اتوار، 13 اگست، 2017

مندر

تو بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں  بہت سارے لوگ رہتے تھے۔ نانا ابا نے کہانی کہنا شروع کی ہی تھی کہ جویریہ بول اٹھی، مگر گاؤں میں جب بہت زیادہ لوگ رہنے لگیں تو پھر وہ گاؤں تو نہیں ہوا نا؟ پھر تو وہ قصبہ یا چھوٹا شہر ہوجائے گا؟  نانا ابا  ایک لحظے کے لئے چونکے اور پھر سادگی سے بولے، مگر چونکہ اس گاؤں کے لوگ آپ کی طرح ذہین نہیں تھے تو وہ خود کو گاؤں ہی سمجھتے تھے اور کیونکہ انہیں گاؤں والا کہنے سے کسی اور گاؤں والے کی دل آزاری نہیں ہوتی لہٰذا اصولی طور پر ہمیں  ان کی اس معصوم  خواہش کا احترام کرنا چاہئے ۔ نانا ابو  آپ اس کو چھوڑیں کہانی سنائیں۔ ننھے شہود کو جویریہ کی نکتہ چینی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔  نانا ابا نے مسکرا کر اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہانی دوبارہ شروع کردی۔ تو بھئی جیسا کہ میں نے بتایا اس گاؤں میں بہت سارے لوگ رہتے تھے اور مل جل کر رہتے تھے۔ چھوٹی موٹی باتیں تو ہر جگہ ہی رہتی ہیں مگر عمومی طور پر وہ پر امن اور پرسکون طور پر ساتھ رہنے والے لوگ تھے۔  اس گاؤں کے سیانوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس طرح جوڑ کے رکھنے میں اس مندر کا بہت بڑا ہاتھ تھا کہ جس میں پرلوک سے آئے دیوی دیوتا موجود تھے۔ گاؤں میں ذرا بھی اونچ نیچ ہوتی تو یہ دیوی دیوتا بیچ میں پڑ کر اسے ختم کرا دیتے۔ جسے چاہتے نواز دیتے اور جسے چاہتے عمران دیتے۔کوئی پیار سے مان جاتا تو کوئی لالچ سے اور جو کوئی ان دونوں سے نہ مانتا تو اس کے لئے تو ڈنڈا تھا ہی۔ غرضیکہ پورا گاؤں ان دیوی دیوتاؤں کے دم سے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔
پیارے بچو!  دنیا میں  حماقت اور ذلالت کے علاوہ کوئی چیز مستقل نہیں ہے۔ سو گاؤں والوں کے یہ دن بھی مستقل نہیں رہے۔ پر لوک کے اپنے حالات خراب ہونے کی وجہ سے دیوی دیوتاؤں نے اعلان کر دیا  کہ وہ مندر خالی کر کے واپس پرلوک سدھار رہے ہیں۔ چند ایک بدخواہوں نے موقع دیکھ کر لوگوں کو بھڑکانا شروع کردیا کہ اب جب مندر  خالی ہونے ہی لگا ہے تو اس مندر کو یا تو گرا دیا جائے یا پھر اس میں تالا ڈال دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس مندر میں گھس کر دیوی یا دیوتا نہ بن سکے۔ لوگ انہیں یاد دلاتے کہ ان ہی دیوتاؤں کی وجہ سے گاؤں کا نظام قائم ہے تو یہ بدخواہ جواب میں کہتے کہ نظام قائم رکھنے کی قیمت کے طور پر یہ جو دیوی دیوتاؤں کو ہر قسم کی تنقید اور سوالات سے استثنا حاصل ہے وہ بہت بڑی قیمت ہے۔ یہ دیوی دیوتا جو من میں آئے کر گزریں کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ کہنا تو دور کی بات، ان کے بارے میں غلط سوچتا یا سوال کرتا پا لیا جائے تو غریب کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔
گاؤں والے مگر عقل مند تھے لہٰذا ان  کی باتوں میں نہ آئے۔  اور آتے بھی کیسے؟ دیویوں کی کرپا سے ان لوگوں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور جلد ہی یہ لوگ یا تو چوریاں پکڑے جانے پر جیل میں پائے گئے یا سڑک پر جھگڑتے ہوئے قتل ہوگئے۔ گاؤں والوں نے ان کے انجام سے عبرت پکڑی اور ہمیشہ کے لئے ان باتوں پر وقت ضائع کرنے سے توبہ کرلی۔
تو پھر وہ دیوی دیوتا وہاں رکے یا چلے گئے؟  جویریہ نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے نانا ابا سے سوال کیا جو کہانی یہاں تک پہنچا کر خاموش ہوگئے تھے  اور خلا میں تک رہے تھے۔ جویریہ کے سوال کو سن کر وہ چونک اٹھے اور بولے، ہاں وہ دیوی دیوتا تو چلے گئے مگر ان کے جانے کے بعد گاؤں کے دو حصے کر دئے گئے اور گاؤں کے ساتھ ساتھ مندر بھی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ دونوں مندروں میں متعلقہ گاؤں کے اپنے اپنے دیوتا لاکر سجا دئے گئے اور گاؤں کا کاروبار ویسے ہی چلنے لگا جیسے صدیوں سے چلتا آیا تھا۔

تو کیا یہ نئے دیوتا بھی پرانے دیوتاؤں جیسے ہی تھے؟ جویریہ کہانی کو گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہتی تھی۔  نانا ابا مسکرائے، یا شاید انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی ، بہر حال ان کے ہونٹ مڑے ضرور اور وہ اس مسکراہٹ یا نیم مسکراہٹ کے درمیان بولے، بالکل ویسے ہی! اتنے ہی سفاک، ہٹ دھرم اور عوام کو جوتی کی نوک پر رکھ کر انتظامی حکم چلانے والے۔ ایک طرف کے گاؤں کے مندر کے دیوتا نے تو خود اپنے ہی گاؤں میں یہ کہہ کر مزید تقسیم کی بنیاد بھی رکھ دی کہ جو زبان میں بولوں گا پورے گاؤں میں کسی کو وہ زبان آتی ہو یا نہیں اسے بہرحال وہی زبان بولنی ہوگی۔ اور جو یہ زبان نہیں بول سکتا وہ خواہ گونگا رہے میری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نانا ابا بھی شاید اپنی ہی دھن میں کچھ مزید بھی بولتے مگر باہر سے رشید ماموں نے آکر بتایا کہ پڑوس والے فوجی انکل جو نانا ابا کے بچپن کے دوست ہیں ،نانا ابا کی خیریت پوچھنے آئے ہیں۔   یہ سنتے ہی نانا ابا نے اپنا پاندان اٹھایا اور چلنے لگے۔ شہود نے پیچھے سے آواز لگائی ، نانا ابا کہانی تو مکمل کرتے جائیں؟ نانا ابا کمرے کے دروازے پر رکے اور مڑ کر بولے، دیوتا کے بارے میں جو آخری بات میں نے کی وہ محض ایک افواہ ہے۔ وہ دیوتا واقعی اس قابل تھا کہ اس کی پوجا کی جائے اور اسے مندر میں رکھا جائے۔ اس ہی کے وجود کے دم سے گاؤں میں آج بھی سب ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ اب بھاگ جاؤ۔ اگلی کہانی اگلی بار!

ہفتہ، 12 اگست، 2017

کہانی

تخلیق درد سے عبارت ہوتی ہے۔ بنا درد کے تخلیق ایسی ہی ہے جیسے   مہمانوں کے سامنے ناشتے کی میز پر ندیدی  ہوتی اولاد۔  انسان دیکھ دیکھ کر پچھتاتا ہے اور دعا کرتا ہے  لوگ بھول جائیں کہ یہ آپ کی تخلیق ہے۔میری بات سن کر اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولا،اس حساب سے تو تم اپنی تمام تخلیقات سے خائف ہوگے؟ تمہارے جیسے سفاک انسان کے اندر درد محسوس کرنے کی صفت ہے ہی کب کہ تم درد کو سینچ کر اسے کہانی میں تبدیل کر سکو؟  میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور ایک بار پھر اسے یاد دلایا کہ  سخن طرازی، سفاکی کا مہذب نام ہے۔   جب انسان کا ظرف اتنا محدود ہوجائے کہ وہ ذرا سا درد بھی برداشت نہ کرسکے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف کو قرطاس پر انڈیل کر  اپنا درد معاشرے میں بانٹ دے تو آپ اسے ادیب کہتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ دردانڈیلے  گا اتنا ہی بڑا ادیب کہلائے گا۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر جھنجھلا کر بولا، یار بندے نے گہری باتیں ہی سننی ہوں تو چاء کے ہوٹل یا محلے کے ٹھیے پر جا کر نہ بیٹھ جائے؟ کہانی سنانے کے لئے بلایا تھا کہانی سنا!  میں نے رحم آمیز نظروں سے اسے دیکھا اور  صفحات اس کے آگے کر دیے جن میں میری لکھی  وہ بغیر درد کی تخلیقات موجود تھیں۔
ونی
باچا خان نے کہا تھا کہ کسی معاشرے کو پرکھنا ہو تو دیکھ لو کہ وہ اپنی خواتین کو کس طرح  برتتا ہے۔ اس نے  ٹوئیٹر پر جا کر یہ جملہ لکھا اور بے صبری سے آنے والے ریٹوئیٹ کا انتظار کرنے لگا۔ انتظار زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا اور چند ہی لمحوں میں ریٹوئیٹ کی تعداد  بڑھنا شروع ہوگئی۔ اس نے اطمینان  کا سانس لیا اور صوفے  پر ہی ٹانگیں پھیلا لیں۔  ریٹوئیٹ کی تعداد تھوڑی سی بڑھ جاتی تو اس نے اسکرین شاٹ لے کر ابھی فیس بک پر بھی پوسٹ کرنا تھا۔ جی نہیں! اسے لائکس یا ریٹوئیٹ جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اور اگر تھا بھی تو اس میں کون سی بری بات ہے؟ کسے نہیں ہوتا؟ جس  زمانے میں وہ موجود تھا وہاں لوگ ریٹوئیٹ اور لائک  حاصل کرنے کے لئے ان لوگوں تک کے تلوے چاٹنے کے لئے تیار تھے جنہیں حقیقی زندگی میں جوتے مارنا بھی جوتوں کی توہین تھی۔ سو اگر اس نے یہ کام کر بھی لیا تو کون گناہ کیا؟ جب پورا معاشرہ ہی گناہ پر سہمت ہوجائے تو پھر وہ چیز گناہ رہتی ہی کب ہے؟ پھر وہ فیشن کہلاتی ہے اور فیشن کرنا کون سا گناہ ہے؟ خیر یہ تو اضافی گفتگو ہے۔ بات تو یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ اس نے یہ جملہ توجہ حاصل کرنے کے لئے نہیں لکھا تھا۔ یہ جملہ تو اس نے توجہ دلانے کے لئے لکھا تھا۔ اور بات ہی کچھ ایسی تھی کہ یہ توجہ دلانا ضروری ہوگیا تھا۔ ملک کے ایک حصے سے  کسی گاؤں کی خبر آئی تھی  کہ وہاں کسی آدمی نے علاقے  کے لوگوں کے پیسے چرا لئے تھے اور پکڑا گیا تھا۔ گاؤں کے لوگ شدید طیش میں تھے۔ انہوں نے پنچایت بلائی اور پنچایت نے فیصلہ سنا دیا کہ چونکہ یہ آدمی چور ہے لہٰذا اس آدمی کی بیٹی کی عزت سب پر حلال ہے۔
اس نے جب سے یہ خبر پڑھی تھی اس کے اندر ایک عجیب سی بے بسی کی آگ جل اٹھی تھی۔   رہ رہ کر سلگتا تھا کہ ہم کس جاہل معاشرے میں جیتے ہیں؟ باپ کے کرموں کی سزا کوئی بیٹی کو کیسے دے سکتا ہے؟ گناہ کوئی بھی کرے سزا عورت ہی کیوں بھگتتی ہے؟  تعلیم کس حد تک ضرور ی  ہے اس کا اندازہ ان جاہلوں کو دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ کیا ہوتا اگر یہ بھی پڑھ لکھ جاتے؟  ایسی خبریں تو نہ سننے کو ملتیں! عورت کی عزت تو محفوظ ہوتی!اور شاید ان جاہلوں کی اکثریت کی وجہ سے ہی ہم پر ایسے گھٹیا لوگ مسلط ہیں! سوچ جب یہاں پر پہنچی تو اس نے ایک بار پھر موبائل اٹھا لیا اور یہ خیال لوگوں تک پہنچانے کے لئے ٹوئیٹر کی اپلیکیشن کھول لی۔ مگر ٹوئیٹر کھولتے ہی سامنے ایک خبر موجود تھی کہ فلاں سیاستدان  کی چوری پکڑی جا چکی ہے مگر وہ اب بھی اپنے گناہوں سے انکاری ہے۔ غصہ تو پہلے ہی شدید تھا مگر یہ تازہ خبر پڑھ کر آگ مزید بھڑک اٹھی۔ اس نے لکھا، ان حرامیوں کی ان ہی حرکات کی وجہ سے ان کی بیٹیاں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں۔ اور یہ لکھ  کر موبائل ایک طرف پھینک دیا۔
یار یہ کیا بکواس ہے؟ تو اسے کہانی کہتا ہے؟  اس نے کاغذ پر سے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا اورتاسف سے گردن ہلانے لگا۔   میں نےجھلا کر کہا، میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ بغیر درد کے تخلیق ۔۔۔ ہاں ہاں! دوبارہ فلسفے کی کلاس نہ شروع کر۔ پہلے باقی کہانی دیکھ لوں پھر بات کرتا ہوں۔ اس نے میری بات کاٹ کر دوسری کہانی پڑھنا شروع کردی۔

حامد
مریض کا نام کیا تھا؟
جی حامد!
حامد؟   ارے یہ تو میرے بیٹے کا نام بھی ہے۔
مگر آپ تو شکل سے اتنے احمق نہیں لگتے کہ بیٹے کا نام حامد رکھیں؟
آپ ہوش میں تو ہیں؟
آپ کو کیا لگتا ہے؟
معاف کیجئے گا میں غصہ کر گیا۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔
آپ نہیں سمجھ سکتے ۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ سمجھ سکتے ہوتے تو اپنے بیٹے کا نام حامد کیوں رکھتے؟
آخر حامد نام میں کیا برائی ہے؟
آپ حامد کا  مطلب جانتے ہیں؟
جی ہاں! حمد اور تعریف کرنے والا
اور تعریف کرنے والے کا ہمارے معاشرے میں کیا مقام ہے؟
جی بہت اونچا مقام ہے
ہاں سو تو ہے ۔۔۔ مگر وہ تو تب ہے نا جب مسلسل تعریف کرنے کا موقع دیا جائے۔
میں سمجھا نہیں ۔۔
میرا بیٹا بھی نہیں سمجھا تھا۔ حالانکہ کتنے سامنے کی بات ہے کہ جب کوئی نیا تعریف کرنے والا سر اٹھاتا ہے تو پرانے تعریف کرنے والے اسے روند ڈالتے ہیں۔
مجھے آپ کی باتوں کی کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ مگر میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ براہِ کرم فارم بھروادیجئے۔
جی بھریے
وجہء موت کیا تھی
جی وہ گاڑی  کے نیچے آگیا تھا۔
اوہ!  گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہوگیا؟
جی نہیں۔ گاڑی کی ٹکر سے تو بچ گیا تھا مگر اس کے بعد گاڑی کے نہ رکنے کا صدمہ نہ جھیل سکا اور چل بسا!

اس نے کاغذ ہوا میں لہرائے اور بولا ، انہیں  تو کہانیاں کہتا ہے؟  نہ ان میں زبان کی چاشنی ہے اورنہ  بیان کا سلیقہ۔ نہ الفاظ کو برتنے کی تمیز ہے اور  نہ ہی  معاشرے کی اصلاح کا پہلو۔ کس زاویے سے تو خود کو ادیب اور اسے ادب کہتا ہے بے؟

میں نے ایک آخری بار اسے رحم آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ ادیب کے قلم سے نکلنے والا خون حیض کا ہوتا ہے جو اپنے ساتھ معاشرے  کی کلفتیں بہا کر لے جانے کے لئے نکلتا ہے۔ اب اگر تم  یہی حیض زدہ خون کسی مریض معاشرے  کی جان بچانے کے لئے  استعمال کرنا چاہتے ہو تو بھائی مجھے  ادب سکھانے سے پہلے خود کو کسی اچھے نفسیات دان کو دکھا لو۔ چلتا ہوں۔  اللہ حافظ! 

بلاگ فالوورز

آمدورفت