اتوار، 23 اپریل، 2017

3 - مریض

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔

میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ لوگوں کی طرح ہنستا، گاتا، مسکراتا، اور زندگی سے بھرپور لطف کشید کرتا تھا۔ میری لکھی گئی نظمیں اور کہانیاں زبان زد عام ہوا کرتی تھیں۔ میری تحاریر زندگی سے بھرپور ہوتی تھیں۔ میرا کام مسکراہٹیں بکھیرنا تھا۔ میں اپنی تحریر سے لوگوں کو گدگداتا تھا۔ زندگی کے آلام میں انہیں تصویرِ زیست کے وہ درخشندہ پہلو دکھاتا تھا جو ان کی زندگی میں زندگی بھر دیتے تھے۔ میری یہ تحاریر لوگوں کو جینا سکھاتی تھیں۔ مسکرانا سکھاتی تھیں۔ احساس جگاتی تھیں۔ میں اپنے وقت کا ایک کامیاب مصنف و شاعر تھا۔ پھر ایک دن میری خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اور مجھے احساس نامی جان لیوا بیماری لاحق ہوگئی۔

ہوا کچھ یوں کہ میری تحریر اور اس تحریر میں موجود ظرافت کو دیکھتے ہوئے ایک ٹیلیویژن ڈرامہ بنانے والے ادارے نے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے لیئے مزاح لکھوں۔ شاید ایک فن کار کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اس کے وجود کا ادراک، اس کے کام کی افادیت تسلیم کیا جانا ہوتا ہے۔ ڈرامہ لکھنے کی یہ درخواست میرے لیئے ایک بڑے اعزاز کی بات تھی سو میں نے فوراٗ اس کام کیلئے ہامی بھر لی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ڈرامہ لکھنا میری زندگی میں وہ تبدیلی لائے گا جس کے بعد، میں لوگوں کو ہنسانا تو درکنار، خود بھی ہنسنا بھول جائوں گا۔

میں جب مزاح لکھنے بیٹھا تو مجھے احساس ہوا کہ قلم مجھ سے روٹھ چکا ہے۔ میں ہزار کوشش کے باجود بھی لکھ نہیں پارہا۔ میں، سید عاطف علی، وہ انسان جو یہ دعویٰ رکھتا تھا کہ الفاظ اس کی باندی ہیں، تہی دامن کھڑا تھا۔ لفظ مجھ سے روٹھ چکے تھے۔ میں نے لاکھ چاہا کہ زبردستی قلم کو گھسیٹوں اور کچھ لکھ ڈالوں، مگر قلم نے میری ایک نہ سنی۔ میں نے اس کی بارہا خوشامد کی کہ مجھے اس طرح اکیلا نہ چھوڑے مگر قلم کا ایک ہی جواب تھا، مٰیں تمہارے لیئے کام نہیں کر سکتا، تم بےحس ہو۔

میرے لیئے یہ بےحسی کی گالی بہت تکلیف دہ تھی۔ میں نے اپنے تئیں اس بے حسی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا شروع کردی۔ اس ہی کوشش میں، میں نے معاشرے پر نظر دوڑائی تو مجھے احساس ہوا کہ میں کس گندگی کے ڈھیر میں جی رہا ہوں!  جس معاشرے اور مثبت پہلوئے زندگی پر میں کہانیاں تراشتا تھا دراصل اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ جس اتحاد و اتفاق کی مثالیں میں دیا کرتا تھا وہ کہیں سیاست کے نام پر اور کہیں مذہب و مسلک کے نام پر چیتھڑوں میں تبدیل ہوچکا تھا۔ جس مثبت خیالی اور عظم و حوصلے کی طرف میں لوگوں کو بلاتا تھا وہ خود میرے اندر عنقا تھا۔ جو معاشرہ رات کے کھانے کے بعد اگلے دن کی بھوک کے تصور سے رات بھر جاگتا ہو اس معاشرے میں مثبت خیالی زندہ رہ بھی کیسے سکتی تھی؟ میں نے محسوس کیا کہ جس زندگی کی تعریف میں میں ہمیشہ رطب اللسان رہا ہوں وہ دراصل کتنی بھیانک ہے۔ جن رشتوں کی تعریف میں میں نے کہانیوں اور افسانوں کے انبار لگا دیئے ہیں وہ دراصل کتنے کھوکھلے ہیں۔ احساس کے دریچے مجھ پر کھلتے گئے اور زیست میرے لئے دشوار تر ہوتی چلی گئی۔ مگر اب یہ اطمینان ضرور تھا کہ قلم سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جڑگیا تھا۔

میں احساس کی دولت سمیٹ کر واپس اپنی لکھنے والی میز پر آگیا۔ قلم نے مسکرا کر میرا استقبال کیا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے شاباش دے رہا ہو۔ میں مسکرایا اور لکھنا شروع ہوگیا۔ مگر لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ قلم میرے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ مزاح لکھوں مگر قرطاس پر صرف خون منتقل ہوتا نظر آرہا تھا۔ معصوم پاکستانیوں کی امیدوں کا گاڑھا سرخ خون۔ میں اس خون کو دیکھ کر لرز اٹھا اور چاہا کہ قلم چھوڑ دوں مگر تب مجھے احساس ہوا کہ میں اب چاہ کر بھی اس خوں ریز قلم سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ مجبوری کی حالت میں ہی سہی مگر میں لکھتا چلا گیا۔ جب دوات خالی ہوتی، میں معاشرے کے اندر کوئی چھپا ہوا گھائو ڈھونڈتا اور قلم کی نوک اس میں گاڑ کر اس میں سے مزید روشنائی حاصل کرلیتا۔ میرے اس فعل سے معاشرے کے وہ گھائو جنہیں قدرت نے کمال مہربانی سے چھپا رکھا تھا، لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ماحول مکدر تر ہوتا چلا گیا مگر میں کیا کرتا؟ میں مجبور تھا کہ اب مجھے اس خون کی لت لگ چکی تھی۔ میری تحاریر پڑھ کر لوگ بلبلاتے تھے، کڑھتے تھے، دھاڑیں مارتے تھے، مگر میں کیا کرتا؟ میں جب تک انہیں تڑپا نہیں لیتا تھا، میں خود تڑپتا رہتا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہوگیا کہ میں اتنے عرصے امید و مثبت خیالی کے نام پر جھک مارتا رہا تھا۔ اس اذیت پسند معاشرے میں میری یہ نوچنے اور کاٹنے کی بیماری ایک نعمت سے کم نہیں تھی۔

اب میں پہلے سے زیادہ کہانیاں لکھتا ہوں اور پہلے سے زیادہ مطمئن زندگی گزارتا ہوں۔ میں کہ جو کسی زمانے میں ایک ٹھیلہ بھی لگا چکا ہوں اب خود کے چھ پیٹرول پمپ رکھتا ہوں۔ ایکڑوں پر محیط میری اراضی ہے۔ سیاسی جماعتیں میری چوکھٹ چومتی ہیں کہ میں ان کے حق میں کالم لکھوں۔ تصور تو کیجئے، اگر میں بھی دوسروں کی طرح مثبت خیالی کا پرچار کرتا رہتا تو آج زیادہ سے زیادہ کسی اخبار میں جنرل مینجر بن جاتا؟ جبکہ آج بیسیوں اخبارات کے جنرل مینجر میرا سفارشی رقعہ لینے کیلئے میرے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔

میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل صحیح پہچانا، میں ایک مشہور اخبار کیلئے کالم اور اس ہی ادارے کے ٹیلیویژن چینل کیلئے حالات حاظرہ پر تبصرے کا ایک پروگرام کرتا ہوں۔

5 تبصرے :

  1. Well written on our society, especially on so called our anchorsite.

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کی تحریر پڑھ کر کچھ لمحے میں خود بهی اس کیفیت میں تهی ... بہت بار پڑھا ہر بار اس تحریر کا مہفوم بدل جاتا ہے.... سدا خوش رہیں آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. متشکرم ... خدا آپ کو سلامت رکھے

    جواب دیںحذف کریں
  4. واہ عاطف بھائی، مزہ آیا یہ انکشاف نما تحریر پڑھ کر، دعا ہے کہ آپ ہمیشہ احساس نامی بیماری میں مبتلا رہیں اور بے حسی سے محفوظ رہیں

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت