Black Comedy لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Black Comedy لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 23 اپریل، 2017

زبان دراز کی ڈائری - 8

پیاری ڈائری!

زندگی میں کبھی یاوہ گوئی کی عادت نہیں رہی اور اب افسوس ہورہا ہے کہ کاش صحیح وقت پر کچھ مناسب گالیاں سیکھ لی ہوتیں تو اس شاعرِ جنوب کو ایک جوابی خط لکھ ڈالتا۔ مگر خیر جو ہوا سو ہوا۔

کل پاکستان سے کسی عاطف صاحب کا محبت نامہ ملا جس میں انہوں نے ملک کے حالات پر معافی مانگنے سے یکسر انکار کردیا تھا اور مُصِر تھے کے صرف شرمندگی سے ہی کام چلایا جائے۔ یقین ہوگیا کہ خط واقعی پاکستان سے ہی آیا ہے کیوںکہ اتنی گھٹیا اردو دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں بولی جاتی۔

خط پڑھ کر بہرحال حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی؛ خوشی اس بات کی کہ آج بھی چند لوگ ہیں جو پر امید ہیں اور حیرت اس بات پر کہ پاکستان میں اب بھی لوگوں کو اردو لکھنی یاد ہے؟ یہاں تو اب جتنے بھی پاکستانی آتے ہیں وہ سب تو رومن میں لکھتے ہیں۔ زبان ہی کے تذکرے پر پرسوں علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ اردو کی بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ امریکہ اسے قومی زبان کے طور پر قبول کرلے۔ خیر علامہ کے فلسفے تو علامہ ہی جانیں۔ مجھے بہرحال خط پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیاقت علی خان نے سمجھایا تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آج کل پاکستانی لیڈران کا سال میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنا فیشن میں ہے۔ خیر جناب، اللہ میاں سے اجازت لی اور ٹہلتے ٹہلتے رات کے کسی پہر کراچی پہنچ گیا۔

مزار سے باہر نکلا تو موٹرسائیکل پر سوار چند لڑکے نما مخلوق زناٹے سے برابر سے گزری۔ اگر سن اڑتالیس میں وقت پر ایمبولینس آگئی ہوتی تو اس بغیر سائلینسر کی موٹر سائکل ریلی کی آوازوں سے سن دو ہزار چودہ میں ضرور کام ہوجاتا۔ دیر تک وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حواس بحال کرتا رہا۔ ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک موٹرسائکل برابر میں آکر رکی اور اس پر سوار دو لڑکوں میں سے ایک نے بندوق نکال کر موبائل مانگ لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اول تو میرے پاس موبائل نہیں ہے کہ جنت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرا یہ کہ موبائل مانگنے کیلئے بندوق نکالنے کی کیا ضرورت؟ اگر آپ نے کسی کو کال ہی کرنی ہے تو مانگنے کے اور بھی عزت دار طریقے ہیں۔۔۔ حد ہوتی ہے!! نوجوان حیرت سے میری شکل دیکھ رہا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، اس کے پیچھے والے لڑکے نے اس کو کہنی مار کر کہا کہ "بڈھا خبطی ہے اور مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ خوامخواہ جان پہچان نکل گئی تو مسئلہ ہوگا، ٹائم کھوٹا نہ کر اور نکل"۔ پہلے والے نے جلدی سے موٹرسائکل کا گیئر ڈالا اور موٹرسائکل اڑا دی۔ عجیب نامعقول سے لڑکے تھے۔ اگر رک کر میری بات سن لیتے تو کیا پتہ ان ہی سے لفٹ مانگ کر آگے چلا جاتا۔

ان لڑکوں سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک خاتون آکر گلے پڑ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں کسی شاہ رخ خان سے ملتا ہوں اور اگر میں چاہوں تو یہیں "بابے کے مزار " کے ساتھ والے کمرے میں ان کے ساتھ جاسکتا ہوں۔ میں نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ یہ صرف پسینے کی وجہ سے میرا چہرا چمک رہا ہے اور ان کے خیال کے برعکس میں ویسا چکنا نہیں ہوں جیسا انہوں نے مجھے پکارا۔ دوسری بات یہ کہ میں اس ہی بابے کے مزار سے نکل کر آرہا ہوں اور یہیں ہوتا ہوں۔ وہ بیچاری پتہ نہیں کیا سمجھی اور کھسیانی ہو کر مجھے چند روپیے دینے کی کوشش کرنے لگی۔ میری تو خود یہ معاجرہ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر میں نے پھر بھی اسے سمجھایا کہ میں اس سے پیسے نہیں لے سکتا۔ وہ یہ کہتی ہوئی تیزی سے ایک طرف چلی گئی کہ بابو پتہ نہیں تھا آپ مینجمنٹ والے ہو آئندہ احتیاط کروں گی۔

ان ہی جھمیلوں میں اب رات کے بارہ بجنے والے تھے اور مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس شہر کو ہوکیا گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک مسلسل عجیب کردار ٹکرا رہے تھے۔ سر جھٹک کر میں نے توجہ مزار پر ڈالی تو میرا مزار برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ تیرہ اگست کی رات تھی اور اب چودہ اگست شروع ہونے ہی والی تھی۔ میں خوشی سے اپنے مزار کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی بھیانک آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ مجھے لگا کہ شاید ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، میں گاندھی کو کوستا ہوا واپس مزار کے اندر بھاگا تو اس مرتبہ گیٹ پر موجود گارڈ نے روک لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باہر اس طرح حملہ ہوگیا ہے اور اب اسے بھی مورچہ بند ہوجانا چاہیے تو اس مریض نے ایک طرف منہ میں بھرے خون کی کلی کری اور قمیض کے دامن سے منہ پونچھتے ہوئے بولا کہ چاچا پہلی بار چودہ اگست دیکھ رہے ہوکیا؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جشن آزادی اور چودہ اگست کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں مگر یہ حیوانوں کی طرح برتائو اور اس طرح اندھادھند فائرنگ سے کونسا جشن اور کون سی ملک کی خدمت کی جارہی ہے؟ جواب میں اس نے وہی خون آلود ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بولا، چاچا، چودہ اگست کو صرف یہ ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ سب درندے بھی آزاد ہوگئے تھے۔ اب جس درندے کے منہ میں اس ملک کے جسم کی جتنی بڑی بوٹی آتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لقمہ نوچ لیتا ہے۔ میں نے پوچھا، کہ کوئی ان درندوں کو روکتا کیوں نہیں؟ اس نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور ایک عجیب سا کتھئی رنگ کا مواد منہ میں رکھتے ہوئے بولا، چاچا، یہ ایک فلمی دنیا ہے۔ یہاں ہیرو ہیروئن بچانے کیلئے غنڈوں کو صرف اس لیئے روکتا ہے تاکہ پکچر کے اختتام پر وہی عزت وہ خود لوٹ سکے۔

اس ساری گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھ میں آنسو آگئے تھے۔ میں نے موضوع تبدیل کرنے کیلئے اس سے پوچھ لیا کہ یہاں تو قائد اعظم دفن ہیں تو یہاں اتنی بندوقوں کے ساتھ پہرے داری کرنے کی کیا ضرورت؟ وہ میرے قریب آیا اور میرے کان میں تقریباٗ پچکاری مارتے ہوئے بولا، چاچا، اگر یہ قائد غلطی سے بھی دوبارہ زندہ ہوگیا تو ملک کے حالات دیکھ کر انگریزوں کو ملک واپس کردے گا اور ساتھ میں معافی بھی مانگے گا۔ ہم بندوق لیکر اس ہی لیئے کھڑے ہیں کہ قائد نکل کر بھاگ نہ جائیں۔ ملک کی عزت کا سوال ہے، بڑی بدنامی ہوجائے گی۔

مجھے اب اس نامعقول انسان پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں نے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو جذباتی مار مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس لوٹ مار اور درندگی کے کھیل کے خلاف تمہارے اندر کس قسم کے جذبات ہیں۔ سچ سچ بتانا، تم اس ملک کو لوٹنے والوں کے ذکر پر آبدیدہ کیوں ہوگئے تھے۔ اس کمینے سپاہی نے روہانسی آواز میں جواب دیا، روئوں نہیں تو کیا کروں؟ سب کھا رہے ہیں، ایک ہمیں ہی موقع نہیں مل رہا بس!!

میں اس مردود لمحے کو کوس ہی رہا تھا جب میں نے نیچے آنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اچانک محل میں زلزلہ آگیا۔ اب جو دیکھا تو خود کو اپنے ہی محل میں بستر پر پایا۔ خوشی سے سجدہ شکر بجا لایا کہ یہ سب صرف خواب تھا۔ حوروں نے آکر بتایا کہ زلزلے کی وجہ کوئی جون ایلیاء نامی صاحب تھے جو دروازے پر لاتیں اور گھونسے برساتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ وہ علی گڑھ کا لونڈا یہیں رہتا ہے؟؟؟

جون صاحب کی ملاقات کا احوال پھر کبھی، فی الحال اجازت دو۔ کراچی سے جاتے جاتے ایک لفظ سیکھ کر آگیا ہوں، آئندہ کبھی کسی شاعر کا خط آیا تو میں بھی جواب میں لکھ بھیجوں گا ۔۔۔۔۔ کدو!!!

محمد علی

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

کراچی نامہ

پیارے بچوں! تفریق کے جس سفر پر ہم لوگ مسلسل گامزن ہیں اس کے لازمی نتیجے میں ایک دن مطالعہ پاکستان ایک اختیاری مضمون ہوجائے گا جبکہ مطالعۃِ صوبہ اور پھر مطالعہ شہر لازمی قرار دیئے جائیں گے۔ مستقبل کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے ابھی سے مطالعہ کراچی پر یہ مضمون لکھ مارا ہے۔ اگر حالات اس ہی نہج پر چلتے رہے تو بہت جلد ہم مطالعہ کلفٹن، مطالعہ ناظم آباد اور مطالعہ گلشن و جوہر بھی آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے۔ فی الحال مطالعہ کراچی پڑھیئے اور پڑھنے کے بعد جو ملے اس کا سر دھنیئے۔


 تاریخ:


ویسے تو کراچی ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو ایک دن صرف تاریخ ہی کا حصہ رہ جائے گا مگر مطبوعہ تاریخ میں کراچی کا سب سے پہلے بیان سکندر اعظم کے حوالے سے آتا ہے جو ایک عظیم یونانی بادشاہ تھے اور کسی بھی عظیم بادشاہ کی طرح بلا کے لڑاکے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ آپ احباب کی سہولت کیلئے ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ یہ بیان ان ہی سکندرِ اعظم کا ہے جنہیں اردو میں الیگزینڈر دا گریٹ کہتے ہیں۔ نیز آپ لوگوں کی سہولت کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے آئندہ اگر کوئی آپ سے نئی نسل کے تشدد پسند ہونے کا شکوہ کرے تو انہیں یاد دلادیجئے گا کہ تاریخ انسانی کے کم و بیش تمام بڑے انسان وہی تھے جو نہایت غصیلے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ سو اگر نئی نسل بھی اجداد کے نقشِ قدم پر چل کر پچیس تیس ہزار انسانی جانیں لیکر تاریخ کے صفحات میں امر ہونا چاہتی ہے تو اس میں قصور ان بیچاروں کا نہیں بلکہ تاریخ دانوں کا ہے۔ مگر خیر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور فلسفے کی گفتگو محض چائے کے ہوٹل یا محلے کے چوباروں پر اچھی لگتی ہے۔ مصنفین کو فلسفے جیسی مکروہات، کتب میں نقل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سکندر اعظم کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ہم نہایت خوشی سے یہ بیان کرنا چاہیں گے کہ کراچی میں موجود منوڑہ کا جزیرہ ہزاروں سال پہلے سکندر اعظم کی میزبانی کا شرف بھی اٹھا چکا ہے۔ مگر اس زمانے میں چونکہ یہ شہر بلوچ آبادی کی اکثریت رکھتا تھا لہٰذا سکندر اعظم نے یہاں زیادہ عرصہ قیام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر کو اس وقت بھی یہاں سندھی آبادی ہوتی تو بیچارہ گھوڑوں اور خچروں کا سواری کے علاوہ بھی ایک اور استعمال سیکھ جاتا جس سے اس کے لشکر میں پھوٹ نہ پڑتی کہ سپاہیوں کو گھر کی اس حد تک یاد نہ ستاتی۔ مگر خیر، ہونی شدنی! سکندر اعظم نے منوڑہ سے کوچ کیا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے اور کھیوڑہ میں نمک کی کان دریافت کرنے کے بعد بابل چلے گئے اور مرکھپ گئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سکندر نے صرف نمک دریافت کیا تھا، اس نمک میں آئیوڈین ہم نے خود دریافت کیا ہے لہٰذا کھیوڑہ کی آئیوڈین ملے نمک کی کانیں اب پاکستانی قوم کی دریافت کہلانی چاہیئیں۔


بعض مورخین جو کراچی کے بچپن سے ہی ملٹی نیشنل ہونے سے جلتے آئے ہیں اور اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، نے یہ بھی لکھا ہے یہ شہر مائی کولاچی نے آباد کیا تھا جن کا تعلق پڑوسی ملک، معذرت، صوبے بلوچستان کے شہر مکران سے تھا۔ یہ بات مگر بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کراچی جیسے اردو دان شہر میں بھی کبھی چی ڑے کی صدائیں بلند ہوا کرتی ہوں گی۔ مگر بعض مورخین مائی کولاچی والے واقعے کی توجیح اس بات سے بھی پیش کرتے ہیں کہ اردو زبان میں پکوڑے کا لفظ بھی ان ہی بلوچوں سے مستعار لیا گیا تھا جو بیسن کو تل کر کھاتے تھے اور جب اسے تلنے میں دیر لگتی تو پکو ڑے پکو ڑے کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے اطمینان کیلئے یہ بات بہت ہے کہ مکران سے ہی سہی، مگر مائی کولاچی ہجرت کرکے اس شہر میں آئی تھیں اور اس حساب سے اس شہر کی بنیاد ایک مہاجر نے ہی رکھی تھی۔


تاریخ میں کراچی مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے جن میں سب سے مشہور، مغل راج، برٹش راج، پاکستانی حکومت اور پھر اس کے بعد باپ کا راج اور چوپٹ راج وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل کراچی باقی پاکستان کی طرح چوپٹ راج اور باپ کے راج والے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر یہ مضمون آپ اردو رسم الخط میں بذات خود پڑھ رہے ہیں تو اس بارے میں مزید بیان کرنا صرف آپ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا جبکہ اگر یہ مضمون آپ اپنے کسی بوڑھے ملازم سے پڑھوا کر سن رہے ہیں تو تسلی رکھیئے اور باپ کے راج اور چوپٹ راج کے فیوض و برکات دونو ہاتھوں سے سمیٹتے رہیئے۔


جغرافیہ:


کراچی کے مغرب میں سمندر، شمال میں پہاڑیاں (کٹی اور ثابت دونوں)، جنوب میں بے تحاشہ آبادی، اور مشرق میں بحریہ ٹائون واقع ہے۔ کراچی بنیادی طور پر ایک میدانی علاقہ ہے اور اس شہر کی زمین اور خواتین دونوں ساخت کے حساب سے ہموار واقع ہوئی ہیں۔ کراچی کے ساتھ بحیرہ عرب کا ایک وسیع ساحل موجود ہے جو شادی زدہ جوڑوں کی سہولت کیلئے رکھا گیا ہے۔ کراچی کی نوے فیصد آبادی شادی کے فوراٗ بعد رومان کو بڑھانے، جبکہ شادی کے دوسرے سال کے بعد ہر سال شریک حیات کو ڈبونے کی کوشش کرنے کیلئے ان ہی ساحلوں کا رخ کرتی ہے۔


موسم:


کراچی ایک کاسموپولیٹن اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہاں کی عوام کسی بھی قسم کی لوکل چیز پسند نہیں کرتی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بائیس ملین کی آبادی کے اس شہر پر حکومت کرنے کیلئے وہ شخص امپورٹ کیا جاتا ہے جسے کراچی کے باہر کے بیس ملین رائے دہندگان نے چنا ہوتا ہے۔ امپورٹد چیزوں سے یہ محبت صرف کارِ سرکار تک محدود نہیں اور ہر ضرورتِ زندگی کی طرح کراچی میں موسم بھی دوسرے شہروں سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ کراچی کے موسم کے بارے میں مزید معلومات کیلئے وکی پیڈیا پر جاکر کوئٹہ کے موسم کے بارے میں پڑھ لیجئے۔


معیشت:


کراچی خطے کا سب سے بڑا معاشی حب ہے۔ مملکتِ پاکستان کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ستر وہ محاورے والا مبالغہ آمیز ستر نہیں ہے بلکہ قرار واقعی ملک کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ستر فی صد کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر چوہدری اینڈ سنز جن کے کھیت کھلیان سے لیکر گھربار تک ملک کے دوسرے حصوں میں واقع ہیں وہ بھی اپنا سیلز آفس کراچی میں ہی کھولتے اور اہلیانِ کراچی کے خبط عظمت میں اضافہ کرتے ہیں کہ ملک کا ستر فی صد ریونیو وہ پیدا کرتے ہیں۔


ایسا نہیں کہ کراچی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی۔ کراچی میں تیار ہونے والی اشیاء میں سب سے مشہور چیز سلیم کا گٹکا ہے جو اگر برآمدگی کی اجازت پا جائے تو اکیلا ہی اربوں ڈالرز زرِمبادلہ کا باعث بنے۔ معیشت کے باب میں آخری بیان یہ کہ کراچی میں ہر دوسرا شخص پان بناتا ہے۔ اس پان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کیلئے دکان کا ہونا ضروری نہیں، اکثر پان فروش بغیر دکان اور بغیر پان کے بھی آپ کو چونا لگا جائیں گے۔


زبان/اقوام:


کراچی ایک کثیر قومی شہر ہے جس میں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی، ہزارہ، دہلوی، بہاری، لکھنوی، امروہوی، حیدرآبادی، ملیح آبادی، بدایونی، میرٹھی اور چند دیگر اقوام آباد ہیں۔ رابطے کی سب سے بڑی زبان اردو سے ملتی جلتی ہے جو پورے شہر (علاوہ افغان بستی جہاں صرف عربی اور پشتو بولی جاتی ہے) میں سمجھی جاتی ہے۔


مشہور مقامات:


کراچی شہر کے سب سے مشہور مقامات میں، پرفیوم چوک، جناح گرائونڈ، نشتر پارک اور باغِ جناح واقع ہیں۔ کسی زمانے میں قائد اعظم کا مزار اور پاکستان میوزیم بھی مشہور مقامات ہوا کرتے تھے مگر حالیہ برسوں میں یہ صرف غیر شادی شدہ جوڑوں اور حسرت کے مارے بوڑھوں میں ہی مشہور رہ گئے ہیں۔


تفریحی مقامات:


کراچی میں ہر مقام تفریحی مقام سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں اور کسی انسان کو لٹتے ہوئے دیکھ کر جی بھر کر محظوظ ہوں، کوئی برا نہیں مانے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس دن آپ کی لٹنے کی باری ہو اس دن باقی اہلیانِ شہر بھی آپ سے اس ہی وسعتِ قلبی کی امید رکھیں گے۔


شہرِ قائد:


عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، سٹی بائے دا سی، یہ سارے وہ القابات ہیں جو اس عظیم شہر کو حاصل ہیں۔ مگر ایک خطاب ایسا بھی ہے جو ان تمام خطابات پر بھاری ہے، شہرِ قائد۔ گو اب یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس شہرِ قائد میں قائد سے مراد کون ہے۔ جی ہاں! اصل قائد وہی ہیں، باقی باتیں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مشہور کی گئی ہیں۔


پیارے بچوں! مجھے یقین ہے کہ اس مختصر کلام سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی ہوگی مگر یاد رکھیئے کہ اس مضمون کو لکھنے کے مجھے کوئی پیسے نہیں ملتے لہٰذا تھوڑے کو غنیمت جانیں بلکہ احسان مانیں! فرصت کے ساتھ اس مضمون کا اگلا حصہ پھر کبھی لکھا جائے گا جس میں کراچی کے دیگر پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ تب تک کیلئے اجازت۔

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

19 - زبان دراز کی ڈائری

پیاری ڈائری!


زندگی عجیب مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔ میرے دفتر کے احباب صحیح کہتے تھے کہ یہ مطالعے کی عادت ہی مجھے مروائے گی۔ پچھلے چار دن سے چھپتا پھر رہا ہوں کہ اگر کسی کو میرے محل وقوع کا پتہ چل گیا تو بڑی عید سے پہلے ہی میری بوٹیاں کردی جائیں گی۔


معاملہ بظاہر اتنا بڑا تھا نہیں جتنا اب بن چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم نے بدقسمتی سے کہیں حضرت عبداللہ بن مبارک کے حج کی داستان پڑھ لی تھی جس کے مطابق حضرت عبداللہ ابن مبارک ایک دن حرم کعبہ میں سو رہے تھے کہ خواب میں دو فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا۔ حرم میں پہنچ کر وہ دونوں فرشتے آپس میں بات چیت کرنے لگے۔ پہلے فرشتے نے دوسرے سے پوچھا کہ اس سال کتنے لوگ حج کرنے آئے تھے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ کم و بیش چھ لاکھ ۔ پہلے نے پھر پوچھا، ان میں سے کتنے افراد کا حج مقبول ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا، مجھے نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حج قبول ہونے والا تھا۔


فرشوں کی یہ گفتگو سن کر عبداللہ ابن مبارک سوچ میں پڑگئے کہ اے اللہ! حج تو اس سال میں نے بھی کیا تھا۔ میرے علاوہ اور بھی نجانے کتنے لوگ تھے جو کتنے پہاڑ اور سمندر اور موسم کی سختیاں و دیگر مصائب عبور کرکے  تیری رضا اور تیرے گھر کی زیارت کیلئے حج کرنے آئے تھے۔ مالک! تو کبھی کسی کی محنت کو اس طرح رائگاں نہیں کرتا۔ کیا واقعی ہم تمام لوگ نامراد ٹھہرائے جائیں گے؟


عبداللہ ابن مبارک ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ پہلے فرشتے کی آواز دوبارہ ابھری جو دوسرے فرشتے سے کہہ رہا تھا کہ دمشق شہر میں علی بن المَفِق نامی ایک موچی رہتا ہے۔ وہ اس سال حج پر تو نہیں آسکا مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کی حج کی نیت قبول کرلی ہے بلکہ اس کی نیت کے صدقے ان تمام چھ لاکھ حجاج کی عبادت کو بھی منظور کرلیا ہے۔ عبداللہ ابن مبارک کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے صبح ہوتے ہی دمشق کا قصد کیا کہ جاکر خدا کی اس برگزیدہ ہستی سے ملیں جس کی صرف نیت میں اتنا خلوص تھا کہ وہ چھ لاکھ افراد کے عمل کو مقبول کرواگئی۔


عبداللہ ابن مبارک دمشق پہنچے اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے علی بن المفِق کے گھر پہنچ گئے۔ عبداللہ ابن مبارک اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالم اور مشہور فقیہہ تھے۔ علی بن مفق آپ کا نام سنتے ہی حیران ہوگیا کہ وقت کا اتنا بڑا فقیہہ میرے دروازے پر کیا کررہا ہے؟ آپ نے اسے تسلی دی اور اس سے پوچھا کہ کیا آپ حج پر جانے کی نیت رکھتے تھے؟ علی بن مفِق نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ وہ پچھلے تیس سال سے اپنی محنت کی حلال کمائی سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر حج پر جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس سال اس کے پاس اتنا اسباب جمع ہوگیا تھا کہ وہ حج پر جاسکے مگر چونکہ خدا کو منظور نہیں تھا سو میں چاہ کر بھی اپنی نیت کو عملی جامہ نہیں پہنا پایا۔


عبداللہ ابن مبارک نے اس کی باتوں سے اس کی دل کی سچائی بھانپ لی تھی مگر اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس موچی میں ایسی کیا بات تھی جس کی بنیاد پر اس سال کے تمام حجاج کا حج محض اس کی وجہ سے قبول ہوا؟
عبداللہ ابن مبارک نے علی بن مفق سے سوال کیا کہ وہ حج پر کیوں نہ جا سکا؟ علی بن مفق اپنے جانے کی وجہ نہیں بیان کرنا چاہتا تھا۔ اس نے عبداللہ ابن مبارک کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی اور کہا، چونکہ مرضی خدا نہیں تھی۔ عبداللہ ابن مبارک اس کا جواب سن کر مسکرائے اور اپنا سوال پھر دہرا دیا۔ عبداللہ ابن مبارک کے  پیہم اصرار پر علی بن مفق نے بتایا کہ حج پر جانے سے پہلے وہ اپنے ایک پڑوسی سے ملنے اس کے گھر گیا تو اس کے گھر دسترخوان بچھا ہوا تھا اور تمام گھر والے کھانے کیلئے بیٹھے تھے۔ علی بن مفق نے سوچا کہ آدابِ میزبانی کے تحت وہ پڑوسی انہیں کھانے کی دعوت دے گا مگر اس شخص نے علی بن مفق کو دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعدوہ گویا ہوا کہ اے علی میں آپ کو کھانے پر ضرور دعوت دیتا مگر میں مجبور ہوں۔ پچھلے تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے اور آج جب مجھ سے بچوں کی بھوک دیکھی نہ گئی تو میں کچرے کے ڈھیر میں پڑی ایک گدھے کی لاش سے گوشت لیکر آگیا کہ اپنے بچوں کی بھوک مٹائوں۔ میں تو انتہائی بھوک سے مجبور ہوں لہٰذا یہ مردار گوشت مجھ پر حلال ہے مگر یہ گوشت اور یہ کھانا چونکہ آپ کیلئے حرام ہے لہٰذا میں آپ کو اسے کھانے کی دعوت نہیں دے سکتا۔


علی بن مفق نے کہا کہ یہ سن کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں گھر گیا اور جمع پونجی کے تمام تین ہزار درہم لاکر اس پڑوسی کے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ وہ اس سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرلے۔ میں نے وہ تین ہزار درہم بھوک برداشت کرکے حج کیلئے جمع کیئے تھے مگر مجھے لگا کہ اس بندہ خدا کو اس وقت ان پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ حج کرنے کی میری بےپناہ خواہش آج بھی زندہ اور اگر اللہ کریم نے چاہا تو وہ مجھے ضرور حج پر بلالے گا۔ یہ سن کر عبداللہ ابن مبارک کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے علی بن مفق کو اپنے خواب کا مکمل احوال سنا دیا۔


کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم نے یہ داستان پڑھی تو سوشل میڈیا پر یہ مہم شروع کردی کہ قربانی بالکل ایک فریضہ ہے مگر اسراف فرض نہیں بلکہ حرام ہے۔ خدا نے اگر استطاعت دی ہے تو ضرور قربانی کریں، مگر پچاس بیل اور دو سو بکرے خریدنے کے بجائے اگر ایک بیل یا ایک بکرا اللہ کے راستے میں قربان کرکے فریضہ ادا ہوسکتا ہے تو باقی پیسے ان محتاجوں پر خرچ کردیں جو سفید پوش ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے؟


ہماری یہ مہم ملک بھر میں ہر سطح پر بےحد مقبول ہوئی۔ عوام کی سطح پر اسے بطور اسلامی عبادات پر تنقید کے پذیرائی ملی۔ کاروباری طبقے کی سطح پر اسے بطور پیٹ پر لات اور چمڑے کی صنعت سے دشمنی کے پذیرائی ملی۔ سیاست دانوں کی سطح پر اسے کھال کا مال چھیننے کی ترکیب کے طور پر سراہا گیا۔ اور آخر میں پولیس کی سطح پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور دفعہ 295 اور اس کی چند ذیلی دفعات کی خلاف ورزی کے طور پر پہچانا گیا۔  اور ان سب پذیرائیوں کا حاصل حصول یہ نکلا کہ ہم پچھلے چار دن سے چھپتے اور احباب کے ذریعے معافی نامے جمع کراتے پھر رہے ہیں۔


 آج صبح کاشف بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا ان کی نصیحت سن رہا تھا کہ مجھے یہ کام سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ میں نے کاشف بھائی کو سمجھایا کہ میں نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ صرف اسلامی تاریخ کے مشہور فقیہہ کی حکایت بیان کی ہے۔ کاشف بھائی نے رحم آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ، اے احمق انسان! عبداللہ ابن مبارک کے نام میں اصل گن چھپا ہے۔ اگر تیرا نام بھی زبان دراز بن منہ پھٹ قسم کا ہوتا تو آج تیری بیان کردہ حکایت پر تجھے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔


کاشف بھائی کی اس نصیحت کو میں نے گرہ سے باندھ لیا ہے اور کل سے ٹوئیٹر پر "ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کے فضائل" پر درس دے رہا ہوں۔ امید ہے کچھ بہتری کی صورتحال نکل آئے گی۔ تب تک کیلئے اجازت دو۔


والسلام


زبان دراز ابن منہ پھٹ

اتوار، 21 ستمبر، 2014

بنیادی سائنس - جدید

نوٹ: اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ میں پیدا ہونے والی کسی تبدیلی کا ادارہ زمہ دار نہیں ہوگا۔


پیارے بچوں! آرٹس کی چھوٹی بہن کو سائنس کہتے ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ ترتیب الٹی ہے اور دنیا بھر میں سائنس کو بڑی بہن مانا جاتا ہے مگر چونکہ آرٹ میں ایک آرٹسٹک رومان جھلکتا ہے اور یہ کام اکثر گھر بیٹھے بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں آرٹ کو ہمیشہ زیادہ عزت دی جاتی ہے اور بڑی بہن سمجھا جاتا ہے۔ الحمدللہ اس ہی لیئے ہمارے معاشرے میں فنکار ایک تعریف جبکہ سائنس دان ایک قسم کا طنزیہ لفظ سمجھا جاتا ہے۔


جہاں تک سائنس کی تعریف کا تعلق ہے تو اول تو سائنس کی تعریف ہم صرف وہاں تک کرسکتے ہیں جہاں تک مسلم سائنسدانوں کے نام آتے ہیں۔ اور ماضی قریب و بعید میں چونکہ ایسا کوئی سانحہ ہوا نہیں ہے جس میں مسلمانوں نے کوئی قابل ذکر سائنسی کارنامہ سر انجام دیا ہولہٰذا ہم اس مضمون میں سائنس کی تعریف سے اجتناب ہی کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے پہلے مسلمان سائنسدان کے مرنے کے کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام مسلمان نہیں بلکہ قادیانی تھے، لہٰذا مسلمانانِ پاکستان نے دینی غیرت کے تحت ان کی قبر کے کتبے سے لفظ مسلمان حذف کردیا ہے اور اب ان کا ذکر کرنا حرام اور کرنے والا ــــــــــــــــــــــــــ ہے٭۔  ایک اور اہم وضاحت اس باب میں یہ بھی ضروری ہے کہ حالیہ تاریخ میں ولید بن یوسف نامی عظیم مسلمان سائنس دان نے ستمبر گیارہ کو امریکہ کے مقام پر ایک ایسے کیمیکل کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا تھا جس سے کنکریٹ کے پہاڑ اور فولاد کے ڈھیر سے بنی عمارت تو پگھل گئی مگر اس کیمیکل کے زیرِ اثر معمولی پلاسٹک سے بنے ان کے چاروں کریڈٹ کارڈ نہیں جلے اور دنیا کو پتہ چل سکا کہ ستمبر گیارہ کے حملے کس نے کروائے۔ چونکہ ابھی تک دنیا محوِ حیرت ہے کہ یہ سائنس تھی یا آرٹ سو فی الحال ہم ولید بن یوسف کو یہیں چھوڑ کرآگے بڑھتے ہیں۔
٭ خالی جگہ پر کریں۔


سائنس کے بارے میں آپ کے سمجھنے کیلئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہزار کوشش کے باوجود کسی بھی طرح  آرٹ نہ بن سکے، ہم اسے سائنس کا نام دے دیتے ہیں۔ نیز ہر وہ چیز جس کو آپ سمجھ نہ پائیں آپ اسے بھی سائنس قرار دیکر شرمندگی سے بچ سکتے ہیں کہ جیسے ہی آپ کسی چیز کو سائنس قرار دے دیتے ہیں، مخاطب کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر آپ اس بات کو سمجھ نہیں پائے ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں کہ یہ بات، محض ایک بات نہیں بلکہ سائنس ہے۔ ایسے مواقع پر آپ "بڑی سائنس ہے بھائی" قسم کے کلمات کہہ کر نہ صرف صاف بچ سکتے ہیں بلکہ سامنے والے شخص کے انا کے غبارے میں بھی مناسب مقدار میں ہوا بھر سکتے ہیں جو آگے چل کر آپ کے ہی کام آئے گی۔


پیارے بچوں! سائنس ہماری زندگی کا ایک بہت اہم جزو اور سیکھنے کیلئے بہت اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر تمام اہم موضوعات کی طرح ہم نے اس پر کبھی کام نہیں کیا اور یہی بات سائنس کی اہمیت کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے نے آرٹ کو تو فن اور کلا اور خدا جانے کیا کیا نام دے دیئے مگر سائنس کی اہمیت اور حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ہمیشہ صرف سائنس ہی کہا، سنا، اور لکھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے سائنس کو کوئی اردوانہ نام دے دیا تو یہ سائنس کا استحصال اور انگریزوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ جس طرح امریکہ و برطانیہ میں ٹیکسی چلانا صرف پاکستانی و ہندوستانی ڈاکٹروں اور انجینیئرز کا کام ہے اور کوئی فرنگی ہمارے اس کام میں مداخلت نہیں کرتا تو اس ہی طرح انسانیت اور احسان مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم بھی سائنس والے ان کے کاموں میں دخل نہ دیں۔ یہ بات مگر اپنی جگہ ہے کہ کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات ہر انسان کا حق ہے اور کہنے کو ہی سہی مگر چونکہ سائنس آپ کے نصاب کا حصہ ہے لہٰذا ہم آج آپ کو چند بینادی سائنسی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جو زندگی میں آپ کے کام آسکیں۔


سائنس کا اصل مقصد مادہ اور اس کے خواص پر ہونے والی تحقیق ہے۔ مادے کی دو بڑی اقسام ہیں جن کی اپنی مزید شاخیں ہیں۔ مادے کی یہ دو بڑی اقسام سادہ مادہ اور نر مادہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سادے مادے پر انسان بہت کچھ دریافت کر چکہ ہے مگر نر کی مادہ ہنوز تحقیق طلب ہے۔ ان دونوں مادوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سادہ مادہ اپنا مخصوص رویہ رکھتا ہے اور کسی مخصوص حالت میں اس کا ردعمل پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ نر کی مادہ البتہ اپنی فطرت اور رویوں دونوں میں آزاد ہے اور ایک جیسی صورتحال میں ہر بار الگ طریقے سے پیش آنے کے فن میں ماہر ہے۔ دونوں مادوں میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ پہلے مادے سے مل کر تصویر کائنات بنی ہے جبکہ نر کی مادہ اس تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنے کے کام آتی ہے۔ محاورے کی زبان میں جب کسی کو مادہ پرست انسان کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی دوسری والی مادہ ہوتی ہے۔ نر کی مادہ کی سمجھ چونکہ آج تک کسی کو بھی نہیں ہوئی تو آپ کے بھی سمجھنے کے آثار کچھ ایسے روشن نہیں ہیں، لہٰذا آج ہم صرف کائنات کے مادے کے بارے میں بات کریں گے۔


جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ یہ کائنات مادے سے مل کر بنی ہے۔ جبکہ یہ مادہ خود لاکھوں کڑوڑوں ایٹم سے مل کر بنتا اور محض ایک ایٹم بم سے تباہ ہوجاتا ہے۔ ایٹم کے اپنے بھی چار جزو ہوتے ہیں جنہیں الیکٹرون، پروٹون، نیوٹرون اور مورونز کہا جاتا ہے۔ مورونز نامی حصہ سب سے طاقت ور ہوتا ہے اور طاقت کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی بھی چیز میں طاقتور کا نام لینا فعل قبیح اور ناقابلِ معافی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس ہی اصول کے تحت حکومت گرنے کی ذمہ داری ہمیشہ فوج کے بجائے سیاستدانوں پر آتی ہے۔ اگر آپ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہوں تو مطالعہ پاکستان کی کتاب یا آج کا اخبار ملاحظہ کرلیں۔


مغربی ممالک میں سائنس کا دوسرا نام تحقیق بھی ہے۔ پیارے بچوں! تحقیق اپنے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اور چیزوں کی اصل سمجھنے کی ایک جان لیوا بیماری ساتھ لاتی ہے لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم  اس تحقیق نامی بلا سے دور رہیں۔ ایڈز اور دوسری بیماریاں بلاوجہ بدنام ہیں ورنہ امت مسلمہ کو جتنا نقصان اس تحقیق نے پہنچایا ہے وہ آج تک تمام بیماریاں مل کر بھی نہیں پہنچا سکیں۔ نہ یہ مردود کفار تحقیق کی بیماری کا شکار ہوتے نہ یہ سائنسی ایجادات ہوتیں اور نہ ہم مسلمان آج دنیا بھر میں محکوم ہوتے۔ امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کفار سے لڑنے کیلئے بھی ہم ان ہی کفار کی دریافت کردہ ٹیکنالوجی اور ان ہی کے بنائے ہوئے اسلحے کے محتاج ہیں۔ تصور تو کیجیئے، آپ کے محلے کے مشہور مولوی اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں اس طرح جارہے ہوں کہ پیچھے بیٹھے تمام مریدوں کے ہاتھ میں میخائل کلاشنکوف کی بندوق کے بجائے ہاتھ میں غلیل ہو اور اس غلیل کا ربڑ کھنچائو دیکھ کر مسلمان متعین کریں کہ حالات خراب ہیں یا صحیح؟ اور اگر تصور مزید اجازت دے تو ڈبل کیبن ہٹا کر وہاں ایک گھوڑا کھڑا کردیجئے اور محظوظ ہوئیے۔ یہ تو خیر مذاق کی بات تھی ورنہ مجھے زندگی سے بہت پیار ہے اور میں کسی بھی مسلک کے مولوی سے اس کا ڈبل کیبن گاڑی رکھنے کا حق چھیننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ آپ سے ایسے احمقانہ خیالات کی امید کرتا ہوں۔ اس بارے میں کبھی سوچ آ بھی جائے تو لعنت ان کفار پر ہی بھیجیئے گا جنہوں نے اسلحہ سازی پر اتنی تحقیق کی اور آج ان ہی کی وجہ سے مسلمان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں ورنہ چاقو خنجر کے زمانے کے بارہ سو سال میں حرام ہے کہ کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کا خون بہایا ہو۔


پیارے بچوں!  شاید اللہ تعالٰی کو خود بھی منظور نہیں کہ ہم فتنے میں گرفتار ہوں اس لیئے کفار کی حرکات سے تنگ آکر اگر کبھی ہم مسلمانوں نے اس تحقیق کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا بھی تو ہمیں عبرت دلانے کیلئے ایسی عجیب خرافات کا شکار کردیا گیا جن کا علاج رہتی دنیا تک ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست جناب عاطف علی المعروف زبان دراز کو بھی پچھلے سال یہ تحقیق نامی بیماری ہوئی تھی اور تب سے وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ہندو، عیسائی، سکھ، شیعہ، سنی اور احمدی سب کے خون کا رنگ ایک ہی جیسا ہوتا ہے اور اس خون کے بہنے پر سب کے گھر والوں کو ایک ہی جتنی تکلیف ہوتی ہے۔ نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی اور مہاجر خون بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور محض علاقائیت و لسانیت کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ لاحول ولا قوۃ!!!
تحقیق کے بارے میں یہ بیان بھی ضروری ہے کہ اس تحقیق کی وجہ سے ہی زیادہ تر مشہور مسلمان اپنے وقتوں میں دہریے کہلائے اور زیادہ تر غیر مسلم سائنس دان اس ہی تحقیق کے ذریعے خدا سے قریب ہوگئے۔ مسلمان سائنس دانوں کے مذہب سے لاتعلق رہنے کا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں کے مسالک نے ان کو کبھی اپنایا نہیں اور آج ہمارے پاس شیعہ سائنسدان اور سنی سائنس دان کی تفریق نہیں ہے اور وہ بیچارے آج بھی معاشرے کے اس محروم طبقے میں موجود ہیں جومحض مسلمان ہی کہلاتے ہیں اور شیعہ، سنی جیسے قابل فخر اور باعثِ نجات القابات سے محروم ہیں۔ خدا ان بیچاروں کے حال پر رحم کرے۔


پیارے بچوں!  بنیادی سائنس کے سلسلے میں ہم نے تمام ضروری گزارشات عرض کردیں ہیں۔ اگر آپ اب بھی مزید تشنگی محسوس کریں تو ابنِ انشاء صاحب کی اردو کی آخری کتاب سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اور اگر اس کتاب کے بارے میں نہیں جانتے تو مزید معلومات کیلئے اپنے والدین سے رجوع کریں۔ اگر شومئی قسمت انہوں نے بھی اس کتاب کے بارے میں نہیں سنا تو سب کام چھوڑ کر پہلے ان کے علاج کیلئے کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ہمیں اجازت دیں کہ اب آپ کیلئے بیسک اردو کی کتاب بھی لکھنی ہے۔


منگل، 16 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 17

پیاری ڈائری!


طویل غیر حاضری کیلئے معذرت! جی تو بہت کرتا تھا کہ لکھنے بیٹھوں اور تمہیں اپنی روداد سنائوں مگر کیا کرتا کہ مصروفیات نے ایسا گھیرا رکھا تھا کہ بلا مبالغہ سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ یہ مصروفیت بھی کوئی معمولی مصروفیت نہیں تھی۔ دراصل ہوا یہ کہ میں طویل بیروزگاری سے تنگ آچکا تھا اور لکھنے کی عیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا ساری توجہ کام کی تلاش پر مبذول کرکے قلم طاق پر رکھ دیا تھا اور نوکری کی تلاش میں مصروف تھا۔


عرصے کے بعد نوکری ڈھونڈنے نکلا تو احساس ہوا کہ نوکری ڈھونڈنا، آج کل کے معاشرے میں شریف انسان ڈھونڈنے کے بعد سب سے مشکل کام ہے۔ جہاں کہیں بھی گیا، سب لوگوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کسی ایسے انسان کو وہ اپنے ادارے میں جگہ نہیں دے سکتے جس کا دماغ اور زبان ایک ساتھ چلتی ہو۔ خود سوچو، زبان دراز اگر زبان بند رکھنا سیکھ جائے تو زبان دراز کس بات کا؟ اور جہاں تک دماغ نہ چلانے کا تعلق ہے تو مطالعہ نامی بیماری کے بعد سے یہ مردود دماغ ہر چیز میں خودبخود چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بیچارہ زبان دراز جاتا تو کہاں جاتا؟


دوست احباب کو جب پریشانی کا علم ہوا تو اسد بھائی نے مشورہ دیا کہ مرغی کے کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ آنکھیں بند کرکے یہ کام شروع کردو کہ سرمایہ بھی کم ہے اور مرغی کے گوشت کا تو ناغہ بھی نہیں ہوتا۔ دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ انہوں نے کسی جاوید چوہدری صاحب کے کالم میں کہیں پڑھ رکھا ہے کہ مرغی سب سے بے ضرر مخلوق ہے۔ دڑبے میں ہاتھ ڈال کر مرغی کو ذبح کرنے کیلئے نکالو بھی تو باقی مرغیاں، توتے کی طرح کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا شروع ہوجاتی ہیں کہ کسی طرح دوسرے کی باری آجائے اور ہم بچ جائیں۔ دن میں جتنی مرتبہ ضرورت پڑے، پنجرے میں ہاتھ ڈالو اور ایک مرغی کو دبوچ لو۔ یہ ایک ایک کرکے ساری ذبح ہوجائیں گی مگر پلٹ کر کچھ نہیں کہیں گی۔


میں نے بھی دل میں علامہ اقبال سے معذرت کرتے ہوئے سوچا کہ "یوں تو چھوٹی ہے ذات مرغی کی، دل کو لگتی ہے بات مرغی کی"۔ اور دوستوں سے سرمایہ لگا کر ایک مرغی کے گوشت کی دکان کھول لی۔ پچھلے تین دن اس ہی حوالے سے مصروفیت رہی۔ علی بھائی اور جاوید چوہدری صاحب دونوں صحیح کہتے تھے۔ کام کا بھی بےتحاشہ رش تھا اور منافع بھی چوکھا۔


دکان پر اکثر مجھے خیال آتا کہ ٹیلیویژن پر دن رات غربت کے رونے رونے والوں کو میں لاکر کھڑا کروں اور پوچھوں کے غربت کہاں ہے؟ جس ملک کی غربت کا رونا روتے ان کی زبان نہیں تھکتی وہاں لوگ اب بھی 100 فی صد منافع پر بکنے والی چیز تو خرید سکتے ہیں مگر اپنے نفس پر قابو کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ کیا اس ہی کا نام غربت ہے؟۔ میں کس منہ سے انہیں غریب کہوں جب ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے لینے والے ریستوران کا مالک مجھ سے روزانہ سینکڑوں مرغیاں خریدتا ہو؟ طلب اور رسد کا بنیادی قانون یہی بتاتا تھا کہ ہزاروں روپے ایک وقت کے کھانے پر خرچ کرنے والے بے تحاشہ لوگ موجود ہیں تبھی وہ مجھ سے اتنی مرغیاں خریدتا ہے۔ مگر خیر، جانتا ہوں کہ ڈائری اور مرغیاں غیر سیاسی ہوتی ہیں سو اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ بلاوجہ کی نصیحت بھی ایک طرح کی زحمت ہی ہوتی ہے۔


یہ تو ہوا گزشتہ تین دن کا احوال۔ آج مگر ایک عجیب سا سانحہ ہوگیا جس کی وجہ سے مجھے دکان جلدی بند کرکے آنا پڑا۔ جلدی گھر آیا اور وقت بھی میسر ہوگیا تو یہ ڈائری لکھنے بیٹھا ہوا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ آج بھی روز کی طرح گاہک آرہے تھے، مرغیاں کٹ رہی تھیں، گوشت بک رہا تھااور ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔  جب جمال بھائی نے مجھے تین کلو مرغی تولنے کا کہا تو میں نے خوشی خوشی پنجرے میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کے بالکل برخلاف تھا۔ چونکہ ان مرغیوں نے کبھی کسی اخبار کا کالم نہیں پڑھا تھا اور نہ یہ اسد بھائی کو جانتی تھیں لہٰذا انہوں نے روز کے ضابطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میرے اوپر حملہ کردیا۔ ہاں پیاری ڈائری میں جھوٹ نہیں کہتا۔ ان ساری مرغیوں نے ایک بار اکٹھے ہوکر میرے ہتھ پر چونچوں کی بارش کردی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیا۔


پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ پھر میں نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے دوبارہ پنجرے کا دروازہ کھولا اور اپنے کاریگر کو مرغی پکڑنے کا کہا۔ مرغیوں نے نیا ہاتھ دیکھا تو پہلے تو کچھ نہ بولیں۔ مگر جیسے ہی اس غریب نے ایک مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی، تمام مرغیاں کڑکڑاتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ اس پر بھی حملہ آور ہوگئیں۔ میری دفعہ تو پھر بھی خیر رہی تھی، اس غریب کا تو انہوں نے ہاتھ ہی نوچ ڈالا۔


پیاری ڈائری! بھلا خود سوچو! ان مرغیوں کو دانہ دینے والا، میں! انہیں رہنے کیلئے جگہ دینے والا، میں! ان کا خیال رکھنے والا، میں! اور یہ میرے اوپر ہی پنجے جھاڑ کر پل پڑیں؟؟؟ کہاں کا انصاف اور کیسا قانون ہے یہ؟ صدیوں سے مروجہ قانون کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ چپ کر کے ذبح ہوتی رہتیں! اور اگر اتنا ہی مسئلہ تھا تو اپنا ایک وفد اقوام متحدہ میں بھجوا کر قانون میں تبدیلی کرواتیں؟ مگر خدا سمجھے ان قانون شکن مرغیوں کو!


حد تو تب ہوئی جب وہاں کھڑے ہوئے جمال بھائی نے اس سارے منظر کی ویڈیو بنائی اور مرغیوں کے ہاتھوں میری اس شامت پر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ میں نے جب مرغیوں پر اپنے احسانات اور ان کی احسان فراموشی کا ذکر کیا تو کہنے لگے، میاں! ان مرغیوں کو ذبح کرکے جو پیسے کماتے ہو، اس میں سے چار پیسے اگر واپس ان مرغیوں پر خرچ کردیتے ہو تو کوئی احسان نہیں کردیتے۔ میں آج ہی جاکر اس ویڈیو کو یوٹیوب پر ڈالوں گا کہ سب کو پتہ چل جائے اب اس ملک کی مرغیاں بیدار ہوگئی ہیں۔ بھلا بتائو، یہ بھی کوئی کرنے کی بات تھی؟ عجیب جانور نما انسان ہیں جمال بھائی!!!


وہ تو شکر ہے کہ شہرکو انٹرنیٹ مہیا کرنے والا میرا دوست ہے سو میں نے اس سے کہہ کر ایک کام اچھے وقتوں میں کروالیا تھا۔ اس وقت تو وہ بہت چیخا کہ بھائی یہ تو بے ضرر سی چیز ہے! اسے بند کرنے سے کیا فائدہ ہوجائے گا؟؟مگر آج اس عاقبت نا اندیش دوست کو بھی احساس ہورہا ہوگا کہ میں نے اچھے وقتوں میں ہی کتنا دوراندیش کام کیا تھا۔


پیاری ڈائری! خود سوچو، اگر ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوجاتی تو ہم انسانوں کی ان مرغیوں کے آگے کیا عزت رہ جاتی؟؟؟


والسلام


زبان دراز مرغی فروش

جمعہ، 16 مئی، 2014

بھائی جلیل کا کتا ۔۔۔۔

(اس کہانی کے تمام نام، مقام اور کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی کردار سے مماثلت محض اتفاقیہ یا آپ کی نیت کا فتور ہوسکتی ہے)۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گائوں میں انسان جانوروں اور جانور انسانوں کی ذبان سمجھ لیتے تھے۔ چھوٹا سا گائوں تھا اور سادہ سے لوگ۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہونے والے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے والے۔ امیر اور غریب کے مابین کوئی خاص فرق نہیں ہوتا تھا اور امراء کی بھی کوشش ہوتی تھی کے بےجا ریاکاری سے پرہیز کیا جائے کہ اس سے ان کے غریب بھائیوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے۔ سب کی زندگی بہت  سکون سے گذر رہی تھی کہ ایک دن گائوں کے چوہدری صاحب نے ایک انگریزی بولنے والا کتا پال لیا۔ گائوں والوں نے پوچھا کہ بھلا اس کی کیا ضرورت؟ تس پہ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ہر گائوں میں اس ہی طرح ایک کتا پالا جاتا ہے جس کا کام ادھر ادھر کی تمام خبریں اکٹھا کرنا اور پھر سب کو بتانا ہوتا ہے۔ گائوں والے بہت خوش ہوئے اور اس کتے کو اپنا لیا۔ اب کتا گائوں میں رہنے لگا اور دن بھر کی خبریں بھی سنانے لگا، مگر المیہ یہ تھا کہ یہ کتا خبریں انگریزی میں سناتا تھا اور گائوں میں صرف دو افراد کو انگریزی آتی تھی۔ گائوں والوں کے اندر پروان چڑھتے اس احساس محرومی کو دیکھ کر بھائی جلیل نے چوہدری صاحب سے اجازت طلب کی اور ایک اردو بولنے والا کتا بھی لے آئے۔ یہ نیا آنے والا کتا بے حد مرنجاں مرنج اور ملنسار واقع ہوا تھا۔ بغیر لگی لپٹی رکھے سچ سچ ہر بات گائوں والوں کو آکر بتا دیتا تھا۔ گائوں والے بھی اس کتے سے بہت خوش تھے کہ اب انہیں ارد گرد کی تمام اہم خبریں گھر بیٹھے مل جایا کرتی تھیں۔ کچھ عرصے میں چوہدری صاحب کا انتقال ہوگیا سو اب انکے انگریزی کتے کی کوئی خاص وقعت نہیں رہ گئی۔ چوہدری صاحب کا نام جڑا ہونے کی وجہ سے آج بھی لوگ دو چار ہڈیاں تو ڈال دیتے تھے مگر بھائی جلیل کے کتے کے آگے اب اس انگریزی کتے کی، کتے والی اوقات رہ گئی تھی۔ ادھر بھائی جلیل کے کتے نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ پر پرزے نکالنا شروع کردیے۔ اس کتے کو معلوم ہوگیا تھا کہ گائوں والے اب آپس کی بات سے زیادہ اس کی دی ہوئی خبر پر اعتبار کرتے ہیں۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ اس کی خبر مثبت پہلو سے سامنے لائی جائے لہٰذا بھائی جلیل نے اب اس خدمت کو کاروبار بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کتا پالنا ایک محنت طلب کام ہے اور اس میں اخراجات بہت زیادہ ہیں اور وہ یہ سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا نہیں کر سکتے۔ سو جن لوگوں کو اپنی خبریں دوسروں تک پہنچانی ہیں وہ اس کتے کے اخراجات میں بھی حصہ ڈالیں۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر شدید اعتراض ہوا۔ انہوں نے بھائی جلیل کو کہا کہ کسی نے ان سے ہاتھ جوڑ کر درخواست نہیں کی تھی کہ اس کتے کو پالیں اور اگر وہ اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو اسے چوہدری کے حوالے کردیں جو بغیر کسی سے پیسے مانگے مفت میں یہ خبریں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اور ویسے بھی جب بھی یہ کتا کسی کو خبر سنانے پہنچتا تو ہڈی لیئے بغیر تو منہ کھولتا بھی نہیں ہے؟ تو مزید کس بات کا خرچہ؟ بھائی جلیل نے یہ باتیں ٹھنڈے دماغ سے سنیں اور اگلے دن ہی بھائی جلیل کے کتے نے ان کتوں کی اصلیت پورے گائوں پر کھول دی کہ وہ لوگ کس طرح پڑوسی گائوں والوں سے پیسے لے کر اس گائوں میں تفرقہ پھیلا رہے ہیں۔ ان سب غداروں کو اس ہی وقت گائوں سے نکال دیا گیا اور بھائی جلیل اور ان کے کتے کی اس عظیم ملی خدمت پر انہیں گائوں کا ایک بزرگ اور اہم ترین ستون مان لیا گیا۔ بھائی جلیل اور ان کے کتے کی یہ عزت بہت سارے لوگوں کو برداشت نہیں ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنے کتے پالنے کی کوشش بھی کی مگر بھائی جلیل کے کتے کے آگے کسی کی ایک نہ چلی۔ کچھ بھوکے مر گئے اور باقی کو گائوں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

