جمعہ، 5 ستمبر، 2014

جهولا

میں تیز قدموں سے اس سرکاری زچہ خانے سے باہر نکل کر آگیا۔ خیر سے تولید کا مرحلہ تو طے ہوگیا تھا مگر اب اصل مرحلہ درپیش تھا۔ مجھے جلد از جلد اس معصوم کو ٹھکانے لگانا تھا جو انجانے میں ایک غلط وقت پر غلط شخص کے گھر پیدا ہوگئی تھی۔

شام کا وقت تھا اور ابھی روشنی تھی سو میں اسے ایدھی یا چھیپا کے جھولے میں نہیں ڈال سکتا تھا کہ کوئی مسلمان اگر مجھے یہ حرکت کرتا دیکھ لیتا تو وہیں مجھے سنگسار کردیا جاتا۔

جهولے کا خیال ترک کر کے میں اسے کچرا کنڈی میں ڈالنے کا سوچنے لگا، مگر کچرا کنڈی میں بچوں کو ڈالنے کیلئے ایک جگر چاہیئے تھا اور اگر میرے اندر اتنا جگر ہوتا تو میں اس معصوم کو پال نہیں لیتا جس کی رگوں میں میرا اپنا خون تھا؟ ویسے بھی میں سن چکا تھا کہ کچرا کنڈی میں ڈالے جانے والے بچے اکثر انسانوں کے ہاتھ لگنے سے پہلے کسی بھوکے جانور کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کا تصور بھی میرے لیئے ہولناک تھا. ویسے بهی مقصد صرف جان چهڑانا نہیں بلکہ اس ننهی کلی کی محفوظ اور بہتر زندگی کی ضمانت تها سو میں نے کچرا کنڈی جانے کے خیال پر لعنت بھیج دی۔ کچھ دیر یونہی کهڑا سوچتا رہا کہ کیا کیا جائےاور پهر میں نے شہر کے ایک مشہور یتیم خانے جانے کا فیصلہ کرلیا۔

میں جب یتیم خانے پہنچا تو وہاں ایک زندگی سے بیزار کرخت صورت عورت نے میرا استقبال کیا۔ میرے ہاتھ میں موجود بچے کو دیکھ کر وہ میرے آنے کی غایت سمجھ گئی اور میرا حلیہ دیکھ کر اسے یہ بهی یقین ہوگیا کہ میں اس یتیم خانے کو اپنا بچہ تو دے سکتا ہوں مگر امداد کے نام پر ایک روپیے کی امید بھی فضول ہوگی۔ کسی قسم کی مہمان نوازی یا گرم جوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لہٰذا میرے بات شروع کرنے سے پہلے ہی اس نے مجھے سنانے کیلئے بڑبڑانا شروع کردیا کہ کس طرح ادارے پر پہلے ہی ہزاروں یتامٰی کا بوجھ پڑا ہوا ہے جبکہ مدد کرنے کیلئے کوئی شخص آگے آنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر ماہ سینکڑوں بچے جمع کروائے جاتے ہیں جبکہ ان بچوں کو گود لینے یا ان کا خرچہ اٹھانے کیلئے کوئی ایک بهی تیار نہیں ہے۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنی میز کی دراز میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی جبکہ میں خاموشی سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے جب یقین ہوگیا کہ اس کی ان باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا اور میں بچے کو یہیں چھوڑ کرجانے کا مصمم ارادہ کرکے بیٹھا ہوا ہوں تو مجبورا وہ میری طرف متوجہ ہوہی گئی۔

آپ نے بچے کو جمع کرانا ہے؟ اس نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کے ماں باپ کو کیا ہوا؟ اس نے گھورتے ہوئے دوسرا سوال داغا۔ جی وہ ایک حادثے میں مارے گئے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ اس نے پہلے میری طرف دیکھا اور پھر بچے کی طرف دیکھ کر بولی، تو اس کی ماں مرتے مرتے سڑک پر بچے کو جنم دے گئی؟؟ دیکهو میاں! یہ یتیم خانہ ہے پاگل خانہ نہیں. ہم یہاں لوگوں کے پاپ دھونے نہیں بیٹھے ہیں! جب غلطی کی ہے تو پالو بھی! اور جب پال نہیں سکتے اورسماج سے اتنا ہی ڈر لگتا ہے تو غلطی کرتے ہی کیوں ہو؟ یہ چونچلے پیٹ بھروں پر اچھے لگتے ہیں کہ اگر بچے کو یتیم خانے بھیجنا بھی پڑے تو اس کا خرچ خود اٹھا سکیں۔ انسان کو گناہ بھی اپنی اوقات کے حساب سے کرنا چاہیئے۔ میں اس بچے کو یہاں نہیں لے سکتی مجھے ماں باپ کا موت کا سرٹیفیکیٹ یا پھر چار معززین کی گواہی چاہیئے ہوتی ہے کہ بچہ واقعی یتیم ہے! اگر اتنی ہی گھن آرہی ہے تو جاکر کسی جھولے میں ڈال آئو۔ آگے وہ خود سنبھال لیں گے۔

یتیم خانے سے نکل کر میں سڑکوں پر کچھ دیر یونہی گھومتا رہا اور پھر تھک کر ایک پارک میں جاکر بیٹھ گیا۔ میں نے کپڑا ہٹا کر اسے دیکھا تو وہ معصوم ابھی تک نیند میں ہی تھی۔ اس کی شکل ابھی سے مجھ پر تھی۔ وہی بڑی آنکھیں اور ننھی سی مگر کھڑی ناک۔ زندگی کے زہر کے علاوہ میرے چہرے کی ہر چیز کا عکس اس معصوم پیکر میں موجود تھا۔ بچے تو ہوتے ہی خوبصورت ہیں اور پھر یہ تو میرا اپنا خون تھی، پیار کیسے نہ آتا؟ میں نے بے اختیار اس کے ماتھے کو چوم لیا۔

بیٹیاں شاید پیدائش کے فورا بعد سے ہی باپ سے محبت لینے کا ہنر سیکھ کر آتی ہیں۔ میرے اندر اب ایک شدید احساس گناہ پیدا ہورہا تھا۔ میں نے اس کو سنانے کے بہانے خود کو تسلی دینا شروع کردی کہ، میری بیٹی میں تجھے پالتا ضرور! مگر میں کیا کروں کہ تو جن حالات میں پیدا ہوئی ہے اس میں میرے لیئے تجھے اپنا نام دینا خود تیرے لیئے ساری عمر کا آزار ہوجائے گا۔ تو زندگی میں کچھ بھی بننا چاہے گی تو تیرے باپ کی کمزوریاں تیرے ہی آگے آئیں گی۔ تیرے پیروں کی زنجیر خود تیرے ماں باپ ہوں گے۔ تو ابھی صرف ایک دن کی ہے مگر میں ابھی سے تجھ سے عشق کرتا ہوں۔ گو ہمارا یہ ساتھ صرف ایک دن کا ہی ہے مگر میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ تجھے تیری ساری عمر میں کوئی اتنی محبت نہیں کرے گا جتنی اس ایک دن میں میں نے تجھ سے کی ہے۔ بخدا اگر مجھے ذرا سی بھی امید ہوتی اور کوئی راستہ نکل سکتا تو میں تجھے اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتا۔ تجھے اپناتا، اپنا نام دیتا، تجھے پڑھاتا، لکھاتا، تیری خوشیوں میں شریک ہوتا، تیرے غم کا ساتھی اور سہارا بنتا۔ تجھے جدا کرنا میرے لیئے دنیا کا سب سے مشکل کام ہے مگر بخدا یہ کارِ محال میں صرف تیری بہتری کیلئے کر رہا ہوں۔

میں گھنٹوں اس سے بات کرتا رہا اور اس تولیئے کو بھگوتا رہا جس میں ملفوف وہ ننھی سی جان دنیا اور دنیا کی تمام غلاظتوں اور مصائب سے بےنیاز سونے میں مصروف تھی۔
اندھیرا بڑھ گیا تو میں پارک سے اٹھ کر واپس سڑک پر آگیا۔ پیدل چلتا ہوا چھیپا کے ایک دفتر کے پاس پہنچا جہاں اس وقت نسبتا سناٹا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اس معصوم کو جھولے میں ڈالا اور سرپٹ دور پڑا۔ مجھے ڈر تھا کہ کوئی پیچھے سے آکر مجھے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ یہ جھولا ناجائز بچوں کیلئے ہے۔ شادی شدہ افراد جو اپنے بچوں کو پالنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے ان کا اس جھولے پر کوئی حق نہیں ہے۔ اٹھائو اور لیکر جائو اسے!! پالو اور بھوکا مارو اسے اپنے ساتھ. اسے رکهو اپنے ساته اس دن تک کہ جب تک یا تو یہ مرنہیں جاتی یا اس ملک میں ایسا کوئی جھولا نہیں آجاتا جس میں ان غریب بچوں کو بھی ڈالا جاسکے جن کے ماں باپ کی غلطی سے وہ پیدا تو ہوجاتے ہیں مگر اپنے حصے میں صرف اتنا سا ہی رزق لاتے ہیں جس سے ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہو۔

جب تک پھیپھڑوں نے ساتھ دیا میں دوڑتا گیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب مجھے یقین آگیا کہ اب میرے پیچھے کوئی نہیں آرہا تو میں نے رک کر سانس درست کی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کم سے کم ایک جان کو تو میں نے بهوک اور ذلت کے اس دلدل سے بچا لیا جس میں میں خود برسوں یا شاید صدیوں سے دهنسا ہوا تها. مجهے یقین تها کہ اب اسے پیٹ بهر کهانا بهی ملے گا اور مناسب تعلیم بهی. اسے بڑے ہوکر کسی امیر آدمی کے گهر جهاڑو پونچها کرتے ہوئے غلیظ نظروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا. کیا ہوا جو اس کے پاس باپ کا نام نہیں ہوگا؟ اس کی دوسری چار بہنوں نے باپ کا نام اپنے ساته لگا کر زندگی کا کون سا سکه پا لیا؟

باقی چار بیٹیوں کا خیال آتے ہی میں نے جیب ٹٹول کر یقین کرلیا کہ میری جیب میں ابھی بھی وہ ادھار کے چار سو روپے موجود ہیں جن سے مجھے کھانا اور اپنے اور بیوی بچوں کیلئے نیلا تھوتھا لیکر جانا ہے۔  مجھے پتہ تھا کہ کل ہماری بھی خبر چھپے گی کہ کس طرح ایک سنگدل باپ نے اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کیساتھ زہر کھا کر خودکشی کرلی مگر اس میں میرا کیا قصور کہ روزگار ملتا نہیں ہے اور ہم اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ اب ناجائز کہلا کرکسی جھولے میں بھی نہیں ڈالے جاسکتے؟؟؟

8 تبصرے :

  1. نشتر!!!

    ایک مرتبہ اُستاد جعفر نے ٹوئیٹ میں کہا تھا " قلم کو کٹار کی مانند استعمال کرنے والے لوگ"۔۔۔
    مکمل کٹار۔۔۔۔ چیر بھی دے اور رونے بھی نہ دے

    جواب دیںحذف کریں
  2. جناب جون نے کہا تها

    جو دیکهتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
    میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  3. محترم! بہترین عکاسی کی ہے حالات کی۔۔۔ اللہ آپ کے قلم مزید طاقت دے۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. dil mai utar jaaneh walei tehreerain......
    class ki writings hain

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت