا ہے۔ اور اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی کہانی آپ سے بیان کرے ۔  بنا تکلفات میں پڑے اور بغیر تفصیلات میں جائے۔  اس امید پر کہ شاید آپ اسے اس کی مشکل سے نجات دے دیں۔
کیونکہ کہانی ہمیشہ سے ایک ہی رہتی ہے سو کہانی آج بھی وہی ہے۔ مگر چونکہ یہ دستورِ سخن ہے کہ ہم وہی گھسی پٹی لکھوکھا سال پرانی کہانی شکل بدل کر سناتے آئے ہیں سو آج اس کنگال لکھیک کی کہانی بھی دوبارہ  سن لیجئے۔ آپ میں سے چند ہی کی طرح لکھیک بھی ایک مرد تھا جس کی رعیت میں ایک عورت شامل کر دی گئی تھی۔ عرفِ عام میں اس عمل کو شادی کہتے ہیں۔ حسبِ دستور آنے والی رعایا اپنے ساتھ عزتِ نفس اور شخصیت  کی بقا کے لئے محض جہیز لائی تھی  جو کہ ایک مقررہ معیار  و مقدار سے تھوڑا بھی کم ہو تو بالعموم ناکافی رہتا ہے۔  ہماری کہانی کی دلہن تو اس معاملے میں بالکل ہی کنگال تھی۔  غریبوں کی اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ جب تک غریب رہیں، مال کی قدر کرتے رہتے ہیں۔ وہ غریب بھی چونکہ مکمل تہی دست تھی لہٰذا مال کی قدر جانتی تھی۔ جو بھی کچھ تھوڑا بہت جمع کرپاتی اسے خرچ کرنے  کی کبھی ہمت ہی نہیں کرپاتی تھی۔ لکھیک چونکہ مرد تھا لہٰذا پیدائش کے فورا بعد ہی  عزت کے معاملے میں کروڑپتی ٹھہرا تھا۔ بڑے ہونے کے ساتھ وہ اس سرمائے میں بغیر کوشش کے مسلسل اضافہ ہی دیکھتا آیا تھا۔   (جس طرح مغرب میں چند لوگ فرینڈز ود بینیفٹ  رکھ لیتے ہیں اس کے برخلاف مشرق  یا کم از کم ہمارے معاشرے میں ہر مرد غلام ود بینیفٹ  رکھنے کا پیدائشی مکلف ہوتا ہے)۔  اپنا ذاتی غلام ود بینیفٹ آجانے کے بعد  وہ سرمائے کے معاملے میں کافی بے پرواہ ہوگیا تھا۔  عزت کا معاملہ بھی افیم کا سا ہوتا ہے۔ حق کی کمائی ختم ہوجائے تو انسان حاصل کرنے کے لئے چوری سے بھی باز نہیں آتا۔ دیگر تمام مردوں کی طرح لکھیک بھی یہ بات نہیں جانتا تھا کہ عزت کا سرمایہ   کسی بھی دوسرے سرمائے کی مانند ہی ہوتا ہے۔ کمائی کے ذرائع نہ ڈھونڈے جائیں اور جمع پونجی مسلسل خرچ ہوتی رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ سرمایہ مکمل اجڑ جاتا ہے۔
اپنا اصل سرمایہ تو شاید بادشاہت کے شروع میں ہی ختم ہوگیا تھامگر احساس یوں نہ ہوا کہ رعایا کے کھاتوں سے ملنے والا سرمایہ اتنا بہت تھا کہ اصل سرمائے کی کمی کبھی محسوس ہی نہ ہوئی۔ رعایا کے آنے سے ویسے ہی لکھیک بادشاہ کے درجے سے بلند ہوکر دیوتا کے درجے پر جا پہنچا تھا اور اب اپنی ذاتی مخلوقات بھی  رکھتا تھا۔ گھر کے مندر میں اس کے قدم رکھتے ہی جیسے مخلوقات کا دم نکلتا  تھا، اسے لگتا تھا اس کا سرمایہ یکدم کئی گنا بڑھ جاتا تھا۔  مخلوق سے جواب طلبی کا جو مزہ خالقِ کائنات محض ایک مرتبہ محشر کے لئے محفوظ رکھتا ہے، وہ اس سے روز محظوظ ہوا کرتا تھا۔
مگر یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ اب اس کی اپنی مخلوقات ، اپنے اپنے مندروں کے دیوتا ہیں۔ اصولی طور پر اب اس کو قارون سے زیادہ امیر ہوجانا چاہئے مگر بینک والوں کا کہنا ہے کہ اس  کا کھاتہ بالکل ویران پڑا ہوا ہے۔ محاورے کی زبان میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے۔ دوسری طرف اس کی رعایا جو  بالکل تہی دست آئی تھی، خدا جانے کہاں سے سرمایا جوڑ کر اب کروڑ پتی ہوئی بیٹھی ہے۔  جوڑا کہاں سے ہوگا؟ یقینا یہ وہی سرمایہ ہے جو لکھیک کے کھاتے سے نکال کر اس کو دیا گیا ہے۔  اور دینے والے بھی کوئی اور نہیں، نئے زمانے کے دیوتا ہیں۔  ان کا ماننا ہے کہ لکھیک اپنے حصے کا تمام سرمایہ جوانی میں ہی اپنی رعایا سے وصول کر چکا ہے لہٰذا اب اس سرمائے پر پرانے دیوتا سے زیادہ اس رعایا کا حق ہے جس نے ساری عمر اس سرمائے کو محض دور سے ہی دیکھا ہے۔  اگر جوانی میں سرمائے میں سے رعایا کو حصہ دے دیا جاتا تو آج سود کے ساتھ ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔
یہ ہے لکھیک کی کل کہانی اور اس کی مشکل یہ ہے کہ وہ دیر سے بینک میں کھڑا ہوکر بڑبڑا رہا ہے کہ عورت اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی جاتی ہے جبکہ مرد اولاد کے جوان ہونے پر  بوڑھا     ہو جاتا ہے۔ اور شاید کنگال بھی۔   کوئی جاکر اسے تسلی دے دے!

اتوار، 31 مارچ، 2019

سوئی دھاگہ


خدا نے انسان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کبھی اس پر اسکی برداشت سے زائد بوجھ نہ ڈالے گا۔ البتہ اس بارے میں تمام الہامی کتب خاموش ہیں کہ آیا خدا  انسانوں کو بھی ایک دوسرے پر برداشت سے زائد بوجھ ڈالنے سے باز رکھے گا یا نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت کو زمہ داریوں کا بھاری بوجھ تو اٹھا لیتا ہے مگر توقعات کا بوجھ نہیں سہار پاتا۔اور شاید اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان سرے سے اس المیے کو المیہ ماننے کو تیار ہی نہیں  ہیں۔ میں بھی اس وقت ایک ایسے ہی المیے سے دوچار ہوں۔  
میرے بچپن کا بیشتر حصہ نانی کے گھر میں گزرا تھا ۔  ویسے تو نانی کے گھر میں نانی نانا کے علاوہ دو عدد ماموں بھی ہوا کرتے تھے   جو کافی مہربان بھی تھے مگر میری دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ چھوٹی خالہ ہوا کرتی تھیں۔  چھوٹی خالہ مرغیاں پالنے اور بچوں کو بگاڑنے کے حوالے سے پورے خاندان میں مشہور تھیں۔ مگر اس کہانی میں تو یہ سب کردار اضافی ہیں۔  مگر  جب ہم حقیقی زندگی کا سب سے بڑا حصہ اضافی کرداروں کی نظر کردیتے ہیں تو اس کہانی پر کیوں اعتراض کرنا؟ تو بچپن کی ہی ایک دوپہر میری اس سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ مرغیوں کے انڈوں سے چند دن پہلے ہی چوزے نکلے تھے اور خالہ  کے پرزور اصرار پر میں انہیں دیکھنے پہنچا ہوا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا تو گھر کے سب بڑے آرام کر رہے تھے جبکہ ہم  آنگن میں مرغیوں کا پنجرہ کھول کر چوزوں کو یہاں سے وہاں بھاگتے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اچھا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا سو ہماری خوشیاں بھی وقتی ہی ثابت ہوئیں اور محلے کی بدنام بلی  نجانے کہاں سے آن ٹپکی۔  اس سے پہلے کہ ہم معاملے کو سمجھ پاتے، آنگن میں مرغیوں نے کڑکڑا کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ بلی منہ میں ایک مرغی کو دبائے رفو چکرہو رہی تھی۔  اور تو کچھ سمجھ نہیں آئی سو ہم نے بھی چپل کی فکر چھوڑ کر بلی کے پیچھے ہی باہر دوڑ لگا دی۔ باہر گلی میں پہلی مرتبہ میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ میری ہی عمر کا ایک لڑکا تھا۔ مرغی اس کے ہاتھ میں تھی جس کے نرخرے سے خون بہہ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، وہ خود ہی بول پڑا،  بلی آپ کے گھر سے مرغی لے کر بھاگ رہی تھی پر مجھے دیکھ کر پھینک گئی ہے۔  میں حواس باختہ کھڑا اس کے ہاتھ میں لرزتی ہوئی لہولہان مرغی دیکھ رہا تھا  جو شاید چند ہی گھڑیوں کی مہمان تھی۔ میں اتنا بوکھلایا ہوا تھا کہ شاید وہیں کھڑے مرغی کو اس کے ہاتھوں میں دم توڑتا دیکھتا رہتا مگر بھلا ہو کہ اس نے خود ہی مرغی کو کسی بڑے کو دکھانے کا مشورہ دے دیا۔ میں مرغی کو اس حال میں اپنے ہاتھ میں لینےمیں متامل تھا سو اس کو ساتھ لے کر گھر میں آگیا جہاں مرغیوں کا شور سن کر خالہ پہلے سے آنگن میں پہنچ چکی تھیں۔ اپنی مرغی کو اس حال میں دیکھ کر خالہ نے واپس کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں سوئی دھاگہ تھا۔ انہوں نے مجھ سے مرغی کا سر پکڑنے کو کہا اور اس کے کھلے گلے کو اس طرح سینے لگیں جیسے کپڑے میں رفو لگا رہی ہوں۔  بچہ ہونے کے باوجود میں جانتا تھا یہ ایک نہایت احمقانہ حرکت تھی اور اب اس مرغی کو مرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھامگر اول تو مرغیوں کوآنگن میں کھولنے کا آئیڈیا میرا تھا اور اس سوئی دھاگے کے ٹانکوں سے وقتی طور پر ہی سہی مگر خون کا  اخراج رک گیا تھا سو میں خالہ کو ٹوکنے یا سکھانے کی حماقت نہیں کرنا چاہتا تھا۔  مرغی کا گلا سینے کے بعد خالہ سکون میں آگئی تھیں اور مرغیوں کو واپس دڑبے میں ڈال کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔  میری  کچھ جان میں جان آئی تو مجھے اس مسیحا کی موجودگی کا احساس ہوا جس نے مجھے مکمل شرمندگی سے بچالیا تھا۔ تعارف پر معلوم ہوا وہ نانی اماں کے محلے میں نیا آیا ہے اور ایک دیگر سکول میں میری ہی جماعت کا طالب علم ہے۔ اس دن سے شروع ہونے والی ہماری دوستی آج ستائیس سال بعد بھی قائم تھی۔ہم اکثر ملتے تھے۔ ساتھ کھاتے تھے۔ ساتھ ہنستے تھے۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے۔  اور آج بھی میں اس سے مل کر آنے کے بعد ہی بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں۔
آج کی ملاقات لیکن ماضی کی تمام ملاقاتوں سے مختلف تھی۔  آج وہ مجھے دوستی کے مرتبے سے بلند کر کے خدا بنانا چاہتا تھا۔ اپنے غم کوئی خدا کے علاوہ کسی کو کیسے سنا سکتا ہے ؟ اور بالفرضِ محال اگر سنا بھی دے تو اس سے چارہ جوئی کی امید کیسے کر سکتا ہے؟  مگر آج وہ یہ سب بنیادی باتیں بھول کر بیٹھا ہوا تھا اور اس بات پر مُصِر تھا کہ میں نہ صرف اس کی بات سنوں بلکہ اسے دلاسہ بھی دوں۔  اس نے اپنی روح کھول کر میرے سامنے رکھ دی جو کہ جگہ جگہ سے چاک تھی۔  کچھ زخم ایسے تھے کہ جن پر کھرنڈ آچکا تھا مگر زیادہ تر اب تک رِس رہے تھے اور دو ایک سے تو باقاعدہ خون جاری تھا۔  میں نے اسے سمجھایا کہ اس کے ان زخموں کا علاج سوائے خدا کے کسی کے پاس نہیں تو وہ بچپنا لے کر بیٹھ گیا کہ جب خالہ کی مرغی سوئی دھاگے سے سل کر  ناصرف زندہ رہ سکتی ہے بلکہ آگے چل کر انڈے بھی دے سکتی ہے توکیا تم ہمدردی کے سوئی دھاگے سے میرے زخم نہیں سی سکتے؟   میں نے اسے سمجھایا کہ میں خالہ کی طرح کم عقل نہیں ہوں۔ اس طرح سوئی دھاگے سے گلا سینے سے مرغی کو سیپٹک یا کوئی دوسری بیماری بھی ہوسکتی تھی۔  اس کا زخم پک بھی سکتا تھا۔ اس طریقے سے اسے کوئی دوسری بیماری بھی لگ سکتی تھی۔ انسان کو کچھ کام ماہرین کے لئے بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور صرف ہمدردی کے نام پر ہر کٹے ہوئے گلے کو سینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
خدا نے انسان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کبھی اس پر اسکی برداشت سے زائد بوجھ نہ ڈالے گا۔ البتہ اس بارے میں تمام الہامی کتب خاموش ہیں کہ آیا خدا  انسانوں کو بھی ایک دوسرے پر برداشت سے زائد بوجھ ڈالنے سے باز رکھے گا یا نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت کو زمہ داریوں کا بھاری بوجھ تو اٹھا لیتا ہے مگر توقعات کا بوجھ نہیں سہار پاتا۔اور شاید اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان سرے سے اس المیے کو المیہ ماننے کو تیار ہی نہیں  ہیں۔ میں بھی اس وقت ایک ایسے ہی المیے سے دوچار ہوں۔  میں اس کو سمجھا کر تو لوٹ آیا مگر شاید بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ مجھے یقین ہے میرے جانے کے بعد اس نے خود ہی سوئی دھاگہ نکال لیا ہوگا جس کے نتیجے میں اسے سیپٹک ہوا ہوگا اور اس سے تنگ آکر اس نے خودکشی کرلی۔  خود تو چلا گیا مگر مجھ پر یہ بوجھ چھوڑ گیا کہ اگر میں آتے ہوئے اس کے پاس سے بھی سوئی دھاگہ اٹھا لے آتا تو نہ اسے سیپٹک ہوتا نہ وہ جان سے جاتا۔ افسوس!

ہفتہ، 9 مارچ، 2019

پنڈولم

اب تم نیک بختوں کے لئے روز ایک نئی کہانی کہاں سے لاؤں؟
ہمیں نہیں پتہ دادی ماں! سنی ہوئی کہانی نہیں سننی۔ کہے دیتے ہیں!
کہانی تو سب پرانی ہی ہیں۔ سنی ہے یا ان سنی، ہمیں نہیں معلوم۔ ہمارے پاس تو یہی کہانی ہے۔ سننی ہے تو سنو ورنہ راستہ لو!
اچھا، اچھا! خفا نہ ہوں۔ کہانی سنائیں نا۔
تو سنو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جگہ ایک بڑا سا گھڑیال ہوا کرتا تھا۔
گھڑیال کیا ہوتا ہے؟
مگرمچھ کا بھائی؟
نہیں! مگرمچھ کے بھائی والا نہیں، گھڑی والا گھڑیال!
ارے وہ تو ہمارے گھر کے سٹور روم میں بھی پڑا ہے۔ لکڑی کی بڑی سی گھڑی جس کے نیچے پنڈولم لٹکتا ہے۔
وہ دم والی گھڑی؟
ہاہاہا ۔ہاں ہاں وہی دم والی گھڑی
تو اس دم والی گھڑی کا کیا؟
تو جو وہ دم والی گھڑی تھی نا ، اس کی دم مسلسل حرکت کرتی رہتی تھی۔  کبھی دائیں جاتی، کبھی بائیں۔ تمہارے جیسے دو بچے  تھے جو اسے دیکھ کر خوش ہوتے اور پنڈولم کے ساتھ ساتھ گردن گھما کر کبھی اسے دائیں جاتے دیکھتے اور کبھی بائیں۔ گھڑی چلتی رہی اور وقت گزرتا رہا۔ وقت کے ساتھ اب یہ دونوں جو تھوڑے بڑے ہوئے تو بیٹھ کر شرطیں  لگانے لگے کہ گھنٹے کے اختتام پر یہ پنڈولم جسے تم گھڑی کی دم کہتے ہو، دائیں طرف ہوگا یا بائیں طرف۔
تو جیتتا کون تھا؟
کبھی لڑکی جیتتی کبھی لڑکا۔
تو جیتنے والے کو کیا ملتا؟
ملنا کیا تھا؟ یہ خوشی ہی اصل جیت ہوتی تھی کہ گھنٹہ مکمل ہونے پر وقت اس کے ساتھ تھا۔
اچھا! پھر کیا ہوا؟ کہانی کیا تھی؟
کہانی کیا ہونی تھی۔ کہانی وہی ہے جو ازل سے ہے۔ لڑکی  اور لڑکے کی شادی ہوگئی۔
یہ کہانی لڑکی لڑکے کی ہے یا گھڑی کی دم کی؟
یہ کہانی کسی کی بھی نہیں ہے۔ یہ بس کہانی ہے۔  سنتے ہو تو سنو۔ نہیں سننی تو رات پہلے ہی بہت ہوچکی۔ کمبل منہ پر لو اور سو رہو۔
اچھا اچھا سوری! آپ سنائیں۔
تو بھئی لڑکا اور لڑکی خیر سے میاں بیوی بن گئے اور کچھ دنوں بعد خدا نے ان دونوں کو ایک پیارا سا بچہ بھی دے دیا۔   اب لڑکی جو تھی وہ بچے کی پیدائش کی وجہ سے ویسے ہی کمزور ہوگئی تھی۔ دوسرا  کیونکہ لڑکا بچے کی ذمہ داریوں میں بالکل ہاتھ نہیں بٹاتا تھا اور وہ بچے کو نظرانداز کر نہیں سکتی تھی، سو بچے کی ساری ذمہ داری بھی اس کے سر آرہی۔ بچے کی ذمہ داری اتنی تھکا دینے والی تھی کہ کسی اور چیز کے لئے  وقت ہی نہیں بچتا۔ خیر وقت گزرا اور بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو لڑکی دوبارہ گھڑیال کے پاس پہنچی۔
تو وہ گھڑیال اس وقت بھی چل رہا تھا؟ ہمارا گھڑیال تو بند پڑا ہے۔
بیٹی! یہ والا گھڑیال قیامت تک چلتا رہے گا۔
کیسے؟
بال کی کھال نہ اتارو! کہانی سنو! تو جانتی ہو جب وہ گھڑیال کے پاس پہنچی تو اس نے کیا دیکھا؟
کیا دیکھا؟
اتنے عرصے اس کے گھڑیال پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے لڑکے نے موقع دیکھ کر پینڈولم کو اپنے والے حصے میں رسی سے باندھ کر روک لیا تھا۔ اب وہ دائیں سے بائیں حرکت نہیں کرتا تھا۔ محض دائیں جانب رکا رہتا تھا۔
دادو! لڑکا تو میری طرح ذہین تھا۔
ہاں بیٹا! تم سارے لڑکے ایک جیسے ذہین ہوتے ہو۔
دادو! پھر اس لڑکی نے کیا کیا؟
میری بیٹی! اس نے رسی کو چھری سے کاٹ دیا۔
پھر وہ دوبارہ مرکز میں آکر رک گئی؟
نہیں میری جان! گھڑی کی دم کا یہی تو مسئلہ ہے۔ جب تم اسے کسی بھی ایک انتہا پر باندھ کر رکھو گے تو جب بھی بند کھلے گا وہ دم جانے انجانے میں دوسری انتہا کی جانب ہی جائے گی۔اب اگر تم چاہتے ہو کہ وہ مرکز میں آکر رک جائے تو اسے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جانے دو کیونکہ یہی فطرت کا قانون ہے۔ اس کے بغیر یہ دم کبھی مرکز میں آ کر نہیں رک سکتی۔
دادو! آپ پتہ نہیں کیسی عجیب باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یہ بتائیں کہ پھر اس لڑکے نے کیا کیا؟
لڑکے نے کیا کرنا تھا؟  اس نے گھڑی کی دم کی دوسری انتہا پر تصویریں کھینچیں اور اب دنیا بھر میں چلاتا پھر تا ہے کہ دیکھو لڑکی کتنی انتہا پسند ہے۔
کیا مطلب؟
مطلب وطلب کچھ نہیں۔ کمبل منہ پر ڈالو اور سو رہو۔ گھڑی کی دم کا کھیل ایک دن کا تھا۔ اب سب کے سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ سو جاؤ۔ شب بخیر!

جمعہ، 25 جنوری، 2019

دوسری دفعہ کا ذکر ہے ۔۔۔


دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔۔
مگر نانا ابا! کہانی میں تو ایک دفعہ کا ذکر ہوتا ہے؟ 
بیٹا! ایک دفعہ کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے اور چونکہ  اس پرانی کہانی میں ایک نیا موڑ ہے لہٰذا یہ دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ اب چپ کر کے کہانی سنو! سو دوسری دفعہ کا ذکر ہےکہ کسی جنگل میں پانچ بکریاں رہتی تھیں جن سب کا ایک ایک بچہ تھا۔
مگر کہانی میں تو ایک بکری کے پانچ بچے ہوا کرتے تھے؟
میری جان! وہ ایک دفعہ کی بات تھی۔ یہ دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ اس زمانے میں خاندانی منصوبہ مندی کا تصور اتنا عام نہیں ہوا تھا تو پانچ بچے پیدا کرنے کے لئے ایک بکری کافی ہوتی تھی۔ اب نیا زمانہ ہے۔ اب پانچ بچوں کے لئے پانچ بکریاں چاہئے ہوتی ہیں۔ سو   بال کی کھال نہ اتارو اور کہانی سنو۔ تو ان پانچ بکریوں اور ان کے بچوں کے علاوہ جنگل میں دوسرے جانور بھی رہا کرتے تھے۔ شیر، چیتے ، ہاتھی، بھالو، لومڑی، بھیڑیے، خرگوش، گلہری وغیرہ سب۔ بہت بھرا پرا جنگل ہوا کرتا تھا۔ بالکل ہمارے شہر جیسا۔ تو وہاں ان بھیڑیوں کے بیچ میں ایک ایسا بھیڑیا بھی تھا جو گرگِ باراں دیدہ تھا۔  تمہیں پتہ ہے گرگِ باراں دیدہ کیا ہوتا ہے؟
مجھے پتہ ہے! مجھے پتہ ہے! آپ نے بتایا تھا گرگ بھیڑیئے کو کہتے ہیں جبکہ باراں بارش کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اورگرگ باراں دیدہ کا مطلب ہوتا ہے وہ بھیڑیا جس نے بارش دیکھ لی ہو۔
شاباش! ایران میں یہ حکایت ہے کہ جب بارش بہت تیز اور مسلسل ہوتی ہے تو چھوٹے جانور اور پرندے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے اس طرح دبک کر بیٹھنے کی وجہ سے جنگل کے درندوں کیلئے شکار ختم ہوجاتا ہے۔ ہر گوشت خور اس عارضی قحط کا علاج اپنے طور پر کرتا ہے مگر بھیڑیوں کے پاس اس چیز کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ جب وہ شکار کی تلاش سے تھک جاتے ہیں تو سارے بھوکے بھیڑیے ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ حلقہ تعداد میں کبھی معیًن نہیں ہوتا۔ یہ دس، بیس، سو یا جتنے بھی بھیڑیے ہیں، ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ بھوک اور کچھ مسلسل چوکس بیٹھنے کی تھکن سے کچھ ہی گھنٹوں میں کسی ایک بھیڑیے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اس کے آنکھیں موندتے ہی باقی تمام بھیڑیے اس پر پل پڑتے ہیں اور اس کو نوچ نوچ کر کھالیتے ہیں۔ کہنے کو بھوک مٹنے کے بعد اس حلقے کی ضرورت ختم ہوجانی چاہیئے مگر یہ قدرت کا قانون ہے کہ ظالم اکثر اپنے ہی اس ظلم کا نشانہ بنتا ہے جو اس نے کسی وقت کسی اور کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پہلے بھیڑیے کو کھانے کے بعد باقی تمام بھیڑیے دوبارہ اس ہی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گرگ باراں دیدہ کا پورا حلقہ نہ ختم ہوجائے اور آخر میں صرف ایک بھیڑیا نہ بچ جائے۔ اس آخری بچ جانے والے بھیڑیے کو گرگ باراں دیدہ کہتے ہیں۔ تو ان بھیڑیوں میں سے ایک گرگِ باراں دیدہ بھی تھا جسے اپنے گرگِ باراں دیدہ ہونے پر بے حد ناز بھی تھا اور اس ہی گھمنڈ  میں وہ خرگوش وغیرہ کا شکار کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔  مگر پیٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ غرور سے نہیں بھرتا۔ اسے بھرنے کے لئے جتن بھی کرنے پڑتے ہیں اور اکثر جھکنا بھی پڑتا ہے۔ سو شیر کی طرح وہ بھینسے کا شکار  کرنے کی کوشش میں شرمندہ ہونے کے بعد پیٹ کا جہنم بھرنے اور اپنی مجروح انا کی تسلی کے لئے اس کی نظر اب کسی کمزور شکار پر تھی۔ بڑے جانوروں کے شکار میں سب سے آسان شکار بکری تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ  اسے ان کے سینگوں سے خوف آتا تھا۔ وہ براہِ راست ان کا شکار کرنے سے خائف تھا۔
تو پھر اس نے کیا کیا؟
اس نے وہی کیا جو پہلی دفعہ میں کیا تھا۔ بکریوں سے الگ الگ جا کر میٹھی میٹھی باتیں کیں۔  جب ملنے جاتا ان کے بچوں کے لئے خاص طور پر چارہ ساتھ لے کر جاتا۔  ان کو یقین دلاتا کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اگر کوئی پریشانی ہوئی تو انہیں بھیڑیے بھائی کا تحفظ حاصل رہے گا۔ وہ بیچاری بکریاں یہ سمجھتیں کہ بھیڑیے بھائی ہمارے بچوں کی محبت میں چارہ لے کر آتے ہیں مگر جب وہی چارہ کھا کھا کر ان کے بچے خوب فربہ ہوگئے تو بھیڑیے بھائی ایک ایک کر کے انہیں ہڑپ کرگئے!
مگر  اس کے بعد تو بکریوں نے ان کا پیٹ پھاڑ کر اس میں سے اپنے بچوں کو نکال لیا تھا نا؟
نہیں بیٹا! ایسا صرف کہانیوں میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں تو یہ ہوا تھا کہ پہلی دو بکریاں جب اپنے بچے کی موت کا رونا رونے بھیڑیے بھائی کے پاس پہنچیں تو بھیڑیے بھائی ان دونوں کو بھی کھا گئے۔ تیسری غریب کو حقیقتِ حال پتہ چلی تو وہ اتنی بد دل ہوئی کہ جنگل ہی چھوڑ گئی کہ یہ جنگل اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔
اور باقی دو کا کیا ہوا؟ ان دونوں کو بھی بھیڑیے نے کھا لیا؟
نہیں! یہی تو کہانی کا نیا موڑ ہے۔دو بکریوں اور تین بچوں کے کھانے کے بعد بھیڑیے بھائی کے مزاج آسمانوں پر تھے سو انہوں نے ان کے بچے کو کھانے کے بجائے اغوا کر کے اپنے گھر رکھ لیا اور جنگل میں اعلان کر دیا کہ آج سے یہ بھیڑیے کے بچے کہلائیں گے۔ جنگل والوں نے سمجھایا کہ بھائی ان کا تو نام ہی بکری کے بچے ہے ، یہ تمہارے بچے کیسے ہوسکتے ہیں؟ تو بھیڑیے بھائی نے جواب دیا کہ  جنگل میں بکریوں کا ان سے بڑا خیر خواہ کوئی نہیں ہے اور وہ ان بچوں  کی دیکھ بھال کے لئے کوئی بکری ہی رکھیں گے سو یہ بکری کے بچے کہلانے کے باوجود رہیں گے اب بھیڑیے کے بچے بھی۔ اور اگر کسی کو زیادہ مسئلہ ہے تو وہ ان بکریوں کو بول دے کہ مجھ سے آکر خود بات کر لیں!
یہ تو اتنی مزاحیہ بات ہے
ہے نا!
تو پھر ان بکریوں نے کیا کیا؟
 جیسے ہی ان دونوں کو احساس ہوا کہ بھیڑیا ان کے لاڈلے بچے کو کھانے کے ارادے میں ہے ان دونوں نے مل کر ایکا کر لیا۔ وہ دونوں پہلی کہانی کے مطابق لوہار کے پاس اپنے سینگ تیز کروانے تو ضرور گئیں مگر اپنے سینگوں پر دھار لگوانے کے بعد انہوں نے بھیڑیے بھائی پر حملہ نہیں کیا بلکہ الٹا اس کے بھِٹ کے سامنے ہی اپنا گھر بنا لیا تاکہ صبح شام گھر میں آتے جاتے بھیڑیے کی نظر ان پر اور ان کے دھار لگے ہوئے سینگوں پر پڑتی رہے۔
اس سے کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا؟ بیچارہ گرگِ باراں دیدہ جو اپنے آپ کو مکاری کا باپ سمجھتا تھا اب اٹھتے بیٹھتے ان کو دیکھ دیکھ کر کانپتا ہے کہ کب یہ اپنے سینگوں سے مجھ پر حملہ آور ہوں گی۔
تو وہ کب حملہ آور ہوں گی؟
شاید کبھی نہیں! دونوں بکریاں سیکھ چکی ہیں کہ موت سے زیادہ موت کا خوف برا ہوتا ہے۔ اس کی مکمل موت انہیں شاید ایک وقتی خوشی ضرور دے جائے گی  مگر یہ جو قطرہ قطرہ موت کا خوف اس بھیڑیے کی نیندیں اڑاتا ہے، اس خوشی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
تو ان کے بچوں کا کیا ہوا؟
ارے وہ تو میں بتانا ہی بھول گیا۔ جیسے ہی ان بکریوں کو پتہ چلا کہ بھیڑیے بھائی ان کے بچوں کو کھانے کے درپے ہیں، انہوں نے اپنے بچوں کو چھپا کر وہاں روئی کے پتلے رکھ دیے ۔ بکری کے بچے سمجھ کر بھیڑیے بھائی جنہیں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے تھے اور جنہیں وہ سجا بنا کر رکھتے ہیں وہ محض روئی کے پتلے ہیں۔ اصل بچے اب بھی بکری کے پاس ہیں اور اب اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ خود ان کے بھی سینگ نکل آئے ہیں۔ دھار والے سینگ! اگر تم کبھی جنگل میں جاؤ تو ان بکریوں سے بچ کر رہنا۔ وہ اب کمزور نہیں ہیں۔  اب جلدی سے سو جاؤ ۔ کہانی ختم۔ پیسہ ہضم!

اتوار، 13 جنوری، 2019

ولن


نانا ابا ٹھیک ہی کہتے تھے کہ کہانی کبھی نہیں بدلتی، فقط کردار بدلتے ہیں! اور کردار  کی تبدیلی بھی کیا؟ فقط ان کے نام!
آج جب برسوں بعد وطن واپس لوٹا ہوں تو یہاں نانا ابا کے کمرے میں موجود ہر ہر چیز وہیں موجود ہے جہاں کبھی ہوا کرتی تھی۔ البتہ مسلسل جھاڑ پونچھ اور صفائی کے باوجود وقت چیزوں پر اپنے اثرات چھوڑ گیا ہے اور تمام اشیاء سالخوردہ معلوم ہوتی ہیں۔ شاید کراچی کی ہوا ہی ایسی ہے۔ یہ انسانوں اور رشتوں کو نہیں بخشتی تو چیزیں اگر کھوکھلی ہوجائیں تو تعجب کیسا؟میں بالعموم فلسفہ نہیں بکتا مگر اب نانا ابا کی لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں تو  کچھ تو اثر آنا بنتا ہے نا۔  
میں نے عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اس ہی میز کی دوسری طرف گزارا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا نانا ابا کو بیشتر میز کے اس جانب بیٹھے لکھتا پایا تھا جہاں اس وقت میں براجمان تھا۔ نانا ابا اپنے وقت کے بہترین لکھاری تھے۔ ان کے فن کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ان کی زندگی تو کجا ، ان کے گزرنے کے پندرہ سال بعد بھی وہ مشہور نہیں ہوسکے تھے۔ اس ہی میز پر بیٹھ کر نانا ابا نے وہ تمام شاہکار تراشے تھے جن کا آخری ٹھکانہ چولہا یا کوڑے دان ہوا کرتا تھا۔ انسانی نفسیات نانا ابا کا پسندیدہ موضوع ہوا کرتا تھا۔ وہ اس کی نئی نئی پرتیں دریافت کرکے اپنی کہانیوں کے ذریعے انہیں کھولنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اگر عقدہ حل ہوجاتا تو اسے جلا دیتے اور اگر ناکام رہتے تو کسی بھی اخبار یا جریدے کو بھیج کر فرضی نام سے چھپوا دیا کرتے اور خوب خوب داد سمیٹتے۔چہیتا ہونے کی سزا کے طور پر وہ کہانیاں جلنے سے پہلے میرے  حصے میں آتیں اور بسا اوقات میں انہیں محض یہ سوچ کر برداشت کرلیتا تھا کہ انشاءاللہ اس کے بعد یہ کہانی اس ہی طرح جل کر راکھ ہوگی جیسے اس وقت میں اندر ہی اندر بھسم ہورہا ہوں۔
اس ہی میز کے دوسرے طرف بیٹھ کر میں نے نانا ابا سے وہ آخری کہانی بھی سنی تھی کہ جس کے بعد نانا ابا نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کس طرح اس دن ہم دونوں دیر تک بحث کرتے رہے تھے۔  نانا ابا کا کہنا تھا کہ کہانی ہمیشہ ہیرو کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی رہی ہے۔ کبھی کسی نے ولن کا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اور اگر کی بھی تو اس بھونڈے پن سے کہ کہانی کے آخر میں وہ ولن ہی ہیرو بن گیا۔ گویا وہ کہانی بھی ایک ہیرو کی ہی ہوئی کہ جسے زمانہ ولن سمجھتا رہا تھا۔ میرا ماننا  تھا کہ کہانیاں ہوتی ہی اصلاح کے لئے ہیں۔ ایسی کہانی کا فائدہ جس میں کوئی پیغام ہی نہ ہو  یا اس سے بھی بدتر کہ برا پیغام جائے؟  وہ کہانی تو نہ ہوئی، نری زبان کے چٹخارے کی مشق ہوئی ! نانا ابا کی جوابی دلیل یہ تھی کہ جسے اصلاح چاہئے وہ سر سید احمد خان کو پڑھے یا غامدی کو سنے ۔ جس کو ہو جان و دل عزیز میری گلی میں آئے کیوں؟  میں اس بات پر مُصِر تھا کہ لفاظی برطرف، کہانی کے اندر بہرحال مقصدیت ہونی چاہئے ورنہ کہانی لکھنے کا احسان نہیں کرنا چاہئے۔ گفتگو میں آوازیں اونچی نہیں ہوئیں تھیں مگر لفظ ادائیگی میں جس طرح چبائے جا رہے تھے وہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ  ہم دونوں  ہی سمجھتے تھے کہ ہم غلط ہیں مگر ہماری انا اس بات کے ثابت ہوجانے سے خائف تھی۔
نانا ابا کی اس آخری کہانی کے مطابق کسی گاؤں میں ایک نہایت کمینہ اور کم ظرف آدمی رہا کرتا تھا جو تمام انسانیت کے کام آتا تھا۔ دنیا اس کے ساتھ ہر طرح کے ناروا سلوک کرتی تھی۔  اس کی نیک نیتی پر سوال اٹھاتی تھی۔  اس کے فلاحی کاموں سے بھرپور فائدہ اٹھاتی اورساتھ اس ہی کے منہ  پر یہ بھی کہتی جاتی تھی کہ وہ یہ سب اپنی نیک نامی کے لئے کرتا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے تھے کہ وہ دنیا کے طعنے اس لئے مسکرا کر برداشت کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی انا کا مریض ہے اور خود کو یہ سوچ کر تسلیاں دیتا ہے کہ دیکھو! ان کے اس حد کے نیچ رویے کے باوجود نہ میں نیکی کرنا چھوڑوں گا نہ ان طعنوں کا جواب دوں گا۔  یہ سلسلہ اس ہی طرح جاری رہا اور نہ لوگ اپنے طعنوں سے باز آئے اور نہ وہ اپنی نیکی سے۔  چونکہ ہر انسان کے اندر بہرحال ایک ولن چھپا ہی  ہوتا ہے سو اس کے اندر کا ولن بھی جاگ گیا اور چونکہ وہ ایک نہایت کمینہ اور کم ظرف آدمی تھا اس لئے اس سے پہلے کہ وہ ولن کام دکھاتا، اس نے خودکشی کر کے اپنا قصہ تمام کیا اور رہتی دنیا کے لئے احساسِ کمتری چھوڑ گیا کہ ایک انسان ایسا بھی تھا جو ساری عمر ہیرو رہا اور کبھی ولن نہیں بن پایا۔ آنے والے برسوں میں نجانے کتنے ہیرو امیدوں کے اس بوجھ سے ولن بن گئے کہ آیا ہم اس جیسے بن بھی پائیں گے یا نہیں۔
نانا ابا ٹھیک ہی کہتے تھے کہ کہانی کبھی نہیں بدلتی، فقط کردار بدلتے ہیں! اور کردار  کی تبدیلی بھی کیا؟ فقط ان کے نام! آج جب برسوں بعد وطن واپس لوٹا ہوں تو یہاں نانا ابا کے کمرے میں موجود ہر ہر چیز وہیں موجود ہے جہاں کبھی ہوا کرتی تھی۔ البتہ مسلسل جھاڑ پونچھ اور صفائی کے باوجود وقت چیزوں پر اپنے اثرات چھوڑ گیا ہے اور تمام اشیاء سالخوردہ معلوم ہوتی ہیں۔ شاید کراچی کی ہوا ہی ایسی ہے۔ یہ انسانوں اور رشتوں کو نہیں بخشتی تو چیزیں اگر کھوکھلی ہوجائیں تو تعجب کیسا؟ شاید اس ہی  کھوکھلے پن سے تنگ آ کر نانا ابا نے خودکشی کر لی تھی۔ میں بالعموم فلسفہ نہیں بکتا مگر اب نانا ابا کی لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں تو  کچھ تو اثر آنا بنتا ہے نا۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت