ہفتہ، 9 اپریل، 2016

دیوتا

سگار کی خوشبو کمرے میں اداسی کی طرح پھیلی ہوئی تھی جبکہ سگار مدت ہوئی بجھ چکا تھا۔ میں نے ہمت جمع کرکے کہانی کے اس آخری باب کو بھی لکھنا شروع کردیا۔
یسیر
وہ بے احتیاطی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک غیر ضروری بچہ تھا۔   سات بہن بھائیوں میں اس کا نمبر چھٹا تھا۔ اس کے باپ کی جگہ کوئی بھی عقلمند انسان ہوتا تو شاید اس کی پیدائش سے بہت پہلے ہی نس بندی کروا چکا ہوتا مگر وہ تو حماقت میں بھی اس  کا باپ تھا، سو اسکی پیدائش ضروری تھی۔اس کی ماں مگر نسبتاُ عقلمند  واقع ہوئی تھی لہٰذا  اسکے بعد ایک مزید بچہ پیدا کرکے چل بسی۔ زندہ رہتی تو شاید آج بھی اس کے باپ کے لئے بچے پیدا کر رہی ہوتی۔
اس کی عمر محض چار سال واقع ہوئی تھی جب اس کی ماں چل بسی تھی۔ ماں کے حوالے سے اس کی یاد داشتیں بہت محدود تھیں۔ آج بھی اگر وہ آنکھیں بند کرکے اپنی ماں کو یاد کرنے کی کوشش کرتا تو اسے محض رات کی تاریکی میں بستر پر سسکتی اور کراہتی ایک عورت دکھتی۔ یا پھر کفن میں ملفوف وہ مسکراتی ہوئی عورت جو اپنے انجام پر بے حد مطمئن نظر آتی تھی۔ وہ منظر البتہ اسے بہت اچھی طرح یاد تھا جب اس کی ماں کا جنازہ گھر میں پڑا ہوا تھا اور وہ دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا تو کسی نے اس کو بٹھا کر سمجھایا تھا کہ تمہاری ماں اب تمہیں چھوڑ کر کبھی نہ واپس آنے کے لئے جا رہی ہے اور یہ سن کر اس نے بے ساختہ صحن کی طرف دوڑ لگا دی تھی جہاں اس کے بچپن کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا۔ اس کے دو ماموں، نانا ابو، اور اس کا باپ جنازے کی کاٹھی کو تھامے کھڑے تھے اور میت اٹھانے کی تیاری میں تھے۔ اسے آج بھی یاد تھا کہ کس طرح اس نے جنازے کو کاندھا دینے والے اپنے ماموں کا منہ اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے نوچ ڈالا تھا اور ان کے بالوں کو پکڑ کر جھول گیا تھا کہ اسے لگتا تھا کہ یہ لوگ زبردستی اس کی ماں کو اس سے الگ کر رہے تھے۔  کہتے ہیں کہ زندگی آپ کو سبق سکھاتی ہے کہ ہر وہ چیز جسے آپ سینت کر رکھنا چاہتے ہیں وہ تمام عمر آپ کے پاس نہیں رہتی ۔ مگر فلسفہ سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے اور بہرحال وہ عمر چار سال نہیں ہوتی۔ اور اس کے معاملے میں تو شاید چالیس برس بھی کافی نہیں تھے۔  اچھی بات یہ تھی کہ زندگی اور وہ ، دونوں اپنی کوششوں سے باز نہ آئے۔ وہ استاد کی طرح مار مار کر اسے سکھاتی رہی اور یہ ہمیشہ ڈھیٹ بن کر مسکراتےہوئے مار سہتا رہا مگر سیکھنے کا نام نہ لیا۔ استاد اور شاگرد کا یہ تعلق ساری عمر کے لئے تھا۔
کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر اس نے ایک مرتبہ مسودے کا جائزہ لیا اور پھر کہانی کو پھاڑ کر پھینک دیا۔  شاید اب وہ تخیلاتی کہانیوں اور اشاروں کنایوں میں اپنی بات کہنے کے مرحلے سے آگے نکل چکا تھا اور اب ایک سچی کہانی بیان کرنا چاہتا تھا۔  اس نے  پھٹے ہوئے مسودے پر حقارت سے تھوکا اور سگریٹ سلگا کر ایک بار پھر لکھنا شروع کردیا۔

شاعر
بچپن سے دیومالائی کہانیاں سننے کی وجہ سے اسے مہانتا کا شوق لاحق ہو چکا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ تھوڑا بڑا ہوا تو مطالعے جیسا موذی مرض لاحق ہوگیا اور شوق مہمیز پاتا چلا گیا۔ جس عمر میں بچے گلیوں میں غل مچاتے پھرتے تھے وہ اس عمر میں بھی کہانیوں کی پرفریب دنیا میں کھویا ہوتا تھا۔  اسے بس کہانیوں سے مطلب تھا۔ اس کی لغت میں اچھی کہانی اور بری کہانی جیسے الفاظ موجود نہیں تھے۔ اس کے نزدیک ہر کہانی اس قابل ہوتی تھی کہ بیان کی جائے اور کسی بھی کہانی کے بیان ہوجانے کے بعد ہر انسان پر لازم ہوجاتا تھا کہ اسے وقت دے،  اسے سنے، پڑھے، سمجھے۔
وہ بیچارہ یہ سمجھتا تھا کہ کہانی کار بڑا آدمی ہوتا ہے۔ اس غریب کو کیا معلوم تھا کہ کہانی کار بڑا آدمی نہیں ہوتا۔درد  بیان کر دینے میں کیا بڑائی؟  یہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے! بڑا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو کہانی رکھتے ہوئے بھی کہانی کو پی جانے کی ہمت رکھتا ہو۔ درد کو سہہ جانے کا ظرف رکھتا ہو۔ شدید تکلیف میں بھی بلند قہقہے لگا کر تقدیر کو چڑا سکتا ہو۔ خیر یہ تو معرفت کی باتیں ہیں اور معرفت کی باتیں  کتابیں پڑھ کر کون سیکھ پایا ہے؟ معرفت تو حالات نامی حکیمِ حاذق کی لات کھا کر ہی حاصل ہوتی  ہے۔
وقت کے ساتھ اسے لکھنے کا شوق بھی ہوچلا تھا مگر اس کے ساتھ المیہ یہ تھا کہ وہ فقط کہانی لکھ سکتا تھا، کہانی بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کی کہانیاں اگر بیان کر دی جائیں تو اس کی ذات قاری کے سامنے عیاں ہو جائے گی۔ وہ اس عریانی سے ڈرتا تھا۔ ایسا نہیں کہ میری اور آپ کی طرح اسے اس بات کا کوئی اشتیاق نہ ہو کہ دنیا اسے جانے، اسے پہچانے، اسے پہچاننے کے باوجود اس سے محبت کرے۔ مگر میری اور آپ کی طرح وہ بھی دنیا سے ڈرتا تھا۔ شاید اس ہی ڈر سے وہ ہر کہانی میں ڈھونڈ کر نئے کردار تراشتا تھا مگر ہر بار کہانی مکمل ہونے کے بعد اسے احساس ہوتا کہ ایک مرتبہ پھر اس نے ایک نئے کردار پر اپنی پرانی کہانی منطبق کر دی ہے۔اور ایک مرتبہ پھر وہ کہانی کو اس ہی کاٖغذات کے پلندے میں چھپا دیتا جہاں اس جیسی نجانے کتنی ہی کہانیاں خاک چاٹ رہی تھیں۔
بھڑاس کا المیہ  یہ ہے کہ اگر انسان کسی بھی وجہ سے بھڑاس نکال نہ سکے تو اس ہی بھڑاس سے بھڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسے اس بات کا ادراک تھا اور ہر دوسری کہانی میں وہ انسانی نفسیات کے اس دقیق مسئلے پر لکھتا بھی رہا تھامگر اس ادراک کے باوجود بھی وہ اپنی بھڑاس کو نکالنے سے قاصر تھا اور جانتے بوجھتے دن رات اس بھڑاس سے بھڑتا رہتا تھا۔ کبھی گھٹن بہت بڑھ جاتی تو وہ نظمیں لکھنا شروع کر دیتا۔اچھی چیز یہ تھی کہ وہ یہ نظمیں بیان بھی کر سکتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ شاعری کے اندر ملفوف پیغامات سطح عمومی سے بلند ہوتے ہیں اس لئے اگر وہ اپنی ذات یا اپنے آلام کو شاعری میں بیان کر بھی دے تو بھی قارئین اس تک پہنچ نہیں پائیں گے۔  تین چار نظمیں بیان کرنے کے بعد تو اسے  یہ بھی لگنے لگا کہ نثر اور شاعری میں ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ جو غربا  شعر کہنا نہیں جانتے وہ مجبورا نثر لکھتے ہیں۔شاعری کو لے کر اس کی یہ خوش فہمیاں شاید کچھ اور عرصہ قائم رہتیں مگر سوئے قسمت دو چار قارئین نے اس کی نظموں پر تبصرے لکھ مارے اور اسے لگا کہ وہ بیچ چوراہے پر ننگا ہوگیا۔ اس حادثے کے بعدوہ  شعر لکھنے سے باز تو خیر کیا آتا، شعر کہنے سے البتہ توبہ کر بیٹھا۔
یہاں پہنچ کر اس نے ایک مرتبہ کہانی کا جائزہ لیا اور خود کو کوستے ہوئے اس مسودے کو بھی لائٹر کے آگے لگا دیا۔ وہ جان چکا تھا کہ لکھنا اب اس کے بس کا روگ نہیں رہا ہے۔
عاشق
یوں تو دماغ میں کئی خیالات موجود تھے مگر وہ لکھ کر مٹانے کی اس مسلسل ورزش سے اکتا چکا تھا۔ لکھنے کی میز سے اٹھ  کر وہ کمرے کی کھڑکی میں آ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ کھڑکی اس مختصر سے باغ میں کھلتی تھی جہاں اس نے بہت شوق سے پھولدار پودے لگائے ہوئے تھے۔ خوشبو کا معاملہ بھی خواہشات کا سا ہے۔ آپ کتنا ہی روکنا چاہیں یہ اندر آنے کے لئے جگہ ڈھونڈ ہی لیتی ہیں۔ بچاؤ کا واحد راستہ یہ ہے آپ اپنی ناک بند کر لیں مگر انسانی المیہ یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی انسان کو خواہشات یا خوشبو کے خود تک نہ پہنچ پانے پر شکرگزار نہیں پایا تھا۔  اس نے لوگوں کو اس بند ناک کی کیفیت کو بطور ایک مجبوری ہی برتتے پایا تھا۔ رات کی رانی کی مسحور کن خوشبو اپنے ساتھ خیالات کا ایک ریلا لے کر آگئی تھی۔ اس نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر حسبِ استطاعت خوشبو کو اپنے اندر بھرلیا۔ شاید وہ معاملے کا دوسرا پہلو اب تک نہیں جانتا تھا کہ خوشبو اور خواہشات کے اندر ایک اور قدر مشترک یہ بھی ہے کہ ان دونوں کو اندر بند کر کے نہیں رکھا جا سکتا۔ ضبط کا دورانیہ طویل ہوسکتا ہے مگر اس ضبط کا ٹوٹنا لازم ہے۔ سانس کھینچنے کے بعد سانس باہر نکالنی ہی پڑتی ہے کہ اگلی سانس کھینچنے کے لئے پچھلی سانس کا باہر نکلنا ضروری ہے۔ جیسا کہ دل میں مقیم لوگ۔ اگلے کے آنے کے لئے پچھلے کا جانا لازم ہے وگرنہ نہ پہلا نکل پائے گا اور نہ دوسرا کبھی اپنی جگہ بنا پائے گا اور یہ مڈبھیڑ ویسی ہی جان لیوا ثابت ہوگی جیسے کہ سانسوں کے الجھنے کی صور ت میں لگنے والا پھندا۔ کیا بکواس باتیں ہیں یہ؟  بھلا کوئی لکھیک بھی ایسی فضول سوچ رکھ سکتا ہے؟  سوچ کے رتھ پر سوار بگٹٹ دوڑتا وہ یکایک رک کر خود پر ہی جھلا اٹھا اور  اس ہی جھلاہٹ کے عالم میں  کھڑکی کھلی چھوڑ کر لکھنے کی میز پر آبیٹھا اور سگار سلگا کر دوبارہ لکھنے بیٹھ گیا۔ اس بار وہ انسانی تعلقات کے لطیف موضوع پر کچھ لکھنا چاہتا تھا۔   
ان دونوں کا تعلق بہت عجیب تھا۔ شاید تمام تعلقات عجیب ہی ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ ہم تمام انسانوں کو یہ سوچنے کی اجازت دیتے ہیں کہ محض ان کا تعلق ہی دنیا میں سب سے نرالا ہے سو ہمیں ان دونوں کو بھی یہ سوچ رکھنے کی اجازت دینی چاہئے۔ وہ دونوں سوشل میڈیا پر پہلی بار ملے تھے اور وقت کے ساتھ،  جیسا کہ دو جنس مخالف کے بیچ ہوتا آیا ہے، ایک دوسرے کے لئے سب سے قیمتی ہوگئے ۔ زمانے نے ان کے بیچ میں رکاوٹ بننے کی سنّت بھرپور طریقے سے نبھائی مگر دنیا سے لڑ بھڑ کر بالآخر یہ دونوں شادی کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے بعد ساری عمر دنیا کو دکھانے کے لئے ہنسی خوشی رہنے لگے ۔
مختصر سی تحریر کو لکھنے کے بعد اس نے ایک بلند و بانگ قہقہہ لگایا  اور اس کہانی کو پھاڑ کر پھینک دیا کہ وہ جانتا تھا کہ جس زمانے میں وہ موجود تھا وہاں لوگ سچ کے گھونٹ کو شراب کے جام سے زیادہ پلید گردانتے تھے۔
ملنگ
اگلے دن جب وہ سو کر اٹھا تو رات کا خمار کچھ کچھ باقی تھا۔  اس نے سوچا کہ لکھنے بیٹھے مگر دیر سے اٹھنے کی وجہ سے دفتر کے لئے وقت کم بچا تھا سو جلدی جلدی تیار ہوکر دفتر روانہ ہوگیا۔ اس ہی جلدی کے چکر میں وہ ناشتہ کرنا بھی بھول گیا اور دفتر پہنچتے ہی مصروفیات نے ایسا گھیرا کہ ناشتے کے لئے وقت نکال ہی نہیں سکا۔ ان سب کے لازمی نتیجے میں بھوک اب اس کے سر پر سوار ہونے لگی تھی سو کھانے کے وقفے سے پندرہ منٹ پہلے ہی وہ دفتر سے نکل آیا۔دفتر سے باہر نکلتے وقت وہ شدید جلدی میں تھا اور شاید اس ہی وجہ سے سامنے سے آتے ہوئے ملنگ کو نہ دیکھ سکا اور اس سے ٹکرا گیا۔
اس نے ملنگ کو سہارا دے کر گرنے سے بچایا اور چاہا کہ معذرت کر کے آگے بڑھ جائے مگر وہ دامن گیر ہوگیا کہ سخی سرکار کچھ ملنگ کو دے کر جاؤ اور من کی مراد پاؤ۔ تنخواہ کے آنے میں ابھی دن تھے اور آج وہ جیب میں فقط دو سو روپے رکھ کر نکلا تھا کہ سو روپے کا پیٹرول ڈلوا کر باقی پیسوں سے دوپہر کا کھانا کھا لے گا۔ اس نے بہت  شرمندگی کے ساتھ اس ملنگ سے معذرت کرنی چاہی مگر وہ بضد تھا کہ آج اس کے کھانے کا خرچ یہ اٹھائے۔ جب نجات کی کوئی صورت نہ دکھی تو اس نے اس ملنگ کو اپنے ساتھ کھانا بانٹنے کی پیشکش کردی جو اس نے بلا تردد قبول بھی کر لی۔
نیو چالی کے ایک ہوٹل پر بیٹھ کر اس  نے ان دونوں کے لئے دال منگوالی اور کھانا آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ جتنی دیر وہ بیرے کی راہ تک رہا تھا اس دوران وہ ملنگ اسے گھورنے میں مصروف تھا۔ جیسے ہی وہ آرڈر دے کر فارغ ہوا تو وہ ملنگ بول اٹھا کہ، لڑکے! من چاہی خواہشات کا پورا ہو جانا اکثر زندگی سے لطف ختم کر دیتا ہے۔ زندگی تب تک ہی مزہ دیتی ہے جب تک اس میں  کسی لا حاصل کی جستجو شامل ہو۔ خواہشات کا ہونا اچھی چیز ہے۔ خواہشات کے پورے نہ ہونے پر برا ماننا اچھی چیز نہیں! باز آجا!
وہ حیرانی سے اس ملنگ کی شکل دیکھ رہا تھا۔ملنگ نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ایک مسکراہٹ اس کی سمت اچھالی  اور دوبارہ گویا ہوا ، لڑکے! حسرتوں کا ہونا ایک نعمت ہے۔ایک بڑی کسک ہم جیسے انسانوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ بڑی کسک خدا جانے کتنی چھوٹی محرومیوں کو ڈھانکے ہوئے ہے۔ جس دن یہ بڑی کسک ختم ہوگئی اس دن وہ تمام چھوٹی چھوٹی محرومیاں اور تکالیف جو اس سے پہلے اس ایک بڑی تکلیف کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں وہ نکل کر سامنے آ جائیں گی۔ تجھے زچ کر چھوڑیں گی۔ سو جب تک یہ بڑی خواہش باقی ہے اس سے مستفید ہو۔ سینے میں جلنے والی اس آگ سے ہاتھ تاپ، روٹی بنا، زندگی کے لئے درکار حرارت کشید کر۔ چل اب تیری دال آگئی ہے، پیٹ کی آگ بجھا اور خیال رکھ کہ سینے کی آگ بجھ نہ پائے! جس دن یہ آگ بجھ گئی اس کے بعد بدن میں حرارت نہیں رہنی اور تو یہ بات جانتا ہے کہ ٹھنڈا جسم تو مردے کا ہوتا ہے۔ خوش رہ! جیتا رہ! جلتا رہ!
وہ سکتے کی سی کیفیت میں اس ملنگ کی باتیں سن رہا تھا۔ کب وہ ملنگ اس کے سامنے سے اٹھ کر چلا گیا اسے دھیان ہی نہیں تھا۔ ہوش تب آیا جب بیرے نے اس کا کاندھا ہلاتے ہوئے دریافت کیا کہ آیا اسے کچھ اور چیز تو درکار نہیں ہے؟ اس نے بیرے کو رخصت کرکے سامنے میز پر پڑی دال کو دیکھا اور سوچا کہ کھانا شروع کرے مگر بھوک تو شاید اس ملنگ کے ساتھ ہی رخصت ہوچکی تھی۔ وہ بیرے کو بل ادا کرکے واپس دفتر کے لئے نکل پڑا۔
دیوتا
 میں نے سوچا تھا کہ اس کو دفتر میں بھیجنے کے بعد میں دفتر کی صورتحال تراشوں گا یا پھر دفتر سے واپسی کا کوئی واقعہ یا گھر پہنچنے کے بعد کی اور کوئی صورتحال ۔ مگر کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے ان تمام مناظر کو ترک کر کے کہانی کو وہیں روکنے اور اس ملاقات کو ہی کہانی کا انجام بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ کہانی کے انجام سے مطمئن ہوکر میں نے لکھنے کا رجسٹر بند کردیااورکھڑکی کے سامنے رکھی اس آرم چیئر میں دراز ہوگیا۔ جی ہاں وہی کھڑکی جس کا ذکر آپ نے عاشق نامی کہانی میں پڑھ رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ مزید الجھن کا شکار ہوں میں آپ پر واضح کرتا چلوں کہ میرا نام دیوتا ہے۔  چونکنے کی ضرورت نہیں! والدین نے میرا نام بھی آپ ہی کے ناموں کی طرح کا کچھ رکھا تھا مگر آپ ہی کی طرح میں نے بھی بڑے ہوکر اپنے لئے خود یہ نام تجویز کیا تھا  اور آپ سے تھوڑی زیادہ ہمت دکھاتے ہوئے محض اپنے آپ کو دیوتا سمجھنے پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ دنیا سے بھی اپنے آپ کو یہی کہلوانا چاہتا تھا۔ یسیر، شاعر، عاشق،  اور ان تینوں کی کہانی بیان کرنے والا، وہ! اور اور اس وہ کی کہانی میں آنے والا ملنگ، سب میری ہی مخلوق ہیں! میں نے ان کرداروں کو تخلیق کیا تھا اور ان کی کہانیوں کے اپنے حساب سے بہتر انجام تک پہنچانے کے بعد میں اپنے لکھنے کے کمرے میں آرم چیئر پر دراز ،سگار سلگا کر بیٹھا ہوا تھا۔
میں آنکھیں موند کر سگار کے دھویں کے غرارے کر رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے گرد کچھ لوگ موجود ہیں۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ میرے گرد چار لوگ موجود تھے۔  ایک چار سالہ بچہ ، ایک پینتیس برس کا جوان، ایک ادھیڑ عمر مرد، اور ایک اٹھائیس برس کا نوجوان۔ مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھے کہ آنے والے کون تھے۔ یہ چاروں وہی یسیر، شاعر، عاشق اور لکھیک تھے جنہیں میں نے تھوڑی دیر پہلے تخلیق کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے ان کے آنے کی غایت دریافت کرتا وہ چاروں ایک ساتھ بول پڑے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چار لوگوں کے ایک ساتھ بولنے پر کمرا مچھلی بازار بن جاتا مگر میں نے محسوس کیا کہ ان چاروں کے ایک ساتھ بولنے کے باوجود میں ان چاروں کو سن سکتا تھا اور نہ صرف سن سکتا تھا بلکہ سمجھ بھی سکتا تھا۔ وہ چاروں اس بات پر احتجاج کرنے جمع ہوئے تھے کہ ان کے اعتبار سے میں نے کہانی کا انجام اچھا نہیں کیا تھا ۔میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی کہانیوں کا اس سے بہتر انجام ممکن نہیں تھا۔ ہر مخلوق کی طرح انہوں نے بھی اپنے خالق کو یہ یقین دلانے کی کوشش شروع کر دی کہ وہ اس سے بہتر جانتے ہیں۔  میں نے  ایک بار پھر اپنا جملہ دہرادیا کہ ان کی کہانیوں کا کوئی اور انجام ممکن نہیں ۔ میری بات سن کر وہ چاروں گویا ہوئے کہ آیا میں انہیں اپنی مخلوقات میں سب سے حقیر سمجھتا ہوں۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میرا جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بولے کہ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کی گزشتہ تمام کہانیوں میں کہانی کے مرکزی کرداروں کو موت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا گیا جبکہ ہمیں آپ نے زندہ جانے دیا۔ یہ امتیاز نہیں تو اور کیا ہے؟  مجھے اب اس گفتگو میں مزا آرہا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جن تمام کہانیوں کا یہ ذکر کر رہے ہیں ان میں کہانیوں کے مرکزی کرداروں کے لئے یہ موت جزا تھی یا سزا؟ کچھ سوچنے کے بعد وہ چاروں متفقہ طور پر بولے کہ ان کرداروں کے لئے وہ موت سزا تھی کیونکہ اگر وہ رکتے تو زندگی ان کے لئے آسان ہونے ہی والی تھی۔ اور تم چاروں کے لئے یہ موت سزا ہے یا جزا؟ میرے اس سوال پر بغیر سوچے وہ چاروں چلائے کہ ہماری زندگیاں جس طرح تراشی گئی ہیں ان حالات میں موت ہمارے اوپر ایک احسان ہوگی۔ میں نے مسکرا کر ان چاروں کی جانب دیکھا اور یہ کہتے ہوئے دوبارہ آنکھیں موند لیں کہ میری دنیا میں موت یا دوام دونوں بحیثیت سزا ہی ملتے ہیں۔ جو موت مانگتا ہے اسے زندگی دی جاتی ہے اور جو زندگی کا طالب ہوتا ہے وہ یکایک مر جاتا ہے۔ کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی رہی اور اس کے بعد ایک چار سالہ بچے کی سسکیوں بھری آواز ابھری، مگر آپ اپنی ہی بنائی ہوئی مخلوق کے ساتھ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ میں نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا تو اس کے معصوم رخسار آنسوؤں سے تر تھے۔ میں اس کی سمت جھکا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سفاکی سے بول اٹھا، یہی سوال میں نے بھی اپنے خالق سے کیا تھا۔ جس دن مجھے جواب مل گیا میں تمہیں بھی ضرور بتاؤں گا۔
اس کو یہ کہہ کر میں آنکھیں موند کر واپس اپنی کرسی میں دراز ہوگیا ۔ کافی دیر بعد جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ لوگ واپس جاچکے تھے تو میں نے آنکھیں کھول دیں اور دوبارہ جا کر لکھنے کی میز پر بیٹھ گیا۔ خالق اور اور مخلوق کی ملاقات کی اس کہانی کے بغیر وہ کہانی ادھوری تھی۔
سگار کی خوشبو کمرے میں اداسی کی طرح پھیلی ہوئی تھی جبکہ سگار مدت ہوئی بجھ چکا تھا۔ میں نے ہمت جمع کرکے کہانی کے اس آخری باب کو بھی لکھنا شروع کردیا۔

ختم شد

ہفتہ، 2 اپریل، 2016

غیرت مند

میں جب کمرے میں پہنچا تو عروسی لباس میں وہ ڈری، سہمی، بہت سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ محض سترہ سال کی عمر میں اسے بیاہ کر بھیج دیا گیا تھا اور شادی سے ایک ہفتہ پہلے سے نصائح کے نام پر شادی زدہ خواتین نے  آنے والی زندگی کے جو نقشے کھینچے تھے اس کے بعد اس کا سہم جانا نہایت قابلِ فہم تھا۔

ایسا نہیں کہ وہ کوئی بہت سادہ لڑکی رہی ہو۔ اپنی دوستوں کے حلقے میں وہ گولی کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اور وہ تھی بھی
 گولی جیسی۔ زبان تو خیر گولی کی طرح چلتی ہی تھی ساتھ میں سکول اور اس کے بعد کالج میں بھی وہ ہمیشہ دوڑ اور جمناسٹک میں سب سے آگے رہتی، اور جب کھیلتی تو جیت کر لوٹتی تھی۔ ابھی وہ گیارہویں میں ہی تھی کہ کالج کی ایک لیکچرر کو اپنے چھوٹے بھائی عاطف کے لئے پسند آگئی اور بارہویں کے امتحانات سے فراغت پاتے ہی اس کے ہاتھ پیلے کر دیے گئے اور آج وہ رخصت ہوکر اپنے سسرال پہنچ چکی تھی۔

ابتدائی سلام دعا کے درمیان وہ جھجکتی ہی رہی مگرمیں  نے یہ مرحلہ اس کے لئے آسان کر دیا اور اسے بولنے کا تردد نہیں
 کرنا پڑا کہ سارا وقت میں ہی بولتا رہا اور یہ خاموشی سے سر جھکائے  میری سابقہ زندگی کے کارنامے سنتی رہی۔تمہیدی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے مطلب پر آگیا اور اٹھ کر کمرے کی بتی بجھا دی۔

فراغت کے بعد جب میں نے اٹھ کر کمرے کی بتی دوبارہ جلائی تو بستر کی چادر ویسی ہی صاف تھی جیسی کہ اس کے اس کمرے میں آنے سے پہلے تھی۔ میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے اس سے صاف صاف پوچھ لیا کہ آیا وہ مجھ سے پہلے بھی کسی مرد کے ساتھ تعلقات رکھ چکی ہے۔  میرے سوال پر کچھ دیر کے لئے تو وہ بھونچکی سی ہو گئی مگر پھر اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس نے حیرت اور گھن کے ساتھ میری طرف دیکھا اور بولی، نہیں! آپ ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں؟  میں نے اس کی توجہ بستر کی چادر کی جانب کرائی جہاں خون کا ایک معمولی دھبا تک موجود نہ تھا۔ اس نے معصومیت سے جوابی سوال داغ دیا کہ اس بات کا اس کے بدکردار ہونے سے کیا تعلق؟ تس پہ میں نے جھلا کر اسے تفصیل سے سمجھادیا اور ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ غیرتمند مرد اس معاملے میں بیویوں کا خون بھی کردیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ میرے سمجھانے پر وہ شرمندہ ہوتی ، اس نے الٹا مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ  کر دی کہ آیا اس پردہ بکارت کے ضائع ہونے کی صرف یہی ایک صورت ہے؟ اور  اگر آپ کے بقول خدا نے باکرہ عورت کی پہچان کے لئے یہ نشانی رکھی ہے تو دوسری بار یہ فعل انجام دینے والے مرد کے لئے خدا کی جانب سے کیا نشانی رکھی گئی ہے؟ یہ بکارت محض عورت کے لئے ہی کیوں لازم ہے؟  اور آیا غیرتمند خواتین کو بھی مردوں کی طرح اپنے شوہروں کو اس بات پر مار دینا چاہئے؟


شادی پر اٹھنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کے باوجود مطلوبہ چیز نہ ملنے پر میرا خون ویسے ہی کھول رہا تھااور اوپر سے اس کے فضول کے سوالات نے میرا پارہ اور چڑھا دیا۔ اب میرا خرچہ پورا ہونے کے لئے کہیں نہ کہیں سے تو خون نکلنا ضروری ہوگیا تھا۔ میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا گلدان اٹھایا اور اس کے منہ پر ضربیں لگانی شروع کردیں اوراس وقت تک نہ رکا جب تک وہ رنڈی بے جان ہوکر میرے ہاتھوں میں نہیں جھول گئی۔ اس کی چیخوں کی آواز سن کر کمرے کے باہر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے تھے اور مسلسل دروازہ پیٹ رہے تھے مگر میں مطمئن تھا کہ آج کے بعد میری غیرتمندی پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔

نوٹ: اس کہانی کا اصل عنوان "رنڈی" ہے مگر آپ جیسے منافقین کی سہولت کے لئے اس کا عنوان تبدیل کردیا گیا ہے   تاکہ  اس تحریر کو پھیلاتے ہوئے آپ کی  خودساختہ تہذیب نہ آڑے آئے 

بلاگ فالوورز

آمدورفت