شاید ازل سے کہانی کار ایک ہی رہا ہے سو کہانی کے کردار نام اور مقام بدل کر اس ہی ایک
کہانی کے تسلسل میں حصہ دار بنتے اور اپنے زعم کے غبارے میں ہوا بھرتے آئے ہیں کہ وہ اس لامتناہی کائنات کی سب سے
منفرد کہانی کا مرکز ی کردار ہیں۔ سو وہ ہنس کا بچہ بھی گزری تمام کہانیوں کی طرح بطخ
کے بچوں کے بیچ میں رہتا، ان کے طعنوں کا نشانہ بنتا اور ان کی قامت بڑھانے کی جاں
گسل محنت سے تھک کر اپنی معصوم سوچ میں اپنی
قامت گھٹا کر خود کو ان کے مطابق ڈھالنے
کی کوشش میں جٹا رہتا ۔ اور جب
اس سعی لاحاصل سے مایوس ہو جاتا تو دنیا کے حصے کے الزام بھی اپنے سر لے کر ایک
بار پھر کولہو کے بیل کی طرح دائرے کے سفر میں گامزن ہو جاتا، یہاں تک کہ پچھلی
کہانی ہی کی طرح اسے بھی اس بات پر مجبور
کر دیا گیا کہ وہ شناخت کی تلاش میں گھر کہلانے والی جہنم سے فرار اختیار کرے اور
انجانوں میں اپنے تلاش کرتا پھرے۔
پچھلی کہانی کے عین مطابق
یہ راج ہنس کا بچہ بھی فرار ہو کر اپنے جیسے کسی ایک، محض ایک کی تلاش میں
تالاب تالاب گھومتا پھرا مگر کسی نے چونکہ
اس جیسی مخلوق کو دیکھنا تو دور، کبھی اس کے بارے میں سنا تک نہیں تھا لہٰذا ان
تالابوں پر بھی اسے محض وہ مایوسی ہی ملی کہ جس
کی عادت کائنات میں کسی ذی روح کو آج تک نہ ہوسکی۔ اور اس ہی مایوسی سے
گھبرا کر وہ شناخت کے سفر میں چلتا رہا یہاں تک کہ ایک بظاہر مہربان عورت نے انڈوں کے لالچ میں اس پر
ترس کھا کر اسے اٹھا کر اپنے گھر کی کوٹھری میں مقفل کردیا جہاں ایک مرغی اپنی
نوکیلی چونچ اور اس سے کہیں زیادہ تیز زبان کے ساتھ اس کی منتظر تھی۔
راج ہنس کو لگا تھا کہ اب اسے گھر اور گھر کا پیار میسر
ہوجائے گا مگر شناخت کے سفر پر گامزن کسی بھی دیگر جاندار کی طرح اس کی تخلیقی صلاحیتیں بھی کسی کے حکم کی تابع
نہیں رہیں تھیں سو فرمائشی انڈوں کے معاملوں میں وہ غریب بھی مکمل بانجھ ثابت ہوا اور جب مہربان بڑھیا
کے گھر میں موجود مرغی کی چونچ اور بلے کی نیت
نے اسے نشانے پر رکھا تو اس راج ہنس نے وہاں سے بھی رخصت میں ہی عافیت
سمجھی۔ اپنی سرمایہ کاری کے اس طرح ڈوبنے پر وہ مہربان بڑھیا کس طرح غصہ ہوئی اور
کیسے اس نے وہاں سے گزرنے والے ہر جانور کو روک کر اس راج ہنس کی کم ظرفی
کی کہانی سنائی، چونکہ اس بارے میں پچھلی کہانی خاموش تھی تو ہم بھی یہاں اس بڑھیا
کا پردہ رکھتے ہوئے آج کی داستان کو راج ہنس پر ہی مرکوز رکھتے ہیں۔
داستان گو بتاتے ہیں کہ راج ہنس نے بڑھیا کے پاس سے فرار اختیار کرنے کے بعد تنہائی کے ایام میں اس راج ہنس نے کچھ
وقت سرکنڈوں کے ایک ڈھیر کے بیچ میں بھی گزارا جہاں اس نے دور آسمان پر اڑتے
ہوئے ہنسوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور ایک بار دل میں تمنا کی کہ کاش
وہ بھی کبھی ان جیسا ہو سکے۔ شاید وہ اس جملے سے تمام انسانوں کی ہوس کا بھرم
رکھنا چاہتے ہیں کہ اپنے سے ارفع لوگوں سے منسلک ہونے کی ہوس محض ہم انسانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔واللہ اعلم
بالصواب
بتانے والے بتاتے ہیں کہ تنہائی کا وہ عرصہ اس ہنس کی زندگی
کا ایک ایسا دور تھا کہ جس میں جسمانی ارتقا کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ
بھی ارتقا پا رہی تھی ۔ مگر انسان ہو یا ہنس، زندگی آزمائشوں کا دوسرا نام
ہے لہٰذا وہ ایام بھی گزرے اور جاڑے نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جب زمین کو سفیدی کی چادر نے اپنے اندر چھپا لیا
تو مجبورا اس ہنس کو بھی غذا کی تلاش میں اپنے ٹھکانے سے باہر آنا
پڑا۔ ہر طرف پھیلی برف کی چادر گو نگاہوں کے لئے بہت دلآویز
تھی مگر زمین پر پائی جانے والی
اکثر خوبصورت چیزوں کی طرح یہ بھی فیض سے مکمل عاری تھی۔ نظاروں سے دل بہلانے کے دوران جب بھوک کا احساس
جاگا تو ذوق نظارہ کے جانے کا کرب اور
بھوک کی تکلیف کی آزمائش سے نڈھال ہو کر اس کہانی کا راج ہنس بھی بے ہوش ہو کر گر
پڑا تھا۔
آنکھ کھلنے پر اس نے خود کو ایک غریب کسان کے گھر میں پایا تھا جو بازار سے
ہنس خرید کر پالنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے بخوشی زمین پر پڑے اس نیم مردہ
ہنس کو اٹھا کر اپنے گھر لے آیا تھا تاکہ اس کے ننھے اور معصوم بچے اپنے پڑوس کے
اپنی ہی طرح کے غریب بچوں پر گھر میں ہنس
ہونے کا رعب جھاڑ سکیں۔ مگر وقت کے ساتھ
وہ ہنس اتنا بڑا ہو گیا کہ کسان کا جھونپڑا اس کے لئے چھوٹا پڑ گیا اور مجبورا
کسان اسے دریا کے کنارے چھوڑ آیا کہ جہاں
اس جیسے ہی دیگر کئی ہنس انسانوں اور دیگر
کمتر مخلوقات سے مناسب فاصلہ برقرار رکھتے
ہوئے تیرنے میں مصروف تھے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اس نووارد ہنس کا شایان شان استقبال
کیا گیا۔ تمام ہنس اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے اور یہ غریب اس وقت تک اس توجہ کی
وجہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ جب تک اس نے
خود پانی میں اپنا عکس دیکھا اور یہ جانا کہ
وہ کس حد کا خوبصوت راج ہنس بن چکا ہے۔
اصولی طور پر زندگی کو اب اس پر مہربان ہوجانا چاہئے تھا
اور سب کے ہنسی خوشی رہنے پر کہانی ختم ہوجانی چاہئے تھی مگر یہ دوسری بار کا ذکر
ہے اور دوسری بار کا ہنس اپنے ارتقا پر بہت نازاں تھا اور چاہتا تھا کہ ترقی کا یہ
سفر جاری رہے لہٰذا چند ہی دنوں میں اس کی جسامت دریا میں موجود کسی بھی ہنس سے
اضافی ہوچکی تھی اور ارتقا کا یہ سفر ابھی بھی ایک نامعلوم منزل کی طرف جاری تھا۔
دریا کے وہ تمام ہنس جو پہلے اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے، اب اس سے خائف ہو کر
اپنا راستہ بدل لیا کرتے تھے۔اور پھر ایک دن ،شناخت کے سفر کے اختتام پر اور اپنے جیسے سمجھے
جانے والوں کے بیچ پہنچ کر بھی یوں تنہائی کی زندگی گزارنے کی وحشت اس ہنس کو
اس دریا سے نکال کر واپس جنگل میں لے آئی۔
بڑھتے بڑھتے اب اس کی قامت ایک شتر مرغ کے برابر ہوچکی تھی۔
وہ گردن اٹھا کر دیکھتا تو مرغیوں اور
بلیوں کو خود سے گھبرا کر ادھر ادھر چھپتے
دیکھ سکتا تھا۔ شاید کسی اور حالت میں یہ منظر اس کے لئے بہت خوش کن ہوتا مگر اندر
موجود چنگاریوں اور ان کے دھویں کی وجہ سے ہونے والی بے دمی کی کیفیت اسے کسی بھی
چیز سے محظوظ ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ اس
نے تازہ ہوا کی جگہ بنانے کے لئے اندر موجود دھویں کو زوردار پھونکیں مار
مار کر نکالنا شروع کردیا۔ تھوڑی ہی دیر
میں پھونکوں کے ساتھ نکلنے والی اس کے
اندر کی آگ سے اردگرد کے درخت دھڑادھڑ جلنے لگے تھے۔
دور جنگل کے کنارے ، ایک درخت پر بیٹھا کہن سالہ و جہاں
دیدہ الو تاسف سے سر ہلانے میں مصروف تھا۔ جنگل میں اژدھا (ڈریگن) واپس آگیا تھا۔
جسمانی و ذہنی ارتقا کے سفر کی دل کو چھو لینے والی داستان
جواب دیںحذف کریں