تو جب تین سو
اڑتیسویں رات آئی تو شہر زاد نے بدستور کہانی کہنا شروع کی۔
قصہ
انوکھے لاڈلے اور غلیل کا
تو ہوا یوں کہ
شہربغداد کے کسی محلے میں ایک بہت خوبصورت اور ہوشیار بچہ رہا کرتا تھا۔ اپنی
خوبصورتی اور ذہانت کی وجہ سے وہ پورے محلے کی آنکھ کا تارا تھا۔ محلے والے ہمیشہ
اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے اور اس نے بھی کبھی محلے والوں کو شکایت کا موقع نہیں
دیا تھا۔ ہر بچے کی طرح اس کا بھی دل شرارتیں کرنے کو مچلتا تھا مگر اس نے طے کر
رکھا تھا کہ وہ سارے کانڈ محلے سے باہر جا کر کرے گا تاکہ محلہ اس کی شرارتوں سے
محفوظ رہ سکے۔ محلے والوں تک اس کے کارناموں کی گونچ پہنچتی تو بھی وہ یہ سوچ کر
برا نہیں مانتے کہ بچے تو ہوتے ہی شرارتی ہیں۔ اور ویسے بھی یہ بچہ شرارتیں ہی
اتنی معصومانہ کرتا تھا کہ لوگوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ شرارت اس نے مزے لینے
کے لیئے کی ہے ، اذیت پہنچانے کے لیئے نہیں۔
دن سکون سے
گزر رہے تھے کہ ایک دن اس حسین و ذہین بچے کو احساس ہوا کہ محلے کی سب سے حسین
چڑیا محلے کے نامعقول ترین بچوں کے پاس ہے۔
اس نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے مشورہ کیا اور ایک مہم شروع کردی کہ یہ نازک
چڑیا ان درندوں کے پاس رہی تو مر جائے گی لہٰذا محلے کے لوگوں کو چاہیئے کہ اب
چڑیا ان نامعقول لوگوں سے لیکر اسے دے دیں تاکہ وہ اس چڑیا کا بہتر خیال رکھ سکے۔
محلے کے
بزرگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا
بظاہر حسین نظر آنے والی یہ چڑیا دراصل اپنے ساتھ رسوائیوں کے طوفان لاتی ہے لہٰذا
نہ تم سے پہلے تمہارے جیسے کسی مشہور بچے کو یہ چڑیا دی گئی نہ تمہیں یہ چڑیا
دلائی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں تم بس ہمارے دلارے بن کر رہو۔ یہ چڑیا پالنا تمہارے
بس کا روگ نہیں ہے۔ بچے نے یہ باتیں سنیں تو اس نے ضد پال لی کہ اب تو وہ یہ روگ
پال کر رہے گا۔ چڑیا اگر خود سے اس کے حوالے نہیں کی گئی تو وہ شکاری انکل کو اپنے
ساتھ ملا لے گا جن کے پاس بندوق بھی ہے مگر چڑیا کو ضرور حاصل کر کے رہے گا۔
چڑیا کا حصول
اب اس بچے کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔ محلے کے وہ بچے جن کے پاس کرنے کو کوئی
اور کام نہیں ہوتا تھا وہ سب اب شغل لگانے کے لیئے اس بچے کے ساتھ ساتھ گھومنے
لگے۔ ہوتے ہوتے بچے کے جنون کی خبر ہر جگہ پھیل گئی اور دوسرے محلے کے وہ بچے جو اس محلے میں صرف کھیلنے کودنے آتے تھے وہ
سارے بھی اس بچے کے ہم نوا بن گئے۔ بچہ ان لوگوں کی شہہ پا کر اور بھی طاقتور
محسوس کرنے لگا اور روز گلی میں تماشہ لگا کر چڑیا کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگا۔ محلے
دار بھی اس نئے تماشے سے تنگ تھے لہٰذا طے ہوا کہ چڑیا کے مالکان سے پوچھا جائے کہ
چڑیا کہاں رہے گی؟ تقدیر نے جیسا ہاتھ اس
بچے کے ساتھ کیا، کسی کے ساتھ نہ کرے! چڑیا کے مالکان نے متفقہ طور پر چڑیا اس بچے
کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔
بچہ اس صدمے
کو سہہ نہیں پایا۔ اس نے شور مچا دیا کہ چڑیا کے اصل مالکان دوسرے محلے کے رہنے
والے بچے ہیں جو میرے ساتھ ہیں اس لیئے رائے بھی محض ان ہی سے لی جائے۔ نیز چونکہ
شکاری انکل اگر چاہیں تو چڑیا کا شکار کرلیں اس لیئے ایک طرح سے چڑیا کے اصل مالک
وہ ہیں اور ان کی رائے کے مطابق بھی چڑیا میرے ہی پاس ہونی چاہیئے۔
محلے والوں نے
اس کی باتیں ایک دو دن برداشت کیں مگر جب اس نے اپنا الاپ نہیں چھوڑا تو مجبورا
اسے پاگل خانے چھوڑ کر آنا پڑا!
شہرزاد نے جب
کہانی ختم کی تودنیا زاد اور بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہیں اس ہونہار بچے
کے یوں برباد ہونے کا شدید رنج ہوا۔ دنیا زاد نے پوچھا، کہ پھر پاگل خانے میں اس
بچے کا علاج ہوا یا نہیں؟ شہرزاد نے گردن جھکا کر جواب دیا کہ سنا ہے کل رات
اسے ملک کراچی میں بجلی کے ہولناک جھٹکے لگانے کے
بعد اس امید پر رہا کیا جانے لگا کہ شاید اب وہ سدھر گیا ہوگا مگر جب رات گئے اسے چھوڑا جانے لگا تو ضابطے کی
کاروائی میں اس سے پوچھا گیا کہ اب باہر نکل کر کیا کرے گا تو اس نے جواب میں کہا کہ
میں اب پاگل نہیں رہا ہوں لہٰذا اب میں اپنے کام سے کام رکھوں گا اور اچھا سا کام
دھندا پکڑ کر شادی کروں گا اور بچے پیدا کروں گا۔ منتظم نے اس کی حالت تسلی بخش
دیکھ کر اسے رخصت کا پروانہ تھمایا اور ازراہ تکلف پوچھ لیا کہ شادی کے علاوہ کیا
ارادے ہیں تو جواب میں بچہ بول اٹھا کہ ،نہیں
ابھی صرف بچے پیدا کروں گا اور جب وہ بڑے ہوجائیں گے تو ان کے چڈے جو ان کے چھوٹے
ہو چکے ہوں گے، ان میں سے الاسٹک نکال کر غلیل بناؤں گا اور پھران نامعقول بچوں کی
ایسی تیسی کردوں گا، چڑیا تو میری ہو کر ہی رہے گی۔
شہرزاد کی یہ
بات سن کر بادشاہ اور دنیا زاد دونوں ایک
بار پھر رو پڑے اور بادشاہ نے شہرزاد کو اتنے پیارے بچے کے بارے میں ایسی رکیک
داستان سنانے پر تین ہزار کوڑے مارنے کا حکم دیا اور اس کی موت کی سزا کو تین سال بعد کے انتخابات تک کے لیئے موخر
کردیا تاکہ اگلی بار اس بچے کو خود جگہ جگہ کرنٹ کے جھٹکے کھاتے دیکھ سکے اور اس
کہانی پر ایمان لائے۔ شہرزاد نے کوڑوں کو موت سے غنیمت جانا اور شاد کام قید خانے
کو لوٹ آئی۔ اگلی کہانی کی داستان انشاء اللہ پھر کبھی۔
ختم
شد
واہ جناب ہمیشہ کی طرح کمال
جواب دیںحذف کریںکسی سیاستدان سے مماثلت اتفاقیہ - ہر گز نہیں ہے :-)
جواب دیںحذف کریںظالم قصہ گو ہیں آپ ۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںچھا گئے بہت خوبصورتی سے"بچے" کو اس کی اوقات یاد کروای ہے
جواب دیںحذف کریںبہت خوب چھا گئے ہیں
جواب دیںحذف کریں