Politics لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Politics لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 23 اپریل، 2017

زبان دراز کی ڈائری - 10

پیاری ڈائری!
آج میرا ڈائری لکھنے کا قطعاّ کوئی ارادہ نہیں تھا مگر کیا کرتا۔ کچھ درد اگر قرطاس پر منتقل نہ کیئے جائیں تو جسم کے اندر ہی گھائو بنا کر بس جاتے ہیں اور پھر گھائو سے لاوہ بنتے انہیں کب دیر لگتی ہے؟ اور لاوے کی فطرت تو تم جانتی ہی ہو کہ یہ یا تو اندر ہی اندر چٹان کو کھاتا رہتا ہے یا پھر ایک ہی دفعہ باہر نکل کر سب کچھ برباد کر چھوڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ درد کو درد ہی رہنے دیا جائے اور اسے رگوں سے نچوڑ کر قرطاس پر منتقل کردیا جائے۔
میں جانتا ہوں تمہیں ان سب سنجیدہ چیزوں کی عادت نہیں ہے اور مجھ سے یہ باتیں سننا تمہیں ضرور حیران بلکہ شاید کچھ حد تک پریشان  بھی کر رہا ہوگا۔ مگر میں کیا کروں کے آج کوشش کے باوجود بھی میں مسکرا نہیں پارہا۔ میں چاہتا ہوں کہ قلم سے شگوفے بکھیروں، تمہارے چہرے پر مسکراہٹ لائوں، طنز کے لطیف نشتر سے تمہیں گدگدائوں ۔۔۔ مگر آج کا زخم شاید نشتر کے بس کا نہیں ہے۔ اسے کسی معمولی نشتر کی نہیں بلکہ کاٹ دینے والی تلوار کی ضرورت ہے کہ اگر آج بھی تلوار نہ چلی تو اس زخم میں موجود زہر پورے جسم کو چاٹ جائے گا۔
پچھلے ایک ہفتے سے طبیعت بہت زیادہ ناساز تھی اور یہ موسمی بخار جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دو ڈاکٹر بدل کر دیکھ لیئے مگر اس بخار نے جان نہیں چھوڑی۔ کل خالہ جان ملنے کیلئے آئیں تو جاتے ہوئے کہہ گئیں کہ بیٹا روائتی علاج اپنی جگہ سہی مگر ہوسکے تو گوشت کا صدقہ نکال دو۔ صدقہ بہت سی آفات و بلیات کو ٹال دیتا ہے۔ بات بھی کچھ مناسب تھی اور ویسے بھی بیماری و کمزوری میں انسان مذہب سے کچھ قریب ہوجاتا ہے سو آج صبح جاکر میں بھی حسب استطاعت ایک چھوٹا سا بکرا خرید کر لے آیا کہ گھر میں ہی صدقہ دلاکر گوشت مستحقین میں تقسیم کردوں۔
خیر سے بکرا بھی آگیا اور صدقہ بھی دے ڈالا۔ اب جب گوشت مستحقین کو دینے کی باری آئی تو میں نے اپنے دفتر کے ایک چپڑاسی کو فون کرکے بلا لیا۔ خدا بیچارے مشتاق کو خوش رکھے کہ وہ چپڑاسی ہونے کے باوجود ایک بڑے دل کا مالک ہے اور مجھے یقین تھا کہ اس کے علم میں کوئی نہ کوئی ایسا مستحق ضرور ہوگا جو صدقے کا یہ گوشت استعمال کرسکے۔
میں نے گوشت مشتاق کے حوالے کیا اور اس کو تاکید کی کہ کسی واقعی مستحق انسان تک اسے پہنچا دے۔ مشتاق نے گوشت کا تھیلا میرے ہاتھ سے لیا مگر اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو مشتاق نے بھرائی ہوئی آواز مٰیں ایک ایسا سوال کرڈالا کہ جس کا جواب میں اب تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ مشتاق نے کہا کہ صاحب! میں سید ہوں لہٰذا صدقے کا گوشت مجھ پر حرام ہے؛ میری اپنی ذات پر اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، پر صاحب میرے گھر والوں نے پچھلے تین سال سے بکرے کا گوشت نہیں کھایا ہے!! آپ تو مذہب جانتے ہیں، کیا کوئی ایسی صورت نہیں نکل سکتی کہ میں اس پورے تھیلے میں سے تین، چار بوٹیاں اپنے والدین کیلئے استعمال کرسکوں؟؟؟
پیاری ڈائری! مشتاق تو گوشت لیکر چلا گیا مگر میری طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب ہوگئی ہے۔ دوپہر سے ٹیلیویژن کے آگے بیٹھا ہوں اور دماغ میں صرف ایک ہی بات چل رہی ہے؛
میاں صاحب کو ہرن نہیں کھانا چاہیئے تھا۔
والسلام
لٹا ہوا پاکستانی

زبان دراز کی ڈائری - 8

پیاری ڈائری!

زندگی میں کبھی یاوہ گوئی کی عادت نہیں رہی اور اب افسوس ہورہا ہے کہ کاش صحیح وقت پر کچھ مناسب گالیاں سیکھ لی ہوتیں تو اس شاعرِ جنوب کو ایک جوابی خط لکھ ڈالتا۔ مگر خیر جو ہوا سو ہوا۔

کل پاکستان سے کسی عاطف صاحب کا محبت نامہ ملا جس میں انہوں نے ملک کے حالات پر معافی مانگنے سے یکسر انکار کردیا تھا اور مُصِر تھے کے صرف شرمندگی سے ہی کام چلایا جائے۔ یقین ہوگیا کہ خط واقعی پاکستان سے ہی آیا ہے کیوںکہ اتنی گھٹیا اردو دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں بولی جاتی۔

خط پڑھ کر بہرحال حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی؛ خوشی اس بات کی کہ آج بھی چند لوگ ہیں جو پر امید ہیں اور حیرت اس بات پر کہ پاکستان میں اب بھی لوگوں کو اردو لکھنی یاد ہے؟ یہاں تو اب جتنے بھی پاکستانی آتے ہیں وہ سب تو رومن میں لکھتے ہیں۔ زبان ہی کے تذکرے پر پرسوں علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ اردو کی بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ امریکہ اسے قومی زبان کے طور پر قبول کرلے۔ خیر علامہ کے فلسفے تو علامہ ہی جانیں۔ مجھے بہرحال خط پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیاقت علی خان نے سمجھایا تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آج کل پاکستانی لیڈران کا سال میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنا فیشن میں ہے۔ خیر جناب، اللہ میاں سے اجازت لی اور ٹہلتے ٹہلتے رات کے کسی پہر کراچی پہنچ گیا۔

مزار سے باہر نکلا تو موٹرسائیکل پر سوار چند لڑکے نما مخلوق زناٹے سے برابر سے گزری۔ اگر سن اڑتالیس میں وقت پر ایمبولینس آگئی ہوتی تو اس بغیر سائلینسر کی موٹر سائکل ریلی کی آوازوں سے سن دو ہزار چودہ میں ضرور کام ہوجاتا۔ دیر تک وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حواس بحال کرتا رہا۔ ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک موٹرسائکل برابر میں آکر رکی اور اس پر سوار دو لڑکوں میں سے ایک نے بندوق نکال کر موبائل مانگ لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اول تو میرے پاس موبائل نہیں ہے کہ جنت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرا یہ کہ موبائل مانگنے کیلئے بندوق نکالنے کی کیا ضرورت؟ اگر آپ نے کسی کو کال ہی کرنی ہے تو مانگنے کے اور بھی عزت دار طریقے ہیں۔۔۔ حد ہوتی ہے!! نوجوان حیرت سے میری شکل دیکھ رہا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، اس کے پیچھے والے لڑکے نے اس کو کہنی مار کر کہا کہ "بڈھا خبطی ہے اور مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ خوامخواہ جان پہچان نکل گئی تو مسئلہ ہوگا، ٹائم کھوٹا نہ کر اور نکل"۔ پہلے والے نے جلدی سے موٹرسائکل کا گیئر ڈالا اور موٹرسائکل اڑا دی۔ عجیب نامعقول سے لڑکے تھے۔ اگر رک کر میری بات سن لیتے تو کیا پتہ ان ہی سے لفٹ مانگ کر آگے چلا جاتا۔

ان لڑکوں سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک خاتون آکر گلے پڑ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں کسی شاہ رخ خان سے ملتا ہوں اور اگر میں چاہوں تو یہیں "بابے کے مزار " کے ساتھ والے کمرے میں ان کے ساتھ جاسکتا ہوں۔ میں نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ یہ صرف پسینے کی وجہ سے میرا چہرا چمک رہا ہے اور ان کے خیال کے برعکس میں ویسا چکنا نہیں ہوں جیسا انہوں نے مجھے پکارا۔ دوسری بات یہ کہ میں اس ہی بابے کے مزار سے نکل کر آرہا ہوں اور یہیں ہوتا ہوں۔ وہ بیچاری پتہ نہیں کیا سمجھی اور کھسیانی ہو کر مجھے چند روپیے دینے کی کوشش کرنے لگی۔ میری تو خود یہ معاجرہ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر میں نے پھر بھی اسے سمجھایا کہ میں اس سے پیسے نہیں لے سکتا۔ وہ یہ کہتی ہوئی تیزی سے ایک طرف چلی گئی کہ بابو پتہ نہیں تھا آپ مینجمنٹ والے ہو آئندہ احتیاط کروں گی۔

ان ہی جھمیلوں میں اب رات کے بارہ بجنے والے تھے اور مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس شہر کو ہوکیا گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک مسلسل عجیب کردار ٹکرا رہے تھے۔ سر جھٹک کر میں نے توجہ مزار پر ڈالی تو میرا مزار برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ تیرہ اگست کی رات تھی اور اب چودہ اگست شروع ہونے ہی والی تھی۔ میں خوشی سے اپنے مزار کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی بھیانک آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ مجھے لگا کہ شاید ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، میں گاندھی کو کوستا ہوا واپس مزار کے اندر بھاگا تو اس مرتبہ گیٹ پر موجود گارڈ نے روک لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باہر اس طرح حملہ ہوگیا ہے اور اب اسے بھی مورچہ بند ہوجانا چاہیے تو اس مریض نے ایک طرف منہ میں بھرے خون کی کلی کری اور قمیض کے دامن سے منہ پونچھتے ہوئے بولا کہ چاچا پہلی بار چودہ اگست دیکھ رہے ہوکیا؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جشن آزادی اور چودہ اگست کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں مگر یہ حیوانوں کی طرح برتائو اور اس طرح اندھادھند فائرنگ سے کونسا جشن اور کون سی ملک کی خدمت کی جارہی ہے؟ جواب میں اس نے وہی خون آلود ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بولا، چاچا، چودہ اگست کو صرف یہ ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ سب درندے بھی آزاد ہوگئے تھے۔ اب جس درندے کے منہ میں اس ملک کے جسم کی جتنی بڑی بوٹی آتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لقمہ نوچ لیتا ہے۔ میں نے پوچھا، کہ کوئی ان درندوں کو روکتا کیوں نہیں؟ اس نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور ایک عجیب سا کتھئی رنگ کا مواد منہ میں رکھتے ہوئے بولا، چاچا، یہ ایک فلمی دنیا ہے۔ یہاں ہیرو ہیروئن بچانے کیلئے غنڈوں کو صرف اس لیئے روکتا ہے تاکہ پکچر کے اختتام پر وہی عزت وہ خود لوٹ سکے۔

اس ساری گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھ میں آنسو آگئے تھے۔ میں نے موضوع تبدیل کرنے کیلئے اس سے پوچھ لیا کہ یہاں تو قائد اعظم دفن ہیں تو یہاں اتنی بندوقوں کے ساتھ پہرے داری کرنے کی کیا ضرورت؟ وہ میرے قریب آیا اور میرے کان میں تقریباٗ پچکاری مارتے ہوئے بولا، چاچا، اگر یہ قائد غلطی سے بھی دوبارہ زندہ ہوگیا تو ملک کے حالات دیکھ کر انگریزوں کو ملک واپس کردے گا اور ساتھ میں معافی بھی مانگے گا۔ ہم بندوق لیکر اس ہی لیئے کھڑے ہیں کہ قائد نکل کر بھاگ نہ جائیں۔ ملک کی عزت کا سوال ہے، بڑی بدنامی ہوجائے گی۔

مجھے اب اس نامعقول انسان پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں نے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو جذباتی مار مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس لوٹ مار اور درندگی کے کھیل کے خلاف تمہارے اندر کس قسم کے جذبات ہیں۔ سچ سچ بتانا، تم اس ملک کو لوٹنے والوں کے ذکر پر آبدیدہ کیوں ہوگئے تھے۔ اس کمینے سپاہی نے روہانسی آواز میں جواب دیا، روئوں نہیں تو کیا کروں؟ سب کھا رہے ہیں، ایک ہمیں ہی موقع نہیں مل رہا بس!!

میں اس مردود لمحے کو کوس ہی رہا تھا جب میں نے نیچے آنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اچانک محل میں زلزلہ آگیا۔ اب جو دیکھا تو خود کو اپنے ہی محل میں بستر پر پایا۔ خوشی سے سجدہ شکر بجا لایا کہ یہ سب صرف خواب تھا۔ حوروں نے آکر بتایا کہ زلزلے کی وجہ کوئی جون ایلیاء نامی صاحب تھے جو دروازے پر لاتیں اور گھونسے برساتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ وہ علی گڑھ کا لونڈا یہیں رہتا ہے؟؟؟

جون صاحب کی ملاقات کا احوال پھر کبھی، فی الحال اجازت دو۔ کراچی سے جاتے جاتے ایک لفظ سیکھ کر آگیا ہوں، آئندہ کبھی کسی شاعر کا خط آیا تو میں بھی جواب میں لکھ بھیجوں گا ۔۔۔۔۔ کدو!!!

محمد علی

بدھ، 1 اکتوبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 18

نوٹ: ذیل کی تحریر بچوں کی ایک مشہور لوک کہانی سے ماخوذ ہے اور کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔


!پیاری ڈائری


تمہیں پچھلی بار ہی بتادیا تھا کہ دادی گھر آئی ہوئی ہیں اور مصروفیات بے تحاشہ ہیں لہٰذا اس بار غیر حاضری کی معافی نہیں مانگوں گا۔ دادی پندرہ دن رہ کر گئیں اور یہ پندرہ دن کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اچھے وقت کی سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ یا شاید وقت کی رفتار  ہمیشہ یکساں رہتی ہے مگر حالات کے اعتبار سے ہمارے لیئے کبھی لمحے بھی صدیاں بن جاتے ہیں اور کبھی صدیاں بھی لمحوں کی طرح گزر جاتی ہیں۔ خیر یہ تو ایک فلسفیانہ گفتگو ہے اور تم جانتی ہو کہ اس ملک میں ہم فلسفیوں کو پاگلوں کی ہی ایک قسم  گردانتے ہیں لہٰذا مزید فلسفے سے گریز کرتا ہوا میں دن بھر کی روداد پر آجاتا ہوں۔


دادی نے آج صبح جانا تھا مگر ہم سب کل سے ہی اداس ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ دادی کی محبت بھری جھڑکیاں، ہمارا بےتحاشہ خیال رکھنا، اور سب سے بڑھ کر روزانہ ایک نئی کہانی سنانا، یہ سب چیزیں دادی کے اگلی مرتبہ گھر آنے تک ہم سے چھن جانی ہیں اور یہ خیال ہم سب بہن بھائیوں کو بری طرح بےچین کر رہا تھا۔ کافی دیر ضبط کرنے کی کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں نے دادی کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ بہا۔ دادی نے مسکراتے ہوئے میرے آنسو پونچھے اور یاد دلایا کہ خاندان کے باقی بچوں کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا، لہٰذا ہمیں اپنے حصے کو غنیمت جانتے ہوئے ایثار سے کام لینا چاہیئے ورنہ ہمارا حال بھی ان بندروں جیسا ہی ہونا ہے جنہوں نے شدید بھوک کے عالم میں بھی زیادہ کے لالچ میں چنے ٹھکرا دیئے تھے۔ میں نے بندروں کی یہ کہانی پہلے نہیں سنی تھی تو دادی نے مجھے سمجھانے اور خوش کرنے کیلئے بندروں کی وہ کہانی سنا دی۔


دادی کا کہنا تھا کہ کسی جنگل میں دو بندر بھوکے گھوم رہے تھے۔ بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ جنگل میں موجود تیسرے بندر نے جب ان بندروں اور ان کی مجبوری کو دیکھا تو اسے بڑا ترس آیا۔ ترس سے زیادہ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر یہ بندر یہاں رزق کی تلاش میں روز آنے لگے تو جنگل میں اس کی یکطرفہ حکومت ختم ہوجائے گی اور اسے ان بندروں کو بھی اپنے کھانے میں سے حصہ دینا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے گھر میں موجود بھنے ہوئے چنے اٹھائے اور ان بندروں کے پاس جاپہنچا۔ اس نے اپنے پاس موجود چنوں کی چھ میں سے پانچ  ڈھیریاں ان دونوں بندروں کو پیش کردیں کہ وہ چاہیں تو ان سے اپنی بھوک مٹا لیں۔ بندر بھوکے تو بہت تھے مگر دونوں ہی بلا کے خوش فہم اور بےوقوف بھی تھے۔ ان دونوں نے سوچا کہ جب یہ پانچ ڈھیریاں دینے پر تیار ہوگیا ہے تو ذرا سا رعب اور جذبانی دبائو ڈال کر چھٹی ڈھیری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔


ان دونوں نے اس تیسرے بندر کو غصے دیکھا اور چنے اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے بولے، ہم بھوکے ہیں مگر ہماری رگوں میں بادشاہ بندر کا خون دوڑ رہا ہے۔ ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم تمہارا احسان لیں اور یہ بھنے ہوئے چنے کھائیں! بادشاہ زادے اب یہ چنے کھائیں گے؟ ویسے بھی اگر دینے ہی ہیں تو ہمیں چنے کی تمام چھ ڈھیریاں دو تاکہ ہم برابری کی بنیاد پر آپس میں بانٹ سکیں! ورنہ ہم تھوکتے ہیں ان چنوں پر۔


بندر نے حیرت سے ان کی شکل دیکھی اور انہیں سمجھایا کہ اس وقت چنوں کی ضرورت اس سے زیادہ ان دونوں کو ہے۔ اور اگر اس نے چھٹی ڈھیری بھی ان کو دے دی تو وہ خود کیا کھائے گا؟ اب اس بات پر بندروں کی بحث شروع ہوگئی۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے اصولی موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ جنگل کے دوسرے جانوروں نے بیچ بچائو کرانے کی کوشش بھی کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بندروں کے مابین یہ بحث پچاس منٹ تک جاری رہی اور آخر میں وہ دونوں  بندر ان چنوں پر تھوک کر، کچھ اور کھانے کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔


خدا تعالٰی کو ضد اور ہٹ دھرمی کبھی بھی پسند نہیں رہی، چاہے وہ کوئی بھی مخلوق کرے۔ ان ضدی بندروں کو ان کے کیئے کی سزا یہ ملی کہ پورا دن کھانے کی تلاش میں گھومنے کے باوجود انہیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا۔ جنگل کے جس درخت پر پھل دکھتا اس پر پہلے سے کوئی اور جانور قبضہ کرکے بیٹھا ہوتا اور اگر اتفاق سے کوئی درخت خالی مل بھی جاتا تو اس کا پھل اتنا کسیلا اور زہریلا ہوتا کے وہ ایک لقمہ بھی نہیں لے پاتے۔ پورا دن جنگل میں گھومنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال یہ دونوں بندر بالآخر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ روتے روتے ان کی نظر کچھ ہی فاصلے پر پڑے ان چنوں پر گئی جنہیں ٹھکرا کر وہ صبح یہاں سے آگے چلے گئے تھے۔ بھوک کے عالم میں یہ چنے جنت کے کسی میوے سے کم نہیں تھے۔ بندروں نے چاہا کہ بڑھ کر ان چنوں کو اٹھا لیں مگر پھر یاد آگیا کہ صبح وہ ان ہی چنوں پر تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ اب اگر کوئی ان دونوں کو یہ چنے کھاتا دیکھ لیتا تو وہ دونوں شرم کے مارے دوبارہ اس جنگل میں قدم رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔


دونوں بندر حسرت سے ان چنوں کو دیکھنے اور اس وقت کو کوسنے لگے جب جذبات اور مزید پانے کے لالچ میں انہوں نے ان چنوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ شدید بھوک کے عالم میں کھانا سامنے دیکھ کر ان بندروں کی وہی حالت تھی جو کسی ترقی پذیر ملک میں کئی سال اپوزیشن کرنے کے بعد حکومت میں آنے والی جماعت کی ملکی خزانے کو دیکھ کر ہوتی ہے۔


جب برداشت بالکل جواب دے گئی تو ان میں سے ایک بندر اٹھا اور ان چنوں کے پاس پہنچ گیا جو زمین پر اب تک بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا دیکھا دیکھی دوسرا بندر بھی خاموشی سے اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بندر بھوکے تھے اور چنے سامنے موجود تھے، مگر دونوں میں سے کوئی ایک بندر بھی پہلا چنا کھانے کی خفت اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ کافی دیر اس ہی طرح گزر گئی تو بڑا بندر چنے کی ایک ڈھیری اٹھاتے ہوئے بولا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس والی ڈھیری پر نہیں تھوکا تھا۔ دوسرے بندر نے بھی فورا ایک ڈھیری اٹھائی اور بولا، یہ والی تو ویسے بھی دور جاکر گری تھی سو اس پر تو تھوکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے بندر نے اب کی بار ایک ساتھ دو ڈھیریاں اٹھائیں اور انہیں منہ میں رکھتے ہوئے بولا، اور یہ تو بالکل خشک ہیں جیسے ان پر کبھی کوئی گیلی چیز پڑی ہی نہ ہو۔


ایک ایک کرکے تاویلات آتی گئیں اور ڈھیریاں کم ہوتی چلی گئیں۔ چند ہی لمحوں میں بندروں نے وہ پانچوں ڈھیریاں چٹ کرڈالیں جن پر کچھ وقت پہلے وہ خود تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ بھوک تو مٹ گئی مگر بندروں نے اس دن یہ سبق سیکھ لیا کہ عزت اس ہی بات میں ہے کہ اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ اگر  چھ میں سے پانچ ڈھیریاں اپنی مرضی کی مل رہی ہوں اور پھر بھی بندر ضد پر اڑے رہیں تو چھٹی ڈھیری کے چکر میں یا تو بندر پہلی پانچ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا بالآخر اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دادی نے یہ کہہ کر کہانی ختم کی اور میرا ماتھا چوم کر سونے چلی گئیں۔


 صبح سو کر اٹھا تو پتہ چلا کہ دادی تایا ابو کے گھر کیلئے نکل گئی ہیں۔ دادی کے جانے کے بعد گھر میں اب کرنے کو کچھ ہے نہیں سو صبح سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ بندر والی کہانی میں نے چند ہی دن پہلے ٹیلیویژن کے کسی ڈرامے میں بھی دیکھی ہوئی ہے۔ ڈرامے کا نام یاد نہیں آرہا مگر جیسے ہی یاد آیا تو ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔


،تمہارا


زبان دراز

منگل، 16 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 17

پیاری ڈائری!


طویل غیر حاضری کیلئے معذرت! جی تو بہت کرتا تھا کہ لکھنے بیٹھوں اور تمہیں اپنی روداد سنائوں مگر کیا کرتا کہ مصروفیات نے ایسا گھیرا رکھا تھا کہ بلا مبالغہ سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ یہ مصروفیت بھی کوئی معمولی مصروفیت نہیں تھی۔ دراصل ہوا یہ کہ میں طویل بیروزگاری سے تنگ آچکا تھا اور لکھنے کی عیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا ساری توجہ کام کی تلاش پر مبذول کرکے قلم طاق پر رکھ دیا تھا اور نوکری کی تلاش میں مصروف تھا۔


عرصے کے بعد نوکری ڈھونڈنے نکلا تو احساس ہوا کہ نوکری ڈھونڈنا، آج کل کے معاشرے میں شریف انسان ڈھونڈنے کے بعد سب سے مشکل کام ہے۔ جہاں کہیں بھی گیا، سب لوگوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کسی ایسے انسان کو وہ اپنے ادارے میں جگہ نہیں دے سکتے جس کا دماغ اور زبان ایک ساتھ چلتی ہو۔ خود سوچو، زبان دراز اگر زبان بند رکھنا سیکھ جائے تو زبان دراز کس بات کا؟ اور جہاں تک دماغ نہ چلانے کا تعلق ہے تو مطالعہ نامی بیماری کے بعد سے یہ مردود دماغ ہر چیز میں خودبخود چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بیچارہ زبان دراز جاتا تو کہاں جاتا؟


دوست احباب کو جب پریشانی کا علم ہوا تو اسد بھائی نے مشورہ دیا کہ مرغی کے کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ آنکھیں بند کرکے یہ کام شروع کردو کہ سرمایہ بھی کم ہے اور مرغی کے گوشت کا تو ناغہ بھی نہیں ہوتا۔ دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ انہوں نے کسی جاوید چوہدری صاحب کے کالم میں کہیں پڑھ رکھا ہے کہ مرغی سب سے بے ضرر مخلوق ہے۔ دڑبے میں ہاتھ ڈال کر مرغی کو ذبح کرنے کیلئے نکالو بھی تو باقی مرغیاں، توتے کی طرح کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا شروع ہوجاتی ہیں کہ کسی طرح دوسرے کی باری آجائے اور ہم بچ جائیں۔ دن میں جتنی مرتبہ ضرورت پڑے، پنجرے میں ہاتھ ڈالو اور ایک مرغی کو دبوچ لو۔ یہ ایک ایک کرکے ساری ذبح ہوجائیں گی مگر پلٹ کر کچھ نہیں کہیں گی۔


میں نے بھی دل میں علامہ اقبال سے معذرت کرتے ہوئے سوچا کہ "یوں تو چھوٹی ہے ذات مرغی کی، دل کو لگتی ہے بات مرغی کی"۔ اور دوستوں سے سرمایہ لگا کر ایک مرغی کے گوشت کی دکان کھول لی۔ پچھلے تین دن اس ہی حوالے سے مصروفیت رہی۔ علی بھائی اور جاوید چوہدری صاحب دونوں صحیح کہتے تھے۔ کام کا بھی بےتحاشہ رش تھا اور منافع بھی چوکھا۔


دکان پر اکثر مجھے خیال آتا کہ ٹیلیویژن پر دن رات غربت کے رونے رونے والوں کو میں لاکر کھڑا کروں اور پوچھوں کے غربت کہاں ہے؟ جس ملک کی غربت کا رونا روتے ان کی زبان نہیں تھکتی وہاں لوگ اب بھی 100 فی صد منافع پر بکنے والی چیز تو خرید سکتے ہیں مگر اپنے نفس پر قابو کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ کیا اس ہی کا نام غربت ہے؟۔ میں کس منہ سے انہیں غریب کہوں جب ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے لینے والے ریستوران کا مالک مجھ سے روزانہ سینکڑوں مرغیاں خریدتا ہو؟ طلب اور رسد کا بنیادی قانون یہی بتاتا تھا کہ ہزاروں روپے ایک وقت کے کھانے پر خرچ کرنے والے بے تحاشہ لوگ موجود ہیں تبھی وہ مجھ سے اتنی مرغیاں خریدتا ہے۔ مگر خیر، جانتا ہوں کہ ڈائری اور مرغیاں غیر سیاسی ہوتی ہیں سو اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ بلاوجہ کی نصیحت بھی ایک طرح کی زحمت ہی ہوتی ہے۔


یہ تو ہوا گزشتہ تین دن کا احوال۔ آج مگر ایک عجیب سا سانحہ ہوگیا جس کی وجہ سے مجھے دکان جلدی بند کرکے آنا پڑا۔ جلدی گھر آیا اور وقت بھی میسر ہوگیا تو یہ ڈائری لکھنے بیٹھا ہوا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ آج بھی روز کی طرح گاہک آرہے تھے، مرغیاں کٹ رہی تھیں، گوشت بک رہا تھااور ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔  جب جمال بھائی نے مجھے تین کلو مرغی تولنے کا کہا تو میں نے خوشی خوشی پنجرے میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کے بالکل برخلاف تھا۔ چونکہ ان مرغیوں نے کبھی کسی اخبار کا کالم نہیں پڑھا تھا اور نہ یہ اسد بھائی کو جانتی تھیں لہٰذا انہوں نے روز کے ضابطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میرے اوپر حملہ کردیا۔ ہاں پیاری ڈائری میں جھوٹ نہیں کہتا۔ ان ساری مرغیوں نے ایک بار اکٹھے ہوکر میرے ہتھ پر چونچوں کی بارش کردی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیا۔


پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ پھر میں نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے دوبارہ پنجرے کا دروازہ کھولا اور اپنے کاریگر کو مرغی پکڑنے کا کہا۔ مرغیوں نے نیا ہاتھ دیکھا تو پہلے تو کچھ نہ بولیں۔ مگر جیسے ہی اس غریب نے ایک مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی، تمام مرغیاں کڑکڑاتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ اس پر بھی حملہ آور ہوگئیں۔ میری دفعہ تو پھر بھی خیر رہی تھی، اس غریب کا تو انہوں نے ہاتھ ہی نوچ ڈالا۔


پیاری ڈائری! بھلا خود سوچو! ان مرغیوں کو دانہ دینے والا، میں! انہیں رہنے کیلئے جگہ دینے والا، میں! ان کا خیال رکھنے والا، میں! اور یہ میرے اوپر ہی پنجے جھاڑ کر پل پڑیں؟؟؟ کہاں کا انصاف اور کیسا قانون ہے یہ؟ صدیوں سے مروجہ قانون کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ چپ کر کے ذبح ہوتی رہتیں! اور اگر اتنا ہی مسئلہ تھا تو اپنا ایک وفد اقوام متحدہ میں بھجوا کر قانون میں تبدیلی کرواتیں؟ مگر خدا سمجھے ان قانون شکن مرغیوں کو!


حد تو تب ہوئی جب وہاں کھڑے ہوئے جمال بھائی نے اس سارے منظر کی ویڈیو بنائی اور مرغیوں کے ہاتھوں میری اس شامت پر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں نے جب مرغیوں پر اپنے احسانات اور ان کی احسان فراموشی کا ذکر کیا تو کہنے لگے، میاں! ان مرغیوں کو ذبح کرکے جو پیسے کماتے ہو، اس میں سے چار پیسے اگر واپس ان مرغیوں پر خرچ کردیتے ہو تو کوئی احسان نہیں کردیتے۔ میں آج ہی جاکر اس ویڈیو کو یوٹیوب پر ڈالوں گا کہ سب کو پتہ چل جائے اب اس ملک کی مرغیاں بیدار ہوگئی ہیں۔ بھلا بتائو، یہ بھی کوئی کرنے کی بات تھی؟ عجیب جانور نما انسان ہیں جمال بھائی!!!


وہ تو شکر ہے کہ شہرکو انٹرنیٹ مہیا کرنے والا میرا دوست ہے سو میں نے اس سے کہہ کر ایک کام اچھے وقتوں میں کروالیا تھا۔ اس وقت تو وہ بہت چیخا کہ بھائی یہ تو بے ضرر سی چیز ہے! اسے بند کرنے سے کیا فائدہ ہوجائے گا؟؟مگر آج اس عاقبت نا اندیش دوست کو بھی احساس ہورہا ہوگا کہ میں نے اچھے وقتوں میں ہی کتنا دوراندیش کام کیا تھا۔


پیاری ڈائری! خود سوچو، اگر ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوجاتی تو ہم انسانوں کی ان مرغیوں کے آگے کیا عزت رہ جاتی؟؟؟


والسلام


زبان دراز مرغی فروش

پیر، 1 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 15

پیاری ڈائری!

شاعر اور ادیب ہونا بھی کتنا مشکل کام ہے۔  خاص طور پر اس معاشرے میں جہاں لکھنے سے لیکر رویئے تک کسی بھی چیز میں ادب کا نہ کوئی گزر ہو اور نہ قدر۔ اپنے ہم عمر لوگوں کو بتائو کہ آپ ادیب ہیں تو سوال آتا ہے کہ وہ کیا ہوتا ہے؟ اور اگر بزرگوں سے اس بات کا ذکر کرو تو پوچھا جاتا ہے کہ لکھنا وکھنا تو ٹھیک ہے مگر کرتے کیا ہو؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
احباب میں کسی کو پتہ چل جائے کہ آپ شاعر ہیں تو رات کے تین بجے فون کرکے "جانی کوئی پوپٹ سا شعر تو بھیج، تیری بھابھی کو میسج کرنا ہے" کی فرمائش اٹھتی ہے اور کالم نویسی کا بیان ہو تو رازداری سے کان میں پوچھا جاتا ہے کہ کس سیاسی گروہ سے تعلق ہے؟ نیز یہ بھی کہ آج کل لفافے کا کیا بھائو ہے اور پیسے کام ہونے سے پہلے ملتے ہیں یا کام ہونے کے بعد؟؟؟ ہم تو اس لکھنے کے ہاتھوں مر چلے!!!

شام کو بیٹھا ایک کہانی مکمل کررہا تھا کہ بھابھی نے ہمارے بھتیجے کو ساتھ میں لاکر بٹھا دیا کہ فارغ تو بیٹھے ہو زرا اس کے ساتھ کھیل ہی لو۔ مجھے امی سے بات کرنی ہے اور صاحبزادے کو موبائل چاہیئے اپنے گیم کھیلنے کیلئے۔ جتنی دیر میں فون پر بات کر رہی ہوں زرا اس کے ساتھ بیٹھ جائو۔ ہمارے بھتیجے کی عمر کوئی آٹھ سال کے قریب ہے۔ ان کی عمر میں ہم شام کے وقت کھیلنے باہر جاتے تھے جبکے یہ صاحب کھیلنے کیلئے ایپ اسٹور یا پھر گوگل پلے اسٹور کا رخ کرتے ہیں۔ باقی کی رہی سہی کسر اس ٹیلیویژن نے پوری کردی ہے جسے دیکھ دیکھ کر وہ آدھے بقراط ویسے ہی بن چکے ہیں۔

بھتیجے صاحب نے ہمارے برابر میں بیٹھتے ہی سوال داغ دیا کہ چاچو کیا کر رہے ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ ایک کہانی لکھ رہا ہوں۔ ان کی ننھی سی بانچھیں کھل گئیں اور فورا سے کہانی سننے کی فرمائش داغ دی۔ میں نے اس سے جان چھڑانے کیلئے کہہ دیا کہ مجھے کوئی کہانی نہیں آتی۔ آتی ہوتی تو اب تک لکھ نہ چکا ہوتا؟ اتنی دیر سے بیٹھا ہی اس لیئے ہوں کہ کہانی آنے کا نام ہی نہیں لی رہی۔ ہمارے بھتیجے نے ٹٹولتی ہوئی نگاہوں سے ہمیں دیکھا تو ہم نے فورا چہرے پر معصومیت طاری کرلی۔ ایک لحظے کیلئے اس کے چہرے پر مایوسی آئی مگر پھر فورا ہی چہک کر بولا، کیا چاچو! آپ کو ایک سٹوری بھی نہیں آتی؟ چلیں میں آپ کو سٹوری سناتا ہوں۔
کہانی لکھنے سے زیادہ مشکل کام دوسروں کی کہانی سننا ہوتا ہے مگر کسی کا دل توڑنا سب سے مشکل کام ہے۔ آپ زندگی میں کتنے ہی سفاک کیوں نہ ہوجائیں، کسی کا دل توڑنے کیلئے ہر بار آپ کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس محنت کی مقدار کم اور زیادہ ہوسکتی ہے مگر انسانی فطرت کے مطابق دل توڑنے کیلئے محنت بہرحال درکار ہوتی ہے۔ میں نے اس کی معصوم خوشی کیلئے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔

ہمارے بھتیجے کے مطابق ایک بیچارے بھوکے کوے کو کہیں سے ایک چنے کا دانہ مل گیا۔ وہ اسے لیکر درخت پر بیٹھا ہی تھا کہ دانہ اس سے گر کر درخت میں چلا گیا۔ کوے نے درخت سے درخواست کی کے میرا چنا واپس کردو! درخت نے کہا جائو میاں! میں کیوں واپس کروں؟ کوے نے اسے دھمکایا کہ اگر درخت نے اس کا چنا واپس نہ کیا تو وہ لکڑہارے سے کہہ کر درخت کو کٹوا دے گا۔ درخت کو بھی اب غصہ آگیا، اس نے کہا کہ کیا کوا اور کیا کوے کا چنا، جا بھائی جو کرسکتا ہے کرلے! چنا تو اب نہیں ملنے والا۔ کوا طیش کے عالم میں اڑا اور لکڑہارے سے جاکر بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا تم درخت کو کاٹ دو۔ لکڑہارے نے کہا، درخت نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ تس پہ کوے نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے درخت کو نہ کاٹا تو وہ لکڑہارے کی بیوی سے کہے گا کہ وہ اپنے میکے چلی جائے۔ لکڑہارے نے جواب دیا کہ جو بن سکتا ہے کر لو میں تو درخت نہیں کاٹتا۔ اب لکڑہارے کی بیوی کی باری تھی۔ کوے نے اپنا دکھڑا سنایا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، تم اس سے ناراض ہوکر میکے چلی جائو۔ لکڑہارے کی بیوی تنک کر بولی، لکڑہارے نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ جائو جائو اپنا کام کرو۔ کوا وہاں سے ناکام ہوکر اڑا اور اب چوہے کے پاس پہنچا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، تم اس کی بیوی کے کپڑے کتر دو! چوہے نے انگڑائی لیکر کہا کہ کپڑے کترنے والے زمانے چلے گئے ہیں اور ویسے بھی لکڑہارے کی بیوی اب لان کے سوٹ پہنتی ہے جن میں کپڑے کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے سو میرا موڈ نہیں ہے۔ کوا وہاں سے جھنجھلا کر اب بلی کے پاس پہنچا اور بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، تم چوہے کو کھا جائو! بلی انسانوں کے ساتھ رہ کر انگریزی زدہ ہوچکی تھی سو جھرجھری لیکر بولی، چوہا کھالوں؟ اررر ڈسگسٹنگ!!! مجھ سے نہیں ہوگا میں صرف کیٹ فوڈ کھاتی ہوں۔
کوا اب غصے اور بھوک سے پاگل ہورہا تھا اس نے راہ چلتے ایک کتے کو پکڑا اور ہاتھ جوڑ کر بولا کہ بھائی میری مدد کرو! درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، تم بلی کو کھا جائو؟ کتے نے کوے کو سر سے پائوں تک دیکھا اور بولا کہ کوے ہو کوے رہو! کتے نہ بنو! یہ سب انسانوں کی اڑائی ہوئی افواہیں ہیں۔ لڑائی جھگڑا اپنی جگہ مگر آج تک تم نے کسی کتے کو کسی بلے کو کھاتے دیکھا ہے جو میں یہ کام کروں؟  کوا اپنے پر نوچتا ہوا ایک ڈنڈے کے پاس پہنچا اور اس سے بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، کتا بلی کو نہیں مارتا، تم کتے کی پٹائی کردو؟ اتفاق سے یہ ڈنڈا گاندھی جی کا پیروکار تھا اور اہنسا میں یقین رکھتا تھا۔ اس نے کوے کو بٹھا کر ایک تفصیلی لیکچر دیا اور کسی بھی قسم کے تشدد سے معذرت کرلی۔

کوا اس کے بعد ڈنڈے کو جلانے آگ کے پاس اور پھر آگ کو بجھانے کیلئے پانی کے پاس پہنچا مگر نتیجہ ہر بار اس کی امید کے برخلاف ہی تھا۔ بہت ساری امیدیں لیکر کوے نے اس بار ہاتھی کا رخ کیا جو جنگل کا چوکیدار بھی تھا اور اس کی جسامت کی وجہ سے سب اسے ڈرتے بھی تھے۔ کوے نے ہاتھی کے سامنے ایک لمبی تمہید باندھی کہ وہ جانتا ہے ہاتھی کو پانی کی کس قدر ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کا اور کوے کا باہمی مفاد اس ہی میں ہے کہ آگ کو نہ بچھانے کی سزا دیتے ہوئے وہ پانی کو پی جائے۔ ہاتھی نے اسے محبت سے سمجھایا کہ اس کا جنگل والوں سے معاہدہ ہے اور اب وہ اس تالاب سے پانی نہیں پی سکتا۔ اگر کسی نے اسے پانی پیتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی بڑی سبکی ہوگی اور وہ بڑی مشکل سے بحال کی گئی اپنی عزت ایک کوے کے چکر میں نہیں کھوئے گا۔

کوا سب طرف سے مایوس ہوکر زمین پر بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ اتفاق سے وہاں ایک چیونٹی کا گزر ہوا جس کی بہن اس ہی درخت کی ٹہنی گرنے سے دب کر ہلاک ہوگئی تھی۔ اس نے کوے سے پوچھا کہ ماجرہ کیا ہے؟ کوے نے اسے روتے ہوئے جواب دیا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، کتا بلی کو نہیں مارتا، ڈنڈا کتے کی پٹائی نہیں کرتا، آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی، پانی آگ کو نہیں بچھاتا اور اب یہ ہاتھی بھی اس پانی کو پینے سے انکاری ہے۔ اب تم خود بتائو میں کیا کروں؟

چیونٹی کو جلال آگیا۔ اس نے کوے کو ساتھ لیا اور ہاتھی کے پاس پہنچ گئی کے اگر اس نے اب بھی پانی نہ پیا تو وہ اس کی سونڈ میں گھس کر اسے مار ڈالے گی۔ ہاتھی کی اپنی جان پر بنی تو وہ گھبرا کر بولا کہ نہیں نہیں میری سونڈ میں نہ گھسنا، میں ابھی پانی پیتا ہوں۔ پانی نے کہا نہیں نہیں مجھے مت پینا میں ابھی آگ کو بجھاتا ہوں۔ آگ نے کہا مجھے مت بجھائو میں ابھی ڈنڈے کو جلاتی ہوں۔ ڈنڈا بولا مجھے مت جلانا میں ابھی کتے کو سبق سکھاتا ہوں۔ کتے نے کہا مجھے مت مارو میں ابھی بلی پر حملہ کرتا ہوں۔ بلی گھبرا کر بولی مجھے چھوڑ دو میں ابھی چوہے کو کھاتی ہوں۔ چوہے نے فریاد کی کہ مجھے مت کھانا میں ابھی لکڑہارے کی بیوی کے کپڑے کترتا ہوں۔ لکڑہارے کی بیوی چلائی میں لعنت بھیجتی ہوں لکڑہارے پر، میرے کپڑے نہیں کترنا۔ لکڑہارے نے کہا کہ ایسی کی تیسی درخت کی، مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ درخت گھبرا کر بولا کہ بھائی کوے! تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ آئو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ یہ رہا آپ کا چنا اور اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں تو میں سب سے آرام دہ شاخ پر آپ کو ایک گھونسلہ اور اپنے سب سے رسیلے پھل اگلے تین سال تک آپ کو مفت دوں گا۔ کوا خود بھی اس سب سے تھک چکا تھا سو اس نے بھی درخت کی پیشکش خوشی خوشی قبول کرلی اور اس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے،

بھتیجے صاحب تو کہانی سنا کر دوبارہ اپنے کھیل کود میں مصروف ہوگئے مگر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کہانی کچھ سنی سنی سی لگ رہی ہے۔ خدا معلوم کہاں سنی تھی، یاد آیا تو تمہیں بھی ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔

والسلام

زبان دراز

اتوار، 31 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری – 14

پیاری ڈائری!

تمہیں تو معلوم ہے کہ کل سے گھر میں دادی آئی ہوئی ہیں سو تمام تر مصروفیات موقوف ہیں۔ انسان کتنا بھی بڑا ہوجائے بزرگوں کے نزدیک ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے۔ دادی کے نزدیک بھی ہم بہن بھائی اب تک بچے ہی ہیں۔ ان کی یہ ہر وقت کی بزرگی بچپن میں کھَلتی تھی مگر نوجوانی میں آکر اس ہی بزرگی کی قدر ہوگئی ہے کہ کچھ ہی تو رشتے ہیں جو بدلے کی پرواہ کیئے بغیر سراسر خلوص ہوتے ہیں۔ وہی ڈانٹ ڈپٹ جو بچپن میں ایک بوجھ لگتی تھی اب اس احساس میں بدل چکی ہے کہ صحیح غلط برطرف، یہ بزرگ اپنے تئیں ہماری بہتری کیلئے ہی ہمیں ٹوکتے ہیں ورنہ باقی دنیا نے تو گویا نپولین کے اس قول کو حدیث ہی سمجھ لیا ہے کہ دشمن کو غلطی کرتے دیکھو تو ٹوکو مت!!

کل سے دادی گھر میں ہیں اور موبائل اور انٹرنیٹ گھر سے باہر۔ شاید اس ہی وجہ سے کل بہت مدت بعد کھانے کی میز پر سب ایک ساتھ بیٹھے اور ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کی۔ کھانے کی میز پر اکٹھا ہونے والی یہ کہانی بھی خوب رہی کہ کل جب کھانا لگا اور حسب معمول امی کا واٹس ایپ پر میسج آیا کہ کھانا کھا لو تو میں اسے نظر انداز کرکے دوبارہ ٹوئیٹر پر مشغول ہوگیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل پر ایک نہایت دلچسپ مکالمہ جاری تھا۔ میں ابھی اپنی جوابی ٹوئیٹ بھیجنے ہی لگا تھا کہ اچانک وائے فائے بند ہوگیا۔ میں وائے فائے رائوٹر کو کوستا ہوا نیچے اترا تو دیکھا کہ وائے فائے کا تار نکلا ہوا ہے اور دادی صاحبہ بہت اطمینان سے اسے ہاتھ میں پکڑے کھڑی ہیں۔ میں نے التجائیہ نظروں سے امی کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر کاندھے اچکا دیئے۔ پانچ منٹ میں گھر کے تمام افراد کھانے کے کمرے میں جمع تھے کیونکہ بدقسمتی سے وائے فائے رائوٹر بھی اس ہی کمرے میں موجود تھا۔ دادی اماں نے فیصلہ سنا دیا کہ بہو نے مجھے سب بتا دیا ہے! کھانے کے اوقات میں یہ نگوڑ مارا بند ہی رہے گا، غضب خدا کا! ایک گھر میں رہتے ہوئے تم لوگ کھانے کی میز تک پر اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ کچھ ان سیاستدانوں سے ہی سبق سیکھ لو جو کھانے کے وقت تمام چیزیں بھلا کر ایک میز پر جمع ہوجاتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ

 دادی اس مرتبہ کئی سال بعد آئی ہیں اور ان کے آنے کے بعد سے ہم گھر والوں پر حیران کن انکشافات کا ایک حسین سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کل سے اب تک مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر موبائل فون ایک طرف رکھ کر کھانا کھایا جائے تو امی نہایت لذید کھانا بناتی ہیں۔ نیز زندگی ٹوئیٹر اور فیس بک کے بغیر بھی گزاری جاسکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اگر گھر میں گھر والوں کو وقت دیا جائے تو انسان کو انٹرنیٹ پر منہ بولے رشتے بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ خدا کے بنائے ہوئے رشتے اپنے آپ میں خود ہی بہت حسین ہیں۔

کل تو دادی بہت تھکی ہوئی تھیں سو جلدی ہی سوگئیں مگر آج ہم بہن بھائیوں نے دادی کو گھیر لیا اور کہانی کی فرمائش کردی۔ بچپن میں ہم دادی سے روز کہانی سنا کرتے تھے اور اس وقت کی حسین یادیں ہم سب ہی دہرانا چاہتے تھے۔ پہلے تو دادی نے ٹال مٹول سے کام لیا کہ، اے نوج! اتنے بڑے گھوڑے ہو رہے ہو سب کے سب۔ اب اس عمر میں جن، پریوں اور شیر، بندر کی کہانیاں سنتے ہوئے  اچھے لگو گے؟ مگر ہماری مسلسل ضد کے آگے بالآخر دادی نے ہتھیار ڈال ہی دیئے اور بندر اور بلیوں کی وہی کہانی سنادی جسے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ کہانی کے مطابق تین بھوکی اور ندیدی بلیوں کے ہاتھ کہیں سے تین روٹیاں لگ گئیں۔ اصولی طور پر تو ان بلیوں کو ایک ایک روٹی بانٹ کر کھالینی چاہیئے تھی مگر چونکے وہ بھوکی کے ساتھ ساتھ ندیدی بھی تھیں تو تینوں ہی ان روٹیوں پر لڑ پڑیں کہ کس کو کتنا حصہ ملنا چاہیئے۔ قریب بیٹھا ایک بندر جو پچھلے پانچ سال سے بھوکا تھا یہ سب کاروائی دیکھ رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تینوں بلیاں بلا کی جذباتی اور پرلے درجے کی احمق ہیں۔ ویسے بھی شیر ہو، چیتا ہو یا بلی، عقل تو تینوں میں جانور والی ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک بندر کا تعلق ہے تو بقول ڈارون یہ وہ انسان ہیں جو ارتقاء کے عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں اور انشاءاللہ کچھ عرصے بعد یہ بھی انسان بن ہی جائیں گے۔ سو بندر نے اپنی تقریباؔ انسانی عقل کا استعمال کرتے ہوئے ان تینوں بلیوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ان کے بیچ ثالثی کروا سکتا ہے۔ بلیاں ہنسی خوشی راضی ہوگئیں۔

بندر نے روٹیاں ایک کے اوپر ایک رکھیں اور ان کے تین ٹکڑے کر  دیئے۔ ٹکڑے کرنے کے بعد بندر نے افسوس سے سر ہلایا کہ ایک ٹکڑا تھوڑا بڑا رہ گیا تھا۔ انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے بندر نے اس بڑے ٹکڑے میں سے ایک ٹکڑا توڑا اور بلیوں سے اجازت چاہی کہ چونکہ یہ ٹکڑا اضافی ہے اور ان کے درمیان فساد کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا یہ ٹکڑا اسے کھانے دیا جائے۔ بلیوں کی نظریں بڑے ٹکڑوں پر تھیں اور اتنا سا ٹکڑا لینا تو بہرحال بندر کا بھی حق تھا کہ وہ ثالثی جیسا کارِخیر انجام دے رہا تھا سو بلیوں نے اسے بخوشی اجازت دے دی۔ بندر نے روٹی کا ٹکڑا کھایا اور اب باقی روٹیوں کی طرف متوجہ ہوا جہاں اب دو بڑے ٹکڑے اور ایک چھوٹا ٹکڑا اس کا منتظر تھا۔ اس مرتبہ دونوں بڑے ٹکڑوں سے انصاف کیا گیا اور اضافی ٹکڑے ایک مرتبہ پھر بندر کے ہی حصے میں آئے۔ روٹیوں میں سے یہ چھوٹی چھوٹی کٹوتی کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ تینوں روٹیاں بندر کے پیٹ میں چلی گئیں اور بلیاں آخر میں ایک دوسرے کی شکل دیکھتی رہ گئیں۔

دادی تو کہانی سنا کر سو گئیں اور اب میں ان کے برابر میں بیٹھا یہ ڈائری لکھتا ہوا سوچ رہا ہوں کہ کاش ان بلیوں کی بھی کوئی دادی ہوتیں جو یہ ہزار مرتبہ سنی ہوئی کہانی انہیں بھی سنا دیتی کہ بلیوں کی آپس کی لڑائی میں بندر کو الجھانے سے فائدہ صرف بندر کا ہوتا ہے۔

والسلام

زبان دراز

ہفتہ، 30 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 13

پیاری ڈائری!

اب تم تو مجھ سے ناراض ہوکر نہ بیٹھو! میں نے کہا تھا نا کہ فارغ ہوتے ہی پوری رام کتھا سنائوں گی سو لو میں حاضر ۔۔۔ پہلے کہانی سن لو پھر اس کے بعد بھی روٹھنا چاہو تو میں شکوہ نہیں کروں گی۔ تم تو خیر نئی ہو اس لیئے شروع سے ہی کہانی بیان کردیتی ہوں تاکہ تمہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ تو تم جانتی ہو کہ جوائنٹ فیملی کے گھر میں رہتی ہوں جہاں کمائی ایک ہے اور کھانے والے پیٹ ہزار۔ وہی لگے بندھے وسائل اور وہی ان وسائل پر اختیار کی گھریلو رنجشیں۔ شروع میں یہ نظام طے ہوگیا تھا کہ ہر کچھ عرصے بعد گھر کا انتظام ایک شخص کے ہاتھ سے لیکر دوسرے کے ہاتھ میں دے دیا جاتا تھا کہ اس طرح جوابدہی اور زمہ داری کا احساس سب لوگوں میں قائم رہے۔ میں تو چھوٹی تھی سو جتنے پیسے چاہیئے ہوتے تھے لے لیتی تھی۔ نہ جوابدہی کا خوف تھا نہ کسی اور چیز کا ڈر۔ گھر کے سب لوگ مجھ سے اتنا پیار جو کرتے تھے۔ ایک دفعہ غلطی سے گھر کا انتظام میں نے لینے کی خواہش ظاہر کردی۔ گھر والوں کی چہیتی تو تھی ہی لہٰذا کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ سارے وسائل میرے قبضے میں آئے۔ بہت سے گھر پہ لگائے باقی یاروں میں اڑائے۔ شروع میں تو کسی نے کچھ نہیں کہا مگر کچھ عرصے بعد گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں اور گھر کا انتظام مجھ سے واپس لے لیا گیا۔ سارے وسائل کا اختیار میں ہونا اتنا لطف انگیز نہیں تھا جتنا ان اختیارات کا چلے جانا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ خیر میں نے بھی اس وقت تو برداشت کیا مگر موقع ملتے ہی گھر کا کنٹرول ایک بار پھر سنبھال لیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور اختیار و بے اختیاری کا کھیل بھی جاری رہا۔ کچھ دنوں پہلے مگر جب آخری مرتبہ اختیار میرے ہاتھ سے گیا تو میرے دونوں چچا زاد بھائیوں نے دادا ابو سے کہہ کر یہ تحریری معاہدہ کروا لیا کہ اب اگلے پندرہ ماہ تک میں گھر کے امور میں مداخلت نہیں کروں گی اور خاموشی سے اپنی ضرورت کی چیزیں ان چچا زاد بھائیوں اور دادا ابو سے لیتی رہوں گی۔ اس وقت تو مجبوری تھی کہ سامنے دادا ابو تھے اور گھر کے بیشتر وسائل ان ہی کی مرہون منت تھے۔ میں ان سے اختلاف کی جسارت نہیں کرسکتی تھی۔ مرتی کیا نہ کرتی میں نے بھی معاہدے پر ستخط کردیئے۔

پہلے پانچ ماہ تو جیسے تیسے کرکے کاٹ دیئے مگر اختیار اور طاقت کا نشہ تو افیم سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ کچھ نشہ بھی ٹوٹنے لگا تھا اور کچھ اس بات کا بھی غصہ تھا اب ان دونوں چچا زاد بھائیوں میں سے اختیار اس بھائی کے ہاتھ میں آگیا تھا جس کی مجھے کبھی بھی شکل پسند نہیں آئی تھی۔ مجھے بچپن سے یہ بات سکھا دی گئی تھی کہ اس گھر کی سب سے حسین فرد میں ہوں سو اس اعتبار سے انا و غرور بھی صرف مجھ پر ہی جچتا تھا۔ یہ چچازاد بھائی اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک تو عجیب موٹا اور گنجا سا انسان اور اوپر سے انا ایسی جیسے گھر کا اصل چہیتا وہی ہو۔ خیر میں پھر بھی اسے برداشت کرلیتی اگر اس نے آتے ہی اپنی اوقات نہ دکھا دی ہوتی۔ سب سے پہلے تو اس نے کھلے کمینے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پڑوس والی رشیدہ کی شادی میں شرکت کا فیصلہ کرلیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ رشیدہ سے مجھے کتنی چڑ ہے۔ میں پھر بھی برداشت کرگئی۔ میری اس برداشت کو کمزوری سمجھتے ہوئے اس گنجے نے دوسرا کام یہ کیا کہ میرے لیئے کام کرنے والی کریمن کو نوکری سے نکالنے اور پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا ہوا اگر گھر کے سودے میں سے چار پیسے رکھ لیتی تھی غریب؟ گویا خود تو اس نے کبھی چوری کی ہی نہیں؟ اور جب وہ جانتا تھا کہ کریمن میری خاص ہے اور اس کی تمام حرکات میرے علم میں بھی ہیں تو جب میں نے اسے پولیس کے حوالے نہیں کیا تو یہ کون ہوتا تھا یہ فیصلہ کرنے والا؟

کریمن والے واقعے کے بعد سے میری بس ہوگئی تھی اور میں اب مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ اس گنجے چچا زاد کی واحد اچھی چیز یہ تھی کہ یہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا تھا۔ جب جب میں نے اس سے کسی حماقت کی امید کی، اس نے الحمدللہ میری امیدوں کی لاج رکھی۔ ہوا یوں کہ گھر میں دیمک لگ گئی جو سارے دروازوں کھڑکیوں کو مسلسل چاٹنے لگی۔ گھر میں سب لوگ اسے کہتے رہے کہ مجھ سے کہہ کر یہ دیمک مار دوائی ڈلوا دو کہ گھر کی صفائی میرے ذمے تھی۔ گنجے نے مگر ایک نہ سنی۔ ایک دن تنگ آکر میں نے خود اسپرے اٹھایا اور صفائی میں لگ گئی۔ تب یہ صاحب بھاگتے ہوئے اور سب گھر والوں کو جمع کرکے بتانے لگے کہ کس طرح ان کے کہنے پر میں یہ صفائی کرنے لگی ہوں۔ میں دل ہی دل میں مسکرارہی تھی کیوںکہ گھر میں اب کوئی بچہ نہیں رہا تھا جسے معلوم نہ ہو کہ کون سا کام کس کے کہنے پر اور کون کر رہا ہے۔ میری منزل اب آسان تھی۔ گھر والوں کی نظر میں میری عزت اب بحال ہوگئی تھی۔ اب صرف آخری وار کرنا باقی تھا۔

میں نے اپنے تایا کے دونوں بیٹوں کو بلایا اور ان کو یقین دلوا دیا کہ اگر وہ چاہیں تو میں گھر کے وسائل اور زمام اختیار ان کے حوالے کروا سکتی ہوں۔ وہ دونوں بیچارے سیدھے سادھے فوراّ میری مدد کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اب گھر کے اندر روزانہ ایک فصیحتہ کھڑا ہونے لگا۔ دونوں تایازاد کچن کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ نہ خود کھائیں گے اور نہ کسی کو کھانے دیں گے۔  ایک عجیب افراتفری کا عالم ہوگیا تھا۔ گھر کے سارے افراد پریشان تھے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہوگا؟ بات اب گھر سے نکل کر محلے بھر میں پھیل چکی تھی اور گھر والے مسلسل بدنام ہورہے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ گنجا اس طرح دبائو کا شکار ہوکر میرے پاس آئے گا اور پھر میں اپنی مرضی کی شرائط پر مک مکا کروالوں گی۔ گنجا مگر اس مرتبہ ہوشیار نکلا۔ اسے معلوم تھا کہ دادا ابو کے ہوتے ہوئے اور اس تحریری معاہدے کے بعد میں چاہ کر بھی بذات خود ایک فریق نہیں بن سکتی تھی، اس نے دونوں تایا زاد بھائیوں کو ہر لحاظ سے زچ کرنا شروع کردیا۔ تایا زاد بھائی روزانہ رات کو میرے کاندھے پر سر رکھ کر روتے مگر میں ان کو تسلی دلوا کر واپس بھیج دیتی۔ ان بیچاروں کو اب یہ فکر لگ گئی تھی کہ اب اگر اپنا مطالبہ منوائے بغیر اٹھ گئے تو گھر کا انتظام کبھی بھی نہیں سنبھال پائیں گے اور جگ ہنسائی الگ۔ میری الگ مجبوری کہ میں بذات خود فریق نہیں بن سکتی تھی کہ دادا ابو کو پتہ چلتا تو بہت مار پڑنی تھی اور خرچہ پانی الگ بند ہوجاتا۔

اس ہی کشمکش میں پندرہ بیس دن ہوگئے تھے اور سب کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔ میں نے چچازاد گنجے کو کہا کہ اگر وہ چاہے تو میں ان دونوں تایازاد سے بات کرکے معاملہ رفع دفع کروائوں؟ اس نے بخوشی ہامی بھر لی۔ تایازاد جو اپنی چھوٹی سی انا کی وجہ سے اب چچازاد سے براہ راست مل نہیں سکتے تھے اور کسی باعزت واپسی کا ویسے ہی راستہ ڈھونڈ رہے تھے، ان کو جیسے ہی پتہ چلا کہ چچازاد نے معاملات سنبھالنے کا اختیار مجھے سونپ دیا ہے وہ ناچتے گاتے فورا میرے کمرے میں آپہنچے۔ معافی تلافی ہوئی اور اگلی بار بہتر تیاری کے ساتھ آنے کے عزم مصمم کے ساتھ وہ لوگ باہر نکلے تو گھر  کے تمام لوگ بشمول ان کے اپنے بچے ان پر تھو تھو کر رہے تھے کہ اب سب کو یقین ہوگیا تھا کہ اس سارے ہنگامے میں کہیں نہ کہیں میرا بھی ہاتھ تھا۔ اب کوئی میرے اوپر تو انگلی اٹھا نہیں سکتا تھا  لہٰذا ساری لعنت ملامت ان دونوں غریب تایازاد پر آگئی۔ جلے پر نمک اس وقت پڑا جب گنجے چچازاد نے بھی گھر بھر کو جمع کرکے ان دونوں تایازاد کو خوب لتاڑا کہ کس طرح وہ میری مدد لیکر اس سے اختیارات چھیننا چاہ رہے تھے۔ جذبات کی رو میں وہ یہ بھی کہہ گیا کہ کسی کو اگر شک ہے تو مجھ سے تصدیق کرلے۔

بیچارے گنجے کو جوش میں ہوش نہیں کھونا چاہیئے تھا۔ اب چونکہ ساری توپوں کا رخ میری طرف تھا۔ اور یہ ویسے بھی واضح تھا کہ اس ڈرامے کا انجام چچازاد کے جانے پر نہیں بلکہ کچھ اختیارات میرے پاس آجانے پر ہی ہونا ہے سو میرے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم تو ڈوبے ہین صنم کا ورد کرتے ہوئے میں نے گھر والوں کو جمع کیا اور سب گھر والوں کو یقین دلا دیا کہ اصل سازش چچازاد گنجے کی رچائی ہوئی ہے اور اس ہی کے کہنے پر میں تایازاد سے ملی تھی ورنہ میں تو ان لوگوں کے نام تک نہیں جانتی تھی۔ اور ویسے بھی، ان لوگوں سے میرا کیا لینا دینا؟؟

خیر سے میری پوزیشن اب گھر میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اگر گنجے کو ہٹا کر گھر کا انتظام بھی سنبھال لوں تو بھی اب کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کیوںکہ پیچھے بیٹھ کر حکم چلانا سامنے آکر گالی کھانے سے زیادہ آسان اور مزیدار کام ہے۔ باقی رہے تایازاد، تو جب وہ ایک چچازاد کے نہیں ہوسکتے تو دوسری چچازاد کے کیسے ہونگے؟ میں بھی موقع دیکھ کر ان پر لعنت بھیج دوں گی۔ اب خود بتائو؟ اتنا کچھ چل رہا ہو گھر میں تو ڈائری خاک لکھتی؟

تمہاری

آب-پاری

 

جمعہ، 29 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 12

!پیاری ڈائری 

آج سے پہلے میں تمہیں اپنی ہی کہانیاں سناتا رہا کہ ڈائری انسان لکھتا ہی یاد داشت کیلیئے ہے۔ آج مگر میں تمہیں ایک پرائی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ زندگی کے کسی موڑ پر شاید مجھے اس کہانی کو دوبارہ دہرانے کی ضرورت پڑے سو بہتر ہے کہ اسے قرطاس پر منتقل کردوں تاکہ بوقت ضرورت حوالہ رہے۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک بہت بڑا مظلوم طبقہ بستا تھا۔ یہ بیچارے ہر لحاظ سے استحصال کا شکار  لوگ تھے اور زندگی کی سختیوں سے شدید تنگ آچکے تھے۔ وہ صبح شام گڑگڑا کر کائنات کے مالک سے دعائیں کرتے کہ ان کیلئے کسی نجات دہندہ کو بھیج دے۔ ایک دن خدائے بزرگوار نے ان محکوموں کی دعائیں سن لیں اور ان کے درمیان ایک ایسے شخص کو بھیج دیا جس نے ان کے متفرق گروہوں کو جوڑ کر ایک ملت ہونے کا احساس دوبارہ ان میں زندہ کردیا۔ اس فرشتہ صفت انسان نے نہ صرف انہیں ان کی شناخت لوٹائی بلکہ انہیں ایک الگ ملک بھی لے کر دے دیا کہ وہ وہاں رہ کر اپنی اس شناخت کا لوہا منوا سکیں اور دنیا کو دکھا سکیں کہ وہ کس قدر باصلاحیت قوم ہیں۔

جب تک وہ محسن ان لوگوں کے درمیان رہا تب تک یہ لوگ بھی بےپناہ خوش رہے۔ ایک عجیب جذبہ تھا جو اس نے ان لوگوں میں پیدا کردیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایثار اور محنت کی مثال بن کر اس نئے ملک کو آگے لے جانا چاہتا تھا۔ محدود وسائل کے باوجود وہ سب لوگ اس نئی مملکت کے حصول سے خوش تھے۔ مملکت اب ایک سال کی ہوگئی تھی اور تیزی سے استحکام کی طرف جا ہی رہی تھی کہ خدا نے اس عظیم انسان کو واپس اپنے پاس بلا لیا۔ یہ پوری قوم اس سانحے پر بہت روئی مگر اس قوم نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور یکسوئی اور محنت کے ساتھ ترقی کا سفر جاری رکھا۔

جس طرح گھر کے بڑے کے گزنے کے بعد اکثر گھر سلامت نہیں رہ پاتے اس ہی طرح اس ملک میں بھی کچھ ہی عرصے بعد لوگوں کو یہ احساس ستانے لگا کہ "ایک قوم" کے دلفریب نعرے میں الجھ کر وہ اپنی سابقہ اور اصل شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ اس احساس کے ہوتے ہی لوگوں نے اپنی ان تمام شناخت کو جنہیں وہ برسوں پہلے دبا آئے تھے، دوبارہ کھود کر نکال لیا۔ اب وہ ایک قوم کے بجائے بہت ساری صوبائی، معاشی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم اقوام بن کر  رہنے لگے۔ تقسیم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ یہ مسلسل ہوتی ہے۔ تقسیم کا منحوس سلسلہ اگر ایک بار شروع ہوجائے تو یہ ایک ایسا  لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے جس میں انسان ہر دوسرے انسان سے اپنی شناخت الگ کرتے کرتے بالآخر مکمل اکیلا رہ جاتا ہے۔ تقسیم کے اس سفر میں ہوتے ہوتے ملک بھی تقسیم ہوگیا مگر تقسیم کی ہوس کسی طرح بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

وقت کا پہیہ بھی چلتا رہا اور زوال کا زینہ بھی بخوبی طے ہوتا رہا۔ ملک میں ایک دستور سا بن گیا تھا کہ ہر وہ چیز جس پر آپ یقین رکھتے ہیں وہ بہترین ہے اور جس چیز کے آپ مخالف ہیں، روئے زمین پر اس سے زیادہ گھٹیا کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ تقسیم کی عادت سے جو عدم برداشت کی آگ معاشرے میں پیدا ہوئی تھی وہ اب سب کے گھروں کو چاٹ رہی تھی۔ کہیں لسانیت کی بنیاد پر دنگا تھا تو کہیں مسلک اور مذہب کے نام پر فساد۔ معاشرے کی ایک بڑی تعداد مگر اب بھی اس سب صورتحال سے تنگ تھی۔ وہ اب اس سارے سلسلے سے نجات چاہتی تھی۔ طلب اور رسد کے قانون کے تحت بہت جلد ایک نیا گروہ تبدیلی کا نعرہ لیکر میدان میں آگیا۔

اس نئے گروہ کو نئی نسل نے خاص طور پر  پزیرائی بخشی کہ وہ ملک کے دگرگوں حالات سے تنگ تھے اور اب واقعی بہتری چاہتے تھے۔ ملک میں انتخابات ہوئے تو اس نوجوان طبقے کو امید تھی کہ شاید ہرکوئی ان ہی کی طرح سوچتا ہوگا مگر کسی بھی حقیقی معاشرے میں تمام افراد کبھی بھی یکساں سوچ نہیں رکھتے۔  نتیجہ ان نوجوانوں کی مرضی کے خلاف آیا تو بیچارے وقتی طور پر تو گم سم ہوکر رہ گئے۔ وقت کے ساتھ مگر جب اوسان بحال ہوئے تو حواس کے ساتھ ساتھ تفریق اور نفرت کا وہ جذبہ بھی بیدار ہوگیا کہ جس کی نفرت میں وہ خود میدان میں آئے تھے۔ اس بار نوجوانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقہ بھی سڑکوں پر آگیا۔ مطالبہ دونوں کا یہی تھا کہ موجودہ حکمران طبقہ جابر اور بدعنوان ہے لہٰذا حقِ حکمرانی کھو چکا ہے۔

ملک اب کی بار ایک نئی قسم کی تفریق سے دوچار تھا۔ اس مرتبہ یہ محض فرق نہیں بلکہ باقاعدہ نفرت تھی۔ سیاسی اختلافات اب باقاعدہ دشمنیوں میں بدل رہے تھے۔ کل کے دوست، آج کی سیاسی وفاداریوں کی وجہ سے ایک دوسرے کا نام تک سننے کے روادار نہیں رہے تھے۔ قوم کی نفسیات اب یہ ہوچکی تھی کہ محفل میں دوسرے کا گریبان اور گھر میں اپنے بال نوچتے تھے۔ ایک دوسرے کا سامنہ ہوجاتا تو منہ سے کف بہنا شروع ہوجاتا اور آوازیں خودبخود اونچی ہوجاتیں۔ جان اور مال کا تو پہلے ہی اللہ حافظ تھا مگر اب تو خیر سے عزتیں بھی محفوظ نہیں رہی تھیں۔ وہ لوگ بھول گئے تھے کہ اختلاف کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور ہدف تنقید بھی ان کا اپنا پاکستانی بھائی ہی ہے جو ان ہی کی طرح سگنل تو توڑ سکتا ہے مگر ملک پر آنچ آنے کی بات آئے تو اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔

پیاری ڈائری! اس سے آگے مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہوا؟ اس کہانی کا انجام کیا تھا؟ ان تمام فریقوں میں سے کون حق تھا اور کون ناحق؟ کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار؟ میں ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں جانتا۔

پیاری ڈائری!  ایک بات البتہ ضرور اور بالیقین کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت ان تمام لوگوں کے پیروکار ایک دوسرے کی عزتیں اچھال رہے تھے، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی یہ تمام لیڈران ایک دوسرے کے گلوں میں بانہیں ڈال کر بلند و بانگ قہقہے لگا رہے تھے۔

والسلام

ایک تفریق زدہ پاکستانی

بدھ، 27 اگست، 2014

بیچارے افضل

بعض خواب اگر پورے نہ ہوں تو انسان بہت پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میرا نام افضل شیخ ہے اور میں اتنا پیارا افضل نہیں ہوں جتنا آپ سمجھے ہیں۔ اگر کبھی میری زندگی پر کوئی ڈرامہ بن بھی جاتا تو اس کا نام پیارے افضل نہیں بیچارے افضل ہوتا۔ اس میں ڈرامہ بنانے والے کا قصور نہیں، میرے حصے میں آنے والا زندگی کا اسکرپٹ ہی ایسا تھا۔ زندگی کبھی بھی مجھ پر کھل کر مہربان ہوئی ہی نہیں۔ اگر ہو جاتی تو شاید آپ آج یہ کہانی نہیں پڑھ رہے ہوتے اور میں توسیع کے بعد اب بھی کسی بڑئے عہدے پر براجمان ہوتا۔

ایک چھوٹے سے گائوں نما شہر میں پیدا ہونے کے اپنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ آپ شاید کبھی اس بات کا اندازہ اس لیئے نہیں کرپاتے کیونکہ آپ خود ہمیشہ کسی بڑے شہر میں رہے ہیں۔ چھوٹا شہر اپنے محدود کلچر کی وجہ سے محدود مشاہدہ پیدا کرتا ہے اور پھر جب کوئی اس محدود مشاہدے کے ساتھ دنیا فتح کرنے نکلتا ہے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہوا۔ بچپن سے صحافت کا شوق تھا لحاظہ میں نے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک صحافتی ادارے سے منسلک ہوگیا اور زندگی کے بہت سے قیمتی سال اس ہی غم میں برباد کردیئے۔ یہ دور صحافت کا برا دور تھا۔ حکمرانوں کے خلاف لکھو تو کوڑے کھائو اور اگر حق میں لکھو تو بھی کوئی خاص انعام نہیں پائو۔ ان تلخ ایام کی حقیقت کو میں نے اپنے پلو سے باندھ لیا اور قسم کھائی کے آئندہ صحافت میں قدم نہیں رکھوں گا۔ فائدہ ایسے کام کا جہاں انسان کے ضمیر کی مناسب قیمت بھی نہ مل سکے؟

صحافت چھوڑی تو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کیا جائے؟ پھر زمانہ صحافت کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ایک اہم قومی ادارے میں جگہ بنوائی اور سکون سے زندگی بسر کرنے لگا۔ کہنے کو اس قومی ادارے کی ضرورت ہر 5 سال بعد پیش آنی چاہیئے تھی مگر خدا بھلا کرے جمہوریت کا کہ جس کے حسن کی وجہ سے ہر دو سال بعد ہمارے بھائو بڑھ جاتے اور پورا ملک ہماری طرف دیکھنے لگتا۔ زندگی اپنی رفتار سے گزر رہی تھی۔ زمانہ ملازمت میں کئی آمریت، کئی نیم جمہوریت اور ایک آدھی مکمل جمہوریت بھی بھگتا دی مگر چھوٹے شہر کا بڑا آدمی بننے کا میرا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوپایا تھا۔ اس بات کی خلش نے میری رات کی نیندیں اور دن کا سکون سب برباد کردیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب میری مدت ملازمت ختم ہورہی ہے اور شاید آخری مرتبہ میرے اس ادارے کو ٹیلی وژن پر آنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں نے سر دھڑ کی بازی لگادی کہ کسی طرح اس بار میں کوئی ایسا کام کرجاؤں کہ میں اپنے اس چھوٹے شہر میں ایک بڑا آدمی بن کر لوٹ سکوں۔ میں نے وزراء سے مائک چھینے، صحافیوں کو للکارا، چیف جسٹس سے ملاقاتیں کیں، مگر کوئی چیز بھی ایسی نہ نکلی جو مجھے شہرت کے اس دوام پر پہنچا دیتی جس کے میں نے بچپن سے خواب دیکھے تھے۔

وقت بھی نکل گیا اور نوکری کی مدت بھی ختم ہوگئی۔ اب میں گھر میں بیٹھ کر اس اچھے وقت کے خواب دیکھتا تھا جو کبھی آیا ہی نہیں۔ زندگی میں ایک عجیب سی مایوسی آگئی تھی اور اب میں شدید اکتاہٹ کا شکار تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ کا خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے سو میری زندگی میں بھی وہ دن آ ہی گیا جب میں مشہور ہوسکتا تھا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت نے میرے سابقہ ادارے کی بدعنوانیوں کےخلاف ایک ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔ میں نے اس جماعت کے سرکردہ رہنمائوں سے رابطے کی کوششیں شروع کردیں اور خود بھی اس احتجاجی تحریک کا حصہ بن گیا۔ میری کوششیں رنگ لے آئیں اور میری ملاقات اس تحریک کی قیادت سے بھی ہوگئی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے تمام تر الزامات درست ہیں اور میرا سابقہ ادارہ سنگین بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔ ان کم ظرف لوگوں نے میری بات سنی تو سہی مگر اس بات کے ثبوت بھی مانگ لیئے۔ اب میں ثبوت کہاں سے لاتا؟ مایوس ہوکر میں جلسے سے باہر آگیا۔

اگلے دو دن اس ہی مایوسی میں گزرے۔ کسی کام میں دل نہیں لگا۔ قدرت نے یہ ایک آخری موقع دیا تھا جسے میں اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھا تھا۔ تیسرے دن البتہ میرے پاس ایک گمنام کال آئی۔ فون اٹھا کر بات کی تو دوسری طرف موجود شخص نے مجھ سے وہ سوال کیا جس کا مجھے صدیوں سے انتطار تھا۔ اس شخص نے مجھ سے پوچھا، پیارے افضل! کیا تم مشہور ہونا چاہتے ہو؟ مجھ پر تو گویا شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی اور میں نے فی الفور ملاقات کی خواہش کردی۔ اس انجان شخص نے مجھ سے پوچھا کہ جو باتیں میں ان لیڈران سے کرکے آیا ہوں کیا میں وہی باتیں ٹیلی وژن پر بھی دہرا سکتا ہوں؟ میں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ جب اس ملک میں پیارے افضل مشہور ہو سکتا ہے تو بیچارے افضل نے کیا بگاڑا ہے؟ کیا میں کسی بھی طرح پیارے افضل سے کم تھا؟؟

ٹیلی وژن پر بھی آگیا، سب باتیں بھی کہہ ڈالیں، دل کا بوجھ بھی اتر گیا، مگر پروگرام کے اختتام پر اس میزبان نے بھی وہی سوال داغ دیا کہ آیا میرے پاس ان سب باتوں کا کوئی ثبوت ہے؟ دل تو کیا میں چیخ چیخ کر رو پڑوں مگر میں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے بچپن کا خواب پورا ہوگیا ہے۔ احتجاجی دھرنوں سے لیکر گلی چوباروں تک ہر کوئی اس نئے پیارے افضل کے بارے میں بات کررہا تھا۔ گاؤں گاؤں اور شہر شہر ہر ایک کے لب پر اب میرا ہی نام تھا۔

بعض خواب اگر پورے نہ ہوں تو انسان بہت پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میرا نام افضل شیخ ہے اور میں اتنا پیارا افضل نہیں ہوں جتنا میں سمجھا تھا۔ اگر کبھی میری زندگی پر کوئی ڈرامہ بن بھی جاتا تو اس کا نام پیارے افضل نہیں بیچارے افضل ہوتا۔ کل رات یہ خواب پورا ہونے کے بعد سے میں سکون سے سو نہیں پایا ہوں اور اس بےخوابی کی وجہ میرے ارادوں اور خوابوں کی تکمیل کی خوشی نہیں ہے۔

کل رات سے محض ایک ہی خیال رہ رہ کر دماغ میں گھوم رہا ہے کہ ڈرامے کے اختتام پر کچھ بدلے یا نہ بدلے، پیارے افضل کو گولی ماردی جاتی ہے۔

 (اس کہانی کے تمام نام، مقام، واقعات اور کردار فرضی ہیں۔ کسی اتفاقیہ مماثلت کی صورت  میں مصنف زمہ دار نہیں ہوگا۔)

منگل، 26 اگست، 2014

زبان دراز کی ڈائری – 10

پیاری ڈائری!

آج میرا ڈائری لکھنے کا قطعاّ کوئی ارادہ نہیں تھا مگر کیا کرتا۔ کچھ درد اگر قرطاس پر منتقل نہ کیئے جائیں تو جسم کے اندر ہی گھائو بنا کر بس جاتے ہیں اور پھر گھائو سے لاوہ بنتے انہیں کب دیر لگتی ہے؟ اور لاوے کی فطرت تو تم جانتی ہی ہو کہ یہ یا تو اندر ہی اندر چٹان کو کھاتا رہتا ہے یا پھر ایک ہی دفعہ باہر نکل کر سب کچھ برباد کر چھوڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ درد کو درد ہی رہنے دیا جائے اور اسے رگوں سے نچوڑ کر قرطاس پر منتقل کردیا جائے۔

میں جانتا ہوں تمہیں ان سب سنجیدہ چیزوں کی عادت نہیں ہے اور مجھ سے یہ باتیں سننا تمہیں ضرور حیران بلکہ شاید کچھ حد تک پریشان  بھی کر رہا ہوگا۔ مگر میں کیا کروں کے آج کوشش کے باوجود بھی میں مسکرا نہیں پارہا۔ میں چاہتا ہوں کہ قلم سے شگوفے بکھیروں، تمہارے چہرے پر مسکراہٹ لائوں، طنز کے لطیف نشتر سے تمہیں گدگدائوں ۔۔۔ مگر آج کا زخم شاید نشتر کے بس کا نہیں ہے۔ اسے کسی معمولی نشتر کی نہیں بلکہ کاٹ دینے والی تلوار کی ضرورت ہے کہ اگر آج بھی تلوار نہ چلی تو اس زخم میں موجود زہر پورے جسم کو چاٹ جائے گا۔

پچھلے ایک ہفتے سے طبیعت بہت زیادہ ناساز تھی اور یہ موسمی بخار جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دو ڈاکٹر بدل کر دیکھ لیئے مگر اس بخار نے جان نہیں چھوڑی۔ کل خالہ جان ملنے کیلئے آئیں تو جاتے ہوئے کہہ گئیں کہ بیٹا روائتی علاج اپنی جگہ سہی مگر ہوسکے تو گوشت کا صدقہ نکال دو۔ صدقہ بہت سی آفات و بلیات کو ٹال دیتا ہے۔ بات بھی کچھ مناسب تھی اور ویسے بھی بیماری و کمزوری میں انسان مذہب سے کچھ قریب ہوجاتا ہے سو آج صبح جاکر میں بھی حسب استطاعت ایک چھوٹا سا بکرا خرید کر لے آیا کہ گھر میں ہی صدقہ دلاکر گوشت مستحقین میں تقسیم کردوں گا۔

خیر سے بکرا بھی آگیا اور صدقہ بھی دے ڈالا۔ اب جب گوشت مستحقین کو دینے کی باری آئی تو میں نے اپنے دفتر کے ایک چپڑاسی کو فون کرکے بلا لیا۔ خدا بیچارے مشتاق کو خوش رکھے کہ وہ چپڑاسی ہونے کے باوجود ایک بڑے دل کا مالک ہے اور مجھے یقین تھا کہ اس کے علم میں کوئی نہ کوئی ایسا مستحق ضرور ہوگا جو صدقے کا یہ گوشت استعمال کرسکے۔

میں نے گوشت مشتاق کے حوالے کیا اور اس کو تاکید کی کہ کسی واقعی مستحق انسان تک اسے پہنچا دے۔ مشتاق نے گوشت کا تھیلا میرے ہاتھ سے لیا مگر اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو مشتاق نے بھرائی ہوئی آواز مٰیں ایک ایسا سوال کرڈالا کہ جس کا جواب میں اب تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ مشتاق نے کہا کہ صاحب! میں سید ہوں لہٰذا صدقے کا گوشت مجھ پر حرام ہے؛ میری اپنی ذات پر اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، پر صاحب میرے گھر والوں نے پچھلے تین سال سے بکرے کا گوشت نہیں کھایا ہے!! آپ تو مذہب جانتے ہیں، کیا کوئی ایسی صورت نہیں نکل سکتی کہ میں اس پورے تھیلے میں سے تین، چار بوٹیاں اپنے والدین کیلئے استعمال کرسکوں؟؟؟

پیاری ڈائری! مشتاق تو گوشت لیکر چلا گیا مگر میری طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب ہوگئی ہے۔ دوپہر سے ٹیلیویژن کے آگے بیٹھا ہوں اور دماغ میں صرف ایک ہی بات چل رہی ہے؛

میاں صاحب کو ہرن نہیں کھانا چاہیئے تھا۔

والسلام

لٹا ہوا پاکستانی

جمعرات، 19 جون، 2014

زبان دراز کی ڈائری – 6

یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ کرنے کو کچھ نہیں ہے سو مجبوراٗ ڈائری لکھنی پڑ رہی ہے۔

پیاری ڈائری! قصہ کچھ یوں ہے کہ پرسوں سے محلے میں میڈیا کا پہرہ ہے اور ہم اس بڑھی ہوئی داڑھی کے ساتھ ان کے سامنے جا نہیں سکتے کہ پھسٹ امپریسن لاسٹ امپریسن والی بات ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ یہ مجمع ٹلے تو ہم بھی باہر نکلیں اور ہوا کھائیں۔ سنا ہے کہ یہ سب ہمارے پڑوس میں رہنے والے گلو بھائی کے سلسلے میں یہاں جمع ہیں۔

گلو بھائی بھی خوب انسان ہیں ویسے۔ وزیر بننا ان کا بچپن کا خواب ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گلو بھائی پیدا ہوئے تو ان کی ماں مر گئی، تس پر ان کے باپ جو ایک پہنچے ہوئے نائی تھے، نے پیش گوئی کی کہ چونکہ یہ پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کو کھا گیا ہے سو یہ انشاءاللہ بڑا ہوکر کم سے کم وزیر بنے گا۔ لوگوں نے پوچھا کہ ماں کو مارنے سے وزیر بننے کا کیا تعلق تو اس پہنچی ہوئی ہستی نے وضاحت کی کہ جس ملک میں امیر بیوی کو مارکر صدر بنا جا سکتا ہو وہاں غریب ماں کو مار کر کم سے کم وزیر بننا تو انکے بیٹے کا حق ہے۔ خیر بڑے میاں کی خرافات تو بڑے میاں جانیں، ویسے بھی ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہٰں والا لطیفہ ہم سب نے سن ہی رکھا ہے۔

گلو میاں کے بارے میں اس سے بہتر کیا بیان کروں کہ ڈائری میری، قلم میرا اور گلو میاں مفت میں در آئے۔ ویسے ہی جیسے دفتر کسی کا، بیریئر کسی کے، پولیس کسی کی، آرڈر کسی کا، مگر گلو بھائی کہ جن کو نہ پولیس، نہ لیگ، نہ پارٹی، کوئی بھی اپنانے کو تیار نہیں مگر یہ ہیں کہ پوری کاروائی میں سب سے آگے آگے ہیں۔ اُن کے اِن ہی اوصافِ جمیلہ کی بنیاد پر محلے میں سب گلو بھائی سے بنا کر رکھتے ہیں کہ جس قسم کے خبطی یہ ہیں، کچھ بعید نہیں کہ آگے چل کر صوبے کے وزیرِ قانون لگ جائیں۔ برا وقت ویسے بھی کونسا بتا کر آتا ہے، اور غریبوں کے معاملے میں تو ایک دفعہ آجائے تو ہمیشہ کیلئے بس جاتا ہے۔ سو گلو بھائی بچپن سے ہی محلے کے سیاستدان تھے۔ ٹین ڈبے کی دکان سے انہوں نے کام شروع کیا اور ٹین ڈبوں کی چوری سے ٹرین کے ڈبوں کی چوری تک کا سفر بڑی کامیابی کے ساتھ طے کرتے چلے گئے۔ پیاری ڈائری تم جانتی ہو کہ میں یہ رائیونڈ والے گلو کی نہیں، اپنے محلے کے گلو کی بات کر رہا ہوں!! وقت کے ساتھ ساتھ گلو بھائی نے سیکھ لیا تھا کہ اس شخص سے بڑا احمق کوئی نہیں جس کے پاس کھانے کیلئے پورا ملک پڑا ہو اور وہ لوہے کے کارخانے ہڑپنے میں وقت ضائع کرتا رہے۔ سو گلو بھائی اب سارے فالتو کام دھندے چھوڑ کر ملک اور جیب سنوارنے کے اس ہی کارخیر میں مصروف تھے کہ پرسوں حکم ملا کہ ماڈل ٹائون میں جاکر کچھ سکریپ کی گاڑیاں توڑ دو۔ گلو بھائی نے مرشد کے حکم پر جاکر گاڑیاں توڑ دیں اور جیسے کے صوبے کی روایت ہے، کام ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ تس کے بعد آپ نے گرم موسم میں ٹھنڈی کوک لی، خود بھی پی، پولیسیوں کو بھی پلائی اور ناچتے گاتے گھر آگئے۔ شام گئے بڑی سرکار کا فون آیا کہ گرفتاری پیش کردی جائے سو گلو بھائی نے خیر سے گرفتاری بھی پیش کردی اور عدالت میں پیشی کے موقع پر پٹ بھی آئے۔ تب سے اب تک یہ میڈیا یہاں موجود ہے اور گلی میں موجود کھمبے کو مسلسل پیٹے جارہا ہے اور خدا معلوم کب تک پیٹتا رہے گا۔

میری پیاری ڈائری! یہ سب باتیں تمہیں سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اب خیر منائو۔ جس ملک کا میڈیا اور تمام افراد 11 انسانوں کے قاتل کو بھول کر 4 گاڑیوں کو شہید کرنے والے پر پچھلے دو دن سے کوریج دے رہے ہوں وہاں کا اللہ ہی حافظ ہے۔

تمہارا خیر خواہ

زبان دراز
19- جون - 2014

آج کا شعر:
بستی جلی ، خبر ہوئی شائع کچھ اس طرح
آتش زنوں کے تیل کا نقصان ہوگیا

منگل، 10 دسمبر، 2013

قائد کا خط میرے نام

قابل برداشت پاکستانیوں

میں نے بہت چاہا کے اس خط کا آغاز "میرے عزیز ہم وطنو" جیسی کسی چیز سے کروں مگر پھر یاد آیا کہ آج کل یہ جملہ کسی سویلین کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ پیارے پاکستانی لکھنے پر حکام جنت کو اعتراض تھا کہ یہاں دل رکھنے کے لیئے بھی جھوٹ بولنا منع ہے۔ جون ایلیاء تو مصر تھے کے اول تو یہ "بھان کے گھوڑے" اس قابل نہیں کے ان سے کلام کیا جائے، اور اگر اتنا ہی ضروری ہے تو "ابے او وغیرہ وغیرہ" جیسی کسی چیز سے اس خط کا آغاز کیا جائے؛ ان سے نظر بچا کر "قابل برداشت پاکستانیوں" لکھ رہا ہوں سو اس ہی کو غنیمت جانیں۔

خط کے آغاز میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آپ لوگوں کے عقیدے کے برخلاف ہر وہ جگہ جہاں بجلی نہ جائے اور خودکش دھماکے نہ ہوں اسے جنت نہیں کہتے۔

شاید آپ جاننا چاہتے ہوں گے کے یہاں سب کیسا ہے تو جنت میں بہت سکون ہے اور ہم سب بہت آرام سے ہیں سوائے علامہ صاحب کے؛ بیچارے آج کل بےخوابی کا شکار ہیں۔ جوش
صاحب کے پوچھنے پر بتایا کے ڈر لگتا ہے کے اگر سویا تو ہھر سے کوئی خواب نہ دیکھ لوں۔

پچھلے کچھ دنوں سے ایک صاحب روزانہ آ کر گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کل میں نے پوچھ ہی لیا کے وہ ہیں کون؟ بولے: پاکستانی ہوں! اقبال بے دھیانی میں پوچھ بیٹھے کہ "جنت میں کیا کر رہے ہو؟" ۔۔۔ شاید ناراض ہو گئے کیونکہ آج نظر نہیں آئے۔

 ویسے تو مجهے شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں مگر علامہ صاحب کی وجہ سے مجبورا مشاعروں میں جانا پڑ جاتا ہے. ابهی پرسوں بهی فیض صاحب کے گھر مشاعرہ تھا اور خوب محفل رہی۔ یہاں کا مشاعرہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے کہ یہاں شعراء گھر سے پی کر نہیں آتے بلکہ سب اہتمام محفل میں ہی ہوتا ہے۔ جالب صاحب البتہ نہیں پیتے کہ سرکاری چیز خواہ شراب ہی کیوں نہ ہو حرام ہے، مولانا حالی نے سمجھانے کی کوشش کی تو سیخ پا ہو کر خوب شور کیا۔ گفتگو کیا رہی یہ تو شور میں سمجھ نہیں آئی البتہ ایک جملہ کچھ "میں باغی ہوں میں باغی ہوں" جیسا بار بار سنائی دیا۔

احمد ندیم قاسمی صاحب بتا رہے تھے کے آپ لوگو کی مجھ سے محبت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور انتہا یہ ہے کہ میری شکل دیکھے بغیر اب آپ لوگ کوئی کام نہیں کرتے؟ ناصر کاظمی نے کہا کہ مجھ پر بات آجائے تو لوگ خونی رشتوں کو میری تصاویر پر قربان کر دیتے ہیں؟ محسن نقوی نامعلوم کیوں پہلو بدلتے رہے اور آخر میں یارۃِ ضبط کھو کر بول اٹھے کے بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اب تو یہ صورتحال ہے کہ ناصر صاحب اچھے وقتوں میں چلے گئے ورنہ قائد کی چند تصویروں کے عوض یہ بھی ناصر کاظمی مرحوم کی جگہ شہید ناصر کاظمی کہلاتے۔ مجھے اس ساری گفتگو کی سمجھ نہیں آئی البتہ احباب کے سرخ چہروں سے میں نے سمجھا یہ میرے بارے میں اچھی گفتگو ہو رہی ہے۔

بیچارے جون ایلیاء، ناصر کاظمی، محسن نقوی، مصطفیٰ زیدی، جوش صاحب وغیرہ آج کل سخت پریشان ہیں اور چھپتے پھر رہے ہیں کے کسی مولوی نے کہا ہے کے کوئی حکیم اللہ صاحب جنت میں آنے والے ہیں۔ قرض ادھار کا معاملہ لگتا ہے- دعا کیجیئے گا!

والسلام
محمد علی

یہ ایک تخیلاتی خط ہے جو ہم پاکستانیوں کے نام قائداعظم محمد علی جناح نے لکھا ہے۔ پڑھتا جا شرماتا جا

پیر، 9 دسمبر، 2013

بَل قاٰعدہ

جب سے سنا تھا کہ ہر بڑا آدمی بلاگ لکھتا ہے تو فطرتاَ یہ شوق ہوا کہ ایک پلاٹ اپنے نام نہ سہی مگر بلاگ ضرور اپنے نام سے ہونا چاہیئے۔ [بڑا آدمی بننے کا تو یاد نہیں البتہ بڑا آدمی دکھنے کا شوق ہمیں بچپن سے ہے]۔

چونکہ اس، اور آنے والے ہر بلاگ کی زبان اردو ہو گی اس لیئے احتیاطا٘ اردو کا جدید اور ذاتی مرتب کردہ قاعدہ اس بلاگ میں حاظر ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے "زبانِ بلاگِ یار اردو، کہ من اردو نمی دانم"۔ محظوظ ہوئیے ۔۔۔

بَل قاٰعدہ

الف:
پرانے زمانے میں اس سے انار آتا تھا مگر آج کل سب کچھ پیسوں سے آتا ہے.
حاصل گفتگو: اب الف سے کچھ نہیں آتا

ب:
کسی زمانے میں بلّا ہوتا تھا مگر اب یہ بلّا ایک سیاسی جماعت لے گئی-
اب ب سے بَلائیں آتی ہیں

پ:
پ سے جو پتنگ آتی ہے اس کے بارے میں گفتگو کرنا حرام ہے... باقی آپ سمجھدار ہیں!
وضاحت: پ سے پیسے بھی آتے تھے جو اب صرف کرپشن سے آتے ہیں

ت
ت سے تتلی آتی ہے جو بڑی ہو کر پھلجھڑی بنتی ہے اور مزید بڑی ہو کر شادی کر لیتی ہے
وضاحت: تاڑو ت سے نہیں بد قسمتی سے آتے ہیں

ٹ
... ٹ سے جو ٹماٹر آتے تھے وہ اب دو سو روپے سے بھی نہیں آتے
وضاحت: ٹکلا ٹ سے نہیں آپ کے ووٹ سے آتا ہے سو اب بھگتیں

ث:
ث سے آنے والی چیزوں میں سب سے قابل ذکر ثنا ہے- ماشاءاللہ
وضاحت: ث سے جو ثمر آتا ہے اس کا مطلب گرمی نہیں پھل ہوتا ہے

ج:
چے کے چھوٹے بھائی کو ج کہتے ہیں!!!
مثال: جہالت، جمہوریت، جیو، جنگ وغیرہ وغیرہ

چ
اردو زبان کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ چ ہے - شرفاء میں اسے احمق بھی کہا جاتا ہے.
وضاحت: جو آپ سمجھے اصل مطلب وہی ہے

ح
ح سے پہلے حیرت ہوتی تھی- آج کل یہ حیرت لوگوں کو دیکھ کر ہوتی ہے.
ح الفاظ: حوالدار ، حکمران ، حرامی

خ
خ سے پہلے خلوص آتا تھا.. آج کل خونی رشتوں سے بھی نہیں آتا.
وضاحت: مصنف بلاوجہ جذباتی ہو رہا ہے آپ خربوزہ کھائیں

د
... دال سے صرف گیس آتی ہے باقی باتیں آپ کی عزت رکھنے کیلئے مشہور ہیں

ذ
ذ سے اب اردو دانوں کے لیئے صرف ذلت ہی آتی ہے-
شکریہ

ر
ر سے تو آج کل صرف رونا ہی آتا ہے
وضاحت: ریٹویٹ ر سے نہیں بیہودگی اور گالیوں سے آتی ہے

ز
پہلے زن ز سے آتی تھی آج کل ٹویٹر پر خود محنت کرنی پڑتی ہے!
سوال: سنا ہے ز سے آنے والے زر کیلئے بھی اب انتخاب لڑنا پڑتا ہے؟

س
پہلے س سے سی این جی آتی تھی اب دو گھنٹے کی ذلت کے بعد بھی نہیں آتی
س سے شروع ہونے والے جملے: س آن ہے بھائی وغیرہ وغیرہ

ش
ش سے پہلے نیک شہید آتے تھے مگر ملّا کے فضل سے آج کل کتے "ہی" شہید ہو رہے ہیں-
سنجیدہ نکتہ: شرم و حیا ش سے نہیں اچھی تربیت سے آتی ہے

ص
ص سے صراحی آتی تھی جو دو نسلوں پہلے متروک ہو چکی ہے - آج کل اس نام کا ایک بناسپتی آتا ہے بس..
ص سے شروع ہونے والے جملے: ص آگیا بادشاہو

ط
بچپن میں اس سے طوطا آتا تھا مگر آفتاب اقبال کے خبرناک کے بعد اب وہ بھی ت سے آتا ہے-
وضاحت: طاہرالقادری ط سے نہیں جی ایچ کیو سے آتا ہے

ظ
ظ سےپہلےظروف(برتن) لائےجاتےتھے آج کل اس کام کیلئےنکاح کر لیا جاتا ہے جس سے کھانا پکانے والی بھی مل جاتی ہے-
ظرف ظ سےنہیں کردار سےآتا ہے

ع
آج کل ع سےصرف ایک سابقہ کرکٹرکانام آتا ہےجبکہ عورت ع سےنہیں اپنی مرضی سے آتی ہے!
نوٹ:  آپ جب اس بلاگ کا تذکرہ احباب سے کریں گے تو شیطان آپ کو روکے گا!!!

غ
کسی زمانے میں غ سے غیرت آتی تھی مگر اب کسی بات پر نہیں آتی-
وضاحت: آپ کے اساتذہ سدا کے جھوٹے تھے، آپ بخوبی واقف ہیں غبارہ پیسوں سے آتا ہے

ف
ف سے سرکاری فوارہ ہوتا ہے جس کی برکت سے ٹھیکیدار کا پورا گھر بن جاتا ہے
وضاحت: فالوور ف سے نہیں گندی ٹویٹس اور لڑکی کی تصویر سے آتے ہیں

ق
ق سے پہلے قائد اعظم آتے تھے مگر زیارت میں گھر تباہ ہونے کے بعد انہوں نے بھی آنا چھوڑ دیا!!!
سنجیدہ نکتہ: قائد اب واقعی نہیں آتے

ک
ک سے پہلےکتاب آتی تھی اب کیسےبھی نہیں آتی. ملک کے بیشتر حصوں میں قائد اب ک سےآتےہیں.
وضاحت: کافر ک سے نہیں مولویوں کے فتووں سے ہوتے ہیں-

گ
بچپن میں گ سے گائوں ہوتا تھا آج کل حقارت سے ہوتا ہے
تشریح: کچے مکانوں اور پکے رشتوں سے بنی چھوٹی سی بستی کو اکثر گائوں کہتے ہیں

ل
ل سے اور مسلسل آنے والی سب سے مشہور چیز لوڈ شیڈنگ ہے.
[وضاحت: یہ واحد لفظ ہے جو کسی مسلم لیگی دھڑے سے نہ جڑا ہو [ن ج ق ض وغیرہ وغیرہ

م
مرغا اور ملک دونوں م سے آتے ہیں بس پہلے مرغا کھایا ور ملک چلایا جاتا تھا جبکہ اب ملک کھایا اور مرغا بنایا جاتا ہے
وضاحت: یہ محض اتفاق ہے کہ محبت اور موت دونو م سے ہیں

ن
ن سے آنے والی نرگس پہلے اپنی بے نوری پہ روتی تھی آج کل سٹیج پر ناچ کر شرفاء کو رلاتی ہے۔
وضاحت:  لفظ "گنجا" ن سے نہیں آتا یہ افواہ ہے

و
آج کل و سے واہ واہ آتی ہے اور جسے کرنی آتی ہے اس کی زندگی بن جاتی ہے۔
وضاحت: سیف علی خان اردو والا "و" نہیں بولتا

ہ
ہ سے عوام کے حصے میں ہمیشہ ہاتھ آتا ہے ۔۔۔
اگر آپ حکومتی ارکان میں سے ہیں تو میرے ساتھ مل کے دوبارہ پڑھیں "یہ سب میڈیا کا پروپیگنڈا ہے"

ی/ے
ی سے پہلے یکّہ/تانگہ آتا تھا مگر اب تانگے کا ذکر کرنے سے شیخ رشید صاحب برا مان جاتے ہیں ۔۔۔
نوٹ: گدھے کو باپ بنانے والا محاورہ "ی/ے" سے نہیں آتا

غور سے پڑھنے کا شکریہ ۔۔۔ اس امید کے ساتھ اجازت کے کاوش پسند آئی ہو گی ۔۔۔

ملتمس دعا
احقر
سید عاطف علی

09-Dec-2013

[polldaddy poll=7629240]

بلاگ فالوورز

آمدورفت