اتوار، 22 نومبر، 2020

جہنم


خدا کا تصور محض ایک مرد ہونے سے ہی محدود کیوں ہے؟    کبھی ہم اسے عورت  ہونے کے نقطہ نظر سے کیوں نہیں سوچ سکتے؟   جب وہ خود اپنی پہچان ایک ماں کے حوالے سے کراتا ہے تو ہم اسے زبردستی مردانہ حوالے سے کیوں سوچتے ہیں؟     نانی جھنجھلا کر نانا ابا سے بحث کرنے میں مصروف تھیں اور میں کونے میں بیٹھا خاموشی سے مونگ پھلی سے شغل کرنے میں مصروف تھا۔ یہ مباحثہ ہر دوسرے دن کا تھا۔ اور میں جانتا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بحث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوجائے گی اور نانا ابا  اور نانی امی دونوں اپنے اپنے موقف پر جمے رہیں گے۔ 

نانا ابا کا ہمیشہ سے ماننا تھا کہ اللہ تعالٰی ہوتے ہیں جبکہ نانی امی انہیں قائل کرنے کی کوشش میں مگن رہتی تھیں کہ خدا اول تو جنس کی قید سے آزاد ہے اور اگر اسے جنس کے خانے میں رکھنا لازم ہی ہے تو محض صنف کرخت ہی کیوں؟  اللہ تعالیٰ ہوتی کیوں نہیں ہیں؟  اور یہ بحث محض خدا کی جنس تک محدود نہیں تھی۔ نانا ابا کا کہنا تھا  کہ خدا رحیم و کریم کے ساتھ قہار و جبار اور منتقم بھی ہے۔ دنیا میں جو کچھ اعمال ہم کر رہے ہیں وہ ہم سے ان کی جواب طلبی بھی کرے گا۔البتہ  نانی اماں اس معاملے میں ایک انوکھی منطق کی حامل تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ہستی رحمان کے ساتھ رحیم کا لفظ لگائے بغیر اپنے رحم کی تعریف مکمل  نہ سمجھتی ہو، وہ کسی کو بات نہ ماننے پر آگ میں کیسے ڈال سکتی ہے؟ یہ سب بحث میری ننھی سی سمجھدانی کے لئے بہت بڑی تھی۔ مجھے ان سب منطق و دلائل کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ میں خاموش تماشائی بنا بس ان دونوں کو بحث کرتا دیکھتا اور منتظر رہتا کہ کس دن فیصلہ ہو اور میں طے کر سکوں کہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے یا ہوتی ہیں۔ بحث کا فیصلہ ہونے تک اللہ تعالیٰ میرے لئے بھی صنف کرخت ہی تھے کہ خدا کا اپنی جنس سے متعلق ہونا شاید مجھے بھی یہ احساس دلاتا تھا کہ جنس کی حد تک میں صحیح پیدا ہوچکا تھا اور تھوڑے سمے کی ہی بات تھی کہ جب آگے چل کر محدوود پیمانے پر میں بھی چند لوگوں کی زندگی  کی تقدیر کے فیصلے کر سکتا تھا۔  

خدا لگتی کہوں تو اکثر دماغ نانی امی کی دلیل سے زیادہ متفق ہوتا تھا  جو کہتی تھیں کہ "بڑے میاں! دعا کرو کہ خدا ویسا نکلے جیسا میں بتا رہی ہوں ۔ کیونکہ اگر خدا ویسا نکلا جیسا میں کہتی ہوں تو ہم دونوں کی بچت ہے۔ مگر خدا ویسا نکلا جیسا تم کہتے ہو تو یاد رکھو کہ جنت میں تم بھی نہیں جا رہے۔" مگر  نانی اماں کی دلیل کو ماننے میں جو مسائل تھے میں  ان کا ذکر پہلے ہی کر چکا ہوں سو  میں دماغ کو یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ اگر یہ دلیل اتنی ہی موثر ہوتی تو اب تک نانا ابا بھی قائل ہوچکے ہوتے اور چونکہ وہ اب تک قائل نہیں ہوئے ہیں اور میں ان سے زیادہ نہیں جانتا لہٰذا مجھے بھی  اس دلیل کو نانا ابا ہی کی طرح مکمل رد کردینا چاہئے۔

دنیا میں کوئی بھی چیز متواتر نہیں رہتی سو یہ مباحثے بھی ایک دن دم توڑ گئے۔ نانا ابا اور نانی اماں کے قائل ہونے سے پہلے ہی ایک دن نانی اماں کی طبیعت بگڑ گئی اور ہسپتال پہنچنے سے پہلی ہی نانی اماں نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لئے موند لیں۔ بحث کرنے والی ہی نہ رہی تو اب مباحثہ کیا خاک رہتا؟ نانی اماں کے گزرنے کے بعد نانا ابا بھی بہت خاموش رہنے لگے۔ میں گو کہ ان کا چہیتا تھا مگر اب مجھ سے بھی گفتگو نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔  میں ان سے ملنے جاتا بھی تو وہ بستر پر خالی لیٹے رہتے ا ور مچان پر پڑے پردے کو تکتے رہتے کہ جیسے ابھی وہ پردہ ہٹے گا اور مچان میں سے کوئی دلچسپ چیز نکل کر باہر آجائے گی۔ میں بات کرنے کی کوشش کرتا تو بھی ہوں ہاں سے زیادہ جواب نہ دیتے۔ تنگ آ کر میں نے بھی ان کے پاس جانا بند کردیا۔

پھر ایک دن صبح سویرے مجھے آپا نے جھنجھوڑ کر جگایا کہ نانا ابا مجھے فورا یاد کر رہے ہیں۔ میں کم سن ہی تھا اور معاملات کو نہیں سمجھتا تھا۔ البتہ مجھے یہ ضرور علم تھا کہ معاملہ خیریت کا نہیں ہوسکتا تھا۔ نانا ابا نے اس طرح پہلے مجھے کبھی طلب نہیں کیا تھا۔ میں دوڑتا ہوا نانا ابا کے کمرے   میں گیا تو وہ بستر میں ہی دراز تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھے اور میرا ہاتھ تھام کر بولے،  تمہیں معلوم ہے نا کہ تمہاری نانی ایک نیک عورت تھیں؟  گو سوال میرے لئے غیر متوقع تھا مگر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ انہیں شاید میرے جواب سے فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا، تم نے دیکھا تھا نا کہ وہ کس طرح مجھ سے بحث کرتی تھی؟ میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ میری بات سنتی ہی کب تھی؟  میں جانتا تھا  خدا کی ذات کو لے کر کی گئی اس کی بے ادبیوں کی سزا مجھے بھی ملے گی!  میں ان کی عجیب سے باتیں سن کر سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ مسلسل بولے جارہے تھے۔ کل رات میں نے تمہاری نانی کو خواب میں دیکھا۔ ہم دونوں حشر کے میدان میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ بڑا سارا ایک باغ تھا۔کہیں نہریں بہہ رہ تھیں اور کہیں حسین و آراستہ محل نما عمارات تھیں۔ وہیں بہت سارے لوگ تھے ۔ سب اپنی باری کے منتظر۔ سامنے ایک بڑی سی میز تھی کہ جس کے سامنے جا کر ان میں سے ہر شخص کا حساب ہونا تھا۔ میں تمہاری نانی سے ماجرہ سمجھنے کی کوشش کر  ہی رہا تھا  کہ اچانک میرے نام کی پکار شروع ہوگئی۔ اس سے پہلےکہ میں کچھ سمجھتا، میں نے محسوس کیا کہ میرے قدم خود بخود چلنا شروع ہوگئے ہیں اور ایک ہی لمحے میں میں اس وسیع و عریض میز کے سامنے موجود تھا کہ جس کہ پیچھے  بے انتہا روشنی کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں پڑتا تھا۔  میں نے آواز لگائی کہ میرا وقت ابھی نہیں آیا اور یہ سب محض ایک خواب ہے۔ میں ابھی زندہ ہوں تو مجھ سے حساب کیسے ہوسکتا ہے؟  مگر سامنے سے جواب آیا کہ "وقت ہم ہیں! ہم طے کریں گے کہ کس کا حساب کب ہونا ہے!"  میں نے احتجاج میں منہ کھولنا چاہا تو میں نے محسوس کیا کہ زبان اپنی قوت گفتار کھو چکی ہے۔ میز کی دوسری طرف ایک ساعت کے لئے خاموشی رہی گویا وہ مجھے اپنی تشفی کرنے کا موقع دینا چاہتے ہوں کہ میں چاہوں بھی تو اپنی زبان کو نہیں ہلا سکتا۔  اور اس کے بعد جو آواز گونجی اس میں ایک عجیب سی مایوسی تھی۔ بالکل ویسی جیسی اماں کی آواز میں ہوتی تھی کہ جب ان کے بہت سمجھانے کے بعد بھی میں کوئی کام صحیح سے نہ کرپاتا تھا۔ میں نے سنا، "ہم نے تمہیں اتنا سمجھانے کی کوشش کی۔  کتابیں بھیجیں۔ لوگوں کو تمہاری زندگی میں  تمہاری سمجھ اور وقت کے اعتبار سے ترتیب وار بھیجا۔  اور اس سب اہتمام کے باجود بھی تم اتنی لمبی چوڑی زندگی میں ایک دن بھی ہمارے نہ ہوسکے؟ " میں نے محسوس کیا کہ میری قوت گویائی واپس لوٹ چکی ہے۔ میرے کانوں میں خود میری ہی گھبرائی ہوئی آواز گونجی، تو اب؟ کیا اب آپ مجھے آگ میں ڈال دیں گے؟  سامنے سے جواب آیا، تم جب دنیا میں ہمارے نہ ہوسکے تو یہاں ہمارے کیا ہوگے؟ اور جو ہمارا نہیں ہے ہم اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا تردد بھی کیوں کریں؟  تم آزاد ہو۔ جیسی دنیا میں آزاد زندگی گزاری ویسی یہاں بھی گزارو! یہ محلات موجود ہیں۔ جس میں چاہو قیام کرو۔ نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں سے چاہو، جتنا چاہو سیر ہو کر پیو۔ جو کرنا ہے کرو، بس آئندہ ہمیں اپنی شکل نہ دکھاؤ۔ ہمارا تمہارا کوئی تعلق دنیا میں نہ بن سکا۔ ہمارا تمہارا یہاں بھی کوئی تعلق نہیں بن سکتا۔ تمہاری ضروریات ہر طرح سے پوری کر دی جائیں گی۔ بس کبھی ہم سے تعلق بنانے یا بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔

میں پہلے تو ہکا بکا کھڑا اس آواز کو سنتا اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اور جب ادراک کا در مجھ پر وا ہوا کہ میرے ساتھ کیا قیامت بیت چکی ہے تو میں بے ساختہ فریاد پر اتر آیا کہ یہ سزا بہت سخت ہے۔ مجھے کسی آگ کے گڑھے میں ڈال دیا جائے یا پھر پیپ پلائی جائے تاکہ میرا اور خدا کا حساب برابر ہوسکے مگر اس طرح مکمل ٹھکرا دینے والی سزا میرے لئے بہت سخت ہے۔ میں اس سب کے لئے تیار نہیں ہوں۔ ایسی کسی سزا کا ذکر قرآن یا حدیث کہیں نہیں ملتا۔ یہ سزا نصاب سے ہٹ کر ہے اور میرے ساتھ زیادتی ہے۔  میں وہیں کھڑا چیختا رہا یہاں تک کہ اپنے ہی شور سے میری آنکھ کھل گئی۔

نانا ابا اپنا خواب مکمل سنا کر اب ہانپ  رہے تھے اور میں مایوسی کے ساتھ ان کی گفتگو سن کر سوچ رہا تھا کہ بڑھاپے میں جاکر نانا ابا زندیق ہوگئے تھے اور اپنی تمام عمر کی عبادات کو ایک شیطانی خواب کے چکر میں مقدس کتابوں اور فلسفہ جنت و جہنم کی توہین کر کے  برباد کررہے تھے۔ میں اس گفتگو میں شریک ہوکر اپنا ایمان خراب نہیں کرسکتا تھا۔ میں نانا اباکو سلام کر کے کمرے سے اٹھ آیا۔

اس بات کو آج پینتالیس برس گزر چکے ہیں۔ پینتالیس برس قبل نانا ابا کے ساتھ ہوئی اس نشست کے چند ہی گھنٹوں بعد نانا ابا بھی نانی امی کی طرح ہی گھر سے ہسپتال اورپھر وہیں سےخدا کے پاس منتقل ہوگئے تھے۔ خدا جانے مرنے کے بعد انہیں جنت نصیب ہوئی یا جہنم۔ کل رات میں نے نانا ابا اور نانی امی دونوں کو ایک ساتھ خواب میں دیکھا۔ دونوں حشر کے میدان میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ بڑا سارا ایک باغ تھا۔کہیں نہریں بہہ رہ تھیں اور کہیں حسین و آراستہ محل نما عمارات تھیں۔ وہیں بہت سارے لوگ تھے ۔ ہجوم کو دیکھ کر میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اور کرتا بھی کیا؟ میرا ایمان  بہت کمزور ہے۔ میں جہنم میں جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔  

بلاگ فالوورز

آمدورفت