پیر، 27 جون، 2016

قصہ گو

شاید وہ رات ہی عجیب تھی یا اس رات نانا ابا کچھ عجیب تھے۔ یا شاید رات ہوتی ہی عجیب ہے اور نانا ابا شروع سے ہی عجیب تھے اور دراصل اس رات میں خود ہی کچھ عجیب تھا جو چیزوں کو محسوس کرسکتا تھا۔  اصل واقعہ جو کچھ بھی رہا ہو مگر یہ بات طے ہے کہ کچھ نہ کچھ عجیب ضرور تھا۔
سردیوں کی رات تھی اور میں نانا ابا کی برابر والی چارپائی پر لیٹا رضائی میں دبک کر کہانی سننے میں مصروف تھا۔  یہ ہمارا سالوں کا معمول تھا۔ امی کے انتقال کے وقت میری عمر کم تھی سو نانی امی مجھے اپنے ساتھ لے آئیں تھیں۔ نانا ابا اور نانی امی کی چارپائیوں کے درمیان ایک تیسری چارپائی کا اضافہ کردیا گیا تھا اور میں ان دونوں کے درمیان سونا شروع ہوگیا۔ تھوڑا ہوش سنبھالا تو نانی امی نے ہمیں کہانیوں کی لت لگا دی۔ روز رات کو جب تک ایک نئی کہانی نہ سن لیتا میں سو نہیں پاتا تھا۔ نانی اماں نے شروع شروع کے جوش میں ہمیں یہ لت تو لگادی مگر جلد ہی ان کی کہانیوں کا محدود ذخیرہ جواب دے گیا جبکہ ہمیں روز ایک نئی کہانی سننے کی عادت پڑچکی تھی اور پرانی کہانیاں ہمیں مزہ نہیں دیتی تھیں۔ نانی اماں ہماری فرمائشوں سے زچ ہوچکی تھیں  مگر ہم اپنی فرمائشوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے سو مجبورا یہ کہانی سنانے والا محکمہ نانا ابا کو سنبھالنا پڑگیا اور گزشتہ کئی سالوں سے وہ روز مجھے ایک نئی کہانی سناتے آئے تھے۔  ان کے پاس ایک خیالی بستہ تھا جسے وہ کہانیوں کی پٹاری کہتے تھے۔ روز رات کو وہ ہوا میں ہاتھ گھما کر اس پٹاری کو کھولتے اور کچھ پڑھنے کا ناٹک کرکے مجھے کہانی سنانا شروع کردیتے۔ جنوں پریوں کی کہانیاں، نبیوں ولیوں کے قصے، شہزادے شہزادیوں کے کارنامے، جانوروں کی مزے مزے کی کہانیاں، سبق آموز کہانیاں، مزاحیہ کہانیاں غرضیکہ دنیا کی کون سی دلچسپ کہانی تھی جو اس پٹاری میں موجود نہ تھی۔
جیسا میں نے عرض کیا کہ  سردیوں کی اس رات میں کچھ نہ کچھ عجیب ضرور تھا کہ اس رات اول تو نانا ابا پٹاری کو کھولنے پر راضی نہیں تھے اور جب راضی ہو بھی گئے تو انہوں نے وہ کہانیاں سنانا شروع کردیں جن کا میرے نزدیک سرے سے کوئی سر پیر تھا ہی نہیں۔ ان کی پہلی کہانی ایک درخت کی تھی جو سورج کی دھوپ سے سخت پریشان تھا۔ وہ روزانہ صبح مالی سے درخواست کرتا کہ اسے اٹھا کر کسی چھپڑ کے نیچے منتقل کردیا جائے کہ وہ اس تپش کے عذاب سے بچ سکے مگر مالی کو شاید اس کی زبان سمجھ میں ہی نہیں آتی تھی۔  وہ روزانہ اپنے بچوں کو لیکر اس درخت کے نیچے یہ کہتا ہوا بیٹھ جاتا کہ باغ میں اس سے زیادہ سائے دار درخت ممکن نہیں ہے اور جتنی ٹھنڈی اس درخت کی چھاؤں ہے یہ درخت ضرور جنت سے آیا ہے۔ ادھر درخت جب یہ سنتا کہ اس کے اپنے سائے میں لوگ جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور وہ خود کڑی دھوپ میں جلتا رہتا ہے تو اس کا خون مزید کھول جاتا۔ کہتے ہیں کہ جس کا کوئی نہیں ہو اس کا خدا بھی نہیں ہوتا مگر شاید اس معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ جو فریاد وہ دن رات مالی سے کرتا تھا وہ ایک دن خداوند نے سن لی اور اس کے برابر میں لگے دونوں درخت اذنِ خداوندی سے بڑے ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شاخوں اور پتوں نے ایک سائبان کی شکل اختیار کرکے اس درخت کو مکمل طور پر اس طرح گھیرے میں لے لیا کہ سورج کی ایک کرن بھی اس پر براہ راست نہ پڑسکتی تھی۔ نانا ابا سانس لینے کے لئے رکے تو میں نے سوال داغ دیا کہ پھر کیا ہوا؟ نانا ابا مسکرائے یا شاید مجھے لگا کہ وہ مسکرائے، بہرحال انہوں نے کہا کہ پھر یہ ہوا کہ مالی اپنے بچوں کے ساتھ ان دوسرے درختوں کے نیچے بیٹھنے لگا اور جو درخت کڑی دھوپ سے نہ جل سکا تھا وہ حسد سے جل کر سوکھ گیا اور ایک وقت آیا کہ مالی کو اسے کاٹ کر اس کی لکڑی کو باقاعدہ ایندھن بنا کر جلانا پڑ گیا۔
یہاں تک پہنچ کر نانا ابا خاموش ہوگئے تھے۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا کہ شاید وہ اب اس کہانی کو کسی اچھے انجام کی سمت لے جائیں گے مگر نانا ابا تو کہانی مکمل کرکے اپنی آنکھ میں آیا کچرا صاف کرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔ جب نانا ابا اپنی آنکھ کی صفائی سے فارغ ہوکر بھی خاموش رہے تو تنگ آکر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ پھر اس کہانی کا انجام کیا ہوا؟ نانا ابا نے میری طرف دیکھا اور ایک کمزور مسکراہٹ میری سمت اچھال کر بولے، ہر کہانی کا انجام لازمی نہیں ہے کہ ہر قاری یا سامع کو سمجھ بھی آسکے۔  میں نے تمہاری طبیعت پر بوجھ ڈالا مجھے معاف کردو۔ مجھےیہ کہانی چھیڑنا ہی نہیں چاہئے تھی۔
میں حیرانی سے نانا ابا کی شکل دیکھ رہا تھا۔ نانا ابا وضعدار آدمی تھے۔ غلطی پر ہوتے تو اور بات تھی مگر میں نے انہیں کبھی غلطی کرتے دیکھا نہیں تھا سو کسی سے معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں رضائی سے نکل کر نانا ابا کے پاس پہنچ گیا تھا اور ان کے گالوں کو چوم کر میں نے انہیں یاد دلایا تھا کہ انہیں معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک کہانی غلط ہوگئی تو کیا ؟ وہ مجھے کوئی دوسری کہانی بھی سنا سکتے ہیں۔ نانا ابا نے مجھے بہت زور سے بھینچا تھا اور میری آنکھوں کو چوم لیا تھا۔ یہ ان کا ہمیشہ کا طریق تھا۔ جب وہ مجھ پر بہت لاڈ میں آتے تھے تو میری آنکھوں کو چوم لیتے تھے۔ نانی اماں کہتی تھیں کہ میری آنکھیں بالکل امی کی جیسی تھیں۔ خدا جانے! تو اس رات بھی نانا ابا نے میری آنکھوں کو چوما اور مجھے ایک دوسری کہانی سنانا شروع ہوگئے۔
ایک مرتبہ ایک انسان گھومتا پھرتا در در کی ٹھوکریں کھاتا ایک ایسی جگہ جا نکلتا ہے جہاں وہ جو چاہے سو پا سکتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ وہ وہاں جا کر کس چیز کی خواہش کرتا ہے؟ نانا ابا نے اپنے لہجے میں پراسراریت سموتے ہوئے کہانی کے بیچ میں مجھ سے سوال کیا تھا۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ کس طرح میں نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔ نانا ابا نے شاید میرا جواب جاننے کی زحمت بھی نہیں کی تھی کیونکہ میرے سر ہلانے سے پہلے ہی وہ بولنا شروع ہوگئے تھے کہ وہ انسان بہت زیرک تھا! اس نے حقارت سے ایک نظر وہاں پڑے زر و جواہر و سونا چاندی کو دیکھا اور ان سب کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آپ سے ملنے کی خواہش کردی! معرفتِ ذات والے ملنے کی نہیں! اپنے ہم زاد سے ملنے کی! ایک ایسے انسان سے ملنے کی جو اسے اس ہی طرح برت سکے جس طرح وہ دنیا کو برتتا آیا تھا۔اچھے یا برے سے قطع نظر۔ عین اس کے جیسا!  اس سوال پر اس جگہ کا مالک بہت جزبز ہوا اور اسے ہفت اقلیم دینے کی پیشکش کردی بشرطیکہ وہ خود سے ملنے کی اس خواہش سے باز آجائے کہ ایسا ممکن نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں خود اس کے جیسا کوئی کردار آسکتا ہو۔تم سن رہے ہونا؟ نانا ابا نے کہانی کے بیچ میں میری توجہ ماپنے کے لئے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔ مجھے کہانی کا سر پیر سمجھ نہیں آرہا تھا مگر پھر بھی میں اس وجہ سے کہانی کو توجہ سے سن رہا تھا کہ میں جانتا تھا کہ نانا ابا کی سنائی ہوئی کہانی کا آغاز کیسا ہی ہو وہ اختتام تک پہنچنے سے پہلے بہت مزے کی ہوجاتی تھی۔ میری توجہ اپنی جانب پا کر نانا ابا نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا ہوگا؟  میں نے اس بار نفی میں سر ہلا دیا۔  نانا ابا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولے، وہ شخص ایسا بد دل ہوا کہ اس نے اس جگہ پر تھوکا اور واپس اس جگہ روانہ ہوگیا جہاں تمام مسافر سفر مکمل کرکے آرام کرنے پہنچ جایا کرتے تھے۔
کہانی کو اس موڑ پر پہنچا کر نانا ابا خاموش ہوگئے اور اس بار یہ خاموشی کبھی نہ ختم ہونے والی تھی۔میں اتنا چھوٹا نہیں رہا تھا کہ یہ بات نہ جان سکوں کہ اس قسم کی لایعنی کہانیوں کا مقصد محض مجھ سے جان چھڑانا تھا سو میں نے نانا ابا کوشب بخیر کہا اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ صبح جب میں سو کر اٹھوں گا تو نانا ابا ہمیشہ کے لئے سو چکے ہوں گے۔ آج برسوں بعد یہ کہانی اس لئے یاد آگئی کہ میری بیٹی کو بھی میری ہی طرح کہانیاں سننے کی عادت ہے اور آج جب میں نے کہانی سنانے کے لئے پٹاری میں ہاتھ ڈالا تو وہی خود سے ملاقات والی کہانی میرے ہاتھ میں آگئی۔

آج کی رات بہت عجیب ہے ۔ جیسی عجیب وہ رات تھی یا اس رات میں کچھ عجیب ہوں ۔ یا شاید رات ہوتی ہی عجیب ہے اور میں بھی شروع سے ہی عجیب تھا  اور دراصل آج رات کچھ زیادہ ہی عجیب ہے جومیں  چیزوں کو محسوس کرسکتا ہوں ۔  اصل واقعہ جو کچھ بھی رہا ہو مگر یہ بات طے ہے کہ کچھ نہ کچھ عجیب ضرور ہے۔

3 تبصرے :

  1. Absolutely wonderful, my kids always ask for stories but my knowledge is not much, really appreciate if u can collect and publish all the stories, it will ne sadqa e jaria

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب اور عمدہ تحریر !!! 👍😊👌

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت