Society لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Society لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 23 اپریل، 2017

زبان دراز کی ڈائری - 8

پیاری ڈائری!

زندگی میں کبھی یاوہ گوئی کی عادت نہیں رہی اور اب افسوس ہورہا ہے کہ کاش صحیح وقت پر کچھ مناسب گالیاں سیکھ لی ہوتیں تو اس شاعرِ جنوب کو ایک جوابی خط لکھ ڈالتا۔ مگر خیر جو ہوا سو ہوا۔

کل پاکستان سے کسی عاطف صاحب کا محبت نامہ ملا جس میں انہوں نے ملک کے حالات پر معافی مانگنے سے یکسر انکار کردیا تھا اور مُصِر تھے کے صرف شرمندگی سے ہی کام چلایا جائے۔ یقین ہوگیا کہ خط واقعی پاکستان سے ہی آیا ہے کیوںکہ اتنی گھٹیا اردو دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں بولی جاتی۔

خط پڑھ کر بہرحال حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی؛ خوشی اس بات کی کہ آج بھی چند لوگ ہیں جو پر امید ہیں اور حیرت اس بات پر کہ پاکستان میں اب بھی لوگوں کو اردو لکھنی یاد ہے؟ یہاں تو اب جتنے بھی پاکستانی آتے ہیں وہ سب تو رومن میں لکھتے ہیں۔ زبان ہی کے تذکرے پر پرسوں علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ اردو کی بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ امریکہ اسے قومی زبان کے طور پر قبول کرلے۔ خیر علامہ کے فلسفے تو علامہ ہی جانیں۔ مجھے بہرحال خط پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیاقت علی خان نے سمجھایا تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آج کل پاکستانی لیڈران کا سال میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنا فیشن میں ہے۔ خیر جناب، اللہ میاں سے اجازت لی اور ٹہلتے ٹہلتے رات کے کسی پہر کراچی پہنچ گیا۔

مزار سے باہر نکلا تو موٹرسائیکل پر سوار چند لڑکے نما مخلوق زناٹے سے برابر سے گزری۔ اگر سن اڑتالیس میں وقت پر ایمبولینس آگئی ہوتی تو اس بغیر سائلینسر کی موٹر سائکل ریلی کی آوازوں سے سن دو ہزار چودہ میں ضرور کام ہوجاتا۔ دیر تک وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حواس بحال کرتا رہا۔ ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک موٹرسائکل برابر میں آکر رکی اور اس پر سوار دو لڑکوں میں سے ایک نے بندوق نکال کر موبائل مانگ لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اول تو میرے پاس موبائل نہیں ہے کہ جنت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرا یہ کہ موبائل مانگنے کیلئے بندوق نکالنے کی کیا ضرورت؟ اگر آپ نے کسی کو کال ہی کرنی ہے تو مانگنے کے اور بھی عزت دار طریقے ہیں۔۔۔ حد ہوتی ہے!! نوجوان حیرت سے میری شکل دیکھ رہا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، اس کے پیچھے والے لڑکے نے اس کو کہنی مار کر کہا کہ "بڈھا خبطی ہے اور مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ خوامخواہ جان پہچان نکل گئی تو مسئلہ ہوگا، ٹائم کھوٹا نہ کر اور نکل"۔ پہلے والے نے جلدی سے موٹرسائکل کا گیئر ڈالا اور موٹرسائکل اڑا دی۔ عجیب نامعقول سے لڑکے تھے۔ اگر رک کر میری بات سن لیتے تو کیا پتہ ان ہی سے لفٹ مانگ کر آگے چلا جاتا۔

ان لڑکوں سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک خاتون آکر گلے پڑ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں کسی شاہ رخ خان سے ملتا ہوں اور اگر میں چاہوں تو یہیں "بابے کے مزار " کے ساتھ والے کمرے میں ان کے ساتھ جاسکتا ہوں۔ میں نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ یہ صرف پسینے کی وجہ سے میرا چہرا چمک رہا ہے اور ان کے خیال کے برعکس میں ویسا چکنا نہیں ہوں جیسا انہوں نے مجھے پکارا۔ دوسری بات یہ کہ میں اس ہی بابے کے مزار سے نکل کر آرہا ہوں اور یہیں ہوتا ہوں۔ وہ بیچاری پتہ نہیں کیا سمجھی اور کھسیانی ہو کر مجھے چند روپیے دینے کی کوشش کرنے لگی۔ میری تو خود یہ معاجرہ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر میں نے پھر بھی اسے سمجھایا کہ میں اس سے پیسے نہیں لے سکتا۔ وہ یہ کہتی ہوئی تیزی سے ایک طرف چلی گئی کہ بابو پتہ نہیں تھا آپ مینجمنٹ والے ہو آئندہ احتیاط کروں گی۔

ان ہی جھمیلوں میں اب رات کے بارہ بجنے والے تھے اور مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس شہر کو ہوکیا گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک مسلسل عجیب کردار ٹکرا رہے تھے۔ سر جھٹک کر میں نے توجہ مزار پر ڈالی تو میرا مزار برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ تیرہ اگست کی رات تھی اور اب چودہ اگست شروع ہونے ہی والی تھی۔ میں خوشی سے اپنے مزار کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی بھیانک آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ مجھے لگا کہ شاید ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، میں گاندھی کو کوستا ہوا واپس مزار کے اندر بھاگا تو اس مرتبہ گیٹ پر موجود گارڈ نے روک لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باہر اس طرح حملہ ہوگیا ہے اور اب اسے بھی مورچہ بند ہوجانا چاہیے تو اس مریض نے ایک طرف منہ میں بھرے خون کی کلی کری اور قمیض کے دامن سے منہ پونچھتے ہوئے بولا کہ چاچا پہلی بار چودہ اگست دیکھ رہے ہوکیا؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جشن آزادی اور چودہ اگست کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں مگر یہ حیوانوں کی طرح برتائو اور اس طرح اندھادھند فائرنگ سے کونسا جشن اور کون سی ملک کی خدمت کی جارہی ہے؟ جواب میں اس نے وہی خون آلود ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بولا، چاچا، چودہ اگست کو صرف یہ ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ سب درندے بھی آزاد ہوگئے تھے۔ اب جس درندے کے منہ میں اس ملک کے جسم کی جتنی بڑی بوٹی آتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لقمہ نوچ لیتا ہے۔ میں نے پوچھا، کہ کوئی ان درندوں کو روکتا کیوں نہیں؟ اس نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور ایک عجیب سا کتھئی رنگ کا مواد منہ میں رکھتے ہوئے بولا، چاچا، یہ ایک فلمی دنیا ہے۔ یہاں ہیرو ہیروئن بچانے کیلئے غنڈوں کو صرف اس لیئے روکتا ہے تاکہ پکچر کے اختتام پر وہی عزت وہ خود لوٹ سکے۔

اس ساری گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھ میں آنسو آگئے تھے۔ میں نے موضوع تبدیل کرنے کیلئے اس سے پوچھ لیا کہ یہاں تو قائد اعظم دفن ہیں تو یہاں اتنی بندوقوں کے ساتھ پہرے داری کرنے کی کیا ضرورت؟ وہ میرے قریب آیا اور میرے کان میں تقریباٗ پچکاری مارتے ہوئے بولا، چاچا، اگر یہ قائد غلطی سے بھی دوبارہ زندہ ہوگیا تو ملک کے حالات دیکھ کر انگریزوں کو ملک واپس کردے گا اور ساتھ میں معافی بھی مانگے گا۔ ہم بندوق لیکر اس ہی لیئے کھڑے ہیں کہ قائد نکل کر بھاگ نہ جائیں۔ ملک کی عزت کا سوال ہے، بڑی بدنامی ہوجائے گی۔

مجھے اب اس نامعقول انسان پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں نے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو جذباتی مار مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس لوٹ مار اور درندگی کے کھیل کے خلاف تمہارے اندر کس قسم کے جذبات ہیں۔ سچ سچ بتانا، تم اس ملک کو لوٹنے والوں کے ذکر پر آبدیدہ کیوں ہوگئے تھے۔ اس کمینے سپاہی نے روہانسی آواز میں جواب دیا، روئوں نہیں تو کیا کروں؟ سب کھا رہے ہیں، ایک ہمیں ہی موقع نہیں مل رہا بس!!

میں اس مردود لمحے کو کوس ہی رہا تھا جب میں نے نیچے آنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اچانک محل میں زلزلہ آگیا۔ اب جو دیکھا تو خود کو اپنے ہی محل میں بستر پر پایا۔ خوشی سے سجدہ شکر بجا لایا کہ یہ سب صرف خواب تھا۔ حوروں نے آکر بتایا کہ زلزلے کی وجہ کوئی جون ایلیاء نامی صاحب تھے جو دروازے پر لاتیں اور گھونسے برساتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ وہ علی گڑھ کا لونڈا یہیں رہتا ہے؟؟؟

جون صاحب کی ملاقات کا احوال پھر کبھی، فی الحال اجازت دو۔ کراچی سے جاتے جاتے ایک لفظ سیکھ کر آگیا ہوں، آئندہ کبھی کسی شاعر کا خط آیا تو میں بھی جواب میں لکھ بھیجوں گا ۔۔۔۔۔ کدو!!!

محمد علی

پیر، 20 فروری، 2017

پیر صاحب

جیل سے فرار ہوئے مجھے ایک ماہ سے اوپر ہوگیا تھا اور میں مسلسل بھاگتا پھر رہا تھا۔ گو کہ اس ایک ماہ میں میرا حلیہ کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا مگر مجھے ڈر تھا کہ پولیس نے میری تلاش میں اشتہارات نہ لگوا دیئے ہوں۔ پہچانے اور پھر دوبارہ پکڑے جانے کا خوف مجھے کسی بھی ایک جگہ زیادہ دن رکنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ اس ہی فرار کی حالت میں خدا معلوم کن رستوں سے ہوتا ہوا میں اس گائوں پہنچ گیا تھا۔
یہ ایک نہایت پسماندہ اور دور افتادہ گائوں تھا۔ بمشکل چند ہزار کی آبادی تھی اور سہولیات زندگی نہ ہونے کے برابر۔ آس پاس کے چار چار گائوں تک نہ کوئی سکول تھا نہ ہسپتال۔ گائوں کے لوگوں کو البتہ ان چیزوں سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ انہوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیا تھا اور اب وقت کے ساتھ اتنے سمجھدار ہوگئے تھے کہ کسی غریب کی طبیعت اگر زیادہ خراب ہو جاتی تو پیسے علاج پر خرچ کرنے کے بجائے تدفین کیلئے جوڑ لیئے جاتے تھے۔
سادہ سا گائوں تھا اور سادہ سے لوگ۔ یہاں ابھی تک ہاتھ باندھنے یا کھول کر نماز پڑھنے کے جھگڑے نہیں پہنچے تھے کہ یہ لڑائیاں وہاں ہوتیں جہاں نماز بھی ہوتی ہو۔ گائوں میں نہ کوئی مسجد تھی نہ مولوی! کبھی بھولا بھٹکا کوئی مولوی اگر آبھی جاتا تو ان گائوں والوں کی غربت دیکھتے ہوئے کسی ذیادہ منافع بخش جگہ کی تلاش میں آگے نکل جاتا تھا۔ شادی بیاہ اور میت کیلئے شہر سے مولانا صاحب بلائے جاتے تھے جبکہ روزمرہ کی زندگی کیلئے اللہ، رسول کے نام ان گائوں والوں کو معلوم تھے اور انکے لیئے یہی بہت تھے کہ مذہب ان کیلئے بس اتنا ہی اہم تھا کہ ان کے نزدیک جب زندگی میں کوئی راستہ نہ دکھے تو اللہ رسول کا نام لے کر رونے سے وہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اور اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو کچھ گائوں چھوڑ کر ایک پیر صاحب کا ڈیرہ تھا جہاں جاکر نذرانہ چڑھانے سے کام ہوجائے گا۔
جب میں گائوں میں داخل ہوا تو رات گہری ہوچکی تھی اور گائوں کے کتے تک سوچکے تھے۔ میں کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا گائوں کے وسط میں واقع ایک برگد کے نیچے جا کر لیٹ گیا۔ جسم پھوڑا بن چکا تھا اور تھکن کی وجہ سے مزید جاگنا محال تھا۔ میں نے چادر کاندھے پر سے اتاری اور منہ پر تان کر سو گیا۔
کب رات گزری اور کب صبح ہوئی مجھے احساس تک نہیں ہوا۔ جب آنکھ کھلی تو خود کو گائوں کے بوڑھوں اور بچوں میں گھرا پایا جو بڑی دلچسپی اور حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں ابھی تک نیم خوابی کے عالم میں ہی تھا اور کانونٹ کے دنوں کی بری عادت سے مجبور، بے دھیانی میں انگریزی میں ہی بات کرتا تھا۔
( میرا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اور اگر ریپ کے کیس میں پکڑا نہ جاتا تو آج میں بھی شہر میں ایک عزت دار زندگی گزار رہا ہوتا۔ تمام تر تعلیم اور تربیت کے بعد بھی میں اپنے اندر کے اس درندے کو روک نہیں پاتا تھا جو خواتین کو دیکھتے ہی میرے اندر بیدار ہوجاتا تھا۔ معاشرے کو بھی میری اس بیماری سے فرق نہیں پڑتا کہ میرے جرم کی اصل سزا یہ معاشرہ مجرم کو نہیں بلکہ جرم کا شکار ہونے والے مظلوم کو دیتا تھا۔ خودساختہ عزت بچانے کے ڈر سے کبھی کسی نے میرے خلاف رپورٹ نہیں کروائی تھی کہ اگر وہ غریب میرے خلاف تھانے جاتیں تو اول تو معاشرہ انہیں جینے نہیں دیتا اور دوسرا وہ بیچاری وہ چار گواہ کہاں سے لاتیں جو یہ کہتے کہ ہاں ہم نے بےغیرتوں کی طرح اس کی عزت لٹتے ہوئے دیکھی اور ہم نے اس وقت تو کچھ نہیں کیا مگر آج گواہی دینے آگئے ہیں۔ زندگی عیاشی میں گزر رہی تھی مگر غلطی سے میں نے ایک طاقتور کی بیٹی پر ہاتھ صاف کردیا۔ چار کی جگہ چار سو گواہ بھی آگئے اور کیس بھی اس لڑکی کے بجائے اس کی ملازمہ کی عزت لٹنے کا بنا۔ خود تو مردود صاف نکل گئی اور ہمیں عدالت نے سات سال کی بامشقت سزا سنادی۔)
میں نے انگریزی میں انہیں جھاڑا کہ تم یہاں کون سا تماشہ دیکھنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہو؟ میں کوئی چڑیا گھر کا جانور نہیں جسے اس طرح ہجوم بنا کر دیکھنے کیلئے تم لوگ یہاں جمع ہوئے ہو! دفع ہوجائو!!! گائوں والے سراسیمہ ہوکر اِدھر ادھر ہوگئے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں واپس آگئے۔ اس بار ان سب کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں جو وہ میری خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ گائوں کے بزرگوں نے واپس جاکر گائوں بھر کو خوشخبری دے دی تھی کہ اب علاج کیلئے چار کوس دور پیر صاحب کے پاس نہیں جانا پڑے گا کیونکہ خود ہمارے گائوں میں ایک اللہ لوک بزرگ تشریف لے آئے ہیں جو جنات کی بولی بھی جانتے ہیں۔
آنے والے چند ہی دنوں میں میں ایک نیم پکے مکان میں منتقل ہوچکا تھا جو گائوں کے چوہدری صاحب نے بطور خاص میرے لیئے بنوایا تھا۔ چوہدری صاحب خود تو اس گائوں میں نہیں رہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ گائوں والوں کو ان کی ذہنی اور جسمانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے میں میں کتنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہوں۔ مجھے بھی انکی نوازشات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ مجھے صرف کچھ وقت گزار کر یہاں سے آگے چلے جانا تھا۔ یہ پیری فقیری میرے بس کی چیز نہیں تھی اور کسی بھی دن اگر بھانڈہ پھوٹ جاتا تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔
گائوں کے لوگوں کو اب ایک نیا شغل اور امید مل گئی تھی۔ پیر صاحب کیا آئے، زندگی کے ہر مسئلے کا حل ان کے ہاتھ آگیا۔ وہ اپنی ذندگی کے تمام مسائل کا رونا اب میرے پاس آکر رونے لگے۔ مجھے صرف تین وقت کے کھانے اور وقتی پناہ سے مطلب تھا سو میں ان کی اس بکواس کو اس کھانے کی قیمت سمجھ کر سن لیتا۔ گائوں والے مجھ سے بہت خوش تھے۔ اندر کی تمام بھڑاس نکالنے کے بعد وہ قدرتی طور پر بہتر محسوس کرتے اور اسے میری کرامت سے منسوب کردیا جاتا۔ دوسری چیز جو میرے حق میں گئی وہ یہ تھی کہ آس پاس کے گائوں والے بھی اب دعا کروانے میرے پاس آنے لگے تھے جس سے گائوں والی کی عزت میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔
دن ہفتوں میں بدل گئے اور اب میں اس تماشے سے اکتانے لگا۔ میں اب گائوں سے روانگی اور آگے کی منازل کے بارے میں سوچنے ہی لگا تھا کہ کل میرے پاس گائوں کا ایک بے اولاد جوڑا آگیا۔ وہ دونوں اولاد نہ ہونے کے غم سے پریشان تھے۔ میں نے تسلی سے ان کی بات سنی اور انہیں یقین دلایا کہ میں ان کیلئے خصوصی دعا کروں گا۔ وہ دونوں خوشی خوشی وہاں سے اٹھ کر جانے لگے تو بدقسمتی سے اس کی بیوی کے چہرے سے چادر کھسک گئی۔ میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو میں نے اس ہی وقت اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ میں نے اس کے شوہر کو کہا کہ کل وہ اپنی بیوی کو میرے حجرے پر چھوڑ جائے کہ یہ معاملہ دعا سے زیادہ دوا کا ہے۔ مجھے ایک مخصوص عمل کرنا ہوگا جس کے بعد تم دونوں کو اولاد کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ ان دونوں میاں بیوی کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ وہ اگلے دن اپنی بیوی کو لانے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
پوری رات میں صبح ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اگلے دن میں نے صبح ہی اپنے خاص مرید کے ذریعے، آنے والے تمام لوگوں کو کہلوادیا کہ آج مرشد ایک خاص عمل کر رہے ہیں جس کیلئے انہیں تنہائی اور انہماک کی ضرورت ہے سو آپ لوگ اب کل آئیے گا۔ جب تمام مرید چلے گئے تو میں نے اس خاص خادم اور مرید کو بھی رخصت کردیا اور تیار ہوکر ان میاں بیوی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ وہ دونوں میاں بیوی بھی پہنچ گئے۔ میاں کو میں نے دروازے سے ہی رخصت کردیا اور اندر پہنچتے ہی اس عورت پر ٹوٹ پڑا۔ وہ بیچاری چپ چاپ سب کچھ سہتی رہی اور آخر میں اپنے آپ کو سنبھالتی، روتی ہوئی حجرے سے نکل کر بھاگ گئی۔
اس کے جانے کے بعد مجھے ہوش آیا کہ یہ میں کیا کر بیٹھا ہوں۔ اگر اس نے یہ بات اپنے شوہر کو بتادی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ان علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل ایک معمول کی بات تھی۔ میں تیزی سے باہر نکلا کہ اس سے پہلے وہ عورت جاکر اپنے شوہر کو یہ بات بتائے میں اسے پکڑ کر کسی طرح قائل کرلوں کہ یہ بات صرف ہم دونوں کے بیچ میں رہنی چاہیئے۔ جنت جہنم کی چار باتیں ان گائوں والوں کو ڈرانے اور للچانے کیلئے بہت تھیں کہ یہ لوگ جہنم سے بے انتہا ڈرتے تھے۔ میں بھاگتا ہوا جا رہا تھا کہ مجھے وہ عورت ایک کھیت میں داخل ہوتی ہوئی دکھی۔ میں تیزی سے اس کے پیچھے لپکا مگر اس سے پہلے کہ میں اس تک پہچتا وہ اپنے میاں تک پہنچ چکی تھی۔ میں وہیں پیچھے کھڑے ہوکر سننے لگا۔ وہ عورت رو رو کر اپنے شوہر کو بتا رہی تھی کہ اس سے ایک عظیم گناہ سرزد ہوچکا ہے اور اب وہ اس کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس کے شوہر نے اس کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیا ہوگیا؟ اس عورت نے جواب دینے کی کوشش کی مگر سوائے ہچکیوں کے کوئی آواز نہیں نکل پائی۔ تھوڑی دیر وہ اس ہی طرح دھاڑیں مارتی رہی اور پھر بمشکل سسکیوں کے درمیان بولی کہ اب وہ جہنمی ہوگئی ہے اور اب اپنے شوہر تو کیا کسی  انسان کے بھی لائق نہیں رہی ہے۔
میں کھیت میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور میرا خود کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ گائوں میں رکتا تو گائوں والے مار ڈالتے اور اگر گائوں چھوڑ کر بھاگتا تو پولیس مجھے نہیں چھوڑتی۔ مجھے جو بھی فیصلہ کرنا تھا نہایت سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔ میں تمام ممکنات کا جائزہ لے رہا تھا کہ اس عورت کے شوہر کی آواز ایک مرتبہ پھر آئی جو اپنی بیوی کو سمجھا رہا تھا کہ رونے سے کچھ نہیں ہوگا اور اسے اپنے شوہر پر بھروسہ کرتے اسے اعتماد میں لینا چاہیئے۔ وہ عورت بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے بولی، اب کچھ نہیں ہوسکتا! مجھے جہنم میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پیر صاحب جب عمل کر رہے تھے تو میری ناپاک ٹانگیں ان کی داڑھی مبارک پر لگ گئیں! تو خود بتا اب مجھے جہنم میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟ میں دم بخود ان کی گفتگو سن رہا تھا اور پھر میری آنکھوں نے ایک حیران کن منظر دیکھا۔ اس کے شوہر نے اس کا ہاتھ تھاما اور بولا، پیر صاحب بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں! چل کر مل کر ان سے بات کریں گے تو مجھے یقین ہے وہ تجھے معاف کردیں گے۔ چل آجا مرشد سائیں سے معافی مانگ کر آئیں۔
میں نے ایک مرتبہ پھر دوڑ لگادی۔ اس مرتبہ میرا رخ واپس اپنے حجرے کی طرف تھا جہاں میں باقی کی پوری زندگی اطمینان سے گزار سکتاہوں۔

بدھ، 10 ستمبر، 2014

ہیجڑا

اس ہجوم میں پھنسے ہوئے مجھے اب بیس منٹ ہونے کو آرہے تھے مگرٹریفک تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آج دن ہی خراب تھا۔ میرے دفتر کے ساتھی عاطف صاحب جو خیر سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں کے گھپلوں میں ملوث ہیں آج ترقی پاکر مجھ سے اوپر آگئے ہیں۔ ہم دونوں  ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں اور جب ان کی ترقی ہورہی تھی تو ادارے کے ڈائریکٹر نے مجھ سے بھی ان کے بارے میں رائے مانگی تھی کہ گھپلوں کی کچھ اڑتی اڑتی شکایات اس تک بھی پہنچی تھیں۔ میرا دل تو کیا کہ میں سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اگر بات باہر نکلی تو بلاوجہ کی دشمنی ہوجائے گی اور کراچی جیسے شہر میں کسی کا کیا بھروسہ؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی شخص کو معمولی سمجھتے ہوں اور اس کے تعلقات کسی برائے نام کالعدم تنظیم سے ہوں؟ یا پھر وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو جو کل کو آپ سے مخاصمت پال لے؟ میں نے ڈائریکٹر صاحب کو کہہ دیا کہ میں نے عاطف صاحب میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عاطف صاحب نہ صرف اس انکوائری سے باعزت باہر آگئے بلکہ کمپنی نے مزید بزمدگی سے بچنے کیلئے زر تلافی کے طور پر ان کی ترقی وقت سے پہلے ہی کردی۔ آج ہی پتہ چلا ہے کہ اگلے مہینے کی یکم تاریخ سے اب وہ میرے بوس ہونگے۔
صبح صبح یہ خبر سن کر ویسے ہی دماغ کی بتی بجھ گئی تھی اوپر سے جھوٹے منہ عاطف صاحب کو مبارک باد اور ان کے ناکردہ کارناموں کی تعریف بھی کرنی پڑ گئی۔ جب تک لنچ کا ٹائم آتا تب تک میرا موڈ مکمل طور پر خراب ہوچکا تھا۔ لنچ کے دوران سلمان صاحب اور احمد بھائی کے درمیان کی وہی فرقہ وارانہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی کہ دونوں میں سے کس کا مسلک زیادہ مظلوم ہے اور کس نے اب تک زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایک شام میں ہونے والے مظالم پر گریہ کناں تھا تو دوسرے کو بحرین کے مسلمانوں کا غم کھائے جارہا تھا۔ دل تو کیا کہ پوچھ لوں کہ آیا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے آج فجر کی نماز پڑھی ہے؟ پھر مگر خیال آیا کہ یہ ان دونوں کی ذاتی بحث ہے اور ایسے مباحثوں میں پڑ کر سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملنا۔ اگر غلطی سے بھی سلمان صاحب کے حق میں بول دیا تو احمد صاحب ناراض ہوجاتے اور اگر احمد صاحب کی کسی بات کی تائید کردیتا تو سلمان صاحب سے تعلقات منقطع کرنے پڑجاتے۔ بہتری جان کر میں خاموش ہورہا ورنہ دل تو یہ بھی کر رہا تھا ان دونوں کو قرآن کی وہ آیت یاد دلائوں جس میں مالکِ کائنات تمام غیر مسلموں کو یہ پیشکش کررہا ہے کہ آئو ہم تم (کم سے کم) ان باتوں پر متفق ہوجائیں جو ہم میں تم میں یکساں ہیں۔ ایک طرف دین غیر مسلموں سے مشترک چیزیں ڈھونڈ کر ایک جگہ اکٹھا ہونے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف دیندار ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ چیزیں جمع کرتے پھرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ ایک ہی مذہب کے دو مختلف مسالک نہیں بلکہ سراسر دو الگ ادیان ہیں۔ جتنی محنت ہم ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے میں کرتے ہیں اس کی آدھی محنت سے پوری دنیا مسلمان ہوسکتی تھی۔
بحث کے کثیف ماحول میں کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا گیا۔ واپس اپنی میز آگیا اور اس پریزنٹیشن پر کام کرنے لگا جو عاطف صاحب نے باس بننے کی پیشگی قسط کے طور پر میرے متھے مار دی تھی۔ تین گھنٹے کی عرق ریزی کے بعد جاکر وہ پریزنٹیشن تیار ہوہی گئی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ پاورجنریٹر کے زریعے بجلی بحال ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں فائل کو محفوظ کرنا بھول چکا ہوں اور کمپیوٹر مٰیں اب اس فائل کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جس کے پیچھے میں نے اپنی پوری دوپہر کالی کی تھی۔ بال نوچتے ہوئے نئے سرے سے کام کرنا شروع کردیا اور پھر کام ختم کرنے کیلئے دفتر میں بھی دیر تک رکنا پڑا۔
دفتر سے گھر پہنچا تو شدید بھوک لگی تھی۔ کافی عرصے سے گھر والوں کو بھی کھانے پر کہیں باہر نہیں لیکر گیا تھا اور یہ خیال بھی تھا کہ شاید باہر جاکر سب کے ساتھ اس طرح بیٹھ کر کھانے سے پورے دن کی کلفت دور ہوجائے گی۔ میں بیوی بچوں کو لیکر کھانا کھانے آگیا۔ کھانا بہت شاندار تھا اور واقعی سارے دن کی کلفتیں مٹاگیا۔ واپسی میں البتہ یہ ٹریفک ایک مرتبہ پھر میرا منہ چڑا رہا تھا جس میں میں اب گزشتہ بیس منٹ سے پھنسا ہوا تھا اور اگلے بیس منٹ تک بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
جب گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تنگ آگیا تو میں نے اتر کر صورتحال خود دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔  گاڑیوں کی طویل قطار کو عبور کرتا ہوا میں لوگوں کے اس ہجوم میں پہنچ گیا جو گھیرا بنا کر  کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ہجوم کے گھیرے میں ایک وڈیرہ نما انسان شراب کے نشے میں مخمور ایک زنخے کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے اپنی بیش قیمت پجارو میں بٹھانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ اس مریل سے زنخے نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اسے کوسنے دے رہا تھا اور اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا تھا مگر اس وڈیرے پر اس کی چیخ و پکار کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اسے بالوں سے پکڑ کر گاڑی کی جانب گھسیٹتا اور جواب میں وہ زنخا اپنی پوری جان لگا کر زمین سے چمٹنے کی کوشش کرتا اور بالوں کی تکلیف سے بےنیاز گاڑی سے دور جانے کیلئے اپنا پور زور لگا دیتا۔
معاملہ ویسے تو بالکل واضح تھا مگر میں نے ہجوم میں شامل ہونے کی روایت نبھاتے ہوئے برابر میں کھڑے شخص سے معاملہ پوچھا تھا تو اس نے بتایا کہ یہ ملک کے ایک نامور جاگیردار  ہیں جو اس وقت رنگین پانی کے خمار میں رنگین ہوگئے ہین۔   اشارے پر اس زنخے نے ان کے آگے دست سوال دراز کیا تھا اور اس دست سوال کے جواب میں جاگیردار صاحب دست درازی پر اتر آئے ہیں۔ میں  نے معصوم بنتے ہوئے پوچھا کہ کوئی ان صاحب کو روکتا کیوں نہیں؟ کچھ بولتا کیوں نہیں؟ اس شخص نے غصے سے مجھے دیکھا اور بولا کہ اتنی محبت جاگ رہی ہے تو تم روک لو؟ تم بول دو؟ ہم کم سے کم دل سے تو برا جان رہے ہیں اس برائی کو، اور بھلے کمتر سہی مگر یہ بھی ایمان کا ایک درجہ ہے۔ مزید کچھ کہہ کر میں مزید بے عزت نہیں ہونا چاہتا تھا سو میں بھی خاموشی سے ہجوم کے بیچ کھڑا تماشہ دیکھنے لگا۔
جاگیردار اور زنخا دونوں ہی تھک چکے تھے مگر دونوں ہی ہار ماننے کو تیار نہیں تھے، زاویہ الگ تھا مگر بات اب دونوں کی عزت کی تھی سو کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ان دونوں کی زور آزمائی جاری ہی تھی اچانک ہجوم میں ہلچل ہوئی اور ہجوم کو چیرتے ہوئے ایک اور زنخا اپنے ساتھی کی مدد کیلئے میدان میں کود پڑا۔ دو اور ایک کی لڑائی میں فتح دو کی ہی ہوئی اور نئے آنے والے زنخے نے نہ صرف اپنے ساتھی کو چھڑایا بلکہ اس جاگیردار کی بھی طبیعت صاف کردی۔ وہ جاگیردار اچھی خاصی مرمت کروانے کے بعد برے انجام کی دھمکی دیتا ہوا گاڑی میں سوار ہوکر بھاگ گیا۔
ہجوم چھٹنا شروع ہوا تو میں بھی بھاگ کر گاؑڑی میں سوار ہوگیا اور ہجوم کے مکمل چھٹنے کے بعد آہستہ آہستہ ٹریفک کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا۔  جب گاڑی اس اشارے  پر پہنچی جہاں یہ سب فساد ہورہا تھا تو اشارہ ایک بار پھر سرخ ہوگیا۔ میں اشارہ کھلنے کا انتطار کر ہی رہا تھا کہ شیشے پر دستک ہوئی۔ میں نے نظر پھیر کر دیکھا تو باہر سے آنے والا دوسرا زنخا بھیک کا طلب گار تھا۔ میں نے خاموشی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس کا ایک نوٹ اسے نکال کر دے دیا۔ جب وہ جانے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا؟ کل کو وہ جاگیردار اپنے گرگے لیکر آگیا تو؟ تمہارا تو یہ روز کا ٹھکانہ ہے، وہ کسی بھی دن موقع دیکھ کر بدلہ لے لے گا! اس زنخے نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا، صاحب! ڈرنے کیلئے ایک اللہ کی ذات کافی ہے! ان جیسے کتوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر ڈرو گے تو اور بھونکے گا اور اگر پلٹ کر پتھر مارو گے تو دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ روز ہی کسی جاگیردار اور غنڈے سے نمٹتے ہیں، اب کیا ان سے ڈر کر روز مرتے رہیں؟ ایک دفعہ کی تکلیف روز روز کے عذاب سے بہتر ہوتی ہے۔
اشارہ کھل گیا اور وہ زنخا بھی واپس فٹ پاتھ پر جاکر دوبارہ اشارہ بند ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ میں شاید ساری عمر ہی وہاں دم بخود کھڑا رہ جاتا مگر پیچھے سے آنے والے ہارن کے مسلسل شور سے میں چونک گیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گاڑی آگے بڑھی تو پیچھے والی سیٹ سے میرا نو سال کا بیٹا اپنی معلومات کا رعب جھاڑنے کیلئے سوالیہ انداز میں بولا، بابا یہ ہیجڑا تھا نا؟ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سچ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے جواب دیا، بیٹا یہ ہیجڑا نہیں تھا، یہی تو واحد مرد تھا!! ہیجڑے تو ہم ہیں!!!

جمعرات، 28 اگست، 2014

طوائف

میرا شمار ملک کے اس طبقہ اشرافیہ میں سے ہے کہ جو خود باشاہ بننے کے بجائے بادشاہ گر بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ گو کہ میرا تعلق کسی بھی ایک مخصوص سیاسی جماعت سے نہیں رہا مگر وقت اور حالات کی مناسبت سے مختلف سیاسی جماعتیں میرے در کی چوکھٹ چومتی رہی ہیں۔ میں نے بھی ان میں سے کسی سیاسی جماعت کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ اسمبلی میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت کرنے کا گر سیکھنے کے لیئے دور دور سے لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ خدا کا کرم شروع سے میرے ساتھ رہا ہے اور ملک کے وہ تمام ادارے جہاں اس ملک کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں، میرے دوستوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ اس دوستی کے پیچھے خلوص، محبت اور وفاداری کے علاوہ ان تحفوں کا تبادلہ بھی شامل ہے جو ہم دوست آپس میں کرتے رہتے ہیں۔ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہوتا ہے البتہ یہ تحائف کا لین دین ہی میری کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ اس وقت بھی میرے پاس ایک ایسے دوست کی جانب سے تحفہ آیا ہوا تھا جو آنے والے انتخابات میں ایک مشہور سیاسی جماعت کے ٹکٹ کا امیدوار تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس مشکل گھڑی میں صرف میں ہی اس کے کام آسکتا ہوں۔

اس تحفے کی عمر کوئی بیس بائیس سال رہی ہوگی۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ ہم دونوں اس وقت اسلام آباد کے نواحی علاقے میں موجود میرے فارم ہائوس پر بیٹھے تھے۔ اسلام آباد بھی کیا خوبصورت شہر ہے۔ کوئی نہایت ہی بذلہ سنج انسان تھا جس نے اس شہر کو اسلام آباد کا نام دیا تھا۔ جتنا اسلام اس شہر میں آکر برباد ہوا تھا اتنا تو تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد اور حسن ابن صباح کے ہاتھوں قلعہ الموت میں بھی نہیں ہوا ہوگا۔

ہم دونوں اس وقت میرے فارم ہائوس پر بیٹھے جام سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا تھا کہ انگور کی بیٹی کا اصل مزہ حوا کی بیٹی کے ہاتھ سے پینے میں ہے۔ اس وقت بھی ہم دونوں قمریوں کی طرح بیٹھے تھے اور وہ بھر بھر کر مجھے جام پلائے جارہی تھی۔ اچھے وقتوں میں کسی نے سکھایا تھا کہ انسان کو اوقات کے حساب سے عزت دینی چاہیئے ورنہ ایک محاورے کے مطابق کتوں کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔ برا ہو انگور کی بیٹی کا کہ میں اپنی سب فہم و فراست بھول کر اس نازک حسینہ کو جوابی جام پلانا شروع ہوگیا۔ اس غریب کو شاید اتنا پینے کی عادت نہیں تھی لہٰذا تیسرے ہی جام میں وہ اپنی اوقات پر آگئی!

پہلے تو وہ میری گود سے اتری اور پھر دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ میں سمجھا کہ یہ کوئی نئی ادا ہے کہ جس پیشے سے وہ جڑی تھی اس میں اصل کمال ادائوں کا ہی تھا۔ زندگی کی دی ہوئی وہ تمام تلخیاں جو میک اپ سے نہیں چھپ پاتیں، یہ طوائفیں اپنی ادائوں سے ان کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان بیچاریوں کو کیا معلوم کہ سامنے والا مرد اس وقت ہوس کی آگ میں اتنا اندھا ہوتا ہے کہ اگر ان کے جسم پر کوڑھ بھی نکل آئے تو بھی یہ اسے نہ چھوڑیں۔

پہلے تو کافی دیر تک وہ یونہی کھڑی مجھے دیکھتی رہی، پھر نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ وہ دوبارہ میرے پاس آگئی۔ اس بار میرے برابر میں بیٹھنے کے بجائے اس نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر کرسی پر رکھ دی اور جھک کر مجھ سے بولی، صاحب ایک بات بتائو۔ مجھے اس کی حرکت پر ہنسی آرہی تھی۔ وہ شاید پنجابی فلموں کی شوقین رہی تھی اور اس وقت سلطان راہی لگ رہی تھی۔ میں نے بڑے لگائو سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ، پوچھو؟ اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بولی، صاحب! آپ لوگوں کی زبان میں میری جیسی لڑکی کو کیا کہا جاتا ہے؟ میں نے اس کا دل رکھنے کیلئے ایک نسبتاّ قابل برداشت لفظ چنا اور اسے بتا دیا کہ اس کی جیسی لڑکیاں تحفہ کہلاتی ہیں۔ وہ ایک ادا سے مسکرائی اور بولی، صاحب کیوں دل رکھتے ہو؟ اگر میں تحفہ ہوں تو بستر میں وہ تحفہ کون تھی جسے آپ بار بار طوائف کہہ کر پکار رہے تھے؟ میں ایک لحظہ کیلئے جھجکا مگر پھر مجھے اپنا اور اس عورت کا مقام یاد آگیا۔ میں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اس یاد دلادیا کہ وہ دراصل کون ہے اور اس کے ہم پیشہ لوگوں کا اس معاشرے میں اصل مقام کیا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک کرب بھری مسکراہٹ آئی جسے دباتے ہوئے اس نے ایک اور سوال داغ دیا۔ اس بار اس نے کمال معصومیت سے مجھ سے پوچھا کہ، صاحب! زنا تو دو لوگ مل کر کرتے ہیں! پھر صرف طوائف ہی کیوں گالی ہوتی ہے؟ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اگر گفتگو اس ہی طرح جاری رہی تو میرا رہا سہا نشہ بھی بیکار ہوجائے گا۔ میں نے ایک ہی دفعہ میں اسے سمجھانے کا تہیہ کرلیا۔ اس کی لامبی چوٹی کو پکڑ کر میں نے اس کو اپنے قریب کھینچا اور اس کے کان میں بولا کہ، گالی زنا کی وجہ سے نہیں بلکہ ہر دوسرے دن اپنے مقصد کیلئے تمام اصولوں اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی نئے انسان کے ساتھ سونے کی وجہ سے ہے۔ اس کے چہرے پر شدید تکلیف کے آثار تھے مگرخدا جانے کہاں سے وہ مسکرانے کی ہمت لے آئی اور میری طرف رحم آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی، صاحب! اگر طوائف کی یہی تعریف ہے تو ملائیں ہاتھ! اس لحاظ سے تو ہم دونوں ہی طوائف ہیں!!

اس حرام زادی کو گھر سے نکالے ہوئے تین گھنٹے ہوگئے ہیں۔ واڈکا کی پوری بوتل خالی کر چکا ہوں مگر سکون ہے کے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جاتے جاتے وہ میرے چہرے تھوک کر چلی گئی ہے، رنڈی سالی!!!!

ہفتہ، 26 اپریل، 2014

شاعر کا المیہ

اب تو باز آجائو
یاسیت نہ پھیلائو

زیست خوبصورت ہے
صبح کتنی روشن ہے
چاند کتنا اچھا ہے
رات کتنی پیاری ہے

تم جو مجھ سے کہتی ہو
!!کتنا جھوٹ کہتی ہو

کیسے نہ لکھوں جاناں

وقت کے مصائب سب
جبر کے مراحل سب
امن، جنگ کے قصے
ذات، رنگ کے قصے
کیسے لوگ بٹتے ہیں
کیسے دین بکتے ہیں
کیسے مرد گرتے ہیں
کیسے جسم بکتے ہیں
کیسے روح سسکتی ہے
کیسے جاں نکلتی ہے
کیسے بھوک پلتی ہے

 کیسے نہ لکھوں یہ میں؟؟؟
چپ رہوں تو کیونکر میں؟؟؟ 

تم جو مجھ سے کہتی ہو

آج کے زمانے میں
شعر میں، فسانے میں
کوئی سچ نہیں سنتا
کوئی سچ نہیں لکھتا
سب ہی جھوٹ بکتے ہیں
سب ہی جھوٹ لکھتے ہیں
تم بھی جھوٹ لکھ ڈالو

تم جو مجھ سے کہتی ہو

جھیل جیسی آنکھیں وہ
مرمریں سا آہنگ وہ
شبنمی سا آنچل وہ
زلف جیسے بادل وہ
گال مثلِ خوباں سے
چال ۔۔ بھاڑ میں جائے

مجھ سے یہ نہیں ہوگا
باخدا نہیں ہوگا!!!

 روز جس کے آنگن میں
بھوک گشت کرتی ہے
روز جس کی گلیوں میں
موت رقص کرتی ہے
جس کے شہر میں ہر سو
بےحسی جھلکتی ہے
خون کیوں نہ تھوکے وہ؟
بال کیوں نہ نوچے وہ؟
چیخ کیوں نہ مارے وہ؟

ضبط وہ کرے کیونکر؟
جھوٹ وہ لکھے کیونکر؟ 

-سید عاطف علی
2013-اپریل-26

بلاگ فالوورز

آمدورفت