منگل، 24 دسمبر، 2013
تحفہ
اچھے وقت کی سب سے بری چیز یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گذر جاتا ہے۔ کل ہی کی سی تو بات ہے جب میں خود اس ہی طرح رخصت ہو کر آئی تھی اور آج پچیس برس بعد ٹھیک اس ہی دن میں اپنی بیٹی کو رخصت کر کے آرہی ہوں، یقین ہی نہیں ہوتا! گاڑی کی سیٹ پر تقریباَ نیم دراز مسز حمید اپنی ہی سوچ پر مسکرا اٹھیں۔
مسٹر اور مسز حمید کا شمار ملک کے سب سے بڑے بزنس ٹائکونز میں ہوتا تھا مگر ان دونوں کی اصل وجہ شہرت ان کی کاروباری نہیں بلکہ نجی زندگی تھی۔ ان دونوں کے باہمی رشتے کی ایک دنیا مثال دیا کرتی تھی۔ پچیس سال کی اس رفاقت میں کبھی کسی رنجش کا نہ ہونا بذات خود اس رشتے اور تعلق کی نوعیت کا عکاس تھا۔ شادی کی شب ہی حمید صاحب کا کیا ہوا وعدہ کہ "آپ کے بعد میری زندگی میں اگر کبھی کوئی اور لڑکی آئی بھی تو وہ ہماری بیٹی ہو گی" کو حمید صاحب نے ہمیشہ نبھایا تھا۔ بیٹی کی شادی کا دن اپنی شادی کی سالگرہ کے دن کو منتخب کرنا بھی شاید اس ہی کی وجہ سے تھا۔
گاڑی کے ساتھ ساتھ یادوں کی ایک بارات بھی مسلسل رواں دواں تھی۔ عالیہ بختیار جو آج مسز عالیہ حمید کے نام سے جانی جاتیں تھیں نے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ان یادوں کے سپرد کر دیا۔
سیٹھ بختیار کا شمار خاندانی رئوسا میں ہوتا تھا اور عالیہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ کچھ تو اکلوتی ہونے کے ناتے اور زیادہ اپنی خوبصورتی اور حاضر دماغی کی وجہ سے وہ بچپن سے ہی ماں باپ کی لاڈلی تھی۔ بچے اگر چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں تو عالیہ شاید سونے کا ہیرے جڑا چمچ لے کر پیدا ہوئی تھی۔ بے تحاشہ وسائل، بے جا لاڈ اور مصروف والدین، ان میں سے ہر ایک چیز کسی بچے کو بگاڑنے کو کافی ہے اور جہاں یہ تینوں زہر قاتل اکٹھے ہو جائیں اسے عالیہ بختیار کہتے تھے۔
پی ٹی وی کے زمانوں میں بھی وہ صرف آٹھویں کلاس میں تھی جب اس نے سکول سے بھاگ کر پہلی ڈیٹ ماری تھی۔ اور اے لیول تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے عشاق اور ان سے کی گئی ان رومانوی ملاقاتوں کی تعداد تک بھول چکی تھی۔ زندگی اپنی رفتار میں مگن چل رہی تھی مگر پھر یونیورسٹی میں عالیہ کی ملاقات غضنفر سے ہوگئی۔ غضنفر کا تعلق انسانوں کے اس قبیلے سے تھا جو روزانہ کی بنیاد پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ جن کی زندگی میں کل، منصوبہ بندی، احتیاط وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اور پھر عالیہ کو شائد زندگی میں پہلی بار اپنے علاوہ کسی اور سے محبت ہو گئی۔ اسے لگنے لگا کہ جس ہیرے کی تلاش میں وہ اب تک کنکر کھنگالتی رہی تھی وہ اسے مل گیا ہے۔ غضنفر کی شکل میں اس کو اپنا ہمزاد مل گیا تھا۔ دونوں زندگی میں قیود کے قائل نہیں تھے اور محبت نامی بلا تو ہمیشہ سے حدود کی منکر رہی ہے۔ خبر جب تک سیٹھ بختیار تک پہنچی تب تک پانی سر سے بہت اوپر جا چکا تھا۔ عالیہ جو اب ایلی کے نام سے جانی جاتی تھی، کسی صورت غضنفر سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔
اس مسلسل ذہنی اذیت اور دبائو کا اثر ان کے بزنس اور صحت دونوں پر پڑ رہا تھا۔ بائیس سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ان کے ادارے نے کسی ٹینڈر میں حصہ لیا ہو اور وہ ان کے نام نہ نکلا ہو۔ بختیار صاحب کو احساس ہوگیا تھا کہ دنیا فتح کرنے کے اس سفر میں گھر کہیں بہت دور رہ گیا تھا۔
حالات شاید خراب تر ہو جاتے اگر ذیشان نام کا وہ مسیحا ان کے ذاتی مددگار کی نوکری کا انٹرویو دینے ان کے دفتر نہ آتا۔ گو کہنے کو ذیشان ایک پسماندہ شہر کے یتیم خانے سے اٹھ کر آیا تھا مگر اس کے اطوار بتاتے تھے کے اس کی رگوں میں کسی نجیب انسان کا خون تھا۔ نرم گفتار اور نرم خو تو وہ شاید بچپن سے ہی تھا اور یتیم خانے کی سختیوں نے اسے صابر اور شاکر بھی بنا دیا تھا۔ یتیم خانے میں رہنے اور وہیں پلنے بڑھنے کے باوجود اس نے تعلیم سے اپنا رشتہ نہیں توڑا تھا۔ مسلسل محنت کے بعد وہ پرائیوٹ بی اے کر چکا تھا اور انگریزی پر اس کی مہارت سے لگتا نہیں تھا کہ اس کا تعلق معاشرے کے محروم طبقے سے تھا۔
نوکری کا انٹرویو لیتے ہوئے بھی بختیار صاحب کا دماغ عالیہ ہی کی طرف الجھا ہوا تھا۔ انٹرویو میں وہی معمول کے دہرائے جانے والے سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا۔ ازدواجی حیثیت کے سوال کے جواب میں ذیشان کا یہ کہنا تھا چونکہ اس کی نہ کوئی شناخت ہے نہ خاندان، لہٰذا شہر تو کیا پورے ملک میں اسے کوئی نہیں جانتا اور اسے اپنی بیٹی دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ شائد ان دونوں کو اس وقت انداذہ نہیں تھا کہ یہ معمول کا سوال آنے والے وقتوں میں کس طرح ان دونوں کی ذندگی تبدیل کر دے گا۔
بختیار صاحب ذیشان کی لگن اور آگے بڑھنے کا جذبہ دیکھتے ہوئے اسے ایک موقع دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اور ہر گذرتے دن کے ساتھ ذیشان نے ان کے فیصلے کو درست ثابت کر دیا۔ وہ ایک سادہ مگر سچا، ایمان دار اور اپنے کام سے مخلص انسان ثابت ہوا تھا۔ تین ماہ کے قلیل عرصے میں ہی اس نے بختیار صاحب کے دل میں گھر کر لیا تھا اور وہ کام کے حوالے سے اس پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرنے لگے تھے۔ اسے آزمانے کے لیئے انہوں نے ذیشان کو کچھ ایسے کام بھی سونپے جن میں رقوم کا لین دین شامل تھا مگر وہ ہر بار بختیار صاحب کے اعتماد پر پورا اترا۔
وہ ایک معمول سا ہی دن تھا جب بختیار صاحب ظہرانے کے لیئے اپنے پسندیدہ ہوٹل پہنچے۔ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھتے ہوئے ان کی نظر پیچھے والی نشست پر پڑی جہاں ایک رومانوی جوڑا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر دنیا جہان سے بے نیاز ہو کر بیٹھا تھا۔ دل ہی دل میں ان کے والدین پر افسوس اور نوجوان نسل کی بے راہروی کو کوستے ہوئے وہ شائد بھول بیٹھے تھے کہ ان کی اپنی بیٹی اکثر اس ہی حالت میں پائی جاتی تھی۔ شاید ہم میں سے ہر ایک ہی اپنی غلطیوں کا بہترین وکیل اور دوسرے کی غلطیوں کا بہترین منصف ہوتا ہے- کھانے کا انتخاب کرتے ہوئے وہ ایک لحظہ کو ٹھٹکے جب پچھلی نشست سے ان کے نام کی آواز آئی۔ وہ لڑکا اس لڑکی سے ان کے متعلق کچھ بات کر رہا تھا۔ فطری طور پر اب بختیار صاحب کی توجہ کھانے سے زیادہ اس جوڑے کی گفتگو پر تھی۔ اگلے دس منٹ میں انہوں نے جو کچھ سنا وہ ان کے ہوش اڑانے کیلیئے کافی تھا۔ غضنفر نامی وہ نوجوان اس لڑکی کو یہ یقین دلانے میں مصروف تھا کہ اس نے شہر کے ایک بڑے رئیس بختیار صاحب کی اکلوتی بیٹی کو اپنے قابو میں کر لیا ہے اور بہت جلد اس سے شادی کر کے بختیار صاحب کی دولت ہتھیا لے گا۔ ایک دفعہ جائداد ہاتھ لگ گئی تو وہ عالی کو طلاق دے دے گا جس کے بعد وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لے گی۔
