جمعرات، 30 دسمبر، 2021

اژدھا

 دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ  کسی جنگل میں ایک راج ہنس کا ویسا ہی بچہ رہتا تھا جس  کی کہانیاں  آپ بچپن سے سنتے آئے ہیں۔  ویسا ہی بھدا، بد رنگا اور بطخ  کے دیگر بچوں سے جسامت میں کہیں بڑا۔ اچھے زمانے کی کہانی ہے جب فی زمانہ تعصب کے زمرے میں گنی جانی والی چیزوں کے بارے میں میں بیان کرنے پر بھی لیکھک متعصب نہیں ٹھہرائے جاتے تھے اور مکمل سہولت کے ساتھ اپنے سے مختلف دکھنے والوں کی رنگت وغیرہ پر یہ سوچ کر طنز  کیا جا سکتا تھا کہ جس مخلوق کا تقدیر ازل سے مذاق اڑاتی اور بناتی آئی ہو، اس کا آپس میں ایک دوسرے کی تضحیک پر برا ماننے کا تصور ہی مضحکہ خیز تھا۔ سو وہ دھڑلے سے ایک دوسرے کو بھدا، بد رنگا وغیرہ ٹھہراتے تھے اور ہنس کر آگے بڑھ جاتے تھے۔

شاید ازل سے کہانی کار ایک ہی رہا ہے سو  کہانی کے کردار نام اور مقام بدل کر اس ہی ایک کہانی کے تسلسل میں حصہ دار بنتے اور اپنے زعم کے غبارے میں ہوا بھرتے  آئے ہیں کہ وہ اس لامتناہی کائنات کی سب سے منفرد کہانی کا مرکز ی کردار ہیں۔ سو وہ ہنس کا بچہ بھی گزری تمام کہانیوں کی طرح بطخ کے بچوں کے بیچ میں رہتا، ان کے طعنوں کا نشانہ بنتا اور ان کی قامت بڑھانے کی جاں گسل محنت سے تھک کر  اپنی معصوم  سوچ  میں  اپنی قامت گھٹا کر خود کو  ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں جٹا رہتا  ۔   اور جب اس سعی لاحاصل سے مایوس ہو جاتا تو دنیا کے حصے کے الزام بھی اپنے سر لے کر ایک بار پھر کولہو کے بیل کی طرح دائرے کے سفر میں گامزن ہو جاتا، یہاں تک کہ پچھلی کہانی ہی کی طرح  اسے بھی اس بات پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ شناخت کی تلاش میں گھر کہلانے والی جہنم سے فرار اختیار کرے اور انجانوں میں اپنے تلاش کرتا پھرے۔

پچھلی کہانی کے عین مطابق  یہ راج ہنس کا بچہ بھی فرار ہو کر اپنے جیسے کسی ایک، محض ایک کی تلاش میں تالاب تالاب گھومتا پھرا مگر  کسی نے چونکہ اس جیسی مخلوق کو دیکھنا تو دور، کبھی اس کے بارے میں سنا تک نہیں تھا لہٰذا ان تالابوں پر بھی اسے محض وہ مایوسی ہی ملی کہ جس  کی عادت کائنات میں کسی ذی روح کو آج تک نہ ہوسکی۔ اور اس ہی مایوسی سے گھبرا کر وہ شناخت کے سفر میں چلتا رہا یہاں تک کہ ایک   بظاہر مہربان عورت نے انڈوں کے لالچ میں اس پر ترس کھا کر اسے اٹھا کر اپنے گھر کی کوٹھری میں مقفل کردیا جہاں ایک مرغی اپنی نوکیلی چونچ اور اس سے کہیں زیادہ تیز زبان کے ساتھ اس  کی منتظر تھی۔ 

راج ہنس کو لگا تھا کہ اب اسے گھر اور گھر کا پیار میسر ہوجائے گا مگر شناخت کے سفر پر گامزن کسی بھی دیگر جاندار کی طرح  اس کی تخلیقی صلاحیتیں بھی کسی کے حکم کی تابع نہیں رہیں تھیں سو فرمائشی انڈوں کے معاملوں میں وہ غریب  بھی مکمل بانجھ ثابت ہوا اور جب مہربان بڑھیا کے گھر میں موجود مرغی کی چونچ اور بلے کی نیت  نے اسے نشانے پر رکھا تو اس راج ہنس نے وہاں سے بھی رخصت میں ہی عافیت سمجھی۔ اپنی سرمایہ کاری کے اس طرح ڈوبنے پر وہ مہربان بڑھیا کس طرح  غصہ ہوئی اور  کیسے اس نے وہاں سے گزرنے والے ہر جانور کو روک کر اس راج ہنس کی کم ظرفی کی کہانی سنائی، چونکہ اس بارے میں پچھلی کہانی خاموش تھی تو ہم بھی یہاں اس بڑھیا کا پردہ رکھتے ہوئے آج کی داستان کو راج ہنس پر ہی مرکوز رکھتے ہیں۔

داستان گو بتاتے ہیں کہ راج ہنس  نے بڑھیا کے پاس سے فرار اختیار کرنے  کے بعد تنہائی کے ایام میں اس راج ہنس نے کچھ وقت سرکنڈوں کے ایک ڈھیر کے بیچ میں بھی گزارا جہاں اس نے دور آسمان پر اڑتے ہوئے  ہنسوں کا ایک  جھنڈ دیکھا اور ایک بار دل میں تمنا کی کہ کاش وہ بھی کبھی ان جیسا ہو سکے۔ شاید وہ اس جملے سے تمام انسانوں کی ہوس کا بھرم رکھنا چاہتے ہیں کہ اپنے سے ارفع لوگوں سے منسلک ہونے کی ہوس  محض ہم انسانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب

بتانے والے بتاتے ہیں کہ تنہائی کا وہ عرصہ اس ہنس کی زندگی کا ایک ایسا دور تھا کہ جس میں جسمانی ارتقا کے ساتھ ساتھ  اس کی سوچ  بھی ارتقا پا رہی تھی ۔ مگر انسان ہو یا ہنس، زندگی آزمائشوں کا دوسرا نام ہے لہٰذا وہ ایام بھی گزرے اور جاڑے نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور  جب زمین کو سفیدی کی چادر نے اپنے اندر چھپا لیا تو  مجبورا اس ہنس کو  بھی غذا کی تلاش میں اپنے ٹھکانے سے باہر آنا پڑا۔  ہر طرف پھیلی برف کی چادر  گو نگاہوں کے لئے  بہت دلآویز  تھی مگر زمین  پر پائی جانے والی اکثر خوبصورت چیزوں کی طرح یہ بھی فیض سے مکمل عاری تھی۔  نظاروں سے دل بہلانے کے دوران جب بھوک کا احساس جاگا تو ذوق  نظارہ کے جانے کا کرب اور بھوک کی تکلیف کی آزمائش سے نڈھال ہو کر اس کہانی کا راج ہنس بھی بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا۔

آنکھ کھلنے پر اس نے خود کو  ایک غریب کسان کے گھر میں پایا تھا جو بازار سے ہنس خرید کر پالنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے بخوشی زمین پر پڑے اس نیم مردہ ہنس کو اٹھا کر اپنے گھر لے آیا تھا تاکہ اس کے ننھے اور معصوم بچے اپنے پڑوس کے اپنی ہی طرح کے غریب بچوں پر   گھر میں ہنس ہونے کا رعب جھاڑ سکیں۔   مگر وقت کے ساتھ وہ ہنس اتنا بڑا ہو گیا کہ کسان کا جھونپڑا اس کے لئے چھوٹا پڑ گیا اور مجبورا کسان اسے دریا کے کنارے چھوڑ آیا  کہ جہاں اس جیسے ہی دیگر کئی ہنس  انسانوں اور دیگر کمتر مخلوقات سے مناسب فاصلہ  برقرار رکھتے ہوئے تیرنے میں مصروف تھے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اس نووارد ہنس کا شایان شان استقبال کیا گیا۔ تمام ہنس اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے اور یہ غریب اس وقت تک اس توجہ کی وجہ سمجھ نہیں پایا  تھا کہ جب تک اس نے خود پانی میں اپنا عکس دیکھا اور یہ جانا کہ  وہ کس حد کا خوبصوت راج ہنس بن چکا ہے۔

اصولی طور پر زندگی کو اب اس پر مہربان ہوجانا چاہئے تھا اور سب کے ہنسی خوشی رہنے پر کہانی ختم ہوجانی چاہئے تھی مگر یہ دوسری بار کا ذکر ہے اور دوسری بار کا ہنس اپنے ارتقا پر بہت نازاں تھا اور چاہتا تھا کہ ترقی کا یہ سفر جاری رہے لہٰذا چند ہی دنوں میں اس کی جسامت دریا میں موجود کسی بھی ہنس سے اضافی ہوچکی تھی اور ارتقا کا یہ سفر ابھی بھی ایک نامعلوم منزل کی طرف جاری تھا۔ دریا کے وہ تمام ہنس جو پہلے اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے، اب اس سے خائف ہو کر اپنا راستہ بدل لیا کرتے تھے۔اور پھر ایک دن  ،شناخت کے سفر کے اختتام پر اور اپنے جیسے سمجھے جانے والوں کے بیچ پہنچ کر بھی   یوں تنہائی کی زندگی گزارنے کی وحشت اس ہنس کو اس دریا سے نکال کر واپس جنگل میں لے آئی۔

بڑھتے بڑھتے اب اس کی قامت ایک شتر مرغ کے برابر ہوچکی تھی۔ وہ گردن اٹھا کر دیکھتا تو  مرغیوں اور بلیوں کو خود سے  گھبرا کر ادھر ادھر چھپتے دیکھ سکتا تھا۔ شاید کسی اور حالت میں یہ منظر اس کے لئے بہت خوش کن ہوتا مگر اندر موجود چنگاریوں اور ان کے دھویں کی وجہ سے ہونے والی بے دمی کی کیفیت اسے کسی بھی چیز سے محظوظ ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ اس  نے تازہ ہوا کی جگہ بنانے کے لئے اندر موجود دھویں کو زوردار پھونکیں مار مار کر نکالنا شروع کردیا۔  تھوڑی ہی دیر میں  پھونکوں کے ساتھ نکلنے والی اس کے اندر کی آگ سے اردگرد کے درخت دھڑادھڑ جلنے لگے تھے۔

دور جنگل کے کنارے ، ایک درخت پر بیٹھا کہن سالہ و جہاں دیدہ الو تاسف سے سر ہلانے میں مصروف تھا۔ جنگل میں اژدھا (ڈریگن) واپس آگیا تھا۔

جمعرات، 26 اگست، 2021

گھناؤنا

 کہتے ہیں جس کے اپنے چھوٹ جائیں اسے غیر مل جاتے ہیں۔    یہ اور بات ہے کہ بعض انسان اپنوں کے دئے گئے تجربات کے زہر سے اتنے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی لاش کو کاندھا دینے والے پرایوں کے احسان تو دور، وجود  تک کا ادراک نہیں ہوتا۔  ان کی زندگی اس راوس مچھلی کے مصداق ہوتی ہے جو اپنی اصل کی تلاش میں سرگرداں، کھلے سمندروں سے بیزار ،واپس اس ندی کو جانا چاہتی ہو کہ جہاں اس نے جنم لیا تھا۔  مچھلی چونکہ بالعموم کم فہم جانور ہے لہٰذا اپنی جائے پیدائش کو ہی اپنی اصل سمجھ کر مطمئن ہوجاتی ہے جبکہ انسانوں میں سے جو تھوڑے ذی شعور ہوجاتے ہیں وہ یہ جان رکھتے ہیں کہ ان   کی اصل ان کی جائے پیدائش سے کہیں پرے ہے۔  اور پھر ان کی تلاش کا سفر ہی ان کی واپسی کا سفر بن جاتا ہے۔

      یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی انسان کی ہے جو واپسی کے سفر میں تیز قدم چلتا ہوا اس وقت سمندر کے اوپر موجود نیٹی جیٹی کے برج پر کھڑا ہوا خودکشی کے لئے چھلانگ لگانے ہی والا تھا۔ اگر وہ بروقت چھلانگ لگا دیتا تو آپ اس کہانی کی جگہ اخبار میں اس کے متعلق خبر پڑھ رہے ہوتے مگر جو انسان تقدیر کے ہاتھوں تنگ ہوکر زندگی ختم کردینے کی نہج پر پہنچ چکا ہو اس پر موت کے معاملے میں بھی تقدیر کیونکر مہربان ہوسکتی ہے؟  ابھی وہ  چھلانگ لگانے کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ اس ہی برج  کی کگر پر لیٹے ہوئے ایک افیمی نے لپک کر اس کی ٹانگیں پکڑ لیں  ۔ اول تو اسے لگا کہ تقدیر بالآخر اس پر مہربان ہوگئی ہے اور دنیا میں اجنبی اور افیمی ہی سہی مگر کوئی انسان ایسا بھی ہے کہ جسے اسکی موت سے فرق پڑتا ہے۔ جو نہیں چاہتا کہ وہ مایوس ہو کر ہمت چھوڑ بیٹھے۔ جو چاہتا ہے کہ وہ  لڑے اور دنیا  سے ہار نہ مانے۔ اس کی خوش فہمیوں کا سلسلہ کسی اکیسویں صدی کے شاعر کی بے وزنی گزل کی طرح دراز ہوتا  ہی جا رہا تھا کہ افیمی کی  آواز اسے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی جو اس سے درخواست کر رہا تھا کہ اگر چھلانگ ہی لگانی ہے تو تھوڑا آگے پیچھے ہوکر لگا لے کیونکہ اگر اس نے اس کے برابر میں کھڑے ہو کر چھلانگ لگائی تو خدشہ ہے کہ چھپاکے سے پانی اوپر تک اچھل کر آئے گا اور بہت مشکل سے حاصل کردہ اس کے نشے کو برباد کر جائے گا۔ 

افیمی کی بات سن کر پہلے تو اس کا دل کیا کہ اپنی خودکشی سے پہلے اس خودغرض افیمی کو ہی اٹھا کر سمندر میں پھینک دے  مگر وہ فطرتا ایک انسان پرور آدمی تھا اور اپنے علاوہ کسی اور کی جان نہیں لے سکتا تھا۔ دوسرا خیال  جو فوری طور پر دماغ میں آیا وہ یہ تھا کہ برج سمندر سے اتنا بلند تھا کہ چھینٹوں کے اوپر تک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اس خیال کے آتے ہی افیمی کے حال اور اس کے منفرد خدشات پر بے ساختہ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ افیمی جو آنکھوں کو میچ کر روشنی  سے لڑتے ہوئے اس کی جانب دیکھ رہا تھا ، اسے مسکراتا ہوا دیکھ کر اس  ہی کی ٹانگوں کا سہارا لے کر اس کے برابر میں کھڑا ہوگیا۔  اب صورتحال یہ تھی کہ برج کی کگر پر وہ دونوں کھڑے تھے اور دونوں نے  سہارے کے لئے ایک دوسرے کو تھام رکھا تھا۔ برج ویسے ہی خودکشی کے حوالے سے بدنام تھا تو  دو مردوں کو برج کی کگر پر کھڑا دیکھ کر آتی جاتی گاڑیاں اور موٹرسائکلیں بھی رکنا شروع ہوگئی تھیں۔  وہ ابھی معاملے کو سمجھنے کی کوشش  کر ہی رہا تھا کہ افیمی نے جھومتے ہوئے اسے یاد دلایا کہ  اگر وہ ایسے ہی  برج پر کھڑے رہے تو اقدام خودکشی کے مقدمے میں اندر ہوجائیں گے  ۔  پولیس کچہری سے زیادہ ایک افیمی کے ساتھ گرفتار ہونے اور اس سے جڑی افواہوں  اور ان افواہوں کے نتیجے میں ہونے والی اس  کے گھر والوں کی ممکنہ خفت  کے خیال سے وہ فورا افیمی کا ہاتھ تھام کر کگگر سے نیچے اتر آیا۔  خودکشی کے نتیجے میں جو کچھ  بدنامی ہوتی، اس کا معاملہ اور تھا کہ اسے دیکھنے اور سہنے کے لئے وہ خود موجود نہیں ہوتا مگر  گرفتاری کی صورت میں اس کا خودکشی کا منصوبہ ادھورا رہ جانا تھا اور وہ اپنی پہلے سے اذیت ناک زندگی میں مزید تلخیاں نہیں گھولنا چاہتا تھا۔

دونوں کو کگر سے نیچے اترتا  دیکھ کر راہگیر   ،بکتے جھکتے دوبارہ اپنی منزلوں کی جانب رواں ہونے لگے۔ افیمی  کہ جس کی آنکھیں اب کافی حد تک کھلنے لگی تھیں، نے بغور اس کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ وہ پینتیس برس کا ایک مضبوط قامت والا جوان تھا۔ جسم کسرتی نہ سہی مگر اضافی چربی کے بوجھ سے عاری تھا۔ چہرے پر بدسلیقی سے  ترشی ہوئی ہلکی داڑھی موجود تھی گویا وہ انسان خود ہی یا کسی نو آموز حجام سے داڑھی بنواتا  رہا ہو۔ اور ان سب عام سی پائی جانے والی تفصیلات  میں جو چیز اسے خاص بنا رہی تھی وہ اس کی قمیض کی آستینوں سے جھانکتی ہوئی اس کی مگرمچھ جیسی کھال تھی۔  افیمی نے اگر طب پڑھ رکھی ہوتی اور جان رکھتا کہ یہ سورائسز نامی بیماری کا شاخسانہ ہے جو محض چھونے سے نہیں پھیلتی، تب بھی شاید وہ اس ہی طرح گھبرا  اور گھن کھا کر پیچھے ہٹتا جیسے نیم نشے کی حالت میں اس  وقت وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا تھا۔

افیمی کے اس طرح پیچھے ہٹنے سے اسے یاد آگیا تھا کہ وہ یہا ں کیوں موجود تھا اور یہ بھی کہ اسے اب تک کیوں موجود نہیں ہونا چاہئے تھا۔  مگرکچھ بھی کرنے سے پیشتر،  برسہا برس کی عادت سے مجبور ہوکر بے ساختہ اس کے منہ سے یہ جملہ میکانکی انداز میں  نکل پڑا تھا کہ، گھبرائیے نہیں! یہ بیماری کسی کو چھونے یا اس کے قریب کھڑے ہونے سے نہیں پھیلتی۔  اور اس سے پہلے کہ وہ واپس کگر پر چڑھنے کے لئے قدم بڑھاتا ، افیمی نے    معذرت خواہانہ انداز میں  اس کے قریب آکر اس سے چھلانگ لگانے کا سبب دریافت کر لیا۔   شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے کسی کو اپنی بیماری کے متعدی  نہ ہونے  کی بات  پر یقین کرتے دیکھا تھا   یا شاید   بہت مدت بعد اس میں یہ امید جاگی تھی کہ کوئی اسے سمجھنے کے لئے سنے گا ، وجہ بہرحال جو بھی رہی ہو، اس نے چاہا کہ وہ اس انجان افیمی سے اپنے دل کا احوال کہے سو اس نے   بلا کم و کاست اسے بتا دیا کہ زندگی  اور رشتوں سے ملنے والی تکالیف سے زچ ہوکر وہ اپنی زندگی کی  ریل کو یہیں روک دینا چاہتا ہے۔ جذبات کی رو میں اپنی داستان الم سناتے ہوئے اسے یہ دھیان بھی نہیں تھا کہ سوال کرنے کے بعد افیمی کا دھیان  اس پر سے ہٹ کر اپنے پھٹے ہوئے کرتے کی جیب پر چلا گیا ہے اور  وہ اس میں چیزیں نکال کر افیم کی پڑیا تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ جب وہ اپنی داستان سنا نے کے بعد دم لینے کے لئے رکا تو افیمی نے اسے دوبارہ مصروف کرنے کے  لئے ایک اور سوال داغ دیا کہ اتنی کم عمر میں اگر وہ دنیا سے جا  ہی رہا ہے تو کیا اس نے اپنی زندگی کی ساری حسرتیں پوری کر لیں؟ یا کم از کم وہ حسرتیں  کہ  جن کو پورا کرنا دسترس میں ہے ؟  افیمی کا سوال اس کے لئے غیر متوقع تھا  اور اس نوعیت کا سوال اگر متوقع ہو بھی تو اچھا خاصہ حاضر دماغ انسان بھی  جواب دینے سے پہلے چند  لمحات سوچتا ہے۔ اس نے بھی اپنے دل اور دماغ کے کونوں کو کھنگالا اور سچائی کے ساتھ بول دیا کہ ایسا نہیں تھا۔ زندگی میں چند ایسی حسرتیں بہرحال باقی تھیں کہ جن کی تکمیل کے لئے مزید کوشش کی جاسکتی تھی۔ افیمی کہ جو اتنی دیر میں سامان میں سے اپنی افیم کی پڑیا  کھوج چکا تھا ، یہ کہہ کر آگے بڑھا گیا کہ تو پھر مرنے کی اتنی جلدی کیا ہے؟ ایک مہینے تک اور کوشش کر لو۔ ہو سکتا ہے کم حسرتیں لے کر مرو؟  خودکشی کا کیا ہے؟ وہ تو تمہارے اپنے اختیار  میں ہے۔ آج نہیں تو تیس دن بعد کر لینا؟ تیس دن بعد کر لینے سے کون سا تمہیں زیادہ گناہ مل جائے گا؟

افیمی تو کہانی میں اپنا کردار مکمل کرکے  ویسے ہی آگے بڑھ گیا کہ جیسے ہماری زندگی کی کہانیوں میں بہت سے لوگ آتے ہیں کہ جن کے بارے میں سب کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ ہماری زندگی کے سب سے اہم کردار ثابت ہوں گے اور ان کی آمد سے لے کر ہماری زندگی  کے ناٹک کے اختتام تک ان کا کردار اس واہیات ناٹک میں مرکزی  حیثیت کا حامل رہے گا اور پھر وقت ثابت کرتا ہے کہ ان  کا کردار محض ایک افیمی کا تھا کہ جو اپنے نشے کی تلاش کے دورانیے تک ہماری زندگیوں میں شامل رہتا ہے اور نشہ میسر آتے ہی واپس کگر پر لیٹنے چلا جاتا ہےتاکہ کسی اور کے پیروں سے لپٹ سکے۔  مگر یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں اور  فلسفہ محض مولانا روم یا  انگریزی زبان میں لکھنے والے ادیبوں پر سجتا ہے سو ہم اس سستے فلسفے کو یہیں چھوڑ کر واپس اپنی کہانی کی طرف لوٹ جاتے ہیں کہ جہاں ایک انسان اپنی خودکشی کو تیس دن  کے لئے موقوف کر کے زندگی سے جڑی اپنی حسرتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے۔

طویل کہانیوں کے بارے میں میرا آج بھی یہی ماننا ہے کہ انہیں وہ غریب لکھتے ہیں کہ جو کم الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ہنر نہیں جانتے سو مزید غیر ضروری تفصیلات کو  حذف کرتے ہوئے کہانی کے مرکزی خیال پر واپس آتے ہیں کہ اگر انسان کے پاس یہ اختیار موجود ہو کہ بیماری،  خوف اور بھوک سے نیاز ہو کر اگر وہ اپنی زندگی کی گھڑی کا وقت خود معین کر سکے تو کون سے ایسے کام ہوں گے جنہیں وہ کرنا چاہے گا؟ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اگر وہ کام واقعی اتنے اہم تھے تو اس سوال سے پہلے ہم انسانوں نے انہیں مکمل کیوں نہیں کیا تھا؟  چونکہ ان سوالات کے جواب  آپ کے پاس بھی نہیں ہیں اور میرے دئے گئے جوابات کتنے ہی سچے اور دل کو لگتے ہی کیوں نہ ہوں، مفت میں ملی ہوئی نصیحت کی انسانوں نے کبھی قدر نہیں کی لہٰذا ان واہیات اور کیپٹلزم سے نفرت دلاتے ان سوالات کو یہیں چھوڑ کر ہم واپس کہانی کی طرف جاتے ہیں کہ جہاں ایک انسان کی  زندگی کی پانچ بڑی حسرتوں میں سب سے بڑی حسرت یہ تھی کہ اس کی کھال پر آئے ہوئے ان چھلکوں کی وجہ سے شروع میں اپنی دوستوں کے سامنے  اور بعد میں گھر کے اندر بھی اس سے گھن کھانے والی اس کی اپنی دس سالہ  سگی بیٹی ، ایک مرتبہ، محض ایک مرتبہ، گھن کھائے بغیر اس کے گلے لگ سکے! 

جانتا ہوں کہ لٹریچر کسی بھی زبان کا ہو اس میں لیکھک کا قلم خون میں جتنا گہرا ڈوبے گا، لکھاری کا لقمہ اتنا ہی تر کرتا جائے گا مگر  رشتوں میں بے بس ایک باپ کی  لاش نوچ کر کھانے سے بہتر  ہے کہ میں کہانی کو مختصر کرتے ہوئے آپ کی تسلی کے لئے محض اتنا بتا دوں کہ جب اٹھائسویں دن بالآخر قسمت اس پر مہربان ہوگئی  اور دو دن بعد آنے والی حرام موت سے  اسے بچاتے ہوئے شدت غم سے جب اس کے دماغ کی شریان پھاڑ کر اسے دنیا سے خود ہی اٹھا لیا گیا۔ اور ہاں، جب جنازہ اٹھانے سے پہلے اس کی ننھی شہزادی کو بتایا گیا کہ بابا اب کبھی واپس نہیں آئیں گے تو وہ    دوڑتی ہوئی جا کر خوشی سے باپ کی لاش سے لپٹ گئی۔   جانتا ہوں کہ سورائسز موروثی بیماری ہے اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہے مگر یہ کہانی پھر سہی۔ فی الحال وہ ننھی شہزادی خوش ہے اور بیٹیاں خوش ہی اچھی لگتی ہیں۔

جمعرات، 20 مئی، 2021

مردہ باد

 

بے بسی کی آخری حد احتجاج ہوا کرتی ہے اور جب یہ حد بھی عبور ہوجائے تو انسان اس کیفیت کو صبر آجانے سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے کو لے کر ان دنوں مسلم امہ ایک بار پھر سراپا احتجاج تھی۔ دنیا بھر میں کہ جہاں مسلمان موجود تھے، احتجاجی مظاہرے منعقد کیے جا رہے تھے۔ عوامی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے ،  بالعموم غیر جانبدار رہنے والے لوگ بھی ان مظاہروں میں شریک تھے اور یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اڑھائی سو کے قریب مسلمانوں کے خون نے امت کو یکجا کرنے کا وہ عظیم کارنامہ  سر انجام دے دیا تھا جس کی حسرت میں مسلکی اختلافات کے طفیل  اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں بہنے والا ہزارہا مسلمانوں کا  خون آج بھی سڑکوں پر بہہ رہا ہے ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا کہ ہر قسم کی سچ سے سائنائیڈ سے لبریز  بات فی زمانہ معترضہ ہی ٹھہرائی جاتی ہے۔

مئی کا مہینہ تھا اور گرمی اپنے جوبن پر  تھی۔ مظاہرین کی سہولت کے پیش نظر اور انقلاب کو دھوپ میں  خراب ہونے سے بچانے کے لئے شہر کے چند نوجوانوں نے رات گئے مرکزی چوراہے پر احتجاج کا پروگرام بنایا تھا اور رات گیارہ بجے کے قریب وہ سب مقررہ مقام پر جمع ہوگئے تھے۔  فلسطین کے بینر اور مجمع میں شامل نوجوان خواتین کو  دیکھ کر قریب میں موجود چاء کے ہوٹل کے گاہک اور اردگرد کے دکاندار بھی مظاہرے میں شامل ہوگئے اور تھوڑی ہی دیر میں وہاں سو ڈیڑھ سو افراد کا ایک چھوٹا سا ہجوم جمع ہو چکا تھا۔  منتظمین نے جب مظاہرین کی تسلی بخش  تعداد دیکھ لی تو فیس بک پر لائیو سٹریم شروع کر کے مظاہرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور سب سے پہلے سپرے پینٹ کی مدد سے نوجوان لڑکے لڑکیاں چوراہے کی چاروں جانب اسرائیل کے جھنڈے بنا نے میں مصروف ہوگئے تاکہ ان پر سے انجانے میں گاڑیاں گزار کر لوگ ایک ظالم کے خلاف اپنی نفرت کو ثابت کر سکیں۔

اس علامتی کاروائی سے فراغت کے بعد تقاریر کی باری آئی اور مقررین نے دلائل کی مدد سے ثابت کیا کہ  محض ان کے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے  اسرائیل کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور پاکستان میں دستیاب تمام یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کے استعمال سے اصل فائدہ دراصل صرف پاکستان کا ہوتا ہے لہٰذا جو لوگ فلسطین کے بیچارے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے اسرائیل کی ہمنوا و مددگار کمپنیوں کی مصنوعا ت  کے بائیکاٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ زمینی حقائق سے ناآشنا وغیرہ ہیں۔ مسائل کا اصل حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اس ملک کے سیاست دان چوری سے باز نہیں آجاتے اور ہمیں نیک، پاکباز اور ایسے ہی چند دیگر کتابی القابات پر مشتمل سیاسی قیادت میسر نہیں ہوجاتی یا  جب تک ایسی قیادت کو مکمل اختیارات وغیرہ نہیں مل جاتے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس پرخلوص اور مدلل گفتگو کے بعد سامعین تالیاں پیٹتے مگر ایک جاہل دکاندار نے مائک پر بولنے کی خواہش کا اظہار کردیا اور مظاہرے کی ناتجربہ کار قیادت نے ستائش کے چند کلمات کے دھوکے میں مائک اس ناہنجار کے حوالے بھی کردیا۔  اس کم عقل انسان نے مائک سنبھال کر احتجاج کی علامتی حیثیت اور پیغام کے پرزور طور پر پہنچنانے کے لئے بائکاٹ کی افادیت   پر زور دینا شروع کردیا۔ وہ چونکہ خود دکاندار تھا تو پوری دنیا کو بازار سمجھ بیٹھا تھا کہ جہاں ہر چیز پیسے اور گاہک کی پسند ناپسند کے گرد گھومتی ہے۔  اس نے تو مائیک پر آکر اپنی بھڑاس نکال لی مگر مظاہرین کو واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم کردیا۔

منتظمین نے جب  معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو پروگرام میں تبدیلی لاتے ہوئے باقی ماندہ تقاریر کو ملتوی کر کے اسرائیل کے علامتی پتلے کو نذر آتش کرنے کی تیاری شروع کردی گئی تاکہ ظالم کے خلاف سینوں میں جلنے والی آگ کو کپڑے اور بھوسے کے ایک پتلے کے ذریعے اندر سے نکالا جاسکے اور لوگ اپنے حصے کا احتجاج مکمل کرکے اگلے رمضان کی فلسطین پر اسرائیلی جارحیت تک کے لئے دوبارہ اپنی معمول کی زندگی  میں مصروف ہوسکیں۔

جیسے ہی پتلا تیار ہوا اور منتظمین نے اسے بیچ چوراہے پر ٹریفک سگنل کے کھمبے سے علامتی پھانسی لگا کر لٹکانے کے لئے مشعل جلائی، ہجوم میں سے ایک بھکاری نکل کر کر آیا اور بھاگ کر اس پتلے کے پیروں سے لپٹ گیا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ انہیں اس پتلے کو نذر آتش کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور فی الفور اس پتلے کو نیچے اتارا جائے۔  حقیقت جو بھی ہو مگر بھکاریوں کے روپ میں گھومنے والے غیر ملکی جاسوسوں کی کہانی ہم اور آپ نے بھی سنی ہیں سو میں اس معاملے میں ان مظاہرین کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا جنہوں نے اس غیر ملکی جاسوس کو لاتوں اور گھونسوں کی زد پر لے لیا اور جب وہ  نڈھال ہوکر گرپڑا تو اس کی نظروں کے سامنے  ہی اس پتلے کو آگ لگا دی گئی۔ ہجوم تو شاید پورے اسرائیل کا بدلہ اس جاسوس سے لے لیتا مگر حسب روایت غلط وقت پر پولیس پہنچ گئی اور اسے تفتیش کے لئے اپنے ساتھ لے گئی۔

میں وہیں پولیس وین کے ساتھ کھڑا سگریٹ پیتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہا تھا جب پولیس والے اسے اٹھا کر  لائے۔ اسے وین کے اندر پھینک کر وہ لوگ  کسی بھی اور ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لئے وہیں کھڑے ہوگئے تھے۔ میں نے پولیس وین میں سے کسی کے کراہتے ہوئے رونے اور کوسنے کی آواز سنی کہ ، میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ پتلا جلانا ہی ہے تو میری اس قمیض میں بھوسا بھر کر جلا دو اور یہ نئی قمیض شلوار مجھے دو۔ ظالموں نے نیا قمیض شلوار جلا دیا۔ میں نے باقی آدھا سگریٹ نیچے پھینکا اور اسے پاؤں سے مسلتا ہوا مظاہرین میں شامل ہوکر ان کے ساتھ نعرے لگانے میں مصروف ہوگیا۔ فلسطین زندہ باد۔ اسرائیل مردہ باد!

ہفتہ، 1 مئی، 2021

زٹل

 

ہم انسان ایک روح ہیں کہ جسے ایک جسم دیا گیا ہے یا پھر ہم ایک جسم ہیں کہ جسے ایک روح ودیعت کی گئی ہے؟  اس کہانی کے برے یا بھلے اور جھوٹے یا سچے  ہونے کا کل  دارو مدار آپ کے نقطہ نظر پر  ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک جسم ہیں جسے ایک روح عطا کی گئی ہے تو عیش کیجئے ۔ کہانیاں روح کی تالیف اور تربیت کے لئے ہوتی ہیں  اور جب آپ نے روح کو ثانوی تسلیم کر ہی لیا ہے تو اس کی ضروریات بھی آپ کے لئے ثانوی ٹھہریں گی اور ایک ثانوی چیز کی تسکین کے لئے کہانی سننے اور پڑھنے ایسا وقت کا زیاں   چہ معنی ؟ البتہ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ انسان ایک روح ہے اور اسے ایک عارضی جسم عطا کیا گیا  ہے تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا  ہو گا  کہ روح  کے بنیادی اور جسم کے ثانوی ہونے کے ناتے ، روح کی ضروریات ہی آپ کی بنیادی ضروریات ہیں اور اس کہانی کا سننا آپ کے لئے لازم ہے کہ یہ کہانی میرے اور آپ جیسے ہی ایک انسان  کی ہے جو اپنی روح کی بقا کی خواہش میں وقت نامی سمندر میں بہتا ہوا ایک ایسےجزیرے پہ جا رکا تھا کہ جہاں اس سے پہلے کسی انسان کے قدم تو کیا سوچ کی پرچھائی بھی نہ پڑی تھی۔

تبدیلی  اپنے ادراک کے مکمل ہونے سے پہلے تک ہمیشہ خوبصورت ہوا کرتی ہے۔  گو کہ اس جزیرہ پر کسی بھی قسم کی حیوانی و نباتاتی حیات کا گزر نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اس کے لئے زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ خود اس کا دریافت شدہ۔ زندگی کے ہر احساس سے عاری، مگر مکمل اس کا۔  وہ دن بھر  اس جنت کے مختلف گوشوں کی سیر کرتا اور شام ڈھلتے ہی اس امید پر ساحل پر آ بیٹھتا کہ مبادا    کوئی بھولا بسرا مسافر کبھی اس جزیرہ پر آ نکلے   تو جزیرہ کو غیر آباد جان کر واپس نہ پلٹ جائے ۔  انجان چیزوں کو لے کر انسانی فطرت کا تجسس اپنی جگہ مگر وہ یہ جانتا تھا کہ  ویران جگہوں کا خوف انسان ایسے معاشرتی حیوانوں کی سرشت میں ازل سے موجود ہے۔

وقت کا احساس فکر کے ساتھ منسلک ہے اور جنت میں چونکہ تفکرات نہیں ہوتے لہذا وہ بھی اب سمے کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔ سورج کے ڈھلنے اور اگنے سے دن کی تبدیلی کا احساس اپنی جگہ موجود تھا مگر جسے آپ وقت کہتے  اور سمجھتے ہیں، وہ اس کے حساب اور فکر سے مکمل آزاد تھا۔ خدا جانے اس جنت میں اس پر کتنے زمانے بیت چکے تھے جب پہلی مرتبہ اسے اپنی زندگی سے محروم جنت کا مکمل ادراک اور پہلی مرتبہ بھوک کا احساس ہوا تھا۔  جنت میں غذا کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ اس دن پورا وقت ساحل پر شکار کی تلاش میں گھومتا  اور کسی نہ آنے والے مسیحا کوچیخ چیخ کر پکارتا رہا  مگر وہ ساحل بھی اس  جزیرے سے اپنے تعلق کے طفیل زندگی کے لئے مکمل بانجھ ہو چکا  تھا۔ اور پھر اس جیسے کتنے ہی دن رات وہ  اس ساحل اور جزیرے پر ایک غیر حاضر غذا کی تلاش میں دیوانہ وار گھومتا رہا  اور مدد کے لئے پکارتا رہا ، یہاں تک کہ نڈھال ہو کر  گر نہ پڑا۔

انسانی خواہشات میں سب سے گراں  اور عظیم تر خواہش بقا کی ہوتی ہے۔ جب وہ جزیرے پر غذا کی موجودگی اور باہر سے آنے والی کسی بھی امداد  سے مکمل مایوس ہوگیا تو اس نے زمین پر پڑے پڑے ہی اپنے قریب سے ایک نوکیلا پتھر اٹھایا اور اپنے وجود کی تمام تر توانائی بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پنڈلی میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اٹھنے والی ٹیسوں اور بہنے والے خون سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی بوٹی کو چبانے میں مصروف ہوگیا۔ گوشت پیٹ میں اترنے سے کچھ حواس بحال ہوئے تو اس  نے گیلی مٹی کا لیپ لگا کر زخم کو مندمل کیا اور بہت مدت کے بعد سکون کی نیند سوگیا۔

خدا جانے وہ کتنا عرصہ سوتا رہا اور نجانے کتنی ہی مدت مزید سوتا رہتا مگر واپس آجانے والی بھوک  نے اسے گڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔  زخمی ٹانگ کے ساتھ وہ دوبارہ (انسانوں سے چوٹ کھا کر بھی ایک مختلف نتیجے کی امید لے دوبارہ  ان ہی انسانوں کے پاس واپس جانے والے  کسی انسان کی طرح )کسی معجزے کی امید کے ساتھ دوبارہ   جزیرے کے سفر پر روانہ ہو گیا کہ شاید  اس کے آنکھیں بند کر لینے سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ چکی ہو مگر انسانوں کے دلوں ہی کی طرح بنجر پتھروں کے اس جزیرے میں بھی اس کے لئے  ماسوائے  تھکن کچھ بھی نہ تھا۔

دوسری مرتبہ جب وہ گرا تو وہ ساحل پر موجود تھا۔  اس بار اس نے  کیفیت نیم مرگ کا انتظار نہ کیا اور کمزوری کے عالم میں ہی لیپ کے لئے گیلی مٹی کی  ڈھیری جمع کر کے دوسری پنڈلی کے لئے جیب میں موجود اس قیمتی نوکیلے پتھر کو نکال لیا۔

پنڈلی کے بعد ران اور ران کے بعد ایک ہاتھ کا بازو اور بازو کے بعد کان (کہ  اسے لگتا تھا کہ اتنے برسوں کے خاموش اور تھکا دینے والے تجربات  کے بعد اسے کان نہیں محض زبان کی ضرورت تھی) اور کان کے بعد اس  کا زندگی کی حسرتوں سے بھرا  دل! جی ہاں۔ اس کا دل!  وہ ایک ایک کر کے سب کاٹ کر کھا گیا۔ اور اس سے پہلے کہ آپ میری کہانی منقطع کر کے اپنا سوال داغیں، لطف کی بات یہ کہ وہ نا صرف اس دل کو  کھا چکنے کے بعد بھی زندہ رہا  بلکہ محاورے کی زبان میں کہا جائے تو سراپا دل بن گیا۔

جانتا ہوں کہ اب تک آپ اس کہانی کو ہذیان سمجھ کر آگے بڑھ جانا چاہتے  ہوں گے مگر یہاں تک پہنچ  ہی گئے ہیں تو یہ بھی سنیں کہ جب وہ یہ تمام اعضا کاٹ پیٹ کر کھا چکا اور ایک ادھڑی ہوئی زندہ لاش بن چکا ،تو ایک دن ساحل پر ایک اور انسان نمودار ہو گیا۔ آنے والے کے رنگ، نسل، عمر اور جنس سے قطع نظر، ایک انسان!

 اس انسان نے  سفر مکمل کر کے اپنے حواس جب بحال کئے اور اپنے پیروں میں لوٹتی اس کٹی پھٹی زندہ لاش کو دیکھا تو گھن اور خوف کی آمیزش بھری ایک چیخ ماری اور اس زندہ لاش کے ہاتھ  سے وہ نوکیلا پتھر چھین کر اس وقت تک برساتا رہا/رہی  جب تک اس کے جسم کی باقیات بھی ریزہ ریزہ نہ ہوگئیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ریزوں میں بٹنے کے باوجود بھی  موت اس پر مہربان نہ ہوئی اور اس انسان  کو ان ہی ریزوں میں اپنی رہی سہی عمر مکمل  کرنی پڑی۔ مگر کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پوری کہانی استعاروں کی ہے اور وہ جنت  دراصل انسانی جسم تھا اور  یہ کہانی اس میں مقید روح کی ہے کہ جو اپنی بھوک میں خود اپنے دل ، اپنے  آپ تک  کو چبا گئی۔  سنی سنائی باتوں کا کیا بھروسا؟

بدھ، 14 اپریل، 2021

ابلیس

انسانوں کی زندگی کے بڑے آلائم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تاریک ترین گوشوں کے اظہار کے لئے ان لوگوں کا  انتخاب کرتے ہیں  جن سے شناخت کے تعلق کا ڈر نہ ہو۔ اور ایک نابینا  نفسیات دان سے بہتر اگالدان کون ہوسکتا ہے؟    جی ہاں! خلق خدا کے لئے میں ایک نفسیات دان ہوں جو دیدہ بینا سے محروم ہے اور شاید اس ہی لئے لوگ میرے سامنے اپنی زندگی کے ان تاریک گوشوں کو بھی بیان کر دینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں جن کا سامنا وہ تنہائی میں بھی کرنے سے خائف  ہوتے ہیں۔ اس میں میرے لئے بھی دو سہولیات موجود ہیں۔ جہاں ایک طرف اس  زخموں کے کاروبار سے میرے تن کی خوراک کے اسباب مہیا ہوا کرتے ہیں ،  وہیں   دوسری طرف ،میری زندگی کے  تاریک کینوس پر ان کی تکالیف کے رنگوں سے  بننے والی خوشنما تصاویر سے میری روح کی تسکین کے سامان ہوا کرتے ہیں۔

اس وقت  بھی میں اپنے کلینک پر موجود تھا اور  حسبِ عادت آنے والے مریضوں کے مصائب سے لذت کشید کرنے میں مصروف تھا کہ اپنی باری پر وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔  اس نے آکر مجھے سلام کیا اور کرسی گھسیٹ کر مریضوں  کے لئے مخصوص نشست پر براجمان ہوگیا۔ آواز اور سکنات سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ پچاس کے پیٹے میں موجود ایک بھاری تن و توش کا مرد  تھا۔     میں نے معمول کی گفتگو  سے  کلام کا  آغاز کرنا چاہا مگر اس کے لہجے کے اضطراب سے ظاہر تھا کہ وہ کمرے تک پہنچ تو گیا ہے مگر  رازِ دل کو عیاں کرنے میں متامل ہے۔ ایسا نہیں کہ میں پہلی مرتبہ کسی ایسے مریض کے سامنے موجود ہوں کہ جو اپنے ماضی کی برہنگی سے خائف ہو۔ مگر اس مریض کے لہجے میں کچھ ایسا تامل تھا جو مجھے بتا  رہا تھا کہ اس بار معاملہ  معمول کا نہیں تھا اور اس بار مجھے مریض کو کھولنے کے لئے اضافی محنت درکار ہوگی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ میں اس اضافی محنت سے خائف تھا،  میں  تو بس اس بات سے خائف تھا کہ اگر اضافی محنت کے بعد بھی میں اسے نہ کھول پایا تو کیا ہوگا؟ فیس کے نہ ملنے کا مجھے کوئی غم نہیں تھا  کہ مالی طور پر میں آسودہ زندگی گزار رہا تھا۔ فکر یہ تھی کہ اگر میرا کینوس اس کے رنگوں سے محروم رہ گیا تو کیا ہوگا؟    ایک مفلس مصور  اس عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک نابینا مفلس مصور تو بالکل بھی نہیں۔

 انجام اور اس سے ملحقہ تکالیف کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں اپنے  تمام تر تجربے کو بروئے کار لے آیا اور آہستگی  سے اس کی ذات کی پرتیں اتارنی شروع کر دیں۔ میں انسانی نفسیات کے اس پہلو سے بخوبی واقف تھا کہ  ہم میں سے ہر ایک، بیک وقت کئی شخصیات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دوستوں کے بیچ رہنے والے انسان کو اس کے گھر والے دیکھ لیں تو کبھی پہچان بھی نہ پائیں اور دفتر کے ساتھی اگر ہمارا گھریلو روپ دیکھ لیں تو ہم حال احوال کے رسمی تعلق سے بھی جائیں۔ جگہوں اور رشتوں کے اعتبار سے ہم نے اپنی ذات پر جو خول یا نقاب چڑھائے ہوتے ہیں اس کے بارے میں پہلے ہی  بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے سو فسانے کو سمیٹتے ہوئے میں واپس اپنے مریض کی سمت آتا ہوں کہ  جو میری مہارت کے آگے سر تسلیم خم کئے اب آہستہ آہستہ اپنے وجود اور اس کی شناخت سے منسلک پرتوں کو اتارنے کے سفر میں میرے ہمراہ تھا۔ پرت در پرت انسانوں کو کھوجنے اور کھولنے کا  یہ عمل  میں اتنی مرتبہ دہرا چکا تھا  کہ اب  میں یہ کام غنودگی کے عالم میں بھی کمال مہارت سے  سر انجام دے سکتا تھا۔ مگر آج معاملہ مختلف تھا۔ آج جہاں انجام کا خوف مجھے ہوشیار رہنے پر مجبور کرتا تھا وہیں اس انسان کے اندر سے دریافت ہونے والی پرتوں نے بھی  میرے تمام ممکنہ طبق روشن کر دیئے تھے۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں کسی مریض کے ساتھ موجود نہیں ہوں بلکہ اپنے ہی اندرون کا سفر کر رہا ہوں۔ ایک  کے بعد ایک کھلنے والی ہر پرت مجھے میری ہی ذات کے کسی روپ سے متعارف کروا رہی تھی۔ ٹھیک ہے کہ ترتیب کا تسلسل شاید کچھ مختلف رہا ہوگا مگر اس ترتیب کے  علاوہ اس وقت مریض اور مسیحا کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔ اور اگر رہا بھی ہو تو میں اسے ابھی تک کھوج نہیں پایا تھا۔ گفتگو کا سلسلہ دراز تر ہوتا جا رہا تھا اور اب شخصیت کی پرتیں دبیز اور ان کے گرد قائم حفاظتی فصیلیں مضبوط تر ہوتی جا رہی تھیں۔ گو یہاں تک پہنچ کر میں بھی ہانپ  چکا تھا مگر اپنے آپ سے ملاقات کا اشتیاق مجھے تھکنے نہیں دے رہا تھا۔ ہر کھلنے والی پرت کے بعد میں خود کو یقین دلاتا کہ اب اس کے بعد آنے والی پرت آخری ہوگی اور آج میں اس مریض  کے صدقے اپنے آپ سے مل پاؤں گا۔ مگر ہر اترنے والی پرت کے بعد ایک اور پرت میری منتظر ہوتی جو پہلے سے دبیز تر ہوتی اور اس کے گرد کی فصیل کے بارے میں آپ پہلے ہی جان چکے ہیں۔ 

اس سے پہلے کہ میں قرار واقعی تھک کر ہمت ہار دیتا،   میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا معجزہ  محسوس کیا۔ اس کی شخصیت کی ایک دبیز تہہ اتارنے  کے بعد میں سانس لینے کے لئے تھما تو میں نے محسوس کیا کہ پرت کے ساتھ ساتھ وہ مریض بھی غائب ہوچکا ہے۔ جانتا ہوں کہ میں نابینا ہوں مگر میری باقی حسیات قائم ہیں اور میں پورے ہوش و حواس میں بیان کر رہا ہوں کہ  اگر وہ  چاہتا بھی کہ خاموشی سے اٹھ  جائے تو بھی وہ سالخوردہ کرسی اسے اس خاموش رخصت کی عیاشی  نہیں بہم کر سکتی تھی۔  پیاز کی تہوں کی طرح انسان کی پرتیں کھولتے ہوئے بھی خیال کرنا  پڑتا ہے کہ اس تہہ در تہہ وجود  کی آخری پرت کے نیچے بھی محض خلا ہی  بچتا ہے، پیاز یا انسان کا وجود نہیں بچ پاتا۔ مگر خیال کرنے کے لئے  اور کچھ نہیں تو انسانی ہمدردی کا ہی صحیح مگر ایک باہمی تعلق ضروری ہوتا ہے جبکہ انسانوں کی زندگی کے بڑے آلائم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تاریک ترین گوشوں کے اظہار کے لئے ان لوگوں کا  انتخاب کرتے ہیں  جن سے شناخت تک کے تعلق کا ڈر نہ ہو۔ اور ایک نابینا  نفسیات دان سے بہتر اگالدان کون ہوسکتا ہے؟    جی ہاں! خلق خدا کے لئے میں ایک نفسیات دان ہوں جو دیدہ بینا سے محروم ہے اور شاید اس ہی لئے لوگ میرے سامنے اپنی زندگی کے ان تاریک گوشوں کو بھی بیان کر دینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں جن کا سامنا وہ تنہائی میں بھی کرنے سے خائف  ہوتے ہیں۔ اور اگر میں ان کی زندگیوں کے ان تاریک گوشوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا تقابل ان سے کر بیٹھوں تو یہ الٹا مجھے مردود ٹھہراتے ہیں۔ ابلیس کہیں کے 

بلاگ فالوورز

آمدورفت