Urdu Satire لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Urdu Satire لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 23 اپریل، 2017

3 - مریض

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔

میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ لوگوں کی طرح ہنستا، گاتا، مسکراتا، اور زندگی سے بھرپور لطف کشید کرتا تھا۔ میری لکھی گئی نظمیں اور کہانیاں زبان زد عام ہوا کرتی تھیں۔ میری تحاریر زندگی سے بھرپور ہوتی تھیں۔ میرا کام مسکراہٹیں بکھیرنا تھا۔ میں اپنی تحریر سے لوگوں کو گدگداتا تھا۔ زندگی کے آلام میں انہیں تصویرِ زیست کے وہ درخشندہ پہلو دکھاتا تھا جو ان کی زندگی میں زندگی بھر دیتے تھے۔ میری یہ تحاریر لوگوں کو جینا سکھاتی تھیں۔ مسکرانا سکھاتی تھیں۔ احساس جگاتی تھیں۔ میں اپنے وقت کا ایک کامیاب مصنف و شاعر تھا۔ پھر ایک دن میری خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اور مجھے احساس نامی جان لیوا بیماری لاحق ہوگئی۔

ہوا کچھ یوں کہ میری تحریر اور اس تحریر میں موجود ظرافت کو دیکھتے ہوئے ایک ٹیلیویژن ڈرامہ بنانے والے ادارے نے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے لیئے مزاح لکھوں۔ شاید ایک فن کار کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اس کے وجود کا ادراک، اس کے کام کی افادیت تسلیم کیا جانا ہوتا ہے۔ ڈرامہ لکھنے کی یہ درخواست میرے لیئے ایک بڑے اعزاز کی بات تھی سو میں نے فوراٗ اس کام کیلئے ہامی بھر لی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ڈرامہ لکھنا میری زندگی میں وہ تبدیلی لائے گا جس کے بعد، میں لوگوں کو ہنسانا تو درکنار، خود بھی ہنسنا بھول جائوں گا۔

میں جب مزاح لکھنے بیٹھا تو مجھے احساس ہوا کہ قلم مجھ سے روٹھ چکا ہے۔ میں ہزار کوشش کے باجود بھی لکھ نہیں پارہا۔ میں، سید عاطف علی، وہ انسان جو یہ دعویٰ رکھتا تھا کہ الفاظ اس کی باندی ہیں، تہی دامن کھڑا تھا۔ لفظ مجھ سے روٹھ چکے تھے۔ میں نے لاکھ چاہا کہ زبردستی قلم کو گھسیٹوں اور کچھ لکھ ڈالوں، مگر قلم نے میری ایک نہ سنی۔ میں نے اس کی بارہا خوشامد کی کہ مجھے اس طرح اکیلا نہ چھوڑے مگر قلم کا ایک ہی جواب تھا، مٰیں تمہارے لیئے کام نہیں کر سکتا، تم بےحس ہو۔

میرے لیئے یہ بےحسی کی گالی بہت تکلیف دہ تھی۔ میں نے اپنے تئیں اس بے حسی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا شروع کردی۔ اس ہی کوشش میں، میں نے معاشرے پر نظر دوڑائی تو مجھے احساس ہوا کہ میں کس گندگی کے ڈھیر میں جی رہا ہوں!  جس معاشرے اور مثبت پہلوئے زندگی پر میں کہانیاں تراشتا تھا دراصل اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ جس اتحاد و اتفاق کی مثالیں میں دیا کرتا تھا وہ کہیں سیاست کے نام پر اور کہیں مذہب و مسلک کے نام پر چیتھڑوں میں تبدیل ہوچکا تھا۔ جس مثبت خیالی اور عظم و حوصلے کی طرف میں لوگوں کو بلاتا تھا وہ خود میرے اندر عنقا تھا۔ جو معاشرہ رات کے کھانے کے بعد اگلے دن کی بھوک کے تصور سے رات بھر جاگتا ہو اس معاشرے میں مثبت خیالی زندہ رہ بھی کیسے سکتی تھی؟ میں نے محسوس کیا کہ جس زندگی کی تعریف میں میں ہمیشہ رطب اللسان رہا ہوں وہ دراصل کتنی بھیانک ہے۔ جن رشتوں کی تعریف میں میں نے کہانیوں اور افسانوں کے انبار لگا دیئے ہیں وہ دراصل کتنے کھوکھلے ہیں۔ احساس کے دریچے مجھ پر کھلتے گئے اور زیست میرے لئے دشوار تر ہوتی چلی گئی۔ مگر اب یہ اطمینان ضرور تھا کہ قلم سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جڑگیا تھا۔

میں احساس کی دولت سمیٹ کر واپس اپنی لکھنے والی میز پر آگیا۔ قلم نے مسکرا کر میرا استقبال کیا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے شاباش دے رہا ہو۔ میں مسکرایا اور لکھنا شروع ہوگیا۔ مگر لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ قلم میرے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ مزاح لکھوں مگر قرطاس پر صرف خون منتقل ہوتا نظر آرہا تھا۔ معصوم پاکستانیوں کی امیدوں کا گاڑھا سرخ خون۔ میں اس خون کو دیکھ کر لرز اٹھا اور چاہا کہ قلم چھوڑ دوں مگر تب مجھے احساس ہوا کہ میں اب چاہ کر بھی اس خوں ریز قلم سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ مجبوری کی حالت میں ہی سہی مگر میں لکھتا چلا گیا۔ جب دوات خالی ہوتی، میں معاشرے کے اندر کوئی چھپا ہوا گھائو ڈھونڈتا اور قلم کی نوک اس میں گاڑ کر اس میں سے مزید روشنائی حاصل کرلیتا۔ میرے اس فعل سے معاشرے کے وہ گھائو جنہیں قدرت نے کمال مہربانی سے چھپا رکھا تھا، لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ماحول مکدر تر ہوتا چلا گیا مگر میں کیا کرتا؟ میں مجبور تھا کہ اب مجھے اس خون کی لت لگ چکی تھی۔ میری تحاریر پڑھ کر لوگ بلبلاتے تھے، کڑھتے تھے، دھاڑیں مارتے تھے، مگر میں کیا کرتا؟ میں جب تک انہیں تڑپا نہیں لیتا تھا، میں خود تڑپتا رہتا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہوگیا کہ میں اتنے عرصے امید و مثبت خیالی کے نام پر جھک مارتا رہا تھا۔ اس اذیت پسند معاشرے میں میری یہ نوچنے اور کاٹنے کی بیماری ایک نعمت سے کم نہیں تھی۔

اب میں پہلے سے زیادہ کہانیاں لکھتا ہوں اور پہلے سے زیادہ مطمئن زندگی گزارتا ہوں۔ میں کہ جو کسی زمانے میں ایک ٹھیلہ بھی لگا چکا ہوں اب خود کے چھ پیٹرول پمپ رکھتا ہوں۔ ایکڑوں پر محیط میری اراضی ہے۔ سیاسی جماعتیں میری چوکھٹ چومتی ہیں کہ میں ان کے حق میں کالم لکھوں۔ تصور تو کیجئے، اگر میں بھی دوسروں کی طرح مثبت خیالی کا پرچار کرتا رہتا تو آج زیادہ سے زیادہ کسی اخبار میں جنرل مینجر بن جاتا؟ جبکہ آج بیسیوں اخبارات کے جنرل مینجر میرا سفارشی رقعہ لینے کیلئے میرے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔

میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل صحیح پہچانا، میں ایک مشہور اخبار کیلئے کالم اور اس ہی ادارے کے ٹیلیویژن چینل کیلئے حالات حاظرہ پر تبصرے کا ایک پروگرام کرتا ہوں۔

مریض - 4

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔

میں بچپن سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی عام لوگوں کی طرح ہنستا، گاتا اور مسکرا تا تھا۔ پھر میری اس معصومیت بھری پر کیف زندگی کو شاید  کسی کی نظر لگ گئی اور میں لڑکپن سے نکل کر مردانگی کی عمر کو پہنچ گیا۔ اب مجھے اٹھتے بیٹھتے خواتین کا خیال ستانے لگا۔ میں جہاں جاتا تھا میری خواہش ہوتی کہ میرے ارد گرد خواتین کی ایک بھیڑ ہو جن کی گفتگو اور زندگی کا محور صرف میری ذات ہو۔ میں جہاں کسی عورت کو دیکھتا اس سے بلا وجہ بات شروع کرنے کی کوشش میں لگ جاتا۔ گھر، محلہ، سوشل میڈیا ، ہر جگہ میری زندگی کا مقصد صرف خواتین کا قرب ہوتا تھا۔  میرے دوست احباب مجھے ٹھرکی بلاتے تھے ، میرے منہ پر مجھ پہ ہنستے تھے،  بہت سی خواتین مجھے دیکھ کر ادھر ادھر ہوجاتی تھیں، مگر مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

میں اپنی اس ٹھرک زدہ زندگی میں مگن تھا اور اپنی اس بیماری پر راضی تھا۔ میرے محلے دار البتہ میری اس صورتحال پر شدید پریشان تھے۔ محلے کی خواتین اللہ سے اتنا نہیں ڈرتی تھیں جتنا لال بیگ، چھپکلی اور مجھ سے ڈرتی تھیں۔ میری حرکات سے تنگ آ کر  محلے کی خواتین نے فیس بک کے کسی گروپ میں میری اس بیماری کا ذکر کیا اور  پھر وہاں سے ایک مشہور ڈاکٹر کا پتہ نکالا گیا جو نفسیاتی عوارض کے علاج کیلئے مشہور تھے۔  چونکہ علاج کی فکر بھی مجھ سے زیادہ  محلے داروں کو تھی لہٰذا علاج کا خرچ بھی ان کے ذمے رہا اور مجھے ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہنچا دیا گیا۔

