وارستہ خان محتاط صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے اور ان کی چار عدد بیوائوں اور محلے کی دیگر تمام خواتین نے مل کر میرے نازک کاندھوں پر یہ بھاری
ذمہ داری ڈال دی ہے کہ میں مرحوم کے اوصافِ جمیلہ کو دنیا کے سامنے لائوں تاکہ
احباب کچھ سیکھ سکیں۔ ویسے تو میرے قلم میں اتنی تاب نہیں کہ میں مرحوم کےتمام حالات
احباب کے سامنے لائوں مگر مختصراّ جو کچھ بیان کرسکتا ہوں وہ آپ کی نظر ہے۔
مرحوم بٹوارے
کے بعد آنے والے پہلے جاڑے اور تفریح کے مواقع میسر نہ ہونے کے لازمی نتیجے کے طور
پر اکتوبر انیس سو اڑتالیس میں سرکاری ہسپتال کے مقام پر پیدا ہوئے۔ قرآن کا
نسخہ یا بہشتی زیور موجود نہ ہونے کی وجہ سے دیوانِ غالب سے نام کی فال نکالنے
کیلئے رجوع کیا گیا جس میں بدقسمتی سے "وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو" والی
غزل نکل آئی۔ والد صاحب قبلہ چونکہ رکھ رکھائو کے عادی تھے اور لفظ واؤ سے کوئی تمکنت بھرا نام سوچنے سے قاصر تھے لحاظہ انہوں نے محض واؤ پر اکتفا کرنے کے بجائے
پورے وارستہ کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا (یہ بات قطعی قابل بیان نہیں کہ آخری عمر
میں مرحوم اکثر تاسف کرتے پائے گئے کہ اس سے بہتر تو سیدھا واہیات خان نام رکھ
دیتا)۔
مرحوم نے
ابتدائی تعلیم کمرے کے دروازے میں درز بنا
کر حاصل کی اور بچپن میں حاصل کیئے گئے اس علم
سے خلقِ خدا کو فائدہ پہنچانے کے مشن پر ساری عمر کاربند رہے۔ اس مشن میں مرحوم کو کئی نقصانات بهی اٹھانا پڑے
مگر وارستہ بھائی ان چھوٹے موٹے نقصانات (تین بیویاں ، دو چارپائیاں، ایک پڑوسی جو مغرب کے فوراٗ بعد پڑوس میں شروع ہوجانے
والے شور سے گھبرا کر گھر چھوڑ بھاگا وغیرہ) سے گھبرا کر اپنے اس نیک مشن سے باز
آنے والے نہیں تھے لہٰذا ڈٹے رہے اور حق زوجیت ادا کرتے رہے۔ پہلی بیوی کے انتقال پرملال (ولیمے سے ایک دن
پہلے)، دوسری بیوی کے بھاگ جانے(شادی کے تیسرے دن)، اور تیسری بیوی کی فوتگی (شادی
کے ڈیڑھ ماہ بعد) وارستہ بھائی نے چوتھی شادی سے پہلے اپنے ہونے والے سسر (جو محض
اتفاق سے وارستہ بھائی کے مقروض تھے اور قرض چکانے سے قاصر بھی) کے نام ایک منظوم
خط لکھا جس میں انہیں یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ ماضی کی تمام غلطیاں محض ماضی
تھیں اور وارستہ خان اب محتاط رہنے کا وعدہ کرتا ہے ۔ نظم کے آخری شعر میں جو قرض
کی معافی کا بیان تھا اس نے پوری نظم میں جان ڈال دی اور وارستہ بھائی کا حجرہ پھر
مغرب کے فوراٗ بعد بند ہونا شروع ہوگیا۔روایات کے مطابق دوسری بیوی کے بھاگنے کے
بعد سے محلے کے بزرگوں نے یہ وطیرہ بنا لیا تھا کہ جہاں مرحوم کو دیکھتے فوراّ صدا
لگاتے کہ، "وارستہ خان، محتاط!"، تیسری کے انتقال کے بعد مرحوم کے
دوستوں نے بھی اس وظیفے کو اختیار کرلیا اور چوتهی شادی تک یہ
جملہ محلے کے بچوں نے بھی سیکھ لیا تها اور پورے محلے کیلئے وارستہ بھائی ، وارستہ
خان سے وارستہ خان محتاط ہوچکے تهے۔
دنیا کے حساب
سے چوتھی اور خود مرحوم کی دانست میں پہلی (کہ خود بقول مرحوم: پچھلے تین نکاحوں میں ٹھیک سے شادی کرنے کا موقع
ہی کب ملا) شادی کے بعد محلے کی خواتین پرسکون تھیں کہ اب مفت کے ایکسرے سے جان چھوٹ جائے گی مگر مرحوم کی دن رات کی
محنت رنگ لے آئی اور بھابھی کا پیر بھاری ہوگیا۔ ڈاکٹر کے سمجھانے پر مرحوم شروع
میں تو برداشت کرتے رہے مگر جب احساس ہوا کہ دودھ کا ناغہ اگلے تین چار مہینے چلنا
ہے تو جاکر ایک نئی بھینس خرید لائے۔ اس کے بعد تیسری (چھٹی) منکوحہ یہ کہہ کر لائی گئیں کہ میرا ایسے کسی انسان کے
ساتھ گزارا مشکل ہے جو ایک ساتھ پانچ پانچ دن کی چھٹی کرتا ہو۔ اور چوتھی منکوحہ
کی دفعہ میں سب کو اتنی عادت ہوچکی تھی کہ نہ کسی نے وجہ پوچھنے کی زحمت کی اور نہ
آپ نے بتائی۔
آپ کے اوصاف
جمیلہ میں یہ بات ضرور لکھنی چاہیئے کہ مرحوم جان چھڑکنے والے انسان تھےاور ہر قسم
کی مادہ پر جان چھڑکتے تھے۔بقول فیتے کے (جو جانوروں کی زبان سمجھنے کا دعوے دار
ہے) آپ کی محبت کی یہ عادت صرف انسانوں تک محدود نہیں تھی اور اس نے خود آپ کو
بلیوں، بکریوں وغیرہ وغیرہ کو محبت (بقول فیتے حسرت) سے تکتے دیکھا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ محبت مرحوم کی طرف سے یکطرفہ
تھی، بقول فیتے کے ہی، اس نے خود اپنی گناہگار آنکھوں سے بلیوںکو مرحوم سے نظر ملتے ہی شرماتے ہوئے دیکھا ہے۔(
خدا جانے فیتے کی نظریں یہ مناظر دیکھ کر گناہگار ہوئیں یا پہلے سے تھیں)۔ محلے کی
کوئی بھی مادہ، میرا مطلب ہے عورت ،اگر مرحوم کو سمجھانے کی کوشش کرتی تو آپ بڑے رسان
سے اسے سمجھاتے کہ ٹوکنے والی عورت کا میاں بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے اور کس طرح خود اس کا میاں دوسرے محلے کی خواتین کو
تاڑتا وغیرہ رہا ہے ۔ چونکہ وہ معصوم
خواتین اس ظلم عظیم کا بدلہ خود لے نہیں سکتیں اس لیئے وارستہ خان محتاط ان کزنوں
کا انتقام لینے کیلئے یہ سب کچھ کر رہا ہے ورنہ وارستہ کی شرافت و نجابت کی تو قسم
کھائی جاسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
چار بیگمات اور سترہ بچوں کے ساتھ مرحوم اچھی
خاصی زندگی گزار رہے تھے کہ خواتین کی مناجات مقبول ہوئی اور وارستہ خان محتاط
کا بلاوہ آگیا۔ مرحوم ایک بہادر انسان تھے اور موت سے کبھی نہیں ڈرتے
تھے۔ ان کے مطابق مسلمان مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جاتا ہے لہٰذا موت کا ڈر کیا
معنی؟ مسلمان کے بعد از مرگ جنت میں جانے کی سب سے بڑی دلیل آپ یہ دیا کرتے تھے کہ
اس ہی وجہ سے تدفین کے وقت ازار کھول دیئے جاتے ہیں کہ مرحوم کو جنت میں پہنچتے ہی
کسی کارخیر انجام دینے میں کوئی دقت نہ ہو۔
آپ کی قبر کے
کتبے پر آپ کی وصیت کے مطابق وہ مشہور مصرعہ لکھوایا گیا ہے جس کے مطابق" حق
مغفرت کرے عجب "آزاد" مرد تھا"
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں