ہفتہ، 29 دسمبر، 2018

درندے


اپنی مجروح انا کی تسکین اور لغت پر دسترس  نہ رکھنے کے عیب کو میں نے ہمیشہ یہ سوچ کر تسلی دی ہے کہ طویل افسانے وہ غریب لکھتے ہیں جنہیں کم الفاظ میں مدعا بیان کرنے کا ہنر نہیں آتا۔  میری کہانیوں میں درختوں کے پتے نہیں ہلتے۔  آسمان بس ایک جملے کا آسمان ہوتا ہے اور اس کی منظر نگاری  ایک مکمل  صفحہ نہیں کھا جاتی۔  موسم بس موسم ہوتے ہیں ، استعارے نہیں ہوتے ۔  شاید اس ہی وجہ سے میری تحاریر مختصر اور ادب کے مروجہ قاعدوں کے برخلاف ہیں۔ ان میں مترنم الفاظ کی چاشنی اور فلسفیانہ استعاروں کا گزر نہیں ہوپاتا۔ اور شاید اس ہی وجہ سے انہیں کوئی قاری یا کوئی ناقد گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میری کہانیاں وہ سچی کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر  انسان محض خجل ہی ہو سکتا ہے۔ اردو ادب اور اس کی لطافتوں کے قصیدہ گو ان کہانیوں کو اپنی طبیعت کے لئے بوجھل پاتے ہیں اور اس لئے میرا تخلیق کیا گیا ادب، بے ادبی قرار پاتا ہے۔  اب جیسے اس کہانی کو ہی لے لیجئے۔ آپ احباب کی سہولت کے لئے میں نے اس میں تخیلاتی کردار شامل کر دئیے ہیں تاکہ کہانی مزاجِ لطیف پر گراں گزرے تو آپ ان ایک دو تخیلاتی واقعات کی بنیاد پر پوری کہانی کو ہی تخیلاتی قرار دے کر مصنف پر لعنت بھیجیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں ویسے ہی مگن ہو سکیں جیسے کہ اس کہانی کو پڑھنے سے 
پہلے تھے۔
تو ہوا کچھ یوں کہ کل رات میرے دروازے پر دستک ہوئی ۔ میں نے دروازہ کھولا تو باہر مروجہ انسانی تعریف کی رو سے جانوروں کا ایک غول اکٹھا تھا۔ شیر، چیتے، بھیڑیے، ریچھ وغیرہ تو تھے ہی ساتھ میں سور، کتے اور بلیاں وغیرہ بھی چلی آئی تھیں۔ ظاہر ہے میں اردو زبان کا ایک لکھیک ہوں سو گھر میں اتنی جگہ نہیں رکھتا تھا کہ ان سب کو مدعو کرسکتا سو دروازے سے ہی مدعا دریافت کر لیا۔ ان جانوروں کے بیان کے مطابق انہیں ایک الو نے میرا تعارف بحیثیت ایک مصنف کے کروایا تھا اور وہ اس ہی الو کے پٹھے سے میرا پتہ پوچھ کر یہاں تک پہنچے تھے۔  وہ جانوروں کی طرف سے ہم انسانوں   کو صفائی پیش کرنے آئے تھے  اور چاہتے تھے کہ میں ان کی جانب سے یہ تحریری صفائی لکھ کر چھاپ دوں۔ ان جانوروں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ایک شمالی قصبے حویلیاں  سے آئے تھے جہاں  تین چار دن قبل کوئی انسان اپنی تین سالہ دلہن کو لے کر جنگل کی طرف نکل آیا تھا اور شبِ زفاف منانے کے بعد اپنی اس تین سالہ معصوم کو وہیں جنگل میں خونم خون اور برہنہ چھوڑ گیا تھا۔ ان جانوروں کا کہنا تھا کہ  انسانوں کے نفسیاتی اور جسمانی گھاؤ سے بچ جانے والی وہ تین سال کی کم سن بچی منفی دو درجہ حرارت  سے نہیں بچ پائی تھی اور جم کر مر گئی تھی۔ وہ جانور یہ صفائی پیش کرنا چاہتے تھے کہ اس برہنہ تن بچی پر  کسی سور، کسی کتے، کسی بھیڑیے نے حملہ نہیں کیا  تھا اور نہ ہی اس کا گوشت نوچا تھا۔ لاش ان کے پاس سے صحیح سلامت اٹھی تھی کیونکہ بہرحال وہ انسان نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں لکھ دوں کہ کہ جنگل کے کسی درندے نے  اس برہنہ بچی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جس کو پورے ملبوس میں دیکھ کر بھی کسی مرد کی انسانیت جاگ اٹھی تھی!

1 تبصرہ :

  1. Itny saada sai alfaaz main kitni talkh baat keh gai aaap. Pata nahi konsi mardaangi hai jo is tor poori hoti hai :( ALLAH PAAK HIDAYAT DAI SB KO.

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت