ہفتہ، 9 مارچ، 2019

پنڈولم

اب تم نیک بختوں کے لئے روز ایک نئی کہانی کہاں سے لاؤں؟
ہمیں نہیں پتہ دادی ماں! سنی ہوئی کہانی نہیں سننی۔ کہے دیتے ہیں!
کہانی تو سب پرانی ہی ہیں۔ سنی ہے یا ان سنی، ہمیں نہیں معلوم۔ ہمارے پاس تو یہی کہانی ہے۔ سننی ہے تو سنو ورنہ راستہ لو!
اچھا، اچھا! خفا نہ ہوں۔ کہانی سنائیں نا۔
تو سنو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جگہ ایک بڑا سا گھڑیال ہوا کرتا تھا۔
گھڑیال کیا ہوتا ہے؟
مگرمچھ کا بھائی؟
نہیں! مگرمچھ کے بھائی والا نہیں، گھڑی والا گھڑیال!
ارے وہ تو ہمارے گھر کے سٹور روم میں بھی پڑا ہے۔ لکڑی کی بڑی سی گھڑی جس کے نیچے پنڈولم لٹکتا ہے۔
وہ دم والی گھڑی؟
ہاہاہا ۔ہاں ہاں وہی دم والی گھڑی
تو اس دم والی گھڑی کا کیا؟
تو جو وہ دم والی گھڑی تھی نا ، اس کی دم مسلسل حرکت کرتی رہتی تھی۔  کبھی دائیں جاتی، کبھی بائیں۔ تمہارے جیسے دو بچے  تھے جو اسے دیکھ کر خوش ہوتے اور پنڈولم کے ساتھ ساتھ گردن گھما کر کبھی اسے دائیں جاتے دیکھتے اور کبھی بائیں۔ گھڑی چلتی رہی اور وقت گزرتا رہا۔ وقت کے ساتھ اب یہ دونوں جو تھوڑے بڑے ہوئے تو بیٹھ کر شرطیں  لگانے لگے کہ گھنٹے کے اختتام پر یہ پنڈولم جسے تم گھڑی کی دم کہتے ہو، دائیں طرف ہوگا یا بائیں طرف۔
تو جیتتا کون تھا؟
کبھی لڑکی جیتتی کبھی لڑکا۔
تو جیتنے والے کو کیا ملتا؟
ملنا کیا تھا؟ یہ خوشی ہی اصل جیت ہوتی تھی کہ گھنٹہ مکمل ہونے پر وقت اس کے ساتھ تھا۔
اچھا! پھر کیا ہوا؟ کہانی کیا تھی؟
کہانی کیا ہونی تھی۔ کہانی وہی ہے جو ازل سے ہے۔ لڑکی  اور لڑکے کی شادی ہوگئی۔
یہ کہانی لڑکی لڑکے کی ہے یا گھڑی کی دم کی؟
یہ کہانی کسی کی بھی نہیں ہے۔ یہ بس کہانی ہے۔  سنتے ہو تو سنو۔ نہیں سننی تو رات پہلے ہی بہت ہوچکی۔ کمبل منہ پر لو اور سو رہو۔
اچھا اچھا سوری! آپ سنائیں۔
تو بھئی لڑکا اور لڑکی خیر سے میاں بیوی بن گئے اور کچھ دنوں بعد خدا نے ان دونوں کو ایک پیارا سا بچہ بھی دے دیا۔   اب لڑکی جو تھی وہ بچے کی پیدائش کی وجہ سے ویسے ہی کمزور ہوگئی تھی۔ دوسرا  کیونکہ لڑکا بچے کی ذمہ داریوں میں بالکل ہاتھ نہیں بٹاتا تھا اور وہ بچے کو نظرانداز کر نہیں سکتی تھی، سو بچے کی ساری ذمہ داری بھی اس کے سر آرہی۔ بچے کی ذمہ داری اتنی تھکا دینے والی تھی کہ کسی اور چیز کے لئے  وقت ہی نہیں بچتا۔ خیر وقت گزرا اور بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو لڑکی دوبارہ گھڑیال کے پاس پہنچی۔
تو وہ گھڑیال اس وقت بھی چل رہا تھا؟ ہمارا گھڑیال تو بند پڑا ہے۔
بیٹی! یہ والا گھڑیال قیامت تک چلتا رہے گا۔
کیسے؟
بال کی کھال نہ اتارو! کہانی سنو! تو جانتی ہو جب وہ گھڑیال کے پاس پہنچی تو اس نے کیا دیکھا؟
کیا دیکھا؟
اتنے عرصے اس کے گھڑیال پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے لڑکے نے موقع دیکھ کر پینڈولم کو اپنے والے حصے میں رسی سے باندھ کر روک لیا تھا۔ اب وہ دائیں سے بائیں حرکت نہیں کرتا تھا۔ محض دائیں جانب رکا رہتا تھا۔
دادو! لڑکا تو میری طرح ذہین تھا۔
ہاں بیٹا! تم سارے لڑکے ایک جیسے ذہین ہوتے ہو۔
دادو! پھر اس لڑکی نے کیا کیا؟
میری بیٹی! اس نے رسی کو چھری سے کاٹ دیا۔
پھر وہ دوبارہ مرکز میں آکر رک گئی؟
نہیں میری جان! گھڑی کی دم کا یہی تو مسئلہ ہے۔ جب تم اسے کسی بھی ایک انتہا پر باندھ کر رکھو گے تو جب بھی بند کھلے گا وہ دم جانے انجانے میں دوسری انتہا کی جانب ہی جائے گی۔اب اگر تم چاہتے ہو کہ وہ مرکز میں آکر رک جائے تو اسے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جانے دو کیونکہ یہی فطرت کا قانون ہے۔ اس کے بغیر یہ دم کبھی مرکز میں آ کر نہیں رک سکتی۔
دادو! آپ پتہ نہیں کیسی عجیب باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یہ بتائیں کہ پھر اس لڑکے نے کیا کیا؟
لڑکے نے کیا کرنا تھا؟  اس نے گھڑی کی دم کی دوسری انتہا پر تصویریں کھینچیں اور اب دنیا بھر میں چلاتا پھر تا ہے کہ دیکھو لڑکی کتنی انتہا پسند ہے۔
کیا مطلب؟
مطلب وطلب کچھ نہیں۔ کمبل منہ پر ڈالو اور سو رہو۔ گھڑی کی دم کا کھیل ایک دن کا تھا۔ اب سب کے سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ سو جاؤ۔ شب بخیر!

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت