جمعرات، 24 ستمبر، 2015

آخری خط


،پیاری

سوچا تھا کہ پیاری کے آگے بھی لکھوں مگر پھر سوچتا ہوں کہ نام میں  کیا رکھا ہے؟ القاب  کیا معنی رکھتے ہیں؟ میں تمہیں اچھے یا برے کیسے بھی نام سے پکاروں تم، تم ہی ہو اور تم جانتی ہو کہ یہ خط تمہارے ہی نام ہے۔ (اور کون ہے بھی اس قابل کہ جس کے نام رخصت کا نوحہ لکھا جائے؟ ) سو نام کے جھمیلے سے باہر آئو اور یہ خط پڑھو کہ یہ ایک ہارے  ہوئے ادیب کی الوداعی سانسیں ہیں۔ کون جانے کہ اس کے بعد یہ لکھنے اور پڑھنے کی عیاشی نصیب ہو کہ نہ ہو؟

 میں نے پہلی مرتبہ جب تمہیں دیکھا تو میں بےساختہ تمہیں دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔ تب تمہاری معصوم آنکھوں میں سوائے خوف کے کچھ بھی نہ تھا۔ (ہائے وہ آنکھیں، کوئی شاعر انہیں دیکھ لیتا تو فی البدیہہ کئی غزلیں لکھ ڈالتا)۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ ممتا محض عورت تک محدود نہیں۔( اور اگر ممتا محض عورت تک محدود ہے تو پھر ہمیں یہ بات ماننی پڑے گی کی ہم سب میں ایک عورت چھپی ہوئی ہے۔) میرا دل کیا کہ میں آگے بڑھ کر تمہیں اس طرح چھپا لوں جس طرح ایک مرغی خطرہ بھانپ کر چوزوں کو اپنے پروں میں سمیٹ لیتی ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ممتا آگے چل کر اس طوفان کو جنم دے گی جس کی زد میں آکر میرا اپنا وجود، میری ذات، سب کچھ خاکستر ہوجائے گا۔  مگر مجھے معلوم ہوتا بھی تو شاید میں اس دن خود کو روک نہیں پاتا۔  شاید مجھے اس دن تم سے پہلی بار محبت ہوئی تھی، اور آنے والے برسوں میں روز، ہر روز میں تم سے محبت کرتا رہا ہوں۔

یا شاید یہ محبت نہیں تھی کہ محبت میں کہیں نہ کہیں ہوس شامل ہوتی ہے اور میرا تو تم سے عقیدت کا رشتہ تھا۔ عقیدت میں ہوس کیونکر ہوسکتی تھی؟    اور اگر یہ ہوس ہوتی تو کئی بار دیکھنے کے باوجود مجھے تمہارا سراپا آج غور کرنے پر بھی کیوں یاد نہیں؟ مگر پیاری! یہ سب تو غیر ضروری باتیں ہیں۔  فراق کے ان خوبصورت اور یادگار لمحات میں غیر ضروری باتوں کا کیا مطلب؟  ضروری اور یاد رکھنے کی بات محض اتنی ہے کہ میں تم سے محبت کرتا تھا۔ پوجنے کی حد تک۔( مگر اب تو یہ بھی ایک غیر ضروری بات ہے۔)

پیاری! مجھے معاف کردینا کہ میں زندگی میں پہلی بار کسی کو الوداعی خط لکھ رہا ہوں سو نہیں جانتا کہ کیا لکھوں؟  ہاں یہ ضرور جانتا ہوں کہ شاید تم سے کلام کرنے کا موقع پھر نہ مل سکے، سو میں چاہوں گا کہ اس آخری کلام کی وساطت سے ایک بار تمہارا شکریہ ادا کر سکوں! جانتا ہوں کہ محض ایک خط تمہارے شکریئے کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر کیا کروں کہ ایک لاچار ادیب ہونے کے ناطے میرے پاس تمہیں دینے کیلئے سوائے الفاظ اور دعائوں کے کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ دونوں (میرا سب کچھ) آج تمہارے نام ہیں۔

میری پیاری! میں نے چاہا کہ تمہیں زندگی  میں جہنم میں اترنے سے روکوں ۔ تمہارے لیئے سایہ بنوں۔ تمہارے اوپر آنے والی ہر تکلیف میں خود پر لے لوں۔  مگر خدا جانے میں کیوں بھول بیٹھا تھا کہ خدا نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اگر میں تمہاری زندگی میں کچھ نہیں ہونے دیتا تو تمہاری زندگی میں کچھ ہوتا ہی نہیں! یہ خیال ہم دونوں کے درمیان اس خلیج کی تمہید بن گیا جو شاید اب ہم دونوں مل کر بھی نہ پاٹ سکیں۔ سو آج سے تم آزاد ہو کہ جس طرح چاہو جیئو! ہاں مگر تمہارا شکریہ کہ تم نےمجهے سکهایا، خدا کو اپنی پسندیدہ مخلوق کا جہنم/عذاب کی طرف بهاگتے ہوئے دیکهنا کتنا برا لگتا ہوگا۔  تمہارا شکریہ کہ تم نے مجهے سکھایا کہ ہم میں سے ہر شخص خدائی خواہشات تو رکھتا ہے مگر یہ بات بھول بیٹھتا ہے کہ خدائی خواہشات خدائی ظرف کی متقاضی ہوتی ہیں۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے دکهایا  انسان کتنی تیزی سے دل میں، اور پهر کیسے اتنی ہی تیزی سے، دل سے، اترتا ہے. تمہارا شکریہ کہ تمہارے طفیل میں یہ جان پایا کہ ، دل کا خدا میں نہیں کوئی اور ہے جو ہمارے دلوں کو پھیرنے میں ماہر ہے۔

میری پیاری! میں جانتا ہوں کہ تمہیں اس فراق کا چنداں فرق نہیں پڑے گا مگر زندگی کے کسی موڑ پر اگر پچھتاوہ تمہارا رستہ روکے تو یہ یاد کر لینا کہ ہر خلا ایک دن پر ہو ہی جانا ہے. مجھے تمہاری ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہ فراق اور وصال مسلسل جراحت کا ایک عمل ہے جس میں نشتر مالکِ کائنات کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے تم سے کوئی تکلیف نہیں، ہاں  البتہ جراحی کے عمل کی اذیت ضرور ہے، اور شدید ہے. مگر تمہارا شکریہ کہ یہ تکلیف مجهےاپنے انسان اور عاجز ہونےکا احساس دے رہی ہے! میری پیاری! میں سیکھ گیا ہوں کہ ہر تکلیف ایک نئی راحت کا آغاز ہے.

سو تمہارا شکریہ. صد ہزار شکریہ

والسلام

مخلص

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت