اتوار، 29 دسمبر، 2019

بینظیر


سینتالیس کے بٹوارے میں اتر پردیش سے آنے والے مہاجرین بالعموم دو معاشی انتہاؤں  کے مکین  تھے۔ ان میں سے ایک تو وہ  پڑھا لکھا اور آسودہ حال طبقہ تھا جو باقی ہندوستانیوں کو خود سے کمتر گردانتے     ہوئے  ان کے ساتھ رہنے کو توہین سمجھتا تھا اور پاکستان کو اشرافیہ کے لئے چنیدہ جگہ سمجھ کر ہجرت کر آیا تھا جبکہ دوسرا اور زیادہ بڑا طبقہ وہ تھا جو سابقہ ہندوستان میں کسمپرسی کی زندگی جی رہا تھا اور پاکستان کی صورت میں انہیں ایک نئی شروعات کی امید نظر آرہی تھی۔ بینظیر کا دادا بھی ایسی ہی اکثریت سے تعلق رکھتا تھا اورکانپور سے اٹھ کر ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے باپ کے ساتھ کراچی پہنچا تھا۔ لٹتے لٹاتے پہنچنے کا  محاورہ یہاں خلافِ واقعہ ہے کہ غریب کے پاس تھا ہی کیا کہ لٹاتا؟ اور خاندان کے چند افراد کے جانے کو  لٹنا اس لئے نہیں تسلیم کیا جا سکتا کہ اگر کانپور میں رکے رہتے تو شاید فاقوں سے مر جاتے۔ اب کم از کم یہ تاج تو  سر پر سج گیا تھا کہ وطن کی بنیادوں میں ہمارے بھی گھر والوں کا خون شامل ہے۔
غریب کی زندگی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں انہونیاں نہیں ہوتیں۔ ہر چیز مقررہ وقت پر حسب معمول  ہوا کرتی ہے۔ کبھی اچانک سے دن نہیں بدلتے۔ بلکہ اکثر تو ساری عمر کی محنت کے بعد بھی  نہیں بدلتے۔ مستقل غربت کے دنوں میں ہر چند ماہ بعد موت، بیماری، تہوار یا رسومات وغیرہ کی شکل میں تقدیر یہ یقینی بناتی ہے کہ بھولا بھٹکا کوئی روپیہ جمع نہ ہو جائے۔ اور جب تک نسلوں میں کوئی ایک باغی پیدا نہ ہو، غربت کے تسلسل کا یہ سفر نسل در نسل جاری رہے   ۔ بغاوت کیسے غریبی کی زنجیروں کو توڑتی ہے یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ ہمارا موضوع تو بینظیر ہے ۔ جس نے آپ کی طرح یہ کہانی فقط پچھلی سطر تک پڑھی تھی اور اپنی ننھی سی سمجھ کے اعتبار سے جو بغاوت کرسکتی تھی کرنے نکل پڑی تھی۔  ویسے بھی بغاوت کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ بچا ہی کب تھا؟ 
وہ سات بہن بھائیوں کی سب سے بڑی بہن تھی جس کا نام اپنے وقت کی وزیراعظم کے نام پر بینظیر رکھا گیا تھا۔ سن اٹھاسی میں جب وہ پیدا ہوئی تھی تو بینظیر بھٹو اپنے عہدے کا حلف لے چکی تھیں اور بھٹو کی بیٹی سے متاثر اس  کے  باپ نے اس کا نام بھی بینظیر رکھ دیا تھا کہ ہر بے انتہا غریب کی زندگی کے ہیرو ہمیشہ بے انتہا طاقتور اور امیر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔   اس غریب کو کیا معلوم تھا کہ نام کا اثر اس طرح آنا تھا کہ محض اٹھارہ برس کی عمر میں  باپ کے گزر جانے کے بعد اس بینظیر کو بھی گھر سے باہر قدم رکھنا پڑے گا۔ یہ فرق بہرحال اپنی جگہ تھا کہ بھٹو کی بیٹی اپنا حق حکمرانی حاصل کرنے نکلی تھی جبکہ اس بینظیر کو اپنے چھ دیگر بہن بھائیوں اور بیوہ ماں کا زندہ رہنے اور پیٹ بھر کھانے کا حق حاصل کرنے کے لئے نکلنا پڑ گیا تھا۔  باپ اپنی زندگی میں میٹرک تک پڑھا گیا تھا تو لکھت پڑھت اور بنیادی انگریزی جانتی تھی۔ ان دونوں چیزوں کے ساتھ ساتھ خاندان کی سب سے پڑھی لکھی لڑکی ہونے کا زعم  بھی اس سے  دفاتر میں جوتیاں چٹخاتا رہا مگر جلد ہی سمجھ آگئی کہ کراچی نامی انسانوں کے سمندر میں  ہر میٹرک پاس کے اوپر تین انٹر پاس اس ہی آسامی پر کم تنخواہ میں کام کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جہاں دفتر کے اندر کی نوکری کے لئے اس سے  زیادہ قابل لوگ موجود تھے وہیں دفتر کے باہر ریسپشن پر بیٹھنے کے لئے اس سے زیادہ خوش شکل خواتین کا ہجوم تھا  جو ہر طرح کے حالات میں ڈھل جانے کا اضافی ہنر بھی رکھتی تھیں۔  دو ہفتوں میں ہی اسے سمجھ آگئی تھی کہ دفاتر میں نوکری پانے کے لئے اگر ڈگری نہ ہو تو اور دیگر صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہےجن میں وہ مکمل کوری تھی۔  خود کو تو حالات کے حساب سے ڈھالنا مشکل تھا سو اس نے اپنی توقعات کو حالات کے حساب سے ڈھال لیا اور خاموشی سے اپنی محلے کی دو لڑکیوں کے ساتھ ہی ایک کارخانے میں نوکری کر لی کہ جس کا مالک ایک شریف آدمی تھا اور کارخانے میں کام کرنے کے لئے ڈگری کے بجائے محنت اور لگن کی ضرورت تھی  جس میں وہ غریب گھرانے کی اکثر لڑکیوں  کی طرح خودکفیل تھی۔
وقت اپنی رفتار کے ساتھ گزرتا گیا اور سال بھر کے اندر ہی اس نے کارخانے میں اپنی جگہ مستحکم کر لی ۔ کارخانے کے ذمہ داران اس کی محنت اور قابلیت دونوں سے خوش تھے اور نئے سال کے آغاز میں تنخواہ کے اضافے کے ساتھ اسے سپروائزر کی جگہ بھی دینے والے تھے۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ تنخواہ بڑھنے کے بعد وہ اپنے سے چھوٹے بھائی کی نوکری چھڑوا کر تعلیم دوبارہ شروع کرا سکے گی تاکہ وہ پڑھ لکھ کر ان سب بہن بھائیوں کے دن پھیر سکے۔ وہ تھا بھی بہت قابل۔ پڑھ لکھ جاتا تو کوئی اچھا عہدہ حاصل کرنے کے تمام گن بھی رکھتا تھا مگر حالات کی ٹھوکروں نے اسے مکتب سے اٹھا کر ورکشاپ پر لا بٹھایا تھا ۔
وہ روزانہ کی بنیاد پر دن گن رہی تھی کہ کب پہلی تاریخ آتی ہے  اور وہ باقاعدہ نئے عہدے اور نئی تنخواہ کی خوشخبری گھر والوں کو سنا سکے۔ ابھی پہلی تاریخ میں چار دن باقی  ہی تھے کہ وہ منحوس   جمعرات درمیان میں آگئی۔
کہنے کو وہ اک نہایت معمول کا دن تھا مگر دن بھر کی مشقت کے بعد جب چار بجے چھٹی ہوئی تو   بھی اس کی مشین پر کام موجود تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ باقی کا کام اگلے  دن پر چھوڑ دے مگر پھر یاد آیا کہ چھوٹی کی دوائی کے لئے ابھی  کچھ اضافی نقدی بھی درکار ہوگی۔ چھوٹی کی بیماری یاد کر کے اس نے سہیلیوں کو روانہ کردیا اور خود ایک گھنٹہ مزید رک کر اوورٹائم لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں تک تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر جب کام سمیٹ کر ساڑھے پانچ بجے وہ کارخانے سے نکلی تو باہر ایک افراتفری کا عالم تھا۔جس طبقے سے وہ تعلق رکھتی تھی وہاں  موبائل فون تب بھی اتنے عام نہیں تھے کہ اسے خبر ہوتی  باہر کیا قیامت بیت چکی ہے۔  کسی نے بتایا کہ بینظیر بھٹو کو گولی لگ گئی ہے۔  کراچی شہر میں رہتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ ایسے حالات میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہے اور پھر رکشہ یا ٹیکسی والے بھی اپنی من مانی  کے پیسے مانگتے ہیں ہیں  لہٰذا دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتی ہوئی وہ تیز قدموں کے ساتھ سڑک کی طرف چلنا شروع ہوگئی کہ ٹرانسپورٹ غائب ہونے سے پہلے  بس پکڑ سکے۔
سڑک پر پہنچنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ سڑک سے پبلک اور پرائیوٹ دونوں اقسام کی ٹرانسپورٹ غائب ہوچکی ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ واپس کارخانے چلی جائے مگر پھر خیال آیا کہ  شاید اگلے سٹاپ سے کوئی سواری مل جائے؟ ویسے بھی سڑک پر وہ اکیلی نہیں تھی۔ اس جیسی سینکڑوں دیگر لڑکیاں بھی تیز قدموں کے ساتھ اس ہی امید میں اگلے سٹاپ کی جانب گامزن تھیں۔  اس نے آیت الکرسی کا ورد جاری رکھا اور دیگر لوگوں کے ساتھ خود بھی اگلے سٹاپ کی سمت چلنا شروع ہوگئی۔ تھوڑا ہی آگے  گئی ہوگی کہ اس نے دور چند گاڑیوں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ وہ گاڑیاں بیچ سڑک  پر جلائی جا رہی تھیں۔ وہ چند لمحوں کے لئے ٹھٹکی مگر پھر اپنے ساتھ چلتے باقی لوگوں کو بھی ڈرتے ڈرتے ہی سہی مگر سفر جاری رکھتا دیکھ کر اس نے بھی ہمت پکڑی اور قدم بڑھاتی رہی ۔  دس بیس قدم چلنے کے  بعد منظر جب اور واضح ہوا تو وہ اپنی جگہ پر سن ہو کر کھڑی رہ گئی۔ آگے نا صرف گاڑیاں جلائی جا رہی تھیں بلکہ ان گاڑیوں کے سواروں کو باقاعدہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔  اس نے  بے بسی کے عالم میں وہیں سڑک پر کھڑی دیگر لڑکیوں سے دریافت کیا کہ آیا ان میں سے کسی کے پاس موبائل فون موجود ہے  کہ وہ پڑوس میں کسی کے گھر فون کر کے ماں کو خیریت بتا سکے تو جواب ملا کہ فی الوقت کوئی بھی نیٹ ورک کام نہیں کر رہا۔
اس کے بعد کیا ہوا، کسی کو معلوم نہیں ہے۔ کیوں کہ آگےکی کہانی سنانے   بینظیر نہ کبھی گھر پہنچی نہ واپس کارخانے۔ 
(کوئی کہتا ہے کہ سڑک پر موجود دہشت گردوں نے اسے بھی گولی مار دی تھی۔ مگر اس صورت میں اس کی لاش ہی بازیاب ہوجاتی؟ محلے کے وہ بزرگ جو جوان لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے کے عذابوں سے ڈرایا کرتے تھے، ان کے مطابق کوئی اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا اور اب وہ ان ہی لوگوں کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر بینظیر جیسی بھی فاحشہ ہو، اپنے گھر والوں سے کبھی اتنی بے نیاز تو نہیں تھی کہ بارہ سال میں ایک بار بھی پلٹ کر نہ آئے نہ فون کرے؟  بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بینظیر کو جو کوئی اٹھا کر لے گیا تھا اس ہی نے مار کر اس کی لاش بھی ٹھکانے لگا دی تھی۔ بینظیر کی بیوہ ماں اور چھ بہن بھائی البتہ ان میں سے کسی بھی بات کو ماننے سے انکاری ہیں۔ وہ آج بھی اس بات پر مصر ہیں کہ حکومت انہیں کوئی مصدقہ اطلاع دے۔ خواہ وہ اطلاع اس کی موت ہی کی کیوں نہ ہو۔ انصاف کی عیاشی صرف طاقتوروں کو میسر سہی مگر کم از کم انہیں اس کی باقیات دکھائی جائیں ۔  کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر یہ بینظیر بھی بھٹو ہوتی یا  ماڈل ٹاؤن میں ہوتی تو یہ ممکن ہوجاتا مگر کراچی میں ایسی سہولیات دستیاب نہیں۔  مگر میں جانتا ہوں کہ اس طرح کی باتیں محض لسانیت اور تعصب پھیلانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ میں اس لئے ان میں سے کسی بات کا یقین نہیں کرتا۔ چاہتا تو میں یہ بھی لکھ سکتا تھا کہ بلاول خوش قسمت ہے کہ جو کم از کم  یہ تو جانتا ہے کہ ماں کی برسی کس دن ہے۔ مرے ہوئے کا ایک وقت کو صبر بھی آجاتا ہے مگر جیتے جی کا صبر کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ مگر میں ایسی باتیں نہیں لکھوں گا۔ میں کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ میں سے کوئی یہ کہانی پڑھے اور بینظیر کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا، اس بارے میں کچھ جانتا ہے تو بینظیر کے گھر والوں کو اس کے بارے میں مطلع کردے۔ کیا ہے کہ وہ بھی ستائیس دسمبر کو بینظیر کی برسی منانا چاہتے ہیں مگر تصدیق کے انتظار میں روز مر رہے ہیں۔)

جمعرات، 26 دسمبر، 2019

پھانس


چھوٹی کہلائی جانے والی باتیں انسان کو جتنا گہرا دکھ دیتی ہیں ، بڑی باتیں اس کا عشرِ عشیر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یقین نہ آئے تو زندگی کی رفتار سے ایک موٹا سریا اپنے پیر پر مار کر دیکھ لیں اور اس کی آدھی رفتار سے ایک باریک پھانس اس ہی جگہ پر چبھا  لیں۔ فرق خود سمجھ آجائے گا۔
ایسی واہیات و بے سروپا باتیں میں نہیں کرتا ۔ میں تو صرف غریب کہانی کار ہوں اور اس کی یہ بھونڈی دلیل آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ کیوں پہنچا رہا ہوں؟ میں نہیں جانتا۔ شاید تمہید باندھنے کے لئے ؟ یا شاید اس لئے کہ آج  جسم  میں پھانس چبھو بیٹھا ہوں اور اس سستے فلسفے سے جڑے کہیں زیادہ قیمتی اور عملی  فلسفے کا ادراک کر رہا ہوں؟ یا شاید اس لئے کیونکہ  میں تخلیق پر قدرت رکھتا ہوں اور ہر خالق  ہی کی طرح میں بھی اپنے اس اختیار کو بے جا استعمال کرنے کی عادت رکھتا ہوں؟  یا شاید اس لئے کیونکہ میں بھی بالآخر ایک انسان  ہوں اور  ہم انسان جس چیز کو بھولنا چاہیں اسے یاد کرنے کے بہانے غیر متعلق چیزوں میں سے بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں؟  یا شاید یہ تمام وجوہات بیک وقت اس تحریر کا موجب بن رہی ہوں؟  اصل وجہ کیا ہے، میں نہیں جانتا!  میں بس یہ جانتا ہوں کہ میری اس کی یہ گفتگو جامعہ کے باغ  میں ہوئی تھی جہاں چلتے چلتے اس نے پیروں سے گرگابی اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی اور چار قدم چلنے کے بعد ہی کراہتی ہوئی نیچے بیٹھ کر پیر میں چبھنے والی پھانس نکالنے کے دوران اس نے مجھے یہ سستا فلسفہ سنایا تھا۔
انسانوں کے المیے کے لئے خود ان کا انسان ہونا ہی کافی تھا مگر ستم بالائے ستم یہ  کہ ہم اپنی انسانیت کی سمجھ دوسرے انسانوں پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں سے کیا شکوہ کہ میں خود بھی ایک عمر تک اس ہی ذلیل حرکت کا مرتکب ہوتا رہا ہوں۔  سچ تو یہ ہے کہ یہ گفتگو بھی ایک ایسے ہی انسانی المیے کے نتیجے میں ہی وقوع پذیر ہوئی ۔
کہانی بہت معمولی ہے۔ ایک غریب سے ایک امیر زادی کا عشق اور اس کے لازمی نتیجے میں امیر زادی کے گھر والوں کا غریب کو یاد دلانا کہ ایسی شادیاں تو اب ہندوستانی سینما میں بھی نہیں دکھائی جاتیں  اور جتنی تمہاری آمدنی ہے اتنے تو ہمارے کتوں پر خرچ ہوجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔  معمول کی کہانیوں کے اعتبار سے لڑکے کو اس سب کے بعد لڑکی کو بھگا کر لے جانا چاہئے جبکہ حقیقت پسند لکھاری شاید یہاں لڑکے کو قارئین کی سہولت کے اعتبار سے چند لاکھ یا ایک آدھا کروڑ دلوا کر چپ کروا دیں۔ مگر چونکہ فی زمانہ اینٹی کلائمیکس لکھنے کا رواج ہے اور یہ کہانی بھی نئے زمانے کی ہے سو یہاں  غریب زادہ بغیر پیسے لئے ہی اپنی اوقات پہچان لیتا ہے اور امیر زادی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ 
امیر زادی  نے چونکہ زندگی میں کبھی نہ نہیں سنا اس لئے وہ غریب زادے کے سادے سے انکار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتی ہے۔ تِس پہ یہ نوجوان اپنا دیوتا ؤں والا چوغہ نکالتا ہے اور امیر زادی کے سامنے ایک ایسے بھیانک انسان کے روپ میں آجاتا ہے کہ جس سے خدا کی ہر مخلوق گھن کھاجائے۔ امیر زادی عشق میں مبتلا ضرور تھی مگر ایک نفیس طبیعت کی مالک تھی۔ اول تو اس نے سب کو اپنا وہم یا سمجھ کی غلطی سمجھ کر ٹال دیا مگر جب غریب  نے مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ چوغہ اوڑھے رکھا تو ناچار امیر زادی بھی گھن کھا کر خود ہی پسپا ہوگئی ۔ رخصت کی یہ آخری ملاقات جامعہ میں ہی ہوئی تھی کہ جہاں دونوں پڑھتے تھے۔ یہ آخری ملاقات ہر لحاظ سے آخری ملاقات تھی۔ اور جاتے سمے جامعہ کے باغ کی گھاس پر ہونے والی یہ گفتگو  ہم دونوں کے درمیان کی آخری گفتگو تھی۔  میں نے آخری ملاقات کی جگہ آخری گفتگو کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ اس دن کے بعد ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہو۔
اس ایک ملاقات کے قریب گیارہ برس  بعد کل ہم دونوں دوبارہ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے۔ اب میں بھی اتنا غریب نہیں رہا ہوں ۔ غربت کی وجہ سے عشق لٹانے والے اکثر مرد بعد میں کبھی غریب نہیں رہتے۔ ایک عام انسان کے مقابلے میں ایسے انسانوں کی ترقی کی بھوک سات گنا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کھو دینے کا کرب جان جاتے ہیں۔شہر کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے شاپنگ مال میں گھومتے ہوئے کل وہ ایک بار پھر میرے سامنے آئی تھی ۔ اس بار وہ اکیلی نہیں تھی۔ ایک آٹھ سالہ حسینہ نے اس کی انگلی تھام رکھی تھی جبکہ ملازمہ سٹرالر میں ایک دو سالہ بچے کو لئے اس کے آگے چل رہی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک لحظہ کے لئے ٹھٹھکے  ضرور مگر پھر وہ خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
اس ایک لمحے میں اس کی نگاہیں کئی ہزار لاکھ پھانسیں میرے پورے جسم میں پیوست کر گئی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے جو نفرت اور حقارت تھی اس نے میرے دیوتائی چوغے کے تارو پود بکھیر دیے ہیں۔ میرا دل کیا تھا کہ میں دوڑ کر اس کو روک لوں اور اسے بتاؤں کہ میں اتنا مہان انسان ہوں جو تمہاری بہتر زندگی کے لئے اور تمہیں غربت سے جڑے آلام سے محفوظ رکھنے کے لئے خود تمہاری نظروں میں گرنے تک کے لئے تیار ہوگیا۔ جس نے تمہیں کبھی بھاپ تک نہ لگنے دی کہ وہ غلاظت کی دلدل میں محض اس لئے کود رہا ہے تاکہ تمہارے دامن پر کوئی چھینٹ نہ آئے۔ ایسے دیوتا تو پوجے جانے کے لائق ہوتے ہیں! کوئی ان سے نفرت کیسے کر سکتا ہے؟  مگر پھر یاد آیا کہ اس ہی لئے دیوتا ؤں کی جگہ آسمانوں میں ہوتی ہے۔ کسی وجہ سے ہی وہ انسانوں سے براہِ راست مخاطب نہیں ہوتے۔ انسانوں کے درمیان تعلق  بھی انسانوں والے ہی جچتے ہیں۔
کل سے اب تک چن چن کر جسم سے پھانس نکال رہا ہوں اور فلسفے کے نئے سبق سیکھ رہا ہوں۔ میں سیکھ رہا ہوں کہ پھانس بھی رشتوں کی طرح ہوتی ہے کہ اگر ڈھنگ سے کلوژر نہ کیا جائے تو چبھن مستقل ہوجاتی ہے۔ خواہ وہ رشتہ انسانوں سے ہو یا شہر سے یا کسی بھی دوسری مادی شے سے ۔ میں سیکھ رہا ہوں کہ پھانس کے چبھنے کا کرب اپنی جگہ مسلم صحیح مگر پھانس کے نکالنے کے اپنا ایک کرب ہے جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔  میں سیکھ رہا ہوں کہ کچھ کہانیاں پھانس ہی کی طرح ہوتی ہیں کہ جن کا آغاز بھی تکلیف دہ ہوتا  ہے اور جب تک وہ جاری رہتی ہیں تکلیف پہنچاتی رہتی ہیں۔ اور پھر ایسی کہانیوں کا انجام بھی صرف ایک ہوتا ہے۔ اذیت!
میں ایک غریب کہانی کار ہوں اور میں سیکھ چکا ہوں کہ فلسفہ سستا صحیح مگر یہی حقیقت ہے کہ چھوٹی کہلائی جانے والی باتیں انسان کو جتنا گہرا دکھ دیتی ہیں ، بڑی باتیں اس کا عشرِ عشیر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یقین نہ آئے تو زندگی کی رفتار سے ایک موٹا سریا اپنے پیر پر مار کر دیکھ لیں اور اس کی آدھی رفتار سے ایک باریک پھانس اس ہی جگہ پر چبھا  لیں۔ فرق خود سمجھ آجائے گا۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت