نوٹ: اس کہانی کے تمام نام، مقام اور کردار فرضی ہے۔ کسی
بھی اتفاقی مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔
اس مزار پر آتے ہوئے مجھے یہ تیسرا دن تھا۔ نجانے کیوں مجھے
یہاں آ کر بےحد سکون ملتا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں نہ لوگوں کی
کوئی بھیڑ ہوتی تھی اور نہ گدی نشینوں کے چونچلے۔
یہ مزار کالی مائی کے نام سے مشہور کسی طوائف کا تھا
جس کا اصل نام تو خدا جانے کیا تھا مگر
اپنی کالی کمائی کی وجہ سے وہ کالی مائی کہلاتی تھی۔ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر
کا رخ کرتا ہے اور طوائف کی موت آتی ہے تو وہ محبت کربیٹھتی ہے۔ کالی مائی کو بھی
ایک امیرزادے سے محبت ہوگئی مگر وہ محبوب زمانے کے ڈر سے اسے اپنا نہیں سکتا تھا۔ فراق
کے طویل ایام، محبوب کی بزدلی اور معاشرے کی سفاکی کے ہاتھوں کالی مائی نے گھٹ گھٹ
کر جوانی میں ہی اپنی جان دے دی۔
روایات کے مطابق کالی مائی کے گزر جانے کے بعد اس عاشق کو اس کے جذبات کی صحیح قدر ہوئی اور اس نے غیرتِ عشق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کوٹھے کو ہی
خرید لیا جس کے آنگن میں کالی مائی دفن تھی کہ مسلمانوں کے قبرستان میں ایک طوائف
کا ٹھکانہ ناممکن تھا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ مکان خریدنے کے کچھ عرصے بعد جب اس عاشق
کے حواس بحال ہوئے تو اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا اور اس نے اِس مکان سے اپنی جان
چھڑانی چاہی مگر کوئی بھی شخص ایک ایسے مکان کو خریدنے کیلئے تیار نہ تھا کہ جس کے
آنگن میں ایک انسان کی قبر موجود ہو۔
وہ عاشق پہلے تو بہت پچھتایا مگر چونکہ کاروباری ذہن کا
مالک تھا لہٰذا اس نے اِس گھر کو باقاعدہ ایک مزار میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
مکان گرا دیا گیا اور مزار کی تعمیر شروع کردی گئی۔ مزار کی تعمیر پورے زور و شور
سے جاری ہی تھی کہ اس عاشق نامراد کی طبیعت بگڑ گئی۔ ادھر مزار کی تعمیر مکمل ہوئی
اور ادھر اس غریب کا بھی بلاوہ آگیا۔ اس کے گھر والوں، جن میں اس کے سات بچے اور دو
بیویاں شامل تھیں، نے اسے اس ہی مزار میں دفنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا کہ مزار تو
پہلے سے موجود ہی تھا، لگے ہاتھوں خواتین مریدین کو بھی سہولت مل جائے۔ خواتین اس
زمانے میں بھی کسی عورت کو باکمال ماننے کی عادی نہیں تھیں کہ انکے نزدیک اگر عورت
ولی اللہ ہوسکتی تو سب سے پہلے وہ خود ہوتیں! خیر یہ پیشہ ورانہ رقابت تو ہمیشہ سے
انسانی فطرت کا حصہ رہی ہے سو اب اس فطری چیز پر کیا رونا؟
مزار کے افتتاح
کیلئے ابھی کسی جلیل القدر ہستی کی تلاش جاری ہی تھی کہ بٹوارہ ہوگیا اور وہ
خاندان یہ سوچ کر ہندوستان منتقل ہوگیا کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آنے والے
مسلمانوں کی متروکہ جائداد کو سنبھالنے کا پہلا حق بھی مسلمانوں کا ہی تھا۔ خدا
جانے انہیں وہاں یہ مبارک کام کرنے کی سعادت میسر آئی یا نہیں، مگر یہاں یہ مزار