بھائی جلیل نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیز سیکھ لی تھی کہ چوہدری کوئی بھی ہو مگر گائوں کا اصل مالک مکھیا ہی ہے۔ انہوں نے شروع دن سے ہی مکھیا سے بنا کر رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ زندگی بہت خوبصورت تھی اور اب تو ان کے کتے نے بچے بھی دے دیئے تھے۔ ان کتے کے بچوں کے آنے سے بھائی جلیل مزید خوشحال ہوگئے تھے۔ اب ان کتے کے بچوں کی مختلف ڈیوٹیاں لگا دی گئی تھیں۔ کوئی صبح کی خبریں سناتا تھا تو کوئی شام کی ۔۔۔ کسی کا نام ہفت روزہ رکھ کر اسے ہفتے بھر کا منجن ایک ساتھ بیچنے پر لگادیا گیا تو کسی کو ماہنامہ کہہ کر مہینے بھر کی ساری تکالیف کو دوبارہ یاد دلانے پر لگا دیا۔

بھرپور زندگی گذارنے کے بعد بھائی جلیل کا ایک دن انتقال ہوگیا۔ کتا مگر دن بدن جوان اور طاقتور ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ بھائی جلیل کے بیٹے بھائی کفیل کیلئے کام کر رہا تھا۔ بیٹے باپ کی طرح موسم شناس نہ تھے مگر موقع پرست ضرور تھے۔ کتوں کا کاروبار دن بدن ترقی پذیر تھا جبکہ اس دوران گائوں کے چوہدری سے ہونے والی شدید لڑائی میں ایک آدھ بار کتے کے گائوں میں داخلے پر پابندی بھی لگی مگر کتا ہر مشکل سے مزید طاقتور ہوکر نکلتا گیا۔ چوہدری اور مکھیا کے کھیل میں ایک بار پھر مکھیا جیتا اور اس بار کتے کو خبریں جدید طریقے سے پہنچانے کا لائسنس بھی مل گیا۔ اب کتے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔ اب گائوں میں 19 یا بیس کتے آچکے تھے مگر کوئی کتا بھی بھائی کفیل کے کتے کے مقابلے کا نہیں تھا۔ اِدھر گائوں کے کتوں نے بھی یہ بات سمجھ لی تھی کہ اگر گائوں میں عزت سے رہنا ہے تو اس سب سے بڑے کتے سے بنا کر رکھنی ہے۔ ادھر یہ سب سے بڑا کتا بھی جب دل کرتا کسی چھوٹے کتے کو پکڑ کر رگید دیتا اور بھنبھوڑنے کے دوران بڑے لاڈ سے اسے کہتا کہ "دے پپی" اور وہ غریب اپنی گد بنواتے ہوئے مجبوراٗ گردن موڑ کر بھائی کفیل کے کتے کو پپی بھی عنایت کرتا۔ بھائی کفیل

کا کتا اب ان گلی کے چھوٹے چھوٹے کتوں سے تنگ آچکا تھا۔ اسے اب وہ بورنگ لگتے تھے۔ اس بوریت سے تنگ آکر اور کچھ شرارت میں ایک دن بھائی کفیل کے کتے نے پلٹ کر مکھیا کے بیٹے کو کاٹ لیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ بھائی کفیل کو جب پتہ چلا تو اپنے لاڈلے کی اس معصوم شرارت پر خوب ہنسے۔ وہ سمجھے تھے کہ ہر بار کی طرح مکھیا ان کی بات نہیں ٹالے گا اور ان کے لاڈلے سے درگزر کرے گا مگر وہ بھول بیٹھے تھے کے اس بار بات مکھیا کے اپنے بیٹے کی تھی۔ مکھیا نے گائوں کے باقی تمام کتوں کو جمع کیا اور اس شام سے ہی سارے کتے بھائی کفیل کے گھر کے باہر جمع ہوئے اور بھونکنا شروع ہوگئے۔ شور سن کر بھائی کفیل کا کتا بھی باہر نکلا مگر تمام کتوں کو دیکھ کر جھٹ سے گھر کے اندر واپس گھس آیا۔ آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ تمام کتے کسی بات پر اکٹھے تھے اور وہ سارے آج اس سب سے بڑے کتے سے انتقام لینے کیلئے بےچین تھے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بھائی کفیل کا کتا گھر سے بیٹھ کر بھونک رہا تھا اور باقی تمام کتے گائوں کے گھر گھر جاکر اس کے بارے میں بھونک رہے تھے۔ بھائی کفیل کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گائوں کے تمام کتوں کو ہوا کیا ہے۔ ادھر مکھیا نے بھائی رزاق کو بلایا اور ان سے وعدہ کرلیا کہ وہ اگر اپنے کتے کے ذریعے بھائی کفیل کے کتے کو مروادے تو گائوں بھر سے جتنا گوشت بھائی کفیل کے گھر جاتا ہے وہ ان باقی کتا مالکان میں تقسیم ہوجائے گا۔ بھائی رزاق نے تمام کتا مالکان کو جمع کیا اور ایک سنگل پوائنٹ ایجنڈا منظور ہوا جسے "مشن کدو کٹے گا تو سب میں بٹے گا" کا نام دے دیا گیا۔

گائوں کے تمام کتے مل کر بھونک ہی رہے تھے مگر بھائی کفیل کا کتا اتنا پرانا اور مضبوط تھا کہ وہ برابر سے ان تمام کتوں کا مقابلہ کر رہا تھا۔ پچھلے بیس بائیس دن سے یہ محاصرہ اور مقابلہ جاری تھا اور اب گائوں والے بھی اس لڑائی سے بور ہو کر اس کے منطقی انجام کے منتظر تھے۔ ایک دن صبح صبح بھائی رزاق کے کتے نے عجیب منظر دیکھا کہ بھائی کفیل کا کتا مولوی صاحب کے گذرتے وقت بھونک رہا ہے۔ گائوں میں سے کسی نے اس بات کا نوٹس تک نہیں لیا کیوںکہ وہ سب ویسے ہی اپنے معمولات میں مگن اور مکھیا کی مہم کے بعد بھائی کفیل کے کتے سے ناراض تھے۔ بھائی رزاق کے کتے نے سب گائوں والوں کو جمع کیا اور مولوی صاحب پر دوبارہ بھونک بھونک کر لوگوں کو بتایا کہ بھائی کفیل کے کتے نے کس طرح ان پر بھونکنے کی گستاخی کی ہے۔ چونکہ مکھیا کا دست شفقت اب بھائی رزاق کے کتے پر تھا تو تمام گائوں والوں کو نہ صرف اس توہین کا یقین آگیا بلکہ انہیں یہ شعور بھی آگیا کہ بھائی رزاق کا کتا یہ حرکت صرف انہیں بتانے کیلئے کر رہا ہے اور اس کے اس طرح بھونکار دہرانے کے پیچھے مقصد صرف عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔

بھائی کفیل کے کتے کو مکھیا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اسے یہ سزا سنائی گئی کہ صرف یہ والا کتا ناپاک جانور ہے لہٰذا اس سے ملنا، دیکھنا، سننا سب  حرام  ہے اور سزا کے طور پر جب تک مکھیا کو یقین نہ ہوجائے کہ یہ کتا سدھر گیا ہے اسے باقی کتوں کے آگے ڈال دیا جائے کہ وہ جو چاہے مناسب سلوک کریں۔ یہ فیصلہ آنا تھا کہ تمام کتے "کدو کٹے گا تو سب میں بٹے گا" کا نعرہ لگا کر اس بڑے کتے پر پل پڑے۔ تمام کتے اپنی اپنی اوقات کے مطابق اسے بھنبھوڑنے میں مصروف تھے کہ بھائی رزاق کے کتے نے لاڈ سے صدا لگائی ۔۔۔۔ پپی دے نا ۔۔۔۔ بھائی کفیل کا کتا سر جھکا کر بولا ۔۔۔۔

گردن مڑ رہی ہوتی تو تیری ۔۔۔۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت