ماضی اپنے وقت
میں جیسا بھی رہا ہومگر ماضی بن جانے کے بعد خوشگوار ہو ہی جاتا ہے۔ البتہ کچھ
یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم چاہ کر بھی یاد داشت سے کھرچ نہیں پاتےاور وقت کی
شیرینی بھی ان کی تلخیوں کو کم نہیں کرپاتی۔ انسان شاید ایسی ہی یادداشتوں کی بائے
پروڈکٹ ہے۔
اچھے وقتوں کی
بات ہے جب میں ابا کے میڈیکل سٹور پر دوپہریں کالی کیا کرتا تھا۔ یہ دکان کراچی کے
ایک صنعتی علاقے سے ملحقہ آبادی میں واقع تھی سو گاہکوں کی اکثریت انہیں کارخانوں
میں کام کرنے والے مزدور خاندانوں کی ہوا کرتی تھی۔کراچی کے اردو بولنے والوں کا خبطِ عظمت اس وقت تک قائم
تھا سو ان کارخانوں میں کام کرنے والے یہ مزدور عام طور پر سرحدی علاقوں سے آنے
والے محنت کش ہوا کرتے تھے جو یہ بات جان
چکے تھے کہ انا سے پیٹ نہیں بھرا جا سکتا۔
گو اتنے عرصے
سے بازار میں بیٹھ کر ابا اب اہلِ زبان کی طرح پشتو اور دیگر علاقائی زبانیں بول
لیا کرتے تھے مگر پھر بھی بازار میں ہماری دکان کی پہچان مہاجروں کا میڈیکل سٹور
کے نام سے ہی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ بازار میں یہ واحد دکان تھی
جسے کوئی ہندوستانی مہاجر چلا رہا تھا۔ ہماری دکان کے اطراف میں واقع ویلڈنگ والا،
روئی والا، کریانہ والا اور موچی سب سرحدی علاقے سے تعلق رکھتے اور پشتو بولتے
تھے۔ ولی ولی کو پہچانتا ہے سو ان دکانوں پر کام کرنے والے تمام لڑکے میری خباثت
کے معترف اور باقاعدہ مرید تھے۔ اس سے پہلے کہ آپ میری خباثتوں کے بارے میں غلط
اندازے لگائیں، یہ کہانی اچھے دور کی ہے کہ جب ہماری حرکتوں سے ہڈیاں تو کئی ٹوٹی
ہوں گی مگر کوئی دل کبھی نہیں ٹوٹا تھا۔ ہاں ہماری کسی حرکت سے معتوب ہو کر کوئی
غریب انسانیت پر بھروسہ چھوڑ بیٹھے تو اور بات ہے۔ تو فارغ وقت میں میری دکان پر یہ بیٹھک جمتی جہاں وہ مجھ سے خباثت سیکھتے اور بدلے میں میں ان سے
پشتو زبان کی مکروہ ترین گالیاں اور گنتی سیکھا کرتا تھا۔
تو ایسی ہی
ایک بیٹھک کا ذکر ہے کہ کڑی دوپہر میں عبدالصمد نمودار ہوگیا۔ عبدالصمد اپنی ذات
کا ایک منفرد کردار تھا۔ اس کی عمر کوئی سولہ سترہ برس رہی ہوگی مگر ابھی تک اس کی
مسیں بھی نہیں پھوٹی تھیں۔ نہایت معصوم چہرہ
اور بہت ہی نازک نقوش۔ مگر کہتے
ہیں نا کہ قدرت کسی کو بھی سب کچھ نہیں دیتی۔
والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے ہونے والے پولیو کے نتیجے میں عبدالصمد کی
دونوں ٹانگیں بیکار ہوچکی تھیں۔ شاید کلاس
میں بچوں کی تضحیک رہی تھی یا پھر کوئی اور وجہ مگر پانچویں کے بعد وہ کبھی اسکول
نہیں گیا تھا۔ پڑھنے لکھنے سے زیادہ سیکھنے کا شوق رہا تھا لہٰذا گھر بیٹھ کر بھی
وہ کوشش کرتا تھا کہ کتاب سے رشتہ نہ ٹوٹے۔ گھر سے باہر نکلنے کا یا تو شوق نہیں
تھا یا پھر ٹانگوں کی مجبوری رہی تھی کہ وہ کتب خریدنے بازار نہیں جا سکتا تھا سو
ابا جو کتابیں مہینے میں ایک بار پرانی کتب فروش سے لا دیتے یہ انہیں ہی چاٹ جاتا
تھا۔ میں اس کے بارے میں اتنا سب کچھ اس لئے جانتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ ایسے وقتوں
میں دکان پر آتا تھا کہ جب گاہکوں کا رش نہ ہو، اور ایسے اوقات میں بالعموم ابا
مجھے دکان پر بٹھا کر خود گھر پر کمر سیدھی کرنے چلے جاتے تھے۔ پچھلے پانچ سال
سے وہ اپنی بیساکھی گھسیٹتا ہوا میری دکان
پر آرہا تھا اور اب دکانداری کے علاوہ بھی
ہمارا ایک تعلق بن چکا تھا۔ میں اپنی پڑھی ہوئی اردو کتب اس کے لئے لے آیا کرتا
تھا اور اکثر ہم دکان پر کھڑے کھڑے پانچ دس منٹ کی گپ بھی لگا لیا کرتے تھے۔ اسے
میرا کپڑوں کا انتخاب اور بالوں کا انداز بہت پسند تھا اور وہ اکثر اپنی اس
پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا کرتا تھا۔
میں اسے اکثر اوڑھنے پہننے کے آداب بھی سکھا دیا کرتا تھا۔ ہم اکثر کتابوں
پر گفتگو بھی کر لیا کرتے تھے۔ میرا اس کا
تعلق ہمدردی کا نہیں بلکہ دوستی کا بن چکا تھا۔ میں ہمیشہ کے لئے اس کو اپنا چھوٹا
بھائی مان چکا تھا۔
تو اس دوپہر
جب عبدالصمد دکان پر آیا تو خلافِ معمول بہت دیر نہیں رکا۔ وہ بہت گھبرایا ہوا
معلوم ہورہا تھا۔ میں نے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا مگر میں نے محسوس کر لیا کہ اس کی بدحواسی کی وجہ دکان میں موجود میرے چیلے اور بالخصوص ڈھکن خان ہے۔ ڈھکن خان ویلڈنگ والے
کا بیٹا تھا جس کا اصل نام سرپوش خان ہوا کرتا تھا مگر ترجمہ کرکے میں نے اس کا
نام ڈھکن خان کردیا تھا اور اب پورا بازار اسے ڈھکن کے نام سے ہی پکارا کرتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈھکن خان نہایت تمسخرانہ و ہوسناک نظروں سے عبدالصمد کو دیکھ رہا تھا۔
عبدالصمد تو دوائیاں لے کر رخصت ہوگیا مگر میں نے ڈھکن کو اس ذلیل حرکت پر پکڑ
لیا۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ ہماری
خباثتوں میں اس وقت تک جنس کا گزر نہیں ہوا تھا اور یہ چیز میرے لئے ناقابلِ برداشت
تھی کہ میرے مقدس آستانے پر بیٹھ کر کوئی اس قسم کی ذلیل حرکات کرے۔ میرے استفسار
پر ڈھکن نہایت ڈھٹائی سے گویا ہوا کہ
استاد! تم اسے جانتے نہیں ہو! تم کو لگتا
اے ام اس کی لنگڑی ٹانگوں کا مذاق اڑا رہا تھا؟ یا تم کو لگتا ہے ہم بچہ باز ہے جو
اس کو ایسے دیکھ رہا تھا؟ ام تم کو بتا تا اے۔ یہ عبدالصمد اماری چاچی کا بھانجی
اے۔ خدا کا قسم یہ لڑکی اے! اسے بچپن میں پولیو ہو گیا تھا تو اسے کراچی جب لائے
تو لڑکا لوگ کا کپڑا پہناتا اے تاکہ نئے شہر میں کوئی اس کا کمزوری کا فائدہ اٹھا
کر عزت مزت پر ہاتھ نہ ڈالے۔ تم خود بتاؤ، پانچ سال سے تم اسے دیکھ رہا ہے۔ کبھی
داڑھی مونچھ تو چھوڑو، منہ پر رواں بھی دیکھا ہے اس کے؟اس کا بال مال اتنا شائن
کیسے مارتا ہے کبھی سوچا ہے؟امارے خاندان کا اے ام جانتا اے۔ چھوڑو استاد ام جاتا اے۔ یہ کہتے ہوئے
ڈھکن نے دکان سے باہر کی راہ لے لی اور ڈھکن خان اٹھا تو اس کے ساتھ پوری
پلٹن بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
ان لوگوں کو
رخصت کرنے کے بعد میں گزشتہ پانچ سال کے
واقعات کی فلم اپنے دماغ میں دوبارہ چلانے لگا اور عبدالصمد کا میرے بالوں کی
تعریف کرنا، میرے لباس کو سراہنا، اس کے نازک نقوش جو دراصل زنانہ نقوش تھے، اس کی
آواز کی نسوانیت وغیرہ سب میری نگاہوں کے سامنے گھوم گئے۔ حقیقت ہمیشہ سے میرے
سامنے موجود تھی مگر میں ہی احمق بن کر اس پر پردہ ڈالے بیٹھا رہا تھا۔ عبدالصمد
نہ صرف ایک لڑکی تھی بلکہ وہ مجھے پسند بھی کرتی تھی۔ میں نے اس دن سے ہی انتظار
کرنا شروع کردیا کہ کب وہ دوبارہ دکان پر آئے اور میں اسے اس طرح دیکھ سکوں جیسے
وہ دراصل تھی۔
میرا انتظار
زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا اور چار دن کے بعد ہی وہ ایک مرتبہ پھر دکان کے کاؤنٹر
پر موجود تھی۔ دوائیوں کا پرچہ مجھے تھماتے ہوئے میرے ہاتھ اس کے ہاتھ سے ٹکڑائے
اور پھر ایک عجیب شے ہوئی جو اس سے پہلے
کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے اکثر اوقات ہم سلام علیک کرتے ہوئے باقاعدہ مصافحہ
کیا کرتے تھے مگر آج جب میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوا تو میرے پورے جسم میں ایک
عجیب سی بجلی دوڑ گئی۔ شاید یہ بجلی کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ عبدالصمد نے بھی اس
کو محسوس کرلیا۔ اس کے چہرے کا رنگ بالکل فق ہوگیا۔ وہ جان گئی تھی کہ میں جان گیا
ہوں ۔اور اس معرفت کے نتیجے میں میرایہ نیا
رویہ اس کی ذات میں زلزلوں کا باعث بن گیا
تھا۔ ہماری نگاہیں ملیں تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں قوسِ خزح کے
رنگ دوڑ رہے تھے۔ درد کے رنگ، شکایت کے رنگ، ملامت کے رنگ۔ اس کی آنکھوں میں
احترام کے علاوہ تمام رنگ موجود تھے اور وہ آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ
میں کچھ بولتا، اس نے دوائی کا پرچہ میرے
ہاتھ سے چھینا اور بیساکھی گھسیٹتی ہوئی نکل گئی ۔ کبھی نہ واپس آنے کے لئے!
ماضی اپنے وقت
میں جیسا بھی رہا ہومگر ماضی بن جانے کے بعد خوشگوار ہو ہی جاتا ہے۔ البتہ کچھ
یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم چاہ کر بھی یاد داشت سے کھرچ نہیں پاتےاور وقت کی
شیرینی بھی ان کی تلخیوں کو کم نہیں کرپاتی۔ انسان شاید ایسی ہی یادداشتوں کی بائے
پروڈکٹ ہے۔