پیر، 16 جنوری، 2017

گدھ - 2

ٹیلیویژن کی آواز بند تھی مگر دکھائے جانے والے مناظر نے کمرے ایک عجیب سی نحوست پھیلا دی تھی۔ میں نے کان لگا کر سنا تو کمرے میں عجیب سی آوازیں سرسرا رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا سینکڑوں گدھ مسلسل چلانے کے بعد  اب دم لینے کے لئے ہانپ رہے ہوں ۔ میں نے غور کیا تو ان گِدھوں کی آواز کے اندر خود میری آواز بھی شامل تھی۔ توجہ بٹانے (یا شاید اس احساس سے جان چھڑانے) کے لئے میں نے ہمت جمع کر کے ایک بار پھر ٹیلیویژن کی جانب دیکھا تو مجھے لگا  کہ وہ لڑکی ٹیلیویژن سے باہر نکل آئے گی۔میں نے گھبرا کر ٹیلیویژن بند کیا اور ریموٹ کھینچ کر ٹیلیویژن پر ہی  مارتے ہوئے گھر سے باہر نکل آیا۔ مجھے تازہ ہوا کی ضرورت تھی۔
یہ قصہ آج سے چار ماہ پہلے شروع  ہوا تھا۔مگر ان چار ماہ سے قبل بھی وہ  وہ ایک عام سی لڑکی تھی۔ عام سی لڑکیوں ہی کی طرح خوبصورت۔ عام سی لڑکیوں ہی کی طرح نازک اور عام سی لڑکیوں ہی کی طرح پر عزم۔ اسے دنیا کو بدلنے کا شوق تھا۔ اور بولنے کا بھی۔ مگر بولنے کا شوق کسے نہیں ہوتا؟ سو اپنے بولنے کے شوق کو دنیا بدلنے کے شوق کے لئے استعمال کرنے کے لئے اس نے صحافی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ کالج کے بعد یونیورسٹی میں اس نے میڈیا سائنسز کا مضمون اپنے لئے چنا تھا اور چار سال کی ریاضت کے بعد صحافت کی ڈگری ہاتھ میں لئے مختلف میڈیا ہائوسز کے دروازے کھٹکھٹا رہی تھی۔  عجیب و غریب  سوالات سے بھرپور انٹریوز اور اس سے کہیں زیادہ عجیب تر نظروں سے گھبرا کر وہ ایک سے دوسری  جگہ بھاگتی پھری مگر کہیں کوئی ٹھکانہ نہ مل سکا کہ جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھ کر دنیا پر توجہ دے سکتی۔ شاید وہ صحافت کو مکمل طور پر خیر باد ہی کہہ دیتی مگر پھر سوشل میڈیا پر ملنے والا ایک دوست کام آگیا جس نے اسے اپنے اخبار میں جگہ دے دی۔ شروع میں سب کچھ اچھا چلتا رہا مگر ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد اسے پتہ چلا کہ نوآمیز لڑکیوں کو  بہت سے اداروں کی طرح یہاں بھی  تنخواہ لینے کے لئے بہت کچھ دینا پڑتا ہے۔  وہ کسی بھی رقم کے لئے سمجھوتا یا قربانی دینے کے لئے تیار نہیں تھی سو یہ نوکری بھی چھوڑ آئی۔
نوکری چھوڑنے کے بعد کچھ دن تو اس نے حواس بحال کرنے میں لگائے اور پھر اس کے بعد خاموشی سے ایک چھوٹے سے اسکول میں نوکری کر لی۔  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس جیسی باقی تمام کہانیوں کی طرح یہ کہانی بھی یہیں  ختم ہوجاتی مگر جیسا میں نےعرض کیا یہ عام سی لڑکی تھی اور عام سی لڑکی اتنے آرام سے ہار نہیں مانتی سو اس نے بھی ہار ماننے کے بجائے اپنی کہانی لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور غلط محاورات سے بھرپور اس نے اپنی کہانی سب سے پہلے مجھے ہی بھجوائی تھی۔ کہانی میں بہت سی اغلاط تھیں مگر برسوں کے تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا تھا کہ وہ تحریر جھوٹی نہیں تھی۔ مگر اس ہی تجربے کی بنیاد پر میں جانتا تھا کہ اس کہانی کو چھاپنے کے نتیجے  میں ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا جس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آنے تھے اور وہ نام اتنے بڑے تھے کہ ان کے بوجھ تلے میرے کیریر نے دفن ہوجانا تھا۔ ہاں ٹھیک ہے خود مجھ سے بھی جوانی میں لغزشیں ہوئی تھیں مگر انسان خطا ہی کا تو پتلا ہے۔ مگر خدا تو مخلوق کے عیوب سے پردہ پردوشی کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ لڑکی ہمارے گندے پوتڑے بیچ چوراہے پر دھونا چاہتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ  اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو آج نہیں تو کل میرا اپنا بھی نام سامنے آجائے گا لہٰذا میں نے اس معاملے کو یہیں دبانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ تحریر کسی اور جریدے کے ہاتھ چڑھے اور وہاں کوئی احمق ایڈیٹر موجود ہو اور اس کہانی کو چھاپ بیٹھے۔  میں نے اس لڑکی کو لکھ بھیجا کہ میں ذاتی حیثیت میں اس لڑکی کے ساتھ کھڑا ہوں اور اگر چند ثبوت بہم ہوجائیں تو اس کی کہانی چھاپنے کو تیار بھی ہوں۔  میری اس ای میل کے بعد دوسری جانب سے خاموشی ہوگئی اور میں نے بھی سکون کا سانس لے لیا کہ معاملہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔مگر اس معاملے میں یہ پہلی یا آخری بار نہیں تھا  کہ میں صورتحال کو سمجھ نہیں پایا تھا۔
قریب دو ہفتے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر میرے ای میل ان باکس میں موجود تھی۔ اب کی بار مختلف پیغامات کی تصاویر کے ساتھ! جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک مشہور جریدے کا مدیر کس طرح اس سے بلاضرورت بے تکلف ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک اور گفتگو میں ایک مشہور صحافی اسے یقین دلا رہے تھے کہ اگر وہ ان کا ساتھ دے تو  وہ اس کے کیریر میں اس کا کس حد تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ دس پندرہ مختلف تصاویر میں چار پانچ مشہور پیٹی بھائیوں کی رسوائی کا مکمل سامان موجود تھا۔میں نے حواس قابو میں رکھتے ہوئے اسے جواب لکھ بھیجا کہ یہ ثبوت بہت ٹھوس ہیں اور اب ان درندوں کو دنیا کے سامنے رسوا کرنے کا وقت آگیا ہے مگر اس واقعے کو مکمل کرنے کے لئے اسے چند ساتھی لڑکیوں کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ اگر محض ایک لڑکی الزام لگائے تو دنیا اسے ذاتی دشمنی کا شاخسانہ سمجھ کر اہمیت نہیں دے گی جبکہ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں مجرم اپنے انجام کو پہنچیں۔ اس ہی دن شام کو اس کا جواب آگیا کہ وہ میری بہت مشکور ہے اور یہ حوصلہ افزائی اس کے لئے بہت معنی رکھتی ہے نیز وہ کوشش کرے گی کہ اپنی کسی دفتری ساتھی کو بھی اس معاملے پر بولنے اور گواہی دینے پر راضی کرلے۔
میں جانتا تھا کہ دنیا اس کی جتنی احمق نہیں ہے اور اسے کوئی ملنے والا نہیں ہے لہٰذا اس کی ای میل کو نظرانداز کرکے دوبارہ اپنی زندگی میں مشغول ہوگیا۔ اس بار البتہ میں نے ان تمام احباب کو اس کے مضمون کے نمونے اور حاصل شدہ ثبوت بھجوا دیئے تھے کہ سند رہے اور کل کو جب مجھے ضرورت پڑے تو کام آئے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ایک بار پھر غلط ثابت ہوا  تھا اور میری ای میل کے دو ماہ بعد ہی سہی مگر وہ اپنی ایک کولیگ کو بولنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ خیر میں بھی کسی وجہ سے اس مسند پر تھا کہ جس پر میں تھا سو میں نے بھی اسے یقین دلا دیا کہ میں بہت جلد یہ مضمون چھاپ دوں گا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے جواب میں ایک قصیدہ لکھ بھیجا کہ میں کس طرح اس مشکل دور میں بھی مظلومین کے لئے روشنی کا ایک منارہ وغیرہ تھا۔ اس بار میں نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔
اس کا مضمون ملے مجھے چار ماہ ہونے کو آرہے تھے اور اب مجھے پھر یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں معاملے کو دبانے میں کامیاب ہوچکا ہوں مگر پچھلے ہفتے نجانے کہاں سے اس نے میرا نمبر نکلوا لیا اور ڈائریکٹ مجھے کال کر لی۔ میرے لئے نمبر نا آشنا تھا سو میں نے فون اٹھا لیا۔ فون اٹھاتے ہی وہ  گویا پھٹ پڑی کہ اتنی مدت ہونے کے باوجود اب تک اس کی آواز کس لئے دبائی گئی ہے؟ اور اگر میں یہ مضمون چھاپ نہیں سکتا تو اسے صاف منع کیوں نہیں کر دیتا؟ اس بیچاری کو معلوم نہیں تھا کہ میں جانتا تھا کہ مجھے یہ تحریر بھیجنے کے کچھ عرصے بعد ہی اس نے وہ تحریر ایک اور جریدے کو بھی ارسال کی تھی اور انہوں نے تو میری طرح تکلف تک نہیں برتا تھا اور صاف منع کردیا تھا کہ وہ یہ مضمون نہیں چھاپ سکتے۔ میں جانتا تھا کہ میں اس لڑکی کی آخری امید تھا سو میں نے رسان سے کہہ دیا کہ وہ جہاں جی چاہے جا کر یہ مضمون چھپوا سکتی ہے۔ ویسے بھی خدا بہتر انصاف کرنے والا ہے سو اسے معاملہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے ۔ ویسے بھی اس کے مجرمین  اپنے اپنے گھروں میں مائیں بہنیں اور بیٹیاں رکھتے ہیں سو آج نہیں تو کل ان کا کیا ان کے آگے بھی آئے گا۔ میر ی بات سن کر وہ بھڑک اٹھی کہ ہر مرتبہ عورت کے ساتھ مرد کے کئے کی سزا بھگتنے  کے لئے عورت ہی کیوں ہوتی ہے؟ ان مردوں کے آگے آنے کے لئے بھی عورت مشق ستم کیوں بنتی ہے؟ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوئی  اور جب کچھ دیر بعد وہ بولی تو ایک تھکی ہوئی آواز ابھری،خیر،  اب جب میں نے آپ کی تمام مطلوبہ شرائط پوری کر دی ہیں تو پھر اب یہ مضمون کیوں نہیں چھپ سکتا؟ میں جانتا تھا کہ اب لگی لپٹی رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں سو میں نے اسے سمجھا دیا کہ ہمارا مذہب بھی عورت کو گھر میں رہنے کا حکم دیتا ہے اور اسے گھریلو ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہوئے اول تو نوکری کرنی ہی نہیں چاہئے تھی اور دوسرا یہ کہ اگر نوکری کر ہی لی تھی تو یہ سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے تھی کہ یہ سب نوکری کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ ہکابکا میری تقریر سنتی رہی اور اس کے بعد پھٹ بہی کہ گھر پر بیٹھوں؟ تاکہ سن سکوں کہ دن بھر گھر پر بیٹھی کرتی ہی کیا ہو؟ محنت تو مرد کرتے ہیں؟ اور میری ذات کی حد تک ہوتا تو ٹھیک تھا مگر ان سب لڑکیوں کا کیا جو اپنا گھر چلانے کے لئے نوکری کرتی ہیں؟ ان کے لئے یہ نوکری ہی گھر کا کام ہے کہ کچن میں کام کرنے کے لئے گھر میں کھانے کو کچھ ہونا بھی چاہئے اور اگر وہ بھی نوکری نہ کریں تو گھر میں کھانے کے واندے ہوجائیں؟ آپ کو لگتا ہے یہ صرف میری جنگ ہے؟ یہ ان سب عورتوں کی جنگ ہے جو اپنے گھریلو بار کو اٹھانے میں حصہ دار بننا چاہتی ہیں۔وہ تو شاید ساری شام بولتی رہتی مگر میں نے اس کی بات کاٹ کر اسے یاد دلایا کہ میرے پاس زندگی میں اور بھی مسائل موجود ہیں۔ یہ ایک لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والی چیز  اتنی بڑی نہیں کہ میں اس کے لئے اپنے باقی کے سب کام چھوڑ کر اس پر خبریں اور تجزیے چھاپوں۔ میری بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر کچھ سوچ کر بولی کہ اچھا اگر یہ خبر اتنی بڑی ہوگئی تو کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے بارے میں لکھیں گے؟ اس پر تجزیے چھاپیں گے؟ میں پٌہلے ہی اس گفتگو سے بیزار ہوچلا تھا سو میں نے حامی بھر کر فون کاٹ دیا۔
آج شام پھر اس کے نمبر سے میرے پاس کال آ رہی تھیں مگر آج مجھے اپنی بیٹی کو لے کر ایک فلم دیکھنے جانا تھا   اور میں اپنی شام مکدر نہیں کرنا چاہتا تھا سو میں نے اس کی کال کاٹ دی اور دفتر سے اٹھ آیا۔ فلم دیکھ کر جب میں گھر پہنچا تو رات ڈھل رہی تھی۔گھر پہنچ کر میں نے اپنا موبائل نکالا تو یاد آیا میں اسے سائلنٹ سے ہٹانا بھول چکا تھا۔ فون پر کوئی سترہ مسڈ کالز اور تین میسجز موجودتھے۔  میں نے کالز کو نظرانداز کرکے میسجز کھولے تو سب سے اوپر پانچ میں سے ایک کا پیغام موجود تھا کہ ٹیلیویژن دیکھا؟  میں نے نہیں کا جواب بھیج کر ٹیلیویژن کھولا تو سامنے مشہور  نیوز چینل پر پانچ میں سے ایک اور موجود تھا اور اسکرین  کے دوسری طرف وہ لڑکی موجود تھی۔زندہ۔ جلتی ہوئی! اس پاگل نے خود کو آگ لگا لی تھی۔ آج بالآخر اس کی خبر اتنی بڑی ہوگئی تھی کہ قومی میڈیا پر چلائی جا سکے!پس منظر میں وہ دھڑادھڑ جل رہی تھی اور تکلیف کی شدت سے چیخ رہی تھی مگر جاتے جاتے بھی اس کی آواز اتنی بلند نہیں ہوپائی تھی کہ میرے دوست اینکر کی آواز کو دباسکے جو پھیپھڑوں کے  پورے زور سے چلا کر یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح اس ملک میں خواتین کو گھریلو حالات اور محبت کے نام پر دھوکے کے ذریعے خودسوزی پر مجبور کردیا جاتا ہے جبکہ حکمرانوں کی بیٹیاں لندن اور دبئی میں عیش کرتی ہیں۔ میں نے گھبرا کر ٹیلیویژن کی آواز بند کردی۔ مگر اب صورتحال یہ تھی کہ ٹیلیویژن کی آواز بند تھی مگر دکھائے جانے والے مناظر نے کمرے ایک عجیب سی نحوست پھیلا دی تھی۔ میں نے کان لگا کر سنا تو کمرے میں عجیب سی آوازیں سرسرا رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا سینکڑوں گدھ مسلسل چلانے کے بعد  اب دم لینے کے لئے ہانپ رہے ہوں ۔ میں نے غور کیا تو ان گِدھوں کی آواز کے اندر خود میری آواز بھی شامل تھی۔ توجہ بٹانے (یا شاید اس احساس سے جان چھڑانے) کے لئے میں نے ہمت جمع کر کے ایک بار پھر ٹیلیویژن کی جانب دیکھا تو مجھے لگا  کہ وہ لڑکی ٹیلیویژن سے باہر نکل آئے گی۔میں نے گھبرا کر ٹیلیویژن بند کیا اور ریموٹ کھینچ کر ٹیلیویژن پر ہی  مارتے ہوئے گھر سے باہر نکل آیا۔ مجھے تازہ ہوا کی ضرورت تھی۔


منگل، 10 جنوری، 2017

کتے

زندیق

ان کے چہرے پر پھیلا سکون مجھے بری طرح بے چین کیے دے رہا تھا۔ ہم دونوں اس وقت شہر کے ایک مشہور ہسپتال میں موجود تھے جہاں وہ بطور سپرنٹنڈنٹ کام کرتی تھیں۔
آپ جانتی ہیں نا کہ اس کمرے کے باہر آپ کو کن ناموں سے پکارا جاتا ہے؟  کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب میرا ضبط جواب دینے لگا تو میں نے لہجے کی کڑواہٹ چھپانے کی کوشش کرے بغیر وہ سوال ان کی جانب اچھال دیا۔
میں ایک دوائیوں کی کمپنی میں کام کرتا ہوں اور آج سے سات سال پہلے کتوں کے کاٹے کی ایک ویکسین کی مشہوری کے سلسلے میں ان سے پہلی بار  ملا تھا ۔ وہ اس وقت بھی دنیا بھر میں ریبیز کے نام سے جانے والی اس بیماری پر کام کرنے والے گنے چنے ناموں میں ایک بڑا نام مانی جاتی تھیں۔  اس پہلی ملاقات میں ہی مجھے ان سے اتنی انسیت ہوگئی تھی کہ سال بھر بعد ویکسین کے شعبے سے ہٹ جانے کے باوجود میں ہر چند ماہ بعد ان سے ملنے پہنچ جایا کرتا تھا۔ اور یہ تعلق یکطرفہ ہرگز نہیں تھا۔ وہ بھی مجھے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں۔ سنا تھا کہ ان کا اکلوتا بیٹا جوانی میں ہی چل بسا تھا تو شاید وہ مجھ میں اپنے اس گزرے ہوئے بیٹے کا عکس دیکھتی تھیں۔ یا شاید اس وجہ سے کہ میں ان کے بیٹے کا ہم نام ہوں۔ وجہ جو بھی کچھ رہی ہو میں نے اسے جاننے کا تردد کبھی نہیں کیا تھا۔  میرے لئے یہی بہت تھا کہ وہ اپنے مصروف ترین شیڈول سے میرے لئے وقت نکال لیتی تھیں۔
میری ان سے آخری ملاقات پچھلے ہفتے ہی ہوئی تھی جس میں میں نے ان کے ملحدانہ خیالات کا شکوہ کیا تھا اور گفتگو تھوڑی گرم سرد پر ختم ہوگئی تھی۔ اس تلخ گفتگو کے بعد مجھے لگتا تھا کہ اب ہم  شاید اگلے چند ماہ نہ مل پائیں گے مگر خلافِ توقع انہوں نے آج مجھے خود کال کر کے اپنے دفتر بلا لیا تھا جہاں اب وہ مجھے بٹھا کر خود سکون سے اپنے کام نمٹانے میں مشغول تھیں۔ میرے سوال پر انہوں نے فائل سے سر اٹھا کر ایک نیم مسکراہٹ  کے ساتھ جواب دیا، سنکی، خبطی، زندیق، سفاک وغیرہ کے علاوہ کوئی نیا نام آیا ہو تو ضرور بتانا ، اور یہ کہہ کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئیں۔ جواب سن کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ مزید بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے اور ویسے بھی میں پچھلے ہفتے والی تلخی کو دہرانا نہیں چاہتا تھا لہٰذا صبر کا گھونٹ پی کر خاموشی سے اپنا موبائل نکالا اور دفتری ای میل دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔
کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا ئی رہی۔ مجھے یقین تھا کہ بظاہر ہم دونوں اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں مگر دونوں ہی یہ چاہ رہے تھے کہ دوسرا گفتگو میں پہل کرے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا مگر تقدیر نے ہم دونوں کی مشکل آسان کر دی اور ان کا فون بج اٹھا۔ فون سنتے ہی  ان کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے اور مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کھڑی ہوگئیں اور چلتے چلتے بول اٹھیں کہ ،تم یقینا آج اس طرح بلائے جانے کی غایت سمجھنے کی کوشش کر 
رہے ہو گے ،سو اب آؤ۔ آج میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں۔ میں خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑا۔

المیہ

کمرے اور پھر وارڈ سے باہر نکل کر ہم ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پر آ نکلے جس کے سامنے اس وقت ایک عجیب تماشہ لگا ہوا تھا۔ ہسپتال میں داخل مریضوں کے لواحقین جو بالعموم گھاس یا بینچز پر سستا رہے ہوتے ہیں، اس وقت ایک گاڑی کے گرد گھیرا بنا کر کھڑے ہوئے تھے۔ اس گھیرے کے درمیان میں ایک مرد اپنی جواں سال بیوی کو پکڑا ہوا تھا جو اس کی گرفت سے آزااد ہوکر اس گاڑی کی سمت جانا چاہ رہی تھی جو ایمرجنسی کے بالکل سامنے موجود تھی۔ اور وہ گاڑی! وہ گاڑی اس بری طرح ہل رہی تھی گویا اس میں کوئی طاقتور بھینسا مقید ہو جو آزاد ہونے کے لئے کبھی گاڑی کی چھت پر ٹکر مارتا تھا اور کبھی گاڑی کی داہنی جانب اور کبھی بائیں جانب۔ ابھی میں صورتحال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے ہاتھ چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور لپک کر گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہوگئی۔ اس کا خاوند گھبرا کر اس کے پیچھے ہی لپکا  اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بدقت تمام اسے گاڑی سے باہر کھینچ لایا۔
اس مرتبہ جب وہ عورت باہر آئی تو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ اس کے دوسرے بازو پر اپنا جبڑا گاڑے ایک نو سالہ بچہ بھی ساتھ گھسٹتا آیا تھاجو اب روشنی کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگیا تھا۔  روشنی میں آتے ہی اس بچے نے اس عورت کا بازو چھوڑ دیا اور پہلے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگا اور پھر اچانک ہی نیچے جھکا اور آنکھیں بند کئے ہی چاروں ہاتھوں پیروں پر گول گول گھومتے ہوئے  غیر انسانی آوازیں نکالنا شروع ہوگیا۔ ہسپتال کے احاطے میں رش مزید بڑھ چکا تھا اور با آواز بلند استغفار ، لاحول اور تعوذ پڑھنے کی آوازیں آرہی تھیں جبکہ چند لوگ اپنے اپنے موبائل کے کیمروں سے یہ عبرتناک منظر فیس بک کے ذریعے دنیا کو دکھانے میں مصروف تھے تاکہ جو عبرت وہ خود حاصل نہ کرسکے وہ کوئی تو حاصل کرلے۔دل ہی دل میں انہیں کوستا ہوا میں آگے بڑھنے کا سوچ ہی رہا  تھا کہ پیچھے سے میڈم کی چنگھاڑ گونجی،" تم لوگوں کو یہاں تماشا لگانے کے لئے بلایا تھا؟ اٹھا کر وارڈ میں شفٹ کرو اسے" میں  آواز سن کر پیچھے مڑا ہی تھا کہ چند وارڈ بوائے مجھے ایک جانب دھکیلتے ہوئے  اس ہجوم کی سمت لپکے اور ہجوم کو کاٹ کر چند ہی لمحوں میں اس بچے کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

کتے

کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ شاید ہم دونوں ہی اس خاموشی کے دامن میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ شاید ہم دونوں ہی جانتے تھے کہ "بات نکلی تو یہاں جان نکل جائے گی"۔ کمرے کے باہر اس بچے کے والدین ہمارے منتظر تھے اور شاید اس گمان میں تھے کہ کمرے کے اندر موجود افراد اس بچے کے علاج کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کے  کتے کے کاٹے سے پیدا ہونے والی یہ ریبیز نامی بیماری لا علاج ہے۔  بروقت ویکسین نہ میسر ہونے کی صورت میں پھیلنے والی یہ بیماری اگر عمومی زبان میں بیان کی جائے تو انسان کے حواس کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ عام آدمی کو دیکھنے کے لئے جتنی روشنی درکار ہوتی ہے، اتنی روشنی میں یہ مریض اندھا ہونے لگتا ہے۔ ہلکی سی سرسراہٹ اسے ڈھول کا شور سنائی دیتی ہے۔ اسے  غیر مرئی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ اس کا دماغ طرح طرح کے واہمے تراشنے لگتا ہے۔ ایک عجیب وحشت اس مریض کے حواس پر سوار ہوجاتی ہے اور اسے اس حال میں پہنچانے والے جانور کی طرح اس میں بھی کسی بھی جاندار کو دیکھ کر اسے بھنبھوڑ ڈالنے کی اشتہا جنم لے لیتی ہے۔ معاملہ یہیں تک محدود رہے تو شاید کسی طرح سنبھال لیا جائے مگر دنوں کے اندر ہی انسان کے اعضا جواب دینا شروع ہوجاتے ہیں اور ایک آہستہ مگر اذیت ناک موت اسے آ دبوچتی ہے۔
خدا  جانے ہم کتنی صدیاں یونہی خاموش بیٹھے رہے ۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا اگر کمرے کا دروازہ نہ بجتا۔ اس بچے کے والدین شاید یارہ ضبط کھو بیٹھے تھے اور میں ان کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ میں نے میڈم کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو وہ دھیرے سے بول اٹھیں، میں جانتی تھی کہ یہ لوگ حیدرآباد سے یہاں آرہے ہیں، اس ہی لئے میں نے تمہیں یہاں بلوایا تھا۔  تین ہفتے پہلے اس بچے کو ایک سڑک پر گھومنے والے پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا۔ بیچارے والدین اپنے تئیں شہر کے ایک مستند کلینک پر اس بچے کو فوری طور پر لے بھی گئے تھے مگر شو مئی قسمت کے وہاں چند سو روپے میں ملنے والی ویکسین بھی جعلی سپلائی کر دی گئی تھی جو اس موذی جرثومے کا کچھ نہ بگاڑ پائی۔ تم جاننا چاہتے تھے نا کہ میں ایسی کیوں ہوں؟ آج جب میری جگہ تم ان والدین کو اس بات پر راضی کرو گے نا کہ ان کے بچے کو سکون آور انجیکشن لگا دیا جائے جس سے وہ ہفتہ دس دن کی جگہ چند گھنٹوں میں ہی اس مشکل سے چھٹکارا پا لے تو شاید تم بھی جان جاؤ گے! میں جانتی ہوں کہ وہ تم سے بحث کریں گے۔ تمہیں قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنا سب کچھ بیچ باچ کر اس بچے کو بچانے کے لئے دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لئے تیار ہیں مگر تم جانتے ہی ہوگے کہ اب اس بچے کا واحد علاج اس کی موت ہے۔ سو وہ جتنی جلدی آجائے اتنا اس بچے کے حق میں بہتر ہے۔  اگر وہ تم سے پوچھیں کہ تم اس بچے کو کیسے قتل کرنے والے  ہو تو انہیں تسلی دے دینا کہ تم محض ایک سکون آور انجیکشن لگاؤ گے اور باقی کام اس کا جسم اب خود کرلے گا۔ قوت مدافعت کے حساب سے چونکہ یہ ابھی کم عمر ہی ہے تو اندازا تین سے چار گھنٹے کے بعد یا تو اس کا دل بند ہوجائے گا یا پھٹ جائے گا اور اس کے بعد اس کی اذیت ختم ہوجائے گی۔ میری دعا ہے کہ دل پھٹنے کی نوبت نہ آئے! اور ہاں! دعا سے یاد آیا کہ وہ تمہیں معجزات کے ہونے کا یقین دلائیں گی۔ کہیں گی کہ تم اس بچے کو ایسے ہی چھوڑ دو اور خدا اسے ٹھیک کردے گا تو انہیں بتا دینا کہ میں نے کہا تھا کہ معجزہ اگر ہونا ہی ہوتا تو میرے بیٹے کی مرتبہ ہی ہوچکا ہوتا۔ وہ معصوم بھی ریبیز میں ہی ایک جعلی ویکسین کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ریبیز کے کیس میں معجزے نہیں ہوتے۔ یا تو ویکسین ہوتی ہے یا پھر ایک اذیت ناک موت! مجھے افسوس ہے کہ انہیں بھی ویکسین نہیں مل پائی! یہ کہہ کر انہوں نے اپنا بیگ اٹھایا اور اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میں ہکا بکا ان کی شکل دیکھ رہا تھا۔ الفاظ کہیں بہت دور رہ گئے تھے۔میں بس بے بسی سے انہیں کمرے کے دروازے کی طرف جاتا ہو دیکھ رہا تھا۔  وہ دروازے کی طرف جاتے جاتے رکیں اور پلٹ کر ایک بار پھر گویا ہوئیں، ہاں میں ملحد ہوں۔ زندیق ہوں۔ مگر کبھی میں بھی باقاعدہ مسلمان تھی۔ نمازیں پڑھتی تھی۔ روزے رکھتی تھی۔ دعائیں مانگتی تھی۔ اب کچھ بھی نہیں کرتی۔ اب تو بس اس کے وجود کی منکر ہوں۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں اب بھی یہ امید رکھتی ہوں کہ وہ ہے! اور اپنے وجود کے اس انکار پر چراغ پا ہے! سو میں اپنے الحاد پر ڈٹی ہوئی ہوں۔ اس امید پر کہ ایک دن وہ اپنے غصے میں ہی سہی اور مجھے سزا دینے کے لئے ہی سہی میرے سامنے آئے گا اور اس دن میں اس سے پوچھ سکوں گی کہ میرا کیا قصور تھا؟ اس کمرے کے باہر موجود ماں کا کیا قصور ہے؟ آج سے پہلے اس ہی طر ح آنے والی، گڑگڑانے والی ماؤں اور بیویوں اور بیٹیوں اور بہنوں کا کیا قصور تھا؟ وہ معجزات جن کا ہم بچپن سے ذکر سنتے آئے تھے وہ ریبیز میں کیوں نہیں ہوتے؟ کہتے کہتے شدت جذبات سے ان کی آواز بھرا چکی تھی۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی پشت سےاپنی آنکھوں کو بیدردی سے پونچھا اور دوبارہ جانے لگیں مگر میں نے انہیں آواز دے کر روک لیا۔ میں نے پوچھا مگر آپ اس وقت مجھے اس آزمائش میں چھوڑ کر جا کہاں رہی ہیں؟ انہوں  نے آنسوؤں کے بیچ ایک سفاک مسکراہٹ میری سمت اچھالی اور بولیں، میرے حلقہ احباب کی چند خواتین نے حکومت کی کتا مار مہم کے خلاف ایک مظاہرہ رکھا ہے جس میں مجھے تقریر کرنی ہے۔ تفصیلات کے لئے وقت نہیں ہے میں پھر کبھی سمجھا دوں گی۔ اگر یہ کتا مار مہم نہ رکی تو بڑا نقصان ہوجائے گا۔ ان کتوں کا رہنا بہت ضروری ہے۔ جب تک  اس ملک میں کسی بڑے آدمی کے بیٹے کو کتا نہیں کاٹ لیتا،  جعلی ویکسین ایسے ہی بچوں کو کھاتی رہیں گی! چلتی ہوں۔ خدا حافظ!

بلاگ فالوورز

آمدورفت