Jinnah لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Jinnah لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 23 اپریل، 2017

زبان دراز کی ڈائری - 8

پیاری ڈائری!

زندگی میں کبھی یاوہ گوئی کی عادت نہیں رہی اور اب افسوس ہورہا ہے کہ کاش صحیح وقت پر کچھ مناسب گالیاں سیکھ لی ہوتیں تو اس شاعرِ جنوب کو ایک جوابی خط لکھ ڈالتا۔ مگر خیر جو ہوا سو ہوا۔

کل پاکستان سے کسی عاطف صاحب کا محبت نامہ ملا جس میں انہوں نے ملک کے حالات پر معافی مانگنے سے یکسر انکار کردیا تھا اور مُصِر تھے کے صرف شرمندگی سے ہی کام چلایا جائے۔ یقین ہوگیا کہ خط واقعی پاکستان سے ہی آیا ہے کیوںکہ اتنی گھٹیا اردو دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں بولی جاتی۔

خط پڑھ کر بہرحال حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی؛ خوشی اس بات کی کہ آج بھی چند لوگ ہیں جو پر امید ہیں اور حیرت اس بات پر کہ پاکستان میں اب بھی لوگوں کو اردو لکھنی یاد ہے؟ یہاں تو اب جتنے بھی پاکستانی آتے ہیں وہ سب تو رومن میں لکھتے ہیں۔ زبان ہی کے تذکرے پر پرسوں علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ اردو کی بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ امریکہ اسے قومی زبان کے طور پر قبول کرلے۔ خیر علامہ کے فلسفے تو علامہ ہی جانیں۔ مجھے بہرحال خط پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیاقت علی خان نے سمجھایا تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آج کل پاکستانی لیڈران کا سال میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنا فیشن میں ہے۔ خیر جناب، اللہ میاں سے اجازت لی اور ٹہلتے ٹہلتے رات کے کسی پہر کراچی پہنچ گیا۔

مزار سے باہر نکلا تو موٹرسائیکل پر سوار چند لڑکے نما مخلوق زناٹے سے برابر سے گزری۔ اگر سن اڑتالیس میں وقت پر ایمبولینس آگئی ہوتی تو اس بغیر سائلینسر کی موٹر سائکل ریلی کی آوازوں سے سن دو ہزار چودہ میں ضرور کام ہوجاتا۔ دیر تک وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حواس بحال کرتا رہا۔ ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک موٹرسائکل برابر میں آکر رکی اور اس پر سوار دو لڑکوں میں سے ایک نے بندوق نکال کر موبائل مانگ لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اول تو میرے پاس موبائل نہیں ہے کہ جنت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرا یہ کہ موبائل مانگنے کیلئے بندوق نکالنے کی کیا ضرورت؟ اگر آپ نے کسی کو کال ہی کرنی ہے تو مانگنے کے اور بھی عزت دار طریقے ہیں۔۔۔ حد ہوتی ہے!! نوجوان حیرت سے میری شکل دیکھ رہا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، اس کے پیچھے والے لڑکے نے اس کو کہنی مار کر کہا کہ "بڈھا خبطی ہے اور مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ خوامخواہ جان پہچان نکل گئی تو مسئلہ ہوگا، ٹائم کھوٹا نہ کر اور نکل"۔ پہلے والے نے جلدی سے موٹرسائکل کا گیئر ڈالا اور موٹرسائکل اڑا دی۔ عجیب نامعقول سے لڑکے تھے۔ اگر رک کر میری بات سن لیتے تو کیا پتہ ان ہی سے لفٹ مانگ کر آگے چلا جاتا۔

ان لڑکوں سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک خاتون آکر گلے پڑ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں کسی شاہ رخ خان سے ملتا ہوں اور اگر میں چاہوں تو یہیں "بابے کے مزار " کے ساتھ والے کمرے میں ان کے ساتھ جاسکتا ہوں۔ میں نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ یہ صرف پسینے کی وجہ سے میرا چہرا چمک رہا ہے اور ان کے خیال کے برعکس میں ویسا چکنا نہیں ہوں جیسا انہوں نے مجھے پکارا۔ دوسری بات یہ کہ میں اس ہی بابے کے مزار سے نکل کر آرہا ہوں اور یہیں ہوتا ہوں۔ وہ بیچاری پتہ نہیں کیا سمجھی اور کھسیانی ہو کر مجھے چند روپیے دینے کی کوشش کرنے لگی۔ میری تو خود یہ معاجرہ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر میں نے پھر بھی اسے سمجھایا کہ میں اس سے پیسے نہیں لے سکتا۔ وہ یہ کہتی ہوئی تیزی سے ایک طرف چلی گئی کہ بابو پتہ نہیں تھا آپ مینجمنٹ والے ہو آئندہ احتیاط کروں گی۔

ان ہی جھمیلوں میں اب رات کے بارہ بجنے والے تھے اور مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس شہر کو ہوکیا گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک مسلسل عجیب کردار ٹکرا رہے تھے۔ سر جھٹک کر میں نے توجہ مزار پر ڈالی تو میرا مزار برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ تیرہ اگست کی رات تھی اور اب چودہ اگست شروع ہونے ہی والی تھی۔ میں خوشی سے اپنے مزار کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی بھیانک آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ مجھے لگا کہ شاید ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، میں گاندھی کو کوستا ہوا واپس مزار کے اندر بھاگا تو اس مرتبہ گیٹ پر موجود گارڈ نے روک لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باہر اس طرح حملہ ہوگیا ہے اور اب اسے بھی مورچہ بند ہوجانا چاہیے تو اس مریض نے ایک طرف منہ میں بھرے خون کی کلی کری اور قمیض کے دامن سے منہ پونچھتے ہوئے بولا کہ چاچا پہلی بار چودہ اگست دیکھ رہے ہوکیا؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جشن آزادی اور چودہ اگست کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں مگر یہ حیوانوں کی طرح برتائو اور اس طرح اندھادھند فائرنگ سے کونسا جشن اور کون سی ملک کی خدمت کی جارہی ہے؟ جواب میں اس نے وہی خون آلود ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بولا، چاچا، چودہ اگست کو صرف یہ ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ سب درندے بھی آزاد ہوگئے تھے۔ اب جس درندے کے منہ میں اس ملک کے جسم کی جتنی بڑی بوٹی آتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لقمہ نوچ لیتا ہے۔ میں نے پوچھا، کہ کوئی ان درندوں کو روکتا کیوں نہیں؟ اس نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور ایک عجیب سا کتھئی رنگ کا مواد منہ میں رکھتے ہوئے بولا، چاچا، یہ ایک فلمی دنیا ہے۔ یہاں ہیرو ہیروئن بچانے کیلئے غنڈوں کو صرف اس لیئے روکتا ہے تاکہ پکچر کے اختتام پر وہی عزت وہ خود لوٹ سکے۔

اس ساری گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھ میں آنسو آگئے تھے۔ میں نے موضوع تبدیل کرنے کیلئے اس سے پوچھ لیا کہ یہاں تو قائد اعظم دفن ہیں تو یہاں اتنی بندوقوں کے ساتھ پہرے داری کرنے کی کیا ضرورت؟ وہ میرے قریب آیا اور میرے کان میں تقریباٗ پچکاری مارتے ہوئے بولا، چاچا، اگر یہ قائد غلطی سے بھی دوبارہ زندہ ہوگیا تو ملک کے حالات دیکھ کر انگریزوں کو ملک واپس کردے گا اور ساتھ میں معافی بھی مانگے گا۔ ہم بندوق لیکر اس ہی لیئے کھڑے ہیں کہ قائد نکل کر بھاگ نہ جائیں۔ ملک کی عزت کا سوال ہے، بڑی بدنامی ہوجائے گی۔

مجھے اب اس نامعقول انسان پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں نے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو جذباتی مار مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس لوٹ مار اور درندگی کے کھیل کے خلاف تمہارے اندر کس قسم کے جذبات ہیں۔ سچ سچ بتانا، تم اس ملک کو لوٹنے والوں کے ذکر پر آبدیدہ کیوں ہوگئے تھے۔ اس کمینے سپاہی نے روہانسی آواز میں جواب دیا، روئوں نہیں تو کیا کروں؟ سب کھا رہے ہیں، ایک ہمیں ہی موقع نہیں مل رہا بس!!

میں اس مردود لمحے کو کوس ہی رہا تھا جب میں نے نیچے آنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اچانک محل میں زلزلہ آگیا۔ اب جو دیکھا تو خود کو اپنے ہی محل میں بستر پر پایا۔ خوشی سے سجدہ شکر بجا لایا کہ یہ سب صرف خواب تھا۔ حوروں نے آکر بتایا کہ زلزلے کی وجہ کوئی جون ایلیاء نامی صاحب تھے جو دروازے پر لاتیں اور گھونسے برساتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ وہ علی گڑھ کا لونڈا یہیں رہتا ہے؟؟؟

جون صاحب کی ملاقات کا احوال پھر کبھی، فی الحال اجازت دو۔ کراچی سے جاتے جاتے ایک لفظ سیکھ کر آگیا ہوں، آئندہ کبھی کسی شاعر کا خط آیا تو میں بھی جواب میں لکھ بھیجوں گا ۔۔۔۔۔ کدو!!!

محمد علی

بدھ، 25 دسمبر، 2013

قائد کے نام

نوٹ: یہ مضمون سالِ گذشتہ 25 دسمبر پر لکھا گیا تھا مگر ملکی حالات کے پیشِ نظر اسے مناسب ترمیم کے ساتھ دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔

پیارے قائد! مجھے یقین ہے کہ آپ رب تعالٰی کی جنتوں میں کسی بہت بلند مقام پر ہوں گے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی 25 دسمبر کا  شور ہے۔ 14 اگست اور 23 مارچ وغیرہ کی طرح یہ دن بھی ان گنے چنے دنوں میں سے ایک ہے جب یہ قوم کرنسی نوٹوں کےعلاوہ بھی آپ کی تصویر دیکھتی ہے۔ ہر کوئی آپ کے بارے میں بات کرکے آپ سے اپنی انسیت اور عقیدت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک پاکستانی ہوں۔

آج صبح سے ہی ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چل رہا ہے اور ہر شخص آپ سے معذرت کے نام پر آپ کو احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہے کے آپ کا وطن کس حد تک بگڑ چکا ہے اور شاید ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ بھی کہ یہ ملک بنانا آپ کی کتنی بڑی غلطی تھی۔ ٹوئیٹر پر چھوٹی موٹی سیلیبریٹی تو قائد اب میں بھی ہوں۔ ہزار سے زائد فالوورز ہیں (اگر آپ کہیں تو اگلے جمعے آپکے لیئے سپیشل فرائڈے فالو مہم بھی چلوا سکتا ہوں) سو میں نے سوچا کے میں کیوں پیچھے رہوں؟ لہٰذا میرے حصے کا معذرت نامہ بھی حاظر ہے۔



قائد آپ بڑے انسان تھے اور اس بات کے ثبوت کیئے خود پاکستان کا وجود کافی ہے مگر آپکے بڑے ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آج بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ آپ کا تعلق ہمارے مسلک اور تنظیم سے تھا۔ آجکے پاکستان میں اگر گاندھی جی اور کانگریس بھی جلسہ کریں تو بالیقین، سٹیج کے بیک ڈراپ پر انہوں نے بھی آپ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کھچوائی گئی کوئی تصویر ہی لگانی ہے کہ اب آپ سے تعلق ثابت کرنا اس ملک کا نیا فیشن ہے۔ اس ملک میں یہ عزت آپ کے اور علامہ اقبال کے بعد شاید ہی کسی اور کے حصے میں آسکے۔



قائد! میں لکھنے تو بیٹھ گیا ہوں مگر مجھے نہیں معلوم کہ مجھے معافی کس بات کی مانگنی چاہیئے؟ کس بات پر کہوں کہ میں شرمندہ ہوں؟ قائد! مجھے اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ آپ کا پاکستان اب فرقوں اور مسلکوں میں بٹا ہوا ہے کیونکہ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ بیماری صرف چند تنگ نظر اور کم فہم لوگوں تک محدود ہے۔ آپ جانتے ہیں کے آپ کے پاکستان میں کسی سوالی کے سوال پر اس کا مذہب پوچھ کر مدد نہیں کی جاتی۔ آپ جانتے ہیں کے ہر دوسرے سنی کا سب سے قریبی دوست کوئی شیعہ ہے اور کسی شیعہ کا حلقہ احباب اہل سنت بھائی کی موجودگی کے بغیر مکمل نہیں۔ آپ جانتے ہیں کے ہم سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور وقتی رنجشیں توخونی رشتوں میں بھی آ ہی جایا کرتی ہیں۔ ان کا مطلب دشمنی نہیں ہو سکتا!!! ہاں میں شرمندہ ہوں کے میں نے اپنا لیڈر وقتی طور پر ان لوگوں کو چن لیا تھا جن کی دکانیں ہی اس تفرقے سے چلتی ہیں مگر اللہ کے بعد میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کے میں کسی ایسی سازش کا شکار نہیں بنوں گا جو مجھے میرے بھائیوں سے دور کرے۔



قائد! مجھے تکلیف ضرور ہوتی ہے جب ایک اور سیاستدان اس ملک کی بوٹی نوچتا ہے مگر میں شرمندہ نہیں ہوں۔  میں کیونکر شرمندہ ہو سکتا ہوں جب میں دیکھتا ہوں کے میرے ملک کے لوگ اب ان کی اصلیت پہچاننے لگے ہیں۔ قائد آپ نے دیکھا کہ نتیجہ سے قطع نظر یہ لوگ اب صرف گھر میں بیٹھ کر بات کرنے کے بجائے باہر آکر اپنا ووٹ درج کراتے ہیں۔ اندھی تقلید جو کبھی اس قوم کے مزاج ایک حصہ تھی اب دم توڑتی جا رہی ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ عملی انسان تھے اور شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں رکھتے تھے مگر پھر یہ آپ کے دوست جناب علامہ ہی تو کہہ گئے ہیں کہ "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی" ۔۔۔ میں معذرت خواہ ہوں قائد کے مٹی کو نرم ہونے میں تھوڑی دیر لگی مگر قائد، یقین رکھیئے کے مٹی اب نرم ہونا شروع ہو گئی ہے۔



قائد! مجھے افسوس ضرور ہے کے جس فلاحی ریاست کے قیام کے لیئے آپ نے دن رات اور صحت کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذندگی لگا دی وہ سرکاری سطح پر قائم نہ ہو سکی۔ برا لگتا ہے جب سرمایہ دار اور وڈیرہ شاہی اکثریت کو اس ملک کے جمہور غریب عوام پر حکومت کرتا بلکہ شاید روندتا ہوا دیکھتا ہوں۔ مگر قائد مجھے یقین ہے کے آپ جانتے ہیں کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود یہ پاکستانی دنیا بھر میں سب سے زیادہ چیرٹی کرنے والی قوم ہے۔ میرا سینہ فخر سے خودبخود پھول جاتا ہے جب میں ایدھی صاحب، ادیب رضوی، رمضان چھیپا اور ان جیسے بےشمار لوگوں کو بلاتفریق عام انسان کی خدمت کرتے دیکھتا ہوں۔ فلاحی حکومت کا معلوم نہیں مگر فلاحی معاشرہ بننے کے لیئے درکار تمام جزو اس قوم میں موجود ہیں۔



!پیارے قائد! میں شرمندہ تو ہوں مگر نا امید نہیں



اس امید کے ساتھ اجازت کے اگلے سال میں معذرت کے بجائے کسی خوشخبری کے ساتھ حاظر ہوں۔



آپ کا تابعدار



ایک پرعزم پاکستانی 

بلاگ فالوورز

آمدورفت