اب ان کی ملکیت سے نکل کر عوامی ملکیت میں آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد علاقے والوں
نے مل کر اس مزار کا بیڑہ سنبھالا اور آس پاس کے علاقوں میں یہ خبر مشہور کردی گئی
کہ اس مزار پر آکر فاتحہ پڑھنے اور نذرانہ چڑھانے سے انسان مشکل سے مشکل حالات میں
بھی اپنے محبوب کو پالیتا ہے۔ شہر کے تمام
عشاق اب باقاعدگی سے اس مزار پر آنے لگے اور مزار چل نکلا۔
وقت کے ساتھ ساتھ
عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزار اقدس سے اولاد کی فراہمی، رزق میں برکت،
گھریلو سکون جیسی چیزوں کی فراہمی بھی شروع ہوگئی۔ مزار اچھا خاصا آباد ہوگیا تھا مگر
سن اسی کے اوائل میں علاقے میں ایک زندہ پیر آگئے اور اس مزار کی رونق معدوم ہوگئی۔
یہ زندہ پیر انسانوں کو ایک برادر پڑوسی و اسلامی ملک بھجوانے کا کام کرتے تھے جس
کے بدلے میں نہ صرف جانے والے کو جنت ملتی تھی بلکہ وہ اپنے ساتھ اپنے خاندان کے
ستر افراد کو بھی جنت میں پہنچانے کا مکلف ہو جاتا تھا۔ جہاں تک محبت کے حصول اور
رزق میں برکت جیسی دنیاوی لعنتوں کا تعلق تھا تو اس کے لیئے یہ زندہ پیر اتنے پیسے
جانے والے کے ہاتھ پر رکھ دیتے تھے کہ رزق میں اگلے بیس سال تک بےتحاشہ برکت کے
اسباب مہیا ہوجاتے اور محبوب بھی جھک مار کر قدموں میں آبیٹھتا تھا۔ وہ زندہ پیر
اس علاقے میں کوئی چھ یا سات سال رہے اورجانے سے پہلے ہی اس مزار کو مکمل ویران
کرگئے۔ اس زمانے کا ویران یہ مزار آج تک ویران تھا اور اب میرا جیسا اکا دکا کوئی
محبت کا مارا اس مزار پر آجاتا تو خیر، ورنہ پورا دن یہاں سناٹا باتیں کرتا تھا۔ جب
مجھے محبت نامی یہ روگ نہیں لگا تھا تب میں بھی دوسروں کی طرح اس مزار کو چائنا کا
تاج محل کہا کرتا تھا اور آنے والے اکا دکا عشاق کا تمسخر اڑایا کرتا تھا۔ میں نے
کب سوچا تھا کہ ایک دن مٰیں خود بھی اس مزار کے دہلیز اس طرح پار کروں گا کہ پھر
روزانہ ہی دن کا بیشتر حصہ اس مزار پر کٹنے لگے گا۔
رضیہ کو میں نے دل و جان سے چاہا تھا۔ وہ تھی ہی اتنی معصوم
اور دلکش کے میں پہلی نظر میں ہی اس پر دل ہار بیٹھا تھا۔ ادھر رضیہ کا بھی یہ حال
تھا کہ میرے بغیر اس کو کسی پل چین نہیں ملتا تھا۔ ٹیلی کام کمپنیز کے طفیل ہم
پوری رات لمبی بات کیا کرتے تھے۔ میں اس کو وصی شاہ کی شاعری سناتا اور وہ مجھے
جواب میں نوشی گیلانی کی نظمیں سناتی۔ پوری رات ان ہی نظموں اور پیار کی مدھر
باتوں میں گزر جاتی۔ میں اس کے پیار میں بری طرح گرفتار ہوچکا تھا مگر ایک دن پتہ
چلا کہ رضیہ کے گھر والے اس کی شادی اس کے ماموں زاد بھائی سے کر رہے ہیں۔ اس رات
میں اور رضیہ دونوں ہی دل کھول کر روئے۔ میں نے انٹرنیٹ سے دیکھ کر اسے فیض احمد
فیض کی ایک ہجر زدہ غزل بھی سنائی مگر وہ غزل ہم دونوں ہی کے سر سے گزر گئی۔ ہم
دونوں صرف یہ تاثر دینے کیلئے کہ یہ ٖغزل نہ صرف سمجھ آگئی ہے بلکہ دل میں بھی اتر
گئی ہے، گھنٹوں سسکیاں لیکر روتے رہے۔
اب ہماری راتیں الو کی طرح جاگتے اور بلیوں کی طرح روتے
گزرنے لگیں۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ رضیہ کی منگنی ہورہی ہے۔ مجھ سے یہ سن کر رہا
نہ گیا اور میں نے رضیہ سے ایک آخری ملاقات کی درخواست کردی۔ پہلے تو اس نے انکار
کردیا مگر پھر بہت تردد کے بعد بالآخر وہ ملنے کیلئے راضی ہوگئی۔
ہم دونوں ایک انٹر نیٹ کیفے میں ملے۔ رضیہ نے محبت سے زیادہ
اپنے دفاع کیلئے میرے ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام رکھے تھے۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز
میں اس سے التجا کی کہ میں اس کے بغیر مر جائوں گا اور اسے کسی بھی طرح اس منگنی
کو روکنا ہوگا۔ رضیہ نے اپنی نظریں نیچی کرلیں اور رونا شروع ہوگئی۔ ان ہی آنسوئوں
اور سسکیوں کے درمیان اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے لالچی گھر والوں کے
ہاتھوں مجبور ہے جو محض پانچ لاکھ روپیوں کیلئے اس کی شادی اس کے ماموں زاد سے کر
رہے ہیں کہ اس شادی کے بعد اس کے ماموں کا دیا ہوا وہ پانچ لاکھ کا قرض معاف
ہوجائے گا جو اس کے گھر والوں نے کسی مشکل وقت میں ان سے لیا تھا اور اب لوٹانے سے
قاصر تھے۔
میں اس کی بات سن کر تڑپ اٹھا اور اس کی مدد کرنے کا فیصلہ
کرلیا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اسے محض پانچ لاکھ روپیئوں کی وجہ سے اپنی زندگی برباد کرنے
کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ان پانچ لاکھ روپئوں سے وہ میری زندگی میں آ سکتی ہے تو
میں اس کے گھر والوں کا یہ قرض اتارنے کیلئے تیار ہوں۔ رضیہ کی آنکھوں میں آنے
والے آنسو اس بات کی دلیل تھے کہ اسے میری محبت پر یقین آگیا ہے۔ میرے لیئے اس سے
بڑی کوئی اور چیز نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ میں عملی طور پر رضیہ کو اپنی محبت کا
یقین دلاتا، ہمارے کیبن کا دروازہ پیٹ کر اعلان کیا گیا کہ پولیس کا چھاپا پڑنے
والا ہے لہٰذا ہم لوگ حلیئے درست کرکے باہر آجائیں۔ حلیہ تو خیر کیا خاک درست کرنا
تھا، جان بچا کر وہاں سے بھاگ آئے۔
اگلے تین دن کے اندر میں نے اسٹاک ایکسچینج میں سے اپنا
سارا پیسہ نکالا اور باقی پیسے دوستوں سے ادھار لیکر پانچ لاکھ کی رقم پوری کی اور
رضیہ کے ہاتھ پر لے جا کر رکھ دی۔ وہ
بےساختہ میرے گلے لگ گئی اور اس دن مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ پرفیوم نہیں
لگاتی تھی۔
رضیہ وہ پیسے لیکر اگلے ہفتے ملنے کا کہہ کر چلی گئی۔ آج اس
ہفتے کو گزرے ہوئے پانچ ہفتے گزر گئے ہیں مگر رضیہ نے پلٹ کر مجھ سے بات تک نہیں
کی۔ اس دن کے بعد سے اس نے میرا فون اٹھانا اور میسج کا جواب دینا تک بند کردیا۔
میں نے آزمانے کیلئے اسے ایک دوسرے نمبر سے فون کیا تو اس نے دوسری گھنٹی پر ہی اٹھا
لیا۔ میں نے دل کا تمام درد اپنی آواز میں جمع کرکے اسے پکارا، رضیہ! مگر میری آواز
سنتے ہی اس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ،
بھائی جان! گھر میں ابھی مہمان آئے ہوئے ہیں۔ بعد میں بات کرتے ہیں؟ جان سے بھائی
جان تک کا یہ سفر مجھے پانچ لاکھ کا پڑا تھا۔
مجھے اس کے جانے کا اتنا غم نہیں تھا جتنا اس مالی نقصان کا
تھا کہ جیب میں پانچ لاکھ روپے ہوں تو رضیہ کوئی اور بھی مل ہی جاتی۔ دوسرا غم
مجھے یہ بھی تھا کہ میں چاہ کر بھی کسی کو اپنے ساتھ ہونے والے اس ہاتھ کے بارے
میں نہیں بتا سکتا تھا کہ ایک کل کی لڑکی کے چکر میں اس طرح پیسے لٹانے کی داستان
میں میری ہی بدنامی تھی۔
مسلسل سوچوں سے جب دماغ پھٹنے لگا تو میں دل بہلانے کیلئے
گھر سے نکلا اور بے خیالی میں چلتا ہوا اس چائنا کے تاج محل پر پہنچ گیا۔ مزار پر
کالی مائی کے عاشق نامراد کی قبر کو دیکھ کر تسلی ہویئ کہ دنیا میں صرف میں ہی
احمق نہیں ہوں اور اس سوراخ سے مجھ سے پہلے بھی لوگ ڈسے جاچکے ہیں۔ اس کے بعد میں
دل ہلکا کرنے کیلئے روز اس مزار پر آنے
لگا۔
پچھلے تین دن سے میں روز اس مزار پر آرہا
اور یہاں موجود اس ملنگ کو دیکھ رہا تھا جو برگد کے اس بوڑھے پیڑ کے نیچے گود بنا
کر بیٹھا اپنی جھولی کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ اس کی اصل عمر کا تو معلوم نہیں مگر
بےتحاشہ بڑھی ہوئی داڑھی اور بگڑے ہوئے حلیے کی وجہ سے وہ پینتیس چالیس سال کا
لگتا تھا۔
آج مزار پر ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ میں
کافی دیر تک تو یونہی بیٹھا رہا پھر مجھے اکتاہٹ سی ہونے لگی۔ میں نے اکتاہٹ مٹانے
کیلئے اس ملنگ سے بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اٹھ کر اس کے قریب گیا اور کھنکار کر اس کے برابر میں بیٹھ
گیا۔ اس نے ںظر اٹھا کر میری طرف سوالیہ انداز سے دیکھا اور واپس اپنی جھولی کی
طرف دیکھنے لگا۔ میں نے ہمت جمع کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور اسے تھوڑی دیر
بات کرنے کیلئے درخواست کردی۔ جتنی دیر میں بولتا رہا، اس کی توجہ اپنی جھولی کی
طرف ہی رہی جس میں خدا جانے ایسا کون سا خزانہ چھپا تھا جسے وہ اتنے انہماک سے
دیکھ رہا تھا۔ میری بات ختم ہونے پر اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور بولا،
اس ہی علاقے میں رہتے ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری
اور پوچھا، محبت میں دھوکا ہوا ہے؟ میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور دل میں سوچا کہ
دنیا اب بھی صاحب کشف لوگوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔ میں نے ایک بار پھر خاموشی سے
سر ہلاہا۔ ملنگ نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور مجھے تسلی دیتا ہوا بولا،
کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان اپنے مخلص ترین دوستوں سے بھی چھپاتا ہے۔ مگر
یاد رکھنا کہ یہی دکھ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا زہر بھی ہوتے ہیں۔ جتنی مدت
انہیں اندر سینت کر رکھوگے، اتنا ہی عرصہ یہ تمہیں اندر ہی اندر کھاتے جائیں گے۔
اگر کسی سے نہیں کہہ سکتے تو ایک کاغذ لیکر اس پر اپنی کتھا لکھو اور اگر بدنامی
کا ڈر ہو تو بےشک اس کاغذ کو اپنے ہاتھ سے جلا دو۔ مگر اس طرح اپنے اندر اس زہر کو
پال کر تم صرف اپنا ہی نقصان کر رہے ہو۔ وہ ملنگ بول رہا تھا اور مجھ پر ادراک کی
کھڑکیاں کھل رہی تھیں کہ اس ملنگ کے ایک ایک حرف میں خلوص اور سچائی تھی۔ میں اس ملنگ
کے قدموں پر گر گیا اور اپنی رام کتھا اسے سنانی شروع کردی۔ کہانی ابھی رضیہ کی
منگنی کی اطلاع تک ہی پہنچی تھی کہ اس باکمال ملنگ نے مجھے اٹھایا اور میرے کاندھے
پر اپنا ہاتھ رکھ کر گویا ہوا، ہم سب جانتے ہیں! کس طرح اس عورت نے تمہیں اپنی
مالی مجبوریوں کا احوال سنایا اور کس طرح تم سے مال اینٹھ کر اب وہ کسی اور مرغے
کی تلاش میں نکل گئی ہے۔
میں حیران و ششدر اس ملنگ کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں نے
بےساختہ اس کے ہاتھ تھام لیئے اور بول اٹھا کہ، اے مرشدِ باکمال! جب آپ اتنا کچھ
جانتے ہیں تو میرے ان دو سوالات کے جواب بھی جانتے ہوں گے جو مجھے اب چین سے نہیں
رہنے دیتے۔ مرشد پاک! مجھے بتائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ آپ مجھے یہ بھی بتائیں
کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے؟ ملنگ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا، انسان جب دنیا
میں آیا تو اس کی خوراک کا واحد ذریعہ یا تو پھل تھے یا پھر شکار۔ ہمارے آباء و
اجداد اپنے وقت کے بہترین شکاری ہوا کرتے تھے۔ آج تک ہم سب کی رگوں میں ان شکاریوں
کا ہی خون اور ہماری جینز میں ان ہی کی فطرت کے آثار موجود ہیں۔ شکاری کی فطرت
ہوتی ہے کہ جب تک وہ شکار کو حاصل نہ کرلے وہ اس کے پیچھے بھاگتا ہے، گھات لگا کر
بیٹھتا ہے، صبح شام کی پرواہ نہیں کرتا، بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے، شکار بڑا
ہو تو اس کیلئے چارے کے طور پر اپنے چھوٹے شکار کو قربان کر دیتا ہے۔ مگر یہ سب
کام وہ شکار سے پہلے کرتا ہے۔ جب وہ اپنے شکار کو زیر کرلیتا ہے تو وہ زیادہ سے
زیادہ اس پر پائوں رکھ کر تصویر کھنچواتا ہے ورنہ عام طور پر اسے کھا پی کربرابر
کردیتا ہے۔ کبھی تم نے یہ سنا کہ انسان نے بہت محنت سے اور سختیاں برداشت کرکے،
مسلسل تعاقب کے بعد کسی ہرن کو زیر کیا ہو اور محض ان ساری سختیوں کی وجہ سے وہ اس
ہرن کو کھانے کے بعد دوسرے ہرن کی تلاش میں نہ نکلا ہو؟
محبت کا معاملہ بھی بالکل شکار جیسا ہی ہے۔ محبت صرف تب تک
مزہ دیتی ہے جب تک تسخیر نہ ہوجائے۔ جس دن شکاری کو یہ احساس ہوگیا کہ اب شکار میں
مسخر کرنے کیلئے کچھ نیا نہیں بچا ہے، اس دن وہ اس شکار کو چھوڑ کر کسی ایسے نئے
شکار کی تلاش میں نکل جائے گا جو اسے بھگائے، اسے تھکائے، اس کیلئے ایک چیلنچ بن
جائے۔ تم نے اس عورت کے سامنے تسخیر ہونے سے انکار کردیا ہوتا تو آج بھی تم اس کے
ساتھ ہوتے۔ خواہ وہ کتنی ہی مکار اور لالچی کیوں نہ ہو، زندگی میں اس لڑکی کو بھی
اپنے سے بڑا شکاری ضرور مل جائے گا جو اس سے مسخر ہونے کے بجائے خود اسے تسخیر
کرلے گا۔ اس دن وہ لڑکی بالکل تمہاری طرح، اپنا سب مال اسباب لٹا کر اس کے لیئے وہ
سب بھی کرنے کو تیار ہوجائے گی جو تم نے اس کیلئے کیا۔ دنیا صرف ہیئت کے حساب سے
گول یا بیضوی نہیں ہے! یہاں ہر چیز واقعتاّ دائرہ وار ہے۔ ہر عمل کسی چیز کا ردعمل
ہے اور ہر ردعمل کا بھی ایک ردعمل ہونا مکتوب ہے۔ اس ہی کا نام دنیا ہے۔
میں آنکھیں اور منہ پھاڑے اس ملنگ کی بات سن رہا تھا۔ گزشتہ
دس منٹ کے اندر اس نے میری دنیا تبدیل کردی تھی۔ محبت اور مکافات عمل کے پیچیدہ
ضابطوں کو جس آسانی سے اس نے میرے لیئے بیان کردیا تھا وہ اپنی ذات میں مجھے اس
ملنگ کا مرید بنا دینے کیلئے کافی تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ چومے اور وہاں سے اٹھ
آیا کہ مجھے باہر جاکر دوبارہ عملی ذندگی میں قدم رکھنا تھا۔ مگر اس بار میں شکار
بننے کیلئے نہیں شکار کرنے کی نیت سے میدان میں اتر رہا تھا۔ جاتے جاتے میرے دماغ
میں دو اور سوال ابھرے اور میں الٹے قدموں دوبارہ ملنگ کے پاس واپس آگیا۔ ملنگ کے
سامنے جھک کر میں نے بڑی عقیدت مندی سے پوچھا کہ اگر مرشد کی اجازت ہو تو میں کچھ
اور سوالات کرسکتا ہوں؟ مرشد نے کمال مہربانی سے مجھے سوالات کی اجازت دے دی۔ میں
نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، مرشد! آپ محبت اور میری محبت کے انجام کے بارے میں پہلے سے
کیسے جانتے تھے؟ کیا واقعی کشف نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے؟ اور دوسرا سوال ذرا
ذاتی نوعیت کا ہے کہ جب آپ شکار اور شکاری کے کھیل کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں
تو اس چائنا کے تاج محل پر کیوں وقت برباد کر رہے ہیں جبکہ آپ اس علم سے ایک دنیا
مسخر کرسکتے ہیں؟ ملنگ نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولا، بالک! کشف وشف
کیا ہوتا ہے یہ تو میرے کو نہیں پتہ! میرے کو تو صرف یہ پتہ ہے عقل بادام کھانے سے
نہیں بلکہ ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔ تیری کہانی کا انجام مجھے اس لیئے بھی پتہ تھا
کہ میری دفعہ میں رضیہ مجھ سے دو لاکھ اینٹھ کر لے گئی تھی اور اس ہی کے غم میں
پہلی بار میں اس مزار تک پہنچا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ جو محبت کے بارے میں میری
نالج ہے نا وہ پوری کہانی میں نے فیس بک سے سیکھی ہے۔ بروکن ہارٹڈ دیسی بوائز اینڈ
گرلز کے نام سے ایک پیج ہے۔ تو بھی لائک کر لیو۔ ایمان سے بہت ٹائٹ چیزیں آتی ہیں
اس پر۔ شکار والی کہانی کی لفاظی چیک کی تھی تو نے؟ بھائی نے ورڈ ٹو ورڈ یاد کی
ہوئی ہے!!!
جہاں تک شکار اور شکاری کا تعلق ہے تو تجھے کیا لگتا ہے کہ
میں مزار پر چنے بیج رہا ہوں؟ ابے صرف تیری طرح کے روتیلے مرد نہین آتے ادھر۔ حسین
اور غمگین دوشیزائیں بھی محبت میں دھوکے کے بعد ادھر ہی آتی ہیں! سمجھا؟ چل اب
مجھے کینڈی کرش کھیلنے دے اور نکل۔ مرشد پاک تو یہ کہہ کر اپنی جھولی میں پڑے
موبائل پر کینڈی کرش کھیلنے میں لگ گئے اور میں تیز قدموں سے چلتا ہوا مزار سے
باہر آگیا۔ کل سے دوسرے والے برگد کے نیچے ایک اور ملنگ کا اضافہ ہونے والا تھا۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔ کمینہ ہے تو دنیا کا نمبر ون :ڈ
جواب دیںحذف کریںآپ کا الزام سر آنکھوں پر مگر محاورہ " ایشیاء کا سب سے بڑا " نہیں تھا؟
حذف کریںپہلے برصغیر میں ہر چیز ایشیاء کی سب سے بڑی وغیرہ ہوا کرتی تھی مگر آپ نے اس براعظمی تعصب کو ختم کرکے جو عظیم کار انجام دیا ہے اس پر ہم چائنہ کے تاج محل میں ہمارے برابر والا پیڑ آپ کے لیئے مخصوص کرتے ہیں.
ہاہاہا۔۔ بہترین!
جواب دیںحذف کریں