21-
نومبر- 1993
میں نے دوڑنا شروع کیا اور امپائر
کے پاس سے گزرتے ہوئے پوری طاقت سے گیند کرا دی۔
ٹین پر گیند لگنے کی مخصوص آواز ابھری اور ساتھی کھلاڑیوں نے مجھے گھیر
لیا۔ فریقِ مخالف کا آخری بلے باز آئوٹ ہوکر واپس جا رہا تھا اور ہم میچ جیت چکے
تھے۔ داد و تحسین کے شور میں خود کو اس
وقت وقار یونس سمجھتے ہوئے میں ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ ہوتے ہوتے فتح کا
جشن تھما اور اگلے میچ کی تیاری شروع ہوگئی۔ یہ ہمارا روز کا معمول ہے۔ سہ پہر سے
ہی سارے لڑکے گلی میں جمع ہوجاتے اور آپس میں سات سات کھلاڑی بانٹ کر روزانہ کی
بنیاد پر ٹورنامنٹ کھیلا کرتے ہیں۔
آج بھی ٹورنامنٹ جاری تھا اور
ابھی تیسرے میچ کیلئے ٹاس ہو ہی رہا تھا کہ عصر کی اذان ہوگئی اور ہم سب لڑکے کھیل
چھوڑ کر مسجد پہنچ گئے۔ نماز کے بعد ہماری کوشش تھی کہ جلد از جلد واپس کھیل شروع
کرسکیں مگر مولوی صاحب نے ہم لڑکوں کو درس کیلئے روک لیا۔ رکنے کا دل تو ہم میں سے
کسی کا بھی نہیں تھا مگر کیا کرتے؟ اگر درس میں نہیں بیٹھتے تو اللہ میاں نہ صرف
امتحانات میں فیل کروا دیتے بلکہ بعد میں آگ میں بھی ڈالتے۔ رکنا ہی پڑا۔ درس میں
مولوی صاحب نے ہم سب لڑکوں پر خوب لعن طعن کی اور ہمیں سڑکوں پر وقت ضائع کرنے پر
خوب لتاڑا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہاں ہم کرکٹ جیسے واہیات کھیل میں مگن ہیں اور
وہاں دشمن کشمیر میں ہماری ماں بہنوں کی عزت لوٹ رہا ہے۔ ہم یہاں سڑکیں ناپ رہے
ہیں اور دشمن نے وہاں بابری مسجد مسمار کردی ہے۔ مولوی صاحب کافی دیر تک بولتے رہے
اور ہم سب خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔
مولوی صاحب کے پاس سے اٹھ کر آنے
کے بعد کھیل میں میرا دل بالکل نہیں لگا۔ کسی کی کی عزت لوٹنا بہت بری بات ہوتی
ہے۔ مجھے یاد ہے پچھلے مہینے جب میں نے لطیفوں کی کتاب سے جگتیں یاد کرکے کلاس کے
بچوں کی عزت لوٹی تھی تو اسلامیات کے ٹیچر کتنے ناراض ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ
رسول اللہﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بدترین شخص وہ ہے جس کی زبان کے شر کی وجہ سے
لوگ اس سے ڈریں۔ میں نے تو پھر بھی لڑکوں
کی عزت لوٹی تھی۔ یہ دشمن تو آنٹیوں اور بہنوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے؟ ان کے
اسلامیات کے ٹیچر نے شاید انہیں یہ حدیث سنائی نہیں ہوگی یا شاید ان کے اسلامیات
کے ٹیچر اس بید کا استعمال نہیں کرتے ہوں گے جس سے ساری باتیں یاد رہتی ہے۔
ابو نے کہا تھا کہ مجھے ڈائری
لکھنی چاہئے اس لیئے آج یہ ساری باتیں لکھ رہا ہوں۔ میرے پاس ڈائری تو نہیں ہے
لحاظہ آج سے اس کاپی کو ہی ڈائری بنا لوں گا۔ اب اجازت دو، کل سائنس کا ٹیسٹ ہے
اور مجھے ابھی مادے کی تینوں حالتیں اور ان کے خواص یاد کرنے ہیں۔
7 – جون - 1995
آج بہت دن بعد اسٹور میں یہ کاپی
دکھی تو یاد آیا کہ میں نے ایک دن کیلئے ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ دو سال کا وقفہ کم
نہیں ہوتا۔ مگر کیا کروں؟ اسکول، اس کے بعد کرکٹ، پھر ہوم ورک ۔۔۔ یاد بھی نہیں
رہا کہ ڈائری لکھنی ہے۔ اب انشاءاللہ روز ڈائری لکھوں گا۔ جیسے ابو لکھتے ہیں۔
ویسے کتنا مزہ آئے اگر میں بھی ابو کی طرح ڈائری لکھوں۔ تمہیں پتہ ہے ابو کس طرح
ڈائری لکھتے ہیں؟
جیب خرچ:
دو روپے
گولا گنڈا:
پچاس پیسے
چنا چاٹ:
بارہ آنے
کرکٹ بال کیلئے ٹیپ کا چندہ: پچاس پیسے
کل بچت:
چار آنے
مگر وہ چار آنے جو بچے تھے وہ
کہاں گئے؟ خدا جانے کہاں رکھ چھوڑے۔ سوچ سوچ کر دل بیٹھ رہا ہے۔ یونین کے چار بسکٹ
آجاتے ان چار آنوں کے۔ بھئی مجھ سے تو نہیں لکھی جانی ابو کی طرح ڈائری۔ میں نے
خود دیکھا ہے کہ وہ پچاس پچاس روپیوں کا حساب ایک دفعہ میں لکھتے ہیں۔ میرا دو
روپے میں یہ حال ہوا ہے تو ابو کو تو رات کو نیند بھی نہیں آتی ہوگی۔ شاید اس ہی
لیئے رات کو جب بھی آنکھ کھلتی ہے میں انہیں مصلے پر پاتا ہوں۔ پہلے میں سوچتا تھا
کہ وہ اللہ میاں کے خوف سے رو رہے ہیں مگر اب مجھے لگتا ہے کہ ابو کے روزانہ دو
تین روپے اس طرح غائب ہوجاتے ہوں گے اس لیئے وہ رات کو اٹھ کر روتے ہیں۔ رات کو
اٹھ کر رونے سے یاد آیا کہ میں نے اس دن باجی سے پوچھا تھا کہ ابو جائےنماز پر
بیٹھ کر کیوں روتے ہیں تو باجی کہنے لگیں کیوں کہ اللہ میاں کو اپنے حضور عاجزی
کرنے اور گڑگڑانے والے لوگ پسند ہیں۔ میں نے باجی کو یاد دلایا کہ وہ کہتی تھیں کہ
اللہ میاں تو ہم سے امی سے بھی زیادہ پیار کرتے ہین، تو پھر یہ کیسی امی ہیں جنہیں
بچوں کو رلانا اچھا لگتا ہے۔ باجی کو میری بات کچھ خاص پسند نہیں آئی لحاظہ حسب
روایت میری گدی پر ایک جھانپڑ رسید کرکے کچن میں چلی گئیں۔
ابھی تو اچانک نظر پڑ گئی اس لیئے
لکھنے بیٹھ گیا، مگر اب مجھے یاد نہیں آرہا کہ اور کیا لکھنا چاہئے۔ کل ساری باتیں
یاد کرکے رکھوں گا اور رات میں لکھوں گا۔ تب تک کیلئے خدا حافظ۔
19
– جولائی – 1996
تم سمجھ رہی ہوگی کہ میں
"دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ" ہوں جو سال بھر بعد آج ڈائری لکھنے بیٹھا
ہوں، مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل میرے پاس کچھ لکھنے ایسا تھا ہی نہیں تو لکھتا بھی
تو کیا لکھتا؟ پچھلے ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میں بہت بدل گیا ہوں۔ اب میں
پہلے کی طرح ہنستا بولتا بھی نہیں ہوں۔ زیادہ بات بھی نہیں کرتا۔ یا شاید کوئی مجھ
سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ سب کہتے ہیں مجھ میں ایک بوڑھے کی روح سمائی ہوئی ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ یہ کون بوڑھا ہے جس کی روح مجھ میں سما گئی ہے اور میں کس طرح ان
بوڑھے انکل کو ان کی روح واپس کرسکتا ہوں۔ مگر یہ واحد چیز تو نہیں جس کا جواب
مجھے معلوم نہیں ہے۔ اور بھی سینکڑوں سوالات ہیں جن کے جوابات میرے پاس موجود نہیں
ہیں اور یہ سوالات مجھے دن رات تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ
ٹیلیویژن پر ایک حمد دیکھی جس کے مطابق "اللہ ہے بس پیار ہی پیار" میں
نے یہ حمد سنی تو بڑے بھیا کے پاس جا بیٹھا اور ان سے سوال کردیا کہ اللہ میاں
کتنے ہوتے ہیں؟ انہوں نے مجھے گھور کر دیکھا اور کان مروڑتے ہوئے بولے، گھوڑے کے
گھوڑے ہوگئے اور تمہیں آج تک یہی نہیں پتہ کہ اللہ میاں ایک ہی ہیں اور وہ کبھی دو
نہیں ہوسکتے"۔ میں نے کان سہلاتے ہوئے بھیا سے دوسرا سوال کردیا کہ، آپ سب جن
اللہ میاں کی بات کرتے ہیں وہ تو صرف آگ میں ڈالتے ہیں، یا زخموں کی پیپ پلاتے ہیں
جبکہ ٹیلیویژن والے اللہ میاں تو بس پیار ہی پیار ہوتے ہیں۔ ایک ہی اللہ میاں آگ
میں ڈال کر اور پیپ پلا کر بھی پیار ہی پیار کیسے ہوسکتے ہیں۔ بھیا نے مجھے حیرت
سے دیکھا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے، دیکھو ننھے! اللہ میاں مسلمانوں
کیلئے صرف پیار ہی پیار ہیں اور کافروں کو وہ آگ میں بھی ڈالیں گے اور سخت سزائیں
بھی دیں گے۔ میں نے بڑے بھیا سے پوچھا کہ اگر اللہ میاں صرف کفار کو آگ میں ڈالیں
گے تو میں تو مسلمان ہوں۔ پھر آپ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ مجھے آگ میں ڈالیں
گے۔ بڑے بھیا میرے سوالات سے اب تنگ آچکے تھے سو یہ کہہ کر دوبارہ ڈائجسٹ پڑھنے
میں مگن ہوگئے کہ اگر میں نے اس قسم کے سوالات پوچھنا نہیں چھوڑے تو وہ اللہ میاں
سے کہہ کر مجھے آگ میں ڈلوا دیں گے۔ میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ آیا۔ مجھے آگ اور
اللہ میاں دونوں سے ہی بہت ڈر لگتا ہے۔ پتہ نہیں ہم لوگوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے
جو وہ بات بات پر ہم لوگوں کو آگ میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر پتہ چلا تو تمہیں بھی ضرور
بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔
1– مارچ - 1997
میں نے سوچا تھا کہ جب تک اللہ
میاں کے بارے میں معلومات نہیں کرلوں گا تب تک ڈائری نہیں لکھوں گا۔ آج میں نے
زندگی میں پہلی بار قرآن ترجمے کے ساتھ مکمل ختم کرلیا ہے سو آج میں تم سے باتیں
کرنے بیٹھا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے کہ ہمارے بڑے ہم کو جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں مگر
خود ہمیشہ سے جھوٹ بولتے آئے ہیں؟ مجھے پتہ ہے کہ میں ابھی چھوٹا ہوں اور میری
سمجھ بھی بہت چھوٹی ہے مگر قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے بعد مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ سب
جھوٹ بولتے آئے ہیں۔ اللہ میاں مجھے آگ میں نہیں ڈال سکتے۔ میں نے بچپن سے اب تک
ڈانٹ بھی بہت کھائی ہے اور نصیحتیں بھی بہت سنی ہیں۔ قرآن میں کہیں بھی مجھے یہ
نہیں لگا کہ اللہ میاں مجھے ڈانٹ رہے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اللہ میاں نے یہ کتاب
ویسے ہی لکھی ہے جیسے باجی جب مجھ سے بہت مایوس ہوجاتی ہیں تو سمجھانے کیلئے بولتی
ہیں۔ لالچ بھی دیتی ہیں، پیار بھی دکھاتی ہیں اور دھمکاتی بھی ہیں۔جب وہ تینوں
چیزیں ایک ساتھ استعمال کرتی ہیں تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ واقعی یہ چاہتی ہیں
کہ میں ان کی بات مان لوں۔ شاید اللہ میاں بھی چاہتے ہیں کہ میں کسی بھی طرح ان کی
باتیں مان لوں۔ اور اللہ میاں کوئی غلط باتیں بھی نہیں کرتے۔ قرآن پڑھ کر مجھے
اندازہ ہوا کہ میں گندہ بچہ نہیں ہوں۔ میں چوری نہیں کرتا، جھوٹ نہیں بولتا، ہمارے
گھر میں کوئی حرام چیز بھی نہیں آتی۔ اور پورے قرآن میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ
ٹیلیویژن دیکھنے، دیر تک کرکٹ کھیلنے، بڑے بھیا کی جگہ بازار سے سودا نہ لانے،
باجی کو پانی نہ پلانے وغیرہ پر اللہ میاں آگ میں ڈالیں گے۔ یہ لوگ بلاوجہ میں
مجھے ڈرا کر اپنے کام نکلواتے رہتے تھے۔ مجھے پہلے ہی قرآن کا ترجمہ پڑھ لینا
چاہئے تھا۔ اور ہاں، سب سے اچھی بات اللہ میاں کی یہ ہے کہ وہ سوال کرنے پر برا
نہیں مانتے بلکہ کئی جگہ خود کہتے ہیں کہ چیزوں پر فکر کرو۔ مجھے تو یہ والے اللہ
میاں بہت پسند آئے ہیں۔ میں جب بھی کبھی ان سے ملا تو ان کیلئے چاکلیٹ لیکر جائوں
گا۔ میں نے پیسے بھی جمع کرنا شروع کردیئے ہیں۔ اچھا اب اجازت دو۔ اب میں ڈائری
لکھتا رہوں گا۔
2 – اگست – 1997
پچھلے تین دن سے پریشان گھوم رہا
تھا اور آج بےحد اداس ہوگیا ہوں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ ہوا یوں کہ ابھی پچھلے ہفتے
ہی عیدِ میلاد النبی تھی۔ خوب جشن رہا۔ ہماری بھی اسکول کی چھٹی تھی اور ابو کو
بھی دفتر نہیں جانا تھا۔ چھٹی کا دن تھا سو پھپھو بھی ملنے آگئیں تھیں۔ گھر میں
خوب رونق رہی۔ شام کو محلے کے بچوں نے ایک چھوٹا سا جلوس بھی نکالا۔ میں نہیں گیا۔
گھر پر رک کر پھپھو کے بچوں کے ساتھ ہی کھیلتا رہا۔ جب جلوس ختم ہوگیا اور شام کو
پھپھو بھی واپس چلی گئییں تو میں ابو کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ میں جاننا چاہتا تھا
کہ ہر سال بارہ ربیع الاول کو یہ جلوس کیوں نکالا جاتا ہے؟ اس دن چھٹی کیوں ہوتی
ہے؟ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ اس دن ہمارے پیارے نبی ﷺ پیدا ہوئے تھے مگر اس دن چھٹی کیوں ہوتی ہے اور یہ جلوس
کیوں نکالے جاتے ہیں مجھے اس چیز کی کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ابو میرا سوال سن کر
مسکرائے اور بولے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ ہر ملک اپنے ہیروز کو یاد کرتا ہے
اور ان کی پیدائش و وفات کے دنوں کو تعطیلات دی جاتی ہیں کہ لوگ اس دن سب کام کاج
چھوڑ کر ان قومی ہیروز کو یاد کریں اور ان کے کارناموں کے بارے میں پڑھیں۔
ٹیلیویژن پر بھی اس دن خصوصی نشریات چلائی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان عظیم انسانوں کے
بارے میں جان سکیں۔ ہم چونکہ ایک اسلامی ملک ہیں اس لیئے ہم اپنے قومی ہیروز کے
علاوہ اسلام کے ہیروز کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق محمد ﷺ اللہ
تعالیٰ کے محبوب ترین انسان تھے اور دنیا میں آپ ﷺ سے بڑا کوئی ہیرو آج تک نہیں
گزرا اس لیئے آپ ﷺ کی پیدائش کا جشن ملک گیر سظح پر منایا جاتا ہے اور اس دن عام
تعطیل ہوتی ہے۔ لوگ اللہ کے محبوب ترین انسان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے
گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور جلوس اور میلاد کی محافل منعقد کی جاتی ہیں۔ ابو کی
بات مجھے سمجھ آگئی تھی مگر مزید یقین کرنے کیلئے میں نے پوچھ لیا کہ کیا دس محرم
کو بھی اس ہی لیئے چھٹی ہوتی ہے اور جلوس نکالے جاتے ہیں؟ ابو مسکرائے اور بولے،
امام حسین تاریخ انسانی کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ آپ نے دس محرم کو جام شہادت نوش
کرکے اسلام کو زندہ کردیا تھا۔ ان کی شہادت کی یاد میں دس محرم والے دن حکومت چھٹی
دیتی ہے اور لوگ جلوس کی شکل میں باہر نکل کر خدا کے اس عظیم بندے کی قربانی کو
یاد کرتے ہیں۔ مجھے اب اس بات کی مکمل سمجھ آگئی تھی مگر دماغ میں ایک نیا سوال
جنم لےچکا تھا۔ میں نے ابو سے پوچھا کہ جب بارہ ربیع الاول کو ہم اللہ کے سب پیارے
کی یاد میں نکلتے ہیں، اور دس محرم کو اللہ کے ایک عظیم بندے کی قربانی یاد کرتے
ہیں تو ہم نے ان دونوں کو محبوب اور عظیم بنانے والے اللہ میاں کیلئے کون سا دن
مخصوص کیا ہوا ہے؟ اللہ میاں کیلئے جلوس کب نکلتا ہے؟ ہم اس جلوس میں کیوں نہیں
جاتے؟ میں نے اپنی بات ختم کرکے سوالیہ نظروں سے ابو کی طرف دیکھا مگر ابو کو نیند
آرہی تھی اس لیئے انہوں نے مجھے وہاں سے جانے کیلئے کہہ دیا۔ تین دن سے انتظار کر
رہا ہوں مگر ابو کی مصروفیت ختم ہی نہیں ہوکر دے رہی۔
آج میں نے یہی سوال اسلامیات کے
ٹیجر سے پوچھا تو وہ اداس سے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ، بیٹا! ہمارے درمیان اللہ کے رسول
سے محبت کے بہت دعوے دار ہیں، اللہ کے محبوب کے اصحاب کے نام لیوا بھی بہت ہیں،
اور اللہ کے محبوب کے اہل بیت پر جان قربان کرنے والے بھی ہزاروں ہیں مگر ان سب کے
خالق اللہ سے محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کوئی ایک جماعت ایسی نہیں کہ جو کھڑی
ہوکر یہ کہہ سکے کہ ہم صرف اللہ سے اور صرف اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں۔ مجھے
اسلامیات کے ٹیچر کی پوری بات تو سمجھ نہیں آئی مگر یہ جملہ مجھے بہت برا لگا کہ
اللہ میاں سے محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اللہ میاں کو کتنا برا لگتا ہوگا؟ یہ
تو ایسا ہی ہوگیا جیسے کوئی ابو سے کہے کہ آپ سے تو میرا کوئی تعلق نہیں مگر چونکہ
یہ آپ کا بیٹا ہے اس لیئے یہ مجھے بہت پیارا ہے۔ بیچارے اللہ میاں۔ میں جب بڑا
ہوجائوں گا تو اللہ میاں کیلئے جلوس نکالوں گا۔ اچھا اب باجی آواز دے رہی ہیں۔
یونیفارم استری کرنا ہے۔ خدا حافظ
8 – اگست – 1997
آج ہم لوگ نانا ابو کی طرف گئے
تھے۔ میرا سارا ننھیال آج نانا ابو کے گھر جمع تھا۔ بڑے آپس میں باتیں کرتے رہے
اور ہم بچے صحن میں دیر تک کھیلتے رہے۔ ہم سب نے خوب مزہ کیا۔ دوپہر کے کھانے سے
فارغ ہوئے تو نانا ابو نے ہم بچوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ پہلے وہ ہم
سب سے ہماری پڑھائی کے بارے میں پوچھتے رہے اور پھر نانا ابو نے سوال کردیا کہ
نماز کا ترجمہ کس بچے کو یاد ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی نماز کا ترجمہ نہیں یاد
تھا۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ بچپن سے نماز کی عادت تو تھی مگر کبھی یہ نہیں سوچا
تھا کہ نماز میں ہاتھ باندھ کر ہم پڑھتے کیا ہیں۔ نانا ابو بہت اچھے ہیں۔ وہ ہمارے
ٹیچر یا مولوی صاحب کی طرح بچوں کو شرمندہ نہیں کرتے بلکہ پیار سے سمجھاتے ہیں۔
نانا ابو نے ہم سب بچوں کو نماز میں پڑھی جانے والی چیزوں کے مطالب بتائے۔ جب نانا
ابو بسم اللہ کا مطلب بتا رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ رحمان اور رحیم دونوں کا
مطلب بہت زیادہ رحم کرنے والا ہوتا ہے۔ ایک ہی بات ایک ہی مختصر فقرے میں دو دفعہ
کرنے کا کیا مطلب؟ میں نے جب یہ سوال نانا ابو سے کیا تو نانا ابو مسکرانے لگے۔
انہوں نے میرا ماتھا چوما اور بولے، جب میں تمہاری عمر کا تھا تو میں بھی یہ سوال
اکثر سوچتا تھا۔ پھر ایک دن میں نے قرآن کی ایک تفسیر میں اس کا جواب پا لیا۔ تم نے زندگی میں بہت سے لمبے یا موٹے لوگ دیکھے
ہوں گے۔ وہ اتنے لمبے یا اتنے موٹے ہوتے ہیں کہ صرف لمبا اور موٹا کہنے سے تمہاری
تسلی نہیں ہوتی۔ تم لمبے کے ساتھ تڑنگا اور موٹے کے ساتھ تازہ کا اضافہ کردیتے ہو
کہ مخاطب کو اندازہ ہوجائے کہ جن صفات کا تم بیان کررہے ہو وہ معمولی صفات نہیں
ہیں۔ اللہ تعالیٰ اتنے زیادہ رحیم ہیں کہ محض رحیم کہنے سے ان کی رحمت کا احاطہ
نہیں ہوپاتا۔ وہ اپنے رحم کی وسعت بیان کرنے کیلئے رحمان کے فورا بعد رحیم کا لفظ
بھی استعمال کرتے ہیں تاکہ ہم انسانوں کو اندازہ ہوجائے کہ ان کے پالنے والے کا
ظرف اور اس کا رحم و کرم ہرگز معمولی نہیں ہے۔
جب سے نانا ابو کی بات سنی ہے
میرا اللہ میاں کو دیکھنے کا شوق اور بڑھ گیا ہے۔ مجھے وہ بہت کیوٹ سے لگتے ہیں۔
ابو نے مجھے نیا کرکٹ کا بلا دلایا ہے۔ میں کسی کو اس سے بیٹنگ نہیں کرنے دیتا،
مگر میں نے سوچ لیا ہے کہ جب میں اللہ میاں سے ملوں گا تو انہیں اپنے بلے سے بیٹنگ
کرنے دوں گا۔ وہ ہیں ہی اتنے کیوٹ سے۔
اچھا اب میں سونے جارہا ہوں۔ خدا حافظ
1 – ستمبر – 1997
پیاری ڈائری! آج میں نے ایک بہت
عجیب سی چیز سیکھی ہے۔ ابو ایک نئی کتاب لیکر آئے ہیں جو ان کے کسی دوست نے انہیں
تحفہ دی ہے۔ اس نئی کتاب میں بہت اچھی اچھی دعائیں ترجمے کے ساتھ موجود ہیں۔ آج
دوپہر میں یہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی اور میں نے عربی چھوڑ کر پورا ترجمہ پڑھ ڈالا۔
اتنی مزے مزے کی دعائیں ہیں اس میں۔ تم کہیں یہ نہیں سمجھ لینا کہ اس میں بریانی
آنے کی دعا ہوگی میں اس لیئے اسے مزے کی دعا کہہ رہا ہوں۔ مزے کی اس لیئے کہ ان
دعائوں کا ترجمہ پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے میں نونہال یا آنکھ مچولی کی کوئی
بہت مزے کی نظم پڑھ رہا ہوں۔ اتنے پیار سے پیارے اللہ میاں کو پکارا گیا ہے ان
دعائوں میں کہ پڑھ کر مزہ آگیا۔ اس کتاب میں ایک دعا ہے جس کا نام دعاءِ عرفہ ہے۔
کتاب میں لکھا تھا کہ یہ دعا امام حسین نے عرفات کے میدان میں پڑھی تھی۔ میں نے اس
دعا میں ایک عجیب سی بات پڑھی۔ امام حسین نے اس دعا میں کہا کہ "بارِ الٰہا!
تو نے میرا ساتھ اس وقت نہیں چھوڑا جب مجھے خود اپنے وجود تک کا ادراک نہ تھا۔ میں
یہ کیسے مان جائوں کہ جب میں تیری جود و سخا اور تیرے لطف و کرم کا قائل ہو
چکاہوں، تب تو مجھے اکیلا چھوڑ دے گا؟" اتنی گاڑھی اردو کی تو مجھے بھی سمجھ
نہیں آتی حالانکہ اردو بولنے کی وجہ سے سب مجھے بیٹائے اردو کہہ کر چڑاتے ہیں۔
بابائے اردو تو مولوی عبدالحق تھے اس لیئے جب گلی کے بچے مجھے بابائے اردو بولتے
تھے تو میں نے سوچا کہ مولوی صاحب برا مان جائیں گے لہٰذا میں نے خود ان سب کو کہہ
دیا ہے کہ وہ مجھے بیٹائے اردو کہہ دیا کریں۔ خیر، میں نے کتاب میں سے یہ جملہ یاد
کیا اور پڑوس والے زیدی انکل کو سنا کر اس کا مطلب پوچھ لیا۔ زیدی انکل سے پوچھنے
کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ وہ امام حسین کے رشتہ دار ہیں۔ ان کے
گھر میں امام حسین کے مزار کی تصویریں بھی تھیں اور وہ امام حسین کی برسی پر لنگر
بھی بانٹتے ہیں۔ زیدی انکل میری بات سن کر مسکرائے اور پہلے تو پندرہ منٹ تک امت
مسلمہ کا رونا روتے رہے کہ کس طرح امت نے اہل بیت اور ان کی تعلیمات کو بھلا دیا
ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تقریر کے بعد انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اس دعا میں امام حسین
کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ! جب آپ کے وجود کا احساس ہونا تو دور، جب میں خود اپنے ہونے
کا احساس تک نہیں رکھتا تھا، آپ نے تب بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ تو اب جب میں
اپنے وجود کے ساتھ ساتھ آپ کے وجود کی عظمت، آپ کی کرم نوازی اور عنایات کا قائل
ہوچکا ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں گے؟ امام حسین اس بات سے
یہ احساس دلا رہے ہیں کہ خدا کسی بھی صورت اپنے بندے کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔
زیدی انکل کی بات مجھے سمجھ آگئی
تھی مگر اب ایک نیا سوال میرے دماغ میں گونج رہا تھا۔ میں نے زیدی انکل سے پوچھ
لیا کہ اہل بیت کی وہ کون سی تعلیمات ہیں جنہیں امت مسلمہ بھلا چکی ہے؟ زیدی انکل
میرے سوال پر بہت خوش ہوئے اور میرا ماتھا چوم کر بولے کہ جب اگلی مرتبہ ہمارے گھر
مجلس ہوئی تو تمہیں بھی بلوائوں گا۔ خود سن لینا۔ میں نے ماتھے پر سے تھوک صاف کرتے
ہوئے انکل سے کہا کہ انہیں بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کا بیٹا اور میں مل کر
ہی مجلس کی لائٹ جلانے کیلئے کنڈا ڈالا کرتے ہیں۔ انشاءاللہ میں خود حاظر ہوجائوں
گا۔ میری بات پتہ نہیں کیوں زیدی انکل کو کچھ زیادہ پسند نہیں آئی حالانکہ وہ بہت
خوش ہوتے ہیں جب کوئی ان کے گھر کی مجالس میں شریک ہوتا ہے۔ مگر خیر یہ ان کا ذاتی
معاملہ ہے۔ میں کون ہوتا ہوں؟ مجھے تو بس یہی خوشی کافی ہے کہ اللہ کے ایک عظیم
انسان نے یہ اعلان کردیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔
آئی لو یو اللہ میاں۔ اچھا اب بہت سارا لکھ لیا اب میں جا رہا ہوں۔ خدا حافظ
7 – نومبر – 1997
اسکول سے بہت زیادہ شکایات آنے
لگی ہیں اس لیئے گھر میں سختی بہت ہوگئی ہے۔ پڑھائی پر بہت زیادہ زور دے رہا ہوں
اس لیئے ڈائری میں لکھنے جیسا کچھ بھی نہیں بچتا میرے پاس اب۔ مجھے پتہ ہے کہ
اسکول والوں کو میری پڑھائی سے زیادہ ان سوالات سے مسئلہ ہے جو میں ہر وقت پوچھ کر
ان کی ناک میں دم کیئے رکھتا ہوں۔ مگر میں کیا کروں؟ میں جب تک کسی چیز کو سمجھ
نہیں لیتا مجھے عجیب سی بےچینی رہتی ہے۔ اور چیزوں کی سمجھ اس وقت تک نہیں آتی جب
تک میں سوالات نہ کروں۔ خیر! دعا کرو کہ اللہ میاں میری مشکلات حل کردیں۔ خدا
حافظ۔
16 – جنوری – 1998
پیاری ڈائری! اب تو میں بھی غیر
حاظری کی معذرتوں سے تھک چکا ہوں سو اب اگر طویل عرصہ غیر حاظر ہو بھی جائوں تو تم
برا نہیں ماننا۔ دوپہر سے تمہیں تلاش کر رہا تھا کہ اپنی پریشانی تمہیں سنا سکوں، اور
تم اب جاکر ملی ہو۔ آج ایک بہت عجیب سی بات ہوئی ہے اور میں بہت زیادہ پریشان ہوں۔
تم بھی سوچتی ہوگی کہ تم کس کے ہتھے چڑھ گئی ہو، مگر میں کیا کروں؟ میں جان بوجھ
کر پریشان اور اداس نہیں رہتا۔ بس حالات ہی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں کہ خوش رہنا
ناممکن ہوجاتا ہے۔
آج اسکول میں اردو کی کلاس میں ہم
نے علامہ قفال شاشی کا مضمون پڑھا۔ ہماری استانی نے سبق پڑھ کر سنایا جس کے مطابق
کسی زمانے میں ایک بہت مشہور لوہار ہوا کرتے تھے جن کا نام قفال شاشی تھا۔ خدا نے
آپ کو ایک منفرد فن سے نوازا تھا اور آپ لوہے کے کام میں سب سے بڑے ماہر سمجھے
جاتے تھے۔ آپ لوہے پر ایسے نقش و نگار تراشتے تھے جنہیں دیکھ کر لوگ مبہوت ہوکر رہ
جاتے تھے۔ ایک مرتبہ قفال شاشی بادشاہ کے لیئے ایک صندوق بنا کر لے گئے جس پر
انہوں نے انتہائی دلکش نقش و نگار تراشے ہوئے تھے۔ بادشاہ اس صندوق کو دیکھ کر بہت
خوش ہوا اور انہیں خوب انعام سے نوازا۔ ابھی بادشاہ ان کی تعریف کرہی رہا تھا کہ
دربار میں ایک آدمی داخل ہوا اور بادشاہ سمیت تمام افراد اس شخص کے احترام میں کھڑے
ہوگئے۔ بادشاہ نے تکریم کی انتہا کرتے ہوئے ان صاحب کو اپنے برابر میں بٹھا لیا۔
قفال شاشی یہ سب دیکھ رہے تھے اور حیران تھے کہ یہ کون آدمی ہے جس کے احترام میں
خود بادشاہ نا صرف کھڑا بھی ہوتا ہے بلکہ انہیں اپنے برابر میں بھی بٹھاتا ہے۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مشہور عالم ابو نصر فارابی ہیں۔ قفال شاشی نے سوچا کہ
عالم کی اتنی عزت ہوتی ہے تو انہیں بھی لوہاری چھوڑ کر علم حاصل کرنا چاہیئے۔ ہماری
استانی نے بتایا کہ قفال شاشی نے لوہاری چھوڑی اور حصول علم میں مشغول ہوگئے۔
برسہا برس گزرنے کے بعد جب رک کر جائزہ لیا تو انہوں نے خود کو ویسا ہی کورا پایا
جیسے وہ حصول علم سے پہلے تھے۔ قفال شاشی مایوس ہوگئے اور تعلیم چھوڑ کر جنگلوں
میں نکل گئے۔ استانی جی بتا رہی تھیں کہ بڈھا توتا کیا خاک پڑھے گا والا محاورہ
بھی قفال شاشی نے ہی ایجاد کیا تھا۔ تو خیر، قفال شاشی جنگلوں میں نکل گئے اور ایک
دن دیکھا کہ ایک پہاڑ سے پانی کی بوندیں گر رہی ہیں جنہوں نے اس پتھر میں گڑھا
کردیا ہے۔ یہ دیکھ کر قفال شاشی نے سوچا کہ ایک بوند پانی مسلسل گر کر پتھر میں
گڑھا کرسکتی ہے تو کیا میں پتھر سے بھی بدتر ہوں؟ آپ نے واپس تعلیم شروع کی اور
ایک دن علامہ قفال شاشی کہلائے۔
استانی جی نے سبق سنانے کے بعد ہم
بچوں سے پوچھا کہ اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ سب سے پہلے میں نے اور کامران
نے ہاتھ کھڑے کیئے۔ کامران کیوں کہ اسکول کے بعد استانی جی سے ٹیوشن بھی پڑھتا ہے
اور ہمیشہ کلاس میں اول بھی آتا ہے لہٰذا استانی جی نے پہلے کامران کو بولنے کیلئے
کہا۔ کامران نے کہا، کہ انسان اگر مسلسل محنت کرے تو وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے اور
علم حاصل کرنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ استانی جی اس کی بات سن کر بہت
خوش ہوئیں۔ پھر میری باری آئی تو میں نے وہ کہہ دیا جو میری سمجھ میں آیا تھا۔ مین
نے استانی جی سے کہا کہ اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آیا جب ہر
لوہار اور چمار نے یہ سمجھ لیا کہ اگر عزت کمانی ہے تو عالمِ دین بننا ہوگا۔ اور پھر یہ لوگ جب عالمِ
دین بن گئے تو انہوں نے اپنی لوہاروں اور چماروں والی خصلت دکھاتے ہوئے ہم سب کو
فرقوں میں بانٹ دیا۔
استانی جی پہلے تو منہ کھول کر
میری شکل دیکھتی رہیں اور پھر مجھے پرنسپل صاحب کے دفتر میں لے گئیں۔ پرنسپل صاحب
نے پورا ماجرا سنا اور کل مجھے ابو کو اسکول ساتھ لانے کیلئے کہہ دیا ہے۔۔ مجھے
سمجھ نہیں آرہا کہ ابو سے کیا کہوں کہ پرنسپل صاحب نے انہیں کیوں بلایا ہے۔ مجھے
ابو کے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ سوچ سوچ کر جان نکل رہی ہے۔ میرے لیئے دعا کرنا۔
خدا حافظ
18- جنوری – 1998
جسم پر کئی جگہ نیل پڑ گئے ہیں۔
اسکول میں ابو نے پرنسپل سر سے ملاقات کی اور پھر شام کو گھر آکر مجھے کمرے میں
بند کرکے بہت مارا۔ باجی بھی بہت اداس ہیں۔ ان کا پسندیدہ ہینگر ابو نے میری کمر
پر توڑ دیا ہے۔ باجی کہتی ہیں کہ امی کے گزرنے کے بعد ابو بہت غصیلے ہوگئے ہیں،
پہلے وہ ایسے نہیں تھے۔ بیچارے ابو! اللہ میاں پلیز ان کی اداسی کو ختم کردیں۔
اب میں ڈائری نہیں لکھوں گا۔ خدا
حافظ
5 – مئی – 2002
آج میری سالگرہ کا دن ہے۔ مگر تم
جانتی ہو کہ ہمارے گھر میں سالگرہ منانے کا رواج نہیں ہے۔ نہ کیک کٹتا ہے نہ تحائف
دیئے جاتے ہیں۔ نہ دعوت ہوتی ہے نہ مبارک سلامت۔ آج مگر ایک عجیب اتفاق ہوا۔ کالج
کے دوستوں کو خدا جانے کیسے معلوم ہوگیا کہ آج میری سالگرہ ہے۔ کالج کے بعد وہ
مجھے اپنے ساتھ ایک قریبی ریستوران لے گئے جہاں کیک بھی کاٹا گیا اور سالگرہ کا
جشن بھی ہوا۔ میرے لیئے یہ ایک نیا مگر خوشگوار تجربہ تھا۔ شکر ہے جیب میں پیسے
موجود تھے ورنہ ریستوران کا بل جو میرے سر ڈال دیا گیا تھا، اسے بھرنے کیلئے کسی
دوست سے ادھار لینا پڑ جاتا۔
تم شاید یہ سوچ رہی ہوگی کہ زندگی
میں پہلی مرتبہ سالگرہ کا جشن ہونے پر میں آج چار سال بعد ڈائری لکھنے بیٹھ گیا
ہوں؟ مگر ایسا نہیں ہے۔ شاید تمہیں خود بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اب تم میری وہ
دوست ہو جس کے پاس میں تب آتا ہوں جب کسی شدید ذہنی خلفشار سے گزر رہا ہوں۔ یا
شاید تب جب مجھے ایک ایسے دوست کی تلاش ہوتی ہے جو میری تمام باتیں سن کر بھی مجھے
پاگل نہ ٹھہرائے اور خدا سے متعلق میرے خیالات پر کفر کے فتوے نہ لگائے۔ جو میری
باتوں کو اس ہی پیرائے میں سمجھ سکے جس پیرائے میں وہ بیان کی جاتی ہیں۔ پانچ ارب
انسانوں کی اس دنیا میں میری بدقسمتی ہے کہ میرے پاس تمہارے علاوہ ایسا کوئی انسان
موجود نہیں ہے۔ یا شاید میری خوش قسمتی کہ میرے پاس کم از کم ایک ایسا دوست تو موجود
ہے جس سے میں عرضِ حال کرسکوں۔
کالج کے میرے تمام دوست غیر مذہبی
گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نماز نہیں پڑھتے۔ روزہ نہیں رکھتے۔ حد یہ کہ
خدا کے وجود کے بھی منکر ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ دنیا بگ بینگ کے نتیجے میں وجود
میں آئی ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ انسان پہلے کبھی بندر ہوا کرتا تھا اور اب ارتقاء
کے مراحل طے کرتا ہوا اپنی موجودہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ تم سوچتی ہوگی کہ پھر میں
ایسے لڑکوں کو دوست کیوں رکھتا ہوں؟ میں خود بھی اکثر حیران ہوتا ہوں کہ اس شدید
اختلاف کے باوجود میں کیسے ان لوگوں کو دوست سمجھ سکتا ہوں۔ مگر تمام الحادی
نظریات کے باوجود یہ لوگ انسانوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ میں نے ان کو کبھی کسی کو
تکلیف پہنچاتے نہیں دیکھا۔ کلاس کے تمام لڑکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے منہ
پر انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ میں نے ان کو کبھی جواب میں کسی کو گالیاں دیتے نہیں
دیکھا۔ شاید یہی بات مجھے ان لڑکوں کے ساتھ دوستی برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
آج سالگرہ کے کھانے کے بعد جب ہم
لوگ رخصت ہونے لگے تو میں نے حسب عادت ان دوستوں کو جزاک اللہ کہہ دیا۔ میرے جزاک اللہ
کہنے پر وہ تینوں برا مان گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس ذات کو انہوں نے دیکھا نہیں،
جس کا وجود سائنس سے ثابت نہیں، جس کی موجودگی کی کوئی عقلی دلیل نہیں، وہ کیسے
انہیں کسی کام کی جزا دے سکتا ہے۔ اس بات پر ہم چاروں کی بحث شروع ہوگئی۔ ہم لوگ
کوئی دس منٹ تک اس بات پر بحث کرتے رہے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ہم سب کو گھر
پہنچنے کی جلدی تھی لہٰذا ہم نے بحث کو کل کیلئے موقر کردیا اور وہاں سے اٹھ آئے۔
اب طے یہ پایا ہے کہ کل بحث دوبارہ شروع ہوگی اور ہم میں سے کوئی ایک، دوسرے کو
قائل کرکے اٹھے گا۔ ان تینوں نے ساتھ میں ایک عجیب سی شرط رکھ دی ہے کہ میں قرآن و
حدیث کے بجائے محض عقلی و سائنسی دلائل سے بات کروں ورنہ وہ میری کسی بات کو تسلیم
نہیں کریں گے۔
پیاری ڈائری! تم جانتی ہو کہ مجھے
مذہب سے کوئی خاص لگائو نہیں ہے۔ مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ مجھے اللہ میاں کتنے
اچھے لگتے ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے کہ خدا کا وجود نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے کہ وہ
مجھے سے میری زندگی کا سب سے مضبوط آسرا اور میرے ہر برے وقت کا سہارا مجھے سے
چھین لینا چاہتا ہے۔ اگر کل میں بحث میں ہار گیا تو خدا کے تصور کے بغیر زندگی
گزارنے کا خیال مجھے اندر سے کھا رہا ہے۔
سائنس اور عقلی دلائل کے معاملے میں میں اتنا ہی کورا ہوں جتنے وہ لوگ مذہب کے
معاملے میں۔ مجھے کل کچھ بھی کرکے اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ خدا کے وجود کی عقلی
دلیل موجود ہے۔ کس طرح؟ یہ میں نہیں جانتا! دعا کرنا کہ کل میں سرخرو ہوجائوں ورنہ
میری زندگی کی سب سے قیمتی چیز مجھ سے چھن جائے گی۔ خدا حافظ
6 – مئی – 2002
پیاری ڈائری! میں آج بہت خوش ہوں۔
16 – نومبر – 2014
آج پرانے سامان میں یہ کاپی دکھی
تو خود کو دوبارہ لکھنے سے روک نہیں سکا۔ وقت
کی سب سے اچھی اور سب سے بری بات ایک ہی ہے، یہ گزر جاتا ہے۔ شاید لمحہ موجود میں ہمیں
وقت کی سرعت کا اندازہ نہیں ہوتا مگر جب ماضی پر نظر ڈالیں تو دس سال پرانی بات
بھی کل ہی کی سی لگتی ہے۔ سترہ سال تین ماہ بعد لکھنے بیٹھا ہوں۔ ایک عمر ہوتی ہے
سترہ سال، میری ڈائری! کیا کچھ نہ بیت گیا اس عرصے میں؛ میں بڑا ہوکر بھی بڑا نہیں
ہوپایا۔ نانا ابو، دنیا میں نہیں رہے۔ بھیا اور باجی جو خود کبھی بچے ہوا کرتے تھے
اب ان کے اپنے بچے موجود ہیں۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے اللہ میاں جن کا ذکر میں
نہایت حماقت بھرے انداز میں تم سے کرتا رہا ہوں۔ پڑھ پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ اللہ
میاں کو چاکلیٹ؟ لاحول ولا قوۃ۔ اللہ میاں بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ عجیب گھامڑ
انسان سے پالا پڑا ہے۔ میں جو پوری دنیا کے رزق کا ضامن ہوں، یہ کل کا لڑکا مجھے
کھلائے گا؟ اور بھلا سوچو، اللہ میاں اور کرکٹ؟ اللہ میاں سوری! مگر نہیں! میں اس
بات کی معذرت کیوں کروں کہ جس کے بارے میں مجھے کوئی شرمندگی نہ ہو؟ اگر مجھے
معذرت کرنی ہی ہے تو میں اس بات پر معذرت چاہتا ہوں کہ میں چاہ کر بھی اپنے بارے
میں برا نہیں سوچ پارہا۔ مگر پھر وہ بات بھی تو ہے کہ میں اپنے بارے میں برا کیوں سوچوں؟ میری سوچ کو
یہ آزادی خود آپ نے ہی تو بخشی تھی! یہ سوچنے کی صلاحیت، یہ سوال کرنے کا ذوق، یہ
سب آپ کی ہی تو عطا کردہ ہیں۔
ایک عجیب کشمکش ہے، اور بہت شدید
کشمکش ہے۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ مجھے گنجلک باتیں کرنے کا شوق ہے۔ مگر میں کیا
کروں؟ میں جیسا ہوں، آپ ہی کی تخلیق ہوں، اور عمر کے اس حصے میں آکر جان چکا ہوں
کہ سورہ تین میں آپ ہی کے فرمان کے مطابق آپ نے مجھے ممکنہ بہترین ترین طریق پر
خلق کیا ہے۔ کائنات کا خالق، جو ازل سے ابد تک کے تمام علوم پر دسترس رکھتا ہے، جو
ہر ظاہر اور ہر باطن سے واقف ہے، وہ اپنے تمام علوم کی روشنی میں اگر میرے بارے
میں یہ رائے رکھتا ہے کہ میں اس سے بہتر خلق نہیں ہوسکتا تھا تو پھر کسی اور کی
رائے میرے لیئے کیا معنی رکھتی ہے۔ پیارے اللہ میاں! آپ کی بنائی ہوئی بہترین
مخلوق آپ ہی کی عطا کی گئی زبان سے آج کچھ احوال کہنا چاہتی ہے۔ پیاری ڈائری!
تمہارا شکریہ کے تمہارے زریعے میں کائنات کے سب سے اچھے سامع کو اپنی روداد سنانا
چاہتا ہوں۔
اے میرے رب! میں تیری مخلوق کے
ہاتھوں ستایا ہوا ایک معمولی سا انسان ہوں۔ میں ایک ایسے معاشرے میں سانس لیتا ہوں
جہاں ہر شخص سکون کا متلاشی ہے۔ کوئی اس سکون نامی نعمت کیلئے منشیات کا سہارا
لیتا ہے اور کوئی مذہب کی پناہ ڈھونڈتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے تلاش دونوں طریقوں
سے مکمل نہیں ہوپاتی۔ جو دنیا کی غلاظتوں میں لتھڑا ہوا ہے وہ سمجھتا ہے کہ مذہب
والے سکون میں ہیں اور جو مذہب کی کثافتوں سے پریشان ہے اسے لگتا ہے کہ اہلِ دنیا
بہت پرسکون ہیں اور صرف وہی صاحبِ اضطراب ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو حسرت اور حسد
بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ایک دن وہ بھی دوسرے کی طرح سکون
پاجائیں گے۔ ایک متوازی لکیر ہے جس پر دونوں بھاگ رہے ہیں۔ اور دونوں احمق یہ
سمجھتے ہیں کہ دوسرے کی لکیر آگے جاکر بائیں ہاتھ پر مڑ جائے گی۔ اگر اس لکیر نے
کہیں مڑنا ہی ہوتا تو زمانے کی تخلیق کے لاکھوں سال بعد بھی یہ آج متوازی نہیں چل
رہی ہوتی۔ کاش انسان یہ بات کبھی جان پاتا۔
میں زندگی بھر دنیا کی غلاظت کی
حسرت میں مذہب کی کثافتوں میں الجھا رہا۔ اپنی انا کی تسکین کیلئے میں نے خود کو
یہ یقین دلا دیا تھا کہ اگر آج نہیں تو کل میرا ٹھکانہ جنت اور باقی سب کا جہنم
ہوگا اور اس لحاظ سے اگر صاحبِ دنیا آج سکون میں ہیں بھی تو یہ ایک عارضی وقفہ ہے۔
دائمی اور ابدی سکون تو میرے ہی نام آنا تھا نا؟ یہ سوچ میرے لیئے بہت بڑا اثاثہ
تھی۔ میں اس سے تقویت پاتا اور مذہب کے راستوں پر مزید آگے سے آگے چلتا چلا گیا۔
مدرسے اور مولوی کا لفظ خاندان میں ایک گالی تھا کہ گھر والوں کے نزدیک مذہب کیلئے
زندگی وقف کرنا پیٹ بھروں کا کام تھا۔ گھر پر رہ کر جو پڑھ سکتا تھا پڑھا اور جو
سمجھ سکتا تھا سمجھا۔ دن کو نوکری کرتا تھا ور رات کو جاگ کر علمِ حدیث کی کتابیں
چاٹتا تھا۔ چاٹنے کا لفظ آپ کو شاید برا لگے مگر میں آپ سے کیوں جھوٹ بولوں؟ اگر
چاٹنے کے بجائے پڑھا ہوتا تو آج وہ احادیث میری زندگی میں ظاہر بھی ہورہی ہوتیں۔ آپ
سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ ایسا نہیں ہے۔ میں اس گدھے کی مانند تھا جس پر کتابیں
لادی جاتی رہیں اور ان سے کچھ فیض نہیں حاصل کرسکا۔
میں فیض حاصل
کرتا بھی تو کیسے؟ آپ کے مذہب کے ٹھیکیداروں نے مجھے اس راہ پر چلنے اور آگے بڑھنے
سے پہلے ہی میرے پیر توڑ دییئے۔ پندرہ سال کی عمر میں آپ کے نام لیوا لوگوں نے
میرے اور آپ کے درمیان اپنے تئیں وہ دوریاں پیدا کردی تھیں جو ساری عمر لگانے کے
بعد بھی نہیں ختم ہوسکتیں۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب مسجد میں نماز کے بعد مجھے
درس میں شرکت کیلئے روکا گیا۔ میں خوشی خوشی درس میں شریک ہوگیا کہ دین سیکھنا اس
وقت میری زندگی کی سب سے بڑی چیز تھی۔ مدرس صاحب نے درس کے دوران ایک مشہور فقیہہ کے
فضائل بیان کرنا شروع کردیئے۔ میں حیرت سے ان مشہور بزرگ کے فضائل سن رہا تھا اور
اپنے طرزِ زندگی پر مسلسل شرمندہ بھی تھا۔ عبادتِ شب کا بیان آیا تو مدرس صاحب نے
فرمایا کہ وہ مشہور بزرگ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور یہ معمول انہوں
نے چالیس سال جاری رکھا۔ میں نے کھڑے ہوکر سوال کردیا کہ کیا فقہ کے اتنے بڑے امام
نے وہ حدیث نہیں سنی تھی جس میں رسول اکرم ﷺ نے ایک صحابی کو بلا کر سخت تنبیہہ کی
تھی کہ تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ رات
کا ایک پہر جاگ کر عبادت کر مگر دوسرے پہر سو بھی لیا کر۔ میرے اس سوال پر مدرس
صاحب پہلے تو حیرت سے میری شکل دیکھتے رہے اور پھر ایک زناٹے دار تھپڑ سے میری
دنیا روشن کردی۔ مدرس صاحب کے بعد درس میں شریک آٹھ دس افراد میں سے ہر ایک نے
مولوی صاحب کی سنت پر بھرپور عمل کیا۔ بیس منٹ بعد میں جسم پر پانچ نیل لیئے بمشکل
توبہ کرنے اور آئندہ ایسے کفریہ سوالات نہ دہرانے کے وعدے پر مسجد سے باہر آگیا۔
دوبارہ کبھی نہ جانے کیلئے۔ یا کم از کم اس وقت مجھے یہ لگا کہ میں آئندہ
مسجد کی دہلیز نہیں پار کروں گا۔ شاید میں تب بھی اتنا ہی جاہل تھا کہ آپ کی وہ
مشہور حدیث قدسی بھول بیٹھا تھا کہ ہونا وہی ہے جو آپ کی چاہت ہو۔
مسجد اور مذہب سے ناطہ توڑ
کر میں دنیا سے ناطہ جوڑنے نکل پڑا۔ مگر میں مذہب کی طرح دنیا میں بھی ناکارہ ہی
ثابت ہوا۔ مَرے پر سو درے یہ کہ دنیا دار مجھے مذہبی اور مذہبی مجھے دنیا پرست
سمجھنے لگے۔ میرے لیئے دونوں کے دروازے بند ہوگئے۔ آپ کو یاد ہے اس زمانے میں ہم
کیسے جھگڑتے تھے؟ اور پھر وہ دور جس میں میں نے آپ سے کچھ بھی مانگنے سے انکار
کردیا تھا؟ کہ دینا ہے تو خود سے دیں ورنہ میں تو دست سوال نہیں دراز کرنے لگا؟
کیا زمانے تھے وہ بھی! اور آپ بھی بچوں ہی کی طرح اس کھیل میں شامل ہوگئے تھے اور
ضد باندھ لی تھی کہ مجھے میری ضد میں تھکا کر رہیں گے۔ اور تب میں نے رسولِ خدا کی
اس حدیث کا مطلب سیکھا تھا کہ خدا واقعی ہمارے گمان جیسا ہے۔ جیسا ہم خدا کے بارے
میں گمان رکھیں گے، خدا کو ویسا ہی پائیں گے۔ اچھا یا برا، ظالم یا رحمٰن، قہار یا
غفار، سب ہمارے اپنے گمان پر ہے۔
پیارے اللہ میاں! یادوں کے
دریچے کھلے ہیں تو کیا کیا خوبصورت مناظر نظروں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ سوچتا ہوں
کہ سب کچھ لکھ ڈالوں۔ پھر مگر سوچتا ہوں جانے دوں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اس ڈائری کو
چھپا دوں اور کبھی سوچتا ہوں کہ اس ڈائری کو چھاپ دوں۔ مگر پھر سوچتا ہوں کہ چھاپنے
کیلئے اس ڈائری کا کوئی اختتام بھی ضروری ہے جبکہ آپکی تلاش کا سفر تو ابھی ٹھیک
سے شروع بھی نہیں ہوا تو میں اس کا اختتام کیونکر تحریر کرسکتا ہوں؟ جب مجھے اس
کہانی کا کوئی اختتام مل جائے گا تو ضرور لکھوں گا بھی اور چھاپوں گا بھی۔ تب
تک
کیلئے اجازت۔
20 – دسمبر - 2014
آج زندگی کا وہ عجیب سبق
ملا ہے جو اگر بچپن میں مل گیا ہوتا تو
شاید زندگی کا رخ کچھ اور ہوتا۔ آج ادارے
کے طرف سے ایک دستاویزی فلم بنانے کیلئے ایدھی کے میت خانے جانا پڑا ۔ مجھے میت
خانے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر جب پتہ چلا کے مجھے حماد کے ساتھ جانا پڑے
گا تو میرا دماغ گھوم گیا۔ حماد میرے ہی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا ہے۔ویسے تو بظاہر پڑھا لکھا ہے مگر اس کا تعلق دوسرے مسلک سے ہے اور وہ بات بے بات
مسلکی اختلافات کو بیچ لے آتا ہے اور پھر دفتر میں وہی گھسی پٹی گفتگو شروع ہوجاتی
ہے کہ کون کافر ہے اور کون مسلمان۔ زندگی
میں کبھی کراچی سے نکل کر حیدرآباد تک گیا نہیں ہوگا اور عالمی دانشور بن کر فتوے
صادر کرتا رہے گا کہ کس ملک نے کس ملک کے کہنے پر کس ملک پر حملہ کیا اور کس علاقے
میں کون سی عالمی طاقت کس وجہ سے حالات خراب کروا رہی ہے۔ اس کی ان ہی حرکات کی وجہ سے مجھے اب اس کی شکل
سے بھی چڑ آنے لگی ہے مگر چونکہ باس نے کہہ دیا تھا لہٰذا ساتھ جانا ضروری تھا۔ ہم دونوں نے اپنی اپنی موٹرسائکل نکالیں اور
سہراب گوٹھ پر واقع ایدھی کے میت سرد خانے پہنچ گئے۔
ایدھی کے سرد خانے پر نسیم
صاحب ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں
مختلف شعبہ جات دکھانے لے گئے۔ میں نے مائیک پکڑ لیا تھا اور حماد کیمرہ لیکر
ہمراہ تھا۔ مختلف شعبہ جات سے ہوتے ہوئے ہم اصل مردہ خانے پہنچ گئے جہاں مردوں کو
رکھا جاتا تھا۔ میرے پوچھنے پر نسیم صاحب نے بتایا کہ ایک وقت میں یہاں پندرہ سے
بیس جسدِ خاکی موجود ہوتے ہیں۔ میرے لیئے
یہ تعداد توقع سے زیادہ تھی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بلاتخصیص مذہب میت کو جلد اس
کی آخری آرام گاہ تک پہہنچانے کا رواج ہو وہاں ایک سرد خانے میں روزانہ اتنے
مرحومین کو رکھوایا جانا میرے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ نسیم صاحب میری حیرانی کو
بھانپتے ہوئے گویا ہوئے کہ چند ایک اجسام تو ان مرحومین کے ہوتے ہیں جنکے کسی
قریبی رشتہ دار نے پہنچنا ہوتا ہے اور میت کو محفوظ رکھنے کیلئے یہاں رکھوا دیا
جاتا ہے جبکہ باقی وہ افراد ہوتے ہیں جنکی مختلف حادثات میں اموات ہوئی ہوتی ہیں
اور ان کے ورثا کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ایسے افراد کو غسل دیکر ایدھی کے سردخانے
میں امانتا رکھوا دیا جاتا ہے اور اگر کوئی غریب اپنے پیاروں کو ڈھونڈتا ہوا پہنچ
جائے تو قانونی کاروائی کرکے لاش ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ اور اگر کسی بدقسمت
کے گھر والے پہنچ نہ پائیں تو کیا آپ لوگ ساری عمر اس لاشے کو یہیں محفوظ رکھتے
ہیں؟ اس بار سوال کرنے کی باری حماد کی
تھی۔ نسیم صاحب اس سوال پر ہربڑا کر بولے
کہ لاحول ولا قوۃ ! میاں، اگر کسی شخص کے
ورثا ایک معینہ مدت تک نہیں پہنچیں تو پھر ہم اس میت کو امانتا دفنا دیتے ہیں۔ اور
تدفین کے بعد اگر کوئی وارث آجائے تو ہمارے پاس فوٹو البم ہوتا ہے جس سے شناخت
کروا کر ان ورثا کو امانتی قبر کی نشاندہی کردی جاتی ہے۔ اب وہ اسے وہیں مدفون
رہنے دیں یا کہیں اور لے جائیں یہ ان کا فیصلہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عادت اگر
مستقل ہوجائے تو پھر وہ فطرت بن جاتی ہے۔ حماد اپنی خود ساختہ فطرت سے مجبور ہوکر
پوچھ بیٹھا کہ مگر آپ یہ کیسے طے کرتے ہیں کہ یہ مسلم میت ہے یا غیر مسلم؟ ہندو
اور مسلم میں تو مختون اور غیر مختون کی وجہ سے فرق معلوم ہوجاتا ہوگا مگر مسلمان
اور عیسائی میں کس طرح تمیز کرتے ہیں آپ؟
نسیم صاحب نے سوالیہ نظروں سے حماد کی طرف دیکھا تو اس نے فورا اپنے سوال کی تشریح
کرڈالی کہ چونکہ مسلمان اور عیسائی کی تدفین سے متعلق مذہبی رسومات مختلف ہیں اس
لیئے یہ فرق کرنا ضروری ہوتا ہوگا نا؟ نسیم صاحب کے ماتھے پر ایک بل تو آیا مگر پھر وہ لحاظ کرتے
ہوئے بولےکہ دیکھیں جی آج تک تو کبھی یہ مسئلہ نہیں پیش آیا کہ کسی مسلمان کو بغیر
جنازہ پڑھائے دفنا دیا گیا ہو یا کسی عیسائی کا جنازہ پڑھا دیا گیا ہو۔ ہمارا روز
کا کام ہے جی! پتہ چل جاتا ہے باڈی دیکھ کر ۔ اور کیسے پتہ چل جاتا ہے، آپ ایک
مہینہ کام کرلو یہاں پر آپ کو خود پتہ چل جائے گا۔
مجھے لگتا تھا کہ نسیم
صاحب سے ہونے والی اس عزت افزائی کے بعد حماد کو عقل آگئی ہوگی اور وہ مزید کوئی
سوال نہیں کرے گا مگر وہ حماد ہی کیا جو باز آجائے؟ نسیم صاحب نے ہماری ملاقات ان مولوی صاحب سے
کرائی جو ان مرحومین کی نماز جنازہ پڑھانے پر معمور تھے تو ایک مرتبہ پھر حماد کے
دماغ میں ایک شاندار سوال آگیا۔ اس نے بڑی عقیدت سے مولوی صاحب کا ہاتھ تھاما اور
ان کا مسلک پوچھ لیا۔ مولوی صاحب نے حماد کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اپنے غصے
کو قابو میں کرتے ہوئے اس سے بولے، میاں صاحبزادے! میرے مسلک سے آپ کے ادارے اور
اس دستاویزی فلم پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا
یہ فلم کسی ایک مخصوص مسلک کے افراد کیلئے بنائی جا رہی ہے؟ حماد اس جوابی سوال کیلئے تیار نہیں تھا۔ وہ
ایک لحظہ کیلئے ٹھٹکا اور پھر وضاحت آمیز انداز میں گویا ہوا کہ نہیں دراصل میں یہ
جاننا چاہ رہا تھا کہ لاش کی کسی بھی چیز سے اس کا مسلک تو معلوم نہیں ہوتا نا؟ تو
یہ احتمال بھی رہتا ہوگا کہ کسی شیعہ کا جنازہ
اور تدفین اہلسنت کے طریقے پر ہوجائے؟ یا اس ہی طرح کسی اہلسنت کا جنازہ و
تدفین شیعت کے طریق پر ہوجائے جبکہ وہ ساری عمر اہلسنت رہا ہو؟ بڑی گڑبڑ ہوجائے گی
نا پھر؟ امام صاحب کے چہرے پر غصے کے آثار مزید گہرے ہوگئے۔ میں نے چاہا کہ بڑھ کر
معاملہ سنبھالوں مگر امام صاحب نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے واپس اپنی نشست
پر بیٹھنے کا اشارہ کردیا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ شاید حماد پر ہاتھ چھوڑ بیٹھیں گےمگر
انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے پانی کا ایک گلاس اپنے حلق میں انڈیلا اور
حماد سے گویا ہوئے، تو شیعہ اور سنی جنازے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کچھ روشنی ڈالیں
گے؟ شیعہ جنازے میں تکبیرات نہیں ہوتیں یا
سنی جنازے میں؟ سنی جنازے میں درود نہیں پڑھا جاتا یا شیعہ جنازے میں؟ دونوں میں
سے کس جنازے میں میت کیلئے دعائے مغفرت نہیں کی جاتی؟ دونوں میں سے کس جنازے کو
قبر میں قبلہ رخ نہیں لٹایا جاتا؟ اور یہ تو میت کا احوال ہوا، کیا شیعہ کی قبر
میں حساب کتاب کیلئے فرشتوں کی جگہ کوئی
اور مخلوق آتی ہے یا اہلسنت کی قبر میں فرشتے نہیں آتے؟ میں زندگی میں پہلی بار حماد کو کسی بحث میں شرمندہ
ہوتے دیکھ رہا تھا۔ ویسے تو مجھے بھی اس سے شدید نفرت تھی مگر مجھے لگا کہ امام
صاحب بولتے رہے تو وہ ساری عمر سر نہیں اٹھا پائے گا۔ اسے اس کے حصے کا سبق مل چکا
تھا۔ میں نے اسکی طرف سے امام صاحب سے معذرت کی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ گیا۔
ابھی ہم دروازے تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ امام صاحب نے پیچھے سے آواز دی۔ میں نے
مڑ کر دیکھا تو امام صاحب اپنی نشست سے اٹھ کر ہماری طرف آرہے تھے۔ وہ ہمارے پاس
آئے اور حماد کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے، صاحبزادے! جانتے ہو قبر میں فرشتے جب
آتے ہیں تو کیا سوال کرتے ہیں؟ وہ پوچھتے
ہیں، ما ربک؟ ما رسولک؟ ما دینک؟ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا رسول کون ہے؟ تمہارا
دین کون سا ہے؟ سات سال مدرسے میں لگانے اور اس کے بعد ساری عمر دینی علوم کے حصول
میں خرچ کرنے کے باوجود بھی مجھے کوئی ایک ایسی روایت نہیں ملی جس میں لکھا ہو کہ
فرشتے تم سے سوال کریں گے کہ ، ما مسلک؟ تمہارا مسلک کیا تھا؟ خدا کے نزدیک تمہاری شناخت مسلمان کافی ہے۔ یہ
مسالک کی بحث زمین کے اوپر ہے۔ زمین کے نیچے تم سے تمہارے مسلک کے بارے میں نہیں
پوچھا جائے گا۔ اگر ہم انسان بھی فرشتہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی فرشتوں کی طرح
افراد سے یہ سول نہیں کرنا چاہیئے کہ ، ما مسلک؟ جاؤ، خدا تمہیں کامیاب کرے۔
میت خانے سے اٹھ کر دفتر
اور دفتر سے اٹھ کر گھر آنے کے بعد اور اب رات گئے اس ڈائری لکھتے وقت تک، دماغ
میں ایک ہی سوال گونج رہا ہے۔ دین تو آسانیاں پھیلانے اور انسانوں کو ایک کرنے
کیلئے آیا تھا۔ ہم نے اس دین کو تفریق کا ذریعہ کیوں بنا لیا؟ امام صاحب ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ ما مسلک؟ کی گردان
اگر چھوڑ دی جائے تو شاید دنیا بھر کے مسلمان ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن
ہوجائیں۔
چلو اب رات بہت ہوگئی ہے
میں سونے جاتا ہوں۔ اور ہاں، حماد جو پہلے کسی غیر مسلک کے ساتھ کھانا کھانا حرام
سمجھتا تھا اس نے مجھے آج رات کھانے پر گھر بلایا ہوا تھا۔ وہ اتنا برا انسان نہیں
ہے جیسا میں سمجھا تھا۔ اس کھانے کی تفصیل
پھر کبھی۔ شب بخیر
24 – جنوری - 2015
پیاری ڈائری! میں نے کہا
تھا کہ جب مجھے اس تلاش کا کوئی اختتام مل جائے گا تو میں ضرور لکھوں گا بھی اور
چھاپوں گا بھی، مگر وائے بدقسمتی کے تلاش مکمل نہ ہوسکی اور اس سے پہلے ہی
یہ سفر اختتام پذیر ہوگیا۔ البتہ مجھے لگتا ہے کہ اس سفر میں جو کچھ میں دیکھ چکا
ہوں وہ احباب کا مجھ پر ایک قرض ہے جو مجھے ان تک پہنچانا ہے۔ فی الوقت میرے پاس
کوئی اور زریعہ موجود نہیں سو میں ایک بار پھر تمہاری وساطت سے اپنا پیغام دنیا تک
پہنچانے کی کوشش کروں گا کہ شاید کبھی یہ ڈائری کسی کے ہاتھ لگ جائے اور وہ میری
اس داستان کو دنیا تک پہنچا دے۔
پیاری ڈائری! نبض تھم رہی
ہے اور سانس ٹوٹتی جارہی ہے۔ خیالات اپنا ربط کھوچکے ہیں اور الفاظ جو کبھی ہاتھ
باندھے میرے آگے کھڑے رہتے تھے اب کہیں کھو گئے ہیں۔ بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر
شاید کچھ بھی نہ کہہ پائوں۔ مگر ایک اطمینان ہے کہ آج کے بعد خدا کی ذات سے منسوب
جتنے سوالات تھے ان سب کے جوابات مجھے مل جائیں گے۔ گو تب میں تم سے بات نہیں
کرپائوں گا اور وہ سارے حقائق مجھ تک ہی محدود ہوکر رہ جائیں گے مگر شاید یہ سوال
اتنا ہی قیمتی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی قیمت اپنی زندگی سے چکائے بغیر جواب
نہیں پا سکتا۔
پیاری ڈائری! تم جانتی ہو
کہ ایک زمانے میں میں کہانیاں بھی لکھا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ نظم کے نام پر بھی واہی
تباہی بکتا رہا۔ احباب سمجھتے تھے کہ میں ایک اچھا ادیب بن سکتا ہوں۔ انہیں لگتا
تھا کہ میری تحاریر میں مقصدیت ہے۔ ان تحاریر کے آغاز اور انجام ایک اسلوب میں
ہوتے تھے۔ ترتیب اور روانی میری تحاریر کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ مگر جب کبھی یہ
ڈائری چھپے گی تو لوگ متحیر ہوں گے کہ اس ڈائری میں روانی اور اسلوب تو شاید ہو
مگر اس کے انجام میں ایک بہت بڑی تشنگی رہ گئی ہے۔ بالخصوص پچھلے چار صفحات (جنہیں
میں یہ کلمات لکھنے سے پہلے جلا چکا ہوں) نکالنے کے بعد یہ تحریر اپنی معنویت اور
مقصدیت کھو بیٹھی ہے۔ مگر میں کیا کروں؟ میں سرمد اور منصور کے انجام دیکھ چکا
ہوں۔ اور تم جانتی ہو کہ میں بنیادی طور پر ایک ڈرپوک انسان ہوں۔ سو میں چاہوں بھی
تو ان صفحات کو دنیا کے سامنے نہیں لا سکتا تھا۔ مجھے معاف کردینا۔
سگار بجھ چکا ہے ! نبض تھم
رہی ہے اور سانس ٹوٹتی جارہی ہے۔ خیالات اپنا ربط کھوچکے ہیں اور الفاظ جو کبھی
ہاتھ باندھے میرے آگے کھڑے رہتے تھے اب کہیں گم ہو گئے ہیں۔ بہت کچھ کہنا چاہتا
ہوں مگر ملک الموت سامنے کھڑا ہے اور میں جاتے جاتے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں گا کہ
لوگ بڑے آدمیوں کے آخری الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے ہیں (کہ بالعموم ان کے آخری
جملے ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں) اور رہتی دنیا تک کے سب سے بڑے آدمی
کے آخری الفاظ تھے کہ اللہ تعالٰی سب سے اچھے رفیق ہیں۔ پیاری ڈائری! دنیا کا سب
سے عظیم انسان سچ کہتا تھا ۔۔۔
عاطف عــــــــــــــــــــــــــ