اتوار، 16 فروری، 2020

تقدیر


تقدیر کی سب سے بڑی  خوبی یہی ہے کہ انسان آخر تک اس گمان میں رہتا ہے  کہ وہ اپنے فیصلے لینے میں خود مختار ہے۔ جیسے  کوئی ماں اپنے کمسن بچے کے سامنے کھچڑی اور دال چاول میں سے ایک چیز کھانے کا اختیار رکھ دے اور وہ معصوم اپنے لئے دال چاول چن کر اپنے تئیں یہ سمجھتا رہے کہ وہ اب بڑا ہوچکا ہے اور اپنے کھانے کے فیصلے لینے میں آزاد ہے۔
اسے بھی اپنی خودمختاری کا بہت زعم تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ تھا تو وہ بھی میری اور آپ ہی کی طرح کا ایک انسان!   خدائی اور مختاری کی خواہشات سے سرشار ۔ انا کے رتھ پر ہمہ وقت سوار۔ وہی انا کا رتھ کہ جس سے انسان نہایت مجبوری کے عالم میں بھی بمشکل ہی اتر پاتا ہے ۔ مگریہ کہانی انا کی تسخیر کی نہیں ہے۔ یہ کہانی تو اس انسان کی ہے کہ جو تقدیر کو مات دینے نکلا تھا۔ جس  کا ماننا تھا کہ وہ تقدیر کا کھیل سمجھ چکا ہے اور جب کبھی تقدیر نے اس کے سامنے کھچڑی رکھی تو وہ دال چاول کی فرمائش کردے گا کیونکہ تقدیر کا اصول ہے کہ وہ اپنی سنت قائم رکھتی ہے اور دکھاوے کے لئے ہی سہی مگر انتخاب کی سہولت ہمیشہ فراہم کرتی ہے۔ اور اس ہی زعم میں وہ اپنی انا کے رتھ پر سوار ہوکر تقدیر کو ڈھونڈتا ہوا اس تک پہنچ چکا تھا۔ اگر میں اچھے وقتوں کا لکھیک ہوتا یا کسی ماہنامے کے لئے یہ کہانی لکھ رہا ہوتا تو میں آپ کو بتاتا کہ کس طرح اس سفر میں اس نے کالے کوس طے کئے، کیسے راستے میں جادو کا پہاڑ اور بولنے والی مینا ملی۔ مگر  افسوس کہ جب تقدیر نے میرے سامنے مشہور ہونے یا اپنی بات کھل کر کہنے کا انتخاب رکھا تب میں نے بات بیان کرپانے کا وصف چن لیا تھا اور آج مقبول طرزِ تحریر میں یہ داستان سنانے سے قاصر ہوں۔
سو جب وہ انسان تقدیر کے پاس پہنچا تو خلافِ توقع اسے سوتا ہوا پایا۔ اسے لگتا تھا کہ سوئی ہوئی تقدیر کے ساتھ وہ تقدیر کو کبھی نہیں پا سکتا لہٰذا اس کی حیرت حق بجانب تھی۔  بہرحال، جواب کے لئے بھی تقدیر کا جاگنا ضروری تھا سو اس نے حسبِ دستور قصائد کا پلندہ کھولا کہ وہ جانتا تھا خوشامد کے بغیر تقدیر  کو جگانا ناممکن ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ وقت کی پرواہ کئے بغیر مسلسل مدح سرائی کرتا رہا یہاں تک کہ تقدیر نے اپنا بھاڑ جیسا منہ کھولا اور جمائی لیتے  ہوئے بیدار ہوگئی۔  جن احباب نے کبھی تقدیر کو جاگتا نہ دیکھا ہو وہ شاید یہ سوال اٹھائیں کہ دیگر تمام مخلوقات تو انگڑائی لیتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں یا بس ویسے ہی بیدار ہوجاتے ہیں۔مگر یہ بات یاد رکھئے گا کہ تقدیر انسانوں کے سوالات کے جواب دینے کی پابند نہیں ہوتی نہ ان کے اعتراضات کو خاطر میں لاتی ہے۔ اس نے جب بیدار ہونا ہوتا ہے وہ اپنی مرضی اور اپنے طریقے سے بیدار ہوجاتی ہے خواہ وہ طریقہ انسانوں کے لئے کتنا ہی خلاف عقل کیوں نہ ثابت ہو۔
سو تقدیر نے جاگنے کے بعد وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے انسانوں کے ساتھ کرتی آئی ہے۔ اس نے سوال جواب کو موخر کرتے ہوئے اس انسان کو ایک کھیل کھیلنے کی پیشکش کر دی۔ چونکہ وہ انسان تقدیر کو جاننے کا دعویٰ رکھتا تھا لہٰذا وہ جانتا تھا کہ تقدیر ہمیشہ سے کھیلے بغیر کچھ بھی عطا نہیں کرتی۔ اور چونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ تقدیر کے گھر میں بھوک کا گزر نہیں ہے لہٰذا وہ دفتر بھی نہیں جاتی اور ہر وقت مختلف کھیل  کھیلنے میں مشغول رہتی ہے لہٰذا اس نے ایک ایسا کھیل کھیلنے کی فرمائش کر دی کہ جس میں اس کے نزدیک کسی قسم کی مہارت درکار نہیں ہوتی ۔ اس نے تقدیر سے سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلنے کی فرمائش کردی کہ جس میں جو بھی فاتح ہوتا، مفتوح اس کا غلام ہوجاتا۔  اپنے تئیں اس نے بہت عقلمندی کا انتخاب کیا تھا مگر اپنی ذہانت کے زعم میں وہ یہ بات بھول بیٹھا تھا کہ تقدیر کے سامنے عقل نہیں کام کرتی۔  تقدیر نے اس کی بات مان لی اور کھیل شروع ہوگیا۔
سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں پانسہ درکار ہوتا ہے اور پانسہ ہمیشہ تقدیر چلا کرتی ہے لہٰذا دونوں کی جانب سے تقدیر نے پانسہ پھینکنا شروع  کر دیا۔ شروعات میں سب کچھ ٹھیک چلتا رہا اور تقدیر کے ساتھ ساتھ وہ بھی کھیل کے خانے پھاندتا رہا مگر مشکل تب درپیش ہوئی جب  اس کا مہرہ سانپ پر جا پہنچا ۔ اصولی طور پر اسے اب نیچے چلا جانا چاہئے تھا مگر اس ذہین انسان نے کمال ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے تقدیر سے انتخاب کا حق مانگ لیا۔ تقدیر بظاہر اس پر مہربان تھی لہٰذا اسے یہ حق دے دیا گیا کہ آگے آنے والی سیڑھیوں میں سے کوئی ایک سیڑھی اس سانپ سے تبدیل کر دی جائے۔ بساط   کے خانوں میں سے ایک سیڑھی اٹھا کر اس سانپ کی جگہ لگا دی گئی اور جہاں سے ٹھوکر کھا کر اسے پانچ خانے پیچھے جانا تھا وہیں سے اسے آٹھ خانے  اوپر بھیج دیا گیا۔ اس انسان نے ایک فاتحانہ نظر تقدیر پر ڈالی اور کھیل آگے بڑھا دیا گیا۔ آنے والے وقت میں ایسے ہی چار مزید  سانپوں کو سیڑھیوں سے تبدیل کیا گیا اور جب تقدیر محض پینتالیسویں خانے تک پہنچ پائی تھی، وہ  ترانوے کے خانے میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
 اس نے ایک فاتحانہ نظر تقدیر پر ڈالی کہ اس کو محض اپنی نگاہوں سے ہی یہ احساس دلا دے کہ ذہن اور معرفت کی بنیاد پر انسان تقدیر کو کسی بھی بساط پر پچھاڑ سکتا ہے مگر تقدیر تو کھیل بھلا کر خود لوٹ پوٹ ہوئے جا رہی تھی۔ پہلے تو اسے لگا کہ ایک معمولی انسان کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے تقدیر اپنا ذہنی توازن خراب کر بیٹھی ہے مگر جب اس نے بغور بساط کا جائزہ لیا تو اسے احساس ہوا کہ پیچھے چھٹ جانے والے تمام سانپ اب بساط پر اس کے منتظر تھے۔ اگلے چھ کے چھ خانوں میں وہ تمام سانپ اس کے منتظر تھے جن کے بدلے وہ سیڑھیاں پھاندتا ہوا اوپر چڑھ آیا تھا۔ دال چاول اور کھچڑی کے مابین انتخاب میں وہ یہ بھول گیا تھا کہ جو کھچڑی اس دن نہیں کھائی جاتی ، اگلے دن بغیر کسی انتخابی سہولت کے وہی باامر مجبوری کھانی پڑتی ہے۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت