جمعہ، 27 مئی، 2016

حساس


صحیح کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی آزمائش اولاد ہوتی ہے۔ مسلسل مشقت کے بعد اب گھر  آیا ہوں اور عادت سے مجبور ہوکر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ کیا کروں؟ ہم ادیب ہوتے ہی اتنے حساس ہیں کہ معمولی واقعات بھی ہماری طبیعت پر بہت گراں بوجھ ڈال دیتے ہیں اور یہ تو پھر اتنا بڑا سانحہ تھا کہ شاید مجھے اس سے نکلنے میں صدیاں بیت جائیں۔
میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مشہور و معروف ادیب ہوں۔ خدا نے مجھے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے اور اپنے تئیں میں نے بھی اس کا احسان ماننے اور شکرگزاری میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ادیب کی زندگی کی روایتی عسرت میرے ساتھ بھی تھی مگر صبر کا دامن تھامے ہوئے تنکا تنکا جوڑ کر میں نے اپنا مختصر سا آشیانہ بنایا تھا۔  شادی کے آٹھ سال بعد تک خدا نے مجھے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا مگر میں نے اس کی شکرگزاری میں کمی نہیں آنے دی۔ آٹھ سال بعد جب خدا نے علیشہ کو میری زندگی میں بیٹی بنا کر بھیجا تو میں نے ہزارہا نفل شکرانے کے پڑھ ڈالے۔ غرضیکہ زندگی کے کسی موڑ پر میں نے شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا مگر آج تو انتہا ہی ہوگئی۔ خدا میرے ساتھ یہ کیسے کرسکتا ہے ؟   سوچ سوچ کر میرا دل پھٹا جا رہا  ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ آج چند اتفاقات ایک ساتھ ہوگئے۔ پہلا اتفاق یہ ہوا کہ سر میں درد کی وجہ سے میں اپنے رسالے کے دفتر سے جلدی اٹھ کر آگیا۔ دوسرا اتفاق یہ ہوا کہ جب میں گھر پہنچا تو دروازہ کھلا ہوا تھا اور بیگم صاحب پڑوس میں موجود جواد صاحب کی بیگم کو سلائی کے لئے کپڑے دینے گئی ہوئی تھیں۔ میں گھر کے اندر داخل ہوا تو میری چار سالہ بیٹی جو اپنے پلاسٹک کے سوئمنگ پول میں نہانے میں مصروف تھی  مجھے دیکھتے ہی فرطِ جذبات میں اپنا کھیل چھوڑ کر لپک کر میری سمت دوڑ آئی ۔ میں نے اس کا ماتھا چوم کر تولیے سے اس کا بدن پونچھا اور جب میں نے الماری سے نئے کپڑے نکال کر اسے پہنانے چاہے تو مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ علیشہ ، میری بیٹی، میری بیٹی نہیں تھی۔ وہ تو کچھ عجیب سی مخلوق تھی۔  مرد اور عورت کے درمیان۔ نہ مکمل مرد نہ مکمل عورت۔ زنخی! اور تب مجھے احساس ہوا کہ آج تک میری بیوی نے علیشہ کے تمام کام اپنے ذمے کیوں لے رکھے تھے۔ اس کی پیدائش کے فورا بعد میری بیوی کو وہ محلہ کیوں تنگ لگنے لگا تھا اور ہم اٹھ کر کراچی کے دوسرے کونے پر کیوں آباد ہوگئے تھے۔ چار سال میں ایک مرتبہ بھی یہ اتفاق کیوں نہیں ہوا تھا کہ اس کا ڈائپر میرے سامنے بدلا گیا ہو۔ کیوں اس کو نہلاتے وقت وہ خود بھی ساتھ نہانے کا عذر دے کر غسل خانے کا دروازہ بند کرلیا کرتی تھی۔  مگر وہ احمق عورت کب تک اس حقیقت کو مجھ سے چھپا سکتی تھی؟  میرے دماغ میں سوچوں کے جھکڑ چل ہی رہے تھے کہ میری بیوی نے آکر چیل کی طرح علیشہ کو مجھ سے جھپٹ لیا اور میں جھٹکے سے اپنی سوچوں سے باہر آگیا۔
اگلے تین چار گھنٹے ہم دونوں میاں بیوی اس بچی کے مستقبل پر بحث کرتے رہے اور بالآخر میں نے  بیوی کی بات مانتے ہوئے اس بچی کو قتل کرنے کے بجائے ہیجڑوں کے کسی گروہ کے حوالے کرکے یہ علاقہ بھی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ خاندان والوں کے سوالات کی ہمیں پرواہ نہیں تھی کہ ویسے بھی میری زبان کی وجہ سے اب خاندان میں کسی سے میل ملاپ باقی رہا نہیں تھا۔ بچی کو لے کر جانے میں البتہ ایک دشواری تھی کہ دن کی روشنی میں ہیجڑوں کے  محلے میں جانے کا کام میرے لئے ممکن نہیں تھا اس لئے رات ہونے کا انتظار کیا گیا اور جب یقین ہوگیا کہ اب دیکھنے والی خدا کے علاوہ کوئی ذات نہیں بچی تو میں علیشہ کو لے کر نکل پڑا۔
تھوڑی ہی دیر میں میں کالونی گیٹ کے قبرستان  پر موجود تھا کہ جس کے پیچھے زنخوں کا محلہ آباد تھا۔ گاڑی سے اتر کر میں نے علیشہ کا ہاتھ تھاما اور قبرستان سے گزر کر اس محلے کی جانب روانہ ہوگیا۔ علیشہ جو اب تک خاموشی سے میرے ساتھ آئی تھی اب اپنے روایتی موڈ میں آچکی تھی اور پے در پے سوالات داغ رہی تھی۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ بابا ! ہم کہاں جارے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہم ایک اچھی جگہ جارہے ہیں جہاں اسے کھانے کی مزے مزے کی چیزیں ملیں گی۔ بہت سارے کھلونے ہوں گے۔ کھلونوں کا سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی ۔ وہ خوش ہوکر بولی، بابا! ممی کیلئے بھی کھلونے؟ میں نے کہا ہاں بیٹا ممی کے لئے بھی کھلونے لیں گے۔ اس نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور میری طرف دیکھ کر بولی، بابا اچھے! بابا لو یو! بابا کیلئے بھی کھلونے ! اس وقت میرا دل کیا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے اپنے آپ سے شدید گھن محسوس ہورہی تھی کہ ایک زنخے نے میرا ہاتھ تھام رکھا ہے اور آگے چل کر زندگی میں کبھی اسے یہ خیال آگیا تو یہ مجھے ڈھونڈ کر خوب نام روشن کرے گا۔
ہم ہیجڑوں کے محلے کے قریب ہی پہنچ چکے تھے اور قبرستان ختم ہونے والا تھا۔ میں نے اپنے قدم وہیں روک دیئے اور اپنا ہاتھ اس ہیجڑے کے ہاتھ سے چھڑا کر اس کی گردن پر رکھ دیا اور مسلسل دباؤ دیتا چلا گیا۔ اگلے دو گھنٹے کی محنت اور گورکن کو دیئے گئے بیس ہزار روپیوں کی بدولت لاش ایک قبر میں تبدیل ہوچکی تھی۔

صحیح کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی آزمائش اولاد ہوتی ہے۔ مسلسل مشقت کے بعد اب گھر  آیا ہوں اور عادت سے مجبور ہوکر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ کیا کروں؟ ہم ادیب ہوتے ہی اتنے حساس ہیں کہ معمولی واقعات بھی ہماری طبیعت پر بہت گراں بوجھ ڈال دیتے ہیں اور یہ تو پھر اتنا بڑا سانحہ تھا کہ شاید مجھے اس سے نکلنے میں صدیاں بیت جائیں۔ خدا میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے؟

5 تبصرے :

بلاگ فالوورز

آمدورفت