اتوار، 23 اپریل، 2017

شناخت - مکمل ناول

شناخت
مصنف: سید عاطف علی

اس کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف پیشگی معذرت چاہتا ہے۔ نیز اس تحریر کا مقصد کسی بھی فرد، ادارے یا تنظیم کی دل شکنی یا تضحیک نہیں۔ اگر کسی بھی فریق کی اس تحریر سے دل شکنی ہوتی ہے تو ازراہِ کرم مطلع کرے تاکہ ناول کا وہ حصہ ہذف کیا جا سکے۔)


ڈھاکہ

جب وہ ڈھاکہ کے اس رفیوجی کیمپ میں پہنچا تو اس کی عمر فقط تین سال تھی۔ وہ کون تھا، اس کا نام کیا تھا، وہ کہاں سے آیا تھا، ان سب سوالوں کے جواب وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کیمپ کی اگلی اٹھارہ سالہ زندگی میں بھی اس کی کوئی باقاعدہ شناخت نہیں بن پائی اور یہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا۔ کیمپ کے ان اٹھارہ برسوں میں اس کی پہچان صرف "اوئے سالے" کے نام سے تھی کہ ہر کوئی اس کو اس ہی نام سے پکارتا تھا اور وہ غریب یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ یہی اس کا اصل نام ہے۔
یہ کیمپ ان حرماں نصیب لوگوں کا تھا جنہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پاکستانی شناخت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بیچارے سمجھتے تھے کہ کسی دن پاکستانی طیارے آئیں گے اور انہیں عروس البلاد کراچی لے جائیں گے جس کی سڑکوں پر ان دنوں سونا پڑا ہوتا تھا۔ مگر ہر چھوٹے آدمی کے بڑے خواب کی طرح یہ خواب بھی صرف خواب ہی رہ گیا تھا۔ اب وہ بیچارے "نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم" کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ پاکستان انہیں اپنانے کو تیار نہ تھا اور بنگالی انہیں غدار سمجھ کر ویسے ہی نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
اوئے سالے یہ سب نہیں جانتا تھا، اسے تو بس اتنا پتہ تھا کہ بہت دور ایک پوکستان نامی ملک ہے جہاں اس کی ایک باعزت شناخت ہے اور جہاں اسے اوئے سالے نہیں بلکہ اوئے سالے ساب کہہ کر پکارا جائے گا۔ پاکستان جانا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرتا اور رات گئے ان ہزار بار گنے ہوئے سکوں اور نوٹوں کو دوبارہ گنتے ہوئے سو جاتا تھا جو وہ پوکستان جانے کیلئے جوڑ رہا تھا۔ پچھلے سات سال سے وہ ہر سال اس ٹریول ایجنٹ کے پاس جاتا رہا تھا جو لوگو کو دنیا بھر میں غیر قانونی طریقے سے بھجوانے کا کام کرتا تھا۔ ہر سال اس کی منزل تک پہنچنے کا خرچہ اس کی جمع پونجی سے کچھ اوپر ہی نکل جاتا تھا اور وہ ہر سال، اگلے سال زیادہ محنت کرکے زیادہ پیسے جمع کرنے کا عزم لے کر لوٹ آتا۔
دن بھر مشقت کر کے اس دن جب وہ گھر پہنچا تو اس کی جیب میں ستر ٹکے تھے۔ یہ ستر ٹکہ اور گذشتہ سات سال کی جمع پونجی ملا کر وہ نوے ہزار تین سو تیس ٹکہ جمع کر چکا تھا۔ اسے ٹریول ایجنٹ کا وہ جملہ یاد تھا "اوئے سالے زوب تک نو وے ہجار ٹوکہ زمع نہ کرلے امار آفس می نی آنا" ۔ اور اب اس کے پاس نوے ہزار ٹکے جمع ہو چکے تھے مگر وہ جانتا تھا کہ اس مرتبہ پھر اسے ایک نیا ہدف دے کر واپس بھیج دیا جائے گا۔
رات بھر وہ ٹھیک سے سو نہیں پایا، کبھی وہ خواب دیکھتا کہ پاکستان ایک گھر ہے جس کے دروازے پر وہ کھڑا ہے مگر کوئی دروازہ نہیں کھول رہا، کبھی وہ دیکھتا کہ وہ کراچی پہنجا ہے اور یہاں سب اس کی آئو بھگت کر رہے ہیں، اس کا ایک شاندار بنگلہ ہے جس کے باہر اوئے سالے صاحب کی تختی لگی ہے۔ بار بار اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ پھر صبح کا تصوّر کرتے ہوئے سو جاتا۔ خیال و خواب کی یہ آنکھ مچولی صبح تک جاری رہی۔ صبح ہوتے ہی وہ ٹریول ایجنٹ کے دفتر جا پہنجا جہاں خلافِ توقع آج اتنا رش نہیں تھا۔ جیب میں پیسوں کو ٹٹولتا ہوا وہ سیدھا عبدالحق کے کائونٹر پر جا پہنچا۔ آج عبدالحق کے تیور کچھ بدلے ہوئے تھے، اس نے اوئے سالے کو کرسی بھی پیش کی اور چائے کا بھی پوچھا۔ اوئے سالے خود سے مدعے پر آتے ہوئے ڈر رہا تھا سو اس نے ادھر ادھر کی باتوں سے گفتگو کا آغٖاز کر دیا۔ عبدالحق کام کی صورتحال سے بہت پریشان تھا۔ پچھلے ایک سال سے لوگوں نے غیرقانونی طور پر پاکستان اور انڈیا جانا کم کردیا تھا کہ اب خود بنگلہ دیش میں کام کی صورتحال بہتر ہوگئی تھی اور اس سب سے عبدالحق کا دھندہ شدید متاثر ہوا تھا۔ طلب اور رسد کا فرق دیکھتے ہوئے اب اس نے دام بھی گھٹا دیئے تھے مگر یہ چیز بھی لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔ کام کی خراب صورتحال کا سن کر اوئے سالے کچھ پر امید ہوگیا تھا۔ اس نے ہمت جمع کرکے عبدالحق سے پوچھ ہی لیا کہ " بھائی زون! اس وقت پوکستان جونے کے کتنے پیسے لوگیں گے؟" عبدالحق نے بتایا کہ ویسے تو خرچہ اسی ہزار کا ہے مگر ڈسکائونٹ آفر میں وہ اسے ستر ہزار میں بھی پاکستان پہنچا دے گا۔ اوئے سالے کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے بے ساختہ عبدالحق کا ماتھا چوم لیا۔ اب اسے اوئے سالے ساب بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس نے ستر ہزار نقد گن کر عبدالحق کے ہاتھ پر رکھے اور ایک ہفتے بعد روانگی کی تاریخ پکی کر کے واپس کیمپ آگیا۔
آج اس کی چال ڈھال سب تبدیل ہوگئی تھی۔ اردگرد کے وہ تمام لوگ جن کو وہ اپنے سائکل رکشہ میں بٹھا کر کھینچتا آیا تھا، لالہ رام پرساد جن کا محل کیمپ کے بالکل سامنے تھا، کیمپ کے وہ تمام بوڑھے جو بڑے عزت دار بنتے تھے، آج اس کے سامنے سب ہیچ تھے۔ آج اس کے پاس وہ چیز تھی جو ان میں سے کسی کے پاس نہیں تھی، پاکستان کا ٹکٹ!!!
کیمپ میں جب لوگوں کو خبر ہوئی کے اوئے سالے پاکستان جا رہا ہے تو کیمپ میں ایک عجیب سا ماحول پیدا ہوگیا۔ کوئی اس کے پاکستان جانے سے خوش تھا تو کوئی اس بات پر اداس کہ اوئے سالے کی جگہ وہ خود کیوں نہیں جارہا۔ مولوی صاحب یہ کہہ کر دل کو تسلی دے رہے تھے کہ یہ حرام طریقے سے جا رہا ہے اور انشاءاللہ مرنے کے بعد جہنم میں جائے گا، مشہود بھائی دوستوں سے کہتے پھر رہے تھے کہ میں تو لعنت بھیجتا ہوں، جانا ہوتا تو میں نہیں جا سکتا تھا؟ یہ کل کا لڑکا جا سکتا تو میں، مشہود، یعنی میں نہیں جا سکتا تھا؟ ہنہ!!
مگر ایک بات سب جانتے تھے، دل کے کسی نہ کسی گوشے میں ان سب کی یہی خواہش تھی کہ کاش اوئے سالے کے ساتھ یا اس کی جگہ ہم پاکستان چلے جائیں۔ جہاں انہیں عزت ملے، شناخت ملے، جہاں سڑکوں پر سونا پڑا ہوتا ہے، جہاں لوگو کو رنگ گورا کرنے کیلئے کریم نہیں لگانی پڑتی، جہاں رکشہ انسان نہیں مشین کھینچتی ہے۔ وہ سب اس کو ایسی حسرت و عقیدت سے دیکھتے جیسے وہ حج کرنے جا رہا ہو۔ اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جس دن اوئے سالے نے پاکستان کیلئے روانہ ہونا تھا۔
کیمپ میں آج صبح سے ہی بڑی رونق تھی۔ آج پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا تھا کہ ان میں سے کسی کے خواب کو تعبیر ملی ہو۔ وہ فرداّ فرداّ ہر شخص سے رخصت لے رہا تھا۔ یہ رخصت کا معاملہ بھی عجیب ہے، رخصت عارضی ہو یا مستقل، اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے اور آنے والی ساری عمر جب بھی کسی شخص کی یاد آتی ہے تو اس کے ساتھ گذرے ہوئے لمحوں سے پہلے یہ رخصت کا لمحہ آکر سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور اکثر یہ اتنا توانا اور مضبوط ہوتا ہے کہ یادوں کہ جھروکوں پر جب آن کھڑا ہو تو دوسری کیسی یاد کے اندر داخل ہونے کی جگہ ہی نہیں بچتی۔ مبارک باد کے شور اور اس کے اندر چھپی ہوئی اپنا خواب دوسرے کیلئے پورا ہوتے دیکھنے کی سسکیوں میں وہ کیمپ سے روانہ ہوگیا۔

سمندر
عبدالحق اپنے آفس پر اس کا منتظر تھا۔ اوئے سالے سوچ رہا تھا کہ لوگو کا ایک ہجوم ہوگا مگر یہاں پہنچ کر اسے پتہ چلا کہ پاکستان کے اس سفر میں وہ اکیلا تھا۔ عبدالحق نے اسے لانچ میں سوار کرکے الوداع کہا اور واپس کسی نئے اوئے سالے کی تلاش میں روانہ ہوگیا۔ لانچ نے اسکو خلیج بنگال میں کھڑے ایک جہاز پر منتقل کر دیا جہاں بہت سے مسافر اس سے پہلے بھی موجود تھے۔ جہاز کچھ دیر اور کھڑا رہا اور مزید مسافروں کا انتظار کرتا رہا مگر دور دور تک کسی کشتی کے آثار نہ دیکھتے ہوئے کپتان نے جہاز کو چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاز کا بھونپو بجا اور تمام لنگر اٹھا لیئے گئے۔ سمندر کے سینے کو چیرتے ہوئے یہ جہاز اوئے سالے کو اس کی خوابوں کی نگری کی طرف لیکر چل پڑا۔
ایک آدھ گھنٹا تو جہاز پر اس کو کمرا ڈھونڈنے اور پھر اس کمرے کو ترتیب دینے میں گزر گیا۔ کمرہ ترتیب دینے کے بعد وہ عرشے پر آگیا اور لوگوں میں گھل مل گیا۔ یہ جہاز اس کی طرح کے ان لوگوں کیلئے تھا جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے اپنے گھروں کو چھوڑ نکلے تھے۔ کسی کی منزل کلکتہ تھی تو کوئی ممبئی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ کسی نے دبئی جانا تھا تو کوئی پاکستان کے راستے زمینی سفر طےکرتے ہوئے اپنی منزل یورپ میں دیکھ رہا تھا۔ اوئے سالے کیلئے اتنے سارے نئے لوگوں سے ایک ساتھ ملنا بہت خوش کن تھا۔ اسے ہمیشہ ہی سے نئے لوگوں سے ملاقات کا شوق تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ زندگی میں سیکھنے کیلئے ملاقات بہت ضروری ہے۔ ہر نیا شخص اپنے ساتھ ایک نئی کہانی رکھتا ہے اور ہر نئی کہانی میں سننے والے کیلئے ایک نیا سبق ہوتا ہے۔
مختلف لوگوں سے ملتا ملاتا وہ جہاز کے عرشے پر گھوم رہا تھا کہ اس کی نظر کونے میں بیٹھے ایک بوڑھے پر پڑی جو جہاز کے عملے کی وردی میں ملبوس تھا۔ اوئے سالے نے محسوس کیا کہ وہ شخص کافی دیر سے سمندر میں کسی نادیدہ چیز کو گھور رہا ہے۔ کبھی زیرِ لب بڑبڑاتا ہے، کبھی مسکراتا ہے، اور کبھی اچانک اس کے چہرے پر ایک گہری سنجیدگی طاری ہوجاتی ہے۔ کسی عام آدمی کیلئے وہ بوڑھا شاید مکمل پاگل ہوتا مگر اوئے سالے عمر کے جس حصے میں تھا اس میں ہر مختلف چیز میں ایک پراسراریت اور ہر پراسراریت میں ایک گہری کشش ہوتی ہے۔ اس ہی کشش نے اوئے سالے کو مجبور کردیا کہ وہ اس بوڑھے سے جاکر بات کرے۔ وہ دھیمے قدموں سے چلتا ہوا اس بوڑھے کے پاس پہنچ گیا اور اس کے برابر میں جا بیٹھا۔ بوڑھے نے اس کی طرف نگاہ کی گویا اپنے پسندیدہ کھیل میں رکاوٹ ڈالنے پر شکایت کر رہا ہو مگر کچھ بولا نہیں۔ کچھ دیر تک تو اوئے سالے اس بوڑھے کی حرکات کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا مگر جلد ہی وہ اس کوشش سے بیزار ہوگیا۔ اس نے بوڑھے سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرا نام اوئے سالے ہے!!! بوڑھے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور بولا، مجھے خوشی ہے کہ انسانوں نے اپنے اصل ناموں سے اپنی شناخت کروانا شروع کردی ہے۔ میرا نام فرعون ہے!!! فرعون؟ مگر وہ تو بہت برا آدمی تھا اوئے سالے کو بولنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ کچھ غلط بول گیا ہے بوڑھا اب اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا گویا پرکھنے کی کوشش کررہا ہو۔ ایسا میں نہیں، مسجد کے امام صاحب کہتے ہیں کہ فرعون بہت برا آدمی تھا، اوئے سالے نے جلدی سے وضاحت پیش کی۔ بوڑھے نے ایک مرتبہ پھر اپنی نگاہیں سمندر میں موجود اس نادیدہ چیز پر مرکوز کردیں اور بولا، سب سے پہلا جھوٹ جو ہم کسی سے بولتے ہیں وہ ہمارا نام ہوتا ہے۔ ہمارا نام اس لیئے رکھا جاتا ہے کہ یہ ہماری پہچان بنے۔ ہم سب سے پہلے بچپن کی دی گئی اس شناخت کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ ماں باپ بہت امید سے بیٹے کا نام عبدالرزاق رکھتے ہیں کہ شاید یہ رزق دینے والے اصل مالک کا غلام بنے گا۔ بڑا ہوکر یہ عبدالرزاق بیچارہ عبدالرزق بن کر رہ جاتا ہے اور رزاق کے بجائے رزق کی غلامی مٰیں عمر بسر کرتا ہے۔ کسی غریب کا نام بچپن سے عبدالحق رکھا جاتا ہے کہ یہ ساری عمر حق کا بندہ بن کے رہے گا۔ بیچارے کے والدین اگر زندہ رہیں تو اس کی حرکتیں دیکھ کر نام تبدیل کردیں اور عبدالحق سے عبدالنفس کہلائے۔ اس ہی طرح میرا نام بچپن میں مشکور حسین رکھا گیا تھا، مگر عمر کے اس حصے میں آکر مجھے اندازہ ہوا کہ میرا اصل نام فرعون ہونا چاہیئے۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالو تمہیں بہت سے بھیڑیئے، عبدالنفس، فرعون، نمرود، یزید وغیرہ نام بدل کر گھومتے دکھائی دیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنا اصل نام مجھے بتایا۔ رات کو اس ہی جگہ عرشے پر آنا، میرے پاس تمہیں دینے کیلئے کچھ ہے۔ بوڑھے کے خاموش ہونے کے کافی دیر بعد تک وہ بیٹھا اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے کئی مرتبہ اس بوڑھے کو دیکھا مگر ایسا لگتا تھا کہ بوڑھے کو اب اس کی موجودگی کی خبر تک نہیں تھی۔ وہ واپس سمندر کی اس نادیدہ چیز کے ساتھ مصروف ہوچکا تھا۔
وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا اور زیادہ وقت اس بوڑھے اور اس کی باتوں کے بارے مٰیں سوچتا رہا۔ شاید وہ بوڑھا صحیح تھا۔ اس نے زندگی کے اس پہلو کو پہلی مرتبہ اس نظریے سے دیکھا تھا اور اب وہ بوڑھے کی اس سوچ سے متفق تھا۔ رات ہوتے ہی وہ عرشے پر جا پہنچا۔ بوڑھا اس ہی جگہ موجود تھا اور تمباکو سے شغل کررہا تھا۔ اوئے سالے خاموشی سے جاکر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ بوڑھے نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور سگار کا پیکٹ اس کی جانب بڑھا دیا۔ اوئے سالے نے شکریے کے ساتھ ایک سگار نکال کر سلگا لیا اور اب دونوں اپنے سامنے پھیلے اس تاحدِ نظر اندھیرے کو دیکھنے لگے۔
تم جانتے ہو تم کہاں جارہے ہو؟ بوڑھے نے خاموشی کو توڑتے ہوئے اس سے سوال کیا۔ جی! اوئے سالے نے جان بوجھ کر مختصر جواب پر اکتفا کیا۔ بوڑھے کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ جب وہ بولا تو اس کی آواز میں ایک خوشی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ میری ملاقات کسی ایسے انسان سے ہوئی جو جانتا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ ورنہ تو ہم میں سے ہر ایک محض یہ سمجھتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کہاں جارہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ تم اچھے لڑکے ہو، خدا کرے کہ ان "گرگ باراں دیدہ" سے بچ پائو۔ ایک مرتبہ پھر اوئے سالے احمقوں کی طرح اس بوڑھے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جملے کا پہلا حصہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور دوسرے حصے میں اس بوڑھے نے جو عجیب سی زبان استعمال کی تھی وہ اوئے سالے کیلئے یکسر نئی تھی۔ وہ بچپن سے ہندوستانی فلمیں دیکھتا رہا تھا اور ہندی اور اردو کے بہت سارے الفاظ اسے پتہ تھے۔ یہ الفاظ مگر اس کیلئے یکسر نئے تھے۔ بوڑھا اس کی پریشانی بھانپ چکا تھا۔ اس نے کہا کہ "گرگ باراں دیدہ" فارسی کا ایک محاورہ ہے جس میں گرگ بھیڑیئے کو کہتے ہیں جبکہ باراں بارش کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ لفظی ترجمے کے طور پر گرگ باراں دیدہ کا مطلب ہوتا ہے وہ بھیڑیا جس نے بارش دیکھ لی ہو۔ اوئے سالے خاموشی سے اس بوڑھے کی گفتگو سن رہا تھا۔ بوڑھے کو مگر اس سے غرض نہیں تھی کہ وہ یہ باتیں سمجھ بھی پا رہا ہے یا نہیں۔ وہ اپنی ہی دھن میں بولتا جا رہا تھا۔
ایران میں یہ حکایت ہے کہ جب بارش بہت تیز اور مسلسل ہوتی ہے تو چھوٹے جانور اور پرندے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے اس طرح دبک کر بیٹھنے کی وجہ سے جنگل کے درندوں کیلئے شکار ختم ہوجاتا ہے۔ ہر گوشت خور اس عارضی قحط کا علاج اپنے طور پر کرتا ہے مگر بھیڑیوں کے پاس اس چیز کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ جب وہ شکار کی تلاش سے تھک جاتے ہیں تو سارے بھوکے بھیڑیے ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ حلقہ تعداد میں کبھی معیًن نہیں ہوتا۔ یہ دس، بیس، سو یا جتنے بھی بھیڑیے ہیں، ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ بھوک اور کچھ مسلسل چوکس بیٹھنے کی تھکن سے کچھ ہی گھنٹوں میں کسی ایک بھیڑیے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اس کے آنکھیں موندتے ہی باقی تمام بھیڑیے اس پر پل پڑتے ہیں اور اس کو نوچ نوچ کر کھالیتے ہیں۔ کہنے کو بھوک مٹنے کے بعد اس حلقے کی ضرورت ختم ہوجانی چاہیئے مگر یہ قدرت کا قانون ہے کہ ظالم اکثر اپنے ہی اس ظلم کا نشانہ بنتا ہے جو اس نے کسی وقت کسی اور کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پہلے بھیڑیے کو کھانے کے بعد باقی تمام بھیڑیے دوبارہ اس ہی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گرگ باراں دیدہ کا پورا حلقہ نہ ختم ہوجائے اور آخر میں صرف ایک بھیڑیا نہ بچ جائے۔ اس آخری بھیڑیے کو گرگ باراں دیدہ کہتے ہیں۔
مگر آپ نے تو کہا تھا قدرت کا قانون ہے کہ ظالم اپنے ہی ظلم کا نشانہ بنتا ہے، تو یہ آخری بھیڑیا جو کہیں نہ کہیں اس ظلم میں بالواسطہ اور آخر میں بلاواسطہ خود شریک تھا، وہ کیوں زندہ بچ جاتا ہے؟ بوڑھے کے خاموش ہوتے ہی اوئے سالے پوچھ بیٹھا۔ بوڑھے نے کھوئی ہوئی آواز میں جواب دیا، وہ اس لیئے زندہ بچ جاتا ہے تاکہ اگلی بارش میں کسی اور گرگ باراں دیدہ کا نوالہ بن سکے۔ یہ کہہ کر بوڑھے نے ایک امید بھری نگاہ کی اور بولا، ایک بات یاد رکھنا لڑکے!! یہ حکایت صرف بھیڑیوں تک محدود نہیں ہے۔ بھیڑیے بیچارے چونکہ میڈیا پر نہیں آتے اس لیئے وہ بدنام ہوگئے ورنہ گرگ باراں دیدہ بھیڑیوں سے زیادہ انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ خیر، خدا تم پر رحم کرے! جہاں تم جارہے ہو وہاں بارش بھی بہت تیز ہوتی ہے اور بھیڑیے بھی بہت ہیں، خدا تمہاری حفاظت کرے۔ بوڑھا یہ کہہ کر اٹھا اور دوسری سمت چل پڑا۔
اوئے سالے نے بھاگ کر اس کو جالیا اور کہا، آپ شاید بھول رہے ہیں مگر آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے کچھ دینا چاہتے ہیں؟ بوڑھے نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور بولا، انسان کے پاس دینے کیلئے سب سے قیمتی تین ہی چیزیں ہیں، ایک اپنا نام جو وہ صرف اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ دوسری نصیحت جو وہ اپنے مخلص رشتوں کیلئے سنبھال کر رکھتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم چیز اس کا وقت ہے۔ کسی کو بھی دی ہوئی چیزوں میں سب سے قیمتی چیز انسان کا وقت ہے اور انسان کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اس چیز کی قیمت سب سے کم لگاتا ہے جو چیز سب سے زیادہ انمول ہوتی ہے۔ کسی کا دیا ہوا پیسہ، مشورہ، خلوص غرض ہر چیز گھوم کر اس کے پاس واپس آسکتی ہے سوائے اس وقت کے جو کسی نے تمہارے لیئے خرچ کر دیا۔ اب تم چاہے ساری عمر اس شخص کے ساتھ لگا دو مگر وہ سب ایک نیا حساب ہوگا، شاید تم اس سے بہتر یا اس جیسا وقت اسے لوٹا بھی دو، مگر "وہ" وقت تم اسے کبھی نہیں لوٹا سکتے جو اس نے تم پر صرف کردیا؛ یاد رکھنا۔ بوڑھے نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اوئے سالے نے محسوس کیا کہ اس کے منہ پر پانی کی دو بوندیں گری ہے۔ اس پوری ملاقات کے دوران پہلی مرتبہ وہ کسی بات کا جواب جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے چہرے پر گرنے والا یہ آنسو اس کا اپنا نہیں تھا۔ بوڑھا لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ دوبارہ کبھی نہ دکھنے کیلئے۔







کراچی

ہندوستان کے مختلف شہروں پر رکتا رکاتا یہ جہاز بالآخر تین دن بعد کراچی پہنچ گیا۔ ان تین دنوں میں شروع شروع تو وہ اس بوڑھے کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا مگر بالآخر تنگ آکر اس نے اپنی تلاش ترک کردی۔ اب وہ دن بھر بیٹھ کر مستقبل کے منصوبے بناتا رہتا کہ وہ کس طرح کراچی جاکر لالہ رام پرساد سے بھی بڑا محل بنائے گا اور پھر کیمپ والوں کو یہاں سے تصویریں بھیج کر دکھائے گا کہ وہ کتنا بڑا آدمی بن گیا ہے۔ لالہ رام پرساد وہ مہاجن تھا جس کا محل نما بنگلہ ان کے مہاجر کیمپ کے سامنے تھا اور کیمپ کی زبان میں امیری کی انتہا کی اصطلاح لالہ رام پرساد ہونا تھی۔ الغرض ان ہی حسین تصورات میں وقت کا پتہ بھی نہ چلا اور وہ اب کراچی پہنچ گیا تھا۔
جہاز کے کپتان نے خدا معلوم امیگریشن حکام سے کیا بات کی مگر اگلے آدھے گھنٹے میں اوئے سالے کیماڑی کی بندرگاہ سے باہر آرہا تھا۔ پہلے تو اسے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا مگر دو تین لوگوں سے استفسار کرنے پر جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ واقعی کراچی پہنچ گیا ہے تو وہ فٹ پاتھ پر ہی سجدہ ریز ہوگیا۔ سجدے سے اٹھا تو پہلا سوال اب رہائش کا تھا۔ اس کے پاس اب بھی کچھ روپیئے موجود تھے جو وہ ڈھاکہ سے ٹکے تبدیل کر کے لایا تھا مگر فی الحال اس کا انہیں خرچ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کراچی کی سڑکوں پر پڑے ہوئے سونے میں سے کچھ اٹھا لے مگر سڑک پر سوائے پان کی پیک کے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سونے کی تلاش میں بندرگاہ سے نکل کر نیٹی جیٹی اور پھر چندریگر روڈ تک پہنچ گیا مگر سونے کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس نے سوچا کسی مقامی سے اس معاملے میں مدد لی جائے، شاید کوئی مخصوص جگہ ہو جہاں یہ سونا پایا جاتا ہو۔
پہلے راہگیر نے اس کے سوال پر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بغیر کچھ بولے آگے چلا گیا۔ اور دوسرے راہگیر سے جب اس نے پوچھا کہ بھائی سونا کہاں ہے؟ تو اس کا کہنا تھا کہ جہاں مرضی سوجائو بھائی! اوئے سالے نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس سونے کی بات کررہا ہے جس سے زیور بنتے ہیں، جس کے جواب میں اس راہگیر کے قہقہوں نے اسے سمجھا دیا کہ یہ سڑک پر پایا جانے والا سونا صرف افسانوں میں ملتا ہے۔
مایوسی تو خیر شدید ہوئی مگر اوئے سالے کیلئے اس سونے سے زیادہ ایک قیمتی چیز تھی جو یہ شہر اور ملک اسے دے سکتا تھا تھا، اس کی شناخت! اور اس شناخت کی خاطر وہ ساری دنیا کا سونا قربان کرسکتا تھا۔ وہ اب خاموشی سے جا کر ایک کثیر منزلہ عمارت کے نیچے بہت سارے دیگر لوگوں کی طرح سو گیا۔
صبح چوکیدار کی لات نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا تو سورج نکل آیا تھا اور عمارت کا چوکیدار ان تمام لوگوں کو ٹھڈے مارنے میں مصروف تھا جو کسی رہائش کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے رات گئے اس عمارت کے وسیع و عریض چبوترے پر آکر پڑ رہتے تھے۔ آنکھ کھلی تو کچھ حواس بحال ہوئے اور اس نے جلدی سے اپنے سامان کی صندوقچی پر نظر کی جو خوش قسمتی سے وہیں موجود تھی۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ پاکستان کے بارے میں ساری باتیں غلط ثابت نہیں ہوئی تھیں، یہاں واقعی ایمان دار لوگ بستے تھے۔ اس نے صندقچی اٹھائی اور وہاں سے چل پڑا۔ راستے میں ایک پٹھان کے ہوٹل پر رک کر اس نے ناشتے کا آرڈر دیا اور قریبی میز پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس کے سامنے اب صرف ایک منزل تھی، اس کی شناخت۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ شناخت کیسے اور کہاں ملتی ہے۔
میز پر ایک نوجوان اس سے پہلے سے بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اوئے سالے نے اس سے مدد لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے گلا کھکار کر اس نوجوان کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس سے پوچھ بیٹھا کہ 'بوئی سوب، ام کو شنوخت چائیے، کیدھور سے ملے گا؟" نوجوان نے اخبار سے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور رکھائی سے بولا، شناختی کارڈ چاہیئے تو نادرا کے آفس جائو۔ اوئے سالے کیلئے یہ ایک عجیب اطلاع تھی۔ نادرہ پاکستان کب آئی؟ اور وہ یہاں اتنی بڑی چیز ہوگئی کہ اب لوگوں کو شناخت وہ دیتی ہے؟ اس کا اپنا دفتر بھی ہے؟ بہت سارے سوالات میں سے وہ صرف یہ پوچھ سکا کہ نادرہ کا دفتر کہاں ہے؟ نوجوان نے اسے بتایا کہ پیچھے دو ہی گلیاں چھوڑ کر نادرا کا دفتر ہے۔ گفتگو کے دوران ناشتہ آچکا تھا سو اوئے سالے نے جلدی جلدی ناشتہ زہر مار کیا اور نوجوان کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ استقبالیہ پر شناختی کارڈ کی فیس جمع کروائی اور اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ جب اس کا ٹوکن نمبر پکارا گیا تو وہ بتائے گئے کائونٹر پر پہنچ گیا۔ کائونٹر پر موجود خاتون نے سب سے پہلے "ب" فارم کا تقاضہ کر دیا۔ اوئے سالے نہیں جانتا تھا کہ یہ ب فارم کیا ہوتا ہے۔ اس نے خاتون کو بتا دیا کہ اس کے پاس کوئی فارم موجود نہیں ہے۔ خاتون نے کہا کہ پہلے ب فارم بنوائو پھر اسکے بعد شناختی کارڈ بنوانے آنا۔ اوئے سالے نے اس سے پوچھا کہ یہ ب فارم کہاں سے بنے گا؟ خاتون نے بتایا کہ اپنا پیدائش کا سرٹیفیکیٹ لے آئو، ب فارم بھی یہیں سے بن جائے گا۔ اوئے سالے نے سر کھجاتے ہوئے شرمندگی سے خاتون کو بتایا کہ وہ اس سرٹیفیکٹ کے بارے میں پہلی بار سن رہا ہے۔ خاتون اب اوئے سالے سے بیزار آچکی تھی۔ اس نے رکھائی سے اسے کہا کہ اپنی جائے پیدائش کی یونین کونسل کے دفتر سے پہلے پیدائش کا سرٹیفیکٹ بنوائو اور پھر یہیں نادرا کے دفتر سے آکر ب فارم اور پھر شناختی کارڈ بنوانا۔ اوئے سالے کو اندازہ ہوچکا تھا کہ خاتون اب تقریبا غصہ ہوچکی ہے مگر پھر بھی اس نے پوچھ ہی لیا کہ آیا وہ خاتون اس کی پیدائش کی یونین کونسل کا پتہ بتا سکتی ہیں؟ تم پیدا کس جگہ ہوئے تھے؟ خاتون نے ضبط کر کے پوچھا۔ ڈھاکہ! اوئے سالے نے جواب دیا۔ ڈھاکہ کا نام سنتے ہی عورت کے تیور ایک دم تبدیل ہوگئے۔ وہ تقریباٗ چنگھاڑتے ہوئے بولی، تو اتنی دیر سے یہاں کیوں وقت برباد کررہے ہو؟ جائو نارا کے دفتر سے جا کر اپنا شناختی کارڈ بنوائو۔ اوئے سالے نے گھبرا کر کائونٹر چھوڑا اور مزید خفت سے بچنے کیلئے دفتر میں کسی اور سے بات کرنے کے بجائے باہر آکر چوکیدار سے نارا کے دفتر کا پتہ سمجھا اور بتائے ہوئے پتے کی سمت چل دیا۔
نارا کے دفتر پر ایک طویل قطار اس کی منتظر تھی۔ وہ بھی خاموشی سے اس قطار کا حصہ بن گیا۔ قطار بہت آہستگی سے چل رہی تھی۔ قطار میں کھڑے کھڑے جب اکتاہٹ ہونے لگی تو اوئے سالے نے اردگرد کھڑے لوگوں کا مشاہدہ شروع کردیا۔ اس کیلئے یہ بات بہت حیرت ناک تھی کہ اس پوری قطار میں صرف وہ واحد تھا جو افغان نہیں تھا۔ وہ ابھی اس کی وجہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ پیچھے کھڑے افغان نے اس کندھا ہلایا۔ وہ پیچھے مڑا تو افغان نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پشتو زدہ لہجے میں سوال داغ دیا، مانڑا، تم اتنا کالا کیسی ہو گئی؟ اوئے سالے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس بات کا کیا جواب دے۔ واضح طور پر وہ بیچارہ افغان اسے اپنے ہی جیسا کوئی افغان سمجھا تھا اور وہ غریب یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ افغان اتنا کالا کیسا ہوگیا۔ اوئے سالے نے جھینپ مٹاتے ہوئے جواب دیا، بھوئی اومرا رونگ کولا نہیں اے، اوم تو پیدا بھی گورا ہوا تھا۔ یہ تو بوس زندوگی کی کڑواہٹ چہرے پر آگئی، ورنہ ہوم تو اوبھی بھی گورا ہے۔ افغان اس کے لہجے سے سمجھ چکا تھا کہ یہ بیچارہ افغان نہیں ہے سو اس کی تشویش ویسے بھی ختم ہوگئی تھی۔ شاید وہ بھی اوئے سالے کی طرح اس انتظار سے اکتا چکا تھا سو اس نے گفتگو کو جاری رکھنے کیلئے ایک سوال اور داغ دیا۔ خوئے تم افغان تو نئیں ہے، تم کدھر سے آیا ہے؟ بونگلہ دیش سے! اوئے سالے نے جواب دیا۔ افغان نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا، مانڑا تم پاگل ہے؟ کیا مطلب؟ اوئے سالے نے حیران ہوکر افغان سے پوچھا جو اسے دیکھ کر افسوس سے گردن ہلا رہا تھا۔ مانڑا یہاں پاکستانی خوچہ لاکھوں روپے دے کر بنگلہ دیش جارہا ہے اور تم بنگلہ دیش سے اٹھ کر پاکستان آگیا ہے؟ تم پاگل ماگل تو نہیں ہے؟ خدا کا نام لو! یہ لو نسوار لگائو شائد تمارے کو عقل آئے۔ اوئے سالے کو اس کی بات سن کر غصہ آگیا تھا۔ اس نے اپنا منہ موڑ لیا اور قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ اس افغان کو کیا پتہ کے اپنی شناخت نہ ہونے کا کرب کیا ہوتا ہے۔ یہ زندگی میں سب کچھ گنوا بھی دے تو اس کے پاس ایک شناخت ہے، افغان! اور یہ شناخت کوئی مرنے کے بعد بھی اس سے نہیں چھین سکتا۔ اسے یاد آگیا کہ کیمپ میں بابا یونس اکثر ایک بات کہا کرتے تھے۔ کسی دکھ کو سمجھنے کیلئے اس دکھ سے گزرنا بہت ضروری ہے۔ جب تک خود اس تکلیف کا احساس نہ ہو تو آپ صرف تسلی دے سکتے ہیں، مرہم نہیں!
دو گھنٹے مزید انتظار کے بعد بالآخر اس کی باری آ ہی گئی۔ کائونٹر پر پہنچا تو جسم شل ہوچکا تھا مگر خوشی اس بات کی تھی کہ بہرحال اب اسے اس کی شناخت مل جائے گی۔ فیس کے مراحل سے فارغ ہوا تو ڈیٹا انٹری آفیسر نے نام پوچھا۔ اوئے سالے! اس کا یہ جواب سن کر اس لڑکے نے نظر کمپیوٹر پر سے ہٹائی اور ایک غلیظ گالی دے کر اوئے سالے کو اپنی اوقات میں رہنے کو کہا۔ اوئے سالے کو نادرا کا تجربہ یاد تھا سو وہ اس بابو سے ناراضگی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے جلدی سے اسے یقین دلایا کہ خدانخواستہ یہ جملہ اس نے بابو کیلئے نہیں کہا بلکہ اس کا نام ہی اوئے سالے ہے۔ کائونٹر والے لڑکے کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی مگر جب اسے واقعی یقین ہوگیا کہ اس کا نام اوئے سالے ہی ہے تو وہ ہنس ہنس کر اپنی میز پر دوہرا ہوگیا۔ اوئے سالے خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسے بس اپنی شناخت سے مطلب تھا، ایک بار وہ اوئے سالے سے اوئے سالے صاحب ہوجاتا تو اس ڈیٹا انٹری آفیسر جیسے نیچ لوگوں کو منہ بھی نہیں لگاتا۔ ہاں تو اوئے سالے! کہاں سے آئے ہو؟ بابو نے سوال کیا۔ جی ڈھاکہ سے۔ اوئے سالے نے جواب دیا۔ بابو نے کہا پاسپورٹ دو۔ وہ کیا ہوتا ہے صاحب؟ اوئے سالے نے کمال معصومیت سے اس سے الٹا سوال داغ دیا۔ بابو نے اس کی طرف جھکتے ہوئے رازداری سے پوچھا، کشتی سے آئے ہو یا افغانستان سے بارڈر کراس کیا؟ جی میں افغانستان کیوں جانے لگا، جی کشتی سے آیا ہوں۔ اوئے سالے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ بابو نے اس کی طرف مزید جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا، غیرقانونی طور پر پاکستان آنے کی سزا جانتے ہو کیا ہے؟ اگر خیریت چاہتے ہو تو جو کچھ بھی ہے چپ چاپ میرے حوالے کردو اور یہاں سے نکل جائو، ورنہ ابھی باہر کھڑی پولیس کو بلواکر تمہیں ساری زندگی کیلئے اندر کرواتا ہوں۔ اوئے سالے کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اسے پیسے جانے کا غم نہیں تھا، اسے فکر اس بات کی تھی کہ اپنے خوابوں کی سرزمین پر پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنی شناخت سے محروم تھا۔ اس نے خاموشی سے جیب میں موجود پیسے نکالے اور کائونٹر والے بابو کے ہاتھ پر رکھ کر بوجھل قدموں سے باہر آگیا۔



مذہب

وہ بوجھل قدموں سے شہر کی سڑکیں ناپ رہا تھا۔ اس کی حالت اس مریض کی تھی جو نقاہت اور پیاس کی شدت سے مر رہا ہو اور اسے دور ایک پانی کا گلاس نظر آجائے۔ وہ غریب جسم کی تمام طاقت لگاکر اس کے طرف گھسٹنا شروع کرے اور جب ساری عمر کا سفر طے کرکے اس گلاس تک پہینچے تو اسے معلوم ہو کہ گلاس ہمیشہ سے خالی تھا۔ چلتے چلتے اسے احساس ہوا کہ شام اب رات میں تبدیل ہوگئی ہے اور سڑک پر گاڑیوں کی ریل پیل بھی تقریباٗ ماند پڑتی جارہی ہے۔ نہ اسے یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور نہ یہ کہ وہ رات بتانے کہاں جا سکتا ہے۔ کل رات وہ جس عمارت کے چبوترے پر سویا تھا اسے وہ جگہ معقول لگی تھی۔ اس نے اندازے کی بنیاد پر واپس چلنا شروع کردیا۔ اسے عمارت کا نام تو یاد نہیں تھا مگر عمارت کے قریب ہی چائے کے ہوٹل پر ناشتہ کرتے وقت اس نے چندریگر روڈ کا نام دو تین مرتبہ سنا تھا۔ راہگیروں سے چندریگر روڈ کا پتہ پوچھتے ہوئے وہ تقریباّ آدھی رات کو دوبارہ چندریگر روڈ پہنچ چکا تھا۔ روڈ کے شروع میں ہی وہ بلند عمارت اپنے چبوترے کے ساتھ اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اوئے سالے بھی وہاں پہلے سے موجود بہت سے لوگوں کے درمیان جگہ بنا کر لیٹ گیا۔ اس کا دماغ بالکل کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔ شاید وہ کل رات سے اب تک پیش آنے والے مسلسل حوادث کی تاب نہیں لاپایا تھا اور اب تک اس ہی بات کو ہضم کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اتنا کچھ ایک ساتھ اتنا غلط کیسے ہوسکتا ہے؟ شاید حوادث کی فطرت ہی یہی ہے کہ یہ پے در پے آتے ہیں اور ہر نیا حادثہ پچھلے حادثے سے زیادہ اندوہناک ہوتا ہے۔ وہ شاید اس ہی طرح جاگتا رہتا مگر قدرت کو اس پر رحم آگیا۔ ان ہی سوچوں کے درمیان خدا جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
صبح ایک مرتبہ پھر چوکیدار کی لات نے اس کے دن کا آغاز کیا۔ اس نے آنکھیں ملتے ہوئے سامان اٹھایا اور سیدھا اس ہی چائے کے ہوٹل پر جا پہنچا جہاں کل اس نے ناشتہ کیا تھا۔ آج ناشتہ کل کے مقابلے میں زیادہ دیر سے آیا۔ شاید دن زیادہ چڑھ آیا تھا یا آج ویسے ہی گاہکوں کا رش زیادہ تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوا تو پیسے بیرے کو دینے کے بجائے وہ خود کائونٹر پر پہنچ گیا۔ کائونٹر پر موجود پٹھان سیٹھ کا موڈ شدید خراب تھا۔ اوئے سالے نے جب اسے ناشتہ دیر سے پہنچنے کی شکایت کی تو سیٹھ پھٹ پڑا، مانڑا ویٹر لوگ اتنا چھٹی مٹی مارتا اے ام کیسے کام چلائے؟ محنتی اور ایمان دار آدمی کدھر ملتا ہے یہاں؟ اوئے سالے کے دماغ میں فورا" ایک خیال آیا اور اگلے آدھے گھنٹے میں وہ اس پٹھان سیٹھ سے رہائش، کھانے، چار ہزار تنخواہ اور ہفتے میں ایک چھٹی کے اوپر معاملات طے کرکے اس ہوٹل میں ایک بیرے کے طور پر ملازم ہوچکا تھا۔
اس کو ہوٹل میں کام کرتے تقریباٗ دس دن ہوچکے تھے اور اب وہ پٹھان سیٹھ کا پسندیدہ ملازم بنتا جا رہا تھا۔ ہفتے میں ایک چھٹی کہنے کو اس نے منظور تو کروا لی تھی مگر چھٹی کرکے بھی اس نے کہاں جانا تھا؟ سو اس نے چھٹی والے دن بھی کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ باقی بیرے صبح سے شام ہوتے ہی گھڑی دیکھتے تھے جبکہ اوئے سالے کا گھر اب یہی ہوٹل تھا سو اسے گھر جانے کی بھی کوئی فکر نہیں تھی۔ پیسوں کے معاملے میں وہ بچپن سے ایماندار تھا۔ ان تمام خوبیوں کی وجہ سے صرف دس دن کے اندر ہی وہ سیٹھ کا چہیتا بن چکا تھا۔ زندگی آہستگی سے معمول کی طرف لوٹ رہی تھی۔ منزل کے اتنا قریب آ کر بھی شناخت نہ ملنے کی حسرت اکثر دل میں کسک دیتی تھی مگر وہ بہرطور دل کو سمجھانا سیکھ گیا تھا۔
جمعہ کے دن ہوٹل میں نماز کا وقفہ ہوتا تھا۔ اس جمعے کو سیٹھ نے کمال التفات سے اسے اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی جو اس نے بخوشی قبول کرلی۔ سیٹھ نے اپنی موٹرسائکل نکالی اور اسے ساتھ لے کر بڑی مسجد لے گیا۔ وضو کرنے کے بعد وہ اور اوئے سالے دونوں مسجد کے ائیرکنڈیشنڈ ہال میں جاکر بیٹھ گئے۔ آج شاید مولوی صاحب کو بھی پتہ تھا کہ اوئے سالے مسجد میں آیا ہوا ہے۔ انسانی زندگی مٰیں مذہب کے کردار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے، "انسان ازل سے ہی اپنی اصل اور بنیاد کو پانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کبھی وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اپنی شناخت کا ذریعہ بناتا ہے اور کبھی اپنے پسندیدہ کھیل کو، کبھی اپنی اولاد کو تو کبھی اپنے کاروبار کو، کبھی اپنی زبان کو اور کبھی اپنے وطن کو۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے یہ چیز سمجھ لی ہے کہ کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ اپنی شناخت کو کسی بڑی شناخت میں ضم کردو۔ آپ کی پسندیدہ ٹیم کسی کھیل میں جیت جاتی ہے تو ہزاروں میل کے فاصلے پر آپ قلابازیاں کھا رہے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کو اس ٹیم کے مکمل کھلاڑیوں کے نام بھی نہ پتہ ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے آپ نے ان میں سے کسی کو حقیقی زندگی میں کبھی کھیلتے بھی نہ دیکھا ہو۔ مگر ان کی جیت پر آپ ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے آپ خود یا آپ کی اولاد نے یہ کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہم بڑے شہروں میں جہاں ایک سے زائد شناخت کے شہری بستے ہیں وہاں ایک شناخت پر اکٹھے ہونے کیلئے پنجرے نما مکان بناتے ہیں اور سوسائٹیاں قائم کرتے ہیں اور پھر محض اس لیئے وہاں منتقل ہوجاتے ہیں کہ ہمارا شمار اس مخصوص طبقہ میں ہو جو اس سوسائٹی میں بستا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنی شناخت کو کسی طاقتور شناخت سے جوڑ لینا۔ اور یہ عین فطرتِ انسانی ہے۔ اس ہی لیئے ہم میں سے ہر ایک اپنے ملک کے معاملے میں زیادہ جذباتی ہوتا ہے کہ یہ وہ شناخت ہے جو انسان آسانی سے تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس ہی لیئے کمزور ممالک کے شہری اپنی لگی بندھی عزت دار نوکری چھوڑ کر بھی اکثر کمتر نوکری کے عوض کسی طاقتور ملک کی شہریت اختیار کرنے میں بہتری سمجھتے ہیں۔ اے مسلمانوں۔۔۔ زرا سوچو! ان تمام شناخت سے برتر ایک شناخت مذہب کی ہے جو تمہارے مرنے کے بعد بھی کام آئے گی اور جیتے جی دنیا میں بھی۔ تم یہاں سے دبئی جاتے ہو تو نہ تمہاری زبان مشترک اور نہ تمہاری تہذیب، مگر پھر بھی یہ مذہب کی شناخت تم دونوں کو ایک جیسا بنا دیتی ہے۔ اس کی قدر کرو۔"
مولوی صاحب اس کے آگے بھی جانے کیا کیا بولتے رہے مگر اوئے سالے کا دماغ اب صرف ایک بات ہی سوچ رہا تھا۔ کیا ہوا اگر اس سے ملک اور قومیت کی شناخت چھن گئی تھی۔ اس کے پاس اب بھی ایک طاقتور شناخت باقی تھی۔ اس نے غائب دماغ کے ساتھ نماز ادا کی اور سیٹھ کے ساتھ واپس ہوٹل آگیا۔ پورا دن کام کرتے ہوئے بھی یہی چیز اس کے دماغ پر سوار رہی اور رات ہونے تک وہ ایک فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ اگلے دن اس نے سیٹھ سے آدھے دن کی چھٹی لی اور ہوٹل سے پیدل نکل پڑا۔ اس کے نزدیک دنیا میں سب سے زیادہ عزت دار آدمی لالہ رام پرساد تھا اور مذہب کی شناخت مشترک ہونے کے بعد وہ لالہ رام پرساد کے برابر ہو سکتا تھا۔ اس نے دو تین لوگوں سے راستہ پوچھا اور قریب ہی واقع ایک مندر میں جا پہنچا۔ ہفتے کا دن تھا اور مندر تقریبا" خالی پڑا تھا۔ وہ جاکر سیدھا پجاری کے پاس پہنچ گیا جو گزشتہ روز ملنے والی چڑھاوے کی رقم کی گنتی میں مصروف تھا۔ پجاری نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اوئے سالے نے جلدی سے اپنا تعارف کروایا، جی میں ہندو ہوں؟ تو؟ پجاری نے اب کی بار نوٹوں سے نظر اٹھائے بغیر پوچھا۔ جی میں بنگلہ دیش سے آیا ہوں۔ اب کی بار پجاری نے نوٹوں سے نظر اٹھا کر اس کی طرف دلچسپی سے دیکھا۔ اس بیچارے کو شاید یہ لگا کہ باہر سے آنے والا یہ عقیدت مند جاتے ہوئے کوئی بھاری نذرانہ چھوڑ جائے گا۔ اس نے نوٹوں کو وہیں چھوڑا اور کھڑے ہوتے ہوئے بولا، آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ ودیش سے آئیں ہیں۔ آئیں مندر کے ساتھ ہی میری کٹیا ہے جس میں خالص گنگا جل سے بھرا تالاب ہے جس میں میں اشنان کرتا ہوں۔ میرا سوبھاگے ہوگا اگر آپ بھی میرے ساتھ اس میں اشنان کریں تو؟ اوئے سالے کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی مندر کے اندر آیا تھا اور اسے مندر کے طور طریقے بالکل معلوم نہیں تھے۔ اس نے پجاری کی ہدایات پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پجاری اسے ساتھ لیکر مندر سے متصل اپنے گھر لے آیا جہاں ایک چھوٹا سا تالاب نما سوئمنگ پول موجود تھا۔ پجاری نے اسے تالاب کی طرف بھیج دیا اور خود گھر کے اندر چلا گیا۔ اوئے سالے نے کپڑے ایک طرف رکھے اور تالاب میں اتر گیا۔ اسے تالاب میں نہاتے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پجاری بھی وہیں آگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اوئے سالے تالاب کے اندر تھا، اس کے کپڑے تالاب کے باہر تھے، اور اوئے سالے کے سامنے پجاری کھڑا غصے سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اوئے سالے کو ڈھکا کھلا دیکھ لیا تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ اوئے سالے کی مسلمانی ہوچکی ہے۔ وہ ہندو نہیں تھا۔ اور ایک مسلے نے اس کا گنگا جل اشدھ کردیا تھا۔ پجاری غصے سے کانپتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا۔ اوئے سالے نے تالاب سے باہر آکر جلدی سے کپڑے پہنے مگر اتنی دیر میں پجاری اپنے ساتھ تین مشٹنڈوں کو لے آیا تھا۔ ان تینوں نے کچھ کہنے سننے کی مہلت دیئے بغیر ہی اوئے سالے کو مارنا شروع کردیا۔ وہ اس وقت تک اوئے سالے کو مارتے رہے جب تک وہ خود تھک کر بے دم نہیں ہوگئے۔ اوئے سالے اس مارپیٹ کا شروع سے عادی تھا کہ ڈھاکہ کی گلیوں میں سائکل رکشہ کھینچتے ہوئے اکثر مارکٹائی ہو ہی جاتی تھی۔ جب وہ تینوں مشٹندے اچھی طرح اپنی بھڑاس نکال چکے تو پجاری نے ان تینوں کے ہی ہاتھوں اسے اٹھوا کر باہر پھنکوا دیا۔ پھینکنے سے پہلے اسے واضح الفاظ میں بتا دیاگیا تھا کہ اب وہ کسی بھی مندر کے پاس بھی دکھا تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔
کافی دیر تک وہ پڑا ہوا زخم سہلاتا رہا اور حواس بحال کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ تھوڑی جان میں جان آئی تو اس نے سیدھا اس ہی بڑی مسجد کا قصد کیا جہاں کل وہ سیٹھ کے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا تھا۔ مسجد میں پہنچا تو مسجد تقریباُ خالی ہی پڑی تھی۔ ظہر کی نماز میں ابھی دیر تھی سو نمازیوں نے ابھی مسجد کا رخ نہیں کیا تھا۔ وہ وہیں مسجد میں بیٹھ کر سستانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہی مولوی صاحب دکھائی دیئے جو کل جمعے کے خطبے میں مذہب کی اہمیت پر درس دے رہے تھے۔ اوئے سالے تیزی سے ان کے پاس پہنچا اور سلام کیا۔ مولوی صاحب نے سلام کا جواب دے دیا۔ اوئے سالے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اپنا تعارف کس طرح کروائے، کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا، جی میں مسلمان ہوں! مولوی صاحب نے اسے اوپر سے نیچے تک گھورا اور بیزاری سے بولے، تو؟ یہاں الحمدللہ سب مسلمان ہیں! اس میں کیا بڑی بات ہے؟؟ اوئے سالے حیرت سے ان کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ پھر اسے یاد آیا کہ مندر کا پجاری بھی اس ہی بےرخی سے ملا تھا مگر بنگلہ دیش کا نام سن کر موم ہوگیا تھا۔ ویسے بھی مسعود بھائی کہتے تھے کہ مولوی کسی بھی مذہب کا ہو ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس نے دوبارہ وہی تیر چلانے کا فیصلہ کرلیا۔ جی میں بنگلہ دیش سے آیا ہوں! بنگلہ دیش کا نام سن کر مولوی صاحب واقعی نرم پڑ گئے تھے۔ انہوں نے بڑی شفقت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے تو یوں کہیئے نہ کہ ہمارے مہمان ہیں۔ آئیے تشریف لائیے۔ مولوی صاحب اسے لیکر مسجد سے ملحقہ اپنے دفتر میں لےگئے۔ تو آپ بنگلہ دیش میں کہاں رہتے تھے؟ مولوی صاحب نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا۔ جی ڈھاکہ میں، اوئے سالے نے سعادتمندی سے جواب دیا۔ بہت خوب، مولوی صاحب نے خوش ہو کر کہا۔ پھر وہ اسے اپنے ڈھاکہ کے سفر کی روداد اور پڑوسی ملک کی سازشوں اور ان کے نتیجے میں بٹوارے کی داستان سنانے لگے۔ جب کافی دیر تک مولوی صاحب بول چکے تو دم لینے کیلئے رکے اور پانی کا گلاس اٹھا کر اس سے پوچھ بیٹھے کہ وہ ڈھاکہ میں کہاں رہتا ہے اور اس وقت مسجد میں کس لیئے آیا ہے۔ اوئے سالے نے ایک لحظہ کیلئے سوچا کہ یہی موقع ہے مولوی صاحب کو متاثر کرنے کا اور اس کے ننھے منصوبہ ساز دماغ نے ایک معصوم سا جھوٹ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے مولوی صاحب کو بتایا کہ وہ ڈھاکہ میں لالہ رام پرساد کے محل میں رہتا ہے اور ان ہی کا بیٹا ہے۔ اس کے یہ الفاظ مولوی صاحب پر گویا بم بن کر گرے۔ پانی کا گلاس ایک طرف پھینک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور چنگھاڑتے ہوئے بولے، ابے ولدالحرام!!! ہندو کے بچے!!! مسجد ناپاک کردی ساری ناہجار!!! اوئے سالے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مولوی صاحب بجائے متاثر ہونے کے الٹا برس کیوں رہے ہیں مگر وہ مندر کی طرح یہاں بھی پٹنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جلدی سے مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، مولبی سوب، میں نے کول اوپ کا جومے کا خطبہ سنا اور میں تو ادھور مذہب کا شنوخت لینے کیلیئے آیا ہوں۔ مولوی صاحب کی سانسیں اور چہرے کی رونق دونوں یہ سنتے ہی بحال ہوگئیں۔ انہوں نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے گرمجوشی سے کہا، ماشاءاللہ، خدا آپ کو استقامت دے!! آپ نے بہترین فیصلہ کیا ہے۔ آج ظہر کی نماز میں تمام عمائدینِ علاقہ کو میں مدعو کروں گا اور انشاءاللہ تب ہی آپ کلمہ پڑھ کر میرے ہاتھ پر اسلام لے آئیے گا، مگر اس سے پہلے آپ جائیں اور اچھی طرح غسل کرکے پاک ہوکر آجائیں۔ مگر میں تو ابھی ابھی نہا کر آرہا ہوں، وہ بھی گنگا جل سے! اوئے سالے نے انہیں بتانے کی کوشش کی جس پر مولوی صاحب کے نورانی چہرے پر ایک مرتبہ پھر کراہیت آگئی۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔ جو ہوگیا سو ہوگیا، اب اسے بھول جائیں۔ اللہ بہت معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ آپ جائیں اور اسلامی طریقے سے غسل کرکے آئیں۔ مولوی صاحب نے یہ کہہ کر ایک لڑکے کو آواز دی اور اسے سمجھا کر اوئے سالے کے ساتھ کردیا۔ نہا دھو کر جب اوئے سالے باہر نکلا تو ظہر کی اذان ہو چکی تھی اور مسجد میں نمازیوں کا رش بڑھ رہا تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ بھی نماز میں شامل ہوجائے مگر مولوی صاحب نے کہا اب تک چونکہ مسجد کمیٹی کے کچھ خاص ممبران نہیں تشریف لائے اس لیئے وہ ابھی اسے کلمہ نہیں پڑھا سکتے لہٰذا اسے چاہیئے کہ وہ خاموشی سے دفتر میں بیٹھ کر نماز ختم ہونے کا انتظار کرے۔ اوئے سالے بیچارہ مولوی صاحب کے دفتر میں بیٹھ گیا اور نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
نماز ختم ہوئی تو اس نے سنا مولوی صاحب لوگوں کو بتا رہے تھے کہ کس طرح ان کی دو سال کی مسلسل اور انتھک محنت کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ایک ہندو نے آج الحمدللہ مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب آپ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی تشریف رکھیں اور ایک غیر مسلم کے قبولِ ایمان کی اس ایمان افروز تقریب میں شامل ہوکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔ اوئے سالے نے حیرت سے اِدھر ادھر دیکھا اور کسی اور کو نہ پاتے ہوئے سمجھ لیا کہ یہ اعلان اس ہی کے بارے میں تھا۔ اوئے سالے کو مگر اس اعلان سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مسلمان تو شاید وہ پہلے بھی تھا مگر اس کے پاس اس چیز کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اسے ہر مرتبہ لوگوں کو خود بتانا پڑتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ آج کے بعد اس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ یہ مسلمان ہے اور اسے خود اپنا تعارف نہیں کروانا پڑے گا۔ وہ صرف یہ جانتا تھا کہ آج کے بعد اس کی شناخت انسانوں کے اس گروہ سے جڑ جائے گی جس میں کڑوروں اربوں لوگ شامل تھے، اور یہ بات اس کے دل کی تسلی کیلئے کافی تھی۔
انتظار کی گھڑیاں اس مرتبہ اتنی طویل نہیں تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک لڑکا آکر اسے اپنے ساتھ مسجد کے ہال میں لے گیا جہاں کوئی سو یا سوا سو افراد کا مجمع اس کا منتظر تھا۔ لڑکے نے اسے لے جاکر مولوی صاحب کے برابر میں بٹھا دیا جہاں مولوی صاحب نے اسے اپنے ساتھ ساتھ کلمہ دہرانے کو کہا۔ اوئے سالے نے مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ کلمہ دہرادیا۔ کلمہ مکمل ہوتے ہی مبارک سلامت اور تکبیر کے نعروں کا ایک شور مچ گیا۔ چند ہی لمحوں میں اوئے سالے پھولوں کے ہار سے لدا ہوا تھا۔ لوگ ایک ایک کرکے اسے مبارک باد دے رہے تھے اور حسبِ توفیق مولوی صاحب کے ہاتھ پر نذرانے کی رقم بھی رکھتے جارہے تھے۔ مولوی صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی جبکہ اوئے سالے اپنی اس نئی شناخت کے نشے میں مسکرا رہا تھا، جسے لوگ ایمان لانے کی خوشی سے تعبیر کر رہے تھے۔ مبارک باد کا سلسلہ تھما تو مولوی صاحب کو خیال آیا کہ انہوں نے اس ہندو کا نام تو معلوم ہی نہیں کیا۔ جب پوچھنے پر انہیں اوئے سالے کا پتہ چلا تو انہوں نے ناگوار سا منہ بنایا اور بولے، گو کہ اس میں مشرکانہ پہلو نہیں ہے مگر پھر بھی یہ ایک بدتہذیب نام ہے۔ دیکھو میاں اسلام میں نام کی بڑی اہمیت ہے اور تمہارا بھی ایک اچھا سا اسلامی نام ہونا چاہیئے۔ اب اگر تمہارے اپنے ذہن میں کوئی نام ہے تو وہی بتادو ورنہ پھر ہم تمہیں کوئی مناسب نام تجویز دیں گے۔ اوئے سالے نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا، آپ میرا نام سید اوئے سالے رکھ دیں۔ محفل میں کچھ دیر کیلئے سناٹا چھا گیا۔ مولوی صاحب نے آہستہ سے اوئے سالے کا ہاتھ دبایا اور بولے سید نبی ذادے ہوتے ہیں، لڑکے! ہر کوئی اپنے نام کے ساتھ اٹھ کر سید نہیں لگا سکتا۔ سید صاحب جو اتفاق سے مسجد کے جنرل سیکرٹری اور اس وقت شدید غصے میں تھے، مولوی صاحب کا جواب سن کر کچھ سکون کی حالت میں آگئے۔ اوئے سالے پھر کچھ سوچ کر بولا، ہمارے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی بہت عزت ہے، آپ میرا نام شیخ اوئے سالے رکھ دیں۔ لاحول ولا قوۃ، مولوی صاحب جو خود ذات کے شیخ تھے اس کی یہ واہیات خواہش سن کر سیخ پا ہوگئے۔ سید اور شیخ کے بعد یہ سلسلہ صدیقی اور فاروقی اور خان وغیرہ تک بھی پہنچا مگر ہر بار کسی نہ کسی نے کھڑے ہوکر یاد دلا دیا کہ یہ ہندو کا بچہ کیوں اس نام کا اہل نہیں ہے۔ مسجد کے اندر اب ایک عجیب ہڑبونگ مچ گئی تھی ہر کوئی اب مولوی صاحب پر لعن طعن کر رہا تھا جنہوں نے انہیں اس عجیب مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ ادھر مولوی صاحب کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ نام والا قضیہ چھیڑ کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔ جب حالات مزید سنگین ہوئے اور اس ہندو کے بچے کے پیچھے مسلمان باہم دست و گریباں ہونے لگے تو مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر اوئے سالے کے گلے سے ہار نوچ ڈالے اور ایک زوردار طمانچہ اس کے گال پر رسید کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ وہ بنگالی نہیں بلکہ کلکتے سے آیا ہوا ہندوستانی ایجنٹ ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے کی مہم پر آیا ہوا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجمع کی غیرت ایمانی اور جذبہ حب الوطنی جاگ اٹھا اور ایک گھنٹے بعد اوئے سالے زخم سہلاتے ہوئے اپنی باقی کی تمام جمع پونجی پولیس والے کے ہاتھ پر رکھ کر تھانے سے باہر آرہا تھا۔












معاشرہ
آنے والے دنوں میں جسم کے زخم تو بھر گئے مگر روح کے گھائو دن بدن گہرے تر ہوتے جارہے تھے۔ جس شناخت کے پیچھے اوئے سالے سب کچھ لٹا کر یہاں پہنچا تھا وہ شناخت اب بھی اس کی پہنچ سے بہت دور تھی۔ اس دن کے بعد سے اس نے ہوٹل سے باہر نکلنا بھی بند کردیا تھا۔ اسے پاکستان آئے ہوئے دو ماہ گزر چکے تھے۔ وہ اب دوبارہ پیسے جمع کرکے واپس بنگلہ دیش جانا چاہتا تھا مگر پاکستان سے بنگلہ دیش جانا ستر ہزار ٹکہ سے کہیں زیادہ مہنگا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اگلے تین چار سال سے پہلے یہاں سے نہیں نکل پائے گا، اور یہ تین چار سال گزارنے کیلئے اس نے کام میں ہی دل لگانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ بہت سے مستقل گاہک اس کے دوست بن چکے تھے۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ چائے دیتے وقت وہ پڑھے لکھے گاہکوں کے قریب زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکے۔ اسے معلوم تھا کہ ان لوگوں کی باتوں سے ہر بار کچھ نہ کچھ سیکھنے یا جاننے کو مل جاتا ہے۔
ایک چیز جو وہ اکثر گاہکوں سے سنتا تھا وہ "ڈیفنس والا ہے بھائی، کر سکتا ہے" تھی۔ کافی دن تک وہ اس بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اور بالآخر ایک دن اس نے اپنے ایک مستقل گاہک وقاص بھائی کو پکڑ لیا اور پوچھ ہی بیٹھا کہ یہ ڈیفنس والا ہوتا کیا ہے؟ وقاص بھائی کا تعلق معاشرے کے اس محروم طبقے سے تھا جو اپنی تمام تر محرومیوں کی وجہ طبقہء اشرافیہ کو سمجھتے ہیں۔ وقاص بھائی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولے، ڈیفنس والے وہ ہوتے ہیں جو کراچی کے ایک چھوٹے سے حصے ڈیفنس میں رہتے ہیں اور کراچی کے باقی بڑے حصے پر راج کرتے ہیں۔ تو ڈیفینس والوں کی تو بہت عزت ہوتی ہوگی؟ اوئے سالے نے کھوئی ہوئی آواز میں سوال کیا۔ وقاص بھائی اس تبدیلی کو محسوس کیئے بغیر بولے، عزت ہو یا نہ ہو، ڈیفینس والے کی عزت کرنی پڑ ہی جاتی ہے۔ اوئے سالے کو تلاش کے صحرا میں ایک نخلستان نظر آگیا تھا۔ اس نے وقاص بھائی سے ڈیفینس کا پتہ پوچھا اور شام کو ہی پٹھان سیٹھ کو بتا دیا کہ اس نے رہائش کا کہیں باہر انتظام کرلیا ہے اور اب اسے ہوٹل میں رکنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سیٹھ پہلے تو تھوڑا جزبز ہوا مگر پھر اس نے اوئے سالے کی خوشی کیلئے یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ نئی جگہ پر اگر کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ ہو تو وہ جب دل کرے واپس ہوٹل میں آکر رہ سکتا ہے۔
وقاص بھائی کے بتائے ہوئے راستوں سے ہوتا ہوا وہ شام ڈھلے ڈیفینس کے علاقے میں پہنچ گیا۔ شاندار بنگلے اور چمچماتی گاڑیاں دیکھ کر اسے پتہ چل گیا تھا کہ ڈیفینس والے کی اتنی عزت کیوں ہوتی ہے۔ وہ یونہی ڈیفینس کی سڑکوں پر گھومتا رہا اور ماحول اور چیزوں کا جائزہ لیتا رہا۔ اس بات کا اسے بخوبی اندازہ تھا کہ وہ اپنی سال بھر کی تنخواہ سے بھی اس علاقے میں ایک ماہ کیلئے بھی گھر نہیں لے سکتا تھا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ رئوسا کی ہر بستی کے پہلو میں ایک کچی بستی ضرور بسائی جاتی ہے۔ بیچارہ غریب یہ سمجھتا ہے کہ امراء اسے اپنے پہلو میں جگہ دے رہے ہیں مگر دراصل وہ بستی ان سارے غلام ابنِ غلامان کیلئے ہوتی ہے جنہوں نے پورا دن ان امراء کی چاکری کرنی ہوتی ہے۔ قرب میں جگہ اس لیئے دی جاتی ہے کہ جب کبھی ضرورت پڑے انہیں گدی سے پکڑ کر حاضر کیا جاسکے۔ اس وقت اوئے سالے ایسی ہی کسی کچی بستی کی تلاش میں تھا جو اس ڈیفینس سے متصل ہو۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اوئے سالے کو وہ بستی مل ہی گئی۔ یہاں جاکر جب لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہاں وہ ایک کمرے کا مکان لیکر منتقل ہوسکتا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربوں سے اوئے سالے نے سیکھ لیا تھا کہ خوشی یا غم کے نتیجے پر پہنچنے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیئے۔ بسا اوقات بظاہر خوش کن دکھنے والی چیز آخر میں ایک بڑا غم دےجاتی ہے اور اس ہی طرح ابتداء میں ابتلاء نظر آنے والی چیز آخر میں زندگی کی کوئی بڑی خوشی ثابت ہوتی ہے۔ اوئے سالے خوش ہونے سے پہلے اپنی مکمل تسلی کرلینا چاہتا تھا۔ اس نے ایک تھڑے پر بیٹھے ایک بزرگ سے پوچھا کہ آیا یہاں رہنے والا بھی ڈیفینس والا ہی کہلاتا ہے؟ اور آیا وہ واقعی ڈیفینس والے کی طرح ہی عزت دار ہوتا ہے؟ بزرگ نے ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا، اگر میں ڈیفینس والا کہلا بھی جائوں تو اس سے میری عزت پر کیا فرق پڑ جائے گا؟ میاں! کراچی میں ڈیفینس والا صرف وہ نہیں جو ڈیفینس نامی علاقے میں رہتا ہو۔ یہ تو اب ایک استعارہ ہے جو ہر پیسے والے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ کسی کچی بستی میں رہنے والے رئیس کی عزت ڈیفینس میں بسنے والے غریب سے زیادہ ہے۔ تو چاچا یہ ڈیفینس والے یا پیسے والے کو سب اتنی عزت کیوں دیتے ہیں؟ اوئے سالے نے معصومیت سے سوال کیا۔ بزرگ نے جواب دیا، بیٹا وہ جو محاورہ ہے نا کہ "یہ تو نہیں بول رہا، دیوار بول رہی ہے" بس سمجھ لو کہ یہاں پر بھی یہی معاملہ ہے۔ اوئے سالے کی کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ بزرگ کس محاورے اور کس دیوار کی بات کر رہے ہیں۔ بزرگ نے گویا اس کی پریشانی بھانپ لی اور بولے کہ ایک دفعہ ایک مرغ ایک دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ نیچے سے ایک کتے کا گزر ہوا تو مرغ کو شرارت سوجھی۔ اس نے اوپر سے ہی آواز لگائی، کیوں بھائی صاحب، آج بھونکیئے گا نہیں؟ کتے نے مرغ کو دیکھا، پھر دیوار کو دیکھا اور پھر آگے چل پڑا۔ مرغ نے اس سے شہہ پائی اور دوبارہ آواز کسی، کیوں حضرت، لگتا ہے آج پیٹ بھرا ہوا ہے؟ کتے نے پھر رک کر مرغ پر نظر ڈالی اور ایک مرتبہ پھر سر جھٹک کر آگے روانہ ہوگیا۔ اس مرتبہ تو مرغ نے حد ہی کردی، ایک بار پھر آواز لگا کر بولا، جائیے حضرت، شکار آپ جیسے زنخوں کا کام نہیں۔ آپ کو تو بس بیٹھ کر دم ہلانے اور مفت کی ہڈیاں چبانے کی لت لگ گئی ہے۔ کتا اس مرتبہ رکا اورمرغ کو دیکھ کر پہلی بار گویا ہوا، میاں مرغے، یہ تم نہیں بول رہے، یہ دیوار بول رہی ہے۔ اگر تو یہ دیوار نہ ہوتی تو دیکھتا کے یہ توتے کی طرح چلنے والی زبان کتنا ساتھ دیتی۔ تو ڈیفینس کے یہ تمام مرغے بھی پیسے کی دیوار پر چڑھ کر چلاتے ہیں اور ہر آنے والے پر آوازیں کستے ہیں۔ اگر تمہارے پاس بھی پیسے کی دیوار ہے تو چڑھ جائو اور ہر قریب سے گزرنے والے کو کاٹو، پھر تم شہر کے کسی بھی کونے میں رہو، غریب کی زبان میں کہلائو گے ڈیفینس والے ہی۔
اوئے سالے نے طے کرلیا تھا کہ اسے یہ ڈیفینس والی شناخت نہیں چاہیئے تھی۔ وہ جلد از جلد اس بستی سے نکل جانا چاہتا تھا۔ تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ واپس ہوٹل پہنچ گیا جہاں سیٹھ ہوٹل بند کروانے کی تیاری میں مصروف تھا۔ اوئے سالے کو دیکھ کر پہلے تو وہ چونکا مگر پھر معاملہ سمجھ کر خود ہی مسکرا اٹھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اوئے سالے کو گلے لگایا اور اسے توجیہ پیش کرنے کی خفت سے بچاتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ اوئے سالے نے دل میں خدا کا لاکھ شکر ادا کیا اور کمرے میں جاکر سوگیا۔







شناخت

اگلے دن جب وہ سو کر اٹھا تو وہ اپنے آپ سے عہد کرچکا تھا کہ اب وہ اس شناخت کے سراب کے پیچھے مزید نہیں بھاگے گا۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ اگر انسان سراب کے پیچھے نہ بھی بھاگے تو بھی سراب انسان کے آگے آگے بھاگتا رہتا ہے۔ گھات لگاتا ہے، تاک میں رہتا ہے، کسی کمزور لمحے کی کہ جب انسان کی برداشت جواب دے چکی ہوتی ہے اور نارسائی کے تھکن ہوس میں تبدیل ہوکر سر پر چڑھ کر ناچ رہی ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی کمزور لمحات میں یہ سراب انسان کے آگے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آتا ہے، اسے ریجھاتا ہے، لبھاتا ہے، پاس بلاتا ہے اور سراب کی فطرت کے مطابق پھر ہاتھ نہیں آتا۔ انسان بھی ازل سے ہی سراب کی ان ہی ادائوں کو دیکھتا، پھر ان ہی ادائوں پر ریجھتا، پھر ان ہی ادائوں کو کوستا اور پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ ان ہی ادائوں کو دیکھتا آیا ہے۔ ایک مسلسل دائرہ وار سفر ہے جس کے یہ دونوں مسافر ایک دوسرے سے بے انتہا مخلص ہیں۔ دونوں ہی اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔ نہ وہ دھوکہ دینے سے اور نہ یہ دھوکہ کھانے سے۔
دن ہفتوں اور مہینوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ زندگی بھی آہستہ آہستہ اس پر مہربان ہوتی جارہی تھی۔ اس کی لگن اور محنت سے متاثر ہوکر سیٹھ نے اس کی تنخواہ بھی بڑھا دی تھی۔ گاہک بھی اب اس کو پہچاننے لگے تھے اور بخشش کی مد میں بھی وہ اچھے خاصے پیسے جمع کرنے لگا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ شاید اسے صبر آگیا ہے اور اب وہ بغیر کسی شناخت کے بھی خوش ہے، مگر ایسا صرف اسے لگتا تھا۔ خواہشات کی زمین پر وقت کی ریت وقتی طور پر تو حاوی ہوسکتی ہے مگر بارش کا ایک چھینٹا یا جذبات کی ایک ہلکی سی آندھی بھی اس ریت کو اٹھا پھینکنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔
وہ ہوٹل کا کچھ سامان لینے کیلئے باہر نکلا ہوا تھا کہ اس کی نظر حیدر بھائی پر پڑی جنکی موٹر سائکل کو ایک پولیس والا اشارہ کرکے روک رہا تھا۔ حیدر بھائی کا دفتر اس کے ہوٹل کے بالکل ساتھ ہی تھا۔ وہ ایک مشہور ٹیلیویژن چینل کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے اور اوئے سالے کے مستقل گاہک تھے۔ اوئے سالے لپک کر حیدر بھائی کے پاس پہنچ گیا۔ اوئے سالے اس پولیس والے کو بھی بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ ایک کمینہ صفت انسان تھا۔ دن میں تین تین مرتبہ ہوٹل پر آکر مفت کی چائے پیتا تھا اور جاتے وقت اکثر و بیشتر ہوٹل کے گلے میں سے سو پچاس روپے ساتھ لےجاتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ رشوت کے معاملے میں دوستی یاری اور مروت دکھانا حرام ہے۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ اوئے سالے کو لگتا تھا کہ اس پولیس والے کے معاملے میں محاورہ گھوڑے کے بجائے کم سے کم سانڈ یا زیادہ سے زیادہ سور کا ہونا چاہیئے تھا۔ جتنی دیر میں وہ حیدر بھائی تک پہنچتا، حیدر بھائی اپنی جیب سے دفتر کا کارڈ نکال کر اس پولیس والے کو دکھا چکے تھے۔ جب وہ وہاں پہنچا تو پولیس والا کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے صفائیاں پیش کررہا تھا کہ صاحب پہلے بتانا تھا نا کہ آپ میڈیا والے ہو! آپ تو ہمارے مائی باپ ہو۔ جائو جائو آپ جائو۔ اور ہاں، دیکھیئے براہِ مہربانی اس بات کا ذکر کسی سے کیجیئے گا نہیں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اوئے سالے کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ اس پولیسیئے کو کسی کے آگے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ حیدر بھائی اتنی دیر میں اپنی موٹر سائکل دوبارہ سٹارٹ کرچکے تھے مگر اوئے سالے کو دیکھ کر رک گئے اور بولے، ارے لڑکے! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کہو تو تمہیں ہوٹل چھوڑ دوں؟ نہیں میں تو ہوٹل کا کچھ سامان لینے نکلا تھا، بس آپ کو دیکھ کر رک گیا۔ آپ جائیں، میں واپس آکر آپکے لیئے چائے لیکر آتا ہوں۔ مجھے آپ سے ایک کام بھی ہے۔ اوئے سالے نے حیدر کو جواب دیا۔ چلو بس پھر میرے دفتر آجائو چائے لیکر، بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ حیدر نے یہ کہتے ہوئے موٹرسائکل میں گیئر ڈالا اور آگے نکل گیا جبکے اوئے سالے بھی پلٹ کر بازار کی سمت چل دیا۔ جلدی جلدی خریداری سے فارغ ہوکر اوئے سالے نے استاد سے کہہ کر سپیشل دودھ پتی بنوائی اور حیدر بھائی کے آفس پہنچ گیا۔
حیدر بھائی کے دفتر میں بیٹھ کر وہ خاموشی سے ان کے چائے ختم کرنے کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ چائے سے فارغ ہوئے تو اس نے اپنا سوال حیدر بھائی کے سامنے رکھ دیا۔ میڈیا والے کی اتنی عزت دیکھ کر اس کے دل میں بھی میڈیا والا بننے کی خواہش جاگ اٹھی تھی۔ یہ خواہش دراصل میڈیا والا بننے کی بھی نہیں تھی بلکہ اس ہی شناخت کی خواہش کا ایک شاخسانہ تھا جو اسے ڈھاکہ سے اٹھا کر کراچی تک کھینچ لائی تھی۔ حیدر بھائی نےجب اس سے اس کی تفصیلات معلوم کیں تو انہوں نے اس ہی وقت اوئے سالے کو بتا دیا کہ بغیر شناختی کارڈ کے ان کے یا کسی بھی اور میڈیا کے ادارے میں نوکری ملنا ناممکن ہے۔ اوئے سالے کی تمام امیدیں ایک مرتبہ پھر خاک میں مل گئیں تھیں۔ شدید مایوسی کے عالم میں وہ برتن سمیٹ کر جانے لگا تو حیدر بھائی نے اسے روک لیا۔ انہوں نے اس کے سامنے ایک پیشکش رکھی کہ اگر وہ وعدہ کرے کہ وہ نہ تو اس بات کا کسی سے ذکر کرے گا اور نہ کبھی اس میڈیا کی شناخت کا ناجائز استعمال کرے گا، تو وہ اس کی کچھ مدد کرسکتے ہیں۔ اوئے سالے نے فوراٗ سے دونوں باتوں کی ہامی بھر لی۔ حیدر بھائی نے اسے دو تصویریں لانے کا کہا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کا کام کردیں گے۔ اوئے سالے خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہوا واپس ہوٹل پہنچا اور برتن کائونٹر پر پھینک کر جلدی سے اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس نے اپنا سب سے بہترین جوڑا نکالا، خوب رگڑ رگڑ کر منہ دھویا اور سیٹھ کو تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر سیدھا فوٹوگرافر کی دکان پر جا پہنچا۔ تصویر ہاتھ کے ہاتھ مل گئی تھی سو وہ سیدھا حیدر بھائی کے پاس جا پہنچا۔ حیدر بھائی اسے اتنی جلدی واپس آتا دیکھ کر چونکے ضرور مگر وہ اس کی کھلی ہوئی بانچھوں اور چمکتی ہوئی آنکھوں سے اس کی واضح خوشی اور ہیجان کو محسوس کرسکتے تھے۔ انہوں نے اوئے سالے کو بیٹھنے کو کہا اور پندرہ منٹ بعد اوئے سالے کے ہاتھ میں ادارے کا کارڈ بمع مہر موجود تھا جس کی رو سے مسٹر اوئے سالے اس ادارے کے باضابطہ ملازم تھے۔ اوئے سالے کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے کارڈ جیب میں رکھا اور حیدر بھائی کا شکریہ ادا کرتے کرتے تقریباٗ رو پڑا۔ حیدر بھائی کو باقاعددہ وضاحت کرنی پڑی کے اس کارڈ کا مطلب یہ نہیں کہ اب ادارہ اسے تنخواہ دینے کا پابند ہے مگر ان کو پتہ نہیں تھا کہ اگر اس کارڈ کیلئے اوئے سالے کو ماہانہ بنیاد پر ادارے کو کچھ پیسے جیب سے بھی دینے پڑ جاتے تو یہ سودا بھی اسے بخوشی منظور تھا۔ واپس ہوٹل آکر اس نے سیٹھ کو بتا دیا کہ ایک مرتبہ پھر وہ یہ کمرہ خالی کر رہا ہے اوراب کہیں اور جاکر رہے گا۔ نوکری البتہ وہ اس ہی طرح جاری رکھے گا جیسے وہ پہلے کرتا آیا تھا۔ سیٹھ اب تک اوئے سالے کو کافی حد تک سمجھ چکا تھا سو اس نے اصرار نہیں کیا۔ اگلے دو دن میں اوئے سالے نے ایک چھوٹا سا دڑبہ نما مکان ڈھونڈ لیا تھا اور اس میں منتقل ہوگیا۔




انجام

نئے مکان اور اس نئی شناخت نے اوئے سالے کی زندگی یکسر تبدیل کردی تھی۔ وہ ایک غریبوں کی بستی میں رہ رہا تھا جہاں ہر طاقتور آدمی ایک زمینی خدا ہوتا ہے۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کی بستی کے تمام زمینی خدا، حقیقی خدا سے بھی زیادہ اس میڈیا نامی بلا سے ڈرتے تھے۔ اوئے سالے نے اپنے مکان کے باہر ایک نام کی تختی لگوالی تھی جس پر وہ بصد شوق، "اوئے سالے میڈیا والے" لکھوا لایا تھا۔ جب وہ تختی بنوانے پہنچا تھا تو رنگ ساز نے یہ نام لکھنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ بیچارہ خود ایک غریب آدمی تھا اور کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اوئے سالے کو یقین دلانے کیلیئے اپنا میڈیا کا کارڈ دکھانا پڑا کہ یہ واقعی اس کا نام ہے۔ بہرحال، جب سے مکان پر یہ تختی لگی تھی اور محلے والوں کو پتہ چلا تھا کہ اوئے سالے ایک ٹی وی چینل پر کام کرتا ہے تو وہی لوگ جو پہلے دن سے اس کے نام کا مذاق اڑتاے تھے، انہی سب لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ دوستانہ بلکہ خوشامدانہ ہوگیا تھا۔ اوئے سالے اس صورتحال سے بےحد خوش تھا۔ محلے میں اسے منتقل ہوئے قریباٗ ایک ماہ ہو چکا تھا۔ اوئے سالے سوچ رہا تھا کہ اب مکان کے باہر لگی اوئے سالے میڈیا والے کی تختی کو تبدیل کرکے "اوئے سالے میڈیا والے، صاحب" کروالے، مگر تقدیر کو اس مرتبہ بھی کچھ اور ہی منظور تھا۔
آج ہوٹل کی چھٹی کا دن تھا اور اوئے سالے گھر پر ہی تھا جب محلے میں شور اٹھا کہ مشہور ٹیلیویژن شو کے میزبان اپنی ٹیم کے ساتھ پروگرام کرنے اس بستی میں آئے ہوئے ہیں۔ بستی کے تمام لوگوں نے اس میزبان اور اس کی ٹیم کو گھیرا ہوا تھا کہ پروگرام ان کے محلے میں ہو تاکہ وہ لوگ بھی موٹر سائکل یا موبائل فون وغیرہ کچھ جیت سکیں۔ ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا اور دھکم پیل اور گالم گلوچ شروع ہوگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ بستی کا پروگرام نہیں بلکہ کسی ٹی وی چینل کی رمضان ٹرانسمیشن چل رہی ہوں۔
اوئے سالے کے محلے دار بھی چاہتے تھے کہ پروگرام ان کے محلے میں ہو۔ انہوں نے اوئے سالے کو ساتھ لیا اور بھیڑ میں جگہ بناتے ہوئے سیدھے اس میزبان تک پہنچ گئے۔ وہ بیچارہ میزبان بھی اب تھوڑا گھبرا گیا تھا۔ یہ نہیں کہ اس کو اس سب ہجوم کی عادت نہیں تھی، مگر وہ ڈر رہا تھا کہ اس دھکم پیل میں خود اس کی گت نہ بن جائے۔ باقی رہی عوام، تو عوام کے بارے میں اس کی رائے یہ تھی کہ یہ کیڑے مکوڑے پیدا ہی ذلیل ہونے اور ایک دوسرے پر ہنسنے کیلئے تھے۔ یہ وہ قوم تھی جو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسنے کے بجائے ایک دوسرے پر ہنسنے کو زیادہ تفریح کن سمجھتی تھی۔ اس ہی چیز کو سمجھتے ہوئے اس نے اپنا ٹیلیویژن پروگرام ترتیب دیا تھا اور اس کے پروگرام کی وجہ شہرت یہی ذلت تھی جو وہ آنے والے لوگوں میں تقسیم کرتا تھا جبکہ باقی سارا ملک اس ذلت کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ اس کی ان ہی حرکات کی بنیاد پر پچھلے پانچ سال سے وہ ریٹنگ کی دنیا کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ کئی بار اس کی ناشائستہ ویڈیوز اور کلپ انٹرنیٹ پر بھی آئے مگر یہ سب چیزیں الٹا اس کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنی تھیں۔ س سال پہلی مرتبہ اس کی ریٹنگ میں کچھ کمی آئی تھی اور وہ سنجیدگی سے ایک بار پھر مغلضات سے بھرپور کوئی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مگر فی الوقت اس کیلئے ریٹنگ یا پروگرام مسئلہ نہیں تھا، مسئلہ یہ احمق اور غلیظ عوام تھے۔ اسے یاد تھا کہ ایک بار وہ اس ہی طرح چند مدرسے کے بچوں میں گھر گیا تھا اور وہاں جان بچانا عذاب ہوگیا تھا۔ اس دن سے اس کے دل میں عوامی مقامات پر عام عوام کے رش سے ڈر بیٹھ گیا تھا۔ آج بھی اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح ان کیڑے مکوڑوں سے جان چھڑائے کہ ایک صاحب نے اس سے کہا، سر! آپ کو پروگرام ہمارے محلے میں کرنا چاہیے کیونکہ میں نے صرف آپ کی وجہ سے آپ کے چینل پر کام کرنے والے صاحب کو اپنا مکان کرائے پر دیا ہوا ہے۔ اس امید پر کہ ایک دن وہ مجھے آپکے پروگرام کا پاس لا کر دے گا۔ میزبان نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ وہ کن صاحب کی بات کر رہا ہے؟ اوئے سالے کے مالک مکان نے اوئے سالے کو بازو سے پکڑ کر آگے کردیا۔ اوئے سالے کو محلے والوں نے جب گھر سے بلایا تو وہ سمجھا کہ کوئی ضروری کام ہوگا جس کیلئے اسے بلایا جا رہا ہے۔ جب وہ اس ہجوم کے پاس پہنچا تو اسے لگا کہ کوئی گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے جہاں اسے صلح صفائی کیلئے لے جایا جارہا ہے۔ اور جب اسے کھینچ کر اس میزبان کے سامنے کیا گیا تو اس نے دیکھا کہ یہ وہی میزبان ہے جسے کبھی بھی اس کے ہوٹل کی چائے پسند نہیں آتی تھی۔ اس نے گھبرا کر مڑنا چاہا مگر ایک زوردار قہقہے نے اس کے پائوں جکڑ لیئے۔ میزبان ہنستے ہوئے اس کے مالک مکان کو بتا رہا تھا کہ یہ صاحب نہیں اوئے سالے چائے والا ہے اور یہ ہمارے کیا کسی بھی میڈیا چینل کیلئے کام نہیں کرتا۔ اوئے سالے کا دل کیا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ عزت جانے کا دکھ عزت نہ ہونے کی تکلیف سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ اتنے دیر میں پروڈیوسر نے آکر میزبان کے کان میں بتایا کہ شرقی محلے والوں سے پانچ لاکھ میں بات ہوگئی ہے۔ میزبان نے اعلان کردیا کہ پروگرام اب شرقی محلے میں ہوگا آپ تمام حضرات وہیں پہنچ جائیں۔ لوگوں نے جلدی جلدی شرقی محلے کی طرف بھاگنا شروع کردیا تاکہ کوئی اگلی جگہ مل سکے اور وہ بھی ٹیلیویژن پر آسکیں۔ اور اگر قسمت نے مزید یاوری کی تو ایک آدھ انعام بھی جیت سکیں۔ اوئے سالے اب تک نظریں جھکائے اپنے قدموں کی طرف ہی دیکھ رہا تھا گویا وپاں اس کے پیروں کی جگہ کوئی نئی چیز اگ آئی ہو اور وہ پہلی بار اس چیز کو دیکھ رہا ہو۔ مالک مکان نے اوئے سالے کو دھکا دےکر ایک طرف کیا، اس کی طرف دیکھا اور حقارت سے تھوک کر مجمع کے ساتھ تیزی سے شرقی محلے کی طرف بھاگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اوئے سالے اس جگہ پر اکیلا کھڑا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ واپس اپنے گھر گیا، سامان سمیٹا، اگلے ماہ کا پیشگی کرایہ ایک لفافے میں کرکے دروازے کے ساتھ رکھا اور باہر لگی اپنے نام کی تختی اتار کر وہاں سے نکل آیا۔
اس مرتبہ اس کے پاس جانے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ مکان وہ خالی کر آیا تھا۔ ہوٹل پر کل نہیں تو پرسوں تک یہ قصہ پہنچ ہی جانا تھا کہ اوئے سالے ایک جعلی شناخت رکھ کر لوگوں کو الو بنا رہا تھا۔ اور وہ فی الحال اس ذلت و شرمندگی کیلئے تیار نہیں تھا۔ جب کچھ اور سمجھ نہیں آیا تو وہ بس میں بیٹھ کر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر آگیا۔ کافی دیر مزار پر بے مقصد بیٹھا رہا۔مگر باہر جا کر بھی کیا کرتا؟ صبح سے دوپہر ہوگئی اور مزار کا لنگر کھل گیا مگر اس کی بھوک بالکل مرچکی تھی۔ وہ لنگر پر بھی نہیں گیا۔ دوپہر سے شام ہوئی اور جب سورج ڈھلنے لگا تو وہ گھبرا کر مزار سے باہر آگیا۔ مزار سے اس نے دیکھا کہ دور سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس نے سمندر کی سمت چلنا شروع کردیا۔ ساحل پر عوام کا بےتحاشہ رش تھا۔ اس نے ساحل پر اترنے کے بجائے فٹ پاتھ پر ہی رکنے کا فیصلہ کرلیا۔ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر وہ لہریں گن رہا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ اس نے صبح سے کچھ نہیں پیا ہے اور پیاس سے حلق خشک ہورہا ہے۔ قریب ہی واقع کینٹین سے اس نے پانی کی بوتل اور ایک چائے لی اور ایک قریبی میز پر بیٹھ گیا جہاں پہلے سے دو آدمی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ان دونوں نے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور دوبارہ اپنی گفتگو میں میں مصروف ہوگئے۔ پانی حلق سے اترا تو کچھ حواس بحال ہوئے اور صبح کی ذلت ایک مرتبہ پھر اس کے دماغ میں گھومنے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں آدمی محسوس کرتے، اس نے جلدی سے اپنی آنکھوں کے بھیگتے ہوئے کنارے پونچھ ڈالے۔ اس نے اپنا دماغ بٹانے کیلئے ان دونوں حضرات کی گفتگو سننا شروع کردی۔ وہ دونوں ملک کی موجودہ معاشی و سیاسی و سماجی صورتحال پر گفتگو کر رہے تھے۔ ہر ایک بات کی تان اس ہی بات پر ٹوٹ رہی تھی کہ اب اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، اس سے بہتر ہے کہ انسان بنگلہ دیش چلا جائے۔ شدید کرب کی حالت میں بھی اوئے سالے کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسے ہوٹل پر آنے والے عاطف بھائی یاد آگئے جو اکثر کسی انگریز شاعر جون کا یہ شعر سناتے تھے ۔۔
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے، وہ خوبصورت ہے
آج اسے اس شعر کا اصل مطلب سمجھ آگیا تھا۔ کرسی کی پشت پر نیم دراز ہوکر اس نے کاہلی سے چائے کی چسکیاں لینا شروع کردیں۔ وہ دونوں افراد اب معاشرے میں پھیلی ہوئی اس بےوجہ اداسی کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے قومی مورال شدید نیچے آرہا تھا اور مقابلے کا جذبہ بالکل ناپید ہوتا جارہا تھا۔ ایک صاحب دوسرے کو بتا رہے تھے کہ کل پھر ایک لاوارث آدمی کی لاش ملی ہے جس نے خودکشی کرلی تھی۔ دوسرے صاحب نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ابھی تین دن پہلے تو ایک لاوارث کی لاش ملی تھی، پھر سے؟؟ اوئے سالے اب سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، وہ ان کی گفتگو میں مخل تو نہیں ہونا چاہتا تھا مگر پھر بھی پوچھ ہی بیٹھا کہ بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟ یہ ایک ہی آدمی دو دفعہ کیسے مرسکتا ہے؟ وہ دونوں آدمی اس کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ان میں سے ایک بولا کہ ایک آدمی دو دفعہ کیسے مرسکتا ہے بھائی؟ ہم دو الگ لوگوں کی بات کررہے ہیں!!! اوئے سالے کو لگا کہ وہ اپنا سوال ٹھیک سے بیان نہیں کرپایا ہے۔ اس نے تشریح کرتے ہوئے کہا، مگر ابھی تو آپ نے کہا کہ لاوارث کل مرا ہے اور ان بھائی صاحب نے کہا اس لاوارث کی لاش تین دن پہلے ملی تھی؟ تو یہ لاوارث آدمی دو دفعہ کیسے مر سکتا ہے؟ ان دونوں آدمیوں نے بیک وقت ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ ان میں سے جو زیادہ ہوشیار دکھتا تھا اس نے کہا، مرے بھولے! لاوارث سے مراد وہ انسان ہے جس کا کوئی والی وارث ہو نہ شناخت! وہ تمام لوگ جو مرنے کے بعد قابلِ شناخت نہیں ہوتے ان کی یہی شناخت ہوتی ہے، لاوارث۔ اور مرنے کے کتنے عرصے بعد تک ان کی یہ شناخت رہتی ہے؟ اوئے سالے نے دلچسپی سے پوچھا۔ اس آدمی نے کہا، جب تک اس کی کوئی اور شناخت نہ مل جائے، یہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔ اوئے سالے نے اب کھوئی ہوئی آواز میں اس سے پوچھا کہ آیا اس شناخت کیلئے تعلیم، قومیت، زبان، مذہب وغیرہ کی کوئی قید ہوتی ہے؟ اور آیا کوئی پولیس وااخ یا ٹی وی کا میزبان یہ شناخت چھین سکتا ہے؟ وہ دونوں آدمی اس گفتگو سے بیزار ہوچکے تھے۔ ان میں سے ایک جان چھڑانے کے سے انداز میں بولا کہ نہیں اس میں کسی چیز کی کوئی قید نہیں اور نہ ہی اس شناخت کو کوئی چھین سکتا ہے۔ مگر کون پاگل ہوگا جو اپنی شناخت لاوارث رکھنا چاہے گا؟ اوئے سالے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بابا یونس کہتا تھا کہ ہو سکتا ہے آپ کی دی ہوئی بھیک کسی کیلئے قارون کے خزانے کے برابر ہو۔ آپ کا شکریہ۔ اوئے سالے ان دونوں آدمیوں سے ہاتھ ملا کر اٹھ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک مکمل اور کبھی نہ چھننے والی شناخت پانے کیلئے اسے کیا کرنا تھا۔
دو دن بعد شام کے اخبار میں ایک دو کالمی خبر چھپی تھی کہ پرسوں سمندر میں ڈوبنے والے لاوارث آدمی کی لاش آج صبح سمندر نے اگل دی تھی۔

ختم شد

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت