پیر، 26 ستمبر، 2022

عفریت

ہم انسان ایک روح ہیں کہ جسے ایک جسم دیا گیا ہے یا پھر ہم ایک جسم ہیں کہ جسے ایک روح ودیعت کی گئی ہے؟  اس کہانی کے برے یا بھلے اور جھوٹے یا سچے  ہونے کا کل  دارو مدار آپ کے نقطہ نظر پر  ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک جسم ہیں جسے ایک روح عطا کی گئی ہے تو عیش کیجئے ۔ کہانیاں روح کی تالیف اور تربیت کے لئے ہوتی ہیں  اور جب آپ نے روح کو ثانوی تسلیم کر ہی لیا ہے تو اس کی ضروریات بھی آپ کے لئے ثانوی ٹھہریں گی اور ایک ثانوی چیز کی تسکین کے لئے کہانی سننے اور پڑھنے ایسا وقت کا زیاں   چہ معنی ؟ البتہ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ انسان ایک روح ہے اور اسے ایک عارضی جسم عطا کیا گیا  ہے تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا  ہو گا  کہ روح  کے بنیادی اور جسم کے ثانوی ہونے کے ناتے ، روح کی ضروریات ہی آپ کی بنیادی ضروریات ہیں اور اس کہانی کا سننا آپ کے لئے لازم ہے کہ یہ کہانی میرے اور آپ جیسے ہی ایک انسان  کی ہے جو اپنی روح کی بقا کی خواہش میں وقت نامی سمندر میں بہتا ہوا ایک  نامعلوم جزیرے پر آ رکا تھا۔

خواہشات کے تعاقب میں چلنے کی سب سے بڑی قباحت راستے میں آنے والا وہ دوراہا ہے کہ جہاں انسان کو خواہشات یا اخلاقیات میں سے کسی ایک کی بقا کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ جزیرے پر پہنچتے ہی اس کی نظر ایک عفریت پر پڑی تھی جو اس کو دیکھتے ہی اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے اس تک لے آئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ عفریت اپنے ہاتھ میں تھامے نوکیلے پتھر سے کام لیتی ہوئی اس پر حملہ آور ہوتی، اس نے لپک کر اس کے ہاتھ سے پتھر چھین کر اس ہی پتھر کو اس پر برسانا شروع کردیا  یہاں تک کہ وہ عفریت ریزہ ریزہ ہوکر بکھر نہ گئی۔ اس ناخوشگوار مگر ناگزیر عمل سے فراغت کے بعد اس نے سمندر سے ہاتھ دھوئے اور جزیرے کو ہمیشگی کے لئے اپنا مسکن بنا لیا۔  

تبدیلی  اپنے ادراک کے مکمل ہونے سے پہلے تک ہمیشہ خوبصورت ہوا کرتی ہے۔  گو کہ  عفریت کے جانے کے بعد اس جزیرہ پر کسی بھی قسم کی حیوانی و نباتاتی حیات کا گزر نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اس کے لئے زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ خود اس کا دریافت شدہ۔ زندگی کے ہر احساس سے عاری، مگر مکمل اس کا۔  وہ دن بھر  اس جنت کے مختلف گوشوں کی سیر کرتا اور شام ڈھلتے ہی اس امید پر ساحل پر آ بیٹھتا کہ مبادا    کوئی بھولا بسرا مسافر کبھی اس جزیرہ پر آ نکلے   تو جزیرہ کو غیر آباد جان کر واپس نہ پلٹ جائے ۔  انجان چیزوں کو لے کر انسانی فطرت کا تجسس اپنی جگہ مگر وہ یہ جانتا تھا کہ  ویران جگہوں کا خوف انسان ایسے معاشرتی حیوانوں کی سرشت میں ازل سے موجود ہے۔

وقت کا احساس فکر کے ساتھ منسلک ہے اور جنت میں چونکہ تفکرات نہیں ہوتے لہذا وہ بھی اب سمے کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔ سورج کے ڈھلنے اور اگنے سے دن کی تبدیلی کا احساس اپنی جگہ موجود تھا مگر جسے آپ وقت کہتے  اور سمجھتے ہیں، وہ اس کے حساب اور فکر سے مکمل آزاد تھا۔ خدا جانے اس جنت میں اس پر کتنے زمانے بیت چکے تھے جب پہلی مرتبہ اسے اپنی زندگی سے محروم جنت کا مکمل ادراک اور پہلی مرتبہ بھوک کا احساس ہوا تھا۔  جنت میں غذا کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ اس دن پورا وقت ساحل پر شکار کی تلاش میں گھومتا  اور کسی نہ آنے والے مسیحا کوچیخ چیخ کر پکارتا رہا  مگر وہ ساحل بھی اس  جزیرے سے اپنے تعلق کے طفیل زندگی کے لئے مکمل بانجھ ہو چکا  تھا۔ اور پھر اس جیسے کتنے ہی دن رات وہ  اس ساحل اور جزیرے پر ایک غیر حاضر غذا کی تلاش میں دیوانہ وار گھومتا رہا  اور مدد کے لئے پکارتا رہا ، یہاں تک کہ نڈھال ہو کر  گر نہ پڑا۔

انسانی خواہشات میں سب سے گراں  اور عظیم تر خواہش بقا کی ہوتی ہے۔ جب وہ جزیرے پر غذا کی موجودگی اور باہر سے آنے والی کسی بھی امداد  سے مکمل مایوس ہوگیا تو اس نے زمین پر پڑے پڑے ہی اپنے قریب سے ایک نوکیلا پتھر اٹھایا اور اپنے وجود کی تمام تر توانائی بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پنڈلی میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اٹھنے والی ٹیسوں اور بہنے والے خون سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی بوٹی کو چبانے میں مصروف ہوگیا۔ گوشت پیٹ میں اترنے سے کچھ حواس بحال ہوئے تو اس  نے گیلی مٹی کا لیپ لگا کر زخم کو مندمل کیا اور بہت مدت کے بعد سکون کی نیند سوگیا۔

خدا جانے وہ کتنا عرصہ سوتا رہا اور نجانے کتنی ہی مدت مزید سوتا رہتا مگر واپس آجانے والی بھوک  نے اسے گڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔  زخمی ٹانگ کے ساتھ وہ دوبارہ (انسانوں سے چوٹ کھا کر بھی ایک مختلف نتیجے کی امید لے دوبارہ  ان ہی انسانوں کے پاس واپس جانے والے  کسی انسان کی طرح )کسی معجزے کی امید کے ساتھ دوبارہ   جزیرے کے سفر پر روانہ ہو گیا کہ شاید  اس کے آنکھیں بند کر لینے سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ چکی ہو مگر انسانوں کے دلوں ہی کی طرح بنجر پتھروں کے اس جزیرے میں بھی اس کے لئے  ماسوائے  تھکن کچھ بھی نہ تھا۔

دوسری مرتبہ جب وہ گرا تو وہ ساحل پر موجود تھا۔  اس بار اس نے  کیفیت نیم مرگ کا انتظار نہ کیا اور کمزوری کے عالم میں ہی لیپ کے لئے گیلی مٹی کی  ڈھیری جمع کر کے دوسری پنڈلی کے لئے جیب میں موجود اس قیمتی نوکیلے پتھر کو نکال لیا۔

پنڈلی کے بعد ران اور ران کے بعد ایک ہاتھ کا بازو اور بازو کے بعد کان (کہ  اسے لگتا تھا کہ اتنے برسوں کے خاموش اور تھکا دینے والے تجربات  کے بعد اسے کان نہیں محض زبان کی ضرورت تھی) اور کان کے بعد اس  کا زندگی کی حسرتوں سے بھرا  دل! جی ہاں۔ اس کا دل!  وہ ایک ایک کر کے سب کاٹ کر کھا گیا۔ اور اس سے پہلے کہ آپ میری کہانی منقطع کر کے اپنا سوال داغیں، لطف کی بات یہ کہ وہ نا صرف اس دل کو  کھا چکنے کے بعد بھی زندہ رہا  بلکہ محاورے کی زبان میں کہا جائے تو سراپا دل بن گیا۔

جانتا ہوں کہ اب تک آپ اس کہانی کو ہذیان سمجھ کر آگے بڑھ جانا چاہتے  ہوں گے مگر یہاں تک پہنچ  ہی گئے ہیں تو یہ بھی سنیں کہ جب وہ یہ تمام اعضا کاٹ پیٹ کر کھا چکا اور ایک ادھڑی ہوئی زندہ لاش بن چکا ،تو ایک دن ساحل پر ایک اور انسان نمودار ہو گیا۔ آنے والے کے رنگ، نسل، عمر اور جنس سے قطع نظر، ایک انسان!

 اس انسان نے  سفر مکمل کر کے اپنے حواس جب بحال کئے اور اپنے پیروں میں لوٹتی اس کٹی پھٹی زندہ لاش کو دیکھا تو گھن اور خوف کی آمیزش بھری ایک چیخ ماری اور اس زندہ لاش کے ہاتھ  سے وہ نوکیلا پتھر چھین کر اس وقت تک برساتا رہا/رہی  جب تک اس کے جسم کی باقیات بھی ریزہ ریزہ نہ ہوگئیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ریزوں میں بٹنے کے باوجود بھی  موت اس پر مہربان نہ ہوئی اور اس انسان  کو ان ہی ریزوں میں اپنی رہی سہی عمر مکمل  کرنی پڑی۔ مگر کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پوری کہانی استعاروں کی ہے اور وہ جنت  دراصل انسانی جسم تھا اور  یہ کہانی اس میں مقید روح کی ہے کہ جو اپنی بھوک میں خود اپنے دل ، اپنے  آپ تک  کو چبا گئی۔  سنی سنائی باتوں کا کیا بھروسا؟

دیو

 کسی بھی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ظلم ہے۔ پھر وہ مقام سے بڑھانا ہو یا اس کی اصل جگہ سے گھٹا دینا ،دونوں صورتوں میں   ظلم کی اصل تعریف میرے نزدیک یہی ہے۔ مظلوم کی تعریف البتہ  ہنوز بحث طلب  ہے کہ ایک کا ظالم ہی اکثر دوسرے کا مظلوم نکلتا ہے اور یہاں بحث چھ اور نو والی مثال سے آگے بڑھ جاتی ہے کہ لازمی نہیں ہر بار فرق محض نقطہ نظر کا ہو اور ایک کا چھ ہی دراصل دوسرے کا نو ہو۔ کبھی  کبھار وہ واقعی چھ یا نو میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے اور دو میں سے ایک فریق  غلط نکتہ نگاہ سے دیکھ کر زبردستی اسے الٹ ثابت کرنے کی کوشش میں جٹا رہتا ہے۔ اس کہانی میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ یہ فیصلہ ہم اپنے پڑھنے والوں کے ذہن رسا پر چھوڑ رکھتے ہیں۔

 بے حس انسانوں کے معاشرے میں احساس نامی بیماری کا پیدائشی روگ پال رکھنے کے علاوہ وہ ایک معمولی بچہ تھا۔ مگر احساس نامی اس بیماری کی وجہ سے معاشرے نے اسے اس کے بچپن  سے ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔  اپنے ہم عمر بچوں کے بیچ  اس کا گزارہ یوں ناممکن تھا کہ ان کی بچکانہ حرکات سے اسے وحشت ہوتی تھی  اور اپنے  سے بڑی عمر کے لوگ یہ کہہ کر اسے پاس بٹھانے  سے انکار کر دیتے کہ ابھی اس کی عمر  ان کے درمیان بیٹھنے  کی نہیں تھی۔ داڑھی مونچھ ابھی اگی نہیں تھی کہ اسے رنگ کر بزرگی کا چولا پہنا جا سکتا سو مجبوری میں  بچوں کے بیچ میں بچہ بن کر رہنے کی کوشش  کرنے کے علاوہ غریب کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ لیجئے صاحب! ابھی ہم آپ کو نصیحت کرتے تھے کہ مظلوم ہونا  بالعموم نقطہ نگاہ کا کھیل ہے  اور ابھی ہم نے اس کے کردار کے ساتھ غریب کا لفظ جوڑ کر آپ کے تحت الشعور میں اس کی مظلومیت کا بیج بو بیٹھے ہیں۔ خیر! چونکہ ہم اس کردار کے خالق ہیں لہٰذا ہر خالق کی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہونا چاہئے  اپنے  کرداروں کے بارے میں جیسے چاہے لوگوں کی رائے قائم کرائیں اور بحیثیت مخلوق ہر تخلیق پر یہ لازم ہے کہ وہ راضی خوشی یا رو پیت کر مگر بہر حال اس کردار کو نبھاتی چلی جائے۔ اور اگر آپ اس بات پر غصہ ہیں کہ محض ایک کردار کی تخلیق کے لئے اتنے لمبے فلسفے کیوں بگھارے جا رہے ہیں تو یہ بھی ہم نے ایک خالق سے ہی سیکھا ہے کہ جس نے ایک کردار کو ناٹک میں دیکھنے کے لئے ارب ہا دیگر مخلوقات تراش دیں اور آج تک کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اختیارات کے اس بے جا استعمال پر انگلی اٹھا سکے۔ ہم ایک تیسرے درجے کے معمولی تخلیق کار ہیں تو ہمارا گلا پکڑا جاتا ہے؟حد ہے مظلومیت کی! مگر مظلومیت تو پھر نکتہ نگاہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

تو اپنے ہم سن بچوں کے بیچ جب یہ کمسن بوڑھا پہنچا تو ایک عجیب ماجرہ ہوا۔ اپنے حالات سے مطابقت  اختیار کرنے میں انسان سے بہتر آج تک کوئی مخلوق روئے زمین پر نہیں اتری ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں سینکڑوں فٹ کے ڈائناسورز نہ بچے وہاں یہ پانچ سے چھ فٹ کی عمومی جسامت والا جانور آج بھی دھرتی کو روندتا پھرتا ہے۔ تو  اس کے ہم عمر بچوں نے اس کے ساتھ مطابقت یہ اختیار کی کہ جیسے ہی یہ ان کے درمیان پہنچتا، وہ سارے اپنے وجود کا پورا زور لگا کر اپنی قامت کو چھوٹا کرلیتے اور یہ ان کے بیچ، ان ہی کی قامت کا ہوتے ہوئے  بھی دیو جیسا معلوم ہونے لگتا۔   اور منفرد چیزوں کا اشتیاق عین انسانی فطرت ہونے کے ناطے، کمرے میں موجود اختیاری بونوں کا موضوع سخن وہ خود ساختہ دیو بن جاتا جو اس سب معمول سے خائف تو بہت تھا مگر اوپر بیان کردہ مجبوری کے تحت ان ہی کے درمیان رہنے پر مجبور بھی تھا۔  اپنی جبلت سے مجبور ہوکر وہ رفیقوں کی تلاش میں ان بچوں کے بیچ آ بھی نکلتا تو بھی  اس کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح کوئی کونا ڈھونڈ کر وہاں چھپ رہے کہ اس کی دیگر مخلوقات سے تعلق کی ہوس بھی پوری ہوسکے اور اس کی قامت میں ہونے والے پریشان کن اضافے کے اسباب بھی نہ بہم ہوں۔ مگر انسانوں اور بالخصوص اختیاری بونوں کے بیچ میں ایک دیو کیونکر چھپ سکتا ہے؟  اس کے آنے کے تھوڑی ہی دیر میں ایک نعرہ بلند ہوتا اور سب  بونے مل کر اس کے گرد جمع ہوجاتے اور معمول کی کاروائی کا آغاز ہوجاتا کہ جس کے اختتام پر ہر بار کی طرح اس کی انا کے غبارے میں بے فیض ہوا بھر کر اس کا قد دو ہاتھ مزید اونچا کر دیا جاتا۔

دیو اب اس روزانہ کی مشقت سے تنگ آچکا تھا مگر تعلق کی ہوس اس قدر شدید تھی کہ وہ چاہ کر بھی اس اذیت سے دستبردار نہیں ہوسکتا تھا۔  کافی غور و خوض کے بعد اس دیو نے اپنے تئیں ایک عقلمندانہ فیصلہ کیا اور ان بونوں میں سے چند قابل برداشت بونوں کا انتخاب کیا اور انہیں اپنی مٹھی میں بھر کر وہاں سے اٹھا لایا کہ اب وہ کسی پرسکون جگہ پر ان کے ساتھ رہ  کر اپنے قد کو واپس انسانی سطح پر لانا اور  ساتھ ان بونوں کی دوبارہ نمود کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ ایک ایسا دن بھی دیکھ سکے کہ جب وہ گھٹ کر اور یہ بونے نمو پاکر ایک دوسرے کے برابر ہوسکیں اوروہ زندگی میں پہلی مرتبہ برابری کی بنیاد پر تعلق قائم کر سکے۔ تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس دیو نے ان بونوں کو اپنی مٹھی میں بند کیا اور لے کر نئے ٹھکانے کی تلاش میں  چل پڑا۔ احساس نامی بیماری کے تحت (کہ جس کا ذکر آپ داستان کے آغاز میں سن چکے ہیں)، اس  دیو نے  اس بات کا خاص خیال رکھا  کہ  وہ بونے اس انتقال کے دوران زمانے کے سرد و گرم سے  سے محفوظ رہیں۔ زمانے کی ہوا نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس کی مضبوط مٹھی میں نقب لگا سکے مگر اس دیو نے زمانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا اور کامل جذبے، خلوص اور عزم مصمم کے ساتھ نئی منزل کی کھوج میں لگا رہا۔ 

سوکھی زمین کو بھی اگر خلوص کا پانی مل جائے تو اس پر موجود پودے اپنی بساط کے حساب سے پھول، پھل یا کانٹے، غرض جو بھی کچھ انہیں میسر  ہو ، اپنے ساقی کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔  زمانے  نے بھی اس کے خلوص کے آگے ہار مان لی اور اپنے دامن میں موجود سب سے پرسکون جگہ کا  رمز  اس پر وا کر دیا۔ منزل پر پہنچ کر اس دیو نے اطمینان کی سانس لی اور بصد احتیاط مٹھی کھول کر ان بونوں کو اپنی بنائی ہوئی اس جنت میں اتار دیا۔ اس کے سامنے اس وقت ایک حسین وادی، ایک پہاڑ، اس پہاڑ سے بہتا ایک آبشار،  اس آبشار کے دامن  میں موجود ایک جھیل، اور اس جھیل کے کنارے چند بونوں کی لاشیں پڑی تھیں کہ جو خدا جانے کب اس کی مٹھی میں سانس نہ پانے کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔

آسیب

 انسان کی زندگی اس کے رزق سے متصل ہے۔ آپ زمین کے اوپر تب ہی تک ہیں کہ جب تک آپ کا رزق لکھا ہوا ہے۔ اور رزق کا تصور محض خوراک تک محدود کردینا   بھی ناشکری ہی کی ایک قسم ہے کہ جس میں انسان دیگر عطاکردہ چیزوں کی شکرگزاری سے بچنے کے لئے رزق کے شکر کو محض معدے کی سہولت تک محدود کر لیتا ہے۔ اور جب نعمت کا شکر ختم ہوجائے تو  منعم کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے ہاتھ کھینچ لے۔  وہ ان سب باتوں کا ادراک رکھتا تھا مگر نجانے کب شکر کی عادت شکوے میں تبدیل ہوگئی تھی اور نتیجتا آج بھی وہ لکھنے کی میز پر بیٹھا سامنے پڑے کورے کاغذ کو گھور رہا تھا جسے  وہ گزشتہ تین ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر یونہی کورا دیکھتا آرہا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ لکھنے سے قاصر تھا۔ الفاظ کا سمندر تو اب بھی اس کے اندر موجزن تھا مگر کہانیاں اب اس سے روٹھ سی گئی تھیں۔  وہ خیال جو ایک کہانی کو تحریک  دیتے ہیں، اس سے منہ موڑ چکے تھے۔ ابکائی کی ایک مسلسل کیفیت تھی کہ جو  ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی  کہ کہانی کی قے باہر نکل کر اسے آرام دینے سے مسلسل انکاری تھی۔ 

اسے یہ بھی لگتا  تھا کہ اس کو کسی کی نظر لگ چکی تھی۔ پچھلی کہانیوں کی مقبولیت کے بعد یوں اچانک کہانیوں کا اس سے روٹھ جانا اس کے اس شک کو تقویت پہنچاتا تھا۔ یوں بھی اپنی ناکامیوں کے لئے انسان ہمیشہ سے ہی کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا عادی رہا ہے کہ اس سے ذات کی اصلاح جیسے مشقت طلب کام  سے فرار حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ سو وقت کے ساتھ ساتھ اسے  یقین سا ہوچلا تھا کہ اس ناکامی کے پیچھے دنیا والوں کی بری نظر کا ہاتھ تھا کہ جو اس کی کامیابیوں سے خائف تھے۔

تقدیر   بھی انسانوں کے ساتھ عجیب کھیل کھیلتی ہے کہ جب کبھی شک نامی جرثومہ ہمارے دماغوں  میں جگہ بناتا ہے تو یہ اسے راسخ  کرنے کے لئے  ہمارے اردگرد ایسے واقعات کا جال بننا شروع کردیتی ہے کہ پھر اس شک کو یقین میں بدلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ غور کرنے پر اس ادیب کو محسوس ہونے لگا کہ  آخری کہانی کے بعد سے اس کی طبیعت بھی مضمحل رہنا شروع ہوگئی تھی۔ روزمرہ کے معمولات تو برطرف، محض بستر پر لیٹے ہوئے بھی وہ تھکاوٹ محسوس کرنے لگا تھا۔ گاڑی جو بغیر آواز کے چلا کرتی تھی، اب ہر دوسرے دن مکینک کے پاس کھڑی ہونے لگی۔ اور معاملہ اس وقت سنگین تر ہوگیا جب اسے لگا کہ جو بلغم وہ تھوک رہا ہے اس میں خون کے ذرات بھی آنے لگے ہیں۔

کہتے ہیں کہ موت کو بالکل سامنے پاکر ایک لحظے کے لئے ہی سہی مگر خودکشی کرنے والے انسان کو بھی زندگی پیاری لگنے لگتی ہے اور وہ  تو  جینے کی خواہش سے لبریز ادیب تھا۔ جسے ابھی پوری دنیا کی کہانیاں لکھنی تھیں۔ مشہور ہونا تھا۔ اپنی کتب کی کمائی سے امیر آدمی بننا تھا۔ اور ویسے بھی ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی؟ لوگ تو اس کی عمر میں آکر زندگی جینا شروع کرتے ہیں۔ وہ اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اور کسی کی نظر کی زد میں آکر تو بالکل بھی نہیں۔اس نے اٹھتے بیٹھتے وظیفوں کا ودر کرنا شروع کردیا۔ کلائی میں ایک سرخ رنگ کا منتی دھاگہ بھی بندھ گیا ۔ گلے میں بیک وقت دو تعویز ڈال دئے گئے ۔ اور گھر سے باہر نکلتے وقت الٹا پیر پہلے باہر رکھتے ہوئے معوذتین کا ورد شروع ہوگیا۔ مگر اس سب اہتمام کے باوجود مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس کے سنکی پن سے تنگ آ کر گھر والی نے بھی بچوں سمیت اپنے میکے کی راہ لے لی  اور اب بڑے سارے گھر میں محض وہ اور اس کی وحشت بسا کرتے تھے۔

اسے لگتا تھا کہ اگر وہ کسی طرح اس جمود کو توڑ کر ایک مرتبہ پھر کوئی کہانی لکھ سکے تو شاید اس نظر کا اثر ختم ہوجائے گا اور اس ہی سوچ کے زیراثر وہ روزانہ لکھنے کی میز پر قلم سنبھالے گھنٹوں بیٹھا کورے کاغذ کو گھورتا  رہتا اور  بالآخر کاغذ کو کورا ہی چھوڑ کر اٹھ جاتا۔ کئی بار اسے شدید ابکائی کی سی کیفیت  ہوتی اور وہ اس امید پر دوبارہ کاغذ اٹھاتا کہ شاید اب کی بار کہانی باہر آجائے گی مگر کہانی تھی کہ ہر بار وہی ڈھاک کے تین پات ، باہر نکلنے سے انکاری تھی۔

آج بھی وہ تنہائی اور وحشت سے بیزار ہوکر اور شدید ابکائی کے زیر اثر ،خود کو گھسیٹ کر لکھنے کی میز پر لے آیا تھااور اب بیٹھا ہوا اس کاغذ کو یوں گھور رہا تھا کہ جیسے کہانی کے باہر نہ آنے کی اصل وجہ وہ کاغذ ہی رہا ہو۔ اس ہی جھلاہٹ میں اس نے چاہا کہ قلم ہاتھ سے پھینک کر اٹھ کھڑا ہو مگر ہاتھوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ وہ بھول بیٹھا تھا کہ انسان کی زندگی اس کے رزق سے متصل ہے۔ آپ زمین کے اوپر تب ہی تک ہیں کہ جب تک آپ کا رزق لکھا ہوا ہے۔ اور رزق کا تصور محض خوراک تک محدود کردینا   بھی ناشکری ہی کی ایک قسم ہے کہ جس میں انسان دیگر عطاکردہ چیزوں کی شکرگزاری سے بچنے کے لئے رزق کے شکر کو محض معدے کی سہولت تک محدود کر لیتا ہے۔ اور جب نعمت کا شکر ختم ہوجائے تو  منعم کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے ہاتھ کھینچ لے۔ اس نے چاہا کہ وہ چیخ کر کسی کو مدد کے لئے آواز دے مگر گھر میں تھا ہی کون  کہ جو مدد کو آتا؟ اور زبان بھی کب اس کا ساتھ دے رہی تھی کہ وہ چیخ ہی پاتا۔ اس نے ایک حسرت سے کورے کاغذ کی سمت آخری بار دیکھا اور  پھر اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔

اس کی گردن ایک طرف ڈھلکتے ہوئے دیکھ کر میں مسکرایا اور آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے قلم لے کر میز پر رکھا کاغذ اٹھا لیا۔ کہانی مکمل ہوچکی تھی! 

بھوکا

 خدا جانے علی ابن ابی طالب نے کس نقطہ نظر سے کہا تھا کہ "جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو" مگر وقت نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ احسان کرنے والے اکثر خلوص میں کئے گئے اپنے ہی وعدوں کے بوجھ تلے دب کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد دنیا  احسان کے بوجھ تلے دبے بیچاروں پر محسن کشی کا تمغہ مزید سجا دیتی ہے۔

اس نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے چار طرف صرف ملگجا اندھیرا ہی پایا تھا۔  اس تاریکی کا تعلق  کسی سورج گرہن یا اس کی بصارت کے کسی خلل سے نہیں تھا بلکہ یہ بات تو تب کی ہے کہ جب وہ رحمِ مادر میں ہی موجود تھا ۔ اور ویسے بھی یہاں جس اندھیرے کا بیان ہے اسے دور کرنے کے لئے سورج کی روشنی نہیں بلکہ من کی سچائی کا نور درکار ہوتا ہے جس سے وہ پیدائش سے قبل ہی محروم ہوچکا تھا۔ 

انسان نامی مخلوق جسمانی سختیوں کی تاعمر عادی نہیں ہوپاتی مگر روح کے لئے تکلیف دہ چیزوں سے تاعمر لذت کشید کرتی ہے۔  وہ بھی اپنے اطراف پھیلے ہوئے اس ملگجے اندھیرے سے حظ اٹھایا کرتا تھا۔ ویسے بھی زندگی میں تکلیف نام کی کون سی شے تھی؟ وقت پر خوراک مل جاتی تھی۔ نہ دفتر کی فکر تھی نہ سکول یا مدرسے کی پڑھائی کی۔ ایک محبت کرنے والی ماں تھی جو گاہے بگاہے اسے پیغام بھیج کر یقین دلاتی رہتی تھی کہ اس کے دنیا میں ظہور سے پہلے ہی کم از کم ایک انسان اس سے  اس حد تک محبت کرتا ہے کہ اس کی نشو نما کے لئے اس کے وجود کو اپنے لہو تک سے سینچ سکتا ہے۔ سو اس تمام اندھیرے کے باوجود وہ  اپنی اس زندگی سے بے حد خورسند ہے۔

