پیر، 16 جنوری، 2017

گدھ - 2

ٹیلیویژن کی آواز بند تھی مگر دکھائے جانے والے مناظر نے کمرے ایک عجیب سی نحوست پھیلا دی تھی۔ میں نے کان لگا کر سنا تو کمرے میں عجیب سی آوازیں سرسرا رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا سینکڑوں گدھ مسلسل چلانے کے بعد  اب دم لینے کے لئے ہانپ رہے ہوں ۔ میں نے غور کیا تو ان گِدھوں کی آواز کے اندر خود میری آواز بھی شامل تھی۔ توجہ بٹانے (یا شاید اس احساس سے جان چھڑانے) کے لئے میں نے ہمت جمع کر کے ایک بار پھر ٹیلیویژن کی جانب دیکھا تو مجھے لگا  کہ وہ لڑکی ٹیلیویژن سے باہر نکل آئے گی۔میں نے گھبرا کر ٹیلیویژن بند کیا اور ریموٹ کھینچ کر ٹیلیویژن پر ہی  مارتے ہوئے گھر سے باہر نکل آیا۔ مجھے تازہ ہوا کی ضرورت تھی۔
یہ قصہ آج سے چار ماہ پہلے شروع  ہوا تھا۔مگر ان چار ماہ سے قبل بھی وہ  وہ ایک عام سی لڑکی تھی۔ عام سی لڑکیوں ہی کی طرح خوبصورت۔ عام سی لڑکیوں ہی کی طرح نازک اور عام سی لڑکیوں ہی کی طرح پر عزم۔ اسے دنیا کو بدلنے کا شوق تھا۔ اور بولنے کا بھی۔ مگر بولنے کا شوق کسے نہیں ہوتا؟ سو اپنے بولنے کے شوق کو دنیا بدلنے کے شوق کے لئے استعمال کرنے کے لئے اس نے صحافی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ کالج کے بعد یونیورسٹی میں اس نے میڈیا سائنسز کا مضمون اپنے لئے چنا تھا اور چار سال کی ریاضت کے بعد صحافت کی ڈگری ہاتھ میں لئے مختلف میڈیا ہائوسز کے دروازے کھٹکھٹا رہی تھی۔  عجیب و غریب  سوالات سے بھرپور انٹریوز اور اس سے کہیں زیادہ عجیب تر نظروں سے گھبرا کر وہ ایک سے دوسری  جگہ بھاگتی پھری مگر کہیں کوئی ٹھکانہ نہ مل سکا کہ جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھ کر دنیا پر توجہ دے سکتی۔ شاید وہ صحافت کو مکمل طور پر خیر باد ہی کہہ دیتی مگر پھر سوشل میڈیا پر ملنے والا ایک دوست کام آگیا جس نے اسے اپنے اخبار میں جگہ دے دی۔ شروع میں سب کچھ اچھا چلتا رہا مگر ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد اسے پتہ چلا کہ نوآمیز لڑکیوں کو  بہت سے اداروں کی طرح یہاں بھی  تنخواہ لینے کے لئے بہت کچھ دینا پڑتا ہے۔  وہ کسی بھی رقم کے لئے سمجھوتا یا قربانی دینے کے لئے تیار نہیں تھی سو یہ نوکری بھی چھوڑ آئی۔
نوکری چھوڑنے کے بعد کچھ دن تو اس نے حواس بحال کرنے میں لگائے اور پھر اس کے بعد خاموشی سے ایک چھوٹے سے اسکول میں نوکری کر لی۔  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس جیسی باقی تمام کہانیوں کی طرح یہ کہانی بھی یہیں  ختم ہوجاتی مگر جیسا میں نےعرض کیا یہ عام سی لڑکی تھی اور عام سی لڑکی اتنے آرام سے ہار نہیں مانتی سو اس نے بھی ہار ماننے کے بجائے اپنی کہانی لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور غلط محاورات سے بھرپور اس نے اپنی کہانی سب سے پہلے مجھے ہی بھجوائی تھی۔ کہانی میں بہت سی اغلاط تھیں مگر برسوں کے تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا تھا کہ وہ تحریر جھوٹی نہیں تھی۔ مگر اس ہی تجربے کی بنیاد پر میں جانتا تھا کہ اس کہانی کو چھاپنے کے نتیجے  میں ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا جس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آنے تھے اور وہ نام اتنے بڑے تھے کہ ان کے بوجھ تلے میرے کیریر نے دفن ہوجانا تھا۔ ہاں ٹھیک ہے خود مجھ سے بھی جوانی میں لغزشیں ہوئی تھیں مگر انسان خطا ہی کا تو پتلا ہے۔ مگر خدا تو مخلوق کے عیوب سے پردہ پردوشی کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ لڑکی ہمارے گندے پوتڑے بیچ چوراہے پر دھونا چاہتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ  اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو آج نہیں تو کل میرا اپنا بھی نام سامنے آجائے گا لہٰذا میں نے اس معاملے کو یہیں دبانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ تحریر کسی اور جریدے کے ہاتھ چڑھے اور وہاں کوئی احمق ایڈیٹر موجود ہو اور اس کہانی کو چھاپ بیٹھے۔  میں نے اس لڑکی کو لکھ بھیجا کہ میں ذاتی حیثیت میں اس لڑکی کے ساتھ کھڑا ہوں اور اگر چند ثبوت بہم ہوجائیں تو اس کی کہانی چھاپنے کو تیار بھی ہوں۔  میری اس ای میل کے بعد دوسری جانب سے خاموشی ہوگئی اور میں نے بھی سکون کا سانس لے لیا کہ معاملہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔مگر اس معاملے میں یہ پہلی یا آخری بار نہیں تھا  کہ میں صورتحال کو سمجھ نہیں پایا تھا۔
قریب دو ہفتے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر میرے ای میل ان باکس میں موجود تھی۔ اب کی بار مختلف پیغامات کی تصاویر کے ساتھ! جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک مشہور جریدے کا مدیر کس طرح اس سے بلاضرورت بے تکلف ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک اور گفتگو میں ایک مشہور صحافی اسے یقین دلا رہے تھے کہ اگر وہ ان کا ساتھ دے تو  وہ اس کے کیریر میں اس کا کس حد تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ دس پندرہ مختلف تصاویر میں چار پانچ مشہور پیٹی بھائیوں کی رسوائی کا مکمل سامان موجود تھا۔میں نے حواس قابو میں رکھتے ہوئے اسے جواب لکھ بھیجا کہ یہ ثبوت بہت ٹھوس ہیں اور اب ان درندوں کو دنیا کے سامنے رسوا کرنے کا وقت آگیا ہے مگر اس واقعے کو مکمل کرنے کے لئے اسے چند ساتھی لڑکیوں کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ اگر محض ایک لڑکی الزام لگائے تو دنیا اسے ذاتی دشمنی کا شاخسانہ سمجھ کر اہمیت نہیں دے گی جبکہ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں مجرم اپنے انجام کو پہنچیں۔ اس ہی دن شام کو اس کا جواب آگیا کہ وہ میری بہت مشکور ہے اور یہ حوصلہ افزائی اس کے لئے بہت معنی رکھتی ہے نیز وہ کوشش کرے گی کہ اپنی کسی دفتری ساتھی کو بھی اس معاملے پر بولنے اور گواہی دینے پر راضی کرلے۔
میں جانتا تھا کہ دنیا اس کی جتنی احمق نہیں ہے اور اسے کوئی ملنے والا نہیں ہے لہٰذا اس کی ای میل کو نظرانداز کرکے دوبارہ اپنی زندگی میں مشغول ہوگیا۔ اس بار البتہ میں نے ان تمام احباب کو اس کے مضمون کے نمونے اور حاصل شدہ ثبوت بھجوا دیئے تھے کہ سند رہے اور کل کو جب مجھے ضرورت پڑے تو کام آئے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ایک بار پھر غلط ثابت ہوا  تھا اور میری ای میل کے دو ماہ بعد ہی سہی مگر وہ اپنی ایک کولیگ کو بولنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ خیر میں بھی کسی وجہ سے اس مسند پر تھا کہ جس پر میں تھا سو میں نے بھی اسے یقین دلا دیا کہ میں بہت جلد یہ مضمون چھاپ دوں گا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے جواب میں ایک قصیدہ لکھ بھیجا کہ میں کس طرح اس مشکل دور میں بھی مظلومین کے لئے روشنی کا ایک منارہ وغیرہ تھا۔ اس بار میں نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔
اس کا مضمون ملے مجھے چار ماہ ہونے کو آرہے تھے اور اب مجھے پھر یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں معاملے کو دبانے میں کامیاب ہوچکا ہوں مگر پچھلے ہفتے نجانے کہاں سے اس نے میرا نمبر نکلوا لیا اور ڈائریکٹ مجھے کال کر لی۔ میرے لئے نمبر نا آشنا تھا سو میں نے فون اٹھا لیا۔ فون اٹھاتے ہی وہ  گویا پھٹ پڑی کہ اتنی مدت ہونے کے باوجود اب تک اس کی آواز کس لئے دبائی گئی ہے؟ اور اگر میں یہ مضمون چھاپ نہیں سکتا تو اسے صاف منع کیوں نہیں کر دیتا؟ اس بیچاری کو معلوم نہیں تھا کہ میں جانتا تھا کہ مجھے یہ تحریر بھیجنے کے کچھ عرصے بعد ہی اس نے وہ تحریر ایک اور جریدے کو بھی ارسال کی تھی اور انہوں نے تو میری طرح تکلف تک نہیں برتا تھا اور صاف منع کردیا تھا کہ وہ یہ مضمون نہیں چھاپ سکتے۔ میں جانتا تھا کہ میں اس لڑکی کی آخری امید تھا سو میں نے رسان سے کہہ دیا کہ وہ جہاں جی چاہے جا کر یہ مضمون چھپوا سکتی ہے۔ ویسے بھی خدا بہتر انصاف کرنے والا ہے سو اسے معاملہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے ۔ ویسے بھی اس کے مجرمین  اپنے اپنے گھروں میں مائیں بہنیں اور بیٹیاں رکھتے ہیں سو آج نہیں تو کل ان کا کیا ان کے آگے بھی آئے گا۔ میر ی بات سن کر وہ بھڑک اٹھی کہ ہر مرتبہ عورت کے ساتھ مرد کے کئے کی سزا بھگتنے  کے لئے عورت ہی کیوں ہوتی ہے؟ ان مردوں کے آگے آنے کے لئے بھی عورت مشق ستم کیوں بنتی ہے؟ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوئی  اور جب کچھ دیر بعد وہ بولی تو ایک تھکی ہوئی آواز ابھری،خیر،  اب جب میں نے آپ کی تمام مطلوبہ شرائط پوری کر دی ہیں تو پھر اب یہ مضمون کیوں نہیں چھپ سکتا؟ میں جانتا تھا کہ اب لگی لپٹی رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں سو میں نے اسے سمجھا دیا کہ ہمارا مذہب بھی عورت کو گھر میں رہنے کا حکم دیتا ہے اور اسے گھریلو ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہوئے اول تو نوکری کرنی ہی نہیں چاہئے تھی اور دوسرا یہ کہ اگر نوکری کر ہی لی تھی تو یہ سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے تھی کہ یہ سب نوکری کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ ہکابکا میری تقریر سنتی رہی اور اس کے بعد پھٹ بہی کہ گھر پر بیٹھوں؟ تاکہ سن سکوں کہ دن بھر گھر پر بیٹھی کرتی ہی کیا ہو؟ محنت تو مرد کرتے ہیں؟ اور میری ذات کی حد تک ہوتا تو ٹھیک تھا مگر ان سب لڑکیوں کا کیا جو اپنا گھر چلانے کے لئے نوکری کرتی ہیں؟ ان کے لئے یہ نوکری ہی گھر کا کام ہے کہ کچن میں کام کرنے کے لئے گھر میں کھانے کو کچھ ہونا بھی چاہئے اور اگر وہ بھی نوکری نہ کریں تو گھر میں کھانے کے واندے ہوجائیں؟ آپ کو لگتا ہے یہ صرف میری جنگ ہے؟ یہ ان سب عورتوں کی جنگ ہے جو اپنے گھریلو بار کو اٹھانے میں حصہ دار بننا چاہتی ہیں۔وہ تو شاید ساری شام بولتی رہتی مگر میں نے اس کی بات کاٹ کر اسے یاد دلایا کہ میرے پاس زندگی میں اور بھی مسائل موجود ہیں۔ یہ ایک لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والی چیز  اتنی بڑی نہیں کہ میں اس کے لئے اپنے باقی کے سب کام چھوڑ کر اس پر خبریں اور تجزیے چھاپوں۔ میری بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر کچھ سوچ کر بولی کہ اچھا اگر یہ خبر اتنی بڑی ہوگئی تو کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے بارے میں لکھیں گے؟ اس پر تجزیے چھاپیں گے؟ میں پٌہلے ہی اس گفتگو سے بیزار ہوچلا تھا سو میں نے حامی بھر کر فون کاٹ دیا۔
آج شام پھر اس کے نمبر سے میرے پاس کال آ رہی تھیں مگر آج مجھے اپنی بیٹی کو لے کر ایک فلم دیکھنے جانا تھا   اور میں اپنی شام مکدر نہیں کرنا چاہتا تھا سو میں نے اس کی کال کاٹ دی اور دفتر سے اٹھ آیا۔ فلم دیکھ کر جب میں گھر پہنچا تو رات ڈھل رہی تھی۔گھر پہنچ کر میں نے اپنا موبائل نکالا تو یاد آیا میں اسے سائلنٹ سے ہٹانا بھول چکا تھا۔ فون پر کوئی سترہ مسڈ کالز اور تین میسجز موجودتھے۔  میں نے کالز کو نظرانداز کرکے میسجز کھولے تو سب سے اوپر پانچ میں سے ایک کا پیغام موجود تھا کہ ٹیلیویژن دیکھا؟  میں نے نہیں کا جواب بھیج کر ٹیلیویژن کھولا تو سامنے مشہور  نیوز چینل پر پانچ میں سے ایک اور موجود تھا اور اسکرین  کے دوسری طرف وہ لڑکی موجود تھی۔زندہ۔ جلتی ہوئی! اس پاگل نے خود کو آگ لگا لی تھی۔ آج بالآخر اس کی خبر اتنی بڑی ہوگئی تھی کہ قومی میڈیا پر چلائی جا سکے!پس منظر میں وہ دھڑادھڑ جل رہی تھی اور تکلیف کی شدت سے چیخ رہی تھی مگر جاتے جاتے بھی اس کی آواز اتنی بلند نہیں ہوپائی تھی کہ میرے دوست اینکر کی آواز کو دباسکے جو پھیپھڑوں کے  پورے زور سے چلا کر یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح اس ملک میں خواتین کو گھریلو حالات اور محبت کے نام پر دھوکے کے ذریعے خودسوزی پر مجبور کردیا جاتا ہے جبکہ حکمرانوں کی بیٹیاں لندن اور دبئی میں عیش کرتی ہیں۔ میں نے گھبرا کر ٹیلیویژن کی آواز بند کردی۔ مگر اب صورتحال یہ تھی کہ ٹیلیویژن کی آواز بند تھی مگر دکھائے جانے والے مناظر نے کمرے ایک عجیب سی نحوست پھیلا دی تھی۔ میں نے کان لگا کر سنا تو کمرے میں عجیب سی آوازیں سرسرا رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا سینکڑوں گدھ مسلسل چلانے کے بعد  اب دم لینے کے لئے ہانپ رہے ہوں ۔ میں نے غور کیا تو ان گِدھوں کی آواز کے اندر خود میری آواز بھی شامل تھی۔ توجہ بٹانے (یا شاید اس احساس سے جان چھڑانے) کے لئے میں نے ہمت جمع کر کے ایک بار پھر ٹیلیویژن کی جانب دیکھا تو مجھے لگا  کہ وہ لڑکی ٹیلیویژن سے باہر نکل آئے گی۔میں نے گھبرا کر ٹیلیویژن بند کیا اور ریموٹ کھینچ کر ٹیلیویژن پر ہی  مارتے ہوئے گھر سے باہر نکل آیا۔ مجھے تازہ ہوا کی ضرورت تھی۔


5 تبصرے :

  1. ........................................................................................................😷

    جواب دیںحذف کریں
  2. ........................................................................................................😷

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت اچھی تحریر ہے اور معاشرے کی بے حسی کی صحیح عکاسی کی گئ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. انداز تحریر عمدہ ھے۔ کسی زمانے میں اخبار میں "گریبان"کے نام سے کالم چھپتے تھے۔ انکی یاد آ گئ۔ اللہ ھمارے معاشرے کو سچ اور صرف سچ بولنے کا حوصلہ اور برداشت دے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. انداز تحریر عمدہ ھے۔ کسی زمانے میں اخبار میں "گریبان"کے نام سے کالم چھپتے تھے۔ انکی یاد آ گئ۔ اللہ ھمارے معاشرے کو سچ اور صرف سچ بولنے کا حوصلہ اور برداشت دے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت