Urdu Humour لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Urdu Humour لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

کراچی نامہ

پیارے بچوں! تفریق کے جس سفر پر ہم لوگ مسلسل گامزن ہیں اس کے لازمی نتیجے میں ایک دن مطالعہ پاکستان ایک اختیاری مضمون ہوجائے گا جبکہ مطالعۃِ صوبہ اور پھر مطالعہ شہر لازمی قرار دیئے جائیں گے۔ مستقبل کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے ابھی سے مطالعہ کراچی پر یہ مضمون لکھ مارا ہے۔ اگر حالات اس ہی نہج پر چلتے رہے تو بہت جلد ہم مطالعہ کلفٹن، مطالعہ ناظم آباد اور مطالعہ گلشن و جوہر بھی آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے۔ فی الحال مطالعہ کراچی پڑھیئے اور پڑھنے کے بعد جو ملے اس کا سر دھنیئے۔


 تاریخ:


ویسے تو کراچی ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو ایک دن صرف تاریخ ہی کا حصہ رہ جائے گا مگر مطبوعہ تاریخ میں کراچی کا سب سے پہلے بیان سکندر اعظم کے حوالے سے آتا ہے جو ایک عظیم یونانی بادشاہ تھے اور کسی بھی عظیم بادشاہ کی طرح بلا کے لڑاکے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ آپ احباب کی سہولت کیلئے ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ یہ بیان ان ہی سکندرِ اعظم کا ہے جنہیں اردو میں الیگزینڈر دا گریٹ کہتے ہیں۔ نیز آپ لوگوں کی سہولت کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے آئندہ اگر کوئی آپ سے نئی نسل کے تشدد پسند ہونے کا شکوہ کرے تو انہیں یاد دلادیجئے گا کہ تاریخ انسانی کے کم و بیش تمام بڑے انسان وہی تھے جو نہایت غصیلے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ سو اگر نئی نسل بھی اجداد کے نقشِ قدم پر چل کر پچیس تیس ہزار انسانی جانیں لیکر تاریخ کے صفحات میں امر ہونا چاہتی ہے تو اس میں قصور ان بیچاروں کا نہیں بلکہ تاریخ دانوں کا ہے۔ مگر خیر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور فلسفے کی گفتگو محض چائے کے ہوٹل یا محلے کے چوباروں پر اچھی لگتی ہے۔ مصنفین کو فلسفے جیسی مکروہات، کتب میں نقل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سکندر اعظم کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ہم نہایت خوشی سے یہ بیان کرنا چاہیں گے کہ کراچی میں موجود منوڑہ کا جزیرہ ہزاروں سال پہلے سکندر اعظم کی میزبانی کا شرف بھی اٹھا چکا ہے۔ مگر اس زمانے میں چونکہ یہ شہر بلوچ آبادی کی اکثریت رکھتا تھا لہٰذا سکندر اعظم نے یہاں زیادہ عرصہ قیام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر کو اس وقت بھی یہاں سندھی آبادی ہوتی تو بیچارہ گھوڑوں اور خچروں کا سواری کے علاوہ بھی ایک اور استعمال سیکھ جاتا جس سے اس کے لشکر میں پھوٹ نہ پڑتی کہ سپاہیوں کو گھر کی اس حد تک یاد نہ ستاتی۔ مگر خیر، ہونی شدنی! سکندر اعظم نے منوڑہ سے کوچ کیا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے اور کھیوڑہ میں نمک کی کان دریافت کرنے کے بعد بابل چلے گئے اور مرکھپ گئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سکندر نے صرف نمک دریافت کیا تھا، اس نمک میں آئیوڈین ہم نے خود دریافت کیا ہے لہٰذا کھیوڑہ کی آئیوڈین ملے نمک کی کانیں اب پاکستانی قوم کی دریافت کہلانی چاہیئیں۔


بعض مورخین جو کراچی کے بچپن سے ہی ملٹی نیشنل ہونے سے جلتے آئے ہیں اور اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، نے یہ بھی لکھا ہے یہ شہر مائی کولاچی نے آباد کیا تھا جن کا تعلق پڑوسی ملک، معذرت، صوبے بلوچستان کے شہر مکران سے تھا۔ یہ بات مگر بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کراچی جیسے اردو دان شہر میں بھی کبھی چی ڑے کی صدائیں بلند ہوا کرتی ہوں گی۔ مگر بعض مورخین مائی کولاچی والے واقعے کی توجیح اس بات سے بھی پیش کرتے ہیں کہ اردو زبان میں پکوڑے کا لفظ بھی ان ہی بلوچوں سے مستعار لیا گیا تھا جو بیسن کو تل کر کھاتے تھے اور جب اسے تلنے میں دیر لگتی تو پکو ڑے پکو ڑے کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے اطمینان کیلئے یہ بات بہت ہے کہ مکران سے ہی سہی، مگر مائی کولاچی ہجرت کرکے اس شہر میں آئی تھیں اور اس حساب سے اس شہر کی بنیاد ایک مہاجر نے ہی رکھی تھی۔


تاریخ میں کراچی مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے جن میں سب سے مشہور، مغل راج، برٹش راج، پاکستانی حکومت اور پھر اس کے بعد باپ کا راج اور چوپٹ راج وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل کراچی باقی پاکستان کی طرح چوپٹ راج اور باپ کے راج والے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر یہ مضمون آپ اردو رسم الخط میں بذات خود پڑھ رہے ہیں تو اس بارے میں مزید بیان کرنا صرف آپ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا جبکہ اگر یہ مضمون آپ اپنے کسی بوڑھے ملازم سے پڑھوا کر سن رہے ہیں تو تسلی رکھیئے اور باپ کے راج اور چوپٹ راج کے فیوض و برکات دونو ہاتھوں سے سمیٹتے رہیئے۔


جغرافیہ:


کراچی کے مغرب میں سمندر، شمال میں پہاڑیاں (کٹی اور ثابت دونوں)، جنوب میں بے تحاشہ آبادی، اور مشرق میں بحریہ ٹائون واقع ہے۔ کراچی بنیادی طور پر ایک میدانی علاقہ ہے اور اس شہر کی زمین اور خواتین دونوں ساخت کے حساب سے ہموار واقع ہوئی ہیں۔ کراچی کے ساتھ بحیرہ عرب کا ایک وسیع ساحل موجود ہے جو شادی زدہ جوڑوں کی سہولت کیلئے رکھا گیا ہے۔ کراچی کی نوے فیصد آبادی شادی کے فوراٗ بعد رومان کو بڑھانے، جبکہ شادی کے دوسرے سال کے بعد ہر سال شریک حیات کو ڈبونے کی کوشش کرنے کیلئے ان ہی ساحلوں کا رخ کرتی ہے۔


موسم:


کراچی ایک کاسموپولیٹن اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہاں کی عوام کسی بھی قسم کی لوکل چیز پسند نہیں کرتی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بائیس ملین کی آبادی کے اس شہر پر حکومت کرنے کیلئے وہ شخص امپورٹ کیا جاتا ہے جسے کراچی کے باہر کے بیس ملین رائے دہندگان نے چنا ہوتا ہے۔ امپورٹد چیزوں سے یہ محبت صرف کارِ سرکار تک محدود نہیں اور ہر ضرورتِ زندگی کی طرح کراچی میں موسم بھی دوسرے شہروں سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ کراچی کے موسم کے بارے میں مزید معلومات کیلئے وکی پیڈیا پر جاکر کوئٹہ کے موسم کے بارے میں پڑھ لیجئے۔


معیشت:


کراچی خطے کا سب سے بڑا معاشی حب ہے۔ مملکتِ پاکستان کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ستر وہ محاورے والا مبالغہ آمیز ستر نہیں ہے بلکہ قرار واقعی ملک کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ستر فی صد کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر چوہدری اینڈ سنز جن کے کھیت کھلیان سے لیکر گھربار تک ملک کے دوسرے حصوں میں واقع ہیں وہ بھی اپنا سیلز آفس کراچی میں ہی کھولتے اور اہلیانِ کراچی کے خبط عظمت میں اضافہ کرتے ہیں کہ ملک کا ستر فی صد ریونیو وہ پیدا کرتے ہیں۔


ایسا نہیں کہ کراچی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی۔ کراچی میں تیار ہونے والی اشیاء میں سب سے مشہور چیز سلیم کا گٹکا ہے جو اگر برآمدگی کی اجازت پا جائے تو اکیلا ہی اربوں ڈالرز زرِمبادلہ کا باعث بنے۔ معیشت کے باب میں آخری بیان یہ کہ کراچی میں ہر دوسرا شخص پان بناتا ہے۔ اس پان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کیلئے دکان کا ہونا ضروری نہیں، اکثر پان فروش بغیر دکان اور بغیر پان کے بھی آپ کو چونا لگا جائیں گے۔


زبان/اقوام:


کراچی ایک کثیر قومی شہر ہے جس میں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی، ہزارہ، دہلوی، بہاری، لکھنوی، امروہوی، حیدرآبادی، ملیح آبادی، بدایونی، میرٹھی اور چند دیگر اقوام آباد ہیں۔ رابطے کی سب سے بڑی زبان اردو سے ملتی جلتی ہے جو پورے شہر (علاوہ افغان بستی جہاں صرف عربی اور پشتو بولی جاتی ہے) میں سمجھی جاتی ہے۔


مشہور مقامات:


کراچی شہر کے سب سے مشہور مقامات میں، پرفیوم چوک، جناح گرائونڈ، نشتر پارک اور باغِ جناح واقع ہیں۔ کسی زمانے میں قائد اعظم کا مزار اور پاکستان میوزیم بھی مشہور مقامات ہوا کرتے تھے مگر حالیہ برسوں میں یہ صرف غیر شادی شدہ جوڑوں اور حسرت کے مارے بوڑھوں میں ہی مشہور رہ گئے ہیں۔


