جمعرات، 12 ستمبر، 2019

زبان دراز کی ڈائری - بدعتی


پیاری ڈائری
یوں تو فاؤنٹین ہیڈ لکھنے والی خالہ این رینڈ کہہ گئی ہیں کہ جس کام میں آپ مہارت رکھتے ہوں اسے کبھی مفت میں نہیں کرنا چاہئے مگر خالہ کا گزر کبھی برصغیر میں نہیں ہوا تھا ورنہ ہم بھی دیکھتے کہ وہ اس قسم کا جملہ کیوں کر کہتیں اور اگر کہہ دیتیں تو اس کے بعد ان کے محلے  اور خاندان کے بزرگ ان کا کیا حال کرتے ۔اور    چونکہ ہمارے محلے میں یہ بات مشہور ہے کہ ہماری دو کتابیں دکانوں پر پڑی گرد کھا رہی ہیں لہذا محلے داروں کو ہمارے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اچھا لکھنا جانتے ہیں۔  اس بات کی دلیل وہ ہماری کتب کی فروخت یا عدم فروخت سے دیتے ہیں کہ اگر ہم اچھا نہ لکھتے تو ہماری کتابیں یوں گرد نہ کھا رہی ہوتیں اور ہم بھی دیگر شاہوں کی طرح کتب کے تیسویں ایڈیشن چھاپ رہے ہوتے۔ خدا ہماری کتب اور محلے داران دونوں پر رحم کرے۔ خیر! اتنی لمبی چوڑی تمہید اس لئے کہ آج پھر ہم ایک خط لکھوانے کے لئے دھر لئے گئے اور اس کے بعد سے پریشان گھوم رہے ہیں کہ کس دیوار سے جا کر اپنا سر ماریں تو سکون پائیں۔
تو ہوا کچھ یوں کہ  رات شامِ غریباں کی مجلس کے بعد ہم اپنے ہی جسم کے مزار پر اگربتی جلا رہے تھے (جسے بعض کم عقل لوگ سگریٹ نوشی سے تعبیر کرتے ہیں) کہ محلے کے ایک مشہور بزرگ نے ہمیں آلیا۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ جانتے ہو سگریٹ پینے سے کیا ہوتا ہے؟ ہم نے جوابا صدیوں پرانا لطیفہ انہیں بصد احترام سنا دیا کہ "اور کچھ ہو نہ ہو، محلے کے بزرگوں کو کیڑا ضرور کاٹ جاتا ہے اور وہ نصیحتیں شروع کر دیتے ہیں" ۔ بزرگوار اس وقت بزرگ سے زیادہ ضرورت مند تھے لہٰذا ہمارے اس براہ راست حملے کو نظرانداز کرتے ہوئے مدعے پر آگئے کہ وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا چاہ رہے ہیں اور خان صاحب کی سیاست سے متاثر ہوکر جوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ بزرگو! حکومت بنانے کے لئے جوانوں سے زیادہ ان کے بڑوں کی ہمدردیاں درکار ہوتی ہیں مگر وہ اپنی بات پر مصر تھے کہ وہ جوانوں کے مسائل حل کر کے  ہی آنے والے انتخابات کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ہم نے دریافت کیا کے ان کے نزدیک جوانان کے مسائل کیا ہیں اور اس سلسلے میں ہم ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ تس پر انہوں نے ایک کاغذ کا پھرا نکالا اور سنجیدگی سے بولے کہ دنیا میں  دو  ہی چیزیں بکتی ہیں، ایک تبدیلی اور دوسرا مذہب۔ تبدیلی کے ٹریڈ مارک چونکہ پہلے ہی کسی اور کے پاس ہیں لہٰذا میں نے جوانان کے مذہبی مسائل کی ایک فہرست مرتب کی ہے ۔ اسی سلسلے میں ایک مشہور و معروف جریدے کو تاریخی کھلا خط وغیرہ لکھنا  چاہتا ہوں تاکہ پرسوں کے اخبار میں میرا بھی نام چھپ سکے اور شہر کے جوانوں کو خبر ہو کہ ان کے حقیقی مسائل پہچاننے والا ان کا لیڈر میدان میں آچکا ہے۔
خدا لگتی کہوں تو اب ہمیں بھی اشتیاق ہونے لگا تھا  سو  ہم نے فہرستِ مسائل کا وہ پھرّا ان کے ہاتھ سے اچک لیا جس میں سب سے اوپر درج تھا کہ شیعہ حضرات اکیلے اکیلے شامِ غریباں مناتے ہیں ۔ اہل سنت  بھی جذبات رکھتے ہیں  ان کا بھی خیال کیا جانا چاہئے۔ ہم نے لاحول پڑھ کر بزرگوار کی طرف دیکھا جو کمال معصومیت سے ہماری ہی سمت دیکھ رہے تھے۔  ہم نے اس مسئلے کی وضاحت طلب کی تو کہنے لگے کہ بھئی ہم نے تو یہ تک سنا ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے بڑے ہوکر شیعہ ذاکر بنائے جاتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر انہوں نے ہمیں نیپال اور چین وغیرہ کی کچھ مثالیں بھی گنوائیں۔   ہم نے بزرگوار کو یاد دلایا کہ پل کے دوسری طرف  بھی آم کھلانے والے سے لیکر حورین کی پنڈلیوں تک ہر قسم کی تفریح موجود ہے لہٰذا تفریح کو تفریح کی حد تک رکھنا چاہئے ۔ اس کی بنیاد پر ایک مکمل گروہ کو مطعون کرنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ ویسے بھی بقول شاعرِ جنوب، چغد پالنے کا حق سب کو برابر کا ملنا چاہئے۔
بزرگوار ہماری بات سے بہت زیادہ مطمئن تو نہیں تھے مگر چونکہ ابھی تک ہم نے خط کا مضمون  لکھنا شروع نہیں کیا تھا لہٰذا وہ ہماری ناراضگی  کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ بولے آپ ایک نکتے کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ آگے پڑھئے۔ ترتیب کے اعتبار سے دوسرا نکتہ یہ تھا  عاشور و چہلم وغیرہ پر تمام سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ بازار وغیرہ جبراً بند کروائے جاتے ہیں جس سے کاروبارِ زندگی کا حرج ہوتا ہے۔ یوں تو اس نکتے سے ہم بھی متفق تھے مگر نفسِ مضمون کے لئے ہم نے ان سے تفصیلات طلب کیں تو بزرگوار نے فرمایا کہ کراچی شہر کی معاشی شہ رگ ایم اے جناح روڈ ہے۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے  کہ جلوس کے اوقات میں یہ دکانیں بند رکھی جاتی ہیں ورنہ خدانخواستہ یہ دکاندار شیعہ حضرات کو اہلِ بیت کا نوحہ اور یزیدیت کے خلاف احتجاج کرتا دیکھتے تو عقائد میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا ،مگر آپ یہ سوچیں کہ جب   محرم الحرام کے پہلے سات دن میں تبرکات و نذر و نیاز وغیرہ کے سلسلے میں بلا مبالغہ اربوں  روپے کی خریداری ہو سکتی ہے تو آخر کے تین دنوں میں دکانیں کھول کر مزید کتنا کاروبار کیا جا سکتا ہے۔  ہم نے انہیں یاد دلایا کہ تبرکات و نذر و نیاز کی خریداری کرنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو جلوس میں آرہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ جلوس بند کروا دئے جائیں گےتو تبرک و نیاز بٹے گی کہاں اور خریدے گا کون؟ بزرگوار جھلا کر بولے، آپ چونکہ جلوس کے راستے میں نہیں رہتے اور آپ کی کوئی دکان جلوس کی گزرگاہ میں نہیں ہے اس لئے آپ کٹ حجتی کر رہے ہیں۔ سوچیں اتنی بڑی ایم اے جناح روڈ ہے۔ چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اگر جلوس نہ نکلے تو نوجوان وہاں اطمینان سے کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ جلوس کا کیا ہے؟ احتجاج ہی کرنا ہے تو وہ تو سپر ہائی وے پر بھی کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے شہر کی تجارتی شاہراہ بند  کرنے کا کیا جواز؟ ویسے بھی شہر کے اندر احتجاج کرنے کا حق صرف صحیح العقیدہ سیاسی جماعتوں کو ہوتا ہے جو اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ ان کے احتجاج سے یزیدِ وقت کے جذبات مجروح نہ ہوں۔  ہم نے کہا، بجا! آپ درست کہہ رہے ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے کبھی چیزوں کو اس زاویے سے نہیں پرکھا تھا۔ ہماری شرمندگی دیکھ کر بزرگوار کچھ ٹھنڈے ہوئے اور اپنا منہ ہمارے کان کے قریب لا کر بولے، بیٹا! ان زیادتیوں کے خلاف کوئی بولتا نہیں ہے اس ہی لئے ہم سب یہ کچھ بھگت رہے ہیں۔ سال میں پانچ دن کی بات ہے  کہہ کر یہ لوگ ہمارا حق غصب کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ اب شاہرات سے نکل کر گلی محلے تک آچکا ہے۔ آج میں نے پوتی کی سالگرہ کرنے کے لئے گلی میں ٹینٹ لگانا تھا مگر مجلس کے نام پر مجھ سے پہلے یہ صاحب ٹینٹ لگا کر بیٹھ گئے۔ اب تمہارے سامنے ہی ساری گلی بند پڑی ہے۔ یہ کون سی انسانیت ہے؟ لوگوں کا آنا جانا دوبھر ہواگیا ہے!   انکار ممکن نہیں تھا لہٰذا ہم نے بزرگوار کی یہ بات بھی من و عن تسلیم کر لی۔
فہرست کے اعتبار سے تیسرا اور آخری مسئلہ یہ تھا کہ پرانے زمانے میں یہ لوگ پانی میں تھوک ملا کر دیا کرتے تھے جس سے بچاؤ کے لئے سبیل سے پانی و شربت نہیں پیا جاتا تھا۔ اب ان لوگوں نے اپنے کارندے حب ڈیم پر بٹھا دئے ہیں جہاں سے کراچی کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ کارندے آٹھ گھنٹے کی شفٹ کے حساب سے  چوبیس گھنٹے حب ڈیم کے کنارے بیٹھے ڈیم میں تھوکتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انجانے میں تمام قوم ان کا جھوٹا پانی پینے پر مجبور ہے اور بچاؤ کا کوئی طریقہ ممکن نہیں ۔ یہ ایک نہایت مکروہ سازش ہے جس کی وجہ سے قوم کے نوجوان جھوٹا پانی پی کر اذلی دشمنی بھلا بیٹھے ہیں۔ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بہت جلد ملک میں سوشی بچوں کی اکثریت ہوگی اور کوئی صحیح العقیدہ نہیں بچے گا۔
ہم نے بزرگوار کو تسلی دی کے ہم نے ان کے تمام مسائل تفصیل سے سن اور سمجھ لئے ہیں اور رات تک ایک اچھا سا خط لکھ کر ان کے نام سے جریدے کو ارسال کر دیں گے۔ ان کو روانہ کرکے جب لکھنے بیٹھا تو نجانے کیوں یہ خیال آگیا کہ میں  تو وہ ہوں جس کے بارے میں دنیا کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ان اہلِ کوفہ میں سے تھا جنہوں نے پہلے حسین ابن علی کو خط لکھ کر بلوایا اور جب ابنِ زیاد نے شہر میں کرفیو لگایا تو حسین کی نصرت کو نکلنے کے بجائے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ پھر جب حسین شہید ہوگئے تو اپنی غلطی پر نادم ہوا  اور آج تک گریہ کرتا ہوں۔ بلاشبہ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ لوگوں کی یہ تہمت اگر درست بھی ہے تو بھی غلطی کا احساس ہوکر اس پر نادم ہوجانا خدا کا فضل ہے۔ اگر اس کی بجائے میں ان کوفیوں میں سے ہوجاتا جو یہ سوچتے تھے کہ حسین خوامخواہ اٹھ کر آگئے اور ان کی وجہ سے ہمارے شہر میں کرفیو نافذ ہوگیا ہے۔ نہ کہیں آسکتے ہیں نہ جا۔ سارے معمولاتِ زندگی برباد ہوکر رہ گئے  ہیں!
جب سے یہ آخری خیال آیا ہے سکون غارت ہوگیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ کون سی دیوار سے جا کر سر ماروں تو سکون پاؤں۔    مگر پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ پریشانی و غم کی حالت میں سر پیٹنا بھی تو بدعت ہے۔جائیں تو کہاں جائیں؟
زبان دراز بدعتی

بلاگ فالوورز

آمدورفت