مرنے کے بعد کی تو خیر مارنے والا ہی جانتا  ہے مگر پیدائش سے پہلے اور زندگی کے اختتام تک کوئی بھی خوشی مستقل نہیں رہتی۔  موٹیویشنل سپیکرز کو سننے اور ماننے والے  شاید اعتراض کریں کہ مستقل تو غم بھی نہیں رہتا مگر فلسفے کے بنیادی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ غم کا مستقل  نہ ہوپانا اپنی ذات میں ایک نہایت شدید اور مسلسل غم ہے۔ مگر اس بنیادی نکتے کو سمجھنے کے لئے درکار دماغ  کی موجودگی میں کون ناہنجار موٹیویشنل سپیکرز کی افیم چاٹے؟  خیر! چونکہ کوئی خوشی مستقل نہیں رہتی لہٰذا س کی خوشیاں بھی دیر پا ثابت نہ ہو پائیں اور اس کی تنہائی کی مونس نے بھی دیگر خالقین  کی طرح اس کو جواب دینا اور اس سے بات کرنا پہلے کم اور پھر بالکل ہی چھوڑ دیا۔

 توجہ کی بھوک نہ مٹنے کا شاید اس کو اتنا غم نہ ہوتا جتنا  احساس اسے اس بات کا تھا کہ وقت کے ساتھ اس کو ملنے والی غذا کی مقدار اور معیار بھی کمتر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ اس معاملے  پر آواز اٹھائی، اپنے تئیں جس طرح ممکن تھا احتجاج کیا ، مگر مخلوق  کی خالق سے شکایات کا انجام جاننے کے لئے اس کہانی میں سطور ضائع کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ہم میں سے ہر ایک اس انجام سے بخوبی واقف ہے۔ سو جب حسب معمول شکایات ،احتجاج ، اور مناجات میں سے کچھ بھی کام نہ آیا تو  کسی بھی دیگر مخلوق کی طرح اس نے بھی میسر پر گزارہ کرنا سیکھ ہی لیا۔

اس تمام عرصے میں کہ جب توجہ اور غذا کی قلت اور پھر قحط پیدا ہو رہا تھا، عجیب بات یہ تھی کہ اس کی نشو نما میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ٹھیک ہے کہ بہتر غذا کے ساتھ وہ اس سے زیادہ نمو پاسکتا تھا  مگر ایسا بہرحال نہیں تھا کہ اس کا جسمانی ارتقا رک گیا ہو۔  ہاتھ پاؤں سمیت دیگر جسمانی اعضا ناصرف وجود میں آچکے تھے بلکہ وقت  کے ساتھ اپنی ناتواں ہی سہی مگر مکمل شکل بھی اختیار کر چکے تھے۔  وہ اب دنیا میں اپنی آمد کے لئے مکمل تیار تھا۔

خواہشات کے ہمیشہ مکمل ہوجانے والی جگہ کا نام اگر جنت رکھا گیا ہے تو خواہشات کے  کبھی نہ پورا ہونے والی جگہ کا نام جہنم ہی ہوگا؟ اور ان دونوں کے مابین دنیا نام کی ایک برزخ حائل ہے کہ جہاں خواہشات یا تو کبھی  مکمل نہیں ہوتیں اور اگر ہو بھی جائیں تو ان کے مکمل ہونے سے عین پہلے اس خواہش کی خواہش ہی مٹ چکی ہوتی ہے۔  مگر تکنیکی اعتبار سے وہ ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا  اور جنت، جہنم یا دنیا میں سے کسی بھی جہان سے متعلق نہیں تھا ، لہٰذا اس کی خواہشات کو دنیا وی اعتبار سے اس کے خالق کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔  اپنے پورے وجود اور اس کی بود کے ساتھ وہ اپنے خالق، اپنی ماں کے لئے بھی ایک بوجھ تھا  جسے اصولی طور پر اب اس سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہئے تھا  مگر خدا جانے کیوں وہ اس بوجھ کو میعاد پوری ہونے کے بعد بھی پیٹ میں اٹھائے  گھوم رہی تھی اور جنم یا توجہ دونوں ہی  دینے سے انکاری تھی۔

اس  ہی یاس و بیم کی حالت میں آخر کار ایک دن اس بچے نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے ننھے ننھے ناخنوں سے اپنے قید خانے کی دیواروں کو کھرچنا شروع کردیا۔ ماں تلملائی تو بہت مگر خاموشی سے برداشت کرتی رہی۔ اس نے جب یہ بے اعتنائی دیکھی تو غصے میں کھرچنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ رحم مادر کی دیواروں سے خون رسنا شروع ہوگیا۔ بھوکا تو یہ نجانے کب سے تھا ہی، اس نے  رستے ہوئے لہو کو چاٹتے ہوئے ناخنوں کی رفتار کو اپنی بساط بھر تیز کردیا۔ رحم کی دیوار میں شگاف پید ا ہوگیا تھا  اور رستا ہوا خون اب بہنا شروع ہوگیا تھا ۔ادھر  ماں تکلیف سے بلبلا رہی تھی۔ اس نے بہتے ہوئے خون پر منہ رکھ دیا اور پیٹ بھر پی چکنے کے بعد اپنی تمام تر طاقت  بروئے کار لاتے ہوئے  خود کو نیچے کی طرف دھکیل دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ محسن کش آزاد فضا میں سانس لے رہا تھا جبکہ اس کے سر کے اوپر ایک عورت کی لاش پڑی ہوئی تھی جو  کسی کو اس کی نشو نما کے لئے اپنے لہو تک سے سینچنے کے وعدے تلے دب کر ہلاک ہوچکی تھی۔

خدا جانے علی ابن ابی طالب نے کس نقطہ نظر سے کہا تھا کہ "جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو" مگر وقت نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ احسان کرنے والے اکثر خلوص میں کئے گئے اپنے ہی وعدوں کے بوجھ تلے دب کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد دنیا  احسان کے بوجھ تلے دبے بیچاروں پر محسن کشی کا تمغہ مزید سجا دیتی ہے۔

عوز کا غلیظ جادوگر

 دوسری دفعہ کا ذکر  ہے کہ کسی گاؤں میں ایک لڑکی رہا کرتی تھی۔  اس کا گاؤں  پچھلی کہانی کے برخلاف ہرا بھرا تھا کیونکہ اس گاؤں میں طوفانی بگولے اور آندھیاں انسانوں کے اندر چلا کرتی تھیں جس سے لوگوں کے چہروں کے رنگ تو زرد ہوجاتے تھے مگر گاؤں کے کھیت کھلیانوں اور ڈنگروں پر اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا تھا۔  چونکہ یہ کہانی پچھلی کہانی سے زیادہ سچی ہے لہٰذا اس میں وہ لڑکی اپنے رشتے داروں کے گھر میں بخوشی نہیں رہ سکتی کہ فی زمانہ تو لڑکیوں کو اپنے سگے ماں باپ کے گھر میں بھی بخوشی رہنے کی اجازت دینے کی عیاشی فراہم نہیں کی جاسکتی، لہٰذا ہماری کہانی کی لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر میں رہا کرتی تھی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کتے کو گالی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ لوگوں کا اجتماعی شعور اتنا بلند نہیں ہوا تھا کہ مسلسل شہوت اور مسلسل بھوک  کو ایک گالی سمجھا جائے، لہٰذا اس لڑکی نے بھی بہت سے گاؤں والوں کی طرح اپنے اندر کے کتے کو باہر نکالا ہوا تھا اور اسے بڑے چاؤ اور مان کے ساتھ لے کر گھوما کرتی تھی۔ کہنے والے تو خیر یہ بھی کہتے ہیں کہ فی زمانہ بھی کتے کو  گالی سمجھنے والا شخص اپنی ذات میں ایک گالی ہے مگر چونکہ پچھلی کہانی میں بھی کتے کا کردار محض اس لڑکی کو طوفانوں میں دربدر کروانے اور راستے کی صعوبتوں کو بڑھانے تک محدود تھا تو ہم یہاں بھی کتے سے آگے بڑھ کر اس لڑکی کی کہانی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔

بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ  کرونا کی طرح اس زمانے میں لکھنے کی وبا عام ہوا کرتی تھی۔ ویکسین اور سماجی فاصلے کی لاکھ احتیاط کے باوجود بھی بمشکل ہی کوئی خوش نصیب ہوتا تھا کہ جو اس بیماری سے بچ سکے۔ تو سب کی طرح اس بیچاری کا بھی وقت آیا اور ایک رات معرفت کی کھڑکی کھلی رہ جانے کی وجہ سے ایک بگولا اندر گھس آیا اور اس کی ذات کے اندر طوفانی جھکڑ چلنا شروع ہوگئے۔ بیچاری لڑکی نے پچھلی کہانی کی حماقت دہراتے ہوئے کھڑکی بند کرنے کے بجائے اپنے اندر کے کتے کو بچانے کی کوشش کی کہ معرفت کے طوفان میں کہیں ہوس شہید نہ ہوجائے اور جتنی دیر میں وہ اپنے کتے کو لے کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوتی یا کھڑکی بند کرپاتی، بگولے نے اسے اس مکان سمیت اٹھا کر کالے کوس پار ایک بستی میں لے جا پٹخا۔

مکان جب واپس زمین پر لگا اور اس لڑکی کے حواس بحال ہوئے تو اس نے باہر نکل کر دیکھا کہ وہ بونوں کی ایک بستی میں کھڑی ہے جہاں بہت سے بونے مکان کی طرف اشارہ کر کے خوشی سے ناچ رہے ہیں۔ وہ معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک بونے نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سینیٹائز کروائے اور پھر چوم لئے۔ بونے نے اسے بتایا کہ بونوں کی یہ پوری بستی اس کی احسان مند ہے کہ اس نے مشرق کے شریر نثر نگار سے ان سب کی جان  بچائی جو آزاد نظم کے نام پر ان کو نثر سناتا اور اصرار کر کے خود کو مجید امجد اور ن م راشد سے بڑا شاعر منواتا تھا ۔ وہ لڑکی چونکہ سخن کی بستی میں نئی تھی لہٰذا ابھی تک کسی بھی ناکردہ کام کی داد لینے میں متامل تھی۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس نے کسی کی کسی سے خلاصی نہیں کرائی ہے اور وہ تو خود واپس اپنے گاؤں جا کر اپنی پہلی نظم مکمل کرنا چاہتی ہے۔ تس پر بونے نے اسے دکھایا کہ کس طرح سخن کی بستی میں اس کے نئے مکان کے نیچے آکر مشرق  کا شریر  نثر نگار ہلاک ہوچکا ہے اور اب مکان کے نیچے سے محض اس کے ہاتھ باہر تھے جن میں ایک چاندی سے بنا پارکر کا انک پین دبا ہوا تھا۔قلم کو دیکھ کر اس لڑکی کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی اور  اس کہانی کی لڑکی نے بونے کے کہے بغیر مشرق کے شریر نثر نگار کے ہاتھ سے وہ قلم نکالا اور اپنے کان کے اوپر اڑس لیا۔لڑکی کو یوں پرایا مال اٹھا کر استحقاق کے ساتھ اپنا بناتے دیکھ کر بونوں نے دادِ تحسین بلند کی اور اسے یقین دلایا کہ اب اسے عظیم سخنور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ لڑکی نے شرماتے ہوئے ان سب کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کا راستہ دریافت کیا تاکہ گھر جا کر مرکزی خیال ماخوذ والی اپنی نظم مکمل کرے اور  اس چاندی کے قلم سے اپنے مستقبل کے مداحوں کو آٹوگراف دے سکے۔  

بستی والوں نے پچھلی بار کے جھمیلوں سے سبق سیکھتے ہوئے بغیر دماغ کا کٹھ پتلی ایڈیٹر،  بغیر دل کا ٹین کا بنا   پروڈیوسر، اور بغیر ہمت  کا شیر دکھنے والا ہدایتکار کو اپنے پاس ہی بلا رکھا تھا کہ اگر پچھلی کہانی کی لڑکی کو دوبارہ آنا پڑے تو کھیت کھلیانوں اور جنگلوں میں ان لوگوں کے پیچھے خوار نہ ہوتی پھرے اور براہ راست شمال کی پیاری  بلاگر سے ویریفائی کا بییج لگوا کر عوز کی ریاست پر راج کرنے والے اس جادوگر سے جا ملے  جو ساحر سے متاثر ہوکر جادوگر تخلص کے ساتھ شاعری کے نام پر پارٹ ٹائم تک بندی کرتا اور فل ٹائم اپنی ٹریول ایجنسی چلایا کرتا تھا۔

راستے میں ملنے والی غیر ضروری مشکلات  اور چلنے والی ہوا و اڑنے والے پتوں کے تین صفحات بچاتے ہوئے،  جب ہماری کہانی کی لڑکی عوز کی ریاست میں پہنچی تو سب نے اسے سمجھایا کہ عوز کا  عظیم جادوگر ہر کسی سے نہیں ملتا اور اس سے ملاقات کا خصوصی وقت لینا پڑتا ہے۔ مگر جب جادوگر کو ایک شعر کہنے والی زندہ اور نوجوان لڑکی سے ملاقات کا بتایا گیا تو اس نے چاندی کے قلم کو بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فوری ملاقات پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ پچھلی کہانی کی طرح اس بار بھی اس نے لڑکی کو تو اس وقت تک کسی بھی قسم کی مدد دینے سے انکار کردیا کہ جب تک وہ جنوب کے ذلیل شاعر سے ایک نئی کہانی لکھوا کر نہیں لے آتی جبکہ ساتھ آنے والے باقی تینوں کرداروں سے اس نے سرے سے ملنے سے ہی انکار کردیا۔ لڑکی بیچاری بھنائی تو بہت مگر بستی میں بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کا پورا نیٹ ورک اس ہی جادوگر  کے ہاتھ میں تھا لہٰذا اس کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

جب جنوب کے شاعر سے ملاقات لازم ٹھہری تو لڑکی نے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں ۔تحقیق پر معلوم ہوا کہ جنوب کا شاعر اس کالے کوس میں واقع عوز سے بھی کالے کوس دور ہے اور راستے میں کوے، مکھیاں، ٹوپی والے بندر اور اس ہی قسم کی دیگر ذلالتیں بھی درپیش ہوتی ہیں۔ پہلے تو  اس نے سوچا واپسی کے خیال پر لعنت بھیج کر یہیں قیام کرلیا جائے کہ اب چاندی کے قلم اور ویریفائیڈ کے بیج کے ساتھ وہ عوز میں بھی ایک سلیبرٹی کی زندگی گزار سکتی تھی۔ مگر جادوگر سمیت بستی کے تمام لوگوں کا جنوب کے ذلیل شاعر کی نئی کہانی کے لئے اشتیاق دیکھ کر خود اس کے اندر بھی یہ تجسس جاگ گیا تھا کہ یہ جنوب کا شاعر کون ہے اور یہ ذلیل کیوں کہلاتا ہے ، نیز اس نے کہانیاں لکھنا کیوں چھوڑ رکھی ہیں؟ اور ان سب سوالات کے لئے اس سے ملاقات ضروری تھی سو اس نے بھی تینوں نکموں کو ساتھ لیا اور اپنے کتے کو گود میں دبائے سفر پر روانہ ہوگئی۔

تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے اور انسانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ مشہوری کے کھیت میں جا کر ضمیر کو سلانے کے بعد، اور کووں پھر مکھیوں سے نمٹنے کے بعد بالآخر  ٹوپی والے بندروں کی باری آئی اور ایک بار پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور پتلے، ٹین کے آدمی، اور شیر کو تاراج کرتے ہوئے اس لڑکی کو جنوب کے ذلیل شاعر کے گھر میں لے جا پٹخا ۔  جنوب کے شاعر کے سامنے پہنچتے ہی لڑکی نے  اپنی تمام تر معصومیت اپنے چہرے پر مجتمع کی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر اسے یقین دلادیا کہ وہ لڑکی اس کی سب سے بڑی مداح ہے اور اس نے دنیا میں اس سے بہتر لکھیک آج تک کسی کو نہیں جانا۔ جتنی دیر وہ یہ قصائد پڑھتی رہی، جنوب کے ذلیل شاعر کی نظریں اس کے کان پر ٹکے چاندی کے قلم پر  مرکوز رہیں۔ بیچاری لڑکی سمجھی کہ یا  تو شاعر بھینگا ہے یا اتنے عرصے مجرد زندگی گزارنے کی وجہ سے بھول بیٹھا  ہے کہ خواتین سے بات کرتے ہوئے مردوں کی نظریں کہاں ہونی چاہئیں۔ دونوں صورتوں میں اسے شاعر پر بہت ترس آیا اور اس نے گھریلو خادمہ کے طور پر اپنی خدمات اسے پیش کردیں کہ ساتھ رہ کر شاید وہ اسے ڈھنگ سے دیکھنا اور سوچنا سکھا سکے  اور پھر کوئی کہانی وجود میں آجائے کہ جس سے اس کی گھر واپسی کی سبیل نکل سکے۔

تاریخ اس بارے میں خاموش ہے کہ کتنے برس یا صدیاں یا ہزارہا سال گزرگئے مگر جنوب کے ذلیل شاعر نے کہانی لکھنے کا نام نہ لیا۔ وہ دونوں روزانہ ایک معمول کی زندگی گزارتے  اور رات کو اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو مرتے۔ اس کے ساتھ رہ رہ کر یہ لڑکی بھی بھول گئی تھی کہ مستقبل کی عظیم شاعرہ تھی، اس کے پاس ویریفائیڈ کا بیج تھا، سوشل میڈیا فالوورز محض چند دنوں کی مار تھے۔ اس کا دیکھا دیکھی اسے بھی لکھنے پڑھنے سے سے زیادہ ویب سیریز دیکھنے کا شوق ہوگیا تھا۔  اور ایسے ہی ایک دن فلم دیکھتے ہوئے اس کے سامنے سے ایک منظر گزرا کہ جہاں ایک شرابی لیکھک نے اپنے بچے کی دوائی کے پیسے بھی اپنی دارو پر خرچ کردیے تو اسے لگا کہ وہ بھی ایک ایسے ہی بے حس لیکھک کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ اس نے سامنے پڑی ہوئے پوچھے کی بالٹی اٹھائی اور جنوب کے ذلیل شاعر پر انڈیل دی اور چیخ پڑی کہ تم سب لیکھک ایک جیسے اور نیچ ہوتے ہو۔ دنیا سے داد و تحسین کے ٹوکروں کی امید کرتے ہو جبکہ تمہاری اوقات پوچھے کی بالٹی کی بھی نہیں ہوتی۔ جب تک پھیپھڑوں نے ساتھ دیا وہ مسلسل کھڑی چلاتی رہی  یہاں تک کہ بے دم ہوکر واپس کرسی میں نہ گر پڑی۔

ادھر جنوب کا ذلیل شاعر اپنی ہی سرشاری میں کھڑا اس کی دشنام سن رہا تھا۔ ہر ہر طعنہ مانو اس کے مردہ وجود میں جان بھرتا جا رہا تھا۔ بیچاری لڑکی نہیں جانتی تھی کہ جتنے بھی ایسے سخنور گزرے  ہیں کہ جنہیں  اپنے فن میں ماہر سمجھا جاتا ہے، ان تمام کی زندگیاں ذلتوں سے عبارت تھیں۔ کسی کو مالی اعتبار سے شرمندہ رہنا پڑا۔ کوئی جذباتی نا آسودگی کے ہاتھوں رسوا ہوا۔ جس کو پسند کا جیون ساتھی ملا اس کے حصے میں قید آئی۔ اور کوئی  اپنے ہی گھر کے بند دروازوں کے پیچھے ذلت کی فصل کاٹتا رہا۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ تخلیق درد سے عبارت ہے ، مگر یہ بات انسان اکثر بھول جاتے ہیں کہ تخلیق کے لئے درکار درد جسمانی نہیں بلکہ ذلت کا ہوتا ہے۔ جنت کے نکلنے  سے شروع ہونے والا ذلتوں کا یہ انسانی سفر  آج بھی ہر تخلیق کے پیچھے کارفرما ہے۔

کہتے ہیں  اس دن گھڑوں پانی پڑنے کے بعد  واہیات ہی سہی مگر جنوب کے ذلیل شاعر نے مدت بعد ایک کہانی  لکھی تھی۔ عوز کے غلیظ جادوگر کی کہانی جو کہانی پڑھنے کے بعد ایک بار پھر مکر گیا تھا  کہ کہانی جیسی واہیات چیز کے لئے کون کس کا کام کرتا ہے؟اور بیچاری لڑکی کو گھر جانے کے لئے ٹیکسی کروانی پڑ گئی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب

جانور

 انسان اپنے آدرش کے تعاقب میں چلتا ہوا اس دنیا تک آ نکلتا ہے اور  پہنچنے کے بعد ہی اسے  یہ احساس ہو پاتا ہے کہ منزل کہیں پیچھے ہی چھوٹ گئی ہے۔  اس کے بعد کا سفر یا تو اس وقت کے زیاں پر واپسی کی صورت میں ہونے والی ممکنہ خفت کی وجہ  سے واپسی سے بچنے کی کوشش میں کٹ جاتا ہے یا پھر مزید وقت ضائع کیے بغیر کسی بھی طرح واپس لوٹ جانے کی دعا میں۔ کچھ  ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں ہی جان جاتے ہیں کہ جو کچھ پیچھے چھوٹ گیا ہے وہ اتنا پیچھے چھوٹ چکا ہے کہ اب اس کے بارے میں فکر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اور وہ اس دنیا کو ہی کل دنیا بنا کر جینا شروع ہوجاتے ہیں ۔مگر  ایسوں کا انجام بھی آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ یہ کہانی اوپر بیان کردہ تمام انسانوں میں سے کسی کی بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہانی کسی انسان کی ہے ہی نہیں۔ انسان تو درندہ ہوتا ہے جو بغیر بھوک کے بھی شکار کرتا ہے۔ یہ کہانی تو ایک جانور کی ہے جو محض جان کے خوف سے یا شدید بھوک کے عالم میں ہی کسی دوسرے جانور پر حملہ آور ہوتا ہے۔

وہ جانور ایک بہت سلجھے ہوئے اور دور اندیش جانور کے گھر پیدا ہوا تھا اور شاید اس ہی لئے اس کو بہت سلیقے سے سدھایا گیا تھا ۔ بچپن سے ہی اس با ت کا اہتمام کیا گیا تھا کہ اسے ایسی تمام چیزوں سے دور رکھا جائے جن سے اس کی تربیت میں خلل واقع ہوسکتا تھا۔ وہ تمام اشیا جو جنگل کے تمام جانوروں کی مرغوب تھیں اس  کی پہنچ سے دور رکھی جاتی تھیں کہ کہیں اسے اشتہا جیسی موذی لت نہ لگ جائے۔ اس کے گھر والوں کا ماننا تھا کہ چونکہ انہوں نے اشتہا کے شکار کسی بھی جانور کو دوبارہ سدھرتے نہیں دیکھا تھا لہٰذا وہ اپنے ہیرے جیسے جانور کو ان چیزوں سے دور رکھیں گے کہ جن کی وجہ سے جنگل کے تمام جانور بگڑ چکے تھے۔ جنگل میں سال کے سال بہار پر جو میلہ لگتا تھا اس میں دیگر جانوروں کے ساتھ اس کا تمام خاندان شامل ہوتا تھا مگر اس کو اس میلے سے دور رکھا جاتا کہ میلے ٹھیلوں میں جانا نرا وقت کا زیاں ہے۔ اس کے دوست کہ جن کے بارے میں یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ تمام جسمانی اعتبار سے بالکل اس ہی کی طرح ہوں، وہ بھی میلے میں جاتے اور واپس آکر اسے میلے کی داستانیں سناتے۔ یہ منہ کھولے حیرت سے ان کی باتیں سنتا کہ اس کی ننھی سمجھدانی اور معلومات کے اعتبار سے تو اس سے مختلف دکھنے والے جانوروں کے قریب جانا جنگل میں ممنوع تھا اورنہایت نیچ سمجھا جاتا تھا جبکہ یہ دوست ان میلوں میں ان جانوروں سے نہ صرف خوش گپیاں کرتے تھے بلکہ کوئی کوئی تو میلوں کے بعد بھی ان جانوروں کے ساتھ  وقت گزارنے اور ان سے ملنے جایا کرتے ۔ وہ  یہ سب دیکھتا تو عجیب ذہنی کشکمش کا شکار ہوجاتا۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ اس کے یہ دوست ٹھیک ہیں یا پھر اس کے گھر والے، جو اسے بچپن سے سکھاتے آئے تھے کہ  مختلف دکھنے والے جانوروں کو چھونا بھی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا اگر بے دھیانی میں بھی وہ کسی مختلف دکھنے والے جانور سے ٹکرا جائے تو اسے لازم ہے کہ وہ جنگل کے کنارے پر بہتی ندی میں جاکر رگڑ رگڑ کر اپنے آپ کو پاک صاف کرے۔ جسم کی اس پاکیزگی کے بدلے وہ اسے ایک ایسی زندگی کا وردان دیتے تھے کہ جہاں اس کا  جراثیم اور بیماریوں سے پاک جسم اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتا ہے۔ایک ایسی زندگی کہ جہاں وہ اپنی مرضی سے جتنے چاہے مختلف دکھنے والے جانوروں سے تعلق رکھے اسے کوئی جراثیم نہیں لگے گا۔ جہاں مختلف دکھنے والے جانور ہمہ وقت اس کی خدمت پر مامور ہوں گے۔ مکمل آزادی اور بنا کسی روک ٹوک کے۔ مگر اس سب کو حاصل کرنے کی شرط یہ تھی کہ وہ اس وقت مختلف دکھنے والے جانوروں سے مکمل فاصلہ اختیار رکھے یہاں تک کہ اس کے گھر والے اس کی صحت سے مطمئن ہوکر اور اپنی مکمل تسلی کے بعد ایک ایسے مختلف دکھنے والے جانور کو اس کے لئے  تلاش کرسکیں جس سے اسے کوئی جراثیم نہ لگے اور جو اس کے لائق ہو۔

اس ذہنی کشمکش کے بیچ ، اس کا ماننا تھا کہاس کے  گھر والوں نے بہر حال اس کے دوستوں سے زیادہ دنیا دیکھی تھی اور یوں بھی اپنی مرضی کی مکمل زندگی پانے کا خواب اتنا لذت آمیز تھا کہ وہ وقتی طور پر بھی اپنے دوستوں کی جراثیم سے بھری دنیا میں نہیں اترنا چاہتا تھا۔ ایسا نہیں کہ اسے اس تیاگ کا فوری طور پر کوئی فائدہ نہ رہا ہو۔ جنگل بھر میں اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ دیگر جانوروں کے والدین   چاہتے تھے کہ ان کے بچے اس سے سبق سیکھیں اور اس جیسے بن جائیں۔   چھوٹے بڑے تمام جانور اسے عزت و عقیدت کی نگاہ سے دیکھا کرتے اور اس کے اپنی سچائی کے زعم کے غبارے میں ہوا بھرنے میں مدد دیتے تھے۔

سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا اور اسے امید تھی کہ بہت جلد وہ اتنا توانا ہوجائے گا کہ ہر طرح کے جراثیم کا سامنا کرسکے اور اس کے گھر والے اس کے لئے اس کے لائق کوئی مختلف دکھنے والا جانور بھی تلاش کرلیں گے، مگر پھر وہ منحوس شام آگئی ۔ خلاف معمول وہ اس دن شام کے بعد گھر سے نکلا ہوا تھا اور ندی کے کنارے ٹہل رہا تھا کہ اچانک ایک ذوردار خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔   ایسا نہین کہ وہ اس خوشبو سے انجان تھا۔ وہ اس خوشبو کو پہلے بھی محسوس کر چکا تھا مگر آج سے پہلے یہ خوشبو ہمیشہ اسے دور سے  اور دھیمی ہی محسوس ہوئی تھی ، جبکہ آج وہ خوشبو  اور  اس کا  مآخذ دونوں اس کے سامنے موجود تھے۔  آج پہلی مرتبہ وہ ایک مختلف دکھنے والے جانور کے ساتھ چار ٹانگ کے فاصلے پر موجود تھا۔ چونکہ اس سے پہلے اس نے اس خوشبو کو محض دور ہی سے محسوس کیا تھا لہٰذا وہ اس بات سے ناآشنا تھا کہ یہ خوشبو محض نتھنوں ہی کو بھلی نہیں لگتی بلکہ اپنے ساتھ اشتہا جیسی موذی بیماری بھی لاتی ہے۔ وہ اس خوشبو کے اثرات کے ساتھ اس کو برتنے کے طریقے سے بھی انجان تھا۔ مختلف دکھنے والے جانور نے اس کے بدلتے ہوئے تاثرات بھانپ لئے تھے مگر اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ پورے جنگل میں نیک نام تھا اور اس سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا تھا؟  مگر  ماحول میں کچھ ایسا عجیب سا تناؤ پیدا ہوگیا تھا کہ اس وقت وہاں سے نکل جانے میں اس مختلف دکھنے والے جانور کو عافیت محسوس ہوئی۔

مختلف دکھنے والے جانور کو اپنے برابر سے گزر کر نکلتے ہوئے دیکھ کر اس ہیرے جیسے جانور کو اچانک احساس ہوا کہ وہ کتنے برسوں سے بھوکا ہے۔ بھوک کی شدت کے احساس سے وہ بالکل اتاؤلا ہوچکا تھا۔ ہوش تب آیا جب ایک پتھر اس کے سر پر لگا اور اس نے سر اٹھا کر دیکھاکہ آدرش کے تعاقب میں چلتا چلتا وہ تعلق کی بھوک  کے چوراہے سے بھٹک کر جسم کی بھوک کی منزل پر پہنچ چکا تھا  اور اس وقت مختلف دکھنے والے اس جانور پر سوار تھا جس کا نرخرہ وہ پھاڑ چکا تھا ۔ جبکہ جنگل کے جانوراسے گھیرے میں لئے کھڑے ہیں۔   اسے اپنی سمت متوجہ پاکر پتھر مارنے والے ایک جہاندیدہ بزرگ  درندے نے خفت سے صفائی پیش کی وہ اسے ایذا پہنچانا نہیں چاہتے تھے بلکہ پتھر تو اس کمین مختلف دکھنے والے جانور کے لئے تھا کہ جس نے جنگل کے مقدس اور معزز ترین جانور تک کو ورغلا کر اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ وہ اس کے نرخرے سے اپنی پیاس بجھالے۔

بزرگ درندے کی بات سن کر  اس نے غصے سے ایک نظر اپنے نیچے تڑپتے اس مختلف دکھنے والے جانور پر ڈالی اور مجبوری کے عالم میں اپنے دانت دوبارہ اس کے نرخرے پر گاڑ دیے!

روپانزل

 دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جگہ پر ایک ذہنی اعتبار سے بانجھ جوڑا رہا کرتا تھا۔ ذہنی اعتبار سے بانجھ ہونے کے باعث ان کی زندگی بہت پرسکون تھی اور وہ دونوں میاں بیوی دنیا و مافیہا کی تکالیف سے ماورا ہوکر محض اپنی زندگی جیتے اور فرصت کے ایام میں اپنے ہی جیسے بچے پیدا کیا کرتے تھے۔ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہیں تھی کہ اگر روزگار نہ بھی لگتا تو وہ اپنے گھر کے ساتھ واقع باغ (کہ جس کی چڑیل عرصہ پہلے ایک سبزی کے نام سے منسوب روپانزل کی بےوفائی سے دلبرداشتہ ہوکر علاقہ چھوڑ گئی تھی) سے جب جی چاہے بے دھڑک چیزیں توڑ کر کھاتے اور خوش رہتے تھے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ان کی اس ہی خوشی کی خرمستیوں میں پیدا ہونے والا ان کا چوتھا یا پانچواں بچہ تھا۔ ترتیب کا اس لئے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ پورا گھرانا اتنا معمولی تھا کہ کسی نے ان کی ترتیب نزولی کو دفتر کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا تھا۔

بچپن میں وہ اپنے باقی گھر والوں ہی کی طرح معمولی ہی تھا مگر پھر اس کی اس غیرمعمولی طور پر معمولی زندگی اور اس کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔ بات محض سوچنے کی بیماری تک محدود رہتی تو شاید معاملہ اتنا خراب نہ ہوتا مگر وہ تو اب سوچنے کے ساتھ ساتھ سوال کرنے جیسی غلیظ عادت کا بھی شکار ہوگیا تھا۔ گھر والوں نے اس بیماری کی متعدی طبیعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فی الفور اس سے سماجی فاصلہ برقرار رکھنا شروع کردیا اور جس قدر بن پڑا اس کے علاج کے لئے کوششیں شروع کردیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی کارپوریٹ مینجرز کو دکھایا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اچھی سے اچھی نو سے پانچ بھی اسے سوال کرنے اور سوچنے کی علت سے دور نہیں کرپارہی تھی۔ اور نو سے پانچ پر ہی کیا موقوف، ہفتے کی چھٹی، سالانہ بونس،  اور بیرون ملک تعیناتی کے امکانات جیسے مجرب نسخہ جات جو کبھی اور کہیں ناکام نہیں ہوتے وہ بھی اس کی مرتبہ میں بےاثر ثابت ہوچکے تھے۔ سماج کے مروجہ اصول کے مطابق نصیحت کے نام پر ہر شخص اس سے مل کر اپنی اپنی مجروح انا کی مقدور بھر تسکین حاصل کرچکا تھا مگر وہ سدھرنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" تو بالکل بےجا نہ ہوگا کہ اب اس نے باقاعدہ طور پر منطق پڑھنا اور کہانیوں اور غزلیات کے نام پر فلسفہ بکنا بھی شروع کردیا تھا۔

مسلسل بیماری میں ساتھ دینے کا سفر درپیش ہو تو انسان کے مخلص ترین رشتے بھی ہانپ جاتے ہیں جبکہ یہاں تو محض دنیا دار رشتے تھے۔ اور یہ مسلسل بیماری اگر متعدی ہونے کا ڈر بھی لاحق ہو تو محض خدا ہی ایسے انسان کو مہمان بناسکتا ہے، انسانوں سے ایسے خدائی ظرف کی امید رکھنا کم عقلی کی معراج ہے۔ سو وقت کے ساتھ وہ اپنی بیماری کے ساتھ  ساتھ تنہائی کا بھی شکار ہوتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے بشری فطرت کے تقاضوں کے زیر اثر خود کو اس امید پر اپنی ہی ذات کے بے در منارے میں قید کرلیا کہ کوئی ایک، محض ایک انسان ایسا ہوگا جو اس کی فکر میں منار کی دیواروں کو توڑ کر دروازہ بنائے گا اور اسے اس خودساختہ قید اور تنہائی سے نجات دلا دے گا۔

اچھی امیدوں کا سب سے بڑا مسئلہ تب بھی یہی تھا کہ یہ ناہنجار اس وقت تک پوری نہیں ہوتیں کہ جب تک آپ ان کا دامن نہ چھوڑ دیں۔ گھڑی اور کیلنڈر کے حساب سے تو چند دن ہی گزرے ہوں گے مگر تنہائی کا ایک دن کیلنڈر کے تین سو پینسٹھ سال کے برابر ہوتا ہے اور اس اعتبار سے اس پر ہزارہا سال کا عرصہ بیت چلا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس پورے عرصے میں کوئی اس منار کے قریب نہ پھٹکا ہو۔ انجان اور پراسرار چیزیں عمومی لوگوں اور انسانوں کو یکساں طور پر متوجہ کرتی ہیں۔ کئی لوگ اس منفرد منارے کو دیکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے مگر منارے کے اردگرد گھوم کر جائزہ لینے اور کوئی داخلی دروازہ نہ پاکر بنانے والے انجینئر پر چار حروف بھیجنے کے بعد آگے بڑھ جاتے۔ ہر بار وہ انسانی آہٹ کو محسوس کرتا اور منار کی بلندی پر موجود اپنے کمرے کی کھڑکی سے نیچے جھانکتا اور آنے والے کی حرکات کا بغور معائنہ کرتا کہ وہ اس تک پہنچنے کے لئے کس حد تک جتن کرنے کے لئے تیار ہے اور بالآخر آنے والے کی مایوسی سے خود اپنے لئے بھی مایوسی کشید کرکے واپس اپنے بستر پر جا لیٹتا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کہ اس نے طے کر لیا کہ اب وہ محض تب خود کو زحمت دے گا کہ جب کوئی انسان واقعی منار میں در بنانے کے لئے کوئی عملی کوشش کرتا محسوس ہو۔ مگر مینار کو توڑنے کی کوشش کرنا تو دور، لوگوں نے وقت کے ساتھ اس منارے کے پاس بھٹکنا بھی چھوڑ دیا کہ جس میں اب وہ اور اس کی فراغت سے بھرپور تنہائی بسا کرتے تھے۔