تفریحی مقامات:


کراچی میں ہر مقام تفریحی مقام سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں اور کسی انسان کو لٹتے ہوئے دیکھ کر جی بھر کر محظوظ ہوں، کوئی برا نہیں مانے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس دن آپ کی لٹنے کی باری ہو اس دن باقی اہلیانِ شہر بھی آپ سے اس ہی وسعتِ قلبی کی امید رکھیں گے۔


شہرِ قائد:


عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، سٹی بائے دا سی، یہ سارے وہ القابات ہیں جو اس عظیم شہر کو حاصل ہیں۔ مگر ایک خطاب ایسا بھی ہے جو ان تمام خطابات پر بھاری ہے، شہرِ قائد۔ گو اب یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس شہرِ قائد میں قائد سے مراد کون ہے۔ جی ہاں! اصل قائد وہی ہیں، باقی باتیں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مشہور کی گئی ہیں۔


پیارے بچوں! مجھے یقین ہے کہ اس مختصر کلام سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی ہوگی مگر یاد رکھیئے کہ اس مضمون کو لکھنے کے مجھے کوئی پیسے نہیں ملتے لہٰذا تھوڑے کو غنیمت جانیں بلکہ احسان مانیں! فرصت کے ساتھ اس مضمون کا اگلا حصہ پھر کبھی لکھا جائے گا جس میں کراچی کے دیگر پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ تب تک کیلئے اجازت۔

جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

مریض - 2

نوٹ: یہ مصنف کی ذاتی زندگی پر مبنی کہانی ہے۔ کسی بھی فرد سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی اور مصنف اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہوگا۔

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔


میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ جیسا ہی ایک عام سا انسان تھا۔ عام سی زندگی بسر کرتا تھا اور عام آدمیوں ہی کی طرح گمنام تھا۔ پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ اتنی بڑی اس دنیا میں میری اپنی کوئی شناخت نہیں تھی! میری زندگی میں کوئی قابل ستائش یا قابلِ ذکر چیز موجود نہیں تھی۔ لوگ اگر میرے بارے میں بات کرتے بھی تو کیوں؟ اور بات کرتے بھی تو کیا؟


ذات کے اس ادراک کے بعد میری زندگی اجیرن ہوگئی۔ اب اٹھتے بیٹھتے مجھے یہی غم کھاتا رہتا تھا کہ میرے ہونے نہ ہونے سے دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر میں آج ہی مر گیا تو کتنے لوگوں کو پتہ ہوگا کہ عاطف علی نام کا کوئی شخص بھی تھا؟ جس کی واحد خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ یہ سوچیں بہت تیزی سے مجھے قنوطیت کی طرف لے جا رہی تھیں۔ میرے گنے چنے دوست بھی اب مجھ سے کترانے لگے تھے۔ میں اگر کسی محفل میں جا نکلتا تو مجھے دیکھتے ہی لوگ سراسیمہ ہوجاتے۔ گفتگو ختم ہوجاتی۔ سب لوگ میری طرف دیکھنے لگتے کہ کب میں جائوں اور وہ دوبارہ اپنی گفتگو شروع کرسکیں۔ میں پاگلوں کی طرح ان کی شکلیں دیکھتا اور انتظار کرتا کہ وہ کوئی بات کریں مگر میرا انتظار ہمیشہ ہی بےکار جاتا۔ ہوتے ہوتے میں نے احباب کی محافل میں جانا بھی چھوڑ دیا۔


دوستوں سے مایوس ہوکر میں نے عشق کے کارزار میں اترنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک خیالی محبوبہ چنی اور اپنے خیالات میں ہی اسے شادی کا پیغام بھی بھیج دیا۔ اس نے بھی میرے خیالات میں ہی چپل اتاری اور میرے سر پر برسانا شروع کردی۔ میں گھنٹوں اس سے پٹتا رہا اور اس دن کے بعد سے اس تصوراتی عشق کی یاد میں پچھاڑیں کھانا شروع کردیں۔ اٹھتے بیٹھتے، صبح شام اب میں اس تصوراتی حسینہ کے فراق میں ٹھنڈی آہیں بھرتا اور پنکج اداس کے گانے سنا کرتا تھا۔ زندگی اب میرے لیئے ایک بوجھ بن چکی تھی اور اب میں موت کو اس زندگی سے بہتر سمجھتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔


میں گھر سے زہر خریدنے کیلئے نکلا تو راستے میں چند دوست دکھ گئے۔ خلاف معمول جب میں بغیر کچھ کہے سنے ان کے برابر سے گزرا تو انہیں بھی تشویش ہوئی اور انہوں نے مجھے روک کر خیریت دریافت کرلی۔ آنسوئوں کے بیچ میں میں نے انہیں اپنی زندگی کے آلام و مصائب اور تازہ ترین محبت میں ناکامی اور اس کے لازمی نتیجے میں خودکشی کا قصہ سنا ڈالا۔ پہلے تو وہ سب خاموشی سے میری بات سنتے رہے مگر جیسے ہی میں خاموش ہوا انہوں نے ہنسی کے فوارے اڑا دیئے۔ ہنس ہنس کر ان کمینوں کا برا حال ہوگیا تھا۔ کوئی کہیں لوٹ رہا تھا اور کوئی اپنا پیٹ پکڑ کر دوہرا ہو رہا تھا۔ میں نے ان سب کمینوں پر لعنت بھیجی اور زہر لینے کیلئے بازار آگیا۔


میں دکھے دل کے ساتھ مارکیٹ سے کتا مار دوائی خرید کر گھر کی طرف جا ہی رہا تھا کہ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔  میرے کمینے دوستوں نے میری داستان بازار میں سب کو سنادی تھی اور اب بازار کے تمام دکان دار اپنا کام کاج چھوڑ کر میرے اوپر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان سب کی نظروں میں میرے لیئے حقارت تھی۔ وہ میری زندگی اور میرے ہر وقت کے  رونے پر ہنس رہے تھے۔


 دل تو کیا کہ آگے بڑھ کر ان کا منہ نوچ لوں مگر پھر دماغ میں ایک اور خیال آیا اور میں من اندر ہی ان تمام لوگوں پر ہنسنا شروع ہوگیا۔ ان بیچاروں کو احساس نہیں تھا کہ مجھ پر ہنس کر وہ میری اس ناکام جوانی کا مذاق نہیں اڑا رہے بلکہ مجھے ایک خاص آدمی بنا رہے ہیں۔ وہ خاص آدمی، جو ان جیسا ہی عام تھا مگر اب اتنا عام نہیں رہا تھا کہ اس کے بارے میں بات نہ کی جائے!! میں دل ہی دل میں ان احمقوں پر ہنستا ہوا گھر آگیا۔ اب مجھے خود کشی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔


میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں سوشل میڈیا پر دن رات روتا پیٹتا رہتا ہوں، اپنے خود ساختہ مصائب پر گریہ کرتا ہوں، لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں، پھر ہنستے ہنستے زچ ہوجاتے ہیں اور گالیوں پر اتر آتے ہیں، مگر میں ان کی باتوں کا برا نہیں مانتا۔ برا کیوں مانوں؟ کسی بھی بہانے سے سہی، اب جو بھی بات ہوتی ہے، ہوتی تو میرے متعلق ہی ہے نا؟

بدھ، 1 اکتوبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 18

نوٹ: ذیل کی تحریر بچوں کی ایک مشہور لوک کہانی سے ماخوذ ہے اور کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔


!پیاری ڈائری


تمہیں پچھلی بار ہی بتادیا تھا کہ دادی گھر آئی ہوئی ہیں اور مصروفیات بے تحاشہ ہیں لہٰذا اس بار غیر حاضری کی معافی نہیں مانگوں گا۔ دادی پندرہ دن رہ کر گئیں اور یہ پندرہ دن کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اچھے وقت کی سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ یا شاید وقت کی رفتار  ہمیشہ یکساں رہتی ہے مگر حالات کے اعتبار سے ہمارے لیئے کبھی لمحے بھی صدیاں بن جاتے ہیں اور کبھی صدیاں بھی لمحوں کی طرح گزر جاتی ہیں۔ خیر یہ تو ایک فلسفیانہ گفتگو ہے اور تم جانتی ہو کہ اس ملک میں ہم فلسفیوں کو پاگلوں کی ہی ایک قسم  گردانتے ہیں لہٰذا مزید فلسفے سے گریز کرتا ہوا میں دن بھر کی روداد پر آجاتا ہوں۔


دادی نے آج صبح جانا تھا مگر ہم سب کل سے ہی اداس ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ دادی کی محبت بھری جھڑکیاں، ہمارا بےتحاشہ خیال رکھنا، اور سب سے بڑھ کر روزانہ ایک نئی کہانی سنانا، یہ سب چیزیں دادی کے اگلی مرتبہ گھر آنے تک ہم سے چھن جانی ہیں اور یہ خیال ہم سب بہن بھائیوں کو بری طرح بےچین کر رہا تھا۔ کافی دیر ضبط کرنے کی کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں نے دادی کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ بہا۔ دادی نے مسکراتے ہوئے میرے آنسو پونچھے اور یاد دلایا کہ خاندان کے باقی بچوں کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا، لہٰذا ہمیں اپنے حصے کو غنیمت جانتے ہوئے ایثار سے کام لینا چاہیئے ورنہ ہمارا حال بھی ان بندروں جیسا ہی ہونا ہے جنہوں نے شدید بھوک کے عالم میں بھی زیادہ کے لالچ میں چنے ٹھکرا دیئے تھے۔ میں نے بندروں کی یہ کہانی پہلے نہیں سنی تھی تو دادی نے مجھے سمجھانے اور خوش کرنے کیلئے بندروں کی وہ کہانی سنا دی۔


دادی کا کہنا تھا کہ کسی جنگل میں دو بندر بھوکے گھوم رہے تھے۔ بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ جنگل میں موجود تیسرے بندر نے جب ان بندروں اور ان کی مجبوری کو دیکھا تو اسے بڑا ترس آیا۔ ترس سے زیادہ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر یہ بندر یہاں رزق کی تلاش میں روز آنے لگے تو جنگل میں اس کی یکطرفہ حکومت ختم ہوجائے گی اور اسے ان بندروں کو بھی اپنے کھانے میں سے حصہ دینا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے گھر میں موجود بھنے ہوئے چنے اٹھائے اور ان بندروں کے پاس جاپہنچا۔ اس نے اپنے پاس موجود چنوں کی چھ میں سے پانچ  ڈھیریاں ان دونوں بندروں کو پیش کردیں کہ وہ چاہیں تو ان سے اپنی بھوک مٹا لیں۔ بندر بھوکے تو بہت تھے مگر دونوں ہی بلا کے خوش فہم اور بےوقوف بھی تھے۔ ان دونوں نے سوچا کہ جب یہ پانچ ڈھیریاں دینے پر تیار ہوگیا ہے تو ذرا سا رعب اور جذبانی دبائو ڈال کر چھٹی ڈھیری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔


ان دونوں نے اس تیسرے بندر کو غصے دیکھا اور چنے اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے بولے، ہم بھوکے ہیں مگر ہماری رگوں میں بادشاہ بندر کا خون دوڑ رہا ہے۔ ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم تمہارا احسان لیں اور یہ بھنے ہوئے چنے کھائیں! بادشاہ زادے اب یہ چنے کھائیں گے؟ ویسے بھی اگر دینے ہی ہیں تو ہمیں چنے کی تمام چھ ڈھیریاں دو تاکہ ہم برابری کی بنیاد پر آپس میں بانٹ سکیں! ورنہ ہم تھوکتے ہیں ان چنوں پر۔


بندر نے حیرت سے ان کی شکل دیکھی اور انہیں سمجھایا کہ اس وقت چنوں کی ضرورت اس سے زیادہ ان دونوں کو ہے۔ اور اگر اس نے چھٹی ڈھیری بھی ان کو دے دی تو وہ خود کیا کھائے گا؟ اب اس بات پر بندروں کی بحث شروع ہوگئی۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے اصولی موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ جنگل کے دوسرے جانوروں نے بیچ بچائو کرانے کی کوشش بھی کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بندروں کے مابین یہ بحث پچاس منٹ تک جاری رہی اور آخر میں وہ دونوں  بندر ان چنوں پر تھوک کر، کچھ اور کھانے کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔


خدا تعالٰی کو ضد اور ہٹ دھرمی کبھی بھی پسند نہیں رہی، چاہے وہ کوئی بھی مخلوق کرے۔ ان ضدی بندروں کو ان کے کیئے کی سزا یہ ملی کہ پورا دن کھانے کی تلاش میں گھومنے کے باوجود انہیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا۔ جنگل کے جس درخت پر پھل دکھتا اس پر پہلے سے کوئی اور جانور قبضہ کرکے بیٹھا ہوتا اور اگر اتفاق سے کوئی درخت خالی مل بھی جاتا تو اس کا پھل اتنا کسیلا اور زہریلا ہوتا کے وہ ایک لقمہ بھی نہیں لے پاتے۔ پورا دن جنگل میں گھومنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال یہ دونوں بندر بالآخر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ روتے روتے ان کی نظر کچھ ہی فاصلے پر پڑے ان چنوں پر گئی جنہیں ٹھکرا کر وہ صبح یہاں سے آگے چلے گئے تھے۔ بھوک کے عالم میں یہ چنے جنت کے کسی میوے سے کم نہیں تھے۔ بندروں نے چاہا کہ بڑھ کر ان چنوں کو اٹھا لیں مگر پھر یاد آگیا کہ صبح وہ ان ہی چنوں پر تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ اب اگر کوئی ان دونوں کو یہ چنے کھاتا دیکھ لیتا تو وہ دونوں شرم کے مارے دوبارہ اس جنگل میں قدم رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔


دونوں بندر حسرت سے ان چنوں کو دیکھنے اور اس وقت کو کوسنے لگے جب جذبات اور مزید پانے کے لالچ میں انہوں نے ان چنوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ شدید بھوک کے عالم میں کھانا سامنے دیکھ کر ان بندروں کی وہی حالت تھی جو کسی ترقی پذیر ملک میں کئی سال اپوزیشن کرنے کے بعد حکومت میں آنے والی جماعت کی ملکی خزانے کو دیکھ کر ہوتی ہے۔


جب برداشت بالکل جواب دے گئی تو ان میں سے ایک بندر اٹھا اور ان چنوں کے پاس پہنچ گیا جو زمین پر اب تک بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا دیکھا دیکھی دوسرا بندر بھی خاموشی سے اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بندر بھوکے تھے اور چنے سامنے موجود تھے، مگر دونوں میں سے کوئی ایک بندر بھی پہلا چنا کھانے کی خفت اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ کافی دیر اس ہی طرح گزر گئی تو بڑا بندر چنے کی ایک ڈھیری اٹھاتے ہوئے بولا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس والی ڈھیری پر نہیں تھوکا تھا۔ دوسرے بندر نے بھی فورا ایک ڈھیری اٹھائی اور بولا، یہ والی تو ویسے بھی دور جاکر گری تھی سو اس پر تو تھوکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے بندر نے اب کی بار ایک ساتھ دو ڈھیریاں اٹھائیں اور انہیں منہ میں رکھتے ہوئے بولا، اور یہ تو بالکل خشک ہیں جیسے ان پر کبھی کوئی گیلی چیز پڑی ہی نہ ہو۔


ایک ایک کرکے تاویلات آتی گئیں اور ڈھیریاں کم ہوتی چلی گئیں۔ چند ہی لمحوں میں بندروں نے وہ پانچوں ڈھیریاں چٹ کرڈالیں جن پر کچھ وقت پہلے وہ خود تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ بھوک تو مٹ گئی مگر بندروں نے اس دن یہ سبق سیکھ لیا کہ عزت اس ہی بات میں ہے کہ اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ اگر  چھ میں سے پانچ ڈھیریاں اپنی مرضی کی مل رہی ہوں اور پھر بھی بندر ضد پر اڑے رہیں تو چھٹی ڈھیری کے چکر میں یا تو بندر پہلی پانچ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا بالآخر اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دادی نے یہ کہہ کر کہانی ختم کی اور میرا ماتھا چوم کر سونے چلی گئیں۔


 صبح سو کر اٹھا تو پتہ چلا کہ دادی تایا ابو کے گھر کیلئے نکل گئی ہیں۔ دادی کے جانے کے بعد گھر میں اب کرنے کو کچھ ہے نہیں سو صبح سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ بندر والی کہانی میں نے چند ہی دن پہلے ٹیلیویژن کے کسی ڈرامے میں بھی دیکھی ہوئی ہے۔ ڈرامے کا نام یاد نہیں آرہا مگر جیسے ہی یاد آیا تو ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔


،تمہارا


زبان دراز

اتوار، 21 ستمبر، 2014

بنیادی سائنس - جدید

نوٹ: اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ میں پیدا ہونے والی کسی تبدیلی کا ادارہ زمہ دار نہیں ہوگا۔


پیارے بچوں! آرٹس کی چھوٹی بہن کو سائنس کہتے ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ ترتیب الٹی ہے اور دنیا بھر میں سائنس کو بڑی بہن مانا جاتا ہے مگر چونکہ آرٹ میں ایک آرٹسٹک رومان جھلکتا ہے اور یہ کام اکثر گھر بیٹھے بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں آرٹ کو ہمیشہ زیادہ عزت دی جاتی ہے اور بڑی بہن سمجھا جاتا ہے۔ الحمدللہ اس ہی لیئے ہمارے معاشرے میں فنکار ایک تعریف جبکہ سائنس دان ایک قسم کا طنزیہ لفظ سمجھا جاتا ہے۔


جہاں تک سائنس کی تعریف کا تعلق ہے تو اول تو سائنس کی تعریف ہم صرف وہاں تک کرسکتے ہیں جہاں تک مسلم سائنسدانوں کے نام آتے ہیں۔ اور ماضی قریب و بعید میں چونکہ ایسا کوئی سانحہ ہوا نہیں ہے جس میں مسلمانوں نے کوئی قابل ذکر سائنسی کارنامہ سر انجام دیا ہولہٰذا ہم اس مضمون میں سائنس کی تعریف سے اجتناب ہی کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے پہلے مسلمان سائنسدان کے مرنے کے کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام مسلمان نہیں بلکہ قادیانی تھے، لہٰذا مسلمانانِ پاکستان نے دینی غیرت کے تحت ان کی قبر کے کتبے سے لفظ مسلمان حذف کردیا ہے اور اب ان کا ذکر کرنا حرام اور کرنے والا ــــــــــــــــــــــــــ ہے٭۔  ایک اور اہم وضاحت اس باب میں یہ بھی ضروری ہے کہ حالیہ تاریخ میں ولید بن یوسف نامی عظیم مسلمان سائنس دان نے ستمبر گیارہ کو امریکہ کے مقام پر ایک ایسے کیمیکل کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا تھا جس سے کنکریٹ کے پہاڑ اور فولاد کے ڈھیر سے بنی عمارت تو پگھل گئی مگر اس کیمیکل کے زیرِ اثر معمولی پلاسٹک سے بنے ان کے چاروں کریڈٹ کارڈ نہیں جلے اور دنیا کو پتہ چل سکا کہ ستمبر گیارہ کے حملے کس نے کروائے۔ چونکہ ابھی تک دنیا محوِ حیرت ہے کہ یہ سائنس تھی یا آرٹ سو فی الحال ہم ولید بن یوسف کو یہیں چھوڑ کرآگے بڑھتے ہیں۔
٭ خالی جگہ پر کریں۔


سائنس کے بارے میں آپ کے سمجھنے کیلئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہزار کوشش کے باوجود کسی بھی طرح  آرٹ نہ بن سکے، ہم اسے سائنس کا نام دے دیتے ہیں۔ نیز ہر وہ چیز جس کو آپ سمجھ نہ پائیں آپ اسے بھی سائنس قرار دیکر شرمندگی سے بچ سکتے ہیں کہ جیسے ہی آپ کسی چیز کو سائنس قرار دے دیتے ہیں، مخاطب کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر آپ اس بات کو سمجھ نہیں پائے ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں کہ یہ بات، محض ایک بات نہیں بلکہ سائنس ہے۔ ایسے مواقع پر آپ "بڑی سائنس ہے بھائی" قسم کے کلمات کہہ کر نہ صرف صاف بچ سکتے ہیں بلکہ سامنے والے شخص کے انا کے غبارے میں بھی مناسب مقدار میں ہوا بھر سکتے ہیں جو آگے چل کر آپ کے ہی کام آئے گی۔


پیارے بچوں! سائنس ہماری زندگی کا ایک بہت اہم جزو اور سیکھنے کیلئے بہت اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر تمام اہم موضوعات کی طرح ہم نے اس پر کبھی کام نہیں کیا اور یہی بات سائنس کی اہمیت کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے نے آرٹ کو تو فن اور کلا اور خدا جانے کیا کیا نام دے دیئے مگر سائنس کی اہمیت اور حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ہمیشہ صرف سائنس ہی کہا، سنا، اور لکھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے سائنس کو کوئی اردوانہ نام دے دیا تو یہ سائنس کا استحصال اور انگریزوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ جس طرح امریکہ و برطانیہ میں ٹیکسی چلانا صرف پاکستانی و ہندوستانی ڈاکٹروں اور انجینیئرز کا کام ہے اور کوئی فرنگی ہمارے اس کام میں مداخلت نہیں کرتا تو اس ہی طرح انسانیت اور احسان مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم بھی سائنس والے ان کے کاموں میں دخل نہ دیں۔ یہ بات مگر اپنی جگہ ہے کہ کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات ہر انسان کا حق ہے اور کہنے کو ہی سہی مگر چونکہ سائنس آپ کے نصاب کا حصہ ہے لہٰذا ہم آج آپ کو چند بینادی سائنسی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جو زندگی میں آپ کے کام آسکیں۔


سائنس کا اصل مقصد مادہ اور اس کے خواص پر ہونے والی تحقیق ہے۔ مادے کی دو بڑی اقسام ہیں جن کی اپنی مزید شاخیں ہیں۔ مادے کی یہ دو بڑی اقسام سادہ مادہ اور نر مادہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سادے مادے پر انسان بہت کچھ دریافت کر چکہ ہے مگر نر کی مادہ ہنوز تحقیق طلب ہے۔ ان دونوں مادوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سادہ مادہ اپنا مخصوص رویہ رکھتا ہے اور کسی مخصوص حالت میں اس کا ردعمل پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ نر کی مادہ البتہ اپنی فطرت اور رویوں دونوں میں آزاد ہے اور ایک جیسی صورتحال میں ہر بار الگ طریقے سے پیش آنے کے فن میں ماہر ہے۔ دونوں مادوں میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ پہلے مادے سے مل کر تصویر کائنات بنی ہے جبکہ نر کی مادہ اس تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنے کے کام آتی ہے۔ محاورے کی زبان میں جب کسی کو مادہ پرست انسان کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی دوسری والی مادہ ہوتی ہے۔ نر کی مادہ کی سمجھ چونکہ آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی تو آپ کے بھی سمجھنے کے آثار کچھ ایسے روشن نہیں ہیں، لہٰذا آج ہم صرف کائنات کے مادے کے بارے میں بات کریں گے۔


جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ یہ کائنات مادے سے مل کر بنی ہے۔ جبکہ یہ مادہ خود لاکھوں کڑوڑوں ایٹم سے مل کر بنتا اور محض ایک ایٹم بم سے تباہ ہوجاتا ہے۔ ایٹم کے اپنے بھی چار جزو ہوتے ہیں جنہیں الیکٹرون، پروٹون، نیوٹرون اور مورونز کہا جاتا ہے۔ مورونز نامی حصہ سب سے طاقت ور ہوتا ہے اور طاقت کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی بھی چیز میں طاقتور کا نام لینا فعل قبیح اور ناقابلِ معافی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس ہی اصول کے تحت حکومت گرنے کی ذمہ داری ہمیشہ فوج کے بجائے سیاستدانوں پر آتی ہے۔ اگر آپ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہوں تو مطالعہ پاکستان کی کتاب یا آج کا اخبار ملاحظہ کرلیں۔


مغربی ممالک میں سائنس کا دوسرا نام تحقیق بھی ہے۔ پیارے بچوں! تحقیق اپنے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اور چیزوں کی اصل سمجھنے کی ایک جان لیوا بیماری ساتھ لاتی ہے لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم  اس تحقیق نامی بلا سے دور رہیں۔ ایڈز اور دوسری بیماریاں بلاوجہ بدنام ہیں ورنہ امت مسلمہ کو جتنا نقصان اس تحقیق نے پہنچایا ہے وہ آج تک تمام بیماریاں مل کر بھی نہیں پہنچا سکیں۔ نہ یہ مردود کفار تحقیق کی بیماری کا شکار ہوتے نہ یہ سائنسی ایجادات ہوتیں اور نہ ہم مسلمان آج دنیا بھر میں محکوم ہوتے۔ امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کفار سے لڑنے کیلئے بھی ہم ان ہی کفار کی دریافت کردہ ٹیکنالوجی اور ان ہی کے بنائے ہوئے اسلحے کے محتاج ہیں۔ تصور تو کیجیئے، آپ کے محلے کے مشہور مولوی اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں اس طرح جارہے ہوں کہ پیچھے بیٹھے تمام مریدوں کے ہاتھ میں میخائل کلاشنکوف کی بندوق کے بجائے ہاتھ میں غلیل ہو اور اس غلیل کا ربڑ کھنچائو دیکھ کر مسلمان متعین کریں کہ حالات خراب ہیں یا صحیح؟ اور اگر تصور مزید اجازت دے تو ڈبل کیبن ہٹا کر وہاں ایک گھوڑا کھڑا کردیجئے اور محظوظ ہوئیے۔ یہ تو خیر مذاق کی بات تھی ورنہ مجھے زندگی سے بہت پیار ہے اور میں کسی بھی مسلک کے مولوی سے اس کا ڈبل کیبن گاڑی رکھنے کا حق چھیننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ آپ سے ایسے احمقانہ خیالات کی امید کرتا ہوں۔ اس بارے میں کبھی سوچ آ بھی جائے تو لعنت ان کفار پر ہی بھیجیئے گا جنہوں نے اسلحہ سازی پر اتنی تحقیق کی اور آج ان ہی کی وجہ سے مسلمان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں ورنہ چاقو خنجر کے زمانے کے بارہ سو سال میں حرام ہے کہ کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کا خون بہایا ہو۔


پیارے بچوں!  شاید اللہ تعالٰی کو خود بھی منظور نہیں کہ ہم فتنے میں گرفتار ہوں اس لیئے کفار کی حرکات سے تنگ آکر اگر کبھی ہم مسلمانوں نے اس تحقیق کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا بھی تو ہمیں عبرت دلانے کیلئے ایسی عجیب خرافات کا شکار کردیا گیا جن کا علاج رہتی دنیا تک ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست جناب عاطف علی المعروف زبان دراز کو بھی پچھلے سال یہ تحقیق نامی بیماری ہوئی تھی اور تب سے وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ہندو، عیسائی، سکھ، شیعہ، سنی اور احمدی سب کے خون کا رنگ ایک ہی جیسا ہوتا ہے اور اس خون کے بہنے پر سب کے گھر والوں کو ایک ہی جتنی تکلیف ہوتی ہے۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی اور مہاجر خون بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور محض علاقائیت و لسانیت کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ لاحول ولا قوۃ!!!
تحقیق کے بارے میں یہ بیان بھی ضروری ہے کہ اس تحقیق کی وجہ سے ہی زیادہ تر مشہور مسلمان اپنے وقتوں میں دہریے کہلائے اور زیادہ تر غیر مسلم سائنس دان اس ہی تحقیق کے ذریعے خدا سے قریب ہوگئے۔ مسلمان سائنس دانوں کے مذہب سے لاتعلق رہنے کا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں کے مسالک نے ان کو کبھی اپنایا نہیں اور آج ہمارے پاس شیعہ سائنسدان اور سنی سائنس دان کی تفریق نہیں ہے اور وہ بیچارے آج بھی معاشرے کے اس محروم طبقے میں موجود ہیں جومحض مسلمان ہی کہلاتے ہیں اور شیعہ، سنی جیسے قابل فخر اور باعثِ نجات القابات سے محروم ہیں۔ خدا ان بیچاروں کے حال پر رحم کرے۔


پیارے بچوں!  بنیادی سائنس کے سلسلے میں ہم نے تمام ضروری گزارشات عرض کردیں ہیں۔ اگر آپ اب بھی مزید تشنگی محسوس کریں تو ابنِ انشاء صاحب کی اردو کی آخری کتاب سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اور اگر اس کتاب کے بارے میں نہیں جانتے تو مزید معلومات کیلئے اپنے والدین سے رجوع کریں۔ اگر شومئی قسمت انہوں نے بھی اس کتاب کے بارے میں نہیں سنا تو سب کام چھوڑ کر پہلے ان کے علاج کیلئے کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ہمیں اجازت دیں کہ اب آپ کیلئے بیسک اردو کی کتاب بھی لکھنی ہے۔


بلاگ فالوورز

آمدورفت