گفتگو کا ایک ایک لفظ ان کے کان میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر رہا تھا اور ان کے دماغ اس وقت شدید زلزلوں کی لپیٹ میں تھا مگر وہ ایک کامیاب کاروباری انسان تھے اور جانتے تھے کے جذبات میں کیئے گئے اکثر کام ندامت پر ختم ہوتے ہیں۔ بھوک تو کب کی اڑ چکی تھی سو انہوں نے کھانا کھائے بغیر ہی اٹھ جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی کے راستے اور پھر پورا دن یہی چیز ان کے دماغ پر سوار رہی اور دفتر سے نکلتے وقت تک اک کا منصوبہ ساز زہن ایک شاندار ترکیب سوچ چکا تھا۔
رات کے کھانے پر انہوں نے اہتمام کیا تھا کے پوری فیملی اکٹھی ہو۔ بہت عرصہ بعد ایسا ہوا تھا کہ کھانے کی میز پر وہ تینوں اکٹھے تھے۔ کھانے کے دوران بختیار صاحب خلاف معمول عالیہ سے اس کے معمولات اور پڑھائی کے بارے میں پوچھتے رہے اور پھر باتوں باتوں میں وہ گفتگو عالیہ کی شادی اور مستقبل پر لے آئے۔ مسز بختیار اس گفتگو کا منطقی انجام جانتی تھیں سو اٹھ کھڑی ہوئیں، مگر بختیار صاحب نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں واپس بٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عالیہ کے مستقبل کے لیئے ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس کا جاننا ان کے لیئے ضروری ہے۔ بختیار صاحب کا یہ کہنا کہ وہ عالیہ کی شادی غضنفر سے کرنے کیلیئے تیار ہیں، مسز بختیار اور عالیہ دونوں ہی کے لیئے حیران کن تھا۔ عالیہ تو ان کے گلے میں جھول ہی گئی۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بختیار صاحب نے عالیہ کو کہا کے وہ غضنفر کو لیکر اگلے دن ان کے دفتر آجائے۔
اس رات عالیہ خوشی کی وجہ سے سو نہ سکی۔ غضنفر، ان دونوں کی شادی، ایک حسین مستقبل، یہ سارے خیالات اس کو رات بھر جگانے کے لئے کافی تھے۔ خواب کا بھی عجیب معاملہ ہے، یہ کبھی امیر اور غریب میں تفریق نہیں کرتے اور جب تک خواب رہیں ایک جیسی ہی کسک دیتے ہیں۔ ایک میٹھی سی آگ ہی تو ہوتے ہیں یہ کہ جو بڑھ جائے تو یا تو کندن بنا چھوڑتی ہے یا یکسر خاک کر دیتی ہے۔ صبح اس نے غضنفر کو ساتھ لیا اور سیدھی باپ کے دفتر جا پہنچی۔ بختیار صاحب خلاف توقع بہت گرم جوشی سے ملے۔ غضنفر کے ساتھ ان کی گرم جوشی خود عالیہ کے لیئے بھی حیران کن تھی مگر وہ خوش تھی کے بالآخر ان کو غضنفر کے ساتھ اس کی بے پناہ محبت کا احساس ہو گیا تھا۔
دورانِ گفتگو کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اور خواجہ صاحب کمرے میں داخل ہو گئے۔ بیرسٹر خواجہ، بختیار صاحب کے پرانے وکیل تھے اور ان کے تمام قانونی امور وہی دیکھتے تھے۔ بختیار صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دوبارہ غضنفر سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ عالیہ جو اب اس سوال و جواب سے اکتا چکی تھی وہ خواجہ صاحب کی طرف متوجہ ہوئی۔ عالیہ بچپن سے ہی خواجہ صاحب کی نہایت چہیتی تھی اور وہ خود بھی انہیں خاندان کے ایک بزرگ کی طرح عزت دیتی تھی۔ ان کی بیٹی سمیرا اس کی بچپن کی دوست تھی اور شادی کے بعد آج کل انگلینڈ میں ہوتی تھی۔ سمیرا کے حال احوال سے فارغ ہو کراس نے خواجہ صاحب سے گھر نہ آنے کا شکوہ کیا۔ خواجہ صاحب نے کہا کے بس آپ کے بابا کی پراپرٹی کی منتقلی کا کام ہی اتنا زیادہ ہے کہ کسی چیز کا وقت ہی نہیں مل پا رہا۔ کمرے میں تھوڑی دیر کے لیئے خاموشی پھیل گئی۔ اب غضنفر بھی اپنی گفتگو کو بھول کر اس طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ عالیہ نے کہا، بابا آپ کہاں جا رہے ہیں جو یہ سب کاروبار اور جائداد میرے نام منتقل کر رہے ہیں؟ بختیار صاحب مسکرا کر بولے بیٹا میں جانتا ہوں غضنفر سے تمہاری محبت کی وجہ اس کی خودداری ہے اور وہ مجھ سمیت کسی بھی شخص سے تمہارے لیئے ایک روپیہ لینا گوارا نہیں کرے گا۔ بس یہی سوچ کر میں نے یہ ساری جائداد مختلف فلاحی اداروں میں بانٹ دی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کے میرے جانے کے بعد میری وجہ سے تمہارے رشتے میں کوئی تلخی آئے۔ غضنفر اپنی نشست پر بیٹھا شدید پیچ و تاب کھا رہا تھا مگر ماحول کو دیکھتے ہوئے سوائے مسکرانے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
اس ملاقات کے اگلے دن تمام ملکی اخبارات سیٹھ بختیار کا اپنی جائداد وقف کر دینے کا اعلان سرورق پر شائع کر رہے تھے۔ غضنفر کی رہی سہی امیدیں بھی اب دم توڑ گئی تھیں اور اب عالیہ کو برداشت کرنے کا کوئی جواز نہیں رہ گیا تھا۔ اس نے عالیہ سے مکمل طور پر ملنا چھوڑ دیا۔ یونیورسٹی میں اگر سامنہ ہو بھی جاتا تو وہ یوں انجان بن کر سامنے سے گذر جاتا جیسے کبھی جانتا ہی نہ ہو۔
شروع شروع تو عالیہ اُس کی اِس بے رخی کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی مگراس ناکام کوشش کے بعد وہ مسلسل ٹوٹتی چلی گئی۔ ٹھکرائے جانے کا احساس تو فرشتے کو بھی شیطان میں تبدیل کردیتا ہے اور یہ تو پھر عالیہ بختیار تھی۔ وہ مسلسل بدلے کی آگ میں جل رہی تھی اور تب ہی اس کی ملاقات حمید نامی ایک نوجوان سے ہوئی۔
غضنفر کا اصل روپ جاننے کے بعد بختیار صاحب نے ذیشان اور خواجہ صاحب کو اعتماد میں لےکر یہ کھیل کھیلا تھا۔ وہ جانتے تھے کے عالیہ میں غضنفر کی دلچسپی کی واحد وجہ اس کی متوقع جائداد اور کاروبار تھا۔ اخبار میں چھپی اس جھوٹی خبر نے ان کا کھیل ان کی امید سے زیادہ آسان کر دیا تھا۔ کھیل کے اگلے حصے میں ذیشان کو ایک نئی شناخت حمید کے نام سے دی گئی اور اس کو عالیہ کے قریب کیا گیا۔ ذیشان اس سب کے لیئے شائد کبھی تیّار نہ ہوتا مگر ایک لاچار باپ کی فریاد جو اپنی بیٹی کو کھائی میں گرنے سے روکنا چاہتا تھا، اسے مجبور کر گئی۔
عالیہ شاید اپنے حصے کی محبت کر چکی تھی مگر حمید کے شائستہ اطوار، دھیمہ اور سچا لہجہ اور اس کی آنکھوں میں جھلکتی شرم، یہ سب وہ چیزیں تھیں جو عالیہ نے اس عمر کے کسی لڑکے میں اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں۔ ایک عجیب سے پراسراریت تھی اس میں، جیسے وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہو مگر عالیہ کے ساتھ وہ اچھا مقرر بننے کے بجائے اچھا سامع بنا رہتا۔ اس نے بتایا تھا کے اس کی فیملی امریکہ میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئی تھی اور وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر وطن واپس آگیا تھا۔ عالیہ کو یقین ہو چلا تھا کے دکھ سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں فرق صرف شدت کا ہوتا ہے۔ اس نے بھی عالیہ کی طرح کوئی اپنا کھویا تھا اور شاید یہی درد کا رشتہ اس وقت ان دونوں کو قریب لا رہا تھا۔
حمید کے ساتھ اس کی ملاقاتیں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں۔ ایک دن حمید عالیہ سے ملنے یونیورسٹی آ پہنچا۔ وہ دونوں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب غضنفر کا وہاں سے گذر ہوا۔ عالیہ کی نظر اس پر پڑی اور دھوکہ نہیں کھا سکتی تھی، زندگی میں پہلی بار اس نے غضنفر کی آنکھوں میں جلن اور غصّہ دیکھا تھا۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب انتقام کی آگ میں اس نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اگلے ہی ہفتے وہ عالیہ بختیار سے عالیہ حمید ہو چکی تھی۔
شادی کے بعد بھی وہ غضنفر کو بھلا نہیں پائی تھیں۔ ان کی شادی کے بعد غضنفر نے یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔ انہیں لگتا تھا وہ انہیں کسی اور سے منسوب ہونے کی اذیت سہہ نہیں پایا تھا۔ دوسری طرف حمید ان سے واقعی بے پناہ محبت کرتا تھا۔ حمید نے انہیں محبت کا ایک نیا روپ متعارف کروایا تھا جو کم و بیش پوجے جانے سے جا ملتا تھا۔ مگر کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ پہلی محبت اس پینٹ کی طرح ہوتی ہے جس پر چونے کی جتنی تہیں چڑھا لو، آنسوئوں کی ایک بارش سے اندر کا اصل رنگ باہر آجاتا ہے۔
ان کی شادی کو دو سال ہو گئے تھے جب ایک دن ایک انجان نمبر سے پیغام آیا، غضنفر اس سے ملنا چاہتا تھا۔ دماغ کے بہت سمجھانے کے باوجود وہ خود کو روک نہیں پائیں۔ غضنفر بہت ابتر حال میں تھا۔ اس نے بتایا کے پولیس اسے دھوکہ دہی کے ایک جھوٹے مقدمے میں اٹھا کر لے گئی تھی اور پچھلے دو سال سے وہ ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہا تھا۔ قید کے ان دو سال نے اس سے عزت و گھربار دونوں چھین لیے تھے اور اب اس کے پاس نہ رہنے کو گھر تھا نہ جیب میں پیسے۔ عالیہ کو لگا کے وہ اپنے حصے کی سزا کاٹ چکا ہے۔ انہوں نے کھانے کا بل ادا کیا اور غضنفر کو ساتھ لے کر سیدھی اپنے ایک غیر آباد فلیٹ پر لے گئیں۔ فلیٹ کی صفائی اور راشن ڈلوانے کے بعد فلیٹ کی چابی اور کچھ پیسے غضنفر کے حوالے کیئے اور پھر آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئیں۔ محبت ایک واحد بیماری ہے جس میں انسان خوش ہو کر آنکھوں دیکھی مکھی نگل لیتا ہے۔
غضنفر کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اب وہ روزانہ دن کا ایک حصہ غضنفر کے ساتھ گذارتی تھیں۔ حمید صاحب کو اپنے پیچھے اٹھنے والے اس طوفان کی خبر تک نہ تھی۔ وہ اب بھی اس ہی طرح عالیہ سے محبت کرتے تھے اور دفتر میں مصروف دن گذارنے کے بعد ان کو بھرپور توجہ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ زندگی اس ہی طرح رواں تھی جب ایک دن خبر آئی کے غضنفر ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا ہے۔ عالیہ اس خبر کو سن کر بے ہوش ہو گئیں تھیں۔ جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں موجود تھیں۔ ڈاکٹر نے انہیں مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ کمزوری کی وجہ سے بےہوش ہو گئی تھیں اور انہیں اس حالت میں اپنا خصوصی خیال رکھنا چاہیئے۔ وہ ماں بننے والی ہیں۔
آنے والے دنوں میں انہیں غضنفر کی اصلیت کا بھی پتہ چل چکا تھا کہ وہ کس طرح دھوکہ دہی، اغوا برائے تاوان اور منشیات جیسی چیزوں کے کاروبار میں ملوث تھا اور جیل سے فرار ہو کر ان کی پناہ میں رہ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کا احساس شاید کسی کے ہاتھوں ٹھکرائے جانے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ عالیہ نے اب اپنی زندگی حمید صاحب اور اپنے آنے والے بچے کے نام کر دی تھی۔ حمید صاحب نے بھی اس خوشگوار تبدیلی کو محسوس کیا تھا اور ان کے التفات میں بھی واضح اضافہ ہو گیا تھا۔ اور پھر علیزہ ان کی زندگی میں آئی۔ جس دن وہ علیزہ کو لے کر گھر پہنچیں اس دن حمید صاحب نے ان سے دو وعدے کیے تھے۔ اول تو کہ ان کے بعد حمید صاحب کی زندگی میں کوئی لڑکی اگر قیمتی ہوئی تو وہ ان کی بیٹی ہوگی اور دوسرا یہ کہ علیزہ کی شادی والے دن وہ ان کی زندگی کا سب سے یادگار تحفہ دیں گے۔
زندگی کی کونسی نعمت یا خوشی ایسی تھی جوحمید صاحب نے ان کے قدموں میں نہ ڈھیر کی ہو۔ ہر مرتبہ مسز حمید کا یہی سوال ہوتا تھا کہ آیا یہی وہ تحفہ ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اور ہر مرتبہ وہ مسکرا کر یاد دلاتے کے آج علیزہ کی شادی نہیں ہے۔ اس ہی محبت بھری نوک جھونک میں بائیس برس بیت چکے تھے اور آج علیزہ کی شادی تھی۔ دیکھتے ہیں آج حمید صاحب کا سرپرائز اصل میں کیا نکلتا ہے۔ مسز حمید یادوں کی دنیا سے باہر آتے ہوئے ایک بار پھر مسکرا اٹھیں۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی جوّٰاد کا فون بجا تو اس نے ناگواری سے سوچا کہ کون احمق اس کی شادی کی رات کو تنگ کر رہا ہے مگر موبائل پر علیزہ کے گھر کا نمبر دیکھتے ہی اس نے کال اٹھا لی۔ دس منٹ بعد وہ اور علیزہ گھر کی طرف اڑے جا رہے تھے۔ گھرسے رحیم بابا کا فون تھا، حمید صاحب کا کچھ پتا نہیں چل رہا اور مسز حمید کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہیں۔ جب تک وہ لوگ گھر پہنچتے رحیم بابا ڈپلیکیٹ چابی سے کمرے کا دروازہ کھول چکے تھے جہاں مسز حمید فرش پر بے ہوش پڑی تھیں۔ علیزہ نے دوڑ کر ان کو اٹھایا اور رحیم بابا کو پانی لانے کے لیئے بھیجا۔ جواد کی نظر اس کھلے ہو ئے گفٹ پیک پر پڑی جس میں سے کچھ کاغذ جھانک رہے تھے۔ جواد نے وہ دستاویز باہر نکالی اور ایک لحظہ کو خود بھی ہکا بکا رہ گیا۔ حمید صاحب نے یادگار تحفے کے طور پر عالیہ کو طلاق دے دی تھی۔ دماغ میں طوفانوں کے جھکڑ کے ساتھ وہ اس سب کی وجہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس کی نظر طلاق نامے کے نیچے ایک اور کاغذ پر پڑی۔ یہ کسی ذیشان نامی شخص کی میڈیکل رپورٹ تھی جو پیدائشی بانجھ تھا۔
ختم شد۔
نوٹ: اس میں شاید ابھی کئی جھول ہیں- انشاءاللہ وقت نکال کر تصحیح کر دوں گا۔
منگل، 17 دسمبر، 2013
زبان دراز کی ڈائری - ۲
ڈائری کی پہلی تحریر بھی کیا خوب رہی- اچھن میاں تو پڑھتے ہی کہہ اٹھے کہ میاں دنیا والوں کے لیئے اور تکالیف کیا کم تھیں کہ تم نے ڈائری اور لکھنا شروع کر دی؟ سخت بات کہنا ان کی خاندانی عادت ہے سو میں اب برا نہیں مانتا۔ قریشی صاحب جو محلے کے مانے ہوئے ادیب ہیں کو جب پتہ چلا کہ محلے میں ان کے علاوہ کسی اور نے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے تو بقولِ چناب غصہ سے جامنی ہی تو ہو کر رہ گئے- چناب کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش تو سرخ ہونے کی تھی مگر موجودہ رنگت کے حساب سے وہ صرف جامنی ہی ہو پائے- مجھے چناب پر ٹوکنے سے پہلے یہ خود فیصلہ کر لیں کے کیا واقعی ہم نے راوی کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ کوئی کام کر سکے؟؟ خدا جھوٹ نہ بلوائے،راوی سے زیادہ تو زکام میں ہمارے چھوٹے بیٹے کی ناک بہہ لیتی ہے۔ قریشی صاحب کے تعارف میں اتنی ہی بات کافی ہے کہ موصوف کا ایک خط ہمدرد نونہال میں چھپ گیا تھا اور تب سے انہوں نے خود ادیب [ظاہر ہے زبردستی] کہلوانا شروٰع کردوا دیا۔ بزرگوں نے سمجھایا بھی کے آپ کے نام کے ساتھ یہ ادیب کا لاحقہ میل نہیں کھاتا مگر جناب مصر تھے کہ جب "مرزا ادیب" ہو سکتے ہیں تو "قریشی ادیب" کیوں نہیں؟ نیز یہ کہ محلے کے سارے بزرگ تعصبی ہیں اور ایسے لوگوں سے قرض ادھار رکھنا کارِگناہ ہے۔ تِس پر تمام اہلیانِ محلہ نے مل کر ان کے اس خط کے قصیدے پڑھے اور تعریف کی باقاعدہ بالٹیاں برسائیں نیز قریشی صاحب کو ان تمام اوصاف جمیلہ سے بھی روشناس کرایا گیا جو ان کی بے حد محبت کرنے والی ماں بھی کبھی ان میں نہ دیکھ پائیں تھیں۔ قریشی صاحب کو ان تمام باتوں پر یقین آگیا اور محلے داروں کے گھر ایک بار پھر سے ادھار پر گوشت آنے لگا۔ خیر ہمیں کسی کی برائیوں سے کیا لینا دینا ویسے بھی ہم نہ تو پٹھان ہیں نہ غیبت خور کے پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کریں۔ واللہ اعلم بالصواب
آج ہمارے بیٹے کے سکول سے شکایت آئی تھی سو ہم سکول جا پہنجے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دستور بھی بدلتے جاتے ہیں[یا شاید وقت ایک جیسا رہتا ہے اور انسان بل جاتے ہیں؟] ، ہمارے زمانے میں فیل ہونے پر بچہ ذلیل ہوتا تھا آج کل اس ہی بات پر استاد ذلیل ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک دوست سے یہ بات کی تو کھسیانی ہنسی ہنس کر بولے "کیا کیجیئے صاحب۔ ہمارا پیشہ ہی ایسا ہے!" اور میں سوچتا رہ گیا کہ علم بانٹنا کب سے پیشہ بن گیا؟ ہمارے زمانے میں پیشہ کوٹھوں پر اور علم مکتب میں ملتا تھا مگر شاید اب مکتب میں بھی ۔۔۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، سو بہرحال ہم سکول پہنچ کر ان کے استاد سے ملے جن کا کہنا تھا ہمارے بیٹے کو اردو تلک ٹھیک سے نہیں آتی اور یہ ہر لَفَظ کا تُلفَظ غَلْط ہی کرتا ہے۔
فی الحال اجازت کے کل بیٹے کا داخلہ کرانے نئے سکول جانا ہے۔
والسلام
ایک اردو زدہ انسان
جمعرات، 12 دسمبر، 2013
زبان دراز کی ڈائری
ڈائری نہ لکھنے کی وجوہات میں خدانخواستہ ہماری کم سخنی یا وقت کی تنگی شامل نہیں، اصل سبب یہ احساس تھا کہ زمانے والے [آپ اسے تھانے والے بھی پڑھ سکتے ہیں] صرف ہماری سوچ کی بنیاد پر ہمیں نہیں پکڑ سکتے اور جب تک کوئی ثبوت نہ ہو ہماری قابل دست اندازیِ پولیس قسم کی سوچ بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
الحمدللہ نہ سوچ بدلی ہے اور نہ پولیس، بس ہم ایک کالعدم تنظیم میں شامل ہو گئے ہیں سو اب انشاءاللہ زمانہ کیا، تھانہ بھی ہمارا کچھ نہہں بگاڑ سکتا۔ سو آج سے ہم بھی بابا سید عاطف علی المعروف ڈائری والی سرکار کہلائیں گے۔
آج کا دن سائنس دانوں کے لیئے بھی بہت بڑا ثابت ہوا ہے۔ تقریباَ تیرہ سو سال کی انتھک محنت کے بعد اور خدا جانے کتنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر سائنس آج بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کے شیعہ اور سنی دونوں کا خون ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور دونوں کے لواحقین کو اپنے کسی عزیز کے جانے اور بالخصوص زبردستی بھیجے جانے پر ایک جتنی ہی تکلیف ہوتی ہے- مجھے تو خیر اس ساری ریسرچ سے ایک بہت گہری اور گھنائونی یہودی سازش کی بو آتی ہے- اس ہی وجہ سے میں کہتا ہوں ہم مسلمان ان ریسرچ جیسے فتنہ پرور چیزوں سے دور رہیں تو بہتر ہے۔
یہ خبر میں نے امیر صاحب کو بتائی تو بہت ہنسے، کہنے لگے: میاں! تو تم یہ کہ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ محشر میں مجھ سے واقعی یہ نہیں پوچھیں گے کے ابوطالب مسلمان تھے یا نہیں؟ اور کیا پل صراط پر شیعہ سنی ساتھ چلائے جائیں گے؟ لاحول ولا قوۃ
میرے دماغ میں جتنے وقتی وسوسے اس امریکہ مردود نے ڈالے تھے سب دور ہو گئے اور دل ایمان کی روشنی سے جگمگ جگمگ کرنے لگا۔ بعض حاسدوں نے اس کی وجہ اس حقیر نذرانے کو جانا جو امیر صاحب نے جیب خرچ کے لیے مجھے دیا تھا مگر لوگوں کا تو کام ہی باتیں بنانا ہے-
اس وقت تو مجھے اسکائپ پر ایک امریکی کافرہ کو مسلمان کرنے کیلیئے اس سے کچھ پیار بھری باتیں کرنی ہیں کہ مولانا صاحب نے سکھایا ہے کے دعوت کا کام ہمیشہ محبت سے کرنا چاہیئے- سو اب اجازت-
صدق اللہ العظیم
والسلام
ڈائری والی سرکار
منگل، 10 دسمبر، 2013
قائد کا خط میرے نام
قابل برداشت پاکستانیوں
میں نے بہت چاہا کے اس خط کا آغاز "میرے عزیز ہم وطنو" جیسی کسی چیز سے کروں مگر پھر یاد آیا کہ آج کل یہ جملہ کسی سویلین کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ پیارے پاکستانی لکھنے پر حکام جنت کو اعتراض تھا کہ یہاں دل رکھنے کے لیئے بھی جھوٹ بولنا منع ہے۔ جون ایلیاء تو مصر تھے کے اول تو یہ "بھان کے گھوڑے" اس قابل نہیں کے ان سے کلام کیا جائے، اور اگر اتنا ہی ضروری ہے تو "ابے او وغیرہ وغیرہ" جیسی کسی چیز سے اس خط کا آغاز کیا جائے؛ ان سے نظر بچا کر "قابل برداشت پاکستانیوں" لکھ رہا ہوں سو اس ہی کو غنیمت جانیں۔
خط کے آغاز میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آپ لوگوں کے عقیدے کے برخلاف ہر وہ جگہ جہاں بجلی نہ جائے اور خودکش دھماکے نہ ہوں اسے جنت نہیں کہتے۔
شاید آپ جاننا چاہتے ہوں گے کے یہاں سب کیسا ہے تو جنت میں بہت سکون ہے اور ہم سب بہت آرام سے ہیں سوائے علامہ صاحب کے؛ بیچارے آج کل بےخوابی کا شکار ہیں۔ جوش
صاحب کے پوچھنے پر بتایا کے ڈر لگتا ہے کے اگر سویا تو ہھر سے کوئی خواب نہ دیکھ لوں۔
پچھلے کچھ دنوں سے ایک صاحب روزانہ آ کر گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کل میں نے پوچھ ہی لیا کے وہ ہیں کون؟ بولے: پاکستانی ہوں! اقبال بے دھیانی میں پوچھ بیٹھے کہ "جنت میں کیا کر رہے ہو؟" ۔۔۔ شاید ناراض ہو گئے کیونکہ آج نظر نہیں آئے۔
ویسے تو مجهے شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں مگر علامہ صاحب کی وجہ سے مجبورا مشاعروں میں جانا پڑ جاتا ہے. ابهی پرسوں بهی فیض صاحب کے گھر مشاعرہ تھا اور خوب محفل رہی۔ یہاں کا مشاعرہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے کہ یہاں شعراء گھر سے پی کر نہیں آتے بلکہ سب اہتمام محفل میں ہی ہوتا ہے۔ جالب صاحب البتہ نہیں پیتے کہ سرکاری چیز خواہ شراب ہی کیوں نہ ہو حرام ہے، مولانا حالی نے سمجھانے کی کوشش کی تو سیخ پا ہو کر خوب شور کیا۔ گفتگو کیا رہی یہ تو شور میں سمجھ نہیں آئی البتہ ایک جملہ کچھ "میں باغی ہوں میں باغی ہوں" جیسا بار بار سنائی دیا۔
احمد ندیم قاسمی صاحب بتا رہے تھے کے آپ لوگو کی مجھ سے محبت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور انتہا یہ ہے کہ میری شکل دیکھے بغیر اب آپ لوگ کوئی کام نہیں کرتے؟ ناصر کاظمی نے کہا کہ مجھ پر بات آجائے تو لوگ خونی رشتوں کو میری تصاویر پر قربان کر دیتے ہیں؟ محسن نقوی نامعلوم کیوں پہلو بدلتے رہے اور آخر میں یارۃِ ضبط کھو کر بول اٹھے کے بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اب تو یہ صورتحال ہے کہ ناصر صاحب اچھے وقتوں میں چلے گئے ورنہ قائد کی چند تصویروں کے عوض یہ بھی ناصر کاظمی مرحوم کی جگہ شہید ناصر کاظمی کہلاتے۔ مجھے اس ساری گفتگو کی سمجھ نہیں آئی البتہ احباب کے سرخ چہروں سے میں نے سمجھا یہ میرے بارے میں اچھی گفتگو ہو رہی ہے۔
بیچارے جون ایلیاء، ناصر کاظمی، محسن نقوی، مصطفیٰ زیدی، جوش صاحب وغیرہ آج کل سخت پریشان ہیں اور چھپتے پھر رہے ہیں کے کسی مولوی نے کہا ہے کے کوئی حکیم اللہ صاحب جنت میں آنے والے ہیں۔ قرض ادھار کا معاملہ لگتا ہے- دعا کیجیئے گا!
والسلام
محمد علی
یہ ایک تخیلاتی خط ہے جو ہم پاکستانیوں کے نام قائداعظم محمد علی جناح نے لکھا ہے۔ پڑھتا جا شرماتا جا