ان ہزارہا برسوں میں فراغت کی طوالت سے تنگ آکر وہ اپنے خیالات کی زلفیں سنوارا کرتا تھا کہ مسلسل توجہ کے طفیل ان کی طوالت اب دسیوں گز ہوچکی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب کوئی مسیحا اس تک پہنچے تو وہ ان میں الجھ کر گر پڑے اور اس پکار پر لبیک نہ کہہ پائے۔ اور اس ہی مشغلے میں چند ہزار برس اس پر مزید بیت گئے یہاں تک کہ ایک دن اس نے منار کے نزدیک دوبارہ کسی انسان کی موجودگی کو محسوس کیا۔ اس سے پہلے کے نووارد منارے میں کوئی در نہ پاکر مایوس ہوکر لوٹ جاتا، اس نے ہمت کرکے کھڑکی میں سے آواز لگائی اپنی طویل زلفوں کو نیچے لٹکا دیا کہ اگر دیوار میں در بنانا مشکل ہے تو میری زلفوں کا سہارا لے کر ہی مجھ تک پہنچ جاؤ؟ نووارد نے اس کے بالوں کو کھینچ کر ان کی مضبوطی کا جائزہ لیا اور پھر  کچھ سوچ کر واپس لوٹ گیا۔

اس بار کی مایوسی اس کے لئے پہلے سے گراں تر تھی۔ اس سے پہلے کم از کم دل کو تسلی دینے کے لئے یہ خیال موجود تھا کہ اس نے خود کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر رکھا تھا۔ وہ اس تک پہنچنے کا نہ طریقہ جانتے تھے، نہ اس بات کی اہمیت۔ اب کی بار مگر اس نے نہ صرف خود صدا لگا کر لوگوں کو متوجہ کیا تھا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے خیالات کی زلفوں سے ان کو سہارا بھی دیا تھا کہ وہ اس تک پہنچ جائیں۔ شاید اس ہی لئے اس بار کی مایوسی میں خفت کے رنگ بہت نمایاں تھے۔

وہ بستر میں دراز خود کو اپنی اس حماقت کے لئے کوس ہی رہا تھا کہ اسے منار کے باہر بہت سے لوگوں کے بات کرنے کی بھنبھناہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے دوڑ کر کھڑکی میں سے جھانکا تو وہ پلٹ جانے والا انسان اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو ساتھ لئے کھڑا تھا۔ اسے کھڑکی میں آتا دیکھ کر ہجوم نے بیک زبان اس سے زلفیں کھڑکی سے باہر لٹکانے کی درخواست کردی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ لوگوں کو بتادے کہ اتنے سارے انسانوں کی اس تک پہنچ پانے کی خواہش رکھنا اب اسے اس منارے میں مقید رہنے کی ضرورت سے آزاد کرچکا ہے اور اب زلفیں لٹکانے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ وہ خود اب منار سے باہر آکر ان کے بیچ رہ سکتا ہے مگر ہجوم متواتر پکار کر اس سے زلفیں دراز کرنے کی درخواست کر رہا تھا۔ اس نے لوگوں کی خوشی کا خیال کرتے ہوئے زلفیں کھڑکی میں سے باہر لٹکا دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مجمع ان زلفوں پر ٹوٹ پڑا۔ اسے لگا کہ شاید وہ اپنی روایتی حماقت سے مغلوب ہوکر اسے بھی کوئی مقدس چیز سمجھ کر چومنا چاہتے ہیں مگر جیسے ہی مجمع تھوڑا تھما اور پیچھے ہٹا تو اس نے دیکھا کہ ان سب کے ہاتھوں میں قینچیاں موجود تھیں جن کی مدد سے ان میں سے ہر ایک نے مقدور بھر اس کی زلف کا حصہ کاٹ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجمع سے کچھ کہہ پاتا، ہجوم اس کا شکریہ ادا کرکے واپس پلٹ چکا تھا۔

اور اس دن کے بعد سے یہ روز کا معمول بن گیا۔ ہجوم روز منار کے گرد جمع ہوکر اس سے زلفیں لٹکانے کی درخواست کرتا اور وہ اس امید پر دن بھر کی محنت سے بڑھائی ہوئی اپنی خیالات کی زلفیں دراز کرتا کہ شاید ان سینکڑوں عمومیوں کے اندر کوئی ایک انسان موجود ہو جو قینچی ساتھ نہ لایا ہو اور واقعی منار کی بلندی سر کر کے اس تک پہنچنا چاہتا ہو مگر اچھی امیدوں کے بارے میں بیان آپ تین پیراگراف قبل پڑھ ہی چکے ہیں۔

وقت کے ساتھ اگر کچھ بدلا تھا تو بس یہ کہ جس ویرانے میں اس کی ذات کا یہ منار موجود تھا، وہاں اب ایک مکمل بازار سج چکا تھا کہ جہاں اس ہی کے بالوں سے بنی ہوئی وگ فروخت کی جاتی تھیں۔ تین چار بل بورڈ تھے کہ جن پر مشہور شیمپو کے اشتہارات چسپاں تھے۔ بالوں کی آرائش کی مصنوعات کے لئے ایک الگ قطار میں سات دکانیں موجود تھیں۔ اور دوسرے شہروں سے آنے والے فکری گنج پن کے شکار لوگوں کے لئے گیارہ عدد سرائے قایم تھیں جو اکثر اوقات گنجائش سے زائد مسافروں کو سنبھال رہی ہوتی تھیں۔

وہ اب اس روزانہ کی مشقت سے مایوس ہوچلا تھا۔ باہر اڑنے والی افواہوں کو سن کر اسے لگنا لگا تھا کہ لوگ اس کے خیالات کی زلفوں سے اپنے گھروں کو تو آراستہ کرسکتے ہیں مگر اپنے گھر میں اسے بلانا تو درکنار، خود اس کے گھر میں اس کے مہمان بننے کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔

اس بات کا صدمہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے سر کے بال جھڑنے لگے۔ وہ پورے دو دن تک کمرے میں بند اپنے بکھرے ہوئے بال سمیٹتا رہا اور کھڑکی میں بھی نہ جا سکا۔ دوسرے دن شام کو البتہ منار کے باہر سے احتجاج کی آوازیں اس حد تک بلند ہوگئیں کہ اسے صورتحال سمجھنے کے لئے کھڑکی میں آنا ہی پڑا۔ اسے یقین تھا کہ قسمت اتنے عرصے بعد بھی اتنی مہربان نہیں ہوسکتی کہ اس کی غیر موجودگی کا احساس لوگوں کو احتجاج کرنے پر مجبور کردے۔ وہ لوگوں کی بات دھیان سے سن کر اپنی رائے بنانا چاہتا تھا۔ اور جب کھڑکی میں آکر اس نے دیکھا تو باہر ہزارہا انسان سیاہ رنگ کے ماتمی بینر لئے کھڑے تھے جن پر مختلف انداز میں ایک ہی بات درج تھی کہ وہ کس درجہ کا کمینہ، نیچ، اور خودغرض انسان ہے کہ باہر ہزاروں لوگ اپنی ضرورت کے انتظار میں کھڑے ہیں جبکہ وہ کمرے میں بیٹھا اپنے بال سنوارتا رہتا ہے۔

اتنی صدیوں میں وہ اذیت کے ان گنت روپ دیکھ چکا تھا مگر کرب کی جو لہر اس وقت اس کے سراپے میں دوڑ رہی تھی وہ اس تکلیف سے یکسر ناآشنا تھا۔ اس نے اپنے بچے کھچے بال سمیٹ کر گردن کے گرد سے گزارتے ہوئے کھڑکی سے باہر لٹکائے اور کھڑکی بند کردی۔

ہجوم نے زلفیں نیچے آتی ہوئی دیکھیں تو ایک نعرہ مسرت بلند کیا اور دیوانہ وار ان کی طرف لپک پڑے۔ کچھ گرتے ہوئے ، اور کچھ گردن میں لپٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے آج زلفیں زمین تک نہیں پہنچ پائی تھیں مگر مجمع ناشکرے لوگوں کا نہیں تھا کہ جو اس بات کی شکایت کرتا۔ ان میں سے چند راہنما آگے بڑھے اور اچھل کر زلفوں سے لٹک گئے تاکہ اپنے وزن سے انہیں نیچے لاسکیں اور ایک عام مقتدی بھی ان سے فیضیاب ہوسکے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں ان افراد کے وزن سے وہ بوسیدہ عمارت بھوسے کی طرح اپنی ہی بنیادوں پر ڈھیر ہوچکی تھی۔ مگر کہنے والوں کا کیا؟ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے جب اس عمارت کا جنازہ اٹھا تو شہر بھر کے ہزارہا گنجے اس میں شریک تھے۔ اور اس کا ثبوت وہ تصاویر کے جو اس ملبے کے ڈھیر کے ساتھ وہ اپنے سوشل میڈیا پر لگائے بیٹھے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

بلاگ فالوورز

آمدورفت