جمعرات، 20 مئی، 2021

مردہ باد

 

بے بسی کی آخری حد احتجاج ہوا کرتی ہے اور جب یہ حد بھی عبور ہوجائے تو انسان اس کیفیت کو صبر آجانے سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے کو لے کر ان دنوں مسلم امہ ایک بار پھر سراپا احتجاج تھی۔ دنیا بھر میں کہ جہاں مسلمان موجود تھے، احتجاجی مظاہرے منعقد کیے جا رہے تھے۔ عوامی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے ،  بالعموم غیر جانبدار رہنے والے لوگ بھی ان مظاہروں میں شریک تھے اور یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اڑھائی سو کے قریب مسلمانوں کے خون نے امت کو یکجا کرنے کا وہ عظیم کارنامہ  سر انجام دے دیا تھا جس کی حسرت میں مسلکی اختلافات کے طفیل  اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں بہنے والا ہزارہا مسلمانوں کا  خون آج بھی سڑکوں پر بہہ رہا ہے ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا کہ ہر قسم کی سچ سے سائنائیڈ سے لبریز  بات فی زمانہ معترضہ ہی ٹھہرائی جاتی ہے۔

مئی کا مہینہ تھا اور گرمی اپنے جوبن پر  تھی۔ مظاہرین کی سہولت کے پیش نظر اور انقلاب کو دھوپ میں  خراب ہونے سے بچانے کے لئے شہر کے چند نوجوانوں نے رات گئے مرکزی چوراہے پر احتجاج کا پروگرام بنایا تھا اور رات گیارہ بجے کے قریب وہ سب مقررہ مقام پر جمع ہوگئے تھے۔  فلسطین کے بینر اور مجمع میں شامل نوجوان خواتین کو  دیکھ کر قریب میں موجود چاء کے ہوٹل کے گاہک اور اردگرد کے دکاندار بھی مظاہرے میں شامل ہوگئے اور تھوڑی ہی دیر میں وہاں سو ڈیڑھ سو افراد کا ایک چھوٹا سا ہجوم جمع ہو چکا تھا۔  منتظمین نے جب مظاہرین کی تسلی بخش  تعداد دیکھ لی تو فیس بک پر لائیو سٹریم شروع کر کے مظاہرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور سب سے پہلے سپرے پینٹ کی مدد سے نوجوان لڑکے لڑکیاں چوراہے کی چاروں جانب اسرائیل کے جھنڈے بنا نے میں مصروف ہوگئے تاکہ ان پر سے انجانے میں گاڑیاں گزار کر لوگ ایک ظالم کے خلاف اپنی نفرت کو ثابت کر سکیں۔

اس علامتی کاروائی سے فراغت کے بعد تقاریر کی باری آئی اور مقررین نے دلائل کی مدد سے ثابت کیا کہ  محض ان کے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے  اسرائیل کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور پاکستان میں دستیاب تمام یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کے استعمال سے اصل فائدہ دراصل صرف پاکستان کا ہوتا ہے لہٰذا جو لوگ فلسطین کے بیچارے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے اسرائیل کی ہمنوا و مددگار کمپنیوں کی مصنوعا ت  کے بائیکاٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ زمینی حقائق سے ناآشنا وغیرہ ہیں۔ مسائل کا اصل حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اس ملک کے سیاست دان چوری سے باز نہیں آجاتے اور ہمیں نیک، پاکباز اور ایسے ہی چند دیگر کتابی القابات پر مشتمل سیاسی قیادت میسر نہیں ہوجاتی یا  جب تک ایسی قیادت کو مکمل اختیارات وغیرہ نہیں مل جاتے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس پرخلوص اور مدلل گفتگو کے بعد سامعین تالیاں پیٹتے مگر ایک جاہل دکاندار نے مائک پر بولنے کی خواہش کا اظہار کردیا اور مظاہرے کی ناتجربہ کار قیادت نے ستائش کے چند کلمات کے دھوکے میں مائک اس ناہنجار کے حوالے بھی کردیا۔  اس کم عقل انسان نے مائک سنبھال کر احتجاج کی علامتی حیثیت اور پیغام کے پرزور طور پر پہنچنانے کے لئے بائکاٹ کی افادیت   پر زور دینا شروع کردیا۔ وہ چونکہ خود دکاندار تھا تو پوری دنیا کو بازار سمجھ بیٹھا تھا کہ جہاں ہر چیز پیسے اور گاہک کی پسند ناپسند کے گرد گھومتی ہے۔  اس نے تو مائیک پر آکر اپنی بھڑاس نکال لی مگر مظاہرین کو واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم کردیا۔

منتظمین نے جب  معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو پروگرام میں تبدیلی لاتے ہوئے باقی ماندہ تقاریر کو ملتوی کر کے اسرائیل کے علامتی پتلے کو نذر آتش کرنے کی تیاری شروع کردی گئی تاکہ ظالم کے خلاف سینوں میں جلنے والی آگ کو کپڑے اور بھوسے کے ایک پتلے کے ذریعے اندر سے نکالا جاسکے اور لوگ اپنے حصے کا احتجاج مکمل کرکے اگلے رمضان کی فلسطین پر اسرائیلی جارحیت تک کے لئے دوبارہ اپنی معمول کی زندگی  میں مصروف ہوسکیں۔

جیسے ہی پتلا تیار ہوا اور منتظمین نے اسے بیچ چوراہے پر ٹریفک سگنل کے کھمبے سے علامتی پھانسی لگا کر لٹکانے کے لئے مشعل جلائی، ہجوم میں سے ایک بھکاری نکل کر کر آیا اور بھاگ کر اس پتلے کے پیروں سے لپٹ گیا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ انہیں اس پتلے کو نذر آتش کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور فی الفور اس پتلے کو نیچے اتارا جائے۔  حقیقت جو بھی ہو مگر بھکاریوں کے روپ میں گھومنے والے غیر ملکی جاسوسوں کی کہانی ہم اور آپ نے بھی سنی ہیں سو میں اس معاملے میں ان مظاہرین کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا جنہوں نے اس غیر ملکی جاسوس کو لاتوں اور گھونسوں کی زد پر لے لیا اور جب وہ  نڈھال ہوکر گرپڑا تو اس کی نظروں کے سامنے  ہی اس پتلے کو آگ لگا دی گئی۔ ہجوم تو شاید پورے اسرائیل کا بدلہ اس جاسوس سے لے لیتا مگر حسب روایت غلط وقت پر پولیس پہنچ گئی اور اسے تفتیش کے لئے اپنے ساتھ لے گئی۔

میں وہیں پولیس وین کے ساتھ کھڑا سگریٹ پیتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہا تھا جب پولیس والے اسے اٹھا کر  لائے۔ اسے وین کے اندر پھینک کر وہ لوگ  کسی بھی اور ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لئے وہیں کھڑے ہوگئے تھے۔ میں نے پولیس وین میں سے کسی کے کراہتے ہوئے رونے اور کوسنے کی آواز سنی کہ ، میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ پتلا جلانا ہی ہے تو میری اس قمیض میں بھوسا بھر کر جلا دو اور یہ نئی قمیض شلوار مجھے دو۔ ظالموں نے نیا قمیض شلوار جلا دیا۔ میں نے باقی آدھا سگریٹ نیچے پھینکا اور اسے پاؤں سے مسلتا ہوا مظاہرین میں شامل ہوکر ان کے ساتھ نعرے لگانے میں مصروف ہوگیا۔ فلسطین زندہ باد۔ اسرائیل مردہ باد!

ہفتہ، 1 مئی، 2021

زٹل

 

ہم انسان ایک روح ہیں کہ جسے ایک جسم دیا گیا ہے یا پھر ہم ایک جسم ہیں کہ جسے ایک روح ودیعت کی گئی ہے؟  اس کہانی کے برے یا بھلے اور جھوٹے یا سچے  ہونے کا کل  دارو مدار آپ کے نقطہ نظر پر  ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک جسم ہیں جسے ایک روح عطا کی گئی ہے تو عیش کیجئے ۔ کہانیاں روح کی تالیف اور تربیت کے لئے ہوتی ہیں  اور جب آپ نے روح کو ثانوی تسلیم کر ہی لیا ہے تو اس کی ضروریات بھی آپ کے لئے ثانوی ٹھہریں گی اور ایک ثانوی چیز کی تسکین کے لئے کہانی سننے اور پڑھنے ایسا وقت کا زیاں   چہ معنی ؟ البتہ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ انسان ایک روح ہے اور اسے ایک عارضی جسم عطا کیا گیا  ہے تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا  ہو گا  کہ روح  کے بنیادی اور جسم کے ثانوی ہونے کے ناتے ، روح کی ضروریات ہی آپ کی بنیادی ضروریات ہیں اور اس کہانی کا سننا آپ کے لئے لازم ہے کہ یہ کہانی میرے اور آپ جیسے ہی ایک انسان  کی ہے جو اپنی روح کی بقا کی خواہش میں وقت نامی سمندر میں بہتا ہوا ایک ایسےجزیرے پہ جا رکا تھا کہ جہاں اس سے پہلے کسی انسان کے قدم تو کیا سوچ کی پرچھائی بھی نہ پڑی تھی۔

تبدیلی  اپنے ادراک کے مکمل ہونے سے پہلے تک ہمیشہ خوبصورت ہوا کرتی ہے۔  گو کہ اس جزیرہ پر کسی بھی قسم کی حیوانی و نباتاتی حیات کا گزر نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اس کے لئے زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ خود اس کا دریافت شدہ۔ زندگی کے ہر احساس سے عاری، مگر مکمل اس کا۔  وہ دن بھر  اس جنت کے مختلف گوشوں کی سیر کرتا اور شام ڈھلتے ہی اس امید پر ساحل پر آ بیٹھتا کہ مبادا    کوئی بھولا بسرا مسافر کبھی اس جزیرہ پر آ نکلے   تو جزیرہ کو غیر آباد جان کر واپس نہ پلٹ جائے ۔  انجان چیزوں کو لے کر انسانی فطرت کا تجسس اپنی جگہ مگر وہ یہ جانتا تھا کہ  ویران جگہوں کا خوف انسان ایسے معاشرتی حیوانوں کی سرشت میں ازل سے موجود ہے۔

وقت کا احساس فکر کے ساتھ منسلک ہے اور جنت میں چونکہ تفکرات نہیں ہوتے لہذا وہ بھی اب سمے کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔ سورج کے ڈھلنے اور اگنے سے دن کی تبدیلی کا احساس اپنی جگہ موجود تھا مگر جسے آپ وقت کہتے  اور سمجھتے ہیں، وہ اس کے حساب اور فکر سے مکمل آزاد تھا۔ خدا جانے اس جنت میں اس پر کتنے زمانے بیت چکے تھے جب پہلی مرتبہ اسے اپنی زندگی سے محروم جنت کا مکمل ادراک اور پہلی مرتبہ بھوک کا احساس ہوا تھا۔  جنت میں غذا کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ اس دن پورا وقت ساحل پر شکار کی تلاش میں گھومتا  اور کسی نہ آنے والے مسیحا کوچیخ چیخ کر پکارتا رہا  مگر وہ ساحل بھی اس  جزیرے سے اپنے تعلق کے طفیل زندگی کے لئے مکمل بانجھ ہو چکا  تھا۔ اور پھر اس جیسے کتنے ہی دن رات وہ  اس ساحل اور جزیرے پر ایک غیر حاضر غذا کی تلاش میں دیوانہ وار گھومتا رہا  اور مدد کے لئے پکارتا رہا ، یہاں تک کہ نڈھال ہو کر  گر نہ پڑا۔

انسانی خواہشات میں سب سے گراں  اور عظیم تر خواہش بقا کی ہوتی ہے۔ جب وہ جزیرے پر غذا کی موجودگی اور باہر سے آنے والی کسی بھی امداد  سے مکمل مایوس ہوگیا تو اس نے زمین پر پڑے پڑے ہی اپنے قریب سے ایک نوکیلا پتھر اٹھایا اور اپنے وجود کی تمام تر توانائی بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پنڈلی میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اٹھنے والی ٹیسوں اور بہنے والے خون سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی بوٹی کو چبانے میں مصروف ہوگیا۔ گوشت پیٹ میں اترنے سے کچھ حواس بحال ہوئے تو اس  نے گیلی مٹی کا لیپ لگا کر زخم کو مندمل کیا اور بہت مدت کے بعد سکون کی نیند سوگیا۔

خدا جانے وہ کتنا عرصہ سوتا رہا اور نجانے کتنی ہی مدت مزید سوتا رہتا مگر واپس آجانے والی بھوک  نے اسے گڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔  زخمی ٹانگ کے ساتھ وہ دوبارہ (انسانوں سے چوٹ کھا کر بھی ایک مختلف نتیجے کی امید لے دوبارہ  ان ہی انسانوں کے پاس واپس جانے والے  کسی انسان کی طرح )کسی معجزے کی امید کے ساتھ دوبارہ   جزیرے کے سفر پر روانہ ہو گیا کہ شاید  اس کے آنکھیں بند کر لینے سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ چکی ہو مگر انسانوں کے دلوں ہی کی طرح بنجر پتھروں کے اس جزیرے میں بھی اس کے لئے  ماسوائے  تھکن کچھ بھی نہ تھا۔

دوسری مرتبہ جب وہ گرا تو وہ ساحل پر موجود تھا۔  اس بار اس نے  کیفیت نیم مرگ کا انتظار نہ کیا اور کمزوری کے عالم میں ہی لیپ کے لئے گیلی مٹی کی  ڈھیری جمع کر کے دوسری پنڈلی کے لئے جیب میں موجود اس قیمتی نوکیلے پتھر کو نکال لیا۔

پنڈلی کے بعد ران اور ران کے بعد ایک ہاتھ کا بازو اور بازو کے بعد کان (کہ  اسے لگتا تھا کہ اتنے برسوں کے خاموش اور تھکا دینے والے تجربات  کے بعد اسے کان نہیں محض زبان کی ضرورت تھی) اور کان کے بعد اس  کا زندگی کی حسرتوں سے بھرا  دل! جی ہاں۔ اس کا دل!  وہ ایک ایک کر کے سب کاٹ کر کھا گیا۔ اور اس سے پہلے کہ آپ میری کہانی منقطع کر کے اپنا سوال داغیں، لطف کی بات یہ کہ وہ نا صرف اس دل کو  کھا چکنے کے بعد بھی زندہ رہا  بلکہ محاورے کی زبان میں کہا جائے تو سراپا دل بن گیا۔

جانتا ہوں کہ اب تک آپ اس کہانی کو ہذیان سمجھ کر آگے بڑھ جانا چاہتے  ہوں گے مگر یہاں تک پہنچ  ہی گئے ہیں تو یہ بھی سنیں کہ جب وہ یہ تمام اعضا کاٹ پیٹ کر کھا چکا اور ایک ادھڑی ہوئی زندہ لاش بن چکا ،تو ایک دن ساحل پر ایک اور انسان نمودار ہو گیا۔ آنے والے کے رنگ، نسل، عمر اور جنس سے قطع نظر، ایک انسان!

 اس انسان نے  سفر مکمل کر کے اپنے حواس جب بحال کئے اور اپنے پیروں میں لوٹتی اس کٹی پھٹی زندہ لاش کو دیکھا تو گھن اور خوف کی آمیزش بھری ایک چیخ ماری اور اس زندہ لاش کے ہاتھ  سے وہ نوکیلا پتھر چھین کر اس وقت تک برساتا رہا/رہی  جب تک اس کے جسم کی باقیات بھی ریزہ ریزہ نہ ہوگئیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ریزوں میں بٹنے کے باوجود بھی  موت اس پر مہربان نہ ہوئی اور اس انسان  کو ان ہی ریزوں میں اپنی رہی سہی عمر مکمل  کرنی پڑی۔ مگر کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پوری کہانی استعاروں کی ہے اور وہ جنت  دراصل انسانی جسم تھا اور  یہ کہانی اس میں مقید روح کی ہے کہ جو اپنی بھوک میں خود اپنے دل ، اپنے  آپ تک  کو چبا گئی۔  سنی سنائی باتوں کا کیا بھروسا؟

بلاگ فالوورز

آمدورفت