جمعہ، 7 ستمبر، 2018

زبان دراز کی ڈائری - 3

 سب سے پہلے تو اس طویل غیر حاضری کی معذرت کہ ہمارے ہمسائے جناب حاجی مسلمان احمد نمازی و روزوی و زکٰوتی صاحب کے سلسلہ میں کچھ ایسی مصروفیت رہی کے لکھنے  لکھانے کا وقت ہی نہیں مل سکا۔ حاجی صاحب کے نام سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ جناب کس حد کے متقی اور عبادت گزار تھے۔ امت مسلمہ کا جتنا درد ان کے دل میں تھا، اگر کسی عام انسان کے ہوتا تو اب تک اٹھارہ بیس ہارٹ اٹیک کھا کر مر چکا ہوتا، مگر حاجی صاحب کو خدا نے کمال کے ضبط سے نوازا تھا۔ مسلمانوں کے مسائل کا درد رکھنے کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ اگر آپ ان کے ساتھ دس منٹ بات کر لیں تو انشاءاللہ آپ کے بھی سر میں بھی درد ہو جائے گا۔ کسی کم فہم اور پکے جہنمی نے ایک دفعہ ان سے اس درد کا ذکر کیا تو آپ نے کمال ضبط و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا گال سہلایا جسے بعد میں محلے کے یہودی ایجنٹوں نے تھپڑ کا نام دے دیا۔ مگر حاجی صاحب ان اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے ہرگز نہیں تھے سو اس اعلائے کلمۃ حق کا کام اس ہی خیر و خوبی سے جاری رکھا۔ 
بحث اور مناظرے میں حاجی صاحب یدِ طولٰی رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا کہ حاجی صاحب، مانا کہ اسلام دینِ حق ہے اور مسلمان آج بھی بہت سی اقوامِ دیگر سے بہتر ہیں مگر یہ کیا کہ صرف رٹو توتے کی طرح عربی کے چند لفظ رٹ کر صبح شام دہرانا اور یہ امید رکھنا کہ اس سے دنیا و آخرت سنور جائے گی؟ قرآن سمجھنے کی کتاب ہے نہ کے رٹنے کی، اور ویسے بھی مسلمان صاحبِ عزت صرف تب تک تھے جب تک تحقیق کے میدان میں آگے تھے آج اگر کفار خلقِ خدا کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے تو اللہ بھی عزت اسے ہی دے گا جو اس کی مخلوق کے کام آئے۔ جذبات کی رو میں بہک کر ہم بول تو گئے مگر ہم بھول گئے تھے کہ حاجی صاحب جب دلیل سے جواب دینے کے موڈ میں نہ ہوں تو اللہ کے دیئے ہوئے ہاتھ پیروں کا استعمال مباح سمجھتے تھے۔ پانچ منٹ بعد ہم زمین پر بے سدھ پڑے تھے اور حاجی صاحب فرما رہے تھے کہ دیکھو حق ہمیشہ باطل پر غالب آتا ہے اور تمہارا اس طرح زمین پر پڑا ہونا میرے غالب آنے اور برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ مزید بحث کی نہ تاب تھی نہ گنجائش۔
پچھلے ہفتے امت مسلمہ کا درد رنگ لے آیا اور حاجی صاحب کو شہر کے مشہور امراضِ قلب کے ہسپتال لے کر بھاگنا پڑا کے دل کا دورہ بہت شدید تھا۔ ہسپتال میں داخل  رہے اور اس کافر نرس کو مسلمان کرنے کی کوشش کرتے رہے جو سوئے قسمت ان کی ڈیوٹی پر مامور تھی۔  ڈاکٹروں نے بتایا کے انجیو پلاسٹی ہوگی- نقاہت سے مجھ سے پوچھا یہ کیا ہوتی ہے؟ میں نے بتایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں یہ اب بہت معمول کی چیز ہے۔ آپ کے جسم میں ایک سوئی جتنا سوراخ ہوگا اور اس کے زریعے جسم کی بند شریانوں کو کھول دیا جائے گا۔ ایک دم سے چہک اٹھے، آپ بڑے گن گاتے تھے نہ ان یہود و نصارا کے! دیکھیں جابر بن حیان کے انسانیت پر احسانات! سبحان اللہ ۔۔۔ ماشاءاللہ ۔۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔۔ کیا اعلٰی چیز بنا گئے ہیں، خدا ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دے! بھئی جابر بن حیان کے لیئے فاتحہ ہو جائے۔ جب ہم فاتحہ پڑھ کر فارٖغ ہوئے تو اس تقریباٗ یہودی ڈاکٹر نے منہ بنا کر کہا کہ یہ جابر بن حیان کی ایجاد نہیں۔ حاجی صاحب مسکرا کر بولے، شک تو مجھے بھی تھا۔ یہ البیرونی کا کام ہوگا! نہیں؟ ڈاکٹر نے سر ہلا کر کہا نہیں! الفارابی سے الکندی اور پھر ابن زہر سے الزہراوی تک پہنچتے پہنچتے آپ کا رنگ ہر نہیں کے ساتھ اترتا چلا گیا۔ اور جب پتہ چلا کہ یہ ساری تکنیک یہود و نصارٰی کی ہے تو قبلہ حاجی  صاحب نے بغیر علاج کروائے رخصت کا قصد کیا۔
 کل شب حاجی مسلمان احمد نمازی و روزوی و زکٰوتی صاحب مرحوم و مغفور کے سوئم سے فارغ ہوا ہوں تو آج ڈائری لکھنے بیٹھا ہوں۔ 

بلاگ فالوورز

آمدورفت