جب میں کلینک میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب  پہلے ہی کسی مریض کے ساتھ موجود تھے اور ان کی آواز باہر تک آرہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اس مریض کو سمجھا رہے تھے کہ مرد دنیا کی مظلوم ترین اور شریف ترین مخلوق ہے۔ شریف ترین اس لیئے کہ اگر عورت ایک دفعہ کہہ دے کہ اس کے بچے کا باپ وہ ہے تو مرد بالعموم بغیر کسی ڈی این اے ٹیسٹ کے اس کی بات کو سچ مان لیتا ہے اورپھر  ساری عمر اس بچے کے اخراجات ہنسی خوشی محض اس لیئے برداشت کرتا ہے کیونکہ اس کی عورت نے ایک بار کہہ دیا ہوتا ہے کہ وہ  بچہ اس کا ہے۔ بعض خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بچوں کی شکلیں ان سے ملتی ہوئی ہوتی ہیں جس سے دل کو تسلی رہتی ہے وگرنہ بصورت دیگر بھی مرد سوال کرنے کا مجاز نہیں۔ اب اس سے زیادہ اور کیا شرافت ہو سکتی ہے کہ محض کسی شخص کے کہنے پر آپ ایک بچے کو اپنا مان لیں؟ اور جہاں تک مظلومیت کا سوال ہے تو مظلوم اس لیئے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اسے سکھا دیا جاتا ہے کہ مرد روتے نہیں ہیں۔

یہ بیچارہ اپنے تمام دکھ اپنی ذات میں سمیٹے  اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے۔  یہ چاہے بھی تو کسی سے اپنا غم نہیں کہہ سکتا کہ بچپن کے خوف ساری عمر انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

 مرد کی انا بہت بڑی ہوتی ہے۔  یہ ساری عمر اپنی انا کا بوجھ اٹھائے پھرتا رہتا ہے اور بسا اوقات اس ہی انا کے بوجھ تلے دب کر مر بھی جاتا ہے۔ اور یہ  انا  اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی دوسرے مرد کے سامنے اپنے دکھ کا اظہار کرسکے، روسکے! کیونکہ رونا تو کمزوری کی علامت ہے اور کمزوری مرد کیلئے وہ گالی ہے جو اس کی انا کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ محض اس گالی سے بچنے کیلئے وہ  صنفِ مخالف کا سہارا لیتا ہے۔

  میں نے صنف ِ نازک کا مروجہ لفظ اس لیئے استعمال نہیں کیا کیونکہ عورت بہت چالاک ہوتی ہے۔ اس نے ازل سے خود کو نازک مشہور کر کےمشقت طلب تمام کام مردوں کے ذمے ڈال دیئے ہیں۔ ایک انسانی جان کو دنیا میں لانے کیلئے جتنی طاقت اور برداشت چاہیئے وہ دو مرد مل کر بھی نہیں لا سکتے ، مگر پھر بھی صنف نازک کہلائے گی عورت ہی۔ ہم خود اپنی بیگمات کو پارلر لیکر جاتے ہیں جہاں وہ پیسے دیکر اپنے  بال نچواتی ہے۔ تصور بھی کرو ں کہ میرےجسم کے بال کوئی ایسے نوچ کے اکھاڑے تو  روح کانپ جاتی ہے ؟ پھر بھی صنف نازک کون ہے؟ عورت!

تھوڑی دیر تک کمرے میں خاموشی رہی اور پھر لائٹر کے جلنے کی آواز آئی۔ ڈاکٹر صاحب شاید جذباتی ہوگئی تھے اور اس جذباتی ہیجان کو سنبھالنے کیلئے تمباکو کا سہارا لے رہے تھے۔ میں ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھا تھا اور منتظر تھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی گفتگو دوبارہ شروع کریں۔ خاموشی تھوڑی دیر اور رہی پھر ڈاکٹر صاحب کی آواز دوبارہ ابھری۔ وہ کہہ رہے تھے کہ،  تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مرد اپنی خود ساختہ انا کو بچاتے ہوئے اپنا غبار نکالنے  کیلئے اپنے دکھڑے صنفِ مخالف کو سنانا چاہتا ہے اور اس چیز کیلئے وہ عورت کے قر ب کا متلاشی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ عورت کے قرب کی خواہش صرف اس ہی وجہ سے ہے۔ جسمانی و فطری تقاضے اپنی جگہ بالکل ویسے ہی موجود ہیں جیسے اول دن سے تھے۔ افزائش نسل ہر جانور کی فطرت ہے۔ اگر یہ چیز فطری نہ ہوتی تو میں اور آپ وجود ہی نہ رکھتے۔ تو وہ چیز بھی ہے اور بالکل ہے، مگر قرب کی خواہش کو صرف  افزائش نسل تک محدود کردینا بھی محض سطحیت اور حماقت ہے۔

ڈاکٹر صاحب! عورت کے قرب کی وجہ تو چلیں سمجھ میں آگئی ، مگر  وہ تو شادی  شدہ ہے؟ اس کے پاس ایک عورت موجود ہے جو اس کی فطری و نفسیاتی و  ۔۔۔۔  الغرض تمام ضروریات کو پورا کر سکتی ہے! مگر پھر بھی وہ خواتین کی طرف کیوں کھنچتا چلا جاتا ہے؟  کمرے میں سے ایک دوسری آواز ابھری ۔

ڈاکٹر صاحب کی جب آواز آئی تو مجھے لگا کہ وہ مسکرا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ  بھوک ، پیاس اور دوسری بنیادی ضروریاتِ زندگی کی طرح یہ چیز  بھی عین فطری ہے۔ آپ کسی بھی جانور کو اگر دیکھتے ہیں تو وہ صرف ایک مادہ تک محدود نہیں ہوتا۔ ہاں مگر اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم بحیثیت انسان کس جگہ پر کھڑے ہیں۔ پیاس لگنا ایک فطری عمل ہے اور پانی اس پیاس کی تسکین کیلئے ہے۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جوہڑ میں سے بھی پانی پی کر تسکین پا جاتا ہے اور ایک شخص جب تک ایک مخصوص درجہ حرارت اور مخصوص نفاست کے ساتھ پیش کیا گیا پانی نہ پیئے اسے تسکین نہیں ملتی۔ پیاس دونوں کی یکساں ہے، مگر ذاتی نفاست یہ طے کرے گی کہ تسکین کس درجے پر جاکر ملنی ہے۔ تو  اس سوال کا جواب بھی میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ اس کا  درجۃ نفاست خود طے کریں کیونکہ وہ کہنے کی حد تک ہی سہی، مگر انسان ہےجبکہ جگہ جگہ منہ کتا مارا کرتا ہے۔

سوچ میں ڈوبی ہوئی دوسری آواز ابھری، مگر ڈاکٹر صاحب وہ کہتا ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنے آپ کو خواتین کے قریب جانے سے نہیں روک پاتا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا  ہے کہ اپنی بیوی تک محدود رہے مگر شادی کے دس سال بعد ہم دونوں تقریباٗ بہن بھائی بن چکے ہیں۔ اسے تو اب یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ انجانے میں اگر اس کا ہاتھ کسی عورت کوچھو جائے اور جذبات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی یعنی میں ہوں ۔ آپ خود بتائیں میں کیا کروں؟

 ڈاکٹر صاحب اب کی مرتبہ جب بولے تو ان کی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ، ہم ایک جنس زدہ معاشرے میں رہتے ہیں۔  اسلامی اقدار کے نام پر ہم نے عورت کو تو پردے میں بٹھا دیا مگر اس ہی اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے پر نکاح کو آسان کرنا بھول گئے۔  اب صورتحال یہ ہے کہ مرد اپنی فطرت کے مطابق  ساتھی کا متلاشی ہے اور ساتھی  بہت ساری وجوہات کی بنا  پر  گھر میں بند ہے۔طلب اور رسد کے اس بنیادی فرق کی وجہ سے معاشرہ اس حد تک گھٹن میں ہے کہ عورت کی ایک جھلک ، مرد کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کو کافی ہوچکی ہے۔ مرد  اپنی گھٹن نکالنا چاہتا ہے مگر نکال نہیں پا رہا ہے۔ یہاں تک پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کی آواز بھرا گئی ۔ میں نے کان لگا کر سنا، ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے، ایسے میں اگر کوئی خوبصورت خاتون  آپ کے سامنے موجود ہو، جو حسن کے ساتھ شعور کے بھی اتنے بلند درجے پر ہو اور پھر بھی اپنے ٹھرکی شوہر کی حرکات سے تنگ ہو ، تو آپ اسے کیا مشورہ دے سکتے ہیں؟  میں تو یہی کہوں گا کہ وہ انسان آپ کے لائق ہے ہی نہیں۔  مگر آپ دل چھوٹا نہ کریں! خدا کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ آپ آج شام کو کیا کر رہی ہیں؟

میں ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے اٹھا اور باہر آگیا۔ مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میری بیماری ناقابل علاج ہے، یا کم سے کم اس عطار کے لونڈے کے پاس میر کی بیماری کا علاج ممکن نہیں۔

میرا نام  عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل ٹھیک پہچانا، میں وہی مریض ہوں جو سگنل پر رکے ہوئے ہر رکشے کے اندر جھانک کر اپنی کسی کھوئی ہوئی بہن کو تلاش کر رہا ہوتا ہے۔

نوٹ: لاکھوں سال پرانی مردانہ ٹھرک کا علاج اگر آپ  تین صفحات کے کسی بلاگ میں ڈھونڈ رہے تھے تو ٹھرک سے پہلے آپ کو دماغ کا علاج کروانا چاہیئے۔ شکریہ

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

کراچی نامہ

پیارے بچوں! تفریق کے جس سفر پر ہم لوگ مسلسل گامزن ہیں اس کے لازمی نتیجے میں ایک دن مطالعہ پاکستان ایک اختیاری مضمون ہوجائے گا جبکہ مطالعۃِ صوبہ اور پھر مطالعہ شہر لازمی قرار دیئے جائیں گے۔ مستقبل کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے ابھی سے مطالعہ کراچی پر یہ مضمون لکھ مارا ہے۔ اگر حالات اس ہی نہج پر چلتے رہے تو بہت جلد ہم مطالعہ کلفٹن، مطالعہ ناظم آباد اور مطالعہ گلشن و جوہر بھی آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے۔ فی الحال مطالعہ کراچی پڑھیئے اور پڑھنے کے بعد جو ملے اس کا سر دھنیئے۔


 تاریخ:


ویسے تو کراچی ہمیشہ سے تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو ایک دن صرف تاریخ ہی کا حصہ رہ جائے گا مگر مطبوعہ تاریخ میں کراچی کا سب سے پہلے بیان سکندر اعظم کے حوالے سے آتا ہے جو ایک عظیم یونانی بادشاہ تھے اور کسی بھی عظیم بادشاہ کی طرح بلا کے لڑاکے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ آپ احباب کی سہولت کیلئے ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ یہ بیان ان ہی سکندرِ اعظم کا ہے جنہیں اردو میں الیگزینڈر دا گریٹ کہتے ہیں۔ نیز آپ لوگوں کی سہولت کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے آئندہ اگر کوئی آپ سے نئی نسل کے تشدد پسند ہونے کا شکوہ کرے تو انہیں یاد دلادیجئے گا کہ تاریخ انسانی کے کم و بیش تمام بڑے انسان وہی تھے جو نہایت غصیلے اور جنگجو واقع ہوئے تھے۔ سو اگر نئی نسل بھی اجداد کے نقشِ قدم پر چل کر پچیس تیس ہزار انسانی جانیں لیکر تاریخ کے صفحات میں امر ہونا چاہتی ہے تو اس میں قصور ان بیچاروں کا نہیں بلکہ تاریخ دانوں کا ہے۔ مگر خیر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور فلسفے کی گفتگو محض چائے کے ہوٹل یا محلے کے چوباروں پر اچھی لگتی ہے۔ مصنفین کو فلسفے جیسی مکروہات، کتب میں نقل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سکندر اعظم کے موضوع پر واپس آتے ہوئے ہم نہایت خوشی سے یہ بیان کرنا چاہیں گے کہ کراچی میں موجود منوڑہ کا جزیرہ ہزاروں سال پہلے سکندر اعظم کی میزبانی کا شرف بھی اٹھا چکا ہے۔ مگر اس زمانے میں چونکہ یہ شہر بلوچ آبادی کی اکثریت رکھتا تھا لہٰذا سکندر اعظم نے یہاں زیادہ عرصہ قیام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر کو اس وقت بھی یہاں سندھی آبادی ہوتی تو بیچارہ گھوڑوں اور خچروں کا سواری کے علاوہ بھی ایک اور استعمال سیکھ جاتا جس سے اس کے لشکر میں پھوٹ نہ پڑتی کہ سپاہیوں کو گھر کی اس حد تک یاد نہ ستاتی۔ مگر خیر، ہونی شدنی! سکندر اعظم نے منوڑہ سے کوچ کیا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے اور کھیوڑہ میں نمک کی کان دریافت کرنے کے بعد بابل چلے گئے اور مرکھپ گئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ سکندر نے صرف نمک دریافت کیا تھا، اس نمک میں آئیوڈین ہم نے خود دریافت کیا ہے لہٰذا کھیوڑہ کی آئیوڈین ملے نمک کی کانیں اب پاکستانی قوم کی دریافت کہلانی چاہیئیں۔


بعض مورخین جو کراچی کے بچپن سے ہی ملٹی نیشنل ہونے سے جلتے آئے ہیں اور اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، نے یہ بھی لکھا ہے یہ شہر مائی کولاچی نے آباد کیا تھا جن کا تعلق پڑوسی ملک، معذرت، صوبے بلوچستان کے شہر مکران سے تھا۔ یہ بات مگر بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کراچی جیسے اردو دان شہر میں بھی کبھی چی ڑے کی صدائیں بلند ہوا کرتی ہوں گی۔ مگر بعض مورخین مائی کولاچی والے واقعے کی توجیح اس بات سے بھی پیش کرتے ہیں کہ اردو زبان میں پکوڑے کا لفظ بھی ان ہی بلوچوں سے مستعار لیا گیا تھا جو بیسن کو تل کر کھاتے تھے اور جب اسے تلنے میں دیر لگتی تو پکو ڑے پکو ڑے کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے اطمینان کیلئے یہ بات بہت ہے کہ مکران سے ہی سہی، مگر مائی کولاچی ہجرت کرکے اس شہر میں آئی تھیں اور اس حساب سے اس شہر کی بنیاد ایک مہاجر نے ہی رکھی تھی۔


تاریخ میں کراچی مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے جن میں سب سے مشہور، مغل راج، برٹش راج، پاکستانی حکومت اور پھر اس کے بعد باپ کا راج اور چوپٹ راج وغیرہ شامل رہے ہیں۔ آج کل کراچی باقی پاکستان کی طرح چوپٹ راج اور باپ کے راج والے دور سے گزر رہا ہے۔ اگر یہ مضمون آپ اردو رسم الخط میں بذات خود پڑھ رہے ہیں تو اس بارے میں مزید بیان کرنا صرف آپ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا جبکہ اگر یہ مضمون آپ اپنے کسی بوڑھے ملازم سے پڑھوا کر سن رہے ہیں تو تسلی رکھیئے اور باپ کے راج اور چوپٹ راج کے فیوض و برکات دونو ہاتھوں سے سمیٹتے رہیئے۔


جغرافیہ:


کراچی کے مغرب میں سمندر، شمال میں پہاڑیاں (کٹی اور ثابت دونوں)، جنوب میں بے تحاشہ آبادی، اور مشرق میں بحریہ ٹائون واقع ہے۔ کراچی بنیادی طور پر ایک میدانی علاقہ ہے اور اس شہر کی زمین اور خواتین دونوں ساخت کے حساب سے ہموار واقع ہوئی ہیں۔ کراچی کے ساتھ بحیرہ عرب کا ایک وسیع ساحل موجود ہے جو شادی زدہ جوڑوں کی سہولت کیلئے رکھا گیا ہے۔ کراچی کی نوے فیصد آبادی شادی کے فوراٗ بعد رومان کو بڑھانے، جبکہ شادی کے دوسرے سال کے بعد ہر سال شریک حیات کو ڈبونے کی کوشش کرنے کیلئے ان ہی ساحلوں کا رخ کرتی ہے۔


موسم:


کراچی ایک کاسموپولیٹن اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہاں کی عوام کسی بھی قسم کی لوکل چیز پسند نہیں کرتی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بائیس ملین کی آبادی کے اس شہر پر حکومت کرنے کیلئے وہ شخص امپورٹ کیا جاتا ہے جسے کراچی کے باہر کے بیس ملین رائے دہندگان نے چنا ہوتا ہے۔ امپورٹد چیزوں سے یہ محبت صرف کارِ سرکار تک محدود نہیں اور ہر ضرورتِ زندگی کی طرح کراچی میں موسم بھی دوسرے شہروں سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ کراچی کے موسم کے بارے میں مزید معلومات کیلئے وکی پیڈیا پر جاکر کوئٹہ کے موسم کے بارے میں پڑھ لیجئے۔


معیشت:


کراچی خطے کا سب سے بڑا معاشی حب ہے۔ مملکتِ پاکستان کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ستر وہ محاورے والا مبالغہ آمیز ستر نہیں ہے بلکہ قرار واقعی ملک کا ستر فی صد ریونیو اس ہی شہر سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ستر فی صد کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر چوہدری اینڈ سنز جن کے کھیت کھلیان سے لیکر گھربار تک ملک کے دوسرے حصوں میں واقع ہیں وہ بھی اپنا سیلز آفس کراچی میں ہی کھولتے اور اہلیانِ کراچی کے خبط عظمت میں اضافہ کرتے ہیں کہ ملک کا ستر فی صد ریونیو وہ پیدا کرتے ہیں۔


ایسا نہیں کہ کراچی میں کوئی چیز تیار نہیں ہوتی۔ کراچی میں تیار ہونے والی اشیاء میں سب سے مشہور چیز سلیم کا گٹکا ہے جو اگر برآمدگی کی اجازت پا جائے تو اکیلا ہی اربوں ڈالرز زرِمبادلہ کا باعث بنے۔ معیشت کے باب میں آخری بیان یہ کہ کراچی میں ہر دوسرا شخص پان بناتا ہے۔ اس پان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کیلئے دکان کا ہونا ضروری نہیں، اکثر پان فروش بغیر دکان اور بغیر پان کے بھی آپ کو چونا لگا جائیں گے۔


زبان/اقوام:


کراچی ایک کثیر قومی شہر ہے جس میں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی، ہزارہ، دہلوی، بہاری، لکھنوی، امروہوی، حیدرآبادی، ملیح آبادی، بدایونی، میرٹھی اور چند دیگر اقوام آباد ہیں۔ رابطے کی سب سے بڑی زبان اردو سے ملتی جلتی ہے جو پورے شہر (علاوہ افغان بستی جہاں صرف عربی اور پشتو بولی جاتی ہے) میں سمجھی جاتی ہے۔


مشہور مقامات:


کراچی شہر کے سب سے مشہور مقامات میں، پرفیوم چوک، جناح گرائونڈ، نشتر پارک اور باغِ جناح واقع ہیں۔ کسی زمانے میں قائد اعظم کا مزار اور پاکستان میوزیم بھی مشہور مقامات ہوا کرتے تھے مگر حالیہ برسوں میں یہ صرف غیر شادی شدہ جوڑوں اور حسرت کے مارے بوڑھوں میں ہی مشہور رہ گئے ہیں۔


تفریحی مقامات:


کراچی میں ہر مقام تفریحی مقام سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جگہ کھڑے ہوجائیں اور کسی انسان کو لٹتے ہوئے دیکھ کر جی بھر کر محظوظ ہوں، کوئی برا نہیں مانے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس دن آپ کی لٹنے کی باری ہو اس دن باقی اہلیانِ شہر بھی آپ سے اس ہی وسعتِ قلبی کی امید رکھیں گے۔


شہرِ قائد:


عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، سٹی بائے دا سی، یہ سارے وہ القابات ہیں جو اس عظیم شہر کو حاصل ہیں۔ مگر ایک خطاب ایسا بھی ہے جو ان تمام خطابات پر بھاری ہے، شہرِ قائد۔ گو اب یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس شہرِ قائد میں قائد سے مراد کون ہے۔ جی ہاں! اصل قائد وہی ہیں، باقی باتیں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مشہور کی گئی ہیں۔


پیارے بچوں! مجھے یقین ہے کہ اس مختصر کلام سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی ہوگی مگر یاد رکھیئے کہ اس مضمون کو لکھنے کے مجھے کوئی پیسے نہیں ملتے لہٰذا تھوڑے کو غنیمت جانیں بلکہ احسان مانیں! فرصت کے ساتھ اس مضمون کا اگلا حصہ پھر کبھی لکھا جائے گا جس میں کراچی کے دیگر پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ تب تک کیلئے اجازت۔

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

19 - زبان دراز کی ڈائری

پیاری ڈائری!


زندگی عجیب مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔ میرے دفتر کے احباب صحیح کہتے تھے کہ یہ مطالعے کی عادت ہی مجھے مروائے گی۔ پچھلے چار دن سے چھپتا پھر رہا ہوں کہ اگر کسی کو میرے محل وقوع کا پتہ چل گیا تو بڑی عید سے پہلے ہی میری بوٹیاں کردی جائیں گی۔


معاملہ بظاہر اتنا بڑا تھا نہیں جتنا اب بن چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم نے بدقسمتی سے کہیں حضرت عبداللہ بن مبارک کے حج کی داستان پڑھ لی تھی جس کے مطابق حضرت عبداللہ ابن مبارک ایک دن حرم کعبہ میں سو رہے تھے کہ خواب میں دو فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا۔ حرم میں پہنچ کر وہ دونوں فرشتے آپس میں بات چیت کرنے لگے۔ پہلے فرشتے نے دوسرے سے پوچھا کہ اس سال کتنے لوگ حج کرنے آئے تھے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ کم و بیش چھ لاکھ ۔ پہلے نے پھر پوچھا، ان میں سے کتنے افراد کا حج مقبول ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا، مجھے نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حج قبول ہونے والا تھا۔


فرشوں کی یہ گفتگو سن کر عبداللہ ابن مبارک سوچ میں پڑگئے کہ اے اللہ! حج تو اس سال میں نے بھی کیا تھا۔ میرے علاوہ اور بھی نجانے کتنے لوگ تھے جو کتنے پہاڑ اور سمندر اور موسم کی سختیاں و دیگر مصائب عبور کرکے  تیری رضا اور تیرے گھر کی زیارت کیلئے حج کرنے آئے تھے۔ مالک! تو کبھی کسی کی محنت کو اس طرح رائگاں نہیں کرتا۔ کیا واقعی ہم تمام لوگ نامراد ٹھہرائے جائیں گے؟


عبداللہ ابن مبارک ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ پہلے فرشتے کی آواز دوبارہ ابھری جو دوسرے فرشتے سے کہہ رہا تھا کہ دمشق شہر میں علی بن المَفِق نامی ایک موچی رہتا ہے۔ وہ اس سال حج پر تو نہیں آسکا مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کی حج کی نیت قبول کرلی ہے بلکہ اس کی نیت کے صدقے ان تمام چھ لاکھ حجاج کی عبادت کو بھی منظور کرلیا ہے۔ عبداللہ ابن مبارک کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے صبح ہوتے ہی دمشق کا قصد کیا کہ جاکر خدا کی اس برگزیدہ ہستی سے ملیں جس کی صرف نیت میں اتنا خلوص تھا کہ وہ چھ لاکھ افراد کے عمل کو مقبول کرواگئی۔


عبداللہ ابن مبارک دمشق پہنچے اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے علی بن المفِق کے گھر پہنچ گئے۔ عبداللہ ابن مبارک اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالم اور مشہور فقیہہ تھے۔ علی بن مفق آپ کا نام سنتے ہی حیران ہوگیا کہ وقت کا اتنا بڑا فقیہہ میرے دروازے پر کیا کررہا ہے؟ آپ نے اسے تسلی دی اور اس سے پوچھا کہ کیا آپ حج پر جانے کی نیت رکھتے تھے؟ علی بن مفِق نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ وہ پچھلے تیس سال سے اپنی محنت کی حلال کمائی سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر حج پر جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس سال اس کے پاس اتنا اسباب جمع ہوگیا تھا کہ وہ حج پر جاسکے مگر چونکہ خدا کو منظور نہیں تھا سو میں چاہ کر بھی اپنی نیت کو عملی جامہ نہیں پہنا پایا۔


عبداللہ ابن مبارک نے اس کی باتوں سے اس کی دل کی سچائی بھانپ لی تھی مگر اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس موچی میں ایسی کیا بات تھی جس کی بنیاد پر اس سال کے تمام حجاج کا حج محض اس کی وجہ سے قبول ہوا؟
عبداللہ ابن مبارک نے علی بن مفق سے سوال کیا کہ وہ حج پر کیوں نہ جا سکا؟ علی بن مفق اپنے جانے کی وجہ نہیں بیان کرنا چاہتا تھا۔ اس نے عبداللہ ابن مبارک کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی اور کہا، چونکہ مرضی خدا نہیں تھی۔ عبداللہ ابن مبارک اس کا جواب سن کر مسکرائے اور اپنا سوال پھر دہرا دیا۔ عبداللہ ابن مبارک کے  پیہم اصرار پر علی بن مفق نے بتایا کہ حج پر جانے سے پہلے وہ اپنے ایک پڑوسی سے ملنے اس کے گھر گیا تو اس کے گھر دسترخوان بچھا ہوا تھا اور تمام گھر والے کھانے کیلئے بیٹھے تھے۔ علی بن مفق نے سوچا کہ آدابِ میزبانی کے تحت وہ پڑوسی انہیں کھانے کی دعوت دے گا مگر اس شخص نے علی بن مفق کو دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعدوہ گویا ہوا کہ اے علی میں آپ کو کھانے پر ضرور دعوت دیتا مگر میں مجبور ہوں۔ پچھلے تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے اور آج جب مجھ سے بچوں کی بھوک دیکھی نہ گئی تو میں کچرے کے ڈھیر میں پڑی ایک گدھے کی لاش سے گوشت لیکر آگیا کہ اپنے بچوں کی بھوک مٹائوں۔ میں تو انتہائی بھوک سے مجبور ہوں لہٰذا یہ مردار گوشت مجھ پر حلال ہے مگر یہ گوشت اور یہ کھانا چونکہ آپ کیلئے حرام ہے لہٰذا میں آپ کو اسے کھانے کی دعوت نہیں دے سکتا۔


علی بن مفق نے کہا کہ یہ سن کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں گھر گیا اور جمع پونجی کے تمام تین ہزار درہم لاکر اس پڑوسی کے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ وہ اس سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرلے۔ میں نے وہ تین ہزار درہم بھوک برداشت کرکے حج کیلئے جمع کیئے تھے مگر مجھے لگا کہ اس بندہ خدا کو اس وقت ان پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ حج کرنے کی میری بےپناہ خواہش آج بھی زندہ اور اگر اللہ کریم نے چاہا تو وہ مجھے ضرور حج پر بلالے گا۔ یہ سن کر عبداللہ ابن مبارک کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے علی بن مفق کو اپنے خواب کا مکمل احوال سنا دیا۔


کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم نے یہ داستان پڑھی تو سوشل میڈیا پر یہ مہم شروع کردی کہ قربانی بالکل ایک فریضہ ہے مگر اسراف فرض نہیں بلکہ حرام ہے۔ خدا نے اگر استطاعت دی ہے تو ضرور قربانی کریں، مگر پچاس بیل اور دو سو بکرے خریدنے کے بجائے اگر ایک بیل یا ایک بکرا اللہ کے راستے میں قربان کرکے فریضہ ادا ہوسکتا ہے تو باقی پیسے ان محتاجوں پر خرچ کردیں جو سفید پوش ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے؟


ہماری یہ مہم ملک بھر میں ہر سطح پر بےحد مقبول ہوئی۔ عوام کی سطح پر اسے بطور اسلامی عبادات پر تنقید کے پذیرائی ملی۔ کاروباری طبقے کی سطح پر اسے بطور پیٹ پر لات اور چمڑے کی صنعت سے دشمنی کے پذیرائی ملی۔ سیاست دانوں کی سطح پر اسے کھال کا مال چھیننے کی ترکیب کے طور پر سراہا گیا۔ اور آخر میں پولیس کی سطح پر اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور دفعہ 295 اور اس کی چند ذیلی دفعات کی خلاف ورزی کے طور پر پہچانا گیا۔  اور ان سب پذیرائیوں کا حاصل حصول یہ نکلا کہ ہم پچھلے چار دن سے چھپتے اور احباب کے ذریعے معافی نامے جمع کراتے پھر رہے ہیں۔


 آج صبح کاشف بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا ان کی نصیحت سن رہا تھا کہ مجھے یہ کام سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ میں نے کاشف بھائی کو سمجھایا کہ میں نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ صرف اسلامی تاریخ کے مشہور فقیہہ کی حکایت بیان کی ہے۔ کاشف بھائی نے رحم آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ، اے احمق انسان! عبداللہ ابن مبارک کے نام میں اصل گن چھپا ہے۔ اگر تیرا نام بھی زبان دراز بن منہ پھٹ قسم کا ہوتا تو آج تیری بیان کردہ حکایت پر تجھے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔


کاشف بھائی کی اس نصیحت کو میں نے گرہ سے باندھ لیا ہے اور کل سے ٹوئیٹر پر "ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کے فضائل" پر درس دے رہا ہوں۔ امید ہے کچھ بہتری کی صورتحال نکل آئے گی۔ تب تک کیلئے اجازت دو۔


والسلام


زبان دراز ابن منہ پھٹ

بلاگ فالوورز

آمدورفت