خدا جانے علی ابن ابی طالب نے کس نقطہ نظر سے کہا تھا کہ "جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو" مگر وقت نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ احسان کرنے والے اکثر خلوص میں کئے گئے اپنے ہی وعدوں کے بوجھ تلے دب کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد دنیا احسان کے بوجھ تلے دبے بیچاروں پر محسن کشی کا تمغہ مزید سجا دیتی ہے۔
اس نے جب
آنکھیں کھولیں تو اپنے چار طرف صرف ملگجا اندھیرا ہی پایا تھا۔ اس تاریکی کا تعلق کسی سورج گرہن یا اس کی بصارت کے کسی خلل سے
نہیں تھا بلکہ یہ بات تو تب کی ہے کہ جب وہ رحمِ مادر میں ہی موجود تھا ۔ اور ویسے
بھی یہاں جس اندھیرے کا بیان ہے اسے دور کرنے کے لئے سورج کی روشنی نہیں بلکہ من
کی سچائی کا نور درکار ہوتا ہے جس سے وہ پیدائش سے قبل ہی محروم ہوچکا تھا۔
انسان نامی
مخلوق جسمانی سختیوں کی تاعمر عادی نہیں ہوپاتی مگر روح کے لئے تکلیف دہ چیزوں سے
تاعمر لذت کشید کرتی ہے۔ وہ بھی اپنے
اطراف پھیلے ہوئے اس ملگجے اندھیرے سے حظ اٹھایا کرتا تھا۔ ویسے بھی زندگی میں
تکلیف نام کی کون سی شے تھی؟ وقت پر خوراک مل جاتی تھی۔ نہ دفتر کی فکر تھی نہ
سکول یا مدرسے کی پڑھائی کی۔ ایک محبت کرنے والی ماں تھی جو گاہے بگاہے اسے پیغام
بھیج کر یقین دلاتی رہتی تھی کہ اس کے دنیا میں ظہور سے پہلے ہی کم از کم ایک
انسان اس سے اس حد تک محبت کرتا ہے کہ اس
کی نشو نما کے لئے اس کے وجود کو اپنے لہو تک سے سینچ سکتا ہے۔ سو اس تمام اندھیرے
کے باوجود وہ اپنی اس زندگی سے بے حد
خورسند ہے۔
مرنے کے بعد
کی تو خیر مارنے والا ہی جانتا ہے مگر
پیدائش سے پہلے اور زندگی کے اختتام تک کوئی بھی خوشی مستقل نہیں رہتی۔ موٹیویشنل سپیکرز کو سننے اور ماننے والے شاید اعتراض کریں کہ مستقل تو غم بھی نہیں رہتا
مگر فلسفے کے بنیادی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ غم کا مستقل نہ ہوپانا اپنی ذات میں ایک نہایت شدید اور
مسلسل غم ہے۔ مگر اس بنیادی نکتے کو سمجھنے کے لئے درکار دماغ کی موجودگی میں کون ناہنجار موٹیویشنل سپیکرز
کی افیم چاٹے؟ خیر! چونکہ کوئی خوشی مستقل
نہیں رہتی لہٰذا س کی خوشیاں بھی دیر پا ثابت نہ ہو پائیں اور اس کی تنہائی کی
مونس نے بھی دیگر خالقین کی طرح اس کو
جواب دینا اور اس سے بات کرنا پہلے کم اور پھر بالکل ہی چھوڑ دیا۔
توجہ کی بھوک نہ مٹنے کا شاید اس کو اتنا غم نہ
ہوتا جتنا احساس اسے اس بات کا تھا کہ وقت
کے ساتھ اس کو ملنے والی غذا کی مقدار اور معیار بھی کمتر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اس
نے کئی مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھائی،
اپنے تئیں جس طرح ممکن تھا احتجاج کیا ، مگر مخلوق کی خالق سے شکایات کا انجام جاننے کے لئے اس
کہانی میں سطور ضائع کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ہم میں سے ہر ایک اس انجام سے
بخوبی واقف ہے۔ سو جب حسب معمول شکایات ،احتجاج ، اور مناجات میں سے کچھ بھی کام
نہ آیا تو کسی بھی دیگر مخلوق کی طرح اس
نے بھی میسر پر گزارہ کرنا سیکھ ہی لیا۔
اس تمام عرصے
میں کہ جب توجہ اور غذا کی قلت اور پھر قحط پیدا ہو رہا تھا، عجیب بات یہ تھی کہ
اس کی نشو نما میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ٹھیک ہے کہ بہتر غذا کے ساتھ وہ اس سے
زیادہ نمو پاسکتا تھا مگر ایسا بہرحال
نہیں تھا کہ اس کا جسمانی ارتقا رک گیا ہو۔
ہاتھ پاؤں سمیت دیگر جسمانی اعضا ناصرف وجود میں آچکے تھے بلکہ وقت کے ساتھ اپنی ناتواں ہی سہی مگر مکمل شکل بھی
اختیار کر چکے تھے۔ وہ اب دنیا میں اپنی
آمد کے لئے مکمل تیار تھا۔
خواہشات کے
ہمیشہ مکمل ہوجانے والی جگہ کا نام اگر جنت رکھا گیا ہے تو خواہشات کے کبھی نہ پورا ہونے والی جگہ کا نام جہنم ہی
ہوگا؟ اور ان دونوں کے مابین دنیا نام کی ایک برزخ حائل ہے کہ جہاں خواہشات یا تو
کبھی مکمل نہیں ہوتیں اور اگر ہو بھی
جائیں تو ان کے مکمل ہونے سے عین پہلے اس خواہش کی خواہش ہی مٹ چکی ہوتی ہے۔ مگر تکنیکی اعتبار سے وہ ابھی دنیا میں نہیں
آیا تھا اور جنت، جہنم یا دنیا میں سے کسی
بھی جہان سے متعلق نہیں تھا ، لہٰذا اس کی خواہشات کو دنیا وی اعتبار سے اس کے
خالق کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ اپنے پورے
وجود اور اس کی بود کے ساتھ وہ اپنے خالق، اپنی ماں کے لئے بھی ایک بوجھ تھا جسے اصولی طور پر اب اس سے چھٹکارا حاصل کرلینا
چاہئے تھا مگر خدا جانے کیوں وہ اس بوجھ
کو میعاد پوری ہونے کے بعد بھی پیٹ میں اٹھائے گھوم رہی تھی اور جنم یا توجہ دونوں ہی دینے سے انکاری تھی۔
اس ہی یاس و بیم کی حالت میں آخر کار ایک دن اس
بچے نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے ننھے ننھے ناخنوں سے اپنے قید
خانے کی دیواروں کو کھرچنا شروع کردیا۔ ماں تلملائی تو بہت مگر خاموشی سے برداشت
کرتی رہی۔ اس نے جب یہ بے اعتنائی دیکھی تو غصے میں کھرچنے کی رفتار اور تیز کر
دی۔ رحم مادر کی دیواروں سے خون رسنا شروع ہوگیا۔ بھوکا تو یہ نجانے کب سے تھا ہی،
اس نے رستے ہوئے لہو کو چاٹتے ہوئے ناخنوں
کی رفتار کو اپنی بساط بھر تیز کردیا۔ رحم کی دیوار میں شگاف پید ا ہوگیا تھا اور رستا ہوا خون اب بہنا شروع ہوگیا تھا
۔ادھر ماں تکلیف سے بلبلا رہی تھی۔ اس نے
بہتے ہوئے خون پر منہ رکھ دیا اور پیٹ بھر پی چکنے کے بعد اپنی تمام تر طاقت بروئے کار لاتے ہوئے خود کو نیچے کی طرف دھکیل دیا۔ تھوڑی ہی دیر
بعد وہ محسن کش آزاد فضا میں سانس لے رہا تھا جبکہ اس کے سر کے اوپر ایک عورت کی
لاش پڑی ہوئی تھی جو کسی کو اس کی نشو نما
کے لئے اپنے لہو تک سے سینچنے کے وعدے تلے دب کر ہلاک ہوچکی تھی۔
خدا جانے علی
ابن ابی طالب نے کس نقطہ نظر سے کہا تھا کہ "جس پر احسان کرو اس کے شر سے
بچو" مگر وقت نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ احسان کرنے والے اکثر خلوص میں
کئے گئے اپنے ہی وعدوں کے بوجھ تلے دب کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد
دنیا احسان کے بوجھ تلے دبے بیچاروں پر
محسن کشی کا تمغہ مزید سجا دیتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں