Poet لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Poet لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 26 اپریل، 2014

شاعر کا المیہ

اب تو باز آجائو
یاسیت نہ پھیلائو

زیست خوبصورت ہے
صبح کتنی روشن ہے
چاند کتنا اچھا ہے
رات کتنی پیاری ہے

تم جو مجھ سے کہتی ہو
!!کتنا جھوٹ کہتی ہو

کیسے نہ لکھوں جاناں

وقت کے مصائب سب
جبر کے مراحل سب
امن، جنگ کے قصے
ذات، رنگ کے قصے
کیسے لوگ بٹتے ہیں
کیسے دین بکتے ہیں
کیسے مرد گرتے ہیں
کیسے جسم بکتے ہیں
کیسے روح سسکتی ہے
کیسے جاں نکلتی ہے
کیسے بھوک پلتی ہے

 کیسے نہ لکھوں یہ میں؟؟؟
چپ رہوں تو کیونکر میں؟؟؟ 

تم جو مجھ سے کہتی ہو

آج کے زمانے میں
شعر میں، فسانے میں
کوئی سچ نہیں سنتا
کوئی سچ نہیں لکھتا
سب ہی جھوٹ بکتے ہیں
سب ہی جھوٹ لکھتے ہیں
تم بھی جھوٹ لکھ ڈالو

تم جو مجھ سے کہتی ہو

جھیل جیسی آنکھیں وہ
مرمریں سا آہنگ وہ
شبنمی سا آنچل وہ
زلف جیسے بادل وہ
گال مثلِ خوباں سے
چال ۔۔ بھاڑ میں جائے

مجھ سے یہ نہیں ہوگا
باخدا نہیں ہوگا!!!

 روز جس کے آنگن میں
بھوک گشت کرتی ہے
روز جس کی گلیوں میں
موت رقص کرتی ہے
جس کے شہر میں ہر سو
بےحسی جھلکتی ہے
خون کیوں نہ تھوکے وہ؟
بال کیوں نہ نوچے وہ؟
چیخ کیوں نہ مارے وہ؟

ضبط وہ کرے کیونکر؟
جھوٹ وہ لکھے کیونکر؟ 

-سید عاطف علی
2013-اپریل-26

جمعہ، 14 مارچ، 2014

یادش بخیر

بہت مشہور شاعر تھا

بہت غزلیں لکھیں اس نے
بہت نظمیں کہیں اس نے
بڑے اشعار کہتا تھا
بہت مشہور شاعر تھا

پڑھا ہو گا بہت تم نے
سنا ہوگا بہت تم نے
بہت الفاظ تھے نادر
بہت سچا سا لہجہ تھا
بہت مشہور شاعر تھا

عجب اک درد تھا اس میں
عجب الجھن میں رہتا تھا
عجب رنگ تھا، عجب خو تھی
ہمیشہ کل میں رہتا تھا
بہت مشہور شاعر تھا

سر محفل جو ہنستا تھا
وہ تنہائی میں روتا تھا
نظم میں خوں رلاتا تھا
نثر میں گدگداتا تھا
بہت مشہور شاعر تھا

بہت مشہور قصہ ہے)
(مگر قصہ تو قصہ ہے

فشارِ خون کا لاوہ
سنا ہے پھٹ گیا کل شب
جو خوں کاغذ پہ بہتا تھا
وہ سچ مچ بہہ گیا کل شب
سنا ہے ۔۔۔۔۔ مرگیا کل شب

!!!بہت مشہور شاعر تھا

- سید عاطف علی
14- مارچ - 2014

پیر، 9 دسمبر، 2013

لفظ ۔۔۔

کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے وقت نیت یہ تھی کے کچھ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو اس مشکل زندگی میں سے آپ کے لیئے مسکراہٹ بھرے چند لمحے چرا لائے- میں شرمندہ ہوں کے ایسا نہ کر سکا!!!

اگر شاعر پیسوں سے نہیں الفاظ سے غریب ہوتا تو آج شاید میرا دیوالیہ نکلا ہوا ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی کاوش اس دعا کے ساتھ آپ کے نام ، کہ خدا کرے آپ کو اس نظم میں اپنا عکس نہ دکھائی دے۔

کچھ کہوں؟
کیا کہوں؟
خیر، ۔۔۔ جانے بھی دو
لفظ کب تھے میرے؟

[شاعری۔۔۔
ساحری۔۔۔
میرے بس کی نہیں ۔۔۔
چھوڑو ضد نہ کرو۔۔۔
دیکھو جانے بھی دو۔۔]
لفظ ہیں معجزہ
وقت پر مستعمل ہو سکیں یہ اگر
مردہ لاشوں میں بھی جان یہ ڈال دیں

لفظ قاتل بھی ہیں
یہ وہ سفاک قاتل ہیں جن کا ہنر
ہر زمانے سے تھا
ہر زمانے میں ہے ۔۔۔ صورت بے مثل

زخم جس کا کبھی
لگ کے بھرتا نہیں
یہ وہ ہتھیار ہیں
لفظ آزار ہیں

یہ کہاں ۔۔ میں کہاں؟
کیا کہوں؟ کیوں کہوں؟
گر جو چاہوں بھی تو
تم سے کیوںکر کہوں؟؟

میں نے سوچا ہے کہ
اب میں چپ ہی رہوں

عاطف علی
دسمبر- ۹ - 2013

[polldaddy poll=7629240]

بلاگ فالوورز

آمدورفت