ہفتہ، 31 اکتوبر، 2020

گدھ - 4

 

بے لذت چیز گناہ ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسا میں نہیں کہتا۔ یہ تو اس کا ماننا تھا۔  مگر اس کی باتوں کا کیا اعتبار؟ اس کا تو یہ بھی ماننا تھا کہ کوٹھے سے اگلا موڑجہنم کاہوتا ہےاور پھر  آج کی کہانی شروع ہی وہاں سے ہوتی ہے جب وہ خود کو تسلیاں دیتا ہوا  ایک کوٹھے کی جانب گامزن تھا۔

کردار  کے تعارف اور اس کے کناروں سے لپٹی ہوئی آپ کی کردار سے متعلق آراء کو پس انداز کرتے ہوئے، ہم کہانی پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جس میں وہ کوٹھے کی جانب گامزن تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا زینہ چڑھنے  کے تصور سے وہ اتنا  ہی گھبرایا ہوا تھا جتنا میں اور آپ کسی بھی معاشرتی طور  پرنفرت انگیز کام کو پہلی بار کرنے سے پہلے ہوتے ہیں۔  اول تو پہچانے جانے کا خوف   دامن گیر تھا مگر پھر یہ کہہ کر خود کو تسلی دی گئی کہ جو احباب وہاں پہچانیں گے وہ خودکون نیک کام کرنے آئے ہوں گے کہ ان سے شرمایا جائے؟  دوسرا خیال پولیس کے چھاپے کا تھا تو اس نے  جگہ کا انتخاب وہ کیا کہ جہاں  امرا ء و شرفاء کی آبادی ہو اور پولیس کا عمل دخل کم از کم ہو۔نکتہ چیں احباب کو امرا و شرفا کی ترتیب پر ضرور اعتراض ہوسکتا ہے مگر  مارکسی سوچ کا علاج تو خود حکیم مارکس کے پاس بھی موجود نہیں تھالہٰذا ہم کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

بتائی گئی مصروف سڑک  پر پہنچ کر اس نے پہلے اطراف  کے راہگیروں کی کی تسلی کی اور اس اطمینان  کے بعد کہ وہاں کسی جان پہچان والے کا گزر نہیں تھا، اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل پر اس نائکہ کا نمبر ملا دیا جسے آج ہی اس کے ایک شوقین مزاج دوست نے متعارف کروایا تھا۔ فون کال کے تھوڑی ہی دیر بعد موٹرسائکل پر سوار ایک لڑکا اس کے پاس موجود تھا  جو اسے سمجھانے کے بعد کہ  اصل منزل ابھی چند قدم اور دور ہے اور اصل پتہ حفاظتی اقدامات کے تحت نئے گاہکوں کو نہیں بتایا جاسکتا، اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر مرکزی سڑک سے متصل گلیات میں داخل ہوگیا ۔ دل تو ایک مرتبہ پھر کانپا تھا مگر اس نے ہمت کر کے گاڑی اس موٹرسائکل کے پیچھے لگا دی اور چند ہی لمحوں میں وہ رہائشی علاقے میں واقع ایک عام سے گھر کے باہر موجود تھا۔

مکان کو دیکھ کر اول تو اس کا شک مزید پختہ ہوا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہو سکتا ہے کہ سامنے ایک مکمل رہائشی مکان موجود تھا کہ جس کے بارے میں کوئی بھی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ یہاں کوئی کوٹھا ہوسکتا ہےمگر پھر دوسرا خیال آیا کہ اب مکان کے باہر فلاں فلاں وحشیا سروس کا بورڈ تو آویزاں ہونے سے رہا!  وحشیاؤں کے لئے مخصوص علاقوں کے ختم ہونے  کے بعد اب ان کی بقا کی واحد سبیل یہی تھی کہ رہائشی علاقوں میں مکمل رازداری  کے ساتھ کام کو چلایا جائے اور سامنے موجود مکان کو دیکھ کر اسے یہ تسلی ہونے  لگی تھی کہ اس کی میزبان وقت اور دھندے کے تقاضوں سے  مکمل آگاہ اور ہم آہنگ تھی۔

کانپتے قدموں کے ساتھ مکان کی دہلیز پار کرتے ہوئے حسب عادت اس نے خدا کو یاد کرنا چاہا  مگر  دعا کے درمیان میں ہی  کام کی نوعیت کا ادراک کرتے ہوئے وہ اپنے آپ میں ہی کھسیانا ہوگیا۔ خاموشی سے اس لڑکے کے پیچھے چلتے ہوئے  وہ ایک ہال میں داخل ہوگیا جہاں مختلف عمر کی پانچ لڑکیاں اور ایک تقریبا ادھیڑ عمر خاتون موجود تھی جو شاید اس کوٹھے کی نائکہ تھی۔ خاتون نے اس کو دیکھتے ہی چہرے پر ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ سجائی مگر اپنی نشست سے نہ ہلی۔ پانچوں لڑکیوں نے البتہ اسے مکمل دلچسپی سے دیکھا اور آپس میں ہنستے ہوئے کھسر پھسر کرنے لگیں۔  کھسیانا تو یہ پہلے ہی تھا، ان کے اس طرح ہنسنے پر شرمندگی کا اضافی بوجھ اس کے کاندھوں پر پڑ گیا اور وہ نظریں چرا کر اس ادھیڑ عمر خاتون کے نزدیک جا کر اس طرح کھڑا ہوگیا کہ لڑکیوں سے اس کا سامنا نہ ہوسکے۔

نائکہ جو بغور اس کی حرکات کا مطالعہ کر رہی تھی اس نے ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کی سمت اچھالی اور نہایت نرم لہجے میں پوچھ بیٹھی کہ آیا وہ زندگی میں پہلی مرتبہ ایسی کسی جگہ آیا ہے۔ خود کو مضبوط دکھانے کے لئے اس نے سوچا کہ وہ جھوٹ بول دے مگر حلق تو گویا تھر کی صحرائی زمین ہوچلا تھا کہ جس نے برسوں سے نمی محسوس ہی نہ کی ہو۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اثبات میں سر ہلا بیٹھا۔ نائکہ نے تسلی آمیز لہجے میں اسے بتایا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور چونکہ پہلی مرتبہ آنے والے انسان کو بہت سی چیزوں کا اندازہ نہیں ہوتا لہٰذا وہ  اس کے ساتھ کسی ایسی معاملہ فہم لڑکی کو بھیجے گی جو معاملات کو خود بہتر سنبھال سکتی ہو اور اسے کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملے۔  یہ کہہ کر اس نے ایک بائیس سالہ لڑکی کو اشارہ کیا جو تعمیل میں  چیونگم چباتی ہوئی  اپنی نشست سے کھڑی  ہوئی اور آکر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ پیسے وصول کر   کمرے میں بھیجنے سے پہلے نائکہ نے بالخصوص اسے بتایا تھا کہ اس نے اپنا ہیرا اس کے ہمراہ کیا ہے جس نے ہر قسم کے گاہک کو مطمئن رکھا ہے اور آج تک کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا ہے۔

مرکزی ہال سے کمرے تک کے سفر میں وہ محض یہ بات محسوس کر رہا تھا کہ نہایت نازک دکھنے والی اس دوشیزہ کے ہاتھ کسی محنت کش کے ہاتھ سے کم نہیں تھے۔ احساسات کی سب سے بڑی کمبختی یہی ہے کہ یہ اپنے ساتھ خیالات کا ایک  مکمل ریلا لے کر آتے ہیں اور ان میں سے اکثر خیالات پھر وہ ہوتے ہیں کہ جن سے جان چھڑانا ناممکن نہ سہی مگر دشوار ضرور ہوتا ہے۔ کمرے کا دروازہ بند ہونے تک وہ یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی محنت کرنے سے گریزاں ہرگز نہیں ہے مگر اس کے ساتھ جڑی مجبوری ضرور اس نوعیت کی رہی ہوگی کہ اسے مجبورا یہ برا کام کرنا پڑ رہا ہے۔  اور پھر اس خیال کے لازمی نتیجے میں آنے والا وہ خیال کہ وہ اپنی ہوس کی آگ میں ایک ایسی لڑکی کو استعمال کرنے لگا ہے کہ جو نہایت مجبوری کے عالم میں یہاں موجود ہے۔مگر پھر ایک اور سوچ   کہ اگر وہ یہاں  نہ بھی آئے تو بھی اس لڑکی نے اپنے ہوش و حواس میں اس پیشے کو چنا ہے اور اگر وہ نہ بھی ہو تو بھی اس کی جگہ کوئی اور مرد اس کی بے بسی کو بھنبھوڑ رہا ہوگا۔  شاید اس کے  دئے گئے پیسوں سے اس  کی وہ ضرورت پوری ہوجائے جس کی وجہ سے وہ یہاں موجود ہے؟ خیالات کا سلسلہ دراز تر ہوتا جا رہا تھا مگر اس لڑکی کی آواز نے اسے چونکا دیا جو اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نہایت مہربان لہجے میں اس سے پوچھ رہی تھی کہ آیا وہ محض  نظروں  سے ہی بھوک مٹانے آیا ہے یا کچھ کرے گا بھی۔  خیالات کی رو میں  وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس کی نگاہیں کافی دیر سے بیچاری پر ہی  مرکوز تھیں  ۔

اس نے چاہا کہ وہ خیالات کو جھٹک کر اپنا مقصد پورا کرے اور وہاں سے رخصت لے مگر خیالات  اور آزمائش کب کسی کے چاہنے سے ختم ہوئے ہیں؟  اس کی طرف بڑھنے سے پہلے ہی ایک اور خیال اس کے دماغ  میں در آیا اور اس نے نظریں نیچی کرکے  اس لڑکی سے گزارش کردی کہ وہ یہاں زبردستی  کرنے نہیں آیا اور اگر وہ چاہے تو کسی بھی مرحلے پر اسے روکنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ لڑکی نے استعجابی نظروں سے اسے دیکھا اور بولی،  میں آپ کو کیوں روکوں گی صاحب؟ آپ مالک ہیں۔ جس طرح چاہیں برتیں!

بجائے اس کے کہ وہ مطمئن ہوکر اپنا مقصد حاصل کرتا، اب ایک احساس ندامت اس کے اندر گھِر کرنے لگا کہ وہ بیچاری اپنی ضرورت کے ہاتھوں کیسی مجبور ہے کہ اپنے جسم کے ساتھ اپنی مرضی  تک کو بیچنے چلی آئی ہے۔ اس نے نہایت شائستگی سے اسے  سمجھایا کہ انکار کرنا  ہر انسان کا حق ہے اور اس کے پیشے کے دستور کے برخلاف، یہ حق بہرحال اسے اپنے پاس رکھنا اور استعمال کرنا چاہئے کہ جب کبھی کوئی چیز اسے ناگوار گزرے تو وہ اسے وہیں روک دے۔  لڑکی کی آنکھوں کی حیرت اب الجھن میں تبدیل ہوچکی تھی۔  جب وہ گویا ہوئی تو اس کے لہجے میں دبی دبی جھنجھلاہٹ تھی۔ اس نے کہا، صاحب آپ نے ٹائم کے پیسے دیے ہیں۔ کیوں کھڑے کھڑے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کی جو خواہش ہے اسے پورا کریں ۔ اس کے بیچ میں میری خواہشات یا میرے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ 

اس کے بات سن  کر وہ احساسِ گناہ کی ایک نئی دلدل میں پھنس چکا تھا ۔ اسے لگا کہ وہ اس بند کمرے میں اس معصوم لڑکی کی عزت پائمال کرنے لگا ہے۔ اس کی نگاہیں  اب اپنے پیر کے انگوٹھوں پر مرکوز ہوچکیں تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ جب وہ نگاہیں اٹھائے تو وہ کمرے سے جاچکی ہو۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ  لڑکی اپنے کام سے مخلص تھی اور گاہک کی  تشفی کئے بغیر کمرے سے رخصت لینے والی نہیں تھی۔  اس نے اپنی ساری ہمت   جمع کی اور نگاہیں اٹھائے بغیر اس لڑکی کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ یہاں زبردستی کرنے نہیں آیا ہے اور اس تسلی کے بغیر  کہ جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہونے لگا  ہے اس میں نہ صرف دونوں کی رضا بلکہ دونوں کی خواہش بھی شامل ہے، وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔

کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ لڑکی غیظ و جلال کی مجسم تصویر بنی ہوئی اسے گھور رہی تھی۔ اس کو نظریں اٹھاتا دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی سمت لپکی اور اسے دھکیلتی ہوئی کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔

خود کو سنبھال کر  جب وہ باہر مرکزی ہال  میں پہنچا تو کسی گاہک کو شکایت کا موقع نہ دینے والی وہ لڑکی سرخ چہرہ لیے ، غصے میں کانپتی ہوئی نائکہ  پر چیخ رہی تھی کہ وہ یہاں محض  اپنا جسم بیچنے آتی ہے  اپنا دل نہیں! پیسے دے دیے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اب ہم حرامزادوں سے عشق بھی لڑائے!  بے لذت چیز گناہ نہیں  ہوسکتی۔ وہ یہاں نہ مزے لینے آتی ہے نہ گناہ کرنے !  آئندہ  اسے اس قسم کے کسی گاہک کے ساتھ بھیجا گیا تو وہ کسی اور نائکہ کے پاس بیٹھنا شروع کردے گی!

اس کی باتوں کو سن کر اس کے ذہن میں طوفانی جھکڑ چلنا شروع ہوگئے تھے۔ عرفان کی وہ گم گشتہ منزل کہ جس  میں وہ جان چکا تھا کہ گدھ کے حصے میں محض مردار گوشت ہی آسکتا ہے ، دوبارہ اس پر آشکار ہوچکی تھی۔ وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اس لڑکی کے  سامنے جا کھڑا ہوا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کرکے اسے گھسیٹتے ہوئے واپس کمرے میں لے گیا اور چٹخنی واپس چڑھا دی۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت