اتوار، 9 اگست، 2015

ایڈیٹر کے نام چند خطوط

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

مکرمی جناب،

فدوی آپ کی توجہ ایک اہم نکتے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے ۔ آپ کے موقر جریدے میں آج  ایک خبر چھپی ہے جس کے مطابق قصور شہر میں دو سو چھیاسی بچے بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس زیادتی کی ویڈیو فوٹیج بنا کر بعد میں ان بچوں کے والدین کو ہراساں کیا گیا اور ان سے بھاری رقومات وصول کی گئیں۔

جنابِ والا! اگر اس خبر کو سچ مان لیا جائے تو بتائیں اتنے عرصے وہ والدین خاموش کیوں رہے؟ اور اب اچانک کیوں بول پڑے؟  دراصل پڑوسی ملک میں زنا بالجبر کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں بے حد بدنامی ہورہی تھی اس لیئے  بھائی خلیل کے  اخبار (جو پہلے ہی را کی ایجنٹی کیلئے مشہور ہے) کے زریعے یہ جھوٹا افسانہ گھڑا گیا اور ہمارے ملک کو اس سازش میں بدنام کیا جا رہا ہے۔امید ہے آپ کا اخبار  اس معاملے کی نزاکت کو سمجھے گا اور اگلے دس بارہ سال تک کہ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوجاتا، اس بارے میں کوئی خبر نہیں چھاپے گا۔ ویسے تو آپ خود  ہی کافی سمجھدار ہیں مگر پھر بھی فدوی آ پکو یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتا ہے کہ اس ملک میں ہندوستانی ایجنٹوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

والسلام
مخلص،
ٹوئیٹری غیرت بریگیڈ

---------------

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

جناب عالی ،

آج آپ کے اخبار میں ایک خبر چھپی ہے  جو ابھی میرے منشی کے بیٹے کے نے مجھے پڑھ کر سنائی ہے جس کے مطابق  ہمارے بیٹے نے  دو سو چھیاسی بچے بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا  اور اس زیادتی کی ویڈیو فوٹیج بنا کر بعد میں ان بچوں کے والدین کو ہراساں کیا اور ان سے بھاری رقومات وصول کیں۔

دیکھیں جی میں آپ کو بتادوں کہ میرا بیٹا کوئی ایسی ویسی نیچ حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ میں اس کا باپ ہوں اور اسے آپ سب سے بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں قرآن اٹھانے کیلئے تیار ہوں کہ میرے بیٹے نے یہ نیچ کام نہیں کیا ہوگا۔ ویسے بھی ہم کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ہیں اور ہمارے لڑکوں کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ اگر کہیں انجوائے کریں بھی تو پیسے دے کر آئیں نہ کے الٹا پیسے مانگیں۔ زیادتی والی بات ہمیں ایک وقت کو برداشت ہے مگر ان کمی کمینوں سے پیسے مانگنے والی بات ہمارے خاندان کی ناک کٹوانے کا باعث ہے لہٰذا میں آپ کے موقر جریدے کی وساطت سے تمام میڈیا ہائوسز سے یہ  پرزور اپیل کرتا ہوں کہ پیسے مانگنے والے نیچ کام کا الزام واپس لیا جائے۔

شکریہ
سات میں سے ایک کا باپ

---------------

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

محترم جناب!

زندگی میں پہلی  بار کسی کو خط لکھ رہا ہوں اس لیئے املا اور مضمون کی اغلاط کو درگزر کر دیجئے گا۔  آپ کے اخبار میں چھپنے والی آج کی خبر نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کردیا ہے اور اب ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ اتنے سارے بچوں کی عصمت دری کے اس الزام و واقعے کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔ کوئی اسے ملک کو بدنام کرنے کی سازش گردانتا ہے اور کوئی اسے زمین کا تنازعہ بتاتا ہے۔ ایک چیز جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ پولیس نے چار سو سے زائد ویڈیو ٹیپس پکڑنے کا اعلان کیا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسے اعلانات بے وجہ نہیں کیئے جاتے ۔ سو جب ویڈیوز موجود ہیں اور ان ویڈیوز میں انسانی بچے اور انسانی شکل میں موجود درندے دونوں موجود ہیں تو محرکات کے اوپر بے شک دو رائے ہوں تو ہوں مگر اس سانحے کے ہونے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیئیں۔

جناب ایڈیٹر! میں آپکے صفحات کی قدر سے بخوبی واقف ہوں لہٰذا خط کو طویل نہیں کروں گا۔ مجھے آج آپ کے موقر جریدے کی وساطت سے قوم سے چند باتیں کرنی ہیں۔ زیادتی ، یہ وہ لفظ ہے جو پڑھنے میں بے انتہا آسان اور گزرنے میں دنیا کا دشوار ترین کام ہے۔ کتنی روانی سے ہم یہ جملہ پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ فلاں شہر میں فلاں دوشیزہ کے ساتھ زیادتی۔ جناب ایڈیٹر! میں آپ کے روزنامے کے وساطت سے تمام اردودان طبقے سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس زیادتی کا کوئی متبادل لفظ ایجاد کیا جائے جو قارئین کو احساس دلا سکے کہ کس طرح ایک معصوم  روح کو کچلا جا رہا تھا۔ کوئی ایسا لفظ جو قارئین کو سمجھا سکے کہ اگر درندوں کا شکار نہ کیا گیا تو کل کو ان کی اپنی بیٹی یا ان کی اپنی بہن یا وہ خود لباس کے ساتھ ساتھ عزت نفس کی دھجیاں اڑتی ہوئی محسوس کر رہے ہوں گے۔ کوئی ایسا لفظ جناب والا جو ہم بےحس و نیم مردہ لوگوں کو زندہ کرسکے۔

مجھے امید ہے کہ آپ کی قابل ٹیم کوئی ایسا لفظ ڈھونڈ سکے گی اور اگلی بار جب آپ کا قاری ایسی کوئی خبر پڑھے گا تو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک  زمہ داروں کو قرار واقعی سزا نہ دلوا دے۔

والسلام
احقر
عام پاکستانی

-----------------

بخدمت جناب  ایڈیٹر صاحب
روزنامہ مشہور و معروف
کراچی،

پیارے انکل!
مجھے پتہ ہے کہ چونکہ میں "سویلین پبلک اسکول" کا طالبعلم تھا اور چونکہ میرے ابو بغیر بندوق والی نوکری کرتے ہیں اور چونکہ میرا نام بلاول، بختاور، قاسم، سلمان، مریم، حمزہ، حسن وغیرہ نہیں ہے اس لیئے آپ میرے لیئے کچھ نہیں کرسکتے لہٰذا اس بارے میں بات کرنا ہی 
فضول ہے۔


والسلام،
دو سو چھیاسی میں سے ایک

9 تبصرے :

  1. ۲۔کیا یہ درست نہیں کہ جاگیر دار، سرمایا دار حکومتی ٹولہ اور ان کا مراعات یافتہ افسر شاہی، منصف شاہی، فوج شاہی کا شاہی طبقہ پاکستان کے ۱۸ کروڑ مسلم اُمہ کے فرزندان اور ان کی نسلوں کے پیدا کردہ زرعی پیدا وار، صنعتی مصنوعات، ہر قسم کا را مٹیریل، مال و دولت، شب و روز کی محنت سے اکٹھا کیا ہوا خزانہ ستر فیصد کسانوں، انتیس فیصد مجبور و بے بس مزدوروں، محنت کشوں، ہنر مندوں، سفید پوشوں، بیروز گاروں اور غربت تنگ دستی سے تنگ آ کر خود کشیاں، خود سوزیاں کرنے والوں کا نہیں۔
    (بابا جی عنایت اللہ)

    جواب دیںحذف کریں
  2. ایڑیٹر کے نام خط منشیات کے مساعل کے بارے میں

    جواب دیںحذف کریں
  3. جوابات
    1. ایڈیٹر کےنام اسکول می منعقدہ میلاد النبی کے پروگرام کا احوال شایع کروانے کے لئے خط لکھیں

      حذف کریں

  4. جب میں اپنی قوم کے نوجوانوں پر نظر ڈالتا ہوں تو دل سے ایک آہ نکلتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ ایک انبوہ عظیم ہے جسکی نہ کوئ منزل ہے نہ رستہ۔ انکی حالت بھی عجیب قابل رحم ہے۔ انکے دلوں میں محبت تو ہے مگر محل محبت کا انکو علم نہیں۔ انکے ہاں عقیدت تو ہے مگر یہ نہیں پتا کہ کس پہ نچھاور کریں۔ اتحاد تو ہے مگر اپنے مفادات کی گلی سے آگے تک نہیں۔ اخوت تو ہے مگر اس حد تک جہاں سے دوسری برادری‛ دوسرے محلے‛ دوسرے فرقے‛ دوسری زبان یا دوسری رنگت والوں کی حد شروع ہوتی ہے۔ میری قوم کے جوان محنتی ہیں اور ایماندار ہیں۔ لیکن ان کاموں میں جنکی بنیاد بے ایمانی پر ہے۔ کھیل کا میدان ہو تو جم کے کھیلتے ہیں مگر جہاں قومی مفاد کے لئے کھیلنے کی ضرورت ہو وہاں ذاتی مفاد آڑے آجاتےہیں۔ تھوڑی سی زیادہ پیسوں کی لالچ انکا سارا کیرئیر تباہ کر دیتی ہے۔ میرے نوجوان انجینئرز چند روپوں کے لئے اپنی ڈگریاں بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میرے نوجوان ڈاکٹر اپنے ہی ہسپتالوں کو تباہ کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے نوجوان اپنے آپ سے بھی مخلص نہیں رہے۔ کجا یہ کہ وہ صحت افزا کاموں اور کھیلوں میں وقت صرف کریں۔ دیکھا جاتا ہے کہ وہ گلی محلوں میں جوئے کے کاروبار لگائے بیٹھے ہیں یا موبائل فون اور انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی اور وقت کے ضیاع کا موجب پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ یا سڑکوں پر ون ویلنگ کرنے کی کوشش میں اپنی اور اپنے قریبیوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

    آخر اس سب طوفان بدتمیزی کا سبب کیا ہے؟ کیا ہمارے نوجوان کسی سے کم تر ہیں؟ نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ لیکن انکو راہ دکھانے والا کوئ نہیں۔ وہ آگے بڑھنا چاہتے اور ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں لیکن انکی رہنمائ کرنے والا کوئ نہیں۔ اسکا سبب یہ ہے کہ ہم اس تنظیم سے محروم ہیں جسکا خواب ہمارے قائد نے قیام پاکستان کے وقت دیکھا تھا۔ ہمارے لیڈر بے عمل ہیں۔ وہ اپنے مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا نوجوان لاعلمی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ اور کسی مسیحا کا منتظر ہے جو اسے ہاتھ پکڑ کر سوئے منزل لے جائے۔ ہمارے نوجوان قیادت کے فقدان کا شکار ہیں۔ وہ ماضی کے تلخ تجربات سے سخت مایوس ہیں کیونکہ انہوں نے جنکو اپنا رہبر مانا انہی نے قوم سے بے وفائ کی اور قوم کو فرقہ پرستی اور عدم برداشت کی جہنم میں دھکیلتے رہے۔ انہوں نے نوجوانوں سے کئے وعدے پورے نہ کئے۔ اور انہیں اس بند گلی میں چھوڑ دیا جہاں سے نہ آگے بڑھنا ممکن ہے اور نہ ہی واپسی کی کوئ صورت۔

    مگر میں اپنے نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مایوس نہ ہوں اور ہمت نہ ہاریں۔ کیونکہ خدا کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔ جلد ہی وہ سویرا طلوع ہوگا جو رات کی تاریکیوں کو مٹا دے گا کیونکہ ہر شب کے بعد سحر ہے۔ ہر غم کے بعد خوشی ہے اور ہر دکھ کے بعد سکھ ہے۔ اس لئے ہمت مت ہارو اور جزبوں کو زندہ رکھو۔ ہمارے آباؤاجداد نے اس ملک کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے فوجی جوانوں نے اس ملک کی سلامتی کے لئے اپنا خون بہایا ہے۔ انکی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور جلد ہم اپنی منزل بھی پا لیں گے اور اپنا راستہ بھی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. اخبار کے ایڈیٹر کے نام خط سکول میں منعقدہ یوم اقبال کی تقریب

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت