بدھ، 9 مئی، 2018

قائد

بہت پیارا بچہ ہے صاحب! ڈرائیور کے انٹرویو کے لئے آئے ہوئے اس مفلوک الحال شخص نے میرے بیٹے کی تعریف کی تو خود بخود میری گرفت گود میں موجود اپنے بیٹے   پر مضبوط ہوگئی۔ کیا کریں؟ زمانہ  ہی ایسا ہے کہ اپنے بچوں کی خود حفاظت کرنی پڑتی ہے ورنہ یہ بھوکا معاشرہ انہیں مردوں سے بدتر حال میں پہنچا دے۔ خیر صرف تعریف کرنے پر میں اس کو کچھ نہیں کہہ  سکتا تھا مگردماغ میں آنے والے وسوسوں کی وجہ سے میں نے اس کو  غیرت دلانے کا فیصلہ کر لیا۔ "گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا"  والا روایتی جملہ یہاں کسی طرح منطبق نہیں ہو رہا تھا   مگر میں چاہتا تھا کہ میں اس  سے پوچھوں کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس کی قیمت چکانے کے لئے گھر میں مال موجود ہے  بھی یا نہیں ؟ سو میں نے بیٹے کی مناسبت سے اس سے پوچھ لیا کہ تمہارا کوئی  بچہ نہیں ہے؟    میرے سوال پر اس کی آنکھوں میں ایک چمک آکر گزر گئی۔ جب وہ  بولا تو مجھے احساس ہو اکہ اس ایک جملے کو کہنے میں وہ کس کرب سے گزرا ہوگا۔ اس نے کہا، ہے نہیں صاحب، تھا! آپ کے بیٹے سے تھوڑا ہی بڑا تھا ۔
میرا دل کیا کہ زمین پھٹ جائے اور میں سالم اس میں دفن ہو جاؤں۔ میں نے جو رائے اس شخص کے بارے میں بنالی تھی وہ اس وقت طمانچے کی صورت مجھ پر برس گئی تھی۔ لوگوں کے بارے میں رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں ہوتی مگر اس رائے کو  اگلے کے موقف کو سنے بغیر حتی الیقین پر پہنچا دیناحرام    ہونا چاہئے۔ مجھ سے یہ حرام فعل سرزد ہوچکا تھا۔ شرمندگی  کو کم کرنے کے لئے میں نے اسے ہمدردی دینی چاہی اور پوچھ بیٹھاکہ، کیا مطلب تھا؟ کیا ہوا اس کو؟  اس نے میری طرف دیکھا گویا یہ جانچنے کی کوشش کر رہا ہو کہ آیا میں یہ بات برائے بات کر رہا ہوں یا واقعی سنجیدگی سے جاننا چاہتا ہوں۔ میرے چہرے پر شرمندگی نما ہمدردی دیکھ کر وہ بولا، بس صاحب! اللہ کی دی ہوئی چیز تھی۔ اللہ نے لے لی! مالک کے کاموں میں کس کا دخل؟ لوگ جیتے جی دوسرے کے لئے مر جاتے  ہیں اور پہلا ساری عمر اس کا روگ پالتا رہتا ہے ،یہاں اطمینان تو ہے کہ جب وہ مرا تو میری ہی گود میں تھا۔ گفتگو میرے لئے تکلیف دہ ہوتی جارہی تھی مگر میں موضوع یہاں پر پہنچ کر تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔  میں نے پوچھا، مگر اسے ہوا کیا تھا؟ اب کی بار جب وہ بولا تو بولتا ہی چلا گیا۔ صاحب! ہونا کیا تھا؟ امیر آدمی تو کینسر سے بھی بچ جاتا ہے جبکہ غریب کے بچے کو بخار ہی بہت ہے۔ میرے بیٹے کو بخار ہوگیا تھا۔ شروع میں تو میں سرکاری ڈسپنسری سے دوائی لا کر دیتا رہا مگر بخار جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ پھر محلے کے ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے ملیریا بتایا۔ دوائی مہنگی تھی مگر بیٹے سے بڑھ کر تو نہیں تھی نا صاحب؟ ویسے بھی میرا بیٹا تو قائد تھا۔ قائد اعظم کو گئے ہوئے پینسٹھ سال ہوگئے تھے صاحب جب یہ پیدا ہوا۔ جیسے انہوں نے مسلمانوں کی تقدیر بدلی ویسے مجھے لگتا تھا یہ بڑا ہوکر میری تقدیر بدلے گا۔ اس ملک کی تقدیر بدلے گا۔ یہاں پہنچ کر اس کی آواز بھرا چکی تھی۔ اس نے آنسووں کا گھونٹ بھرا اور بولا، صاحب! برا مت ماننا مگر انسان خالی پیٹ میں فلسفی ہوجاتا ہے۔ تو بس ملیریا کا علاج چل رہا تھا اس کا کہ اچانک ایک دن طبیعت خراب ہوگئی۔ گھر پر بیوی اکیلی تھی۔ میں ڈیوٹی پر تھا۔ ان دنوں راج مستری کا کام کرتا تھا میں صاحب۔ موبائل فون تھا نہیں میرے پاس۔ بیوی میری گاؤں کی ہے ۔ یہاں کی زبان بھی نہیں جانتی تھی کہ کسی سے مدد مانگتی۔ بیچاری گھر پر پٹیاں رکھتی رہی ۔ جب میں گھر پہنچا تو میرے بچے کا حال بخار سے خراب تھا۔ پٹیوں کے باوجود بخار نیچے نہیں آرہا تھا۔ میں نے پڑوسی سے فون لے کر ایمبولینس منگوائی کہ سرکاری ہسپتال لے کر دوڑوں۔ ایمبولینس بھی وقت پر پہنچ گئی۔ میں بچے کو گود میں لے کر اس میں بیٹھ گیا۔ راستے میں بچے کا سانس اکھڑنے لگا۔ وہ پورا زور لگا کر سانس اندر کھینچنے کی کوشش کرتا تھا تو صاحب میں اس کے ننھے سے جسم کو دیکھتا تھا کہ کیسے اس کا سینہ پورا اندر ہوجاتا تھا۔ پھر وہ اس سانس کو باہر نکالنے لگتا تو شاید سانس کی ضرورت پھر پڑ جاتی اور وہ پھر دوبارہ اسے کھینچنے میں لگ جاتا۔ صاحب! دیکھتے ہی دیکھتے وہ بچہ میری گود میں نیلا پڑ چکا تھا۔ مگر کیا کرتے؟ ہمارے شہر میں جو ایمبولینس ہوتی ہے اس میں آکسیجن ماسک نہیں ہوتا صاحب۔ ڈرائیور مجھے تسلی دے رہا تھا کہ ہم جلدی پہنچ جائیں گے مگر صاحب یہ جو معصوم آپ کی گود میں ہے اگر یہ خدانخواستہ  سانس نہ لے پا رہا ہو اور نیلا پڑ چکا ہو تو کیا آپ تسلی رکھ سکتے ہو؟ نہیں نا؟  مگر خدا کا شکر ہے کہ تکلیف کی وہ گھڑی زیادہ دیر نہیں رہی۔ قائد نے میری گود میں پیر پٹخے اور پھر ایک بار اس کا جسم اکڑا اور پھر ڈھیلا پڑ گیا۔ خدا کو اس پر رحم آگیا تھا صاحب!
میں بھول چکا تھا کہ ہماری گفتگو کہاں سے شروع ہوئی تھی۔ میں بھول چکا تھا کہ میں کس سلسلے میں اس سے بات کرنے کھڑا ہوا تھا۔ میری نظر تو بس اپنے اس معصوم پر تھی جو اس وقت میری گود میں موجود تھا۔ کہیں نہ کہیں میں یہ بات جانتا تھا کہ امیری غریبی سے ماورا اگر کبھی خدانخواستہ مجھے ایمبولینس کی ضرورت پڑی تو میرے ساتھ بھی یہی ہوسکتا تھا۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں جان بچانے کی صلاحیت سے لیس اگر محض ساٹھ ایمبولینسز ہوں تو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ محض ساٹھ لوگ خوش قسمت ہوسکتے ہیں۔ اگر اس وقت قسمت میرے ساتھ نہ ہوئی تو؟ میری سوچ کا سلسلہ شاید یونہی جاری رہتا مگر اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ اپنے آنسو پونچھ کر وہ ایک بار پھر  بول رہا تھا۔ صاحب! اس دن میں نے معلوم کیا تھوڑی ہی سہی مگر اس شہر میں جان بچانے والی ایمبولینسز موجود ہیں۔ میں نے اس دن طے کر لیا کہ کوئی اور قائد اب ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مرے گا۔ میں نے ایمبولینس چلانے کے لئے ڈرائیونگ سیکھنے کا فیصلہ کرلیا اور ڈرائیونگ   سیکھ کر امن فاؤنڈیشن کےدفتر پہنچ گیا جو یہ جان بچانے والی ایمبولینسز چلاتے ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ میرا جذبہ دیکھتے ہوئے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا مگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ پہلے ہی ڈرائیور زیادہ ہیں اور ایمبولینسز کم۔ اگر ایمبولینسز کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ہم آپ کو بلا لیں گے۔ تب تک کے لئے صاحب کام مل جائے گا؟

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت