Novel لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Novel لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 29 جنوری، 2014

تعاقب

ہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی، وہ کانپتی ہوئی اٹھ بیٹھی؛ شکر ہے یہ سب صرف ایک بھیانک خواب تھا

اس کا نام قانتہ تھا۔ وہ چوبیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی جو کراچی کے ایک پوش علاقے میں تنہا رہتی تھی۔ گذشتہ تین سال سے وہ ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی میں بطور "پریزنٹیشن اسپیشلسٹ" اور "میٹنگ فیسیلٹیٹر" کام کر رہی تھی۔ ویسے تو اس کا تعلق اسلام آباد سے تھا مگر کمپنی کا دفتر اور پھر کلائنٹس کی اکثریت کے کراچی میں ہونے کی وجہ سے اسے کراچی میں رہنا پڑ رہا تھا۔  اسلام آباد کے سکون سے کراچی کے شور تک کا سفر اس کیلئے آسان نہ تھا۔ بھیانک خوابوں کا یہ سلسلہ بھی شائد اس کے دماغ ہی کی کوئی سازش تھی تاکہ وہ ڈر کر ہی سہی مگر اپنے شہر کو واپس لوٹ جائے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اس شہر کی پرہنگام زندگی کو اپنا لیا تھا اور اب اسے اسلام آباد کا سکون سناٹے جیسا لگنے لگا تھا۔

زندگی اپنی تمام تر رنگینیوں اور بھرپور رفتار سے رواں دواں تھی جب وہ دن آیا۔ وہ ملک کے ایک بہت بڑے اور معروف ادارے کی سیلز کانفرنس کی میزبانی کر رہی تھی۔ سیلز کانفرنس کی میزبانی ہمیشہ سے اس کیلئے بڑا چیلنج رہا تھا۔ مرد اور ان کی ہوس بھری نگاہوں کی اب تک اسے عادت ہو چکی تھی مگر یہ سیلز والے ہمیشہ اسے اس کی برداشت سے باہر ہو جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ سیلز کے لوگوں کو صرف نمبرز اور کمیشن ہی کی ہوس نہیں ہوتی، ان کی ہوس ایک درجہ اوپر ہوتی ہے اور یہ ہوس صرف ایک چیز کی ہوتی ہے؛ ہر چیز۔ وہ اپنے غصے کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے تھی جب ہال میں وہ نوجوان داخل ہوا۔ وہ ایک تیس یا بتیس سال کا خیرہ کن حسن کا مالک نوجوان تھا۔ لمبا قد، یونانی نقوش، کسرتی جسم اور اس پر سرمئی رنگ کا ارمانی کا سوٹ پہنے ہوئے وہ نوجوان کسی یونانی دیوتا ہی کی طرح پر وقار طریقے سے اس کے سامنے سے ہوتا ہوا آکر سٹیج پر بیٹھ گیا۔

وہ چاہ کر بھی اس کی چہرے سے نظر نہیں ہٹا پا ئی تھی اور شاید نو وارد نے بھی اس کی غیر معمولی توجہ کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا تو وہ ایک لحظہ کیلئے جھینپ سی گئی۔ آنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ اس سیلز کانفرنس کروانے والے ادارے کا مالک اسد نامی جوان تھا۔ پروگرام کے دوران، وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس پر سے توجہ ہٹا نہیں پائی تھی۔ کچھ عجیب سا سحر تھا اس شخص میں، یا پھر وہ آنکھیں، اس نے اس سے پہلے ایسی آنکھیں کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔ اتنے خوبصورت نقوش کے ساتھ ایسی خالی آنکھیں اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔ ان آنکھوں میں زندگی اور جذبات نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔  یوں لگتا تھا جیسے وہ آنکھیں کھول کر سو رہا ہو۔ اس کی آنکھوں کی پہیلی حل کرتے ہوئے اسے انداذہ نہیں ہوا کہ وہ بار بار اس کی آنکھوں میں جھانک رہی ہے اور اسد یہ بات محسوس کر چکا تھا۔

سیلز کانفرنس ختم ہوئی اور وہ اپنی زندگی کی مصروفیات میں دوبارہ مگن ہو گئی تھی جب اچانک وہ ہولناک حادثہ ہوا۔ اس کا منگیتر ایک کار حادثے میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ وہ بہت شدت سے ٹوٹ گئی تھی۔  پہلے پہل تو اس نے خود کو دنیا سے الگ کر دیا تھا۔ سگریٹ کے دھویں میں وہ اپنے غموں کو اڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ جنید جو پچھلے تین سال سے اس کے ساتھ کام کر رہا تھا اس صورتحال سے بہت پریشان تھا۔ وہ قانتہ سے دل و جان سے محبت کرتا تھا مگر اس کے منگنی شدہ ہونے کی وجہ سے اس نے کبھی اس محبت کا اقرار قانتہ سے نہیں کیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ قانتہ زندگی کی طرف واپس آئے اور اس ہی لیئے وہ اب روزانہ اس سے ملنے اور اس کا حوصلہ بندھانے وہ اس سے ملنے آنے لگا۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ اب قانتہ کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ جانے والوں کے پیچھے زندگی ترک نہیں کی جاتی۔ وہ زندگی کی طرف پلٹنا شروع ہو گئی۔ اس نے آفس بھی دوبارہ جوائن کر لیا تھا اور اکثر اس کی شامیں جنید کے ساتھ ساحل پر گذرنے لگیں تھیں۔ وہ دونوں بہت تیزی سے قریب آرہے تھے۔ جنید تو پہلے ہی اس سے محبت کرتا تھا مگر قانتہ کو بھی اب اس کے جذبات کی قدر اور احساس ہو رہا تھا۔ وہ اس دوسری زندگی کے لئے جنید کی مشکور تھی۔

پچھلے کچھ دنوں سے قانتہ کو محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی شخص اس کا مسلسل تعقب کر رہا ہو۔ شروع میں تو اس نے اس کو اپنا وہم سمجھا مگر اس دن جب وہ دفتر سے گھر پہنچی تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر کے دروازے پر ایک لفافہ اس کا منتظر تھا جس میں  درج تحریر نے اس کے اوسان خطا کر دئے۔ یہ کوئی معمولی خط نہیں تھا۔ بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا مگر یہ خط اس نے خون سے تحریر کیا تھا۔ اس نامعلوم شخص نے اسے خبردار کیا تھا کہ احمر بھی محض اس سے تعلق کی بنیاد پر اپنی جان سے گیا تھا اور اگر اس نے جنید سے فاصلہ اختیار نہ کیا یا اس خط کے بارے میں کسی کو بھی اطلاع کی تو جنید اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ قانتہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کتابوں اور افسانوں میں پڑھے ہوئے اس قسم کے نفسیاتی کردار اصل زندگی میں بھی وجود رکھتے ہوں گے۔ اب اس کے سامنے صرف دو راستے تھے۔ یا تو وہ پولیس کو مطلع کرکے جنید کی جان خطرے میں ڈال دے جبکہ محض ایک خط کی بنیاد پر پولیس بھی کوئی کاروائی نہیں کر پاتی کیونکہ احمر کی موت کے تمام چشم دید گواہ پہلے ہی اسے محض ایک حادثہ قرار دے چکے تھے اور یہ خط پولیس کے پاس لے جانے سے بھی نہ احمر کو انصاف مل پاتا نہ جنید کی حفاظت کی کوئی زمہ داری۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اس خط کو محض ایک بھونڈہ مذاق سمجھ کر بھول جائے۔ زندگی بھر فلسفے اور منطق کے درس دینے والے اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں خود ان لیکچرز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے اس خط کو اگنور کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اگلے کچھ دن وہ جان بوجھ کر آفس کے باہر جنید سے ملنے سے کتراتی رہی۔ جنید نے اس تبدیلی کو محسوس کر لیا مگر اس کے بار بار پوچھنے پر قانتہ نے اس سے مصروفیت کا بہانہ کر لیا۔  پہلے اور دوسرے خط کے درمیان چار دن کا وقفہ تھا۔ وہ آفس سے گھر پہنچی تو دروازے پر لفافہ دیکھ کر اس کے جسم سے جان نکل گئی۔ وہ جانتی تھی اس سرخ لفافے میں پھر کوئی طوفان چھپا ہوگا۔ اس نامعلوم شخص نے اس بار پھر سیاہی کو زحمت نہیں دی تھی۔ اس سے بےپناہ محبت کے اظہار کے بعد اس شخص نے قانتہ کا شکریہ ادا کیا تھا کہ وہ جنید سے دور ہوگئی تھی اور اس کو ایک اور قتل کی مشقت سے بچا لیا تھا۔ قانتہ کا اس وقت یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے جنید کا نمبر ملایا اور ایک ہی سانس میں اسے پوری کہانی بیان کردی۔ جنید نے اس کو حوصلہ رکھنے کی تلقین کی اور سیدھا اس سے ملنے گھر پہنچ گیا۔ وہ دونوں کافی دیر تک اس صورتحال اور اس سے نکلنے کے منصوبے سوچتے رہے مگر کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ جنید دوبارہ آنے کا وعدہ اور احتیاط رکھنے کی تاکید کی اور گھر کے لئے نکل گیا۔ اسے کیا خبر تھی کہ یہ اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہو گا۔ گھر کے قریب ایک تیز رفتار گاڑی کی ٹکر نے اس کی موٹر سائکل اور خود اس کے وجود، دونوں کے چیتھڑے اڑا دئے تھے۔

یہ خبر جب قانتہ تک پہنچی تو وہ سکتے میں آگئی۔ اسے معلوم تھا کہ کہیں نہ کہیں احمر اور جنید دونو کی موت کی زمہ دار وہ خود تھی اور یہ سلسلہ ہر اس شخص تک دراز ہو جانا تھا جو اس کی زندگی میں آنے کی کوشش کرتا۔ اس نے ہار ماننے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اب مزید نقصانات اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ہر حرکت پر اس شخص کی نظر تھی سو اس بار اس نے خود اس شخص سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آفس کے لیے نکلتے وقت وہ دروازے پر چٹ لگانا نہیں بھولی تھی کے وہ اس نامعلوم شخص سے ملنا چاہتی تھی اور اگر وہ ملنے کے لئے تیار ہے تو اگلے خط میں اپنی مرضی کی جگہ اور مقام لکھ بھیجے جہاں وہ پہنچ سکے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ شخص اس سے ملنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا اور حسب توقع واپسی پر ایک جوابی لفافہ اس کا منتظر تھا۔ وہ انجان شخص اس سے ملنے کیلئے تیار تھا اور اس نے اسے رات 7 بجے ایک مشہور شاپنگ سینٹر پہنچنے کا کہا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ باقی تفصیلات وہ اسے وہاں پہنچنے پر بتا دےگا۔

 قانتہ نے گھڑی پر نظر ڈالی، اس کے پاس وہاں پہنچنے کیلئے اب صرف آدھا گھنٹہ بچا تھا۔ اس نے وہ تمام خطوط ایک جگہ جمع کیے اور ایک نوٹ لکھ کر گھر سے روانہ ہوگئی۔ اس نے نوٹ میں تمام خطوط کا حوالہ دے کر مینشن کر دیا تھا کے اگر وہ گھر نہ پہنچے تو اس شاپنگ مال کے سی سی ٹی وی کیمراز کی مدد لی جائے تاکہ احمر اور جنید کو انصاف مل سکے۔ گھر سے نکلتے وقت وہ اپنے بیگ میں اس تیز دھار خنجر کو رکھنا نہیں بھولی تھی جو کراچی آتے وقت وہ حالات کی وجہ سے اپنے ساتھ لائی تھی۔ آج شاید پہلی مرتبہ سہی معنوں میں اسے اس خنجر کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ مال میں پہنچ کر وہ حسب ہدایت ایک مشہور فوڈ چین کے باہر جا کھڑی ہوئی۔ اسے وہاں کھڑے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کا موبائل بجا۔ ایک نامعلوم نمبر کو دیکھ کر وہ ٹھٹکی مگر پھر اس نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے ایک بھرائی ہوئی آواز میں ایک شخص نے اس کا مال تک آنے کا شکریہ ادا کیا اور اس کو فون منقطع کیے بغیر دوسرے فلور پر موجود ایک موبائل کمپنی کے دفتر پہنچنے کا کہا ۔ وہ خاموشی سے ایلیویٹر کے زریعے دوسرے فلور پر پہنچ گئی مگر اس سے پہلے کے وہ موبائل کمپنی کے دفتر تک پہنچتی اسے پارکنگ لاٹ میں جانے کا کہہ دیا گیا۔ اس نامعلوم کالر نے اس سے زحمت کیلئے معذرت کی مگر پولیس یا کسی دھوکے سے بچنے کیلئے اس کا یہ کرنا ضروری تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی تمام ہدایات پر عمل کر رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک بار اس شخص سے مل لے اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی اجاڑنے والے سے انتقام لے سکے۔ انتقام ایک ایسی چیز جو شاید ہم میں سے ہر ایک سے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کروا سکتی ہے۔ اس کے پارکنگ لاٹ میں پہنچنے تک اس کالر کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی چال نہیں چل رہی اور یہاں اکیلی آئی ہے۔ پارکنگ لاٹ میں وہ بے مقصد چل رہی تھی جب کالر نے اسے دائیں ہاتھ پر موجود ایک سیاہ گاڑی میں جا کر بیٹھ جانے کو کہا۔ وہ خاموشی سے جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی جہاں اسد اس کا منتظر تھا۔

اس دن سیلز کانفرنس میں اس لڑکی کو دیکھتے ہی اسد اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ اسد ایک کامیاب کاروباری شخصیت کا بیٹا تھا جن اسد کے بچپن میں ہی طلاق ہو گئی تھی۔ ماں اور باپ کی باہمی نفرت کی چکی میں پستے ہوئے نجانے کتنے نفسیاتی عوارض بچپن سے ہی اس کی زات سے جڑ گئے تھے۔ بچپن کی اِن حرکات کو ضد اور اکھڑ پن کا پردہ ڈال کر ماں اور باپ دونو اپنی زمہ داریوں سے دامن چراتے رہے اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ مسائل بھی بڑے ہوتے چلے گئے۔ اسد دماغی اعتبار سے بہت ذہین مگر بلا کا ضدی اور خودسر واقع ہوا تھا۔ بچپن سے ہی اپنی پسندیدہ چیز کا حصول اس کی فطرت بن چکا تھا، چاہے حاصل کرنے کا طریقہ جائز ہو یا ناجائز۔ جو چیز اسے ایک دفعہ پسند آجاتی وہ اسے حاصل کر کے چھوڑتا تھا۔ اور اگر یہ حصول ناممکن ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ چیز کسی اور کو بھی نہ مل پائے۔ اس کی زندگی کی پہلی تین محبتیں جنہوں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا، پر اسرار طریقے سے ہلاک ہو چکی تھیں مگر اس کے شاندار منصوبہ کار دماغ کی وجہ سے پولیس زیادہ سے زیادہ اس پر شک ہی کر پائی تھی۔ چوری اگر پکڑی نہ جائے تو یہ بھی ایک فن ہے۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا تھا۔ قانتہ اس کی چوتھی محبت تھی اور وہ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک بار اس سے مل کر اس کو سمجھائے کہ وہ کن چھوٹے اور عام لوگو میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے جبکہ وہ اس جیسے زہین، خوبصورت، دولتمند اور کامیاب نوجوان کی ساتھی بن سکتی تھی۔ اس کام کیلئے راستے سے اس کے منگیتر کا ہٹنا سب سے زیادہ ضروری تھا کیونکہ اسد جانتا تھا کہ عورت کتنا بھی پڑھ لکھ جائے عورت ہی ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ دماغ جیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر دل جیسی بیکار چیز کو اہمیت دیتی ہے اور اگر ایک بار کسی سے منسوب ہو جائے تو اپنے تمام تر جذبات اس ہی سے منسوب کر دیتی ہے۔ آج اس کی راہ کے تمام کانٹے ہٹ چکے تھے اور آخر کار وہ دن آ گیا تھا جب قانتہ اس سے ملنے آگئی تھی۔

گاڑی میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ قانتہ جلدبازی میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی اور اسد فی الوقت اپنی کامیابی کے نشے میں چور تھا۔ گا ڑی اب شہر کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی اور تیزی سے اسد کے پینٹ ہائوس کی طرف رواں تھی جو اس نے آج کے دن کے حساب سے خصوصی طور پر مزین کروایا تھا۔ گا ڑی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی پینٹ ہائوس پر جا کر رک گئی۔ اسد نے خود اتر کر قانتہ کیلئے دروازہ کھولا اور اسے اندر لے آیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی جو منظر قانتہ کے سامنے آیا وہ اس کے وہم و گمان سے ماورا تھا۔ اس گھر کی ہر دیوار اور ہر کونا اس کی تصاویر سے مزین تھا۔ اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے، ہنستے، بولتے، کھاتے، پیتے، غرض اس کی ہر انداز اور ہر ادا کو کیمرے کی آنکھ سے لے کر اس گھر کی دیواروں پر منتقل کر دیا تھا۔ قانتہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی چاہی اور سراہی گئی تھی مگر اس شدت اور اس جنون کی چاہت کا تو خود اس نے بھی تصور تک نہیں کیا تھا۔ میں آپ کی خاطر کسی کی جان لے سکتا ہوں تو اپنی جان دے بھی سکتا ہوں، اسد کی آواز اسے کانوں سے زیادہ دل سے سنائی دے رہی تھی۔ "تم یہاں شکار ہونے نہیں بلکہ شکار کرنے آئی ہو" اس سے پہلے کہ وہ مکمل طور پر کمزور پڑ جاتی  اس نے خود کو سمجھایا مگر اب دل اور دماغ میں ایک عجیب کشمکش شروع ہو گئی تھی۔

اسد نے اسے ہال میں بٹھایا اور خود کچن کی جانب بڑھ گیا۔ قانتہ نے بیگ سے چاقو نکالا اور دبے قدمو اس کے پیچھے کچن میں جا پہنچی۔ اسد کھڑا سنک پر چائے کیلئے برتن کھنگال رہا تھا۔ قانتہ کے دل و دماغ کی جنگ شدت پکڑ چکی تھی۔ دماغ نے یاد دلایا کہ اس ہی شخص کی وجہ سے تم اپنی زندگی کے قیمتی ترین لوگو کو کھو بیٹھی ہو، اسے مار ڈالو، تو دل نے بے اختیار صدا دی کہ چاہا جانا اور اس شدت سے چاہا جانا تمہارا ہمیشہ سے خواب رہا ہے، ایسے عاشق نصیب والو کو ہی ملتے ہیں اس کو اپنے گذرے ہوئے کل کی وجہ سے جانے نہ دو ۔ قانتہ خنجر ہاتھ میں لئے اس ہی کشمکش میں الجھ رہی تھی کہ اسے احساس ہوا کہ سردی بہت شدید ہو رہی ہے۔ وہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی، وہ کانپتی ہوئی اٹھ بیٹھی؛ شکر ہے یہ سب صرف ایک بھیانک خواب تھا

سید عاطف علی
20- جنوری-2014

جمعرات، 2 جنوری، 2014

The Divine Peace

Note 1: I swear upon Lord Devil that despite having references from Qur’an this is not about how to be a good or practicing Muslim. Nor this would ask you to offer Prayers or Pay your charity. Relax and Enjoy

Note 2: I intended to write a blog but on the course of writing I realized that it would be an injustice to the topic if I summarize this just for the sake of summarizing. The topic demanded more than just a blog and hence I have opted to write a book on this. Enjoy this prologue.

 

Image

The Divine Peace

It was not until last night that this verse of Quran revealed its brightest of aspect to me. Like any other Muslim I had heard this famous verse in the Muslim weddings, `؛ وخلقناکم ازواجاAnd We have created everything in pairs’ but it was never to be considered of importance. They said, “If you want to completely ignore something, put it in the syllabus”, well said.

It was just another restless night and the virtual world that I had created as rendezvous for likeminded crazy souls, was as deserted as the soul I bear within. Being bored of being bored is the most boring thing for me. And it was one of those nights when you are actually bored of being bored. Surfing through internet I came across a meme which read, ‘Google is the biggest search engine and it knows the whereabouts of almost everything’. So I searched for Peace as this was the most desirable and dearest thing that was missing in life. Google had so many answers for this single word query. I have always had these two confusions spoiling my life. Either, when I don’t get an answer or when I have more than two answers to choose from.

As I have always been doing in life, I made a random click out of the options displayed on my computer screen and it took me to a discussion forum. It had a question posted by a user which truly represented my situation. The questioner had sought help in acquiring the peace that was missing in his life and the panel experts had responded to him with a detailed answered starting with the Famous Quran verse of “Truly, it is by the Remembrance of Allah that hearts find rest." [Qur'an, 13.28]”. Unfortunately this only increased my misery as I had been offering my prayers, had not been rigid with his creations, had always tried to be thankful, had been to his house in Mecca and yet I was stranded in search of peace. Something was terribly mistaken about the translation of this verse. It couldn’t be just calling his name that would bring me to peace; it has to be something more than that. Peace for me is like paradise; (or maybe it would only be a paradise because it would give you a divine peace). And things of that caliber don’t come so cheap. It can’t be earned through chanting some holy names (irrespective if it is Om or Allah Ho).

The next weeks to come were very disturbing. I have this annoying habit of keeping my mind focused on something until I get a satisfactory answer for it. At times it is good but at the others it gets terrible. I was in a continuous cycle of thinking, evaluating, discarding and rethinking the probable meaning of that key to divine peace and then it came to me that it might mean that somewhere in the words of God lays the key to divine peace and I have to look beyond this verse and into the complete book.

What happened in this journey, what was the key to divine peace, did I manage to get that? Stay tuned for the book :)

منگل، 24 دسمبر، 2013

تحفہ

(نوٹ: اس کہانی کے تمام نام، مقام اور کردار فرضی ہیں)

اچھے وقت کی سب سے بری چیز یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گذر جاتا ہے۔ کل ہی کی سی تو بات ہے جب میں خود اس ہی طرح رخصت ہو کر آئی تھی اور آج پچیس برس بعد ٹھیک اس ہی دن میں اپنی بیٹی کو رخصت کر کے آرہی ہوں، یقین ہی نہیں ہوتا! گاڑی کی سیٹ پر تقریباَ نیم دراز مسز حمید اپنی ہی سوچ پر مسکرا اٹھیں۔

مسٹر اور مسز حمید کا شمار ملک کے سب سے بڑے بزنس ٹائکونز میں ہوتا تھا مگر ان دونوں کی اصل وجہ شہرت ان کی کاروباری نہیں بلکہ نجی زندگی تھی۔ ان دونوں کے باہمی رشتے کی ایک دنیا مثال دیا کرتی تھی۔ پچیس سال کی اس رفاقت میں کبھی کسی رنجش کا نہ ہونا بذات خود اس رشتے اور تعلق کی نوعیت کا عکاس تھا۔ شادی کی شب ہی حمید صاحب کا کیا ہوا وعدہ کہ "آپ کے بعد میری زندگی میں اگر کبھی کوئی اور لڑکی آئی بھی تو وہ ہماری بیٹی ہو گی" کو حمید صاحب نے ہمیشہ نبھایا تھا۔ بیٹی کی شادی کا دن اپنی شادی کی سالگرہ کے دن کو منتخب کرنا بھی شاید اس ہی کی وجہ سے تھا۔

گاڑی کے ساتھ ساتھ یادوں کی ایک بارات بھی مسلسل رواں دواں تھی۔ عالیہ بختیار جو آج مسز عالیہ حمید کے نام سے جانی جاتیں تھیں نے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ان یادوں کے سپرد کر دیا۔

سیٹھ بختیار کا شمار خاندانی رئوسا میں ہوتا تھا اور عالیہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ کچھ تو اکلوتی ہونے کے ناتے اور زیادہ اپنی خوبصورتی اور حاضر دماغی کی وجہ سے وہ بچپن سے ہی ماں باپ کی لاڈلی تھی۔ بچے اگر چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں تو عالیہ شاید سونے کا ہیرے جڑا چمچ لے کر پیدا ہوئی تھی۔ بے تحاشہ وسائل، بے جا لاڈ اور مصروف والدین، ان میں سے ہر ایک چیز کسی بچے کو بگاڑنے کو کافی ہے اور جہاں یہ تینوں زہر قاتل اکٹھے ہو جائیں اسے عالیہ بختیار کہتے تھے۔
پی ٹی وی کے زمانوں میں بھی وہ صرف آٹھویں کلاس میں تھی جب اس نے سکول سے بھاگ کر پہلی ڈیٹ ماری تھی۔ اور اے لیول تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے عشاق اور ان سے کی گئی ان رومانوی ملاقاتوں کی تعداد تک بھول چکی تھی۔ زندگی اپنی رفتار میں مگن چل رہی تھی مگر پھر یونیورسٹی میں عالیہ کی ملاقات غضنفر سے ہوگئی۔ غضنفر کا تعلق انسانوں کے اس قبیلے سے تھا جو روزانہ کی بنیاد پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ جن کی زندگی میں کل، منصوبہ بندی، احتیاط وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اور پھر عالیہ کو شائد زندگی میں پہلی بار اپنے علاوہ کسی اور سے محبت ہو گئی۔ اسے لگنے لگا کہ جس ہیرے کی تلاش میں وہ اب تک کنکر کھنگالتی رہی تھی وہ اسے مل گیا ہے۔ غضنفر کی شکل میں اس کو اپنا ہمزاد مل گیا تھا۔ دونوں زندگی میں قیود کے قائل نہیں تھے اور محبت نامی بلا تو ہمیشہ سے حدود کی منکر رہی ہے۔ خبر جب تک سیٹھ بختیار تک پہنچی تب تک پانی سر سے بہت اوپر جا چکا تھا۔ عالیہ جو اب ایلی کے نام سے جانی جاتی تھی، کسی صورت غضنفر سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔

اس مسلسل ذہنی اذیت اور دبائو کا اثر ان کے بزنس اور صحت دونوں پر پڑ رہا تھا۔ بائیس سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ان کے ادارے نے کسی ٹینڈر میں حصہ لیا ہو اور وہ ان کے نام نہ نکلا ہو۔ بختیار صاحب کو احساس ہوگیا تھا کہ دنیا فتح کرنے کے اس سفر میں گھر کہیں بہت دور رہ گیا تھا۔

حالات شاید خراب تر ہو جاتے اگر ذیشان نام کا وہ مسیحا ان کے ذاتی مددگار کی نوکری کا انٹرویو دینے ان کے دفتر نہ آتا۔ گو کہنے کو ذیشان ایک پسماندہ شہر کے یتیم خانے سے اٹھ کر آیا تھا مگر اس کے اطوار بتاتے تھے کے اس کی رگوں میں کسی نجیب انسان کا خون تھا۔ نرم گفتار اور نرم خو تو وہ شاید بچپن سے ہی تھا اور یتیم خانے کی سختیوں نے اسے صابر اور شاکر بھی بنا دیا تھا۔ یتیم خانے میں رہنے اور وہیں پلنے بڑھنے کے باوجود اس نے تعلیم سے اپنا رشتہ نہیں توڑا تھا۔ مسلسل محنت کے بعد وہ پرائیوٹ بی اے کر چکا تھا اور انگریزی پر اس کی مہارت سے لگتا نہیں تھا کہ اس کا تعلق معاشرے کے محروم طبقے سے تھا۔

نوکری کا انٹرویو لیتے ہوئے بھی بختیار صاحب کا دماغ عالیہ ہی کی طرف الجھا ہوا تھا۔ انٹرویو میں وہی معمول کے دہرائے جانے والے سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا۔ ازدواجی حیثیت کے سوال کے جواب میں ذیشان کا یہ کہنا تھا چونکہ اس کی نہ کوئی شناخت ہے نہ خاندان، لہٰذا شہر تو کیا پورے ملک میں اسے کوئی نہیں جانتا اور اسے اپنی بیٹی دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ شائد ان دونوں کو اس وقت انداذہ نہیں تھا کہ یہ معمول کا سوال آنے والے وقتوں میں کس طرح ان دونوں کی ذندگی تبدیل کر دے گا۔

بختیار صاحب ذیشان کی لگن اور آگے بڑھنے کا جذبہ دیکھتے ہوئے اسے ایک موقع دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اور ہر گذرتے دن کے ساتھ ذیشان نے ان کے فیصلے کو درست ثابت کر دیا۔ وہ ایک سادہ مگر سچا، ایمان دار اور اپنے کام سے مخلص انسان ثابت ہوا تھا۔ تین ماہ کے قلیل عرصے میں ہی اس نے بختیار صاحب کے دل میں گھر کر لیا تھا اور وہ کام کے حوالے سے اس پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرنے لگے تھے۔ اسے آزمانے کے لیئے انہوں نے ذیشان کو کچھ ایسے کام بھی سونپے جن میں رقوم کا لین دین شامل تھا مگر وہ ہر بار بختیار صاحب کے اعتماد پر پورا اترا۔

وہ ایک معمول سا ہی دن تھا جب بختیار صاحب ظہرانے کے لیئے اپنے پسندیدہ ہوٹل پہنچے۔ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھتے ہوئے ان کی نظر پیچھے والی نشست پر پڑی جہاں ایک رومانوی جوڑا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر دنیا جہان سے بے نیاز ہو کر بیٹھا تھا۔ دل ہی دل میں ان کے والدین پر افسوس اور نوجوان نسل کی بے راہروی کو کوستے ہوئے وہ شائد بھول بیٹھے تھے کہ ان کی اپنی بیٹی اکثر اس ہی حالت میں پائی جاتی تھی۔ شاید ہم میں سے ہر ایک ہی اپنی غلطیوں کا بہترین وکیل اور دوسرے کی غلطیوں کا بہترین منصف ہوتا ہے- کھانے کا انتخاب کرتے ہوئے وہ ایک لحظہ کو ٹھٹکے جب پچھلی نشست سے ان کے نام کی آواز آئی۔ وہ لڑکا اس لڑکی سے ان کے متعلق کچھ بات کر رہا تھا۔ فطری طور پر اب بختیار صاحب کی توجہ کھانے سے زیادہ اس جوڑے کی گفتگو پر تھی۔ اگلے دس منٹ میں انہوں نے جو کچھ سنا وہ ان کے ہوش اڑانے کیلیئے کافی تھا۔ غضنفر نامی وہ نوجوان اس لڑکی کو یہ یقین دلانے میں مصروف تھا کہ اس نے شہر کے ایک بڑے رئیس بختیار صاحب کی اکلوتی بیٹی کو اپنے قابو میں کر لیا ہے اور بہت جلد اس سے شادی کر کے بختیار صاحب کی دولت ہتھیا لے گا۔ ایک دفعہ جائداد ہاتھ لگ گئی تو وہ عالی کو طلاق دے دے گا جس کے بعد وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لے گی۔

گفتگو کا ایک ایک لفظ ان کے کان میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر رہا تھا اور ان کے دماغ اس وقت شدید زلزلوں کی لپیٹ میں تھا مگر وہ ایک کامیاب کاروباری انسان تھے اور جانتے تھے کے جذبات میں کیئے گئے اکثر کام ندامت پر ختم ہوتے ہیں۔ بھوک تو کب کی اڑ چکی تھی سو انہوں نے کھانا کھائے بغیر ہی اٹھ جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی کے راستے اور پھر پورا دن یہی چیز ان کے دماغ پر سوار رہی اور دفتر سے نکلتے وقت تک اک کا منصوبہ ساز زہن ایک شاندار ترکیب سوچ چکا تھا۔

رات کے کھانے پر انہوں نے اہتمام کیا تھا کے پوری فیملی اکٹھی ہو۔ بہت عرصہ بعد ایسا ہوا تھا کہ کھانے کی میز پر وہ تینوں اکٹھے تھے۔ کھانے کے دوران بختیار صاحب خلاف معمول عالیہ سے اس کے معمولات اور پڑھائی کے بارے میں پوچھتے رہے اور پھر باتوں باتوں میں وہ گفتگو عالیہ کی شادی اور مستقبل پر لے آئے۔ مسز بختیار اس گفتگو کا منطقی انجام جانتی تھیں سو اٹھ کھڑی ہوئیں، مگر بختیار صاحب نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں واپس بٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عالیہ کے مستقبل کے لیئے ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس کا جاننا ان کے لیئے ضروری ہے۔ بختیار صاحب کا یہ کہنا کہ وہ عالیہ کی شادی غضنفر سے کرنے کیلیئے تیار ہیں، مسز بختیار اور عالیہ دونوں ہی کے لیئے حیران کن تھا۔ عالیہ تو ان کے گلے میں جھول ہی گئی۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بختیار صاحب نے عالیہ کو کہا کے وہ غضنفر کو لیکر اگلے دن ان کے دفتر آجائے۔

اس رات عالیہ خوشی کی وجہ سے سو نہ سکی۔ غضنفر، ان دونوں کی شادی، ایک حسین مستقبل، یہ سارے خیالات اس کو رات بھر جگانے کے لئے کافی تھے۔ خواب کا بھی عجیب معاملہ ہے، یہ کبھی امیر اور غریب میں تفریق نہیں کرتے اور جب تک خواب رہیں ایک جیسی ہی کسک دیتے ہیں۔ ایک میٹھی سی آگ ہی تو ہوتے ہیں یہ کہ جو بڑھ جائے تو یا تو کندن بنا چھوڑتی ہے یا یکسر خاک کر دیتی ہے۔ صبح اس نے غضنفر کو ساتھ لیا اور سیدھی باپ کے دفتر جا پہنچی۔ بختیار صاحب خلاف توقع بہت گرم جوشی سے ملے۔ غضنفر کے ساتھ ان کی گرم جوشی خود عالیہ کے لیئے بھی حیران کن تھی مگر وہ خوش تھی کے بالآخر ان کو غضنفر کے ساتھ اس کی بے پناہ محبت کا احساس ہو گیا تھا۔

دورانِ گفتگو کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اور خواجہ صاحب کمرے میں داخل ہو گئے۔ بیرسٹر خواجہ، بختیار صاحب کے پرانے وکیل تھے اور ان کے تمام قانونی امور وہی دیکھتے تھے۔ بختیار صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دوبارہ غضنفر سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ عالیہ جو اب اس سوال و جواب سے اکتا چکی تھی وہ خواجہ صاحب کی طرف متوجہ ہوئی۔ عالیہ بچپن سے ہی خواجہ صاحب کی نہایت چہیتی تھی اور وہ خود بھی انہیں خاندان کے ایک بزرگ کی طرح عزت دیتی تھی۔ ان کی بیٹی سمیرا اس کی بچپن کی دوست تھی اور شادی کے بعد آج کل انگلینڈ میں ہوتی تھی۔ سمیرا کے حال احوال سے فارغ ہو کراس نے خواجہ صاحب سے گھر نہ آنے کا شکوہ کیا۔ خواجہ صاحب نے کہا کے بس آپ کے بابا کی پراپرٹی کی منتقلی کا کام ہی اتنا زیادہ ہے کہ کسی چیز کا وقت ہی نہیں مل پا رہا۔ کمرے میں تھوڑی دیر کے لیئے خاموشی پھیل گئی۔ اب غضنفر بھی اپنی گفتگو کو بھول کر اس طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ عالیہ نے کہا، بابا آپ کہاں جا رہے ہیں جو یہ سب کاروبار اور جائداد میرے نام منتقل کر رہے ہیں؟ بختیار صاحب مسکرا کر بولے بیٹا میں جانتا ہوں غضنفر سے تمہاری محبت کی وجہ اس کی خودداری ہے اور وہ مجھ سمیت کسی بھی شخص سے تمہارے لیئے ایک روپیہ لینا گوارا نہیں کرے گا۔ بس یہی سوچ کر میں نے یہ ساری جائداد مختلف فلاحی اداروں میں بانٹ دی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کے میرے جانے کے بعد میری وجہ سے تمہارے رشتے میں کوئی تلخی آئے۔ غضنفر اپنی نشست پر بیٹھا شدید پیچ و تاب کھا رہا تھا مگر ماحول کو دیکھتے ہوئے سوائے مسکرانے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

اس ملاقات کے اگلے دن تمام ملکی اخبارات سیٹھ بختیار کا اپنی جائداد وقف کر دینے کا اعلان سرورق پر شائع کر رہے تھے۔ غضنفر کی رہی سہی امیدیں بھی اب دم توڑ گئی تھیں اور اب عالیہ کو برداشت کرنے کا کوئی جواز نہیں رہ گیا تھا۔ اس نے عالیہ سے مکمل طور پر ملنا چھوڑ دیا۔ یونیورسٹی میں اگر سامنہ ہو بھی جاتا تو وہ یوں انجان بن کر سامنے سے گذر جاتا جیسے کبھی جانتا ہی نہ ہو۔

شروع شروع تو عالیہ اُس کی اِس بے رخی کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی مگراس ناکام کوشش کے بعد وہ مسلسل ٹوٹتی چلی گئی۔ ٹھکرائے جانے کا احساس تو فرشتے کو بھی شیطان میں تبدیل کردیتا ہے اور یہ تو پھر عالیہ بختیار تھی۔ وہ مسلسل بدلے کی آگ میں جل رہی تھی اور تب ہی اس کی ملاقات حمید نامی ایک نوجوان سے ہوئی۔

غضنفر کا اصل روپ جاننے کے بعد بختیار صاحب نے ذیشان اور خواجہ صاحب کو اعتماد میں لےکر یہ کھیل کھیلا تھا۔ وہ جانتے تھے کے عالیہ میں غضنفر کی دلچسپی کی واحد وجہ اس کی متوقع جائداد اور کاروبار تھا۔ اخبار میں چھپی اس جھوٹی خبر نے ان کا کھیل ان کی امید سے زیادہ آسان کر دیا تھا۔ کھیل کے اگلے حصے میں ذیشان کو ایک نئی شناخت حمید کے نام سے دی گئی اور اس کو عالیہ کے قریب کیا گیا۔ ذیشان اس سب کے لیئے شائد کبھی تیّار نہ ہوتا مگر ایک لاچار باپ کی فریاد جو اپنی بیٹی کو کھائی میں گرنے سے روکنا چاہتا تھا، اسے مجبور کر گئی۔

عالیہ شاید اپنے حصے کی محبت کر چکی تھی مگر حمید کے شائستہ اطوار، دھیمہ اور سچا لہجہ اور اس کی آنکھوں میں جھلکتی شرم، یہ سب وہ چیزیں تھیں جو عالیہ نے اس عمر کے کسی لڑکے میں اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں۔ ایک عجیب سے پراسراریت تھی اس میں، جیسے وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہو مگر عالیہ کے ساتھ وہ اچھا مقرر بننے کے بجائے اچھا سامع بنا رہتا۔ اس نے بتایا تھا کے اس کی فیملی امریکہ میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئی تھی اور وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر وطن واپس آگیا تھا۔ عالیہ کو یقین ہو چلا تھا کے دکھ سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں فرق صرف شدت کا ہوتا ہے۔ اس نے بھی عالیہ کی طرح کوئی اپنا کھویا تھا اور شاید یہی درد کا رشتہ اس وقت ان دونوں کو قریب لا رہا تھا۔

حمید کے ساتھ اس کی ملاقاتیں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں۔ ایک دن حمید عالیہ سے ملنے یونیورسٹی آ پہنچا۔ وہ دونوں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب غضنفر کا وہاں سے گذر ہوا۔ عالیہ کی نظر اس پر پڑی اور دھوکہ نہیں کھا سکتی تھی، زندگی میں پہلی بار اس نے غضنفر کی آنکھوں میں جلن اور غصّہ دیکھا تھا۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب انتقام کی آگ میں اس نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اگلے ہی ہفتے وہ عالیہ بختیار سے عالیہ حمید ہو چکی تھی۔

شادی کے بعد بھی وہ غضنفر کو بھلا نہیں پائی تھیں۔ ان کی شادی کے بعد غضنفر نے یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔ انہیں لگتا تھا وہ انہیں کسی اور سے منسوب ہونے کی اذیت سہہ نہیں پایا تھا۔ دوسری طرف حمید ان سے واقعی بے پناہ محبت کرتا تھا۔ حمید نے انہیں محبت کا ایک نیا روپ متعارف کروایا تھا جو کم و بیش پوجے جانے سے جا ملتا تھا۔ مگر کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ پہلی محبت اس پینٹ کی طرح ہوتی ہے جس پر چونے کی جتنی تہیں چڑھا لو، آنسوئوں کی ایک بارش سے اندر کا اصل رنگ باہر آجاتا ہے۔

ان کی شادی کو دو سال ہو گئے تھے جب ایک دن ایک انجان نمبر سے پیغام آیا، غضنفر اس سے ملنا چاہتا تھا۔ دماغ کے بہت سمجھانے کے باوجود وہ خود کو روک نہیں پائیں۔ غضنفر بہت ابتر حال میں تھا۔ اس نے بتایا کے پولیس اسے دھوکہ دہی کے ایک جھوٹے مقدمے میں اٹھا کر لے گئی تھی اور پچھلے دو سال سے وہ ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہا تھا۔ قید کے ان دو سال نے اس سے عزت و گھربار دونوں چھین لیے تھے اور اب اس کے پاس نہ رہنے کو گھر تھا نہ جیب میں پیسے۔ عالیہ کو لگا کے وہ اپنے حصے کی سزا کاٹ چکا ہے۔ انہوں نے کھانے کا بل ادا کیا اور غضنفر کو ساتھ لے کر سیدھی اپنے ایک غیر آباد فلیٹ پر لے گئیں۔ فلیٹ کی صفائی اور راشن ڈلوانے کے بعد فلیٹ کی چابی اور کچھ پیسے غضنفر کے حوالے کیئے اور پھر آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئیں۔ محبت ایک واحد بیماری ہے جس میں انسان خوش ہو کر آنکھوں دیکھی مکھی نگل لیتا ہے۔

غضنفر کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اب وہ روزانہ دن کا ایک حصہ غضنفر کے ساتھ گذارتی تھیں۔ حمید صاحب کو اپنے پیچھے اٹھنے والے اس طوفان کی خبر تک نہ تھی۔ وہ اب بھی اس ہی طرح عالیہ سے محبت کرتے تھے اور دفتر میں مصروف دن گذارنے کے بعد ان کو بھرپور توجہ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ زندگی اس ہی طرح رواں تھی جب ایک دن خبر آئی کے غضنفر ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا ہے۔ عالیہ اس خبر کو سن کر بے ہوش ہو گئیں تھیں۔ جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں موجود تھیں۔ ڈاکٹر نے انہیں مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ کمزوری کی وجہ سے بےہوش ہو گئی تھیں اور انہیں اس حالت میں اپنا خصوصی خیال رکھنا چاہیئے۔ وہ ماں بننے والی ہیں۔

آنے والے دنوں میں انہیں غضنفر کی اصلیت کا بھی پتہ چل چکا تھا کہ وہ کس طرح دھوکہ دہی، اغوا برائے تاوان اور منشیات جیسی چیزوں کے کاروبار میں ملوث تھا اور جیل سے فرار ہو کر ان کی پناہ میں رہ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کا احساس شاید کسی کے ہاتھوں ٹھکرائے جانے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ عالیہ نے اب اپنی زندگی حمید صاحب اور اپنے آنے والے بچے کے نام کر دی تھی۔ حمید صاحب نے بھی اس خوشگوار تبدیلی کو محسوس کیا تھا اور ان کے التفات میں بھی واضح اضافہ ہو گیا تھا۔ اور پھر علیزہ ان کی زندگی میں آئی۔ جس دن وہ علیزہ کو لے کر گھر پہنچیں اس دن حمید صاحب نے ان سے دو وعدے کیے تھے۔ اول تو کہ ان کے بعد حمید صاحب کی زندگی میں کوئی لڑکی اگر قیمتی ہوئی تو وہ ان کی بیٹی ہوگی اور دوسرا یہ کہ علیزہ کی شادی والے دن وہ ان کی زندگی کا سب سے یادگار تحفہ دیں گے۔

زندگی کی کونسی نعمت یا خوشی ایسی تھی جوحمید صاحب نے ان کے قدموں میں نہ ڈھیر کی ہو۔ ہر مرتبہ مسز حمید کا یہی سوال ہوتا تھا کہ آیا یہی وہ تحفہ ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اور ہر مرتبہ وہ مسکرا کر یاد دلاتے کے آج علیزہ کی شادی نہیں ہے۔ اس ہی محبت بھری نوک جھونک میں بائیس برس بیت چکے تھے اور آج علیزہ کی شادی تھی۔ دیکھتے ہیں آج حمید صاحب کا سرپرائز اصل میں کیا نکلتا ہے۔ مسز حمید یادوں کی دنیا سے باہر آتے ہوئے ایک بار پھر مسکرا اٹھیں۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی جوّٰاد کا فون بجا تو اس نے ناگواری سے سوچا کہ کون احمق اس کی شادی کی رات کو تنگ کر رہا ہے مگر موبائل پر علیزہ کے گھر کا نمبر دیکھتے ہی اس نے کال اٹھا لی۔ دس منٹ بعد وہ اور علیزہ گھر کی طرف اڑے جا رہے تھے۔ گھرسے رحیم بابا کا فون تھا، حمید صاحب کا کچھ پتا نہیں چل رہا اور مسز حمید کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہیں۔ جب تک وہ لوگ گھر پہنچتے رحیم بابا ڈپلیکیٹ چابی سے کمرے کا دروازہ کھول چکے تھے جہاں مسز حمید فرش پر بے ہوش پڑی تھیں۔ علیزہ نے دوڑ کر ان کو اٹھایا اور رحیم بابا کو پانی لانے کے لیئے بھیجا۔ جواد کی نظر اس کھلے ہو ئے گفٹ پیک پر پڑی جس میں سے کچھ کاغذ جھانک رہے تھے۔ جواد نے وہ دستاویز باہر نکالی اور ایک لحظہ کو خود بھی ہکا بکا رہ گیا۔ حمید صاحب نے یادگار تحفے کے طور پر عالیہ کو طلاق دے دی تھی۔ دماغ میں طوفانوں کے جھکڑ کے ساتھ وہ اس سب کی وجہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس کی نظر طلاق نامے کے نیچے ایک اور کاغذ پر پڑی۔ یہ کسی ذیشان نامی شخص کی میڈیکل رپورٹ تھی جو پیدائشی بانجھ تھا۔

ختم شد۔

نوٹ: اس میں شاید ابھی کئی جھول ہیں- انشاءاللہ وقت نکال کر تصحیح کر دوں گا۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت