منگل، 10 جنوری، 2017

کتے

زندیق

ان کے چہرے پر پھیلا سکون مجھے بری طرح بے چین کیے دے رہا تھا۔ ہم دونوں اس وقت شہر کے ایک مشہور ہسپتال میں موجود تھے جہاں وہ بطور سپرنٹنڈنٹ کام کرتی تھیں۔
آپ جانتی ہیں نا کہ اس کمرے کے باہر آپ کو کن ناموں سے پکارا جاتا ہے؟  کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب میرا ضبط جواب دینے لگا تو میں نے لہجے کی کڑواہٹ چھپانے کی کوشش کرے بغیر وہ سوال ان کی جانب اچھال دیا۔
میں ایک دوائیوں کی کمپنی میں کام کرتا ہوں اور آج سے سات سال پہلے کتوں کے کاٹے کی ایک ویکسین کی مشہوری کے سلسلے میں ان سے پہلی بار  ملا تھا ۔ وہ اس وقت بھی دنیا بھر میں ریبیز کے نام سے جانے والی اس بیماری پر کام کرنے والے گنے چنے ناموں میں ایک بڑا نام مانی جاتی تھیں۔  اس پہلی ملاقات میں ہی مجھے ان سے اتنی انسیت ہوگئی تھی کہ سال بھر بعد ویکسین کے شعبے سے ہٹ جانے کے باوجود میں ہر چند ماہ بعد ان سے ملنے پہنچ جایا کرتا تھا۔ اور یہ تعلق یکطرفہ ہرگز نہیں تھا۔ وہ بھی مجھے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں۔ سنا تھا کہ ان کا اکلوتا بیٹا جوانی میں ہی چل بسا تھا تو شاید وہ مجھ میں اپنے اس گزرے ہوئے بیٹے کا عکس دیکھتی تھیں۔ یا شاید اس وجہ سے کہ میں ان کے بیٹے کا ہم نام ہوں۔ وجہ جو بھی کچھ رہی ہو میں نے اسے جاننے کا تردد کبھی نہیں کیا تھا۔  میرے لئے یہی بہت تھا کہ وہ اپنے مصروف ترین شیڈول سے میرے لئے وقت نکال لیتی تھیں۔
میری ان سے آخری ملاقات پچھلے ہفتے ہی ہوئی تھی جس میں میں نے ان کے ملحدانہ خیالات کا شکوہ کیا تھا اور گفتگو تھوڑی گرم سرد پر ختم ہوگئی تھی۔ اس تلخ گفتگو کے بعد مجھے لگتا تھا کہ اب ہم  شاید اگلے چند ماہ نہ مل پائیں گے مگر خلافِ توقع انہوں نے آج مجھے خود کال کر کے اپنے دفتر بلا لیا تھا جہاں اب وہ مجھے بٹھا کر خود سکون سے اپنے کام نمٹانے میں مشغول تھیں۔ میرے سوال پر انہوں نے فائل سے سر اٹھا کر ایک نیم مسکراہٹ  کے ساتھ جواب دیا، سنکی، خبطی، زندیق، سفاک وغیرہ کے علاوہ کوئی نیا نام آیا ہو تو ضرور بتانا ، اور یہ کہہ کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئیں۔ جواب سن کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ مزید بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے اور ویسے بھی میں پچھلے ہفتے والی تلخی کو دہرانا نہیں چاہتا تھا لہٰذا صبر کا گھونٹ پی کر خاموشی سے اپنا موبائل نکالا اور دفتری ای میل دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔
کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا ئی رہی۔ مجھے یقین تھا کہ بظاہر ہم دونوں اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں مگر دونوں ہی یہ چاہ رہے تھے کہ دوسرا گفتگو میں پہل کرے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا مگر تقدیر نے ہم دونوں کی مشکل آسان کر دی اور ان کا فون بج اٹھا۔ فون سنتے ہی  ان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے اور مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کھڑی ہوگئیں اور چلتے چلتے بول اٹھیں کہ ،تم یقینا آج اس طرح بلائے جانے کی غایت سمجھنے کی کوشش کر 
رہے ہو گے ،سو اب آؤ۔ آج میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں۔ میں خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑا۔

المیہ

کمرے اور پھر وارڈ سے باہر نکل کر ہم ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پر آ نکلے جس کے سامنے اس وقت ایک عجیب تماشہ لگا ہوا تھا۔ ہسپتال میں داخل مریضوں کے لواحقین جو بالعموم گھاس یا بینچز پر سستا رہے ہوتے ہیں، اس وقت ایک گاڑی کے گرد گھیرا بنا کر کھڑے ہوئے تھے۔ اس گھیرے کے درمیان میں ایک مرد اپنی جواں سال بیوی کو پکڑا ہوا تھا جو اس کی گرفت سے آزااد ہوکر اس گاڑی کی سمت جانا چاہ رہی تھی جو ایمرجنسی کے بالکل سامنے موجود تھی۔ اور وہ گاڑی! وہ گاڑی اس بری طرح ہل رہی تھی گویا اس میں کوئی طاقتور بھینسا مقید ہو جو آزاد ہونے کے لئے کبھی گاڑی کی چھت پر ٹکر مارتا تھا اور کبھی گاڑی کی داہنی جانب اور کبھی بائیں جانب۔ ابھی میں صورتحال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے ہاتھ چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور لپک کر گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہوگئی۔ اس کا خاوند گھبرا کر اس کے پیچھے ہی لپکا  اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بدقت تمام اسے گاڑی سے باہر کھینچ لایا۔
اس مرتبہ جب وہ عورت باہر آئی تو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ اس کے دوسرے بازو پر اپنا جبڑا گاڑے ایک نو سالہ بچہ بھی ساتھ گھسٹتا آیا تھاجو اب روشنی کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگیا تھا۔  روشنی میں آتے ہی اس بچے نے اس عورت کا بازو چھوڑ دیا اور پہلے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگا اور پھر اچانک ہی نیچے جھکا اور آنکھیں بند کئے ہی چاروں ہاتھوں پیروں پر گول گول گھومتے ہوئے  غیر انسانی آوازیں نکالنا شروع ہوگیا۔ ہسپتال کے احاطے میں رش مزید بڑھ چکا تھا اور با آواز بلند استغفار ، لاحول اور تعوذ پڑھنے کی آوازیں آرہی تھیں جبکہ چند لوگ اپنے اپنے موبائل کے کیمروں سے یہ عبرتناک منظر فیس بک کے ذریعے دنیا کو دکھانے میں مصروف تھے تاکہ جو عبرت وہ خود حاصل نہ کرسکے وہ کوئی تو حاصل کرلے۔دل ہی دل میں انہیں کوستا ہوا میں آگے بڑھنے کا سوچ ہی رہا  تھا کہ پیچھے سے میڈم کی چنگھاڑ گونجی،" تم لوگوں کو یہاں تماشا لگانے کے لئے بلایا تھا؟ اٹھا کر وارڈ میں شفٹ کرو اسے" میں  آواز سن کر پیچھے مڑا ہی تھا کہ چند وارڈ بوائے مجھے ایک جانب دھکیلتے ہوئے  اس ہجوم کی سمت لپکے اور ہجوم کو کاٹ کر چند ہی لمحوں میں اس بچے کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

کتے

کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ شاید ہم دونوں ہی اس خاموشی کے دامن میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ شاید ہم دونوں ہی جانتے تھے کہ "بات نکلی تو یہاں جان نکل جائے گی"۔ کمرے کے باہر اس بچے کے والدین ہمارے منتظر تھے اور شاید اس گمان میں تھے کہ کمرے کے اندر موجود افراد اس بچے کے علاج کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کے  کتے کے کاٹے سے پیدا ہونے والی یہ ریبیز نامی بیماری لا علاج ہے۔  بروقت ویکسین نہ میسر ہونے کی صورت میں پھیلنے والی یہ بیماری اگر عمومی زبان میں بیان کی جائے تو انسان کے حواس کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ عام آدمی کو دیکھنے کے لئے جتنی روشنی درکار ہوتی ہے، اتنی روشنی میں یہ مریض اندھا ہونے لگتا ہے۔ ہلکی سی سرسراہٹ اسے ڈھول کا شور سنائی دیتی ہے۔ اسے  غیر مرئی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ اس کا دماغ طرح طرح کے واہمے تراشنے لگتا ہے۔ ایک عجیب وحشت اس مریض کے حواس پر سوار ہوجاتی ہے اور اسے اس حال میں پہنچانے والے جانور کی طرح اس میں بھی کسی بھی جاندار کو دیکھ کر اسے بھنبھوڑ ڈالنے کی اشتہا جنم لے لیتی ہے۔ معاملہ یہیں تک محدود رہے تو شاید کسی طرح سنبھال لیا جائے مگر دنوں کے اندر ہی انسان کے اعضا جواب دینا شروع ہوجاتے ہیں اور ایک آہستہ مگر اذیت ناک موت اسے آ دبوچتی ہے۔
خدا  جانے ہم کتنی صدیاں یونہی خاموش بیٹھے رہے ۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا اگر کمرے کا دروازہ نہ بجتا۔ اس بچے کے والدین شاید یارہ ضبط کھو بیٹھے تھے اور میں ان کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ میں نے میڈم کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو وہ دھیرے سے بول اٹھیں، میں جانتی تھی کہ یہ لوگ حیدرآباد سے یہاں آرہے ہیں، اس ہی لئے میں نے تمہیں یہاں بلوایا تھا۔  تین ہفتے پہلے اس بچے کو ایک سڑک پر گھومنے والے پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا۔ بیچارے والدین اپنے تئیں شہر کے ایک مستند کلینک پر اس بچے کو فوری طور پر لے بھی گئے تھے مگر شو مئی قسمت کے وہاں چند سو روپے میں ملنے والی ویکسین بھی جعلی سپلائی کر دی گئی تھی جو اس موذی جرثومے کا کچھ نہ بگاڑ پائی۔ تم جاننا چاہتے تھے نا کہ میں ایسی کیوں ہوں؟ آج جب میری جگہ تم ان والدین کو اس بات پر راضی کرو گے نا کہ ان کے بچے کو سکون آور انجیکشن لگا دیا جائے جس سے وہ ہفتہ دس دن کی جگہ چند گھنٹوں میں ہی اس مشکل سے چھٹکارا پا لے تو شاید تم بھی جان جاؤ گے! میں جانتی ہوں کہ وہ تم سے بحث کریں گے۔ تمہیں قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنا سب کچھ بیچ باچ کر اس بچے کو بچانے کے لئے دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لئے تیار ہیں مگر تم جانتے ہی ہوگے کہ اب اس بچے کا واحد علاج اس کی موت ہے۔ سو وہ جتنی جلدی آجائے اتنا اس بچے کے حق میں بہتر ہے۔  اگر وہ تم سے پوچھیں کہ تم اس بچے کو کیسے قتل کرنے والے  ہو تو انہیں تسلی دے دینا کہ تم محض ایک سکون آور انجیکشن لگاؤ گے اور باقی کام اس کا جسم اب خود کرلے گا۔ قوت مدافعت کے حساب سے چونکہ یہ ابھی کم عمر ہی ہے تو اندازا تین سے چار گھنٹے کے بعد یا تو اس کا دل بند ہوجائے گا یا پھٹ جائے گا اور اس کے بعد اس کی اذیت ختم ہوجائے گی۔ میری دعا ہے کہ دل پھٹنے کی نوبت نہ آئے! اور ہاں! دعا سے یاد آیا کہ وہ تمہیں معجزات کے ہونے کا یقین دلائیں گی۔ کہیں گی کہ تم اس بچے کو ایسے ہی چھوڑ دو اور خدا اسے ٹھیک کردے گا تو انہیں بتا دینا کہ میں نے کہا تھا کہ معجزہ اگر ہونا ہی ہوتا تو میرے بیٹے کی مرتبہ ہی ہوچکا ہوتا۔ وہ معصوم بھی ریبیز میں ہی ایک جعلی ویکسین کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ریبیز کے کیس میں معجزے نہیں ہوتے۔ یا تو ویکسین ہوتی ہے یا پھر ایک اذیت ناک موت! مجھے افسوس ہے کہ انہیں بھی ویکسین نہیں مل پائی! یہ کہہ کر انہوں نے اپنا بیگ اٹھایا اور اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میں ہکا بکا ان کی شکل دیکھ رہا تھا۔ الفاظ کہیں بہت دور رہ گئے تھے۔میں بس بے بسی سے انہیں کمرے کے دروازے کی طرف جاتا ہو دیکھ رہا تھا۔  وہ دروازے کی طرف جاتے جاتے رکیں اور پلٹ کر ایک بار پھر گویا ہوئیں، ہاں میں ملحد ہوں۔ زندیق ہوں۔ مگر کبھی میں بھی باقاعدہ مسلمان تھی۔ نمازیں پڑھتی تھی۔ روزے رکھتی تھی۔ دعائیں مانگتی تھی۔ اب کچھ بھی نہیں کرتی۔ اب تو بس اس کے وجود کی منکر ہوں۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں اب بھی یہ امید رکھتی ہوں کہ وہ ہے! اور اپنے وجود کے اس انکار پر چراغ پا ہے! سو میں اپنے الحاد پر ڈٹی ہوئی ہوں۔ اس امید پر کہ ایک دن وہ اپنے غصے میں ہی سہی اور مجھے سزا دینے کے لئے ہی سہی میرے سامنے آئے گا اور اس دن میں اس سے پوچھ سکوں گی کہ میرا کیا قصور تھا؟ اس کمرے کے باہر موجود ماں کا کیا قصور ہے؟ آج سے پہلے اس ہی طر ح آنے والی، گڑگڑانے والی ماؤں اور بیویوں اور بیٹیوں اور بہنوں کا کیا قصور تھا؟ وہ معجزات جن کا ہم بچپن سے ذکر سنتے آئے تھے وہ ریبیز میں کیوں نہیں ہوتے؟ کہتے کہتے شدت جذبات سے ان کی آواز بھرا چکی تھی۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی پشت سےاپنی آنکھوں کو بیدردی سے پونچھا اور دوبارہ جانے لگیں مگر میں نے انہیں آواز دے کر روک لیا۔ میں نے پوچھا مگر آپ اس وقت مجھے اس آزمائش میں چھوڑ کر جا کہاں رہی ہیں؟ انہوں  نے آنسوؤں کے بیچ ایک سفاک مسکراہٹ میری سمت اچھالی اور بولیں، میرے حلقہ احباب کی چند خواتین نے حکومت کی کتا مار مہم کے خلاف ایک مظاہرہ رکھا ہے جس میں مجھے تقریر کرنی ہے۔ تفصیلات کے لئے وقت نہیں ہے میں پھر کبھی سمجھا دوں گی۔ اگر یہ کتا مار مہم نہ رکی تو بڑا نقصان ہوجائے گا۔ ان کتوں کا رہنا بہت ضروری ہے۔ جب تک  اس ملک میں کسی بڑے آدمی کے بیٹے کو کتا نہیں کاٹ لیتا،  جعلی ویکسین ایسے ہی بچوں کو کھاتی رہیں گی! چلتی ہوں۔ خدا حافظ!

8 تبصرے :

  1. اب سمجھے معجزات سے یقین کیوں آٹھ گیا؟
    وقت بڑا ظالم اور حالت بے حد سفاک ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔جانے کیوں ہمیں اشرف المخلوقات کہتے ہیں!

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نجانے کیوں مجھے یہ گمان ہے کہ بندر بھی آپس میں ایک دوسرے کو اشرف المخلوقات ہی کہتے ہوں گے کیونکہ یہ لقب نہ کسی آیت میں ملتا ہے نہ روایت میں۔

      حذف کریں
  2. اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن اسلام کی غلط تشریح ہے، (میرے مطابق)

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بجا فرمایا حضور! تو آپ اسلام کی صحیح تشریح (باتصویر رہے تو قارئین کے لئے آسانی رہے گی) کب شائع کر رہے ہیں؟

      حذف کریں
  3. السلام علیکم، امید سے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا نام نزہت اسلم ہے اور میں آپ کی قریباً دو سال سے قاری ہوں۔ ہمیشہ سے ارادہ رہا کہ آپ کو فیڈ بیک دیا جائے مگر 'تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے'۔ آپ بہت سفاک کہانیاں لکھتے ہیں جو اب مجھے اکثر رلا دیتی ہیں، یا شاید ایک واقعے نے مجھے زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ خیر میں صرف اتنا کہوں گی کہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، آپ کی چند تحاریر جو مجھے بہت پسند آئیں ان میں 'شہرِزاد کے نام خط' 'غیرت مند' 'تعاقب' اور حالیہ کہانی کتے بہت پسند آئی۔ آپ کی'بھڑاس' بھی خرید رکھی ہے۔ ایسے ہی لکھتے رہیے، بھڑاس نکالتے رہیے۔ اللہ آپ کو ڈھیروں خوشیاں نصیب فرمائے۔ آپ ہمیشہ میری دعاؤں میں رہتے ہیں۔ مجھے بھی دعا میں یاد رکھیے گا۔ شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اچھی بہن! آپ کا محبت نامہ پڑھا۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ میری تحاریر کو پڑھنے والے اور پھر پڑھ کر سراہنے والے دنیا کے سب سے مثبت سوچ کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ مثبت سوچ کی اس سے بڑی انتہا کیا ہوگی کہ ایک شخص قرطاس پر قے کرتا ہے اور آپ لوگ اس میں بھی آرٹ ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ کیا خوبصورت نقوش تراشے ہیں۔ آپ کے جذبات کی قدر اور احترام کرتا ہوں مگر خود کو تعریف کے قابل نہیں پاتا۔

      حذف کریں
  4. آپ لکھتے نہیں ہو قہر تقسیم کرتے ہو رلا دیتے جذباتی کر دیتے ہو. لیکن کیا کروں استقامت سے خالی ہوں پھر سب بھول جاتا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ بھولنے سے باز نہیں آتے سو میں لکھنے سے باز نہیں آتا۔ حساب برابر

